Close

حماقت کا دائرہ کار (حصہ اول)۔

ایک محترم دوست نے جسٹس (ر)مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریر "عقل کا دائرہ کار” بذریعہ ای میل ارسال کی۔ مفتی صاحب پاکستان کی ایک مشہور و معروف شخصیت اور کئی اسلامی کتب کے مصنف ہیں چنانچہ انکی تحریر کو دلجمعی سے پڑھا ۔ مطالعے کے دوران کچھ عجیب ہی کیفیت طاری رہی، یقین نہیں آرہا تھا کہ امتِ مسلمہ کی معروف اور کلیدی عہدوں پہ تعینات شخصیات ایسی سطحی اور غیر منطقی اپروچ رکھتی ہیں۔ ۔ ۔ خواص کا یہ حال ہے تو عوام بیچاری کیا بیچتی ہوگی؟

"عقل کےدائرہ کار” کا سرسری احاطہ بھی کم از کم تین قسطوں کا متقاضی ہے۔ پیشِ خدمت ہے پہلی قسط۔

حصہ اول

تمہید میں ہی جسٹس (ر) صاحب ایک بات واضح کر دیتے ہیں کہ بنیاد پرستی کوئی گالی نہیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ قانون، معیشت، سیاست اور زندگی کے ہر شعبے کو اسلامائز کر دینا اور اسکو ایک ہزار چار سو سال پرانے اصولوں کے تحت چلانا اور ریاست کے نظام کا دینِ اسلام کے تابع ہونا۔ اکثر روشن خیال قسم کے سکالر یا تو کھل کر یہ بات نہیں کہتے ، یا پھر اسلام کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔اب یہ ایک الگ گفتگو ہے کہ اسلام نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔اسلئے ہم یہاں صرف مفتی تقی عثمانی صاحب ہی کی بات پہ توجہ مرکوز کئے رکھیں گے۔ انکا یہ کھل کر ببانگِ دہل کہنا کہ” ریاست، قانون، سیاست، معیشت اور ہر شعبہِ زندگی کو چودہ صدی پرانے اصولوں کے تحت چلانا ہی دراصل اسلامی نظام کا قیام ہے” لائق تحسین ہےکہ کم از کم انہوں نےکوئی لگی لپٹی تو نہیں رکھی۔ وسیع تر مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے اور سچائی کو شوگر کوٹ کرنے سے اجتناب کر کے ایک تو انہوں نے ہمیں خواہ مخواہ کی کوفت سے بچایا اور پھر اپنی سیدھی ، کھری اور بے لاگ شخصیت کا بھی اظہار کیا۔

طالبان کیا کر رہے تھے؟ وہ یہی تو کر رہے تھےجو جسٹس(ر) تقی عثمانی صاحب نے ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی اسلام کا نفاذ بعینہ اسی شکل میں جس شکل میں یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے نافذ ہوا تھا۔ عورت کو مرد کے دستِ نگر کرنا، انسان کے بنیادی حقوق سلب کرنا، عدم برداشت ، تشدد اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق ہی وہ ڈیڑھ ہزار سال پرانا اسلامی نظام ہے جسکا عملی مظاہرہ طالبان نے کر کے دکھایا اورجسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے افراد جس نظام کے نفاذ کے لئے جانے یا انجانے میں کوشاں ہیں۔

اسلامائیزیشن کیوں؟ اس عنوان کے تحت وہ اس بات کا جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم ملکی قوانین کو چودہ سو بلکہ بعض کیسز میں ہزارہا سال پرانی مذہبی تعلیمات کے سانچے میں کیوں ڈھالنا چاہتے ؟ سیکولر یا لادین ریاست کے پاس نظامِ حکومت کا کوئی اصول موجود نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عقل، مشاہدہ اور تجربہ موجود ہے جسکی بنیاد پہ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے دور کی ضروریات، تقاضے اور مصلحتیں کیا ہیں، چنانچہ ہم انکے مطابق اپنے قوانین ڈھال سکتے ہیں اور بدلتے حالات میں ہم اسکے اندر تبدیلی لا سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں، لیکن کیا عقل آخری معیار ہے؟ اللہ کے عطا کئے گئے دیگر حواس کی طرح عقل بھی آخری معیار نہیں ہے، جسطرح دیگر حواس کی ایک حد ہے کہ جس سے آگے وہ کام نہیں کر پاتے اسی طرح عقل کی بھی حد ہے کہ جس سے آگے اسکا استعمال ناممکن ہو جاتا ہے اور یہی وہ حد ہے جہاں سے ہماری راہنمائی کی خاطر "وحی الٰہی” یعنی علومِ الٰہیہ کا دائرہ کار شروع ہوتا ہے۔

یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب ایک بہت ہی بنیادی سوال کا جواب دئیے بغیر ایک غیر ثابت شدہ مفروضے پر اپنے مقدمہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔یعنی یہ فرض کرتے ہوئے کہ ایک قادرِ مطلق ہستی (اللہ / گاڈ) موجود ہے جو انسان کو بذریعہ "وحی” ایسے علوم سے آگاہ کرتا ہے جہاں عقلِ انسانی پہنچنے سے قاصر ہے۔ ایک آسمانی ہستی کو علم کا ماخذ و منبع تصور کرنے سے قبل کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا وجود ثابت کیا جائے؟ آپ عوام الناس پر ایک ایسا نظام ِ حکومت اور ضابطہء حیات لانا چاہ رہے ہیں کہ جو وحی کے تابع ہے اور جسکا عقلی و منطقی تجزیہ ناممکن ہے لیکن آپ اس وحی کے منبع اور ماخذ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کس قادرِ مطلق ہستی کی بات ہو رہی ہے یہاں؟ گاڈ، بھگوان، خدا، اللہ۔ ۔ ۔ بیشمار مذاہب اور مکاتبِ فکر بکھرے ہوئے ہیں، کس کے خدا کی بات ہو رہی ہے؟ کونسا مذہب حق ہے اور کونسا باطل؟ ایک مذہب کی تعلیمات آپ پوری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں تو آپکا یہ فرض بنتا ہے کہ پہلے اپنے مذہب کی حقانیت اچھی طرح واضح کر دیں اور اسکے سورس (منبع) کی ثبوت کے ساتھ وضاحت کریں۔ جب پوری دنیا پر ایک نظامِ حکومت مسلط کرنے کی بات ہو رہی ہے تو خالی کہہ دینا کافی نہیں ہوگا۔

بہرحال چلیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے وقتی طور پر یہ تسلیم بھی کر لیتے ہیں کہ اللہ یا گاڈ کا وجود ہے، اس نے انسان بھی بنائے ، جنات بھی فرشتے بھی شیطان بھی ۔ اب ہم مولانا صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ اس قادرِ مطلق ہستی کی "وحی” کی تصدیق کس طرح ہوگی؟ اگر شیطان کسی فرشتے کے بھیس میں آکر یہ دعویٰ کر دے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے اور انسانیت کی راہنمائی کے لئے ایک نسخہء ہدایت لے کر آیا ہے یا ڈائریکٹ غیبی آواز کے واسطے سے ہمکلام ہو کر یہ چال چلے تو ہم کس طرح اسکے جال سے نکلیں گے؟ ہمیں اسکے لئے عقل کا سہارا لینا ہوگا یا نہیں؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ وحی کا ماخذ رحمانی ہی ہے نا کہ شیطانی۔

چنانچہ انکے یہاں تک کے بیان میں دوبنیادی ایرر ہیں

نمبر ایک : خدا کا ثبوت پیش کئے بغیر اسکی وحی کو علمِ کامل کا ماخذ قرار دینا۔

نمبر دو: وحیِ رحمان اور وحیِ شیطان میں امتیاز بغیر عقل کے کس طرح ہوگا۔ چونکہ وحی احاطہ ہی ان مسائل کا کرتی ہے کہ جنکا ادراک بقول مفتی صاحب ،عقلِ انسانی کے بس سے باہر ہے۔

آگے "عقل دھوکہ دینے والی ہے” کے عنوان کے تحت مولانا صاحب نے فرمایا کہ آجکل عقل پرستی کا بڑا زور ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو عقل کے میزان میں رکھ کر اور تول کر اختیار کریں گے لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا ضابطہ اور اصول نہیں ہے جو عالمی حقیقت رکھتا ہو اور جسکو ساری دنیا کے انسان تسلیم کر کے اچھائی برائی کا معیار تجویز کر سکیں۔

ایک عالمگیر یا آفاقی (یونیورسل) قائدہ اور اصول ہے جسے سنہری اصول کہا جاتا ہے۔ اگر مولانا صاحب مذہبی تعلیمات کے عین مطابق، عقل کو اکثر معاملات میں ایک طرف رکھ دینے کی عادت کی وجہ سے اس آفاقی اصول سے لاعلم ہیں تو اسمیں کسی دوسرے کی خطا ہر گز نہیں۔سنہری اصول اچھائی اور برائی ناپنے کا ایک انتہائی مؤثر پیمانہ ہے ، جسکے مطابق”کسی دوسرے کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے ساتھ کیا جائے۔ اور آپ جس طرح کے سلوک کا مستحق خود کو سمجھتے ہیں، دوسروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھیں”۔ اس اصول کو پیمانہ بنائیے اور آپ اچھائی اور برائی میں باآسانی تمیزکر پائیں گے۔

انکا یہ اعتراض کہ "عقل کوئی ایسا عالمگیر اور متفقہ اصول پیش کرنے سے قاصر ہے جس سے اچھائی اور برائی میں تمیز کی جاسکے"، یہاں ختم ہو جاتا ہے اور تکنیکی اعتبار سے انکا پورا مقدمہ ہمارے اوپر پوچھے گئے دو سوالوں اور یہاں عقل کے حق میں دی گئی مسلمہ دلیل پیش کرنے کے ساتھ ہی ڈھیر ہو جاتا ہے ۔ بہرحال آگے دیکھتے ہیں کہ مولانا صاحب مزید کیا ارشادفرماتے ہیں۔

فرماتے ہیں آپ تاریخ اٹھا کے دیکھتے جائیے اسمیں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھوکے دئیے ہیں جسکا کوئی شمار اور حدو حساب ممکن نہیں، اسکے لئے میں تاریخ سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

ان بےشمار اور بےحدو حساب مثالوں میں سے چند مثالیں پیش کرنے کا وعدہ کر کے وہ بمشکل ایک ہی مثال پیش کر پائے ہیں۔ یقینا” مزید بھی ہوں گی اور ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ایسی انفرادی غلطیاں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ عقل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ وسعت پذیر ہے، یہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے، اپنے اور دوسروں کے تجربوں سے سبق حاصل کرتی ہے اور بطورِ مجموعی ، بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہتی ہے۔انفرادی عقل اور اجتماعی معاشرے کی عقل میں امتیاز ضروری ہے۔ عقل اور سنہری اصول کی بنیاد پر جو قوانین مرتب کئے جاتے ہیں وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی عقل ہوتی ہے اور اسکے پیچھے ہزاروں سال کا تجربہ اور سبق پہناں ہوتا ہے۔ مذہبی تعلیمات اسکے برعکس جامد ہیں، انسان چونکہ یہ فرض کر لیتا ہے کہ یہ الہامی تعلیمات ہیں اسلئے انکا بدلنا ناممکن ہے، خواہ وہ تعلیمات سرے سے الہامی ہوں ہی نا بلکہ کسی مالیخولیا کے مریض کی غیر منطقی خرافات ہوں یا پھر نوسرباز بہروپیے کی ذاتی فائدے کے حصول کے لئے گھڑی گئی من چاہی خواہشات جن کو وحی کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہو۔

جاری ہے

 

حصہ دوم

 

6 Comments

  1. یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آپ کی عقل سے کی گئی باتیں۔ کسی دوسرے کی عقل کے مطابق بھی کیسے درست ہونگی۔ خدا کے وجود پر دنیا کی تاریخ کے اکثر اور غالبا چند فیصد کے علاوہ سب عقلوں کا اتقاق ہے۔ اب ان اربوںٗ کھربوں عقلوں کا فیصلہ سنہری اصول بن پائے گا یا نہیں؟

    کچھ فرمائیں

    1. پہلی بات تو یہ ہے کہ خُدا کے وجود پر کسی "عقل” کا اتفاق نہیں ہے۔ خدا کے وجود کا معاملہ ایمانیات سے ہے نہ کہ عقلیات سے۔ تو آپکا جملہ درست صورت میں یوں لکھا جانا چاہئے تھا کہ "خدا کے وجود پر دنیا کی تاریخ کے اکثر اور غالبا” چند فیصد کے علاوہ سب ہی کا ایمان ہے۔ اب ان اربوں کھربوں ایمانداروں کا فیصلہ سنہری اصول بن پائے گا یا نہیں”۔

      رہا سوال اربوں کھربوں ایمانداروں کے "ایمان” کا سنہری اصول بن جانے کا، تو میرا خیال ہے آپ نے سنہری اصول والے لنک کا مطالعہ کرنے کا کشٹ ہی نہیں کیا ورنہ شاید یہ سوال نہ کرتے۔ یہ احقر آپکو http://en.wikipedia.org/wiki/Golden_Rule کے مطالعے کا مشورہ ہی دے سکتا ہے۔
      اسکے علاوہ، دنیا کی مجموعی آبادی 6.8 بلین ہے کہ جسمیں 2.3 بلین عیسائی، 1.6 بلین مسلمان، 1.1 بلین لادین، 1.08 بلین ہندو اور 0.7 بلین بدھ مت کے پیروکار ہیں۔
      عیسائیت، اسلام، اور ہندو ازم کی خدا کی تشریح ہی مختلف ہے۔ جو ایک کے "ایمان” کے نزدیک عین حق ہے وہی دوسروں کے نزدیک جہالت و گمراہی و شرک ہے۔ بدھ مت تو ویسے بھی روایتی مذہب کے دائرے میں نہیں آتا اورمیری معلومات کے مطابق انکے ہاں خدا کا تصور ہے ہی نہیں۔ دنیا کی مجموعی آبادی میں تیسرا سب سے بڑا گروہ لادین افراد کا ہے جو کہ علم و آگہی کے اس دور میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ آپکا یہ دعویٰ کہ "چند فیصد ہی خدا کے وجود کے انکاری ہیں” کچھ ایسا درست نہیں۔

      1. I want to be fucked up — or — I want to fuck you .. thats what I desire, thats what I think is my right. Now you please provide the proof that the human desire is enough to decide what is right and what is wrong. The human beings have individual differences, there are criminal and filthy minded people exist too, and there are pious too, same like, there are likes and dislikes too, something can be liked by someone while the same thing the others can hate, So, it is impossible to decide between evils and good just by human wisdom because there are some limitations with it. A man can think only what he can think. He can not think the things beyond his thoughts, as the thoughts always end somewhere. And the place where the thoughts end-up is the place where a man first time recognise some other power, and he accept the God’s existence.
        That’s reply of your "Sonehri Usool”

        1. I want to be fucked up
          آپکو حق حاصل ہے۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میں نہیں چاہوں گا کہ میری جنسی خواہشات پر کوئی اپنی مرضی مسلط کرے۔اگر منرجہ بالا جملے سے آپکی مراد یہ ہے کہ آپ خود کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو ذاتی طور پر مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

          I want to fuck you
          ہو سکتا ہے یہ آپکی خواہش ہو، آپ ہزار مرتبہ چاہیں میں آپکو اس سے منع نہیں کروں گا کہ آپ یہ خیال اپنے ذہن سے نکالیں۔ لیکن اس خیال یا خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپکو میرا تعاون درکار ہوگا جو کہ نہیں ملنے والا کیونکہ مجھے آپکے ساتھ اس فعل میں ملوث ہونے کی کوئی خواہش نہیں۔ اور اسکی وجہ بتانے کا میں آپکو پابند بھی نہیں ہوں۔

          thats what I think is my right
          سوچنے کی حد تک آپکو ضرور حق حاصل ہے، عملی طور پر نہیں کیونکہ عمل کے لئے میرا متفق ہونا بھی ضروری ہے۔

          Now you please provide the proof that the human desire is enough to decide what is right and what is wrong.
          انسانی خواہش (شاید یہاں آپکی مراد نفسانی خواہش ہے) کو صحیح اور غلط کا میعار کب اور کہاں قرار دیا گیا ہے؟

          The human beings have individual differences, there are criminal and filthy minded people exist too, and there are pious too, same like, there are likes and dislikes too, something can be liked by someone while the same thing the others can hate…
          آپ ایک ہزار رینڈم افراد سے انٹرویو لیں اور پوچھیں کہ بلاوجہ قتل کرنا، کسی کو نقصان پہنچانا وغیرہ اچھی بات ہے یا بری بات ہے۔ آپکو اندازا ہو جائے گا کہ جرائم اور غلیظ افعال کے بارے میں مجموعی رائے کیا ہے۔ اب آپ محض ایک لادین کو لاجواب کرنے کی خاطر معاشرتی قوانین مرتب کرتے وقت اخلاقی اور سماجی جرائم اور بیمار ذہنیت وغیرہ کو بھی مساوات میں شامل کر کے اسکا حصہ مختص کرنا چاہیں تو بندہ کو لاجواب ہی سمجھیں۔ورنہ یہ بات سمجھنے کے لئے جینئیس ہونے کی ضرورت نہیں کہ بیمار ذہنیت اور کرپٹ اخلاقیات بلاشبہ ہر دور میں موجود رہی ہیں لیکن انتہائی کم تعداد میں اور انکو اخلاقیات کا پیمانہ بھی نہیں بنایا جاتا۔
          جہاں تک پسند اور ناپسند کا سوال ہے تو سنہری اصول میں اسکی گنجائش بالکل موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میری خواہشات کا احترام کیا جائے اسلئے مجھے دوسروں کی خواہشات کا بھی احترام کرنا چاہئے۔ جسطرح مجھے کھانے میں سنگترہ پسند ہے اسی طرح کسی کو ناریل بھی پسند ہو سکتا ہے اور مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں اسکی پسند پر اپنی پسند مسلط کر دوں۔ آئی بات سمجھ شریف میں؟

          So, it is impossible to decide between evils and good just by human wisdom because there are some limitations with it
          اس بات کی وضاحت نہ تو تقی عثمانی صاحب نے کی نہ ہی آپ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ احقر نے مضمون میں اس کا مقدور بھر احاطہ کیا ہے۔

          And the place where the thoughts end-up is the place where a man first time recognise some other power, and he accept the God’s existence.
          تو براہِ کرم بتلائیے کہ خیالات کہاں ختم ہو جاتے ہیں؟ تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ جب خیالات کی حد ختم ہوجاتی ہے تو بندہ خودبخود خدا نامی ہستی کا ادراک یا اقرار کر لیتا ہے یا یہ بھی محض مذہب کے دعوے ہی ہیں۔

          That’s reply of your “Sonehri Usool
          زبردست، سنہری اصول کی ایسی تیسی کرنے کی کوشش کرتے وقت آپ بھول گئے کہ کئی مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اس کی خوشہ چینی کر رکھی ہے۔

          1. That’s mean you believe that majority should rule the minority, & people having good IQ Level must dominate those who are less comparatively? You mean the people less in number if they are against massacre, they are against all the bad things must have to suffer those who are ruling them on the basis of their union on “something” which is not yet proved right or wrong. What rubbish!! Is this what your common sense told you? Your so-called common sense, the only thing you believe in, the only thing which is God to you.
            You are yourself agreeing that most of the people have no capability to decide between right and wrong. Do you know why? Because human beings are created with limited energy, limited thoughts, limited circle. He cannot run much, because he gets tired at a time when his capacity and stamina ends. He is created with some limitations, he cannot fly on his own. He doesn’t see through the wall to know what is happening behind.
            I know that the man has been succeeded in a lot of things nowadays. And he will be more successful Insha Allah in the future. But all he would get would not the “completion” he would get, as there are most of the things still unknown to him. There are billionsssssssssss of things he has to discover yet. If he discovers something 100% there are always unlimited zeroz next to the one when we talk about the undiscovered things. The universe is too vast and wide, and beyond our thoughts, there are many things still hidden and would be hidden until the day of resurrection.
            And by the way how to prove if something is right or wrong without any “PROOF”. I mean killing some innocent people is wrong but it could have been a good deed too… If it would be the God’s will, the man would kill the man to feed himself. You don’t see the big fish eat small fish? Who created fish? Of course the God. … The God created her with the “Proof” that eating the same creature is not like “killing” someone innocent. It concludes that if it would be the God’s will the man could also kill the “man” for the sake of their food or something else. So the point is that, what the man is thinking that it is wrong, it is because the God has instilled the knowledge of good and bad in his mind while creating him. And this is called the “Sha-oor” which is God-gifted. Now you people are thinking that the “Shaoor” must rule the world. O you stupid fellow, the Shaoor is also a creation of God!!
            We can see some similarities between Quran and human’s thoughts while talking about good and bad things. This is because the man has been given the Shaoor of good and bad.
            And you know I feel pity on you.. You are all alone, you have no one to pray from. When you will be in some hard situation, when your thoughts would end at some stage, when you will have nobody to help you. You will then think to pray from God to save you, and it would be too late then.

          2. اکثریت کا اقلیت پر راج آپکا طرہ امتیاز ہے اور اسکا عملی مظاہرہ "اسلامی” جمہوریہ پاکستان میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، لہٰذا اس گندی سوچ کا دفاع کرنا آپکا کام ہے ہمارا نہیں۔ ذہین یا جینئیس افراد کا کم فہم عوام پر "راج” نہیں بلکہ انکی ذہانت سے عوام کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ آپکے ہاں اگر ایسا معکوس صورت میں رائج ہے (ملا کا پروفیسر پر راج) تو اسکے ثمرات بھی سب کے سامنے ہیں۔
            باقی جو آپ بلاوجہ کی "بُل شِٹ” پھینک رہے ہیں، یہ بے فائدہ ہے۔ اس تحریر میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ زیادہ تعداد میں برے لوگوں کا اچھے لوگوں کی اقلیت پر حکمرانی ہونا چاہئے۔

            انسان کے اجتماعی شعور سے مرتب ہونے والی اخلاقیات بہتر سے بہتر تر ہوتی چلی جارہی ہیں جبکہ آپ حضرات آج بھی ایک ان دیکھی ہستی کو خوش کرنے کی خاطر لاکھوں جانوروں کا خون بہانے کو ایک اچھا عمل سمجھتے ہیں۔ جبکہ اس بہیمانہ عمل کا مقصد تو حصولِ خوراک بھی نہیں۔ لیکن آپ اس پر تنقیدی نظر سے سوچنے کے بھی روادار نہیں کہ یہ آپکے "خدا” کا بتایا ہوا اچھا عمل ہے، اب اس پر عقل لڑانے کی کیا ضرورت۔

            آپکی یہ جذباتی تحریر منطقی مغالطوں سے پُر ہے۔ دیکھئے نا، اگر انسان صلاحیتوں میں دیگر جانداروں سے مختلف ہے، چیتے کی طرح نہیں دوڑ سکتا یا آپکے براق نامی خچر کی طرح آسمانوں پہ حتیٰ کہ خلا میں بھی پروں کے ساتھ پرواز نہیں کر سکتا، یا بلی کی طرح اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا تو اسمیں آپکا کیا آرگیومنٹ ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ انسان پرفیکٹ نہیں ہے اسلئے اسے خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہے؟ اگر ایسا "پرفیکٹ” خدا ہو اور وہ راہنمائی کرے تو اس سے اچھی بات اور ہو ہی نہیں سکتی، لیکن مسئلہ یہی ہے نا۔ ہم ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو خدا کا دلال تو ماننے سے رہے۔ کہ ایک صاحب آئے اور بولے کہ مجھے خدا نے تم پر پیغمبر بنا کر بھیج دیا۔ اجی کیا خدا کا ہم سے کوئی پردہ ہے؟ ایک بندہ آپکے پاس آئے اور کہے کہ "آپکے ابو نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ایک لاکھ روپے آپ مجھے عنایت کر دیں”۔ تو آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ ابو نے مجھے فون کیا نہیں کیا؟ یا کوئی خط وغیرہ کیوں نہیں دیا۔ میں کیسے اس بندے کی زبان پر اعتبار کر لوں۔
            اسلئے اپنا یہ آرگیومنٹ جمعہ کے خطبہ کے لئے سنبھال کر رکھئے، یہاں نہیں چلنے والا۔

            اور آپکا یہ کہنا کہ ارب ہا چیزیں ابھی دریافت ہونے والی ہیں اور ایسی بھی کہ روزِ قیامت ہی دریافت ہوں گی محض ایک دعویٰ اور دیوانے کی بڑ ہے۔ آپکا عقیدہ میرے لئے نہ یہ قارئین کے لئے کوئی دلیل ہے۔

            آپ نے سوال کیا کہ کسی بے گناہ کو خوراک کے قتل کرنا کیسا ہے۔ مقصد چونکہ حصولِ خوراک ہے اسلئے اسکو کیسے برا کہہ سکتے ہیں۔
            عرض ہے، کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو اگر کوئی اپنی پیٹ پوجا کے لئے ذبح کر دے اور اسمیں کوئی مضائقہ نہیں تو آپ کو ماہرِ نفسیات کے پاس باقائدہ سیشن کی اپائنٹمنٹ کر لینی چاہئے۔ عمومی رائے بہرحال اس حق میں نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک فرد نہیں چاہے گا کہ اسے کوئی ذبح کر کے کھا لے تو اسے بھی دوسروں کو ذبح کر کے کھانے سے اجتناب برتنا چاہئے۔
            ہاں، مذہب البتہ ذہن کو اسقدر پراگندہ ضرور کر دیتا ہے کہ اگر ایک فرد کسی غیبی آواز کے کہنے پر اپنے بیٹے کو لٹا کر چھری سے ذبح کر ڈالنے کا مصمم ارادہ کر لے تو اس مذہب کے پیروکار اجتماعات میں جھوم جھوم کر اس فعلِ قبیح پر دادوتحسین کے ڈونگرے برساتے نظر آتے ہیں۔ کچھ حیرت کی بات نہیں کہ "سنہری اصول” آپ حضرات کی سمجھ سے بالاتر شے ہے۔

            بالکل ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا پر شعور کی حکمرانی ہونا چاہئے اور جی نہیں ہم بالکل ایسا نہیں سمجھتے کہ یہ شعور خدا کی کوئی تخلیق ہے۔ پر بدویانہ تہذہب کے علمبردار کیا سمجھیں جو تیر و تلوار کے عوض معصوم بچوں کو بیچ دیا کرتے تھے اور بس چلے تو آج بھی ایسا کر گزریں۔

            آپ میری فکر نہ کریں، میں بالکل بھی تنہا نہیں ہوں، میرے ساتھ میرا پورا ہسنتا بستا خاندان اور ہم خیال دوست احباب بھی ہیں۔ مجھے کسی سے دعا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ دعا دل کے بہلانے کے علاوہ کچھ نہیں۔
            آپکے آخری جملے پر سوائے مسکرانے کے اور کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ ٹپیکل جملہ ہے اور منطقی مغالطہ بھی۔

جواب دیں

6 Comments
scroll to top