Close

جو یہاں پیو بھی تو حلال ہے!!

(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا – بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں وہ بہت سا اختلاف پاتے۔ – النساء 82)

مسلمان قرآن کو اتنے مقدسانہ طریقہ سے پڑھتے ہیں کہ آیات کے عیب ظاہر ہی نہیں ہوپاتے مگر کیا مقدس کتابوں کو اس طرح کے معصومانہ طریقہ پڑھنا چاہیے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ خدا کی بجائے عقل کو حاضر ناظر جان کر اسے ناقدانہ نظر سے پڑھتے تو انہیں اوپر والی آیت کا مذاق سمجھ میں آجاتا، ورنہ بغیر ناقدانہ نظر کے اتنی مقدس کتابوں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے ہوپائے گا؟

آج ہم ایسے ہی ایک قرآنی تضاد پر بات کرنے لگے ہیں جو مدت تک ظلمائے اسلام میں فساد کا باعث رہا ہے.

(وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ – وَ مِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِیۡلِ وَ الۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡہُ سَکَرًا وَّ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ – اور تمہارے لئے چوپایوں میں بھی مقام عبرت و غور ہے کہ انکے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس کے درمیان سے نکال کر ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔ – اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق کھاتے ہو جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں انکے لئے ان چیزوں میں نشانی ہے۔ – النحل 66-67)

ان دو آیات میں ” الله ” اپنے بندوں کو دی جانے والی چند نعمتوں کا ذکر کر رہا ہے:

دودھ کی نعمت – چوپایوں کی نعمت – شراب کی نعمت جسے وہ انگور اور کھجور سے کشید کرتے ہیں اور رزق کی نعمت جو انہیں ان پھلوں کی صورت ملتی ہے.

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں جتلا رہا ہے کہ اس نے انہیں چوپائے، دودھ، کھجور اور انگور دئیے جس سے وہ شراب بناتے ہیں اور عمدہ رزق کھاتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اس میں عقلمندوں کیلئیے نشانی بھی ہے!!

یہ بیان شراب کو حرام قرار دینے والی آیت سے متصادم ہے جو کہتی ہے:

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ – اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ – المائدہ 90)

سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر شراب کو نعمت قرار دیتے ہوئے اسے اپنے جملہ نعمتوں میں شمار کرے اور پھر اچانک اس کے خلاف جاتے ہوئے اسے ” اعمال شیطان ” قرار دے دے؟

جب اللہ شراب کو اپنی نعمتوں میں شمار کر رہا تھا کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ کل وہ اسے اعمالِ شیطان بنا دے گا؟

تفسیر ابی بکر الجزائری میں ہے:

"یعنی کھجور اور انگور کے بعض پھلوں سے تم شراب بناتے ہو یعنی نشہ آور شراب اور یہ شراب کو حرام قرار دینے سے پہلے تھا”

ایسا ہی بیان تفسیر الطبری میں ہے:

"یہ آیت اس وقت اتری جب وہ شراب پی رہے تھے جو شراب کو حرام کرنے سے پہلے ہے”

نوٹ کریں کہ مفسر اسے شراب کو حرام قرار دیئے جانے سے قبل کا معاملہ قرار دے رہے ہیں مگر یہ بات نظر انداز کر رہے ہیں کہ اللہ اسے اپنی جملہ نعمتوں میں شمار کر رہا ہے؟ تضاد صاف ظاہر ہے جو اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مصنف کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کل کیا لکھنا ہے!!

یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کوئی کمیونزم کی خوبیاں شمار کرے اور پھر کل آکر کہے کہ کمیونزم شیطانی نظام ہے!!!!

یہ آیت بہت بڑی فقہی بحث کی وجہ بنی رہی ہے اور فقہاء نے اس پر خوب قلابازیاں کہائی ہیں، مثال کے طور پر احناف کہتے ہیں:

” سکرا سے مراد نشہ نہ دینے والی شراب ہے دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی نعمتیں اپنے بندوں کو جتلائی ہیں اور جتلانا حلال چیز پر ہوسکتا ہے حرام پر نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نشہ نہ دینے والی شراب پی جاسکتی ہے جب وہ نشہ آور ہوجائے تو جائز نہیں ”

صاف ظاہر ہے کہ آیت کی تفسیر کی بوکھلاہٹ نے انہیں شراب پینے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا مگر صرف اس صورت میں اگر وہ نشہ آور نہ ہو!!!

اس آیت کی وجہ سے امام سفیان الثوری اور ابراہیم النخعی نے شراب پینی شروع کردی تھی جو تفسیر القرطبی میں درج ہے:

"ابراہیم النخعی اور ابو جعفر الطحاوی نے اسے جائز قرار دیا اور وہ اپنے زمانے کے لوگوں کے امام تھے اور سفیان الثوری بھی اسے پیتے تھے”

یوں فریق مخالف جو اس آیت کو منسوخ قرار دیتا ہے بہت اچھلا اور احادیث سے دلائل دے دے کر صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جیسے "ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے” وغیرہ بلکہ بعض نے تو لفظ "سکر” کا معنی ہی بدل دیا اور اسے عام مشروب قرار دیا جیسے پیپسی مرنڈ اور سپرائٹ…..!!!

اس سارے جاہلانہ مذاق میں کوئی ان سے پوچھے کہ عقل کہاں ہے؟ کیا ان انہوں نے یہ آیت نہیں پڑھی:

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی – مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک ان الفاظ کو جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو۔ نماز کے پاس نہ جاؤ۔ – النساء 43)

کیا یہاں لفظ "سکاری” سے مراد نشہ نہیں ہے؟ یا اس کا مقام اور اور اُس کا مقام اور ہے؟

کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ آیت انگور اور کھجور کی بات کر رہی ہے جن سے شراب بنائی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ نے نبی سے روایت کیا "شراب ان دو درختوں سے ہے کھجور اور انگور”

اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ اپنے وسیع اور بلیغ لغت سے اس لغوی مسئلہ سے بچ نہیں سکتا تھا؟

جواب یقیناً ہاں میں ہے اسے بس لفظ "سکرا” کو لفظ "شراب” (عام مشروب) سے بدلنے کی ضرورت تھی اور یہ اشکال پیدا ہی نہ ہوتا:

” ومن ثمرات النخیل والاعناب تتخذون منہ شرابا طیبا ورزقا حسنا ان فی ذلک لایہ لقوم یعقلون ”

آپ نے دیکھا کہ کس طرح صرف ایک لفظ بدلنے سے سارا مسئلہ حل ہوگیا اور شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، اب کوئی بھی شراب کو حلال قرار نہیں دے سکتا کیونکہ اس طرح آیت میں شراب کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے اس طرح سفیان الثوری اور ابراہیم النخعی اس حرام سے بچ جاتے اور کوئی اس لفظ سے غلط مطلب نہ نکال سکتا.. مگر کیا یہ کام خدا کیلئیے مشکل تھا؟ یا اسے اپنے اس قول کے نتائج کی خبر نہیں تھی؟

یہاں کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ آیت جیسا کہ مفسرین نے بھی اوپر بیان کیا ہے شراب کو حرام کرنے سے پہلے کی ہے، ایسے خرد مند کو ہم کہیں گے کہ اس سے ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ اللہ نے شراب کو اپنی نعمتوں میں کیوں شمار کیا؟ کیونکہ یہ خبر ہے اور ابن عربی کے مطابق خبر منسوخ نہیں ہوتی، اگر اللہ جانتا تھا کہ وہ اسے کل حرام کردے گا تو اسے شراب کو اپنی نعمتوں میں شمار کرنے کیلئیے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا اس آیت میں شراب کا ذکر اللہ کی نعمتوں کے بیان کے ضمن میں ہوا ہے!!!

کوئی یہ اعتراض بھی کر سکتا ہے کہ "حسنا” کی صفت شراب پر لاگو نہیں ہوتی، ایسے چیمپئن کو بھی ہم یہ کہیں گے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس پر لاگو ہو یا نہ ہو اگر بفرضِ محال اس پر لاگو نہ بھی ہو تو بھی یہ بری قرار نہیں پائے گی کیونکہ شراب نعمتوں کی فہرست میں آئی ہے جو کہ عبرت کیلئیے ہیں یعنی "جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں انکے لئے ان چیزوں میں نشانی ہے”!!

خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایسا قرآنی جھول ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کتاب دنیا کی سب سے بڑی جعلسازی ہے اور قطعی طور پر آسمانی نہیں ہوسکتی، کاتب کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک دن اسے شراب کو حرام کرنا پڑے گا چنانچہ وہ اسے اللہ کی نعمتوں میں شمار کر گیا! اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہوتی تو اللہ ایسے تضاد میں کبھی نہ پڑتا اور ایسا لفظ استعمال کرتا جس سے قطعی شبہہ نہ ہوتا جیسے "شراباً طيباً”

9 Comments

  1. Muneeb Ahmed Sahil وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ – وَ مِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِیۡلِ وَ الۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡہُ سَکَرًا وَّ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ,(وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ – وَ مِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِیۡلِ وَ الۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡہُ سَکَرًا وَّ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ – اور تمہارے لئے چوپایوں میں بھی مقام عبرت و غور ہے کہ انکے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس کے درمیان سے نکال کر ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔ – اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق کھاتے ہو جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں انکے لئے ان چیزوں میں نشانی ہے۔ – النحل 66-67) ***بھائی ادھر شراب کہا گیا ہے،شراب عربی میں ہر شربت کو کہتے ہیں ،پیپسی اور کوک کو بھی شراب کہتے ہیں،سعودیہ میں کھجوروں کو گرینڈر میں ڈال کر اس میں دودھ مکس کرکے اور چینی ڈال کرشربت تیار کیا جاتا ہے،اس شربت کو کیا نام دینگے؟میں نے جدہ میں کئی بار زیتون کھا کر یہ شربت پیا ہے،انتہائی طاقتور ہوتا ہے،اور انگور کا بھی شربت ہی بنایا جاتا ہے،آج کل ٹِن کے ڈبوں میں بھی دستیاب ہوتا ہے،۔ اب دوسری آیات پر نظر ڈالیں***(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ – اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ – المائدہ 90)***یہاں لفظ خمر اور میسرہ استعمال ہوا ہے،بیئر پینے والے بھائی جانتے ہیں کہ بیئر الکحل اور الکحل سے پاک دونوں صورتوں میں آتی ہے،وہ چیز جس سے نشہ ہو اسے خمر کہتے ہیں،خمر کو شیطانی کام کہہ کر روکا گیا ہے،*

        1. قبلہ ہم نے تو فقط ڈاکٹر صاحب کی ❞تاویل❝ پر دو چھوٹے سے سوال اٹھائے ہیں گر ڈاکٹر صاحب ان کا جواب عنایت کردیتے تو ان پر اپنی غلط فہمی عیاں ہوجاتی، اس میں آپ نے نہ جانے ہٹ دھرمی کا پہلو کیونکر کشید کر لیا؟

        2. محترمی جناب جنگ صاحب!
          ڈاکٹر منیب احمد ساحل صاحب کا فرمانا ہے کہ اس آیت(النخل: 66-67) میں "شراب” (اردو والی) کا کہاں ذکر ہے؟
          سوال تو ڈاکٹر منیب احمد صاحب کے بیان پر اٹھتا ہے کہ( تتخذون منہ سکرا) سے وہ کیا مراد لے رہے ہیں، ڈاکٹر صاحب کا فرمانا ہے کہ اس آیت میں (سکرا) سے مراد شراب نہیں ہے۔ تو اب ڈاکٹر صاحب کو وضاحت کرنی چاہئے کہ لفظ (سکرا) سے کیا مراد ہے؟۔ مجھے اندازہ ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہوگا، اسی لئے ڈاکٹر صاحب خاموش ہیں۔
          جناب جنگ صاحب! تمام مکاتب فکر کا اس آیت میں اتفاق ہے کہ اس مذکورہ آیت میں (سکرا) سے مراد شراب ہے، اس میں اینڈرسن شا صاحب کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ کسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آپ خود بھی ذرا زحمت گوارا کریں اور تحقیق فرمالیں کہ اس آیت میں لفظ (سکرا) سے قرآن کی کیا مراد ہے۔ جرات تحقیق اپنی کسی بھی غلطی کے اعتراف میں کوتاہی نہیں کرے گی۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔
          مزید کوئی بات قابل وضاحت ہو تو کوئی تردد نہ فرمائیے گا، بلا جھجھک دریافت فرمائیں۔

          1. ڈاکٹر صاحب کی وضاحت ان کے تبصرے میں موجود ہے-آپ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ شراب کا لفظ صرف اصطلاحا نشہ آور مشروب کے لئے استعمال کیا جاےُ

جواب دیں

9 Comments
scroll to top