Close

کیا یہ قرآن کا کھلا تضاد نہیں؟

ایک عام مسلمان قرآن کے بارے میں محض اپنے علماء کرام سے کچھ بیانات سن کر یا قرآن کی شان میں بیان کردہ کچھ قصائد سن کر یہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ، قرآن پڑھنے سے انسان کو ہدایت مل جاتی ہے اور قرآن انسان کو اللہ کی پہچان کراتا ہے، لیکن ایک عام مسلمان کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کرتا کہ وہ خود قرآن کو پڑھے ،سمجھے، اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ اس قرآن میں خود اس کی ذات کیلئے کیا پیغام موجود ہے۔ اسی طرح یہ عام مسلمان پنے علماء سے قرآن کی شان میں سنے ہوئے قصیدوں کو کبھی علمی کسوٹی اور تشکیک کے معیار پر پرکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا، اور اپنے علماء کے بیان کردہ دعؤوں کو محض اپنی عقیدت کی وجہ سے ان پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوئے اپنے ایمان کا جزو لاینفک بنا لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کو پڑھ کر ایک معمولی سمجھ بوجھ کا حامل فرد بھی بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے بھی یا نہیں؟۔
اس سلسلے میں”کیا قرآن اللّٰه کا کلام ہے؟“ اور ”قرآن اور اس کے تضادات“ کے عنوان سے میں دو تحریریں قارئین کی نظر کر چکا ہوں، آج کی اس تحریر میں بھی قرآن کے ایک اور تضاد کو واضح کرکے یہ ثابت کرنا چاہوں گا کہ خود قرآن نے اپنے کلام الٰہی ہونے یا نا ہونے کے بارے میں جو معیار مقرر کیا ہے کیا قرآن خود اپنے ہی وضع کردہ معیار پر بھی پورا اترتا ہے یا نہیں؟میں یہاں قرآن کے بیان کردہ معیار کا اجمالی ذکر کر دیتا ہوں تاکہ قارئ کے ذہن میں قرآن کے بیان کردہ معیار کا اعادہ ہو جائے۔
قرآن کہتا ہے کہ:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ﴿سورۃ النساء:82﴾
ترجمہ: بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے ۔
چنانچہ اب اگر قرآن سے صرف ایک تضاد ہی نہیں بلکہ متعدد تضادات نکال کر دکھا دئیے جائیں تو قرآن کے کلام الٰہی نا ہونے کا دعویٰ خود قرآن کے اپنے مقرر کردہ معیار سے ہی ثابت ہو جائے گا۔ اس ثبوت کے بعد بھی اگر کوئی شخص قرآن کو اللہ کا کلام ماننے پر مصر ہوتو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، ہر شخص اپنے درست اور صحیح فیصلے کا خود ذمہ دار ہے، اور بحیثیت سیکولر ہونے کے ہم اس کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر اپنے لئے کوئی عقیدہ اختیار کرناچاہے تو اسے پورا حق ہے، لیکن ہمیں اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس قدر واضح ثبوت کے بعد اگر کوئی شخص قرآن کے کے بیان کردہ معیار اور اصول کے تحت قرآن میں تضادات دیکھ کر اس کے کلام الٰہی ہونے سے انکار کر دے تو ایسے شخص کو کیسے واجب القتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لئے کنویں میں گرنا پسند کر لیا ہے تو یہ آپ کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے، ہم آپ کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تو آپ کو کیسے اختیار حاصل ہو گیا کہ آپ دوسروں کو بھی اسی کنویں میں گرنے کی دعوت دیتے پھریں، اور جو اس کنویں میں گرنے سے انکار کر دے تو آپ اسے زبردستی اس کنویں میں دھکیلنے پر مصر ہوں۔
اب آپ قرآن میں موجود تضاد ملاحظہ فرمائیں:
قیامت کے دن کی طوالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن سورۃ الحج میں بیان کر رہا ہے کہ:
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿47﴾
ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔
سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:
يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔
ان دونوں آیات کے مقابلے میں اب ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیں:
تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (سورۃ المعارج: 4)
فرشتے اور اہلِ ایمان کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.
ان تینوں آیات میں قیامت کے دن کا ذکر ہے، جس کی تائید متعدد احادیث صحیحہ اور مفسرین کے بیانات سے بھی ہوتی ہےکہ قرآن ان آیات میں ایک ہی دن کی کیفیت کا بیان کر رہا ہے، اور ان آیات کا موضوع ایک ہی دن ہے کوئی الگ الگ دن نہیں ہیں، جیسا کہ نفس مضمون سے بالکل واضح ہے ۔ اب آپ یہ ملاحظہ کریں کہ سورۃ الحج اور سورۃ السجدۃ کی آیات میں تو قیامت کا دن ایک ہزار برس کا قرار دیا جا رہا ہے لیکن سورۃ المعارج کی آیت میں قیامت کی طوالت پچاس ہزار سال کے برابر بیان کی جارہی ہے،گویا قیامت کے دن کو قرآن کو ایک مقام (سورۃ الحج: 47، اور السجدۃ:5) پر ایک ہزار سال کے برابر بیان کر رہا ہے اور دوسرے مقام (سورۃ المعارج: 5) پر پچاس ہزار سال کے برابر قرار دے دیا۔ یہ بالکل دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح اور روشن بات ہے کہ قرآن کے اپنے بیان میں تضاد پایا جا رہا کیونکہ قرآن ایک ہی دن(قیامت کا دن) کی مقدار ایک مقام پر دنیاوی ایک ہزار برس کے برابر بیان کر رہا ہے اور ایک دوسرے مقام پر اپنے ہی بیان کی تردید کرتے ہوئے اسے پچاس ہزار سال کا قرار دے رہا ہے۔
میں نے اپنی مقدور بھر کوشش صرف کرکے تمام اہم تفاسیرکو کنگھالا کہ شاید کسی مفسر نے اس مقام پر کوئی ایسی عقلی اور قابل قبول توجیہ بیان کی ہو کہ جس سے یہ تضاد رفع ہو سکتا ہو، لیکن مجھے تمام اہم تفاسیر کے مصنفین اس مقام پر انتہائی مشکل میں گرفتار نظر آئے، اور ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس تضاد کو رفع کرنےمیں ناکام نظر آتے ہیں، اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اللہ یا قرآن کے مصنف کی اس غلطی کو درست کرنے کی ناکام کوشش کے بعد “واللہ اعلم بالصواب” کا سہارا لے کر دوبارہ سارا ملبہ اللہ پر ڈال کر اپنے دامن جھاڑتے ہوئے اگلی آیات کی مرمت میں جت جاتے ہیں۔
ایک بات کی مزید وضاحت بیان کردوں کہ میری پچھلی تحریروں پر بعض کرم فرماؤں نے تبصروں میں مختلف مفسرین کی تفسیروں سے ان کے بیانات کاپی پیسٹ کرکے اپنا دینی فریضہ انجام دینے کی کوشش کی کہ شایدمیں ان مفسرین کی وضاحت سے ناواقف ہوں اور اسی ناواقفیت کی بنیاد پر میں قرآن کی آیات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکا اور اسلئے مجھے ان آیات میں تضاد نظر آ رہا ہے، ایسے کرم فرماؤں کی خدمت میں عرض ہے نہ صرف میں بلکہ “جرات تحقیق” کی پوری ٹیم ایک ایک تحریر لکھنے میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیتی ہے اور متعلقہ مواد کی پوری تحقیق کرنے کے بعد اپنے قارئین کی خدمت میں پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
اس وضاحت کے باوجود کسی قاری کو لگتا ہے کہ کسی مفسر نے اس تضاد کو بہترین انداز میں رفع کیا ہے تو براہ کرم کاپی پیسٹ کے بجائے اُس مفسر کے بیان کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے بحث کا آغاز کریں، کاپی پیسٹ کرنا اس امر کی دلالت ہوگی کہ قارئ خودمعاملہ کو پوری طرح نہیں سمجھتا ہے اور نا سمجھنے کے موڈ میں ہے، اور مفسر پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوئے کہ مذکورہ مفسر نے ضرور اس مسئلہ کو حل کردیا ہوگا ، مفسر کا بیان تبصرہ میں کاپی پیسٹ کردیا ہے۔

47 Comments

      1. یعنی آپ نے تو کسی کو نہیں بخشا ۔۔ اصل میں آپ کیا چاہتے ہیں جو چند لوگ خدا اللہ خداوند سے ڈرتے ہیں وہ بھی ڈرنا چھوڑ دیں اور جنگلی کتوں کی طرح سب کمزروں کو بھمبوڑتے پھریں تب کمزور کیا کریں ان کو مرجانا چاہئے؟

    1. حقیقت یہ ہے کہ جرات تحقیق کا کام صرف انتشار پھیلانا ہے ۔۔۔ یہاں جو مواد ملا ہے وہ مجوسیت کا علمبردار ہے

      فروعی تراجم ، شان ِ نزول ۔ مجوسی روایات اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظ تراجم میں پھنسے ہوئے عربی کی الف ب سے نابلد ہیں ۔۔ انشائ اللہ اس کا موثر جواب ضرور انقریب مل جائے گا ۔۔۔

      1. محترمی جناب شاکر رضوی صاحب !
        زہے نصیب آپ کا محبت نامہ پڑھنے کو ملا، بے حد خوشی ہوئی، قبلہ ! آپ سے بات چیت کرنے کیلئے ہی تو فورم کا آغاز کیا تھا، لیکن آپ نے کوئی سرپرستی ہی نہیں فرمائی، آپ فورم پر بات چیت کا آغاز فرمائیں، اور ہماری اصلاح فرمائیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

  1. سورت المعارج کی آیت نمبر چار میں تو قیامت کا ذکر ہی نہیں ہے ۔
    اس آیت کا ترجمہ ہے : ‘‘عام فرشتے اور کلامِ الہیٰ لانے والے فرشتے اس (خدا) کی طرف اتنے وقت میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ہوتی ہے۔’’
    اس آیت میں زمین کی عمر کا ذکر ہے ۔ جیسا کہ اگلی آیات سے صاف ظاہر ہے۔
    بعض حساب دان جنھوں نے حساب کے ذریعہ سے دنیا کی عمر کا اندازہ لگایا ہے۔انھوں نے قریباً پچاس ہزار سال ہی دنیا کی عمر قرار دی ہے۔پس اگر ان کا قیاس صحیح ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس آیت میں دنیا کی ساری عمر کی طرف اشارہ ہے۔یہی عمر صلحاء اور اولیاء نے حضرت آدم سے لیکر رسول ِ کریم (ص) کے زمانے تک پانچ ہزار سال کی عمر قرار دی ہے مگر اندازے الگ الگ حساب سے ہوتے ہیں۔پس یہ اختلاف کوئی نہیں۔

    1. محترمی اسامہ ابراہیم صاحب!
      یہی تو مومنین کی پرابلم ہے کہ بغیر تحقیق کے دعویٰ داغ دیتے ہیں، سورۃ المعارج میں آپ کی سمجھ کے مطابق قیامت کے دن کا ذکر ہی نہیں تو آپ کی بات مانیں یا 1400 سے مسلم مفسرین کی بات مانیں جو اسے قیامت کا دن بیان کر رہے ہیں، میں آ پکو ایک دو نہیں سینکڑوں حوالے احادیث اور تفاسیر سے نکال کر دے سکتا ہوں جو یہی کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ تینوں آیات میں قیامت کے دن کا ذکر ہے۔
      آ پ پہلے ذرا زحمت فرما کر میری اس پوسٹ کے آخری دونوں پیراگراف پڑھ لیں، اور تھوڑی سی تحقیق بھی کر لیں، محض اپنے "تکے” سے کام نہ چلائیں۔ کیونکہ ہم تو ٹھہرے کافر، لیکن آپ پر غلط تفسیر بیان کرنے کی وجہ سے کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے۔
      جواب کا منتظر رہوں گا۔

      1. مفسرین اپنی رائے بیان کرتے ہیں۔ یہ آپ ہی کا کہنا ہے کہ عقیدہ اور عقیدت پالنے کے بجائے علم کا طریقہ اختیار کرو۔ تو میں بھی آپ کو یہی کہوں گا کہ مفسرین کو چھوڑیں اور علم و عقل کی بات کریں۔چونکہ آپ قرآن کا علم نہیں رکھتے اس لئے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جناب جس قیامت کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ ذرا اس آیت سے ثابت کریں۔جراتِ تحقیق چاہیے۔ذرا تحقیق کریں کہ جس قیامت کا مفسرین ذکر کر رہے ہیں وہ اس آیت میں کہیں دکھائی دے رہی ہے؟

      2. صرف دو تین تحریروں سے ہی نظامی صاحب کے مسئلہ کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے۔
        محترم نے جرات تحقیق شروع کر کے اندھا دھند تحقیق شروع کر دی ہے۔
        جب آپ قرآن کا حوالہ دیتے ہیں تو اس کو کسی تفسیر، حدیث، قول اور اجتہاد سے ہٹ کر اسی کے الفاظ جتنے اس میں بیان کئے جاتے ہیں تک اپنی تحقیق رکھا کریں تو ہمیں بھی بات کرنے میں آسانی ہو۔ اب ایک عام مسلمان نے آپ جتنی کتابتیں تو کنگھال نہیں رکھیں ۔ اس کے لئے تو جو کچھ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے اسی کو وہ سمجھے گا اور اسی پر بات کرے گا۔ آپ کو تیسری آیت میں قیامت پتہ نہیں کہاں سے نظر آنے لگ گئی ہمیں بھی دکھا دیں۔

        1. چلیں صرف قرآن کے الفاظ سے استنباط کرتے ہوئے آپ ہی ہمیں بتا دیں کہ تیسری آیت میں ایسے کون سے دن کا ذکر قرآن کر رہا ہے جو ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔
          نیز یہ بتایئے گا کہ یہ کون سا طریقہ کار ہے کہ قرآن کو سمجھنے کیلئے تفسیر و حدیث کو نظر انداز کر دیا جائے؟ اگر آپ اس اصول اور معیار کو واقعی اپنائیں گے تو آپ کیلئے قرآن کو سمجھنا ہی ناممکن ہو جائے گا، آزمائش شرط ہے۔

    2. قرآن کریم ایک کتاب بھی ہے اور ہر اچھی کتاب کی طرح اپنا تعارف بھی کراتی ہی – یہ جو باتیں تضاد قراں کے بارے ہین یہ تضادات اس جماعت کے فکر میں ہین نہ کہ کلام اللہ قرآن میں، قراں اپنےبارے کہتا ہیکہ ” لا ریب فیہ ” اور ” ھدی للمتقین” اور کہتا ہیکہ ہدایت صرف ان لوگوں کے لئے ہی جو غیب پر ایمان لاتے ہین اور اور صلوٰ ہ قائم کرتے ہین اور جو ” مما رزقنٰھم ینفقون” اور جو لوگ اس کیفیت سے مبراء ہین انکے لئے نا ممکن ہیکہ اس مقدس کلام کی حقانیت کو پہنچ سکیں اور جو حق کو نہین پہنچ سکتا وہ اس کتاب میں تضادات ہی پائے گا-
      فاضل مضمون نگار اگر قراں مین سے یہ بھی نقل کردیتے کہ ” یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا” بھی کہا ہے اور "وما یضل بہ الا الفاسقون” بھی – یہ جو کوشش کی گئی ہے اس منبع ہدایت اور ابدی نور کلام اللہ کے بارے میں انکا فسق ہے یہ نہ کہ قراں کی تضاد بیانی-
      اکثر لوگ اپنی سمجھ کو نہین سدھارتے بلکہ غلطی دوسرے میں دیکھتے ہین یہ انکی حق سے گمراہی ہوتی ہے
      کسی بھی نظام کا قانوں اسپر عمل کرنے کیلئے ہوتا ہے لیکن کچہ لوگ اس سے اپنے کج رویہ سے اس سے غلط فائدہ اٹھانا چاہتے ہین جیسے امریکہ مین کسی مقامی شہری سے شادی کرنے والے کو بھی شہریت دینا ایک نکتہ ہے اب کچہ لوگوں نے وہان کی شہریت کے طالب لوگوں کو شادی آفر کرنا وطیرہ بنا لیا یہ نہ صرف شادی جیسے مقدس رشتہ کا مذاق بلکہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہے قانون اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ اس شخص کا فسق ہے -ایسے فاسق ہر جگہ مل جاتے ہین اور انہی کی وجہ سے اچھائی کیلئے وجود میں آنے والی باتین تکلیف دہ ہوجاتی ہین یہی ظلم بھی ہے-
      پہلے دنیا وی زندگی قراں کے احکام کے مطابق گزارئیے کہان نافرمانوں کو سزاء دینے کا طریقہ غلط ہے کی بحث غلط ہے سمجھا رہے ہین حکومت کے اختیار سے کیسے بچیں گے ؟؟؟ وہ جو قانون بناتی ہے اسپر عمل کروانے کا اختیار بھی رکھتی ہے اور جو غلط استعمال کرتا ہے وہ اسکو جب بھگتتا ہے اسکو اپنی غلط سمجھ کا پتہ چل ہی جاتا ہے جیل میں سڑنے کے بعد
      نعمت جو زندگی ملی ہے دینے والے کے احکام سے ہٹ کر گزارنے پر ہی پتہ چلیگا کہ اس احکم الحاکمین کے پاس کیا وسائل ہیں مجرمیں کو سزاء دینے کے- فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٤﴾ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ اور ان لوگوں کو انجام بھگتنا ہی ہےوَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ

  2. وہ احادیث جو قرآنی مضامین سے ٹکراتی ہیں ان کو صحیح احادیث تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جناب آپ جو مرضی پیش کر لیں، جو عربی کا علم رکھتے ہیں، وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس آیت میں قیامت کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ آپ اس آیت سے قیامت کا لفظ دکھا دیں۔ زمین کا ذکر ہو رہا ہے اس سورت کے آغاز سے۔ اگلی آیات بھی ملاحظہ کر لیں پہلے۔ ملا اور ان کی فضول باتوں کے خلاف تو میں بھی ہوں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ قرآن میں کوئی تضاد ہے یا اسلام کی تعلیمات میں کوئی خرابی ہے۔ قرآن کی اصل تعلیم پیش کر کے ملا کو بے نقاب کریں۔

  3. نظامی بھائی آپ کی اس تحریر میں کوئی خاص وزن نہیں ہے نہ ماننے والے یہ کہ کر جان چھرالیں گے کہ پہلی دو آیات اس جگہ کے بارے جہاں اللہ جی رہتے ہیں اور تیسری آیت اس مقام کے بارے میں ہے جہاں حساب ہوگا
    ارے یہ کتاب تو تضادات سے بھری پڑی ہے کچھ اور پاور فل لکھیے
    ویسے لاتقان فی تدمیر القرآن زبردست تھا

    1. محترمی شاہد صاحب!
      تاویل کرکے تو کسی مفقود العقل کی بات کو بھی درست قرار دیا جا سکتا ہے، تو اس میں کلام اللہ کا کیا کمال؟
      میرے نذدیک تو یہ اللہ کے کلام کی توہین ہے کہ اسے کسی وضاحت اوروکالت کی ضرورت ہو جبکہ خود قرآن کا کہنا ہے کہ:
      وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ ترجمہ: اور اسی طرح ہم کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔ اور مومنین اللہ کے کلام کی تاویل بیان کرکے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کہ اپنی بات واضح کرنی نہیں آئی اسلئے تاویل اور وضاحت کی ضرورت پیش آ رہی ہے.

  4. ( ويستعجلونك بالعذاب ولن يخلف الله وعده وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ( 47 ) وكأين من قرية أمليت لها وهي ظالمة ثم أخذتها وإلي المصير ( 48 ) ) .

    يقول تعالى لنبيه ، صلوات الله وسلامه عليه : ( ويستعجلونك بالعذاب ) أي : هؤلاء الكفار الملحدون المكذبون بالله وكتابه ورسوله واليوم الآخر ، كما قال [ الله ] تعالى : ( وإذ قالوا اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء أو ائتنا بعذاب أليم ) [ الأنفال : 32 ] ، ( وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل يوم الحساب ) [ ص : 16 ] .

    وقوله : ( ولن يخلف الله وعده ) أي : الذي قد وعد ، من إقامة الساعة والانتقام من أعدائه ، والإكرام لأوليائه .

    قال الأصمعي : كنت عند أبي عمرو بن العلاء ، فجاء عمرو بن عبيد ، فقال : يا أبا عمرو ، وهل يخلف الله الميعاد؟ فقال : لا . فذكر آية وعيد ، فقال له : أمن العجم أنت؟ إن العرب تعد الرجوع عن الوعد لؤما ، وعن الإيعاد كرما ، أوما سمعت قول الشاعر :

    لا يرهب ابن العم مني سطوتي ولا أختتي من سطوة المتهدد فإني وإن أوعدته أو وعدته
    لمخلف إيعادي ومنجز موعدي

    وقوله : ( وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ) أي : هو تعالى لا يعجل ، فإن مقدار ألف سنة عند خلقه كيوم واحد عنده بالنسبة إلى حكمه ، لعلمه بأنه على الانتقام قادر ، وأنه لا يفوته شيء ، وإن أجل وأنظر وأملى; ولهذا قال بعد هذا : ( وكأين من قرية أمليت لها وهي ظالمة ثم أخذتها وإلي المصير )

    قال ابن أبي حاتم : حدثنا الحسن بن عرفة ، حدثني عبدة بن سليمان ، عن محمد بن عمرو ، عن [ ص: 440 ] أبي سلمة ، عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ” يدخل فقراء المسلمين الجنة قبل الأغنياء بنصف يوم ، خمسمائة عام ” .

    ورواه الترمذي والنسائي ، من حديث الثوري ، عن محمد بن عمرو ، به . وقال الترمذي : حسن صحيح . وقد رواه ابن جرير ، عن أبي هريرة موقوفا ، فقال :

    حدثني يعقوب ، حدثنا ابن علية ، حدثنا سعيد الجريري ، عن أبي نضرة ، عن سمير بن نهار قال : قال أبو هريرة : يدخل فقراء المسلمين الجنة قبل الأغنياء بمقدار نصف يوم . قلت : وما نصف يوم؟ قال : أوما تقرأ القرآن؟ . قلت : بلى . قال : ( وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ) .

    وقال أبو داود في آخر كتاب الملاحم من سننه : حدثنا عمرو بن عثمان ، حدثنا أبو المغيرة ، حدثنا صفوان ، عن شريح بن عبيد ، عن سعد بن أبي وقاص ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ” إني لأرجو ألا تعجز أمتي عند ربها ، أن يؤخرهم نصف يوم ” . قيل لسعد : وما نصف يوم؟ قال : خمسمائة سنة .

    وقال ابن أبي حاتم : حدثنا أحمد بن سنان ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس : ( وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ) قال : من الأيام التي خلق الله فيها السماوات والأرض .

    رواه ابن جرير ، عن ابن بشار ، عن ابن مهدي . وبه قال مجاهد ، وعكرمة ، ونص عليه أحمد بن حنبل في كتاب ” الرد على الجهمية ” .

    وقال مجاهد : هذه الآية كقوله : ( يدبر الأمر من السماء إلى الأرض ثم يعرج إليه في يوم كان مقداره ألف سنة مما تعدون ) [ السجدة : 5 ] .

    وقال ابن أبي حاتم : حدثنا أبي ، حدثنا عارم محمد بن الفضل حدثنا حماد بن زيد ، عن يحيى بن عتيق ، عن محمد بن سيرين ، عن رجل من أهل الكتاب أسلم قال : إن الله تعالى خلق السماوات والأرض في ستة أيام ، ( وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ) وجعل أجل الدنيا ستة أيام ، وجعل الساعة في اليوم السابع ، ( وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون ) ، فقد مضت الستة الأيام ، وأنتم في اليوم السابع . فمثل ذلك كمثل الحامل إذا دخلت شهرها ، في أية لحظة ولدت كان تماما .

    یہ تفسیرِ بغوی ہے۔۔۔کہاں لکھا ہے کہ یہ قیامت کے دن کے بارے میں ہے اسکو قیامت کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل کہاں ہے؟؟؟ البتہ تخلیقِ کائنات پر بعض صحابہ میں اس پر بات کا ذکر ہے، بلکہ مطلق ہے چاہے قیامت کا دن ہو یا غیرِ قیامت کا دن

    1. (1) «ويستعجلونك بالعذاب ولن يخلف الله وعده» بإنزال العذاب فأنزله يوم بدر «وإنَّ يوما عند ربك» من أيام الآخرة بسبب العذاب «كألف سنة مما تعدون» بالتاء والياء في الدنيا. (تفسیر الجلالین، سورۃ الحج الاآیۃ 47)
      (2) (يدبر الأمر من السماء إلى الأرض) مدة الدنيا (ثم يعرج) يرجع الأمر والتدبير (إليه في يوم كان مقداره ألف سنة مما تعدون) في الدنيا، وفي سورة "سأل” خمسين ألف سنة وهو يوم القيامة لشدة أهواله بالنسبة إلى الكافر، وأما المؤمن فيكون أخف عليه من صلاة مكتوبة يصليها في الدنيا كما جاء في الحديث. (تفسیر الجلالین، سورۃ السجدۃ، الاآیۃ :5)
      (3) «تعرج» بالتاء والياء «الملائكة والروح» جبريل «إليه» إلى مهبط أمره من السماء «في يوم» متعلق بمحذوف، أي يقع العذاب بهم في يوم القيامة «كان مقداره خمسين ألف سنة» بالنسبة إلى الكافر لما يلقى فيه من الشدائد، وأما المؤمن فيكون أخف عليه من صلاة مكتوبة يصليها في الدنيا كما جاء في الحديث. (تفسیر الجلالین، سورۃ المعارج، الآیۃ 4)
      یہ "جرات تحقیق” ہے یہاں صرف خرد مندوں کا کام ہے۔ پوسٹ میں لکھ چکا ہوں کہ اس مقام پر بڑے بڑے مفسرین دنگ ہیں کہ کریں تو کریں کیا؟
      تسلی ہوگئی یا مزید ؟ ؟ ؟

  5. اور یہ ہے جواب ۵۰ ہزار سال اور ایک ہزار سال والے دن میں فرق کا ۔۔۔
    أشكل عليّ الجمع بين قوله تعالى : ” فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره أَلْفَ سَنَة ” في سورة السجدة , وقوله تعالى : ” فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خَمْسِينَ أَلْف سَنَة ” في سورة المعارج .

    فوجدت أن الإمام الطبري رحمه الله تعالى أشار إلى الإشكال ، ثم جلاّه لي و لأمثالي ، فأردت نقل ماخطته يداه – رحمه الله – مما نقله عن العلماء ، حيث قال عند تفسيره لسورة المعارج :

    ( وقوله : {تَعْرُج الْمَلَائِكَة وَالرُّوح إِلَيْهِ فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خَمْسِينَ أَلْف سَنَة } يقول تعالى ذكره : تصعد الملائكة والروح , وهو جبريل عليه السلام إليه , يعني إلى الله جل وعز ; والهاء في قوله : { إليه } عائدة على اسم الله .

    { فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خَمْسِينَ أَلْف سَنَة } يقول : كان مقدار صعودهم ذلك في يوم لغيرهم من الخلق خمسين ألف سنة , وذلك أنها تصعد من منتهى أمره من أسفل الأرض السابعة إلى منتهى أمره من فوق السموات السبع. وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل .

    ذكر من قال ذلك : 27027 – حدثنا ابن حميد , قال : ثنا حكام بن سلم , عن عمرو بن معروف , عن ليث , عن مجاهد { فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خَمْسِينَ أَلْف سَنَة } قال : منتهى أمره من أسفل الأرضين إلى منتهى أمره من فوق السموات مقدار خمسين ألف سنة ; ويوم كان مقداره ألف سنة , يعني بذلك نزل الأمر من السماء إلى الأرض , ومن الأرض إلى السماء في يوم واحد , فذلك مقداره ألف سنة ; لأن ما بين السماء إلى الأرض , مسيرة خمسمائة عام .

    وقال الإمام القرطبي رحمه الله تعالى في تفسير آية المعارج ، والجمع بينها وبين آية السجدة :

    ( قال وهب والكلبي ومحمد بن إسحاق : أي عروج الملائكة إلى المكان الذي هو محلهم في وقت كان مقداره على غيرهم لو صعد خمسين ألف سنة .

    وقال وهب أيضا : ما بين أسفل الأرض إلى العرش مسيرة خمسين ألف سنة . وهو قول مجاهد .

    وجمع بين هذه الآية وبين قوله : ” في يوم كان مقداره ألف سنة ” في سورة السجدة , فقال : ” في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ” من منتهى أمره من أسفل الأرضين إلى منتهى أمره من فوق السموات خمسون ألف سنة .
    وقوله تعالى في ( الم تنزيل ) : ” في يوم كان مقداره ألف سنة ” [ السجدة : 5 ] يعني بذلك نزول الأمر من سماء الدنيا إلى الأرض , ومن الأرض إلى السماء في يوم واحد فذلك مقدار ألف سنة لأن ما بين السماء إلى الأرض مسيرة خمسمائة عام ) أ.هـ.

    ثم قال رحمه الله :
    ( وعن ابن عباس أيضا أنه سئل عن هذه الآية وعن قوله تعالى : ” في يوم كان مقداره ألف سنة ” [ السجدة : 5 ] فقال : أيام سماها الله عز وجل هو أعلم بها كيف تكون , وأكره أن أقول فيها ما لا أعلم )

    1. میں نے اپنی پوسٹ میں پہلے ہی ذکر کر دیا ہے کہ کاپی پیسٹ سے کام نہیں چلے گا، پہلے یہ تو ثابت ہو کہ کاپی پیسٹ کرنے والا متعلقہ مواد کو کما حقہ سمجھ بھی چکا ہے۔ اور اگر سمجھ چکا ہے تو اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ بغیر سمجھے کسی معاملے کا دفاع کرنے بیٹھ جانا، غیر علمی رویہ ہے۔
      آپ کے دوسرا تبصرہ جسے آپ نے "اور یہ ہے جواب ۵۰ ہزار سال اور ایک ہزار سال والے دن میں فرق کا ۔۔۔” کہہ کر پیسٹ کیا ہے سر تا پا میرے موقف کی تائید کرتا ہے، آپ سے گذارش ہے کہ ان عبارات کا ترجمہ کر دیں، تو آپ کی بے حد مہربانی ہوگی، کیونکہ اگر میں ترجمہ کروں گا تو مومنین کرام فرمائیں گے کہ میں نے ترجمے میں ڈنڈی ماری ہے:
      (1)أشكل عليّ الجمع بين قوله تعالى : ” فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره أَلْفَ سَنَة ” في سورة السجدة , وقوله تعالى : ” فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خَمْسِينَ أَلْف سَنَة ” في سورة المعارج .
      (2) ( وعن ابن عباس أيضا أنه سئل عن هذه الآية وعن قوله تعالى : ” في يوم كان مقداره ألف سنة ” [ السجدة : 5 ] فقال : أيام سماها الله عز وجل هو أعلم بها كيف تكون , وأكره أن أقول فيها ما لا أعلم )

  6. بہت خوب علامہ ایاز نظامی صاحب ، عقلمندوں کیلیے ان آیات میں کھلا تضاد ہے۔ اصل میں کسی بھی کتاب کے کھلے تضاد اور اس کتاب میں اغلاط کو سمجھنے کیلئے کتاب اور مصنف کیلئے ذہن غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ لیکن قرآن کے معاملے میں موممنین کے ساتھ یہی مسلئہ ہے۔ میں بھی جب تک یہ یقین رکھتا تھا کہ محمد اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں اور قرآن اسی اللہ کی کتاب ہے تو اس وقت مجھے بھی یہ کھلے تضادات بھی نظر نہیں آتے تھے اور کوئی دکھابھی دیتا تو میں اپنی ہی تاویل کے تراش لیتا تھا۔ مومنین کو چونکہ پہلے ہی یقین ہوتا ہے کہ یہ کتاب خدا کی ہے اس لئے اس میں کسی خامی کا تصور ہی اسکے لئے نا ممکن ہے۔ میں تو کہتا ہوں کو اگر وہ محمد کی زندگی کا ہی غیر جانبداری سے مطالعہ کرلیں تو انکو یہ حقیقت معلوم ہوجائیگی کہ وہ بھی ایک عام انسان کی طرح کی نفسیات کے حامل تھے ، غصہ ، رواداری، محبت ، نفرت خود کو منونے کیلئے ہر طرح کی کوششیں اور تمام کوششیں حاصل طاقت کے مطابق ، کمزوری کی صورت میں امن اور طاقت کے حصول کے بعد جارہانہ کوششیں یہ سب معاملات عام انسان کی طرح ہی ہیں۔ اسی طرح ان کے ازدواجی زندگی بھی کسی آسمانی شخصیت کے بجائے انہیں عام انسان ہی ثابت کرتی ہے۔ لیکن یہ سمجھنے کیلئے غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔

  7. اللہ تعالیٰ کے ’ذِی الْمَعَارِجِ‘ ہونے کا مفہوم: یہ اللہ تعالیٰ کے ’ذِی الْمَعَارِجِ‘ ہونے کی وضاحت ہے کہ اس کی بارگاہ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریلؑ کو بھی پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے۔ ’معارج‘ کے معنی زینوں اور سیڑھیوں کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ وراء الوراء اور اور وراء الوراء ہے۔ اس تک رسائی کے لیے دوسروں کا تو کیا ذکر ملائکہ اور جبریلؑ تک کا یہ حال ہے کہ اس راہ کے مراحل طے کرنے کے لیے انھیں پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے۔
    یہ باتیں متشابہات کی نوعیت کی ہیں۔ ان کی اصل حقیقت کا ادراک ہمارے لیے ناممکن ہے۔ مقصود ان سے صرف یہ تصور دینا ہے کہ خدا کے معاملات کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ اس کے ہاں کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر کا ہوتا ہے اور بعض کاموں کے لیے اس نے پچاس ہزار سال کے برابر کے دن بھی رکھے ہیں۔ آیت زیربحث میں اسی خاص دن کی طرف اشارہ ہے۔
    ’روح‘ سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ان کی عظمت شان کے پہلو سے ہے اس لیے کہ وہ تمام ملائکہ کے سرخیل ہیں۔ یہ لفظ قرآن میں حضرت جبریل علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔
    ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگوں نے اس دن قیامت کے دن کو لیا ہے اور اس کا یہ طول ان کے نزدیک اس کے ہول اور شدت کی تعبیر ہے۔ ہمارے نزدیک یہ رائے موقع و محل کے بھی خلاف ہے اور عربیت کے بھی۔ یہاں مقصود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی بلندی کا اظہار ہے نہ کہ روز قیامت کی شدت کا۔ روز قیامت کی شدت اور اس کے ہول کا ذکر آگے آرہا ہے۔
    یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ہر چند خدا کی بارگاہ بہت بلند ہے، وہ تمام خلق سے وراء الوراء ہے لیکن وہ ساتھ ہی ہر شخص کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ سب کو دیکھتا، سب کی سنتا اور سب کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہم اگرچہ اس کو دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن وہ ہم کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ ہماری نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں لیکن وہ ہماری نگاہوں کو پالیتا ہے۔ ’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ‘ (الانعام 104:6) اس وجہ سے نہ تو اس سے کسی کو بے خوف ہونا جائز ہے نہ مایوس۔
    یہی حال فرشتوں کا ہے۔ ان کو اگرچہ اس تک صعود کے لیے پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے لیکن اس کے باوجود تمام ملائکہ ہر وقت اس کی نگاہوں میں ہیں۔ وہ جب چاہے ان کو حکم دے سکتا ہے اور جب چاہے ان کو پکڑ لے سکتا ہے۔

  8. No difference b/w 3 Quranic verses. 1st 2 Quranic verse telling about Accountability day(Qayyamt), and last one Verse telling about Punishment day. you well know about Accountability day…in this days no punishment any one… after accountability days start punishments days..now try to understand Accountability days is equal to 1000 and Punishment days equal to 50000.Thanks

    1. جناب طارق بلوچ صاحب !
      بہت مہربانی کہ آپ نے کاپی پیسٹ سے کام نہیں لیا، اور آپ نے اپنے طور پر کوشش کی جو کہ قابل ستائش ہے،
      محترمی آپ سورۃ السجدۃ اور سورۃ المعارج کے الفاظ پر غور کرلیں، دونوں کے الفاظ میں کوئی فرق موجود نہیں، میں یہ الفاظ دوبارہ یہاں درج کر دیتا ہوں تا کہ آپ کو تقابل میں آسانی رہے:
      سورۃ السجدۃ، آیت نمبر5: ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
      سورۃ المارج، آیت نمبر 4: تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
      وونوں آیات میں اس دن کی ایک ہی کیفیت کا ذکر ہو رہا ہےلیکن سورۃ السجدہ کی آیت میں اسی دن کی مقدار ایک ہزار سال بیان ہو رہی ہے اور سورۃ المعارج میں اسی دن کی مقدار پچاس ہزار سال بیان ہو رہی ہے۔

  9. اصحاب کہف کی جھوٹی کہانی – از امام الوقت حضرت مولوی استرا

    22 دسمبر کو آنے والی قیامت کی افواہ کے بارے میں ناسا نے کہا تھا کہ اگر کوئی سیارہ واقعی زمین سے ٹکرانے والا ہو تو اسے کئی مہینے پہلے ننگی آنکھ سے نظر آجانا چاہئے۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ 22 دسمبر کو آنے والی قیامت ایک افواہ تھی۔ لیکن اگر 100 سال بعد کوئی اسی افواہ کو بنیاد بنا کر دعویٰ کرے کہ 22 دسمبر 2012 کو زمین تباہ ہونے والی تھی لیکن ہمارے دیوتا نے سیارے کا رخ موڑ کر زمین کو بچا لیا تھا۔ فرض کریں اگر آپ اس دور میں ہوں تو آپ یہ جھوٹ سن کر ضرور ہنسیں گے کہ واہ کیا لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک افواہ سن 510 میں شام کے بشپ Jacob نے پھیلائی اس افواہ کا مقصد عیسائیت کو فروغ دینا تھا افواہ کے مطابق سن 250 میں ترکی کے علاقہ Ephesus میں 7 عیسائی نوجوانوں کو غیر عیسائی باشاہ نے حکم دیا کہ اگر تم عیسائیت سے باز نا آۓ تو تمیں قتل کر دیا جاۓ گا یہ سن کر ساتوں عیسائی نوجوان ایک غار میں چھپ گۓ بادشاہ نے غار کا منہ بند کرنے کا حکم دے دیا تاکہ عیسائی نوجوان غار کے اندر ہی ہلاک ہوجائیں۔ غار کا منہ بن کردیا گیا لیکن 180 سال بعد رومن بادشاہ Theodosius II کی حکومت میں وہ ساتوں نوجوان معجزاتی طور پر زندہ ہوگۓ یہ دیکھ کر پورا علاقہ عیسائی ہوگیا۔ محمد کے دور میں یہ افواہ پورے عرب خطہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ قرآن کا مصنف ورقا بن نوفل بھی اس افواہ سے متاثر تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کہانی بعد میں جھوٹی قرار دے دی جاۓ گی لہٰذا اس نے بھی یہ جھوٹی کہانی اپنی سمجھ کے مطابق سورت الکھف کی آیت نمبر 9 سے 26 میں یوں بیان کی کہ چند مومن نوجوان اور انکا ایک کتا حالات سے تنگ آکر ایک غار میں چھپ گئے اور پھر وہ اس غار میں اللہ کے حکم سے 309 سال تک سوتے رہے قرآن کی ان آیات کے مطابق اللہ کو بھی یہ بات یقین سے نہیں پتہ تھی کہ غار میں چھپنے والے نوجوان مومنوں کی تعداد کتنی تھی قرآن اُن مومنوں کی تعداد 4، 5، 6، 7 یا کتے سمیت 8 بتاتا ہے یعنی کتا بھی شاید مومن تھا۔ قرآن کے مصنف نے یہ جھوٹی کہانی قرآن میں لکھ تو دی لیکن بعد ازاں اس کہانی کی اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد پاپاۓ روم Theodore I نے سن 642-649 کے عرصہ میں اس کہانی کو جھوٹا اور افواہ قرار دے دیا۔ قرآن کے مصنف کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ بعد میں حدیثیں بھی کتے کو نجس قرار دے دیں گی جبکہ غار والے مومن اپنے کتے کے ساتھ 309 سال تک غار میں رہتے رہے۔ آئینسٹائین نے کیا خوب کہا کہ صرف Logic ہی انسان کو پوائینٹ A سے پوائینٹ B تک لے جاتی ہے جبکہ خیالی تصور آپکو ہر جگہ لے جاتے ہیں۔

  10. سرکار علامہ سائیں۱
    مذہبی لوکیں کوں تُساں دلیل نال کڈاہیں وی قائل نہوے کر سگدے جو مذہب تے دلیل ڈو متضاد گالہیں ہن۔ اے بچارے اگر مسلمانی چھوڑ ڈیون تاں پچھیں کتھاں دنجن؟
    اے تاں بچارے قران اچوں وی اج کل سائنس گول آمدن جہڑی وت کوڑ ثابت تھی ویندی ہے، انہیں دا ہکو حل ہے، انہیں ساریں کوں اللہ پاک اپنڑے پیارے گھر کعبہ اچ سڈوا گھنے، ساڈے جان چھوڑن، فقیر آکھیے ساڈی بسس ہے انہیں کولوں، اپنرا اسلام سعودی عرب آلے آپ سنبھالن۔اساں کافر ٹھیک ہاسے، ہنڑ ناں ایں دھڑ ہائیں نہ اوں دھڑ،

  11. علامہ، مہربانی کر کے روشنی ڈالیں گے کہ جو اللہ ستر ماوں جتنا پیار کرتا ہے، وہ نام نہاد جہنم کی آگ میں اپنی پیاری مخلوق کو کیوں بھیجے گا؟
    اور ذرا اس بات پر کبھی لکھیے گا تاکہ سند رہے کہ اللہ، اللہ کیسے بنا،
    شکریہ

  12. سورہ الْكَهْف پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیارے الله میاں کو داستان گوئی کا بہت شوق ہے لیکن انہیں اس فن میں مہارت بالکل نہیں. نیز تاریخ کے بارے میں "سبحان الله” کا علم ایک عام آدمی کے علم سے ہرگز بہتر نہیں. خیر بات اصحاب کھف کی ہو رہی تھی. یہ بیان کرنے کے بعد کہ اس قصے کے بارے میں لوگوں میں اختلافات ہیں اور یہ کہ اصل حقیقت صرف الله کو معلوم ہے، الله میاں اصل حقیقت سے پردہ اٹھائے بغیر گول مول باتیں کرکے ایک اور قصہ یعنی داستان ذولقرنین سنانے بیٹھہ گئے. قرآنی قصے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ذولقرنین الله کا نہایت اطاعت گزار بندہ، راست باز انسان، اور عوام دوست حکمران تھا. نیز نبیوں کی طرح اس پر بھی وحی نازل ہوتی تھی. ہہی نہیں اسے تو موسیٰ کی طرح الله سے ہمکلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا. ہمارے مفسرین آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ذولقرنین کون تھا، ایران کا بادشاہ سائرس یا یونان کا فاتح سکندر. بیشتر جدید مفسرین سکندر کے نام پر متفق ہیں. قرآن کے برعکس تاریخ سکندر کو ایک آتش مزاج، ہوس پرست، مذھبی جنونی، شرابی، ہم جنس پرست، پاگل، وحشی، اور خون آشام جنگجو قرار دیتی ہے. اس نے تو وہ شہر بھی جلا کر راکھہ کر دیئے جن کے باشندوں نے بغیر لڑے اس کی اطاعت قبول کر لی تھی. مزید تفصیلات کے لیے ملٹری ہسٹری جرنل کے تازہ شمارے کا مضمون "الیگزینڈر دی مونسٹر” پڑھ لیں.
    اس میں کیا شک ہے کہ الله میاں نے تاریخ کا مطالعہ کئے بغیر ذولقرنین کا قصہ سنا دیا. مان لیتے ہیں کہ ان کے پاس آکسفورڈ یا ہارورڈ میں داخلہ کے لیے پیسے نہیں تھے. اسی وجہ سے تو وہ مسلمانوں سے قرض مانگتے تھے. لیکن ہومر جیسے مایہ ناز داستان گو کی شاگردی اختیار کر لینے میں کیا ہرج تھا؟ کم از کم ہومر کی کتاب "شیر کا راگ” ہی پڑھ لیتے. یوں انہیں بھی داستان گوئی کا فن آ جاتا اور اصحاب کھف اور ذولقرنین کے قصوں میں کچھہ رنگ بھر جاتا. پڑھنے والے لطف اندوز ہوتے اور الله میاں سے مزید داستانوں کی فرمائش کرتے.
    آپ دیکھہ سکتے ہیں کہ بے چارے طاہر القادری کو الله میاں کے نامکمل فقرے مکمل کرنے کے لیے جگہ جگہ اپنے الفاظ ڈالنا پڑے بریکٹوں میں.

  13. محترم نظامی صاحب۔
    آپ کے خیال میں سورہ السجدہ۔ آیت۔۵ اور وسورہ المعارج۔آیت۔ ۴ میں اختلاف ہے۔ لوگوں کی تاویلات سے آپ مطمئن نہیں ہیں۔ چلئے دلیل سے بات کر تے ہیں۔
    کسی بھی زبان میں ایک جملے کے ایک سے زیادہ معنی ہو تے ہیں۔ یعنی ایک بنیادی معنی ﴿لٹرل مینینگ﴾، دوسرا ثانوی ﴿سیکنڈری مینینگ یا میٹافور﴾ لہذا کسی بھی جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے سیاق وسباق سے طے کیا جا تا ہے کہ کس لفظ کا کون سا معنی موزوں ہے۔ مثال کے طور پر مجھے سو روپے کی ضرورت ہے۔ اس سے مراد مجھے واقعی سو روپے ہی چاہیئے۔ اب اگر میں کہوں کہ تم سو بار بھی رقم مانگو میں پھر بھی نہیں دونگا۔ یہاں سو بار کا ترجمہ سو دفعہ نہیں بلکہ اس سے مراد تم چاہے جتنی دفعہ مانگو رقم نہیں ملے گی۔ عربی زبان کا بھی یہی قاعدہ ہے۔
    قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ آیات محکمات ﴿جس میں صاف طور پر حکم جاری کیا گیا ہے﴾ اور دوسرا آیات متشابہات یعنی جس کے ایک سے زیادہ معنی ہیں۔ اب جن کے دلوں میں میل ہوتا ہے وہ متشابہ لفظ کو اپنے مطلب کا معنی پہناتے ہیں تاکہ لوگوں کو قرآن سے روکیں۔
    فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں۔
    لہذا ان دونوں آیات ﴿ أَلْفَ سَنَةٍ اور خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ دونوں الفاط مجازاً استمال ہوئے ہیں۔
    الف سنہ اور خمسین الف سنہ سے مراد ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال ہرگز نہیں بلکہ اس سے مراد بے شمار سال ﴿میٹافور﴾ ہیں۔ عرب چونکہ سال اور مہینوں سے خوب واقف تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے ان کی زبان میں اور ان کے اعداد و شمار کے مطابق اس حشر کے دن کی طوالت کھبی ایک ہزار اور کھبی پچاس ہزار سال کر کے سمجھایا ہے۔
    قرآن میں اس طرح کے کئی اور مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً ۔
    وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور راستے سے بھٹکا ہوا ہو گا۔
    اس آیت کا اگر لفظی ترجمہ کریں تو معنی یہ ہوگا کہ تمام نابینا لوگ آخرت میں بھی نابینا ہونگے۔ اور صحیح راستہ نہیں ڈھونڈ پایئں گے۔ کیا اللہ تعالی نے سارا امتحان اندھوں کیلئے تیار کیا ہوا ہے۔ ؟؟
    يہذا اس آیت کا لفظی ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ مجازی معنوں میں اس سے مراد وہ تمام لوگ جنہوں نے آنکھوں کے باوجود آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتے وہ لوگ قیا مت کے دن بھی اندھے ہونگے اور کوئی بچنے کا راستہ نہیں ڈھونڈ پایئں گے۔

  14. محترمی جناب احسان خان صاحب!
    آپ نے متشابہات کی جو وضاحت کی ہے کہ : "آیات متشابہات یعنی جس کے ایک سے زیادہ معنی ہیں” درست نہیں ہے، آیات متشابہات سے مراد وہ آیات ہوتی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے حقیقی مفہوم کا علم اللہ ہی کو ہے، مخلوق کو ان کے مفہوم کا ادراک نہیں ہوسکتا، یہ یہ الگ بحث ہے کہ اگر آیات متشابہات کے مفہوم تک مخلوق کی رسائی نہیں ہوسکتی تو ایسی آیات کے قرآن میں اندراج کا مقصد کیا ہے؟، متکلم کا مخاطب سے ایسا کلام کرنا جس کا مفہوم مخاطب کیلئےنامعلوم ہو غیر معقول، حکمت کے خلاف، اور لا یعنی ہے۔
    خود قرآن نے فصاحت و بلاغت کو قرآن کا معجزہ قرار دیا ہے، فصیح و بلیغ کلام وہ ہوتا ہے جس میں صاف اور واضح طور پر پیغام مخاطب تک پہنچ جائے اور کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے، اگر کلام میں کوئی ابہام باقی رہ جائے تو اسے فصیح و بلیغ کلام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
    حقیقت اور مجاز کی بحث آیات محکمات اور آیات متشابہات سے الگ ہے، آپ یہاں آیات متشابہات کو کلام مجازی قرار دے کر خلط مبحث سے کام لے رہے ہیں۔ آپ کو یہاں یہ فیصلہ کرنے پڑے گا کہ مذکورہ آیات کلام مجازی سے تعلق رکھتی ہیں یا آیات متشابہات میں سے، جب آپ ایک فیصلہ کرلیں گے تو پھر اسی کے مطابق آپ کو جواب دے دیا جائے گا۔
    حقیقت یہ ہے جہاں قرآن پر کسی اٹھنے والے اعتراض کا جواب نہ ہو تو وہاں مومنین بڑی آسانی سے مجازکو اپنی جائے پناہ بنا لیتے ہیں۔ ایک علیم، خبیر اور حکیم ذات کو مجاز کا سہارا لینے کی نوبت کیوں آتی ہے، دنیا کے کسی بھی فاتر العقل شخص کے کلام کو مجازی قرار دے کر اس میں سے حکمت کے موتی برآمد کرلینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
    مجھے معلوم نہیں محترم اینڈرسن شا صاحب کی یہ چشم کشا تحریر آپ کی نظر سے گذری ہے یا نہیں، ضرور ملاحظہ کیجئے گا، افاقہ ہوگا: http://realisticapproach.org/?p=4762

  15. اللہ نے انسانوں کے ساتھ انسانوں ہی کی زبان میں بات کی ھے اور انسان روزمرہ کی گفتگو میں الفاظ کو حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں استعمال کرتا ھے چلیں اگر آپ یہ تسلیم نہیں کرتے تو ان آیات کے مقصد کی طرف آ جاتے ہیں جو بالکل پورا ھوتا دکھائ دیتا ھے وہ یہ کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہوتی ھے وہ متشابہات کے ذریعے سے فتنہ برپا کرنا چاہتے ھیں. اب آپ خود بتائیں کہ آپ کا مقصد محکمات کے ذریعے رہنمائی حاصل کرنا ھے یا متشابہات کے ذریعے فتنہ پھیلانا ھے۔ ہمیں اپنے کردار پر غور کرنے کی ضرورت ھے۔ عظیم

  16. جناب کلام تو مجازی ہے کیونکہ مجازی کلام ہی متشابہ ہوا کرتا ہے۔ اگر کوئی جملہ مبین ہو تو مجازی معنی لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ سننے والہ ایک دم سمجھ جا تا ہے کہ اسے کیا کہا جا رہا ہے۔ قرآن خود ہی بتا تا ہے کہ اس کے احکام بالکل واضح ہیں مگر کچھ باتیں متشابہ ہیں۔ لوگ اسے غلط معنی پہناتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں۔ مگر اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جا نتا کہ ان کے اصل معنی کیا ہیں۔

  17. بھائی اگر غور کریں تو پہلی دو آیات میں جس میں ہزار برس کا ذکر ہے اس طرح کہا گیا ہے ۔۔ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔
    وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿47﴾

    ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔

    سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:

    يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾

    وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا ۔

    جبکہ آخری آیت میں ایسا بلکل نہیں کہا گیا بلکہ یہ کسی ایسے مقام کا ذکر ہے جو پچاس گنا زیادہ طویل ہے دنیا کے حساب سے ہوسکتا ہے کوئی سیارہ ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے عرش کا دن پچاس دن کے برابر ہو ہمارے

    1. دوسری اور تیسری آیت میں ایک ہی دن کا ذکر ہے، کوئی الگ الگ دن نہیں ہیں، اگر آپ اس تحریر پر کئے گئے تمام تبصرے بھی ملاحظہ فرما لیتے تو شائد آپ پر یہ بات واضح ہو جاتی، ابن عباس خود اس مقام پر حیران و پریشان ہیں، اور تفسیر جلالین میں اسے بالکل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ دوسری اور تیسری آیت میں ایک ہی دن کا ذکر ہے۔ تفسیر جلالین کی عبارت میں اوپر ایک تبصرے میں ذکر کر چکا ہوں، دوبارہ نقل کر دیتا ہوں:
      2) (يدبر الأمر من السماء إلى الأرض) مدة الدنيا (ثم يعرج) يرجع الأمر والتدبير (إليه في يوم كان مقداره ألف سنة مما تعدون) في الدنيا، وفي سورة “سأل” خمسين ألف سنة وهو يوم القيامة لشدة أهواله بالنسبة إلى الكافر، وأما المؤمن فيكون أخف عليه من صلاة مكتوبة يصليها في الدنيا كما جاء في الحديث. (تفسیر الجلالین، سورۃ السجدۃ، الاآیۃ :5)
      (3) «تعرج» بالتاء والياء «الملائكة والروح» جبريل «إليه» إلى مهبط أمره من السماء «في يوم» متعلق بمحذوف، أي يقع العذاب بهم في يوم القيامة «كان مقداره خمسين ألف سنة» بالنسبة إلى الكافر لما يلقى فيه من الشدائد، وأما المؤمن فيكون أخف عليه من صلاة مكتوبة يصليها في الدنيا كما جاء في الحديث. (تفسیر الجلالین، سورۃ المعارج، الآیۃ 4)
      جلالین ان آیات کا تعارض کیفیت میں فرق کے ذریعے رفع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مومن کو وہ دن ایک ہزار برس کے برابر محسوس ہوگا، اور کافر کو وہی دن پچاس ہزار سال کے برابر محسوس ہوگا، یعنی دن ایک ہی ہے۔ فرق کیفیت کا ہے۔

  18. ارے جناب، اتنی سی بات پر اتنا واویلا۔ آج ہمیں تھیوری آف ریلیٹوٹی (نظریہ اضافیت) کی بنا پر معلوم ہے کہ وقت ایک اضافی شے ہے۔ سورہ الحج اور سوہ السجدہ کی دونوں آیات "ہماری گنتی” کے حساب سے 1000 برس کی مدت کا ایک دن مقرر کرتی ہیں۔ جبکہ حقیقی مقدار (یا کسی اور اضافت کی بنا پر) اس کی پچاس ہزار برس ہوگی جیسا کہ سورہ المعارج کی آیت سے ظاہر ہے۔

  19. samjh men nahi ata k bat kaha se shuru karu mere paas urdu kybord nahi is li a ruman men bat kar raha hun alama ayaz nazami sahib k lia he 1 daleel k agar koi bat kar raha he k quran men mutshabihat or wazeh aayat hen to quran men 1 ye b ayat he k sare ka sara quran mutashabihat he or agar koi quran ki bat kar raha he allah ka hubdar ban k to aap ko 100 ayat mil sakti hen quran men tazad ki 1 websait he jaman shah.com is ka vizt kare or books dekhen shayd aap ko mazeed kuch mawad mil sake

    1. براہ مہربانی اس آیت کی نشاندہی فرما دیں جس میں سارے کا سارا قرآن متشابہات قرار دیا گیا ہے۔ نیز آپ سے سوال ہے کہ پوسٹ میں مذکور آیات کو اگر آیات متشابہات کے زمرے میں بھی شمار کر لیا جائے تو کیا اس طرح ان آیات میں موجود تضاد رفع ہو جاتا ہے ؟؟؟

  20. جب میں نے پہلی بار موبائل فون استعمال کرنا شروع کیا اس وقت مجھے فون کالز، ایس ایم ایس، نمبر کو موبائل میں محفوظ کرنا وغیرہ وغیرہ کا علم نہیں تھا۔ ایک دفہ مجھے کسی نمبر سے فون آیا کہ میں 8 لاکھ روپے جیت چکا ہوں۔ اس 8 لاکھ کو حاصل کرنے کا صرف ایک کلیہ اس کالر نے بتایا کہ وہ اس کال کے بارے میں مزید تحقیق نہ کرے اور نہ کسی سے یہ بات شئیر کرے بلکہ جتنا ممکن ہو سکےجلدی ان کے نمبر پہ4000 کا بیلنس لوڈ کروا کر فون کرے۔۔۔۔ جب میں نے 4000 روپے لوڈ کروا کر فون کیا تب اصلیت کا پتا چلا۔۔۔
    دوستو! مذہب بھی باالکل ایسی ہی موبائل کال کی صورت میں ہمیں وراثت میں ملی ہوئی ہے۔۔۔۔ کہ تحقیق نہیں کرنا۔۔۔ زیادہ نہیں سوچنا۔۔۔۔ فلاں سے نہیں پوچھنا۔۔۔۔ فلاں کے ساتھ شئیر نہیں کرنا۔۔۔۔۔

جواب دیں

47 Comments
scroll to top