Close

خرافانیاں

 

آج ہی ڈی ایچ ایل سے ایک کارٹن موصول ہوا جس میں سے صرف ایک ورق برآمد ہوا جس پر صرف ایک اعتراض کا ذکر تھا.

یہ اعتراض کسی دوسری چیز پر نہیں بلکہ اس ذات کے کلام پر ہوا تھا جو ذات کُل کائنات کے خالق ہونے کا دعوی کرتی ہے مگر یہ دعوی کرنے کے لیے وہ خود کبھی سامنے نہیں آتی بلکہ زمین پر ٹکے ٹکے کے لوگ اس کا چمچا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اس کی طرف سے یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے چاہے وہ مخلوق اس کی اطاعت کرتا ہے یا اس کی نافرمانی کیونکہ وہ کسی اپاہج کی طرح بے بس ولاچار ہے اور کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہے اس لیے لوگوں کی موج ہوئی پڑی ہے جس کا دل چاہتا ہے اس کی فرمانی کرتا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے اس کی نافرمانی کرتا ہے دونوں صورتوں میں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو سب مادی اسباب پر زندگی گزارتے ہیں، اور اس کے علم میں ہر وہ بات ہے کہ جو اب تک وقوع میں آئی ہو یا نہیں، یعنی جب اس نے یہ کائنات نہیں بنائی تھی اور وہ عدم میں لامتناہی وقت سے اکیلے سڑ رہا تھا تب اسے پہلے ہی پتہ تھا کہ وہ یہ کائنات بنائے گا، کچھ احمق لوگ کہتے ہیں کہ وہ بے چارہ اپنی تقدیر کا قیدی تھا اور اپنا مستقبل نہیں بدل سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے یہ کائنات بنائی.

اور وہ ذاتِ باری تعالی جو اندھیرے بادلوں کے نیچے تاریک راہوں پر چلنے والی تاریکی سے بھرپور کالی چیونٹی کے دل اور دماغ میں گزرنے والے خیال تک کا علم رکھتا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ چیونٹی نے کتنی پوٹی کی، وہ عظیم ذات سب کی پوٹیاں تک شمار کرتا ہے، پتہ نہیں وہ اتنا فضول ڈیٹا جمع کر کے کیا کرتا ہے مگر وہ یہ فضول کام کرتا ضرور ہے.

یعنی یہ اعتراض قرآنِ مجید پر ہوا تھا، وہ قرآنِ مجید جس کی صداقت پر آج تک ساری دنیا یقین نہیں کر سکی اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر آج اس کلام کے دشمن بھی اس کلام کی سچائی اور کرامت کے معترف ہیں مگر پھر بھی احمق ہیں کہ مسلمان نہیں ہوتے بلکہ الٹا سرکشی اختیار کرتے ہیں اور اس سرکشی کی حالت میں بھی اپنی قوم وملت کی ترقی اور کامیابی کے لیے اسی کلامِ پاک سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور چاند تک پر جا قدم رکھتے ہیں مگر ہم خود اتنے احمق ہیں کہ اس میں سے ایک ڈسپرین کی گولی تک نہیں نکال سکتے… لعنت ہو ہم پر..!؟

چنانچہ ایک صاحب (جن کا نام لینے سے جارج ڈبلیو بوش بھی احتراز کیا کرتا تھا) کے ناپاک بلاگ پر ایک چنا منا سا بیان لکھا گیا ہے جس میں ایک آیت کے حوالے ایک اعتراض قرآنِ مجید کی صداقت پر کیا گیا ہے.

اور اس آیت میں اس نکتے پر اعتراض کیا گیا ہے کہ یہاں اللہ تعالی نے لفظ (عَلِمَ) استعمال کیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے (ابھی معلوم کر لیا) کہ مسلمانوں میں ضعف آگیا ہے اسی لیے جہاد کے ایک حکم میں تخفیف کی گئی.

تو معترض کا یقین یہ ہے کہ یہ کلامِ مجید اللہ تعالی کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام ہے کیونکہ اللہ تعالی کے لیے علم ازلی ثابت کیا جاتا ہے اور وہ عالم الغیب ہے، نیز اللہ تعالی کی ذات بقول مسلمانوں کے علیم وخبیر ذات ہے.

اور عالم الغیب ذات کو کس طرح ایک واقعے کا (اب علم ہوا) کہ مسلمان ضعیف اور کمزور ہوگئے ہیں، علیم وخبیر ذات کو پہلے سے ہی اگر مسلمانوں کے ضعف کا اگر پتہ تھا تو پہلے سے ہی حکم میں تخفیف کر دیتا.

تو لہذا یہ بات لازم ہوئی کہ یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کلام ہے جس کو واقعات وحالات کا علم اس وقت ہوجاتا ہے جب واقعہ پیش آجاتا ہے، کیونکہ عالم الغیب ذات ایسی غلطی نہیں کر سکتا.

لیکن اعتراض کے جواب سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ علم دو قسم کے ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں یہ میرے ابا کو بھی نہیں پتا تھا تو مجھے کیسے پتہ ہوگا؟ ہم تو بس جب پھنسنے لگتے ہیں تو فوراً تاویل کے دروازے کھول دیتے ہیں چاہے اجتہاد کے کھولیں یا نہ کھولیں.

بہرحال جی ایک علم وہ ہے کہ کوئی بات ہمیں معلوم ہو لیکن وہ کام ابھی صادر نہیں ہوا، مثلاً کل سورج ضرور طلوع ہوگا، یہ ہمارا یقین ہے، لیکن کل کے سورج کا طلوع ہونا کسی کے مشاہدے میں نہیں آیا ہے لیکن اس مشاہدے کے نہ ہونے سے ہمارے یقین پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ زمین کا کوئی گدھا بھی جانتا ہے کہ زمین ایک میکانیکی انداز میں ساڑھے چار ارب سال سے سورج اور اپنے محور کے گرد گردش کر رہی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح اربوں سال تک جاری رہے گا جب تک کہ سورج اپنی طبعی عمر تمام نہ کر لے اور اس کی بڑھتی ہوئی حرارت زمین کو نہ نگل لے اب چونکہ انسان کی عمر سیاروں اور ستاروں کی عمر کی گرد کو بھی نہیں چھوتی لہذا کوئی بھی احمق یہ دعوی کر سکتا ہے کہ کل سورج طلوع ہوگا، اور اگر کل سورج نکل آئے تو اس عظیم پیش گوئی پر آپ کو اس احمق کے جوتوں میں پانی بھر کر پینا چاہیے.

دوسرا علم وہ کہ ایک بات ہمیں معلوم ہے اور معلوم ہونے کے بعد اس کا عملی مشاہدہ بھی ہوجائے، مثلاً آج سورع طلوع ہوگیا ہے، ہمارا یقین وہی ہے جو کہ گزشتہ کل تھا اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں واقع ہوئی اور سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ ایسا ہوگا مگر پھر بھی ہمیں بدیہیات کو ایک "علم” کا درجہ دیتے ہوئے سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے.

اللہ تعالی کا علم ازلی اور ابدی ہے حالانکہ دونوں الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے مگر لفاظی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، بہرحال وہ عالم الغیب بھی ہے اور کوئی چیز اس کے علم سے پنہاں نہیں، وعلیم وخبیر ذات ہے، ہر وہ چیز جس کا وقوع ہوگا اللہ تعالی نے پہلے سے ہی مقرر کر دیا ہے اور ہر مخلوق کی پیدائش سے قبل ہی اس کی خیر و شر کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے، یعنی وہ ایک طرح سے روبوٹ ہوتا ہے اور پہلے سے پروگرام شدہ احکامات پر میکانیکی انداز میں کام کر رہا ہوتا ہے جیسے کسی فلم کا ڈائریکٹر پہلے سے لکھے ہوئے سکرپٹ کے مطابق فلم بناتا ہے اور وہ فلم کو تب تک مکمل نہیں سمجھتا جب تک کہ فلم کے تمام کردار اس کے پہلے سے لکھے ہوئے سکرپٹ کے مطابق حرکتیں نہ کریں اور وہی ڈائیلاگ نہ بولیں جو اس کے سکرپٹ میں لکھے ہیں ورنہ وہ کٹ.. کٹ.. کٹ کا شور مچا کر اداکاروں کو ہراساں کرتا رہتا ہے.

اب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کو پہلے سے ایک بات کا علم قطعی ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہوگا اور یہ کام پیش آئے گا، تو یہ علم ازلی ہوا، بالکل ہمارے اس فلم کے ڈائریکٹر کی طرح، اور اس علم کی بنیاد پر اللہ تعالی کسی سزا و جزا کا فیصلہ نہیں فرماتے بلکہ انجان بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور کٹھ پتلیوں کو پہلے وہ حرکت کرنے دیتے ہیں جن کے لیے اس نے انہیں پہلے سے پروگرام کیا ہوتا ہے، تب وہ انہیں گھیر لیتا ہے اور کتے کی طرح ذلیل کرتا ہے، جہنم میں بھونتا ہے اور ان کے بھنے گوشت کا کباب بنا بنا کر کھاتا ہے اور فرشتوں کو بھی کھلاتا ہے.

یعنی جب واقعہ پیش آجاتا ہے، اس پیشگی علم کو عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے اور اس علم کو وجود دے دیا جاتا ہے، علم کا مشاہدہ ہوجاتا ہے تب اس مشاہدے کے بعد اللہ تعالی سزا وجزاء کا فیصلہ فرماتے ہیں اور اس واقعے کو اس فاعل کے لیے فیصلہ کن جرم بنا دیتے ہیں حالانکہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے.

اس ڈرامائی اور نام نہاد علمِ مشاہدہ کے کئی ثبوت قرآنِ مجید  میں موجود ہیں بالکل جیسے نظریہ اضافیت، بلیک ہول، کوانٹم میکانیکس، سپر سٹرنگ تھیوری، ہگز بوزون ذرہ اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت قرآن میں پہلے سے ہی موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب ہے کیونکہ چودہ سو سال پہلے اس نے عرب کے جاہل بدوؤں کو ایسے عظیم نظریات سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر ان کی بدقسمتی کہ بات ان کے پلے نہیں پڑی بلکہ خود مسلمانوں کے بھی پلے نہیں پڑی اور ہمیں ان قرآنی انکشافات کی تصدیق کے لیے کفار کی تحقیق کا انتظار کرنا پڑا، بہرحال قرآن میں علمِ مشاہدہ کا ایک ثبوت یہ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ﴾ (المائدة: 94)
ترجمہ: اے ایمان والو! البتہ ایک بات سے تمہیں آزمائے گا اس شکار سے جس پر تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچیں گے تاکہ الله معلوم کرے کہ بن دیکھے اس سے کون ڈرتا ہے پھر جس نے اس کے بعد زیادتی کی تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اب اس آیت میں جو اللہ تعالی نے (معلوم کرنے) کی بات کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کے علم میں پہلے یہ بات نہیں تھی کہ کون نافرمان ہے اور کون فرمان بردار ہے.

بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے علم میں جو فرمان برداروں اور نافرمانوں کی پہلے سے موجود لسٹ یا سکرپٹ ہے اللہ تعالی اس لسٹ کے مطابق لوگوں کے اعمال کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے تاکہ علمِ ازلی کے ساتھ علمِ مشاہدہ بھی ہوجائے اور پھر اسی پیشگی علمِ مشاہدہ کے سبب لوگوں کے جزاء وسزاء کے فیصلے ہوجائیں جو کہ صاف ظاہر ہے کہ پہلے سے ہی مقرر تھے کیونکہ علم تو علم ہوتا ہے، یہ علمِ مشاہدہ بس لفاظی ہے ورنہ ازلی علم اور علمِ مشاہدہ میں فرق صرف انتظار کا ہے جو اللہ کو پہلے سے طے شدہ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے لیے کرنا ہے، مگر ہمیں انتہائی ڈھٹائی سے لوگوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنانا ہے کہ یہ علم مشاہدہ بالکل بھی اللہ تعالی کے علمِ غیب کے ساتھ تعارض نہیں رکھتی.

اور اسی بات کو خود اللہ تعالی اس آیت میں بیان کرتا ہے کہ:

﴿لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَنَّ الله بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾(المائدة: 97).
ترجمہ: یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

اس آیتِ کریمہ سے قطعی طور پر یہ پتہ نہیں چلتا کہ اللہ تعالی بعض کام اسی لیے کرتا ہے کہ لوگ جان لیں (ایک ایسی بات کو) جو اللہ تعالی کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے اور اسے لوگوں کو معلوم ہونے کے بعد یا علمِ مشاہدہ کے بعد ہی فیصلہ کرنا حکمت کا تقاضہ ہے، اور یہ بات آیت کے ترجمے سے صاف واضح ہے مگر ہمیں تاویلیں گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہوئے انہیں یہ یقین دلانا ہے کہ اصل میں آیت کے "مخفی مطلب” یہی ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں.

ایک دوسری جگہ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:

(أَوَلَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ` وَلَيَعْلَمَنَّ الله الَّذِينَآمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ﴾ (العنكبوت: 10-11)

ترجمہ:  اور کیا الله جہان والوں کے دلوں کی باتوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہے۔اور البتہ الله انہیں ضرور معلوم کرے گا جو ایمان لائے اور البتہ منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اس آیت میں بھی ایسی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کو عملی جامہ پہنا کر، اسکو وجود دے کر اور علم مشاہدہ سے جس کا پورے قرآن میں کہیں اتا پتہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ ثابت کرے گا کہ کون مسلمان اور کون منافق ہے، مگر ہم ہیں کہ تاویل سے کبھی باز نہ آئیں گے اور قرآن سے وہ وہ نکال لیں گے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا.

اب آتے ہیں معترض کے پیش کردہ آیت کی طرف:

الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ(الانفال ۔66)
ترجمہ: اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور (معلوم کر لیا )کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے۔

اللہ تعالی کو اس بات کا علم تھا کہ مسلمان کچھ عرصہ بعد جسمانی طور پر کمزور ہوں گے یعنی معترض کا اعتراض درست ہے اور میں اس کا اعتراف کرتا ہوں، مگر میں اپنے دل کو تسلی دینے اور لوگوں کو احمق بنانے کے لیے تاکہ وہ راہِ حق سے بھٹک نہ جائیں اور ان کے دل میں شکوک وشبہات نہ جنم لیں بات کو گھماؤں گا اور کہوں گا کہ جب اس علم کو عملی جامہ ملا اور علمِ ازلی اور علمِ ابدی جن کا ویسے ہی مطلب ایک ہی ہے کے ساتھ ساتھ علمِ مشاہدہ جو میں نے ابھی ابھی گھڑا ہے بھی وجود میں آگیا تب اس نے انہیں دبوچ لیا، اور ظاہر ہے خدا کسی کو جرم کرنے سے پہلے سزا کیسے دے سکتا ہے بھلے اسے سب کچھ پہلے سے ہی پتہ ہو؟ نہیں وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ سکرپٹ کے مطابق سین کا انتظار کرتا ہے اسی لیے یہاں بھی (عَلِمَ – معلوم کرلیا) سے مراد میرا ابھی ابھی گھڑا ہوا اور قرآن میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی زبردستی ٹھونسا ہوا نام نہاد علمِ مشاہدہ ہے ناکہ علمِ مطلق یا علمِ غیب.

لہذا اب کوئی اعتراض نہیں کہ اللہ تعالی کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ مسلمان پہلے قوی ہوں گے پھر کمزور کیونکہ خدا جاہل ہے اور اسے کچھ پتہ نہیں کہ کوئی کب کیا کارنامہ سر انجام دے گا، اسی لیے وہ انتظار کرتا ہے کہ واقعہ وقوع پذیر ہو تب وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور چیمپئن بن جاتا ہے.

8 Comments

  1. ہم آپ سے پہلے بھی کئی بار درخواست کر چکے ہیں کہ براہ مہربانی اپنے نظریے پر تو روشنی ڈالیے کہ آپ دین و دنیا کے بارے میں کس طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ آپ کا نظریہ جاننے کے بعد شاید قارئین کو آپ کے لکھے کی زیادہ سمجھ آئے گی۔

  2. يه بات بكثرة note كي جي حي ك ، جاب اب كي كسي تحرير كا جواب أى جاتا ہے ، تو آپ بجانے دلائل سے جواب جانے کے، اپپ حضرات کا سارا زور لکھنے والے کا مذاق اور تحقیر پر سرف ہوتا ہے ،

    مومنین کے اخلاق کا تو فوری تجزیہ کر دیتے ہیں لکن آپ کا انداز بھی اس قدر مہذب نہی رہتا

    1. اصل میں وہ کیا ہے نا عمران صاحب کہ آپ بھی "منہ دیکھ کے چپیڑ (تھپڑ) مارنے” والا فارمولا بخوبی جانتے ہی ہوں گے۔ چونکہ مومنین تہذیب، اخلاق اور علمی بحث کے نہ تو قابل رہے ہیں اور نہ قائل تو مجبورا” انکے ساتھ انہی کی زبان میں گفتگو کرنا پڑتی ہوگی۔
      اور کس جواب کی بات کر رہے ہیں آپ؟ معقول جواب آئے تو بات بھی ہے نا، کیا آپ نے خراسانی صاحب کا جواب پڑھا بھی ہے؟ اسمیں کون سی معقولیت نظر آتی ہے، ایک انتہائی معقول اور لوجیکل سوال کا ایک بودہ جواب دیا ہے، اب اس جواب کا کیا سنجیدہ جواب ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

8 Comments
scroll to top