Close

سب مایا ہے

فلپائن کے ڈورمائٹ نے بار کے دروازے پر کہا: مجھے نہیں پتہ خدا ہے یا نہیں، تاہم میں مذاہب کی پرواہ نہیں کرتا، یہ اس بار کی دیواروں پر سجی شراب کی بوتلوں کی طرح ہیں، سب تمہیں پینے کی دعوت دے رہی ہیں.

ڈورمائٹ کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ اتنے خداوؤں اور اتنے سارے مذاہب کی موجودگی میں کیا یہ ممکن ہے کہ سبھی درست ہوں؟

اس سوال کا سیدھا جواب ❞نہیں❝ میں ہے، بلکہ سب کے غلط ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں.

مذاہب اور خداوؤں کے اس انبار میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ہی دینِ حق ہے اور اس کا خدا ہی ❞اصلی❝ خدا ہے جبکہ صاحب کے پاس ایسی کوئی حجت یا دلیل نہیں ہے جو اسے دوسرے خداوؤں سے ممتاز کرتی ہو.

سوال یہ ہے کہ اسلام ہی کیوں عیسائیت کیوں نہیں؟ عیسائیت ہی کیوں بدھ مت کیوں نہیں؟ بدھ مت ہی کیوں ہندو مت کیوں نہیں؟ ایک ہی خدا کیوں بہت سارے خدا کیوں نہیں؟ آخر کس بنیاد پر مؤمنین نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ خدا ایک ہی ہے؟ جس دلیل سے ایک خدا ثابت ہوتا ہے اسی دلیل سے تین، چار اور دس بھی تو ثابت کیے جاسکتے ہیں؟!

کہیں پر ایک لطیفہ پڑھا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے بڑھ گئی ہے اور ایک پادری نے میچ کے اس نتیجے سے مایوس ہوکر یا شاید غصے میں آکر خود کو آگ لگا لی، مگر کیا کسی مذہب کے ماننے والوں کی زیادہ تعداد اس مذہب کو ❞حق❝ بنا دیتی ہے؟ یہ معیار تو ہندو مت کو حق بنا دے گا اور آبادی کے تفاوت کی وجہ سے وقتاً فوقتاً بدلتا رہے گا.

ہر مذہب کے ماننے والے، اس پر اعتقاد رکھنے والے اور اس کا دفاع کرنے والے ہوتے ہیں جیسے قدامت پرست روایات کو بچانے کے لیے تبدیلی کے خلاف مدافعت کرتے ہیں، لیکن یہ سب مذاہب بیک وقت حق پر نہیں ہوسکتے، مگر کیا یہ سب غلط ہوسکتے ہیں؟

بہت ممکن ہے.. انسانی تاریخ کے مختلف مراحل میں پوری دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں مذاہب نمودار ہوئے اور آج تک ہو رہے ہیں جیسے 1974 کو فرانس میں رائیلی مذہب کا ظہور ہوا، اسی طرح کیا پتہ کبھی ریت کے ممالک میں سے کسی میں کبھی کوئی نیا دین نمودار ہوجائے اور چھا جائے؟ کیا کوئی ضمانت دے سکتا ہے!؟

کیا آپ اس وقت دنیا میں رائج تمام مذاہب کی گنتی کر سکتے ہیں؟ میرا یقین کریں یہ بہت مشکل کام ہے.. اور اب اگر میں آپ کو پوری انسانی تاریخ میں نمودار ہوئے مذاہب کی گنتی کرنے کا کہوں تو؟

ناپید ہوجانے والے قدیم مذاہب اور آج کے دور میں رائج مذاہب کا تنوع مؤمن کے عقیدے پر شک کے سائے بکھیر دیتا ہے، کیا اپنے آپ کو اس بات کا قائل کر لینا کہ جو ہمارے پاس ہے وہی دینِ حق ہے اور یہی اکلوتا مذہب ہے جو ❞حق الیقین❝ ہے کافی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے ناپید ہوجانے والے مذاہب کے ماننے والوں کا بھی بعینہ یہی خیال تھا، وہ بھی اپنے دین سے اتنے ہی مخلص تھے جتنے کے آج کے مؤمن ہیں، وہ بھی اپنے دین کے لیے جان تک دینے کے لیے کمربستہ رہتے تھے تاہم یہ خلوص اور جاں نثاریاں ان مذاہب کو تاریخ کے اوراق میں گم ہونے سے نہ روک سکیں.

آج کی جدید ثقافت جب ماضی کی کسی تہذیب کے اعتقادات کے بارے میں بات کرتی ہے تو اس کے لیے ❞میتھالوجی❝ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے یونانی میتھالوجی، مصری میتھالوجی، آشوری، سومری وغیرہ وغیرہ.. مگر میتھالوجی ہے کیا؟ میتھالوجی کا مطلب اساطیر اور خرافات ہے، میتھالوجی اصل میں اس ناپید ہوجانے والی تہذیب کا مذہب اور اس میں رائج اساطیر اور خرافات ہیں.

اگر ہم عیسائیوں کے اعتقادات کو بیان کرنے کے لیے اسے ❞عیسائی میتھالوجی❝ کہہ دیں یا اسلامی عقائد کو ❞اسلامی میتھالوجی❝ کہہ ڈالیں تو کیا ہوگا؟ مؤمنین غصے میں اچھل کر چھت سے جا لگیں گے اور ہمیں یقین دلائیں گے کہ ہمارے پاس ماضی کی قوموں کی طرح کوئی خرافاتی اساطیر نہیں ہیں.. ما سوائے کیپن نوح کے جنہوں نے محض لکڑی سے ٹائٹینک سے بھی بڑا جہاز بنا کر اس میں ساری دنیا کے جانور کنٹینروں میں لوڈ کردیے اور طوفان کے بعد سب کو اسی طرح سارے برِ اعظموں میں پھیلا دیا.. یا مردوں کو زندہ کرنے اور پانی پر چلنے والا سپائیڈر میں.. یا پھر پرندوں اور چیونٹیوں سے بات کرنے والا بیٹ مین اور ایسی ہی دیگر حقیقی کہانیوں کے.. یقین کریں کہ ان حقیقی کہانیوں کے علاوہ ان مذاہب میں کوئی خرافاتی اساطیر نہیں ہیں..

اگر میں مؤمنین سے کہوں کہ ہماری ملکی وے کہکشاں تب بنی جب زیوس کی بیوی اپنے آدھے دیوتا اور آدھے انسان بیٹے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اچانک وہاں ہرکولیس آگیا اور اس نے زیوس کی بیوی سے اس کا بچہ زبردستی اس کی گود سے چھین لیا اور اس کا دودھ اچھل کر خلاء میں پھیل گیا جس سے ہماری ملکی وے کہکشاں بن گئی، تو مؤمنین ہاہاہاہا کہتے ہوئے ہنسیں گے اور اسے ایک خرافت قرار دیں گے.

اس پر اگر میں کہوں کہ پھر اس کا کیا جس نے زمین اور آسمان سات دن میں بنا ڈالے اور ستاروں کو سو واٹ کے بلب قرار دے دیا، اور شہابیوں کو شیاطین کو مار بھگانے کے میزائل بنا دیے، اور سورج کو رات کو عرش میں غائب کردیا.. تو یہاں ان کے چہروں پر اچانک ❞ہاہاہاہا❝ کی پُر تمسخر ہنسی کی بجائے حماقت آلود گہری سنجیدگی طاری ہوجائے گی اور وہ کہیں گے کہ نہیں یہ خرافات نہیں ہیں بلکہ عین حقیقت ہے!!؟؟

عیسائیت، اسلام اور آج کے دیگر مذاہب کے قصوں کو ❞میتھالوجی❝ کہنا انتہائی درست اور دقیق ترین اصطلاح ہے، خاص طور سے جبکہ سوقیانہ زبان میں میتھالوجی کا مطلب ❞جھوٹ❝ اور ❞بکواس❝ کے سوا اور کچھ نہیں لیا جاتا.. آج کے عیسائی، مسلمان اور دیگر مذاہب کے ماننے والے قدیم تہذیبوں کے مذاہب کو جعلی اور جھوٹے مذاہب قرار دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ جو کچھ ان کی اپنی زنبیل میں ہے اس پر بھی یہی وصف اور یہی معیارات لاگو ہوتے ہیں.

یعنی مؤمنین سمجھتے ہیں کہ وہ تمام پرانے مذاہب اور ان کے سچے ماننے والے سب غلطی پر تھے جبکہ بعینہ اسی وقت وہ اپنے حالیہ دین کو عین حق سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سارے قدیم وجدید مذاہب جیسے عیسائیت اور اسلام عقلی وتحقیقی جانچ کے آگے ایک منٹ بھی نہیں ٹک سکتے.

بتوں کی پوجا پر مسلمان ہندو پر ہنستا ہے کہ اس کی عقل کی مت ماری گئی ہے جو پتھروں کی عبادت میں لگا ہوا ہے جن سے نا نفع ہوسکتا ہے نہ نقصان، مگر ہندو کہتا ہے کہ یہ تو بس ❞علامتی❝ ہے اصل خدا تو اوپر ہے، عیسائی مسلمان پر ہنستا ہے کہ دیکھو ایک پتھر کو چومنے کے لیے یہ لوگ اتنی دھینگا مشتی کرتے ہیں اور ایک پتھر کے کمرے کے گرد بے وقوفوں کی طرح چکر لگاتے ہیں، مگر مسلمان کہتا ہے کہ یہ بھی بس ❞علامتی❝ ہے اور اصل خدا تو اوپر ہے!! پھر عیسائی گرجے میں جاکر گھٹنوں کے بل جھک کر بن باپ کے ایک بیٹے کے پُتلے کے آگے گڑگڑانا شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی بس ❞علامتی❝ ہے اور اصل خدا تو حسبِ سابق اوپر ہی ہے.. یہ سارے ❞عقل مند❝ آشوریوں، یونانیوں اور فرعونوں کے قدیم خداؤوں پر ہنستے ہیں.. ہر کسی کو اپنا دین ❞حق❝ نظر آتا ہے اور دوسرے کا باطل.. بعینہ اسی طرح جس طرح کہ قدیم دنیا کے مؤمنین اپنے دین کو عین حق گردانتے تھے.
آج کے عیسائی مؤمن اور مسلمان مؤمن کے درمیان قدرِ مشترک صرف ایمان ہے اور ایمان ایک اندھا یقین ہے، بعینہ یہی وہ معیار تھا جس کی بنیاد پر قدیم مذاہب کے مؤمنین نے اپنے اعتقادات کی عمارتیں استوار کیں اور اپنے خداؤوں اور بتوں کو حق سمجھا.. گویا کہ ان سارے مذاہب میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کی جانچ پڑتال سے ان میں سے کسی ایک کی حقانیت ثابت کی جاسکے سوائے اندھے ایمان اور اپنے دین کے لیے جان دینے کے جذبے کے، اعتقاد کی مضبوطی اور ایمان پر ثابت قدم رہنے کے علاوہ مؤمنین کے پاس کچھ نہیں ہے، یہ بالکل کنگلے ہیں.. یہ وہی فرسودہ بضاعت ہے جو سابقہ لوگوں کے پاس بھی تھی، تو کیا یہ دلیل ہے؟ مذاہب کے اس انبار میں حق مذہب کیسے تلاش کیا جائے؟ ان میں سے کون دوسرے کو کچرے میں ڈالے گا؟ یا یہ سارے ہی کچرا ہیں؟

یوں شروع میں اٹھائے گئے سوال کا جواب بدستور ❞نہیں❝ میں ہی ہے مگر اس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ اس سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں، اول یہ کہ ان مذاہب میں سے کسی ایک پر ایمان اس کی صحت وصداقت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے دین کو حق سمجھتا اور خود کو ❞ناجی فرقہ❝ قرار دیتا ہے، اور دوم یہ کہ جب ہم مذاہب کے اس تنوع کو دیکھتے ہیں خاص طور سے ایک مذہب کے اپنے کئی فرقے، ان کی تقسیم اور آپس کے اختلافات تو ہمیں ان میں تضادات کے انبار ملتے ہیں، اس طرح اس جنجال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ سب حق پر ہوں بلکہ ان سب کے  غلط ہونے کا امکان ان کے صحیح ہونے کی نسبت کہیں زیادہ ہے.

بعض لوگ نجات، رحمت، حقیقتِ کُل کی بات کرتے ہیں اور ان سب کو مبہم باتوں اور جھوٹ میں مِلا جُلا کر کبھی سائنسی اعجازات اور کبھی طبعی مظاہر اور قیامت سے ڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں تاہم ان میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ایک بھی علمی اور عقلی دلیل نہیں ہے جو علم، حقائق اور منطق کے سامنے ٹھہر سکے.

اوپر کی تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہمارے پاس کوئی ایک معیار بھی ہے؟ ان مذاہب سے کشید کردہ کوئی ایک معیار جس کو کسوٹی بنا کر وہ دین یہ ثابت کر سکے کہ وہی دینِ حق ہے؟ صرف ایک! افسوس کہ ایک بھی نہیں ہے.. ایمان کو معیار نہ بنائیں.. مجھے یہ نہ بتائیں کہ عیسائیوں یا مسلمانوں کی آبادی اتنی ہے نا ہی یہ کہ فلاں مذہب دنیا میں سب سے زیادہ مانا جاتا ہے، نہ مرغے کی بانگ اور نہ کوئیل کی کو کو…

اور چونکہ اب تک ان میں سے کوئی ایک بھی ہیرو ایسا معیار لے کر نہیں آسکا لہذا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے سے کسی طرح کی کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے، لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ سارے ہی غلط ہیں.

2 Comments

  1. یہ 1988 کی بات ھے جب میری عمر 8 سال تھی ہماری گھر کے قریب ہندوں کی بستی تھی خاندانی وراست میں دوسروں کی طرح کافرون سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا اور اس عمر نیں بھی میری اکثر یہ سوچ رہتی کہ کسی طرح سے یہ مسلمان ہو جائیں
    ایک دن مجھے ایک عجیب خیال آیا شام کا وقت تھا سب بچے کھیل رہے تھے میں نے ان سے کہا تم کافر ہو مسلمان ہوجاو کوئی بھگوان نہیں ہے اللہ ہے تم اس سے ڈرو انہوں نے کہا ہم اللہ کو نہیں مانتے آسمان پہ اللہ نہیں بھگوان ہے تو اس وقت میں نے اپنی سب سے پاور فل دلیل پیش کی جو میں گھر سے سوچ کر آیا تھا۔۔۔۔ میں نے کہا کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ ایک عورت اگر بنا شادی کے اپنی ساری عمر بھی گزار دے تو اس کو بچہ نہیں ھوتا لیکن جب مولوی آتا ہے اس کا نکاح پڑتا ھے تو اس کو بچہ ھوتا ہے تو کیا یہ دلیل نہیں اللہ کے ہونے کی ؟؟؟
    (اس وقت مجھے یہ ہی پتہ تھا کہ نکاح ھو تو بچہ ہوگا اور یہ عقل نہ آئی کہ ان ہندوں کے والدین نے کو سا نکاح پڑھا ہے جو یہ پیدا ہوگئے) اب اس کے جواب میں ان ھندو بچا نے کیا کہا میں وہ یہاں نہیں لکھھ رہا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ آج کےہر مسلمان نے خدا کے ہونے کی کوئی نہ کوئی بچگانی دلیل دل میں بنا رکھی ہے اور وہ جب بھی اپنی دلیل عقل۔ والوں کے سامنے رکھتا ہے تووہ ایسے ہستے نیں جیسے اس دن بچے مجھہ پہ ہسے تھے

جواب دیں

2 Comments
scroll to top