Close

الکلام الفرقان فی خزعبلات الدکتور جواد خان

لگتا ہے اس پانچویں فیل سے بڑے بڑے مومنین کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ میری ہر تحریر پر کوئی نہ کوئی مومن لمبا چوڑا رد لکھ مارتا ہے، شروع میں رد بڑے سادہ اور روایتی تھے، لیکن میرے سمجھانے پر کچھ فرق پڑا ہے، خصوصاً میرے عزیز دوست ڈاکٹر جواد خان صاحب کو اب ” ردود ” لکھنے کا سلیقہ آگیا ہے اور اب وہ صرف قرآن سے ہی نہیں بلکہ سابقہ مقدس کتابوں کی بھی خوب ورق گردانی کر کے دلائل پیش کرتے ہیں، پہلے کی طرح میری ” قرآن اور اسرائیلیات ” پر بھی دو عدد ردود منظرِ عام پر آئے، پہلا رد اگرچہ اچھا قرار دیا جاسکتا ہے مگر روایات سے ہٹ کر اس میں کوئی نیا پن نہیں تھا اس لیے میں نے بھی اسے درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، تاہم ڈاکٹر جواد خان صاحب کا رد اتنا کمال کا تھا کہ میں اسے نظر انداز نہ کر سکا، مجھے یہ اعتراف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انہوں نے ” رد ” کا حق ادا کردیا، مگر افسوس کہ انہوں نے میری جس تحریر کا رد لکھا اس کے اصل مقصد کو سمجھا ہی نہیں اور بات کسی اور نہج پر لے گئے، اگر وہ مضمون کے ” مضمون ” پر رہتے ہوئے بات کرتے اور اصل مدعے کو رد کرتے تو شاید میری بھی کچھ اصلاح ہوجاتی.

بہرحال جو بھی ہے، میرے عزیز جراح کو یقین تھا کہ میں ان کے ” رد ” کا ” رد ” ضرور لکھوں گا کیونکہ اپنی تحریر میں وہ جا بجا مجھ سے ٹیڑھے میڑھے سوالات کر کے مجھے ” رد ” لکھنے پر اکسا رہے تھے، اور مجھے یقین ہے کہ عوام کو بھی اس رد کے رد کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوگا، اور اتنی عوام کو مایوس کرنا میں گناہِ کبیرہ سمجھتا ہوں 🙂

تو چلیے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی زنبیل میں کیا کیا معجزات ہیں..

پہلا سوال یا اعتراض وہ یوں اٹھاتے ہیں:

” مکّی صاحب نے اپنے مضمون کی ابتدا قرانی آیات سے کی. طرفہ تماشہ یہ کہ انکے مضمون میں قرآن کی آیات جو کہ کفّار کے اظہار لاتعلقی کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں، موصوف نے انھیں کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام بنا دیا.  سورہ الانعام کی  آیات ٢٥ یا سورہ الانفال کی  آیت ٣١ میں الزام یہ نہیں تھا کہ قرآن کریم کوئی الہامی کتاب نہیں ہے اوریہودیوں کی کتاب کا چربہ ہے ( نعوذ و باللہ ) بلکہ کفّار مکّہ کا یہ اظہار لاتعلقی تھا کہ جس میں وہ کہتے تھے کہ یہ تم کیا گئے گزرے زمانوں کی باتیں کرتے ہو اور کیا پرانی داستانیں سناتے رہتے ہو ”

کیا مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں کفار نے یہ الزام نہیں لگایا کہ قرآن پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اس طرح کا کلام وہ خود بھی کہہ دیں؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ یہ کہانیاں انہوں نے پہلے بھی سن رکھی تھیں اور جب قرآن نے آکر وہی کہانیاں دوبارہ دہرادیں تو انہیں اس میں کوئی نیا پن نظر نہیں آیا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ یہ ” اساطیر الاولین ” پر مشتمل ہے جنہیں وہ خوب جانتے ہیں، یہ بات میرے فاضل دوست بھی مان رہے ہیں اور میرا مقصد بھی اسی بات کی طرف توجہ دلانا تھا.

” پتہ نہیں فاضل مضمون نگار کے یہاں درستگی اور اور خطا کا کیا مفہوم ہے مگر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ موجودہ الہامی کتب تحریف شدہ ہیں اور ان کتابوں میں تحریف ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ عیسائی علما بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے. بائبل شاید دنیا کی واحد کتاب ہے جس پر اتنی بار نظر ثانی ہو چکی ہے کہ جس کی نظیر کسی بھی الہامی کتاب کے لئے نہیں ملتی. یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کے حضرت مکّی جیسے فاضل شخص کی علم سے باہر ہوسکتی ہے ”

میں نے اس پورے مضمون میں کہاں کہا ہے کہ موجودہ الہامی کتابیں تحریف شدہ نہیں ہیں؟ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے؟

پھر میرے فاضل دوست تفسیر ابن کثیر سے اسرائیلیات کے حوالے سے کچھ اقتباس کر کے فرماتے ہیں:

” یہاں تفسیر ابن کثیر کے اقتباسات پیش کرنے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ اسرائیلیات کا دین اسلام میں کہاں تک دخل ہے اور اسکے نقل کرنے میں کن اصولوں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے ”

یہ میرے دوست کی تسلی کے لیے کافی ہوگا میرے لیے نہیں، کیونکہ اسرائیلیات کا دخل اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ میرے فاضل دوست سمجھتے ہیں، میرے مضمون میں جن اسرائیلیات کا تذکرہ کیا گیا تھا میرے فاضل دوست نے ان میں سے ایک کا بھی تسلی بخش جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، مثلاً میں نے کہا تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ شاہ سرجون الاکادی کا ہے، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ سورہ مائدہ کی آیت 45 میں وارد قانون در حقیقت حمورابی کے قوانین سے آیا ہے، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا قانون جاہلیت میں بھی موجود تھا، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حج جاہلیت کی ایک رسم تھی اور ایسے کئی دیگر الزامات لگائے تھے جن پر سارے مضمون کا دار ومدار تھا مگر میرے فاضل دوست کا یا تو تجاہل عارفانہ کمال کا ہے یا پھر وہ رد کرنے سے قاصر تھے.

اس سے آگے وہ فرماتے ہیں:

” مصدر اور خدائی پیغام ایک ہی ہے لہٰذا واقعات کا ایک جیسا نا ہونا زیادہ اچھنبے کی بات ہے بجائے واقعات کے ایک جیسا ہونے کے ”

نہیں جناب ان دونوں سے زیادہ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ واقعات کے مقامات اور کردار کہیں اور ثابت ہو رہے ہوں..

ڈاکٹر صاحب خاتم الانبیاء پر جہالت کا الزام لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

” یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے ”

یہ دنیا کا سب سے بڑا مذاق ہے، ایک طرف جس نبی کی شان میں دن رات قصیدے گائے جاتے ہیں اسی نبی کو ان پڑھ جاہل قرار دے کر اسے معجزے کا نام دے دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں انہیں جاہل کہنے والے خود سب سے بڑے جاہل ہیں (تعمیم ہے تخصیص نہیں)، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص نے لمبی چوڑی تجارت سنبھال رکھی ہو اور اسے پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو؟ اور کیا ” اُمی ” کا مطلب ان پڑھ ہے؟ کیا نبوت کا دراومدار وحی پر ہے یا پڑھنے لکھنے پر؟ جائیے اور ان کے ان پڑھ ہونے کے قوی ترین ثبوت جو آپ کو مل سکیں ڈھونڈ کر لائیے، پھر اس کے بعد میں آپ کو ثابت کردوں گا کہ وہ ان پڑھ جاہل نہیں تھے پھر بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ گستاخِ رسول کون ہے اور اس کے معیارات کیا ہیں..!؟

اس کے بعد میرے فاضل دوست کچھ بائبلی خرافات نقل کر کے فرماتے ہیں:

” اگر قرآن کریم کسی بھی کتاب کی نقل ہے تو یہ خرافات قرآن کریم میں کیوں نقل نہیں ہوئیں؟کیوں یہ کتابیں خدا کا ایک اعلیٰ و ارفع اور منطقی تصور پیش کرنے میں قرآن کریم کے برعکس ناکام ہیں؟ ”

میں نے کب کہا کہ میں ان کتابوں پر یقین رکھتا ہوں؟ اور کیا کسی کتاب میں خرافات کا نہ ہونا اسے مقدس بنا دیتا ہے؟ عجیب منطق ہے..!! اور کیا آپ کے خیال میں قرآن میں خرافات نہیں ہیں؟ اگر آپ کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو ایک نمونہ پیش کرنا چاہوں گا:

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ۙ﴿۸﴾ وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾ سورہ جن، آیت 8 اور 9
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسکو مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہوا پایا۔- اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ اب کوئی سننا چاہے تو اپنے لئے انگارہ تیار پاتا ہے۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ۙ﴿۶﴾ وَ حِفۡظًا مِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ ۚ﴿۷﴾ لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی وَ یُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ کُلِّ جَانِبٍ ٭ۖ﴿۸﴾ دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۙ﴿۹﴾ اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ ﴿۱۰﴾
بیشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے سجایا۔ اور ہر شیطان سرکش سے اسکی حفاظت کی۔ کہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے ان پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔یعنی وہاں سے نکال دینے کو اور انکے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ ہاں جو کوئی فرشتوں کی کسی بات کو چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگارہ اسکے پیچھے لگ جاتا ہے۔

وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابَ السَّعِیۡرِ ﴿۵﴾
اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی اور انکو شیطانوں کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

چلیے کسی فلکیات دان کے پاس چلتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ ہمارا قرآن کہتا ہے کہ ستارے اور شہابیے محض شیطانوں کو مار بھگانے کے آلوں کے سوا کچھ نہیں ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ ہمیں کتنے جوتے پڑتے ہیں..!؟ (ہم سے مراد میں بھی جوتے کھانے والوں میں شامل ہوں)

رہی بات کہ ” کیوں یہ کتابیں خدا کا ایک اعلیٰ و ارفع اور منطقی تصور پیش کرنے میں قرآن کریم کے برعکس ناکام ہیں ” تو قرآن کون سا کامیاب رہا؟ ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟ اور کیا اس صورت میں گائے ان پتھروں سے زیادہ فائدہ مند نہیں؟

پھر میرے فاضل دوست نے بائبل سے بقول ان کے کچھ ” فحش ” اقتباسات پیش کر کے فرمایا:

” کیا فاضل مضمون نگار کو انبیا علیھم صلواۃ السلام سے منسوب گھناؤنی ، بیہودہ اور انتہائی فحش داستانیں، ( معاذ الله) قرآن مجید میں نظر آتی ہیں ”

کیا آپ واقعی ایسا سمجھتے ہیں؟ یا آپ کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی اس قدر کس کے بندھی ہے کہ آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؟ آپ کی اجازت سے ایک اور نمونہ پیشِ خدمت ہے:

وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۷﴾ قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ ﴿۶۹﴾ قَالُوۡۤا اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۷۰﴾ قَالَ ہٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیۡۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾
اور آئے شہر کے لوگ خوشیاں کرتے [۵۶] لوط نے کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں سو مجھ کو رسوا مت کرو [۵۷] اور ڈرو اللہ سے اور میری آبرو مت کھوؤ [۵۸] بولے کیا ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا جہان کی حمایت سے [۵۹] بولا یہ حاضر ہیں میری بیٹیاں اگر تم کو کرنا ہے [۶۰] (سورہ الحجر)

یہ کیسے نبی ہیں جو لونڈوں کو بچانے کے لیے اپنی بیٹیاں اجتماعی آبرو ریزی کے لیے مسٹنڈوں کو پیش کر رہے ہیں؟ کیا یہ بے ہودہ اور انتہائی فحش داستان نہیں؟ مجھے پتہ ہے کہ آپ سورہ حجر کی آیت نمبر 71 کی کیا تاویل پیش کریں گے، میں چاہتا ہوں کہ آپ وہ تاویل پیش کریں کیونکہ لغوی، منطقی، اور سیاقی لحاظ سے اس احمقانہ تاویل کی دھجیاں بکھیرنے میں تبھی مزہ آئے گا.. اور ہاں یہ کہانی سابقہ مقدس کتابوں کے عین مطابق ہے.

میرے دوست مزید فرماتے ہیں:

” ان الزامات کو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے نہایت خوبصورت اور محکم دلائل کے ساتھہ رد کیا ہے. ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر آپ قرآن اور بائبل کا جائزہ لیں تو کی مقامات پران میں یکسانیت پائی جاتی ہے. لیکن اگر آپ انکا گہرائی سے تجزیہ کریں تو ان میں خفیف سا فرق نظر آئے گا. اس فرق کو اگر آپ سائنسی معلومات کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ٢ باتیں ثابت ہو جائیں گی . ایک قرآن کریم نے قصّوں کو نقل نہیں کیا ہے اور دوسری سائنسی معلومات کی روشنی میں قرآن کریم کی حقانیت بھی کھل کر ثابت ہو جاتی ہے ”

ڈاکٹر ذاکر نائک کی میں عزت کرتا ہوں، لیکن جہاں بات قرآن سے سائنس کشیدنے کی آتی ہے تو ان میں اور ہارون یحیی جیسے جعلساز میں کوئی فرق نہیں رہتا، ایسے لوگ ہمہ وقت ہر جدید سائنسی دریافتوں کو کیچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اور پھر اپنا سارا زور قرآن میں ایسی کسی آیت کی تلاش میں لگا دیتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ قرآن میں یہ جدید ترین علمی دریافت اگر ازل سے نہیں تو کم سے کم چودہ سو سال پہلے سے ضرور موجود تھی!! میرے خیال سے ماہرینِ علومِ ارض (Geology) حضرت موسی علیہ السلام کے سمندر کو اپنے عصا سے چیر دینے کے عمل کو سائنسی طور پر بیان کر کے انتہائی راحت محسوس کریں گے، نا ہی طبیعات دانوں اور کیمیاء دانوں کو سائنسی طور پر یہ سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ اچانک ” برد وسلام ” کیسے ہوگئی، نا ہی فلکیات دانوں کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی پش وپیش ہوگا کہ شہابیے اور دمدار ستارے دراصل شیطانوں کو مار بھگانے کے لیے کام آتے ہیں تاکہ وہ فرشتوں اور خدا کے درمیان ہونے والی گفتگو نہ سن سکیں..!؟

ہر جدید سائنسی دریافت منظر عام پر آنے کے بعد ہی قرآن سے کیوں برآمد ہوتی ہے؟ اسے دن رات طوطے کی طرح رٹنے والے ایسی سائنسی دریافتیں کیوں نہیں کر سکے؟ کیا سائنسدان قرآن کو پڑھ کر یہ سائنسی دریافتیں کرتے ہیں؟ نہیں جناب وہ تو قرآن کو مانتے ہی نہیں، تو پھر وہ ایسے کارنامے کیسے انجام دے لیتے ہیں؟ کیونکہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں جو اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس نہیں ہے، جب انسان نے ترقی کی منزلیں اپنی عقل کے استعمال سے ہی طے کرنی ہیں تو مقدس کتابوں میں سائنس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہندو بھی اپنی مقدس کتابوں سے سائنس برآمد کرلیتے ہیں تو کیا آپ مان لیں گے کہ یہ خدا کی اتاری ہوئی کتابیں ہیں؟ یہودی اور عیسائی بھی اپنی اپنی مقدس کتابوں سے سائنس برآمد کرتے ہیں تو پھر آپ انہیں کیوں نہیں مانتے؟

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں:

” بائبل ( پیدائش ١ : ٣-٥ )  کہتی ہے کہ خدا نے دن اور رات کی تخلیق پہلے دن کی.دوسری طرف  بائبل کے ہی مطابق ( پیدائش – ١ : ١٤-١٩ )  ستارے چوتھے دن تخلیق کے گئے. جو کہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہے. اگر ستارے نہیں ہوں تو دن اور رات کا ہونا ممکن نہیں. دن اور رات کا ہونا سورج کے بغیر ممکن نہیں. قران کریم اس کے برعکس اس طرح کا کوئی بیان دیتا نظر نہیں آتا. اگر فاضل مضمون نگار کو اس طرح کے کسی بیان کا علم ہوتا تو مجھے قوی یقین تھا کہ وہ ایک لمحہ ضایع نہیں کرتے اپنا فیصلہ سنانے میں. سوال پھر وہیں آجاتا ہے کہ اگر قران کریم کسی کتاب کی نقل ہے تو یہ مضحکہ خیزیاں قران میں کیوں نہیں؟ ”

بھئی دوسرے کی آنکھ میں تنکا بھی ہو تو نظر آ جایا کرتا ہے، اور اپنی آنکھ میں شہتیر بھی ہو تو نظر نہیں آتا، چلیے میں آپ کو ایسی ہی ایک مضحکہ خیزی قرآن سے نکال کر دیتا ہوں:

قُلۡ اَئِنَّکُمۡ لَتَکۡفُرُوۡنَ بِالَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ تَجۡعَلُوۡنَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ ذٰلِکَ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۚ﴿۹﴾ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ ﴿۱۱﴾ فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ؕ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿۱۲﴾
کہو کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور بتوں کو اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سامان معیشت مقرر کیا سب چار دن میں۔ اور تمام طلبگاروں کے لئے یکساں۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں۔ پھر اس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اسکے کام کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں یعنی ستاروں سے سجایا اور شیطانوں سے محفوظ رکھا۔ یہ اسی زبردست باخبر کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں۔

یہاں پتہ چلتا ہے کہ پہلے زمین دو دن میں بنائی گئی، پھر پہاڑ اور سامان معیشت چار دن میں بنائے گئے، (یعنی وہ دو دن جو زمین کو بنانے میں صرف ہوئے ان میں حیرت انگیز طور پر پہاڑ شامل نہیں تھے!!)، پھر سات آسمان دو دن میں بنائے، یعنی زمین، پہاڑ اور سامانِ معیشت چھ دن میں بنائے گئے جبکہ سات آسمان دو دن میں بنائے گئے، کیا یہ معقول بات ہے کہ زمین جیسا ادنی سا سیارہ جس کی اس کائنات کی وسعت کے سامنے کوئی وقعت نہیں کو بنانے میں چھ دن صرف ہوئے جبکہ سات آسمان بشمول اپنی وسعتوں اور کہکشاؤں کے صرف دو دن میں بنا لیے گئے!؟ اور اگر زمین اور تمام طلبگاروں (مخلوقات) کے لیے سامانِ معیشت آسمانوں سے پہلے بنائے گئے تو بغیر سورج کے وہ کیسے زندہ تھے!؟ چلیے اسی تناظر میں ایک اور تضاد دیکھتے ہیں:

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾ رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾ وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾ وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾ اَخۡرَجَ مِنۡہَا مَآءَہَا وَ مَرۡعٰہَا ﴿۪۳۱﴾ وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا ﴿ۙ۳۲﴾ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿ؕ۳۳﴾
بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟ اللہ نے اسکو بنایا۔ اس کی چھت کو اونچا کیا پھر اسے برابر کر دیا۔ اور اسی نے رات تاریک بنائی اور دن کو دھوپ نکالی۔ اور اسکے بعد زمین کو پھیلا دیا۔ اسی نے زمین میں سے اسکا پانی نکالا اور چارہ اگایا۔ اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے کیا۔

اب یہاں آسمان زمین سے پہلے بنایا گیا!! مگر مجھے یقین ہے کہ یہ کھلے تضاد ان شاء اللہ میرے جراح کے ایمان کو قطعی متزلزل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ الحمد للہ وراثتی مسلمان ہیں، اور عقل استعمال کرنے سے خدا نے سختی سے منع کر رکھا ہے.

” چاند اور سورج دونوں روشنی دیتے ہیں ” کے عنوان کے ذیل میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:

” بائبل کے مطابق ( پیدائش – ١ : ١٦ ) ” خدا نے دو روشنیاں تخلیق کیں. بڑی روشنی دن میں اجالا کرتی ہے اور چھوٹی روشنی رات میں ” جبکہ سائنسی طور پر یہ بات صاف ہے کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں لہٰذا اسکی روشنی کے بارے میں تخلیق کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے.کیا فاضل مضمون نگار جانتے ہیں کہ قران کریم چاند اور سورج کی روشنیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ قرآن کریم سورہ نوح میں کہتا ہے کہ :

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ( ٧١ : ١٦ )
اور چاند کو ان میں (زمین) کا نور بنایا ہے اور سورج کو چراغ ٹھیرایا ہے.

کیا عربی میں مہارت رکھنے والے مکّی صاحب بتانا پسند کریں گے کے قرآن کریم میں سورج اور چاند کی روشنیوں کے حوالے سے الگ الگ الفاظ کیوں استعمال ھوۓ؟  چاند کے لئے قران کریم میں قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسکی روشنی کے لئے “منیر ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عکسی روشنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. کیا فاضل مضمون نگار بتانا پسند کریں گے کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم کو چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت کس نے بتائی تھی کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے ؟ پھر وہی سوال کہ اگر قرآن کریم نقل ہے تو یہ کیسی نقل ہے کہ جو سائنسی غلطیوں کو نقل نہیں کرتی ؟ ”

یہاں جراح صاحب نہ صرف مجھے چونا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اپنی ہی باتوں میں تضاد کا شکار ہیں، آیت کے ترجمہ میں وہ کہتے ہیں کہ چاند زمین کا نور ہے تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ ” اسکی روشنی کے لئے “منیر ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے "، کوئی مجھے بتائے گا کہ مذکورہ آیت میں لفظ ” منیر ” کہاں ہے؟

اور چونا مجھے یوں لگا رہے ہیں کہ ترجمہ میں قوسین میں لفظ ” زمین ” فٹ کر رہے ہیں جو کہ سیاق وسباق کے لحاظ سے بالکل غلط ہے، یہ تو وہی بات ہوگئی کہ "فویل للمصلین ” کہ نمازیوں کی خیر نہیں 🙂 ، اس آیت کا مفہوم پچھلی آیت کے بغیر ناقص ہے، دیکھیے:

اَلَمۡ تَرَوۡا کَیۡفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ جَعَلَ الۡقَمَرَ فِیۡہِنَّ نُوۡرًا وَّ جَعَلَ الشَّمۡسَ سِرَاجًا ﴿۱۶﴾ (سورہ نوح)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں۔ – اور چاند کو ان میں روشن بنایا ہے اور سورج کو چراغ بنا دیا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ جو اوپر تلے سات آسمان بنائے گئے ہیں چاند کو ” ان میں ” (فِیۡہِنَّ) روشن بنایا ہے اور سورج کو چراغ، یعنی یہاں جو چاند اور سورج ہیں وہ ان ساتوں آسمانوں کے درمیان کہیں پر واقع ہیں اور انہیں روشن اور منور کر رہے ہیں!! یہ ہمارے جانے پہچانے چاند اور سورج نہیں ہیں، سو یہ قرآنی تضادات میں سے ایک اور تضاد ہے، روشنیوں کے حوالے سے الگ الگ الفاظ کے استعمال کو تو رہنے ہی دیجیے.

ڈاکٹر صاحب ” آدم پہلے انسان تھے جو ٥٨٠٠ سال پہلے دنیا میں تھے ” کے عنوان کے ذیل میں فرماتے ہیں:

” جبکہ علوم آثار قدیمہ اور ارضیات کے مطابق ١٠ ہزار سال یا اس سے بھی پہلے تک انسان کی اس زمین پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں. بائبل کے اس بیان کے برعکس قرآن کریم میں اس طرح کا کوئی بیان نہیں جس میں انبیاء کے درمیان زمانوں کا درست وقت بتایا گیا ہو. کیا فاضل مضمون نگار یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا چیز تھی جسے قرآن کریم کو اس بظاھر دلچسپ تاریخ کو نقل کرنے سے روکا ؟ ”

بڑا ہی سادہ سا جواب ہے، یقیناً بائبل کی کاربن کاپی بنانا مقصود نہیں تھا… ہے نا..! اور کیا پتہ اس وقت یہ باتیں بائبل میں ہوں ہی نا، بعد میں ڈالی گئی ہوں!

ڈاکٹر صاحب کا ایک اور قابلِ غور اعتراض کہ:

” تلمودی اور مدراشی اسرائیلیات کے ذیلی عنوان میں حضرت مکّی نے سورہ نمل کی آیت ١٨  کے حوالے سے ابن کثیر سے متعلق آدھی بات نقل کی ہے حالانکہ اگر پوری تحریر کا حوالہ دیتے تو بات صاف ہوجاتی کہ ابن کثیر نے کیا بات اور کیوں کی. آگے چل کے ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

” نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑیے کے برابر تھی.ممکن ہے کہ اصل لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی سے وہ ذیاب لکھہ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا “ ”

پہلی بات تو یہ ہے کہ کتابت کی یہ غلطیاں کہاں کہاں واقع ہوئی ہیں؟ کوئی اس کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اس طرح جملہ تفاسیر واحادیث اپنے آپ ہی مشکوک ہوجاتی ہیں کہ ان میں کتابت کی غلطیوں کی کوئی ضمانت نہیں، دوسری بات یہ کہ جہاں ڈاکٹر صاحب کا منقولہ بیان موجود ہے وہیں پر یہ بھی لکھا ہے کہ:

ومن قال من المفسرين : إن هذا الوادي كان بأرض الشام أو بغيره ، وإن هذه النملة كانت ذات جناحين كالذباب ، أو غير ذلك من الأقاويل ، فلا حاصل لها .
” مفسرین میں سے کچھ نے کہا: کہ یہ وادی شام کی زمین یا کہیں اور تھی، اور یہ کہ اس چیونٹی کے مکھیوں کی طرح پر تھے، اور اس طرح کی دیگر باتیں، تو یہ باتیں غلط (لا حاصل) ہیں.

یعنی ابن کثیر خود ہی دیگر مفسرین کی اس تفسیر کو کہ یہ چیونٹی مکھی کے برابر تھی مسترد کر رہے ہیں اور بھیڑیے والی بات پر قائم ہیں، اس طرح میں نے درست ترین تفسیر پیش کی جسے میرے فاضل دوست ناقص بیان نقل کر کے قاری کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ثبوت کے طور پر تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر دیکھیے.

ڈاکٹر صاحب اسی طرح کا ایک اور الزام بھی لگاتے ہیں کہ:

” پھر آگے چل کر صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ھوۓ گول مول  بات کی ہے کاش جناب مکّی اس حدیث کا حوالہ بھی دے دیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟ ”

شاید میرے فاضل دوست کو حدیث کے آخر میں بارہ (12) کا عدد نظر نہیں آیا جو حوالے کے لیے تھا، خیر جب آپ جانتے ہی ہیں کہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے تو پھر اعتراض کس بات کا؟ اس طرح تو حدیث اور قوی ہو رہی ہے اور میری بات کو مزید اثبات مل رہا ہے.

حضرت نوح کی عمر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب گویا ہیں کہ:

” میرا سوال جناب مکّی سے سائنس کے ادنیٰ طالبعلم کی حثیت سے یہ ہے کہ عقل ٩٥٠ سال زندہ رہنے کو کیوں تسلیم نہیں کرتی ؟ کیا انکے پاس کچھ ایسے سائنسی حقائق ہیں جن کی مدد سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ٩٥٠ سالہ زندگی نا ممکنات میں سے ہے ”

یہی سوال میرا ان سے ہے کہ کیا آپ ایسے سائنسی دلائل پیش کر سکتے ہیں کہ کسی انسان کا 950 سال زندہ رہنا ممکن ہے؟ جہاں تک عقل کے تسلیم کرنے کی بات ہے تو آپ قرآن میں آئی کس کس چیز کو عقلیا سکتے ہیں؟

اب ڈاکٹر صاحب کے سب سے بڑے ایمان افروز جھوٹ کی طرف آتے ہیں جسے وہ ” فرعون اور اسکے لشکر کی غرقابی ” کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں اور جسے وہ بقول ان کے ” رعمسيس دوئم ( Merneptah ) کی لاش کی دریافت اور اسکی موت کے سلسلے میں ہوئی جدید طبّی تحقیقات ” قرار دیتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رمسیس دوم کی ممی ہی دراصل موسی (علیہ السلام) کا فرعون ہے اور یہ کہ رمسیس دوم کی لاش فرانس لے جائی گئی جہاں ڈاکٹر موریس بوکلے نے جو مسلمان ہوگئے تھے لاش پر تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ ” اسکی موت کھوپڑی اور گردن کی ہڈیاں ٹوٹنے سے ہوئی ہے.لاش پر نمک کی تہہ اس بات کا ثبوت تھی کہ اسکی موت ڈوبنے اور پانی کے انتہائی شدید دباؤ کا نتیجہ تھی ” جس سے علمی طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نہ صرف رمسیس دوم ہی فرعون ہے بلکہ سورہ یونس کی آیت نمبر 92 کی حقانیت بھی ثابت ہوجاتی ہے چنانچہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن بالیقین اللہ تعالی کی ہی اتاری ہوئی کتاب ہے.

جس کسی نے بھی یہ ” ایمان افروز ” قصہ گھڑا اسے داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمان اندھا ہوتا ہے، اور جب انسان کی بنیاد ہی خرافات کے یقین پر کھڑی ہو تو ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح الزام نہیں دیا جاسکتا کہ جب ان کا خدا ہی عقل سے فارغ ہو تو اس کے ” عباد ” پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنی عقل استعمال نہ کریں..!!

کیا قرآن کی حقانیت کے ثبوت کے لیے فرعون کی لاش کا دریافت ہونا لازمی تھا؟ اگر لاش دریافت نہ ہوتی تو کیا قرآن پر شبہات کے سائے منڈلاتے رہتے؟ اور اگر اب یہ ثابت ہوجائے کہ رمسیس دوم موسی (علیہ السلام) کا فرعون نہیں ہے تو کیا آپ قرآن کو مسترد کردیں گے؟

میرے جراح کا دعوی ہے کہ وہ سائنس کے طالب علم ہیں مگر اس جھوٹ کو داغتے اور لوگوں میں جہالت تقسیم کرتے وقت انہوں نے اس بات کی تصدیق کرنے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ ایمان ہی کافی ہے بھلے وہ جھوٹ پر کھڑا ہو..

چلیے اس ایمان افروز جھوٹ کا بھی پردہ فاش کیے دیتے ہیں:

لندن سے شائع ہونے والے سعودی عرب کے مشہور اخبار الشرق الاوسط کی 5 فروری 2005 کی خبر کے مطابق مصر کے وفاقی وزیر برائے آثارِ قدیمہ ڈاکٹر زاہی حواس نے کہا ہے کہ:

” واضاف انه بحسب دراسة القرآن الكريم، يتبين ان فرعون الخروج هو «رمسيس الثاني»، بالرغم من النتيجة التي توصل اليها الفرنسيون، عندما قاموا بفحص المومياء في الثمانينيات، والتي اشارت الى انه ليس فرعون الخروج، لعدم وجود آثار للغرق في موميائه. ”
” انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ قرآنِ کریم کے مطابق فرعون «رمسیس دوم» ہے تاہم اسی کی دہائی میں فرانسیسیوں کی جانب سے ممی کی جانچ سے یہ پتہ چلا کہ وہ فرعون نہیں ہے کیونکہ اس کی ممی میں ڈوبنے کے کوئی آثار نہیں پائے گئے تھے ”

یہی خبر عربیک نیوز آرکائیو میں دیکھیے

ڈاکٹر زاہی حواس علوم آثار قدیمہ کے مایہ ناز عالم ہیں، مصریات کے حوالے سے کوئی بھی دستاویزی فلم ان کی موجودگی کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے، نیشنل جیوگرافک پر انہیں اکثر دیکھا جاسکتا ہے، اور میرے خیال سے وہ ڈاکٹر موریس بوکلے جیسے جعلساز سے زیادہ قابلِ اعتبار ہیں، یہ جعلسار کتنا بڑا مسلمان تھا، کتنے حج کیے، کتنے عمرے کیے، کتنی نمازیں پڑھیں یہ ایک الگ موضوع ہے جسے یہاں زیرِ بحث لانا بے محل ہے، تاہم ڈاکٹر زاہی حواس کے الفاظ قابل غور ہیں کہ قرآن کے مطابق فرعون رمسیس دوم ہی بنتا ہے لیکن درحقیقت وہ فرعون ہے ہی نہیں، اب یہاں مومنین کی قرآن کی حقانیت کے بارے میں کیا رائے ہوگی؟

عقیدے پر پڑنے والی اس ضربِ کاری کے لیے معافی چاہتا ہوں مگر سچ سچ ہوتا ہے اور سر چڑھ کر بولتا ہے.

مجھے احساس ہے کہ یہ تحریر انتہائی قابلِ اعتراض ہے، مقصد کسی کے جذبات یا عقیدے کا مذاق اڑانا نہیں تھا، اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو میں دلی طور پر ان سے معذرت چاہتا ہوں، میرا مقصد محض میرے محترم دوست ڈاکٹر جواد خان کی ” بحث برائے بحث ” کے لیے شروع کی گئی تحریر کا جواب دینا تھا جس میں انہوں نے بجائے سابقہ تحریر کے ” مضمون ” کا رد کرنے کے بے وجہ اور بے دلیل الزامات لگائے اور میری تحریر کے مقصد کو نہیں سمجھا، مزید یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اگر کیڑے ہی نکالنے ہوں تو انسان خدا میں بھی کیڑے نکال سکتا ہے، میری ڈاکٹر صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے، وہ میرے لیے اب بھی محترم ہیں، مجھے یقین ہے وہ دل پر نہیں لیں گے.

وما علینا الا البلاغ

نوٹ: میں نے اس تحریر میں موجود کسی بھی قرآنی آیت کا خود سے ترجمہ نہیں کیا ہے، سارا ترجمہ یہاں سے لیا گیا ہے.

44 Comments

  1. muneer aap nai jo nukta uthaya hai mai us say muttafiq hun .mere andar ka emaan muhe bhi sab se phele ye sochne par majboor krraha hai k (agar imaniyaat ki justujo k liye emaniyaat say hut kr sochna pare ga tu aysa krna sahe hoga or estarhan krne se emaaniyaat par koi farq nai pare ga).hawa-se-khamsa mai muqeed shay k balbote par jab aap ye sub kaise soch skte hen or agar aap soch skte hen jaisa k aap k bayaanat mai wase nazar araha hai.or agar aap ko ye mehsoor horaha hai k aap ka shauoor qadeem zamane k sub se bare janwar se bhi bara hogaya hai tu tu wo apni us qadamat k balbote par us qadeem door tk rasai kiun nahe krparaha.jawad sb tu theek hai mashallah emaniyaat he misalain de kr baat krrahe hen lekn janab Anderson Shaw sb ka yehe nahe pata chal paraha k ye emaniyaat ki taraf hen ya koi or waje hai.agar emaniyaat ki taraf hen tu tu apni emanitaat ko pehle baray mehrbani waze toor par zahir karain eysa naho k jo log aap ko jawab derahe hen unhe ye pata chale k aap dehrye hen or sari mehnat pai pani phr jae aap ki..

  2. آپ کی "تحقیق” کے مطابق قرآن کا کتنے فیصد حصہ ہے جو "تحریف” اور "بشری تصنیف” پر مبنی ہے؟
    غالباً آپ محمدﷺ کے نبی اور رسول ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ ایک ایسے شخص کے نبی ہونے پر ایمان ہی کیوں رکھتے ہیں جو آپ کے نزدیک کلام الہیٰ میں تحریف کا مرتکب ہوچکا ہے؟ (معاذ اللہ)

          1. چلئے پھر آپ کے دعووں کی فہرست تو میں ملاحضہ کرچکا ہوں۔ جب آپ اپنے دعووں کے حق میں ثبوت و شواہد اور دلائل برآمد کریں گے پھر حاضری دوں گا۔

  3. السلام علیکم،
    اینڈرسن شا بھائی ذرا امّی کے مطلب کے بارے میں بھی تو کچھ بتائیں.
    میری معلومات تو ظاہر ہے کہ سیرت کی کتب کے مطالعے تک ہی محدود ہیں اور میرے محدود مطالعے کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے. واضح رہے کہ اس کا مطلب انہیں نعوذ باللہ جاہل قرار دینا نہیں ہے. الرحیق المختوم میں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف شاعری کرنا نہیں جانتے تھے بلکہ وہ اسے ناپسند بھی کرتے تھے، لیکن عربی زبان پر انکی دسترس اور انکی فصاحت و بلاغت بے مثل تھی.

    جہاں تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کا تعلق ہے تو اس سے متعلق پہلی شہادت تو پہلی وحی کے وقت ہی کی ہے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنے کا کہا تھا یعنی اقراء. اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ ما انا بقاری، یعنی میں پڑھ نہیں سکتا.
    دوسرا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے جب قریش کے ساتھ معاہدے کو تحریر کرتے ہوئے حضرت علی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد الرسول اللہ لکھا تھا. اس پر قریش کے سرداروں نے اعتراض کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے رسول اللہ والے الفاظ کو حذف کرنے کے لیے کہا جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے. اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ان الفاظ کی نشاندہی کرنے کو کہا اور حضرت علی کے نشاندہی کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے رگڑ کر ان الفاظ کو مٹا دیا اور بعد میں اس کی جگہ حضرت علی نے محمد بن عبد اللہ لکھ دیا.
    آپ کا اس تاریخی شہادت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

    1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پڑھ ثابت کرنے کے لیے بعینہ یہی دلائل پیش کیے جاتے ہیں جو آپ نے نقل کیے ہیں حالانکہ ان کا مطلب قطعی وہ نہیں بنتا جو بیان کیا جاتا ہے بلکہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے، ان دلائل سمیت سیرت میں ایسے بہت سارے واقعات موجود ہیں جن سے اس ابہام کو تسلی بخش طریقے سے دور کیا جاسکتا ہے، لیکن معاملہ پوری ایک پوسٹ کا متقاضی ہے، کچھ وقت دیجے ان شاء اللہ اس پر ضرور لکھوں گا 🙂

  4. مجھے قعطا اندازہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر جواد کی تحریر آپ کو ایک عدد رد لکھنے پر مجبور کر دے گی. واہ. اس پر ڈاکٹر جواد کو داد نہ دینا نا انصافی ہوگی. عثمان کے اٹھائے گئے سوالات اگرچہ اپنی جگہ پر اہم ہیں اور امید ہے آپ حنبلی ہونے کے ناتے سے حسب توقع جوابات دیں گے، مگر کیا آپ اپنے قارئین کی سہولت کے لئے کچھ ریفرنس پوائینٹس کا تعین کر سکتے ہیں جن کو مد نظر رکھ کر بات آگے بڑھائی جائے؟
    قرآن میں اسرائیلیات ہیں، اس میں جو قصے ہیں وہ آپ کی نظر میں مشکوک ہیں. ان کو عقل نہیں مانتی وہ اساطیر الاولین ہونے کی وجہ سے بھی قابل اعتبار نہیں.
    پرانے مذہبی صحائف بارے آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ انجیل؟ تورات؟ زبور؟ کیا یہ کتب درست ہیں یا غلط؟
    اگر ان سب کتب میں سے کسی ایک کو ریفرنس ٹیکسٹ لینا پڑے تو کس کا انتخاب کرنا چاہئے.

    آپ کی گشتہ کئی تحاریر سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ آپ اپنے قارئین کو اپنی عقل کے استعمال کا پیغام دے رہے ہیں. کم عقلی اور بے عقلی کا پیمانہ بھی براہ مہربانی بیان کر دیجئے. کس کی عقل ایک ریفرنس پوائینٹ تصور کی جائے گی؟ کیا عقل کے استعمال کے لئے مذہب، مذہبی کتب اور خدا کا انکار لازمی ہے؟

    اگر سائینس اور عقل میں کسی ایک جگہ پر تصادم پیدا ہوتا ہو تو کس کو ریفرنس پوائنٹ لینا ہوگا؟
    دیکھیں، یہ سوالات مضحکہ خیز سہی ، مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر بحث کے آغاز سے پہلے بحث کی ان جہات کا تعین کر دیا جاتا. اب ڈاکٹر جواد اور آپ میں اختلاف ہے، وہ ریفرنس ٹیکسٹس پر بھی نظر آتا ہے. ڈاکٹر صاحب قرآن کو ریفرنس ٹیکسٹ لے رہے ہیں، آپ کو قرآن کی ویلیڈیٹی پر اعتراض ہے. کم از کم مجھے تو یوں لگا. کیونکہ اگر آپ کی گزشتہ تحاریر صرف کسی اور تحریر کا ترجمہ بھی تھیں تو آپ کی طرف سے کوئی ڈس کلیمر وہاں نظر نہیں آیا.

    اگر ان باتوں کا تعین ہو جائے تو اچھا ہوگا، شائد ہم سب کوئی با مقصد گفتگو کرنے کے قابل ہوجائیں.

    1. ” مگر کیا آپ اپنے قارئین کی سہولت کے لئے کچھ ریفرنس پوائینٹس کا تعین کر سکتے ہیں جن کو مد نظر رکھ کر بات آگے بڑھائی جائے؟ ”

      یہ قوم کبھی کسی بات پر متفق ہوسکی ہے جو میری متعینات کو تسلیم کر لے؟

      ” پرانے مذہبی صحائف بارے آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ انجیل؟ تورات؟ زبور؟ کیا یہ کتب درست ہیں یا غلط؟ ”

      اس کا جواب اوپر تحریر میں دے چکا ہوں..

      ” اگر ان سب کتب میں سے کسی ایک کو ریفرنس ٹیکسٹ لینا پڑے تو کس کا انتخاب کرنا چاہئے. ”

      اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں..

      ” کم عقلی اور بے عقلی کا پیمانہ بھی براہ مہربانی بیان کر دیجئے ”

      تحریر کے آخر میں عقل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے برآمد ہونے والے نتیجے اور اس کے دو رس اثرات آپ نے ملاحظہ کر ہی لیے ہوں گے، مجھے امید ہے آپ کو پیمانہ وضع کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی.

      ” کس کی عقل ایک ریفرنس پوائینٹ تصور کی جائے گی؟ ”

      میرے خیال سے کرہ ارض پر صرف ایک ہی جانور ہے جس میں عقل کے جراثیم پائے جاتے ہیں 🙂

      ” کیا عقل کے استعمال کے لئے مذہب، مذہبی کتب اور خدا کا انکار لازمی ہے؟ ”

      یقیناً نہیں، لیکن جو عقل سے متصادم ہو اسے مسترد کردینا چاہیے..

      ” اگر سائینس اور عقل میں کسی ایک جگہ پر تصادم پیدا ہوتا ہو تو کس کو ریفرنس پوائنٹ لینا ہوگا؟ ”

      سائنس اور عقل میں کوئی تصادم نہیں ہے..

      باقی میرا اور ڈاکٹر صاحب کا اختلاف کوئی حیران کرنے والی بات نہیں، جہاں دو لوگ ہوں گے وہاں اختلاف تو ہوگا ہی، رہا ترجمے کا معاملہ تو اس تحریر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

      1. جب تک زیر بحث موضوع کے لئے ریفرنس پوائینٹس کا تعین نہیں ہوگا، ہم کسی ایک بات پر کبھی متفق نہ ہوں گے. آپ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا بیٹھیں گے اور قریب ہی کسی اور مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے آپ کے بارے بہت اچھے فتاوی نازل ہو رہے ہوں گے.
        اور ہاں قرآن بارے میرے استفسار کو آپ پھر گول کر گئے. میں نے توراۃ، زبور اور انجیل کے ساتھ ساتھ قرآن کے بارے میں بھی پوچھا تھا.

        والسلام

          1. کوئی بات نہیں دوبارہ پوچھنے میں کوئی حرج نہیں ہے.

            کیا قرآن کو آپ ایک ریفرنس ٹیکسٹ تسلیم کرتے ہیں؟

        1. یقینا تسلیم کرتا ہوں، مگر صرف ایک مسلمان کے لیے، ایک غیر مسلم چونکہ اسے مانتا نہیں اس لیے یہ اس کے لیے ریفرنس نہیں ہوسکتا، ایسے لوگوں سے حجت اور منطق سے بات کرنی چاہیے اور یہی خیال ابن رشد کا بھی ہے..

          1. ابن رشد اور اس کے خیال کے بارے میں تو میں زیادہ نہیں جانتا، اور شائد کچھ بہت ضروری مصروفیات کے باعث ان کو وقت بھی نہ دے سکوں، مگر مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ آپ قرآن کو ایک ریفرنس ٹیکسٹ تسلیم کرتے ہوئے بھی اپنی قرآن اور اسرائیلیات والی پوسٹ میں قرآن کے متن پر بظاہر شدید اعتراضات لگاتے نظر آتے ہیں.

            کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آپ اسے ریفرنس ٹیکسٹ تسلیم تو کر رہے ہیں، مگر اس پر اعتراض بھی کئے جا رہے ہیں؟
            ایسا کیوں ہے؟
            براہ مہربانی اس پر روشنی ڈال دیجئے.

          2. دیکھیے وہ تحریر غیر جانبداری سے لکھی گئی تھی، ایک مسلمان کی حیثیت سے اس اچانک اترنے والی افتاد سے میں بھی پریشان ہوں اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہوں، آپ میری غیر جانبداری پر احتجاج کر سکتے ہیں لیکن آپ کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس مسئلے کے بارے میں نے آپ کو آگاہ کیا جو یقیناً یہاں کسی کے علم میں نہیں تھا، ہمارے علماء کو چاہیے کہ وہ بجائے اپنا وقت یہ سوچنے میں ضائع کریں کہ مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں، توسل جائز ہے یا نہیں، کچھ یہاں بھی اپنا سر دیں..

          1. معصوم کو جلنے کا احساس نہ ہو تو ایوولیوشنسٹ بن جاتا ہے اور کریئیشنسٹ کو دقیانوس کہنا شروع کردیتا ہے ۔

  5. سرجون الاکاوی کے بارے میں جو لنک آپ نے دیا ہے وہاں یوں لکھا ہے۔

    Stories of Sargon’s power and that of his empire may have influenced the body of folklore that was later incorporated into the Bible. A number of scholars have speculated that Sargon may have been the inspiration for the biblical figure of Nimrod, who figures in the Book of Genesis as well as in midrashic and Talmudic literature.[12] The Bible mentions Akkad as being one of the first city-states of Nimrod’s kingdom, but does not explicitly state that he built it.
    http://en.wikipedia.org/wiki/Sargon_of_Akkad

      1. میسیج معلوم نہیں کیوں پورا نہیں گیا۔

        اس بات کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ وکی پیڈیا کے اس لنک کے مطابق سرجون الاکاوی بائبل کے کردار "نمرود” سے قریب تر ہیں۔ جبکہ آپ نے اپنے دو بلاگز میں انہیں "حضرت موسیٰ علیہ السلام” سے قریب قرار دیا۔ مزید کچھ وضاحت کریں اس بارے میں۔

        1. تاریخ کے مطابق سرجون الاکادی کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں تھا لیکن سومریوں نے اس کے لیے اس کی زبانی ایک کہانی گھڑی جو حضرت موسی علیہ السلام کی کہانی سے ملتی جلتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: ” میں اپنی ماں کے پیٹ میں ٹہرا، وہ خفیہ طور پر مجھے اس دنیا میں لائی اور ایک ٹوکری میں ڈال کر دروازہ بند کردیا اور بہا دیا ” پھر کسی مزدور نے اسے بچایا اور بعد میں وہ بادشاہ کے قریب ہوا جس سے اس کے اثر ورسوخ میں اضافہ ہوا، پھر اس نے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا اور سلطنت پر قابض ہوگیا.. اس کا دورِ حکومت 2279 سے 2334 قبل از عیسوی میں تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کی آمد کے پہلے کا زمانہ ہے.. باقی آپ خود قیاس کر لیں..

          http://ar.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D8%AC%D9%88%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A3%D9%88%D9%84

  6. میرے خیال میں:
    ڈاکٹر صاحب نے جانبداری اختیار کی رد لکھنے میں، وہ جانبداری یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانیت کو سامنے رکھتے ہوئے رد لکھا .(اور یہ ایک اچھی بات ہے میرے نظریات کے مطابق ).اور انہوں نے قرآن اور مسلمان کا دفاع سوچتے ہوئے لکھا ہوگا.
    جبکہ آپ نے غیر جانبدارانہ انداز میں مضمون تحریر کیا تھا ، جب آپ نے تحریر لکھی ہوگی اس وقت آپ کسی نقاد کی طرح سوچ رہے ہوں گے. جو تمام الہامی کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک (بے رحمانہ) تجزیہ پیش کر رہا ہے.
    اور اس دفعہ آپ بھی جانبداری اختیار کرنے لگے. ڈاکٹر صاحب کا جانبداری اختیار کرنا ان کا حق تھا جبکہ آپ کا غلط.
    اور آخر میں مشورہ:
    آپ نے دیکھا ہوگا کہ دو مختلف اشخاص ایک ہی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، ایک تو انسانوں کو بچانے کے لئے دوا بنا رہا ہے اور دوسرا انسانوں کو ختم کرنے کے لئے ہتھیار. بات یہ ہے کہ صلاحیت کو کہاں اور کیسے استعمال کیا جائے. آپ نے صلاحیت استعمال کی، اچھی بات ہے، لیکن یہ ایسا مضمون ہے کہ میرے خیال میں آپ کو ہی اس کا رد بھی تحریر کرنا چاہئے. جیسا کہ علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ.

  7. حضور :
    "یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ آج سے ہزار سال پہلے جو علماء تحریر فرما گئے ہیں وہ کب تک ساتھ دے گا”
    تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب بحث جو ہورہی ہے یہ نئی ہے. اور کیا تمام علم ضائع ہوگیا اور اب نئے سرے سے تحریر ہوگا اور وہ بھی ہر سال نیا. ڈاکٹر صاحب نے مسلمان اور قرآن کے دفاع میں رد لکھا تھا اور وہ ہزار سال پہلے کے علماء کے انداز و افکار کو ہی استعمال کریں گے نہ کہ آج کل کے نام نہاد مفکر اسلام جن کا فہم اسلام ہی مغرب سے آیا ہے، اور پھر یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ قرآن بھی کم و بیش پندرہ سو سال پرانا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری الہامی کتابوں کی طرح ہمیں بھی نیا ایڈیشن ہر سال نکالنا چاہئے اور اس بات سے تو مغربی اقوام کی برابری بھی ہوجائے گی. لو جی پہلے قدم میں ہی پہلی دنیا میں شامل.

    "زمانہ بدل گیا ہے آج ہم اونٹ کے پیشاب سے علاج نہیں کرتے۔ کئ دماغ ہلا دینے والے ساءینسی نظریات سامنے آ چکے ہیں اور نجانے کتنے باقی ہیں۔ آئینسٹائین نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کائینات کو ہم جس پیچیدگی سے تلاش کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ بالکل کسی سادہ اصول کے گرد گھومتی ہو”
    زمانہ بدل گیا ہے اور لوگ آج ایلو پیتھک طریقہ علاج استعمال کرتے ہیں لیکن ہمارے برابر والے تو پیشاب کو مقدس سمجھ کر پیتے ہیں اور یہ بات تو شاید آپ کو معلوم ہی ہوگی کہ ہمارے سربراہ کے دورے کے بعد انھوں نے اسی سے اپنا گھر دھلوایا تھا، ان سے تو مسلمان خاصے تعلیم یافتہ ہیں. اور دماغ ہلا دینے والے سائنسی نظریات کے سامنے آنے سے کیا خود مغر ب نے خدا کا انکار کردیا ہے.
    اور آئینسٹائین کا وہ سادہ اصول، کہیں "خدانخوستہ” خدا ہی نہ نکل آئے. بڑے لوگوں کی نکل پڑے گی. کیوں کہ سائنس تو اس بات سے انکاری ہے کہ کائنات کو چلانے والا کئی نہیں بلکہ یہ کودبخود چل رہی ہے ، لیکن عقل تو الٹ کہتی ہے کہ ایک چھوٹی چیز خود نہیں چل سکتی تو اتنی بڑی کائینات کیسے چل رہی ہے.

    "دوسری دلچسپ بات یہ کہ ہم دیگر ادیان کی کتابوں میں بھی اسی طرح کی چیرا پھاڑی کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں اپنا یہ طرز عمل انتہائ مناسب لگتا ہے۔ لیکن جب اپنی کتاب کی باری آئ تو ہم اسکے مدلل جوابات نکالنے کے بجائے کہنے والے کے ایمان کو جانچنے بیٹھ گئے۔ اگر کوئ شخص صاحب ایمان نہیں ہے وہ یہ سارا تجزیہ کرے تو اسے کیسے جواب دینا چاہئیے۔”
    دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دیگر ادیان کی کتابیں تحریف شدہ ہیں لیکن ہمارا قرآن نہیں. اور ایمان کو جانچا بھی اسی وجہ سے جاتا ہے.جہاں تک جواب دینے کا تعلق ہے تو وہ دیا جاتارہا ہے مختلف ادوار میں. خود حضرت اینڈرسن شا لکھنے پر آئیں تو چھکے چھوٹ جائیں گے لوگوں کے.

    "فرعون کی ممی کے بارے میں، افتخار اجمل صاحب نے بھی تحریر فرمایا تھا۔ اور اسے قرآن کی حقانیت قراردیا۔ ہر جزاک اللہ کہنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ ممی بنانے کا طریقہ کیا ہے۔ جب اسے بنانے میں نمک استعمال ہوتا ہے تو نمک تو اس میں نکلے گا۔ یہ چیز دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ لیکن اس موقع پہ آپکی یہ بات بھی کہنی پڑتی ہے کہ کیا سائینس کو قرآن سے ثابت کرنا ضروری ہے۔”
    جناب جب تک یہ معلوت رہیں گی کہ وہ اسی فرعون کی ممی ہے تب تک ہر جزاک اللہ کہنے والا یہی کہے گا. جیسا کہ کچھ ادوار پہلے تک لوگوں کا اس بات پر یقین تھا کہ سورج زمین‌کے گرد گھومتا ہے لیکن اب غلط ثابت ہوچکا ہےتو یہ پڑھایا بھی جاتا ہے اور بتلایا بھی جاتا ہے. اسی وجہ سے لوگوں کو یہ علم بھی نہیں ہوگا کہ پہلے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا. اور یہ کہ سائینس کو قرآن سے ثابت کرنا ضروری نہیں تو یہ کہاں کا اندھیر ہے کہ قرآن کا سائینس سے تجزیہ کیا جائے اور جو سائنیس سے متصادم ہو، اس کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جائے.
    "قصص اکقرآن کے بعد اسلامی سزاءووں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسلام سے پہلے رائج قبائلی قوانین کی ہی ترمیم شدہ شکلیں ہیں۔ اس بارے میں تفصیلی تحریر ہونی چاہئیے کہ انکی کیا حقیقت ہے۔”
    واہ جی حقیقت. مطلب یہ کہ اگر اسلامی سزائیں پہلے سے رائج قبائلی قونین ترمیم شدہ شکلیں ہیں تو پھر کیا انھیں تبدیل کیا جائے گا،
    اس طرح تو قرآن نے رشتوں کا احترام بھی بتلایا ہے ،کیا ہم اس پر بھی نظر ثانی کریں وہ تو ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں. اگر سائنیسی طور پر دیکھا جائے تو رشتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوئی، اور ان کو آپ عقلیا بھی نہیں سکتے کیوں عقل کے نزدیک تو صرف ایک ہی رشتہ ہے مرد اور عورت کا.
    اور جہاں تک گواہی کا معاملہ ہے اس کو تبدیل کرنے کے لئے تو نیا اسلام لانا پڑے گا ، کیوں کہ اسلام اصل نہیں نقل ہے.
    اس کی مثال اس طرح ہے کہ ریح کے خارج ہونے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دبارہ وضو کرنا پڑے گا، جبکہ آپ کی عقل اور سائنیس تو اس سے انکاری ہے……………
    اور آخری بات کہ اس غیر جانبدارانہ انداز کو دہریت بھی کہتے ہیں. اور یہ غیر جانبدرانہ انداز پہلے تھا اب نہیں‌ہے.
    اور ایک عاجزانہ درخواست کہ برائے مہربانی،
    اس غیرجانبدارانہ انداز کو مجازی طور پر استعمال کیا جائے ، ورنہ کوئی مذہب عقل کے معیار پر پورا نہیں اترتا.
    واللہ اعلم باالغیب.

  8. دلچسپ۔ کوئ بھی شخص اگر غیر جانبدارانہ انداز سے سوچے تو یہی خیالات سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر جواد صاحب نے آپکا رد لکھنے کے لئے اپنے پیش روءووں کا انداز اور افکار لیا۔ یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ آج سے ہزار سال پہلے جو علماء تحریر فرما گئے ہیں وہ کب تک ساتھ دے گا۔
    زمانہ بدل گیا ہے آج ہم اونٹ کے پیشاب سے علاج نہیں کرتے۔ کئ دماغ ہلا دینے والے ساءینسی نظریات سامنے آ چکے ہیں اور نجانے کتنے باقی ہیں۔ آئینسٹائین نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کائینات کو ہم جس پیچیدگی سے تلاش کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ بالکل کسی سادہ اصول کے گرد گھومتی ہو۔
    ڈاکٹر جواد نے لفظ زمین کو بریکٹ میں لکھ کر اس آیت کے مفہوم کو خاصہ محدود کرنے کی کوشش کی۔ یہ یقیناً انہوں نے کسی عالم کی کتاب سے ہی لیا ہوگا۔ اگر اس میں سے زمین نکال دیا جائے تو مطلب زیادہ واضح اور سمجھ میں آنے والے لگتا ہے۔
    دوسری دلچسپ بات یہ کہ ہم دیگر ادیان کی کتابوں میں بھی اسی طرح کی چیرا پھاڑی کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں اپنا یہ طرز عمل انتہائ مناسب لگتا ہے۔ لیکن جب اپنی کتاب کی باری آئ تو ہم اسکے مدلل جوابات نکالنے کے بجائے کہنے والے کے ایمان کو جانچنے بیٹھ گئے۔
    اگر کوئ شخص صاحب ایمان نہیں ہے وہ یہ سارا تجزیہ کرے تو اسے کیسے جواب دینا چاہئیے۔
    فرعون کی ممی کے بارے میں، افتخار اجمل صاحب نے بھی تحریر فرمایا تھا۔ اور اسے قرآن کی حقانیت قراردیا۔ ہر جزاک اللہ کہنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ ممی بنانے کا طریقہ کیا ہے۔ جب اسے بنانے میں نمک استعمال ہوتا ہے تو نمک تو اس میں نکلے گا۔ یہ چیز دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ لیکن اس موقع پہ آپکی یہ بات بھی کہنی پڑتی ہے کہ کیا سائینس کو قرآن سے ثابت کرنا ضروری ہے۔
    قصص اکقرآن کے بعد اسلامی سزاءووں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسلام سے پہلے رائج قبائلی قوانین کی ہی ترمیم شدہ شکلیں ہیں۔ اس بارے میں تفصیلی تحریر ہونی چاہئیے کہ انکی کیا حقیقت ہے۔
    ایک دلچسپ معاملہ خواتین کی گواہی کا ہے۔ آجکے زمانے میں جب خواتین کو شعور اور آگاہی حاصل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہیں کیا اب بحی ایک مرد کی گواہی زیادہ معتبر ہو گی۔ فرض کریں کہ ایک واقعے کے وقت تین افراد موجود ہیں۔ جو ان پڑھ ایسے مرد جنہیں شہری زندگی کا اور ٹیکنالوجی کا کوئ تجربہ نہیں ہے دوسری طرف ایک عورت ہے جو پڑھی لکھی ہے اور جدید علم سے روشناس ہے۔ پولیس آ کر جب بیان لیتی ہے تو وہ اس عورت کے بیان کو زیادہ اہمیت دے گی مگر جب شیعت کورٹ ہو گی تو ان دو مردوں کی گواہی زیادہ معتبر گنی جائے گی۔ عقل کا فیصلہ کچھ اور ہے اور قرآن سے نکالا گیا فیصلہ کچھ اور۔ اسکی توجیہہ کیس کی جائے گی۔

  9. تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عورت کی بیانء بالکل درست ہے اور ایک مرد کی بیناء میں فرق ہے ایسا کہ وہ چشمے کے بغیر نہیں دیکح سکتا. وقوعہ والے دن وہ چشمہ نہیں پہنے ہوءے تحا مگر اسکے باوجود اسکی گواہی کو عورت کی گواہی پہ ترجیح دی جائے کیونکہ وہ مرد ہے.
    ایک مرد الزاءمر کا شکار ہے مگر عورت نہیں ہے ، مگر الزائمر زدہ مرد کی گواہی قابل اعتبار ہونی چاہئیے اور عورت کی نہیں. آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عین انصاف ہوگا.
    قرآن کہتا ہے کہ ایک عالم ایک جاہل کے برابر نہیں ہو سکتا. مگر ایک جاہل مرد کو ایک عالم عورت پہ گواہی کے سلسلے میں ترجیح دینی چاہئیے. اسکے بعد آپ اپنے آپکو مسلمان اور دوسرے کو دہریہ کہتے ہیں.
    یہی نہیں اگر ممی کے متعلق لکھنے والے مناسب تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھیں اور جزاک اللہ لکھنے والے کے لئے یہ کافی ہو کہ اسے کسی اور جازک اللہ کہنے والے نے لکھا ہے تو یہ لکھنا بالکل درست ہے کہ ممی سمندر میں رہی ہے. اور اگر کوئ اس بات سے اختتاف کرے تو وہ دہریہ ہو جائے گا اور آپکی طرز فکر عین اسلامی ٹہرے گی. کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ آپکا یہ طرز عمل قرآن کے ان بے شماردعووں کی نفی کرتا ہے جس میں وہ وہ برابر عقل والوں کے لئے نشانیاں فراہم کرتا ہے اور بار بار سوچ کی دعوت دیتا ہے. یہ کیسی دعوت ہے جو ہزار سال پہلے کے علماء پہ ختم ہو گئ اور اب اکیسویں صدی میں اسے نہیں کیا جا سکتا. بلکہ فلاں ابن فلاں کی تصانیف کا مطاعل کر کے اس پہ عمل پیرا ہونے کا نام اسلام رکھ دیا گیا ہے.
    سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر قرآن کی حفاظت کا ذمہ خدا نے کیوں لیا. اسے دو ڈھائ سو سال بعد دنیا سے اٹھالینا چاہئیے تھا. کیونکہ علماء کی تحاریر کافی تھیں. یا ہندئووں کی طرح عام اشخاص کے پڑھنے پہ پابندی ہونی چاہئیے تھی. آخر خدا علیم و خبیر نے جو ہر بات کا جاننے والا ہے اس نے ایسا کیوں نہیں کیا.
    لگتا ہے خدا خود بھی دہریہ ہے، آپکی تعریف میں.

  10. http://en.wikipedia.org/wiki/Alzheimer%27s_disease

    مندرجہ بالا ربط الزائمر کے بارے میں ہے. پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کیس خبیث بیماری ہے. بادی النظر میں مجھے اُس جج یا عدالت پر سب سے پہلے اعتراض ہو گا جو کہ کسی مقدمے میں ایسے بہرے مرد کی گواہی سنے گا جو بالکل سن ہی نہیں سکتا. ایسے گواہ، اسیے سرکاری وکیل اور ایسی عدالت کو سب سے پہلے الٹا لٹکا نا چاہئے، مقدمہ کی باری بعد میں آتی ہے. مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس مکمل بہرے انسان نے کسی کو قتل ہوتے دیکھا ہو؟

    دنیا کی کوئی عدالت چشم دید گواہی کے سلسلے میں ایک نابینا مرد کو زحمت دے گی یا نا؟
    کیا ایسا ہوا ہے کبھی؟ شعیب صفدر گھمن صاحب آپ کی اس بارے عدالتی نظائر جمع کرنے میں مدد کر سکتے ہیں. مگر کچھ روابط ہیں آپ کے لئے:
    http://kanwarn.wordpress.com/2011/03/01/indian-evidence-act-1872-witness-1-competency/
    http://wiki.answers.com/Q/Can_a_blind_person_be_a_witness

    اندھے بحیثیت جیوررز بھی کام کر سکتے ہیں:
    http://www.lawlink.nsw.gov.au/lawlink/lrc/ll_lrc.nsf/pages/LRC_r114chp3

    کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ الزائمر کی مثال دینے سے پہلے کچھ دیر کو رُک کر اپنے آپ سے سوال کر لیتیں ” کیا میں اس بیماری بارے کچھ جانتی ہوں بھی کہ نہیں، ایسا نہ ہو خود اپنا مذاق اڑوانے کا باعث بن جاؤں” . آپ نے الزائمر میں مبتلا ایک مرد کی جو مثال دی، آپ نے مرض کا کونسا مرحلہ ذہن میں رکھ کر یہ مثال دینے کے بارے میں سوچا؟ براہ مہربانی یہ گتھی سلجھا دیں. اگر تو مرض کے آخری مراحل کو ذہن میں رکھ کے سوچا تو ایسے کسی مریض کو خود اپنی دیکھ بھال کی اتنی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے خدمتگار کو بھی نہیں پہچانتا. عدالت تو ایسے گواہ کی گواہی مانے گی ہی نہیں. اور اگر یہ ایسے ابتدائی مراحل تھے جس میں مریض اپنے آس پاس کی صورت حال کو سمجھ سکتا ہے تو اس کی گواہی پہ آپ کو کیا اعتراض ہے؟

    جاہل مرد اور عالم عورت والی بات آپ نے قرآن سے تو کسی طرح کھینچ تان کر ثابت کر ہی لی مگر اگر کوئی آپ کے سامنے سورہ نسا کی آیت "الرجال قوامون علی النسا … ” رکھ دے تو؟ کیا آپ اسی طرح اس آیت کو بھی مانیں گی جس عقیدت سے آپ نے نے اپنے مطلب کی آیت نکال لی؟ الرجال قوامون .. والی آیت میں یہ نہیں لکھا گیا کہ صرف جاہل عورتوں پہ ہی مردوں کو برتری حاصل ہے. دیکھ لیجئے کوئی تفسیر پھر اس پہ بات کریں گے. مگر صرف عالم اور جاہل والی بات تک ہی محدود رہیں گے.

    اگر آپ کو موجودہ صدی کے ہی سہی، مقامی علما کا بھی علم نہیں اور آپ کی سوئی ہزار سال پہلے والے دعوی کو ہی ثابت کرنے پر اٹکی ہوئی ہے تو ہم آپ کو سلام کرنے کے سوا کر کیا سکتے ہیں.
    آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ مذہب اور میڈیکل سائنس بارے کچھ بھی لکھنے سے پہلے تھوڑا مطالعہ اور تھوڑا غور و فکر کر لیا کریں.

  11. اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا 34؀

    ترجمہ مکہ: مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں (١) پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو (٢) بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔

    ترجمہ ابن کثیر (فتح محمد) : مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبروکی) خبر داری کرتی ہے اور جن عوتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور (بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو۔ اگر اس پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر زودکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہو جائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈوں بیشک خدا سب سے اعلی (اور) جلیل القدرر ہے

    ترجمہ پکتھال: Men are in charge of women, because Allah hath made the one of them to excel the other, and because they spend of their property (for the support of women). So good women are the obedient, guarding in secret that which Allah hath guarded. As for those from whom ye fear rebellion, admonish them and banish them to beds apart, and scourge them. Then if they obey you, seek not a way against them. Lo! Allah is ever High, Exalted, Great.

  12. منیر عباسی صاحب، آپ ڈاکٹر ہو کر بھی یہ سب لکھتے ہوئے جذباتی ہو گئے ہیں. الزئیمر ایک دم سے لاق نہیں ہو جاتا. اپنے تمام مراحل سے گذرتا ہے پھر اس مرحلے تک پہنچتا ہے کہاں پہ ایک مریض کھانا پینا تک بھول جاتا ہے.
    اب آءے آپکے مشہور و معروف علماء کی طرف جو عورت کی گواہی کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ایسا اس وجہ سے ہے کہ عورت کی تخلیق میں وہ بات ہے کہ وہ بحول جاتی ہے اور چیزیں یاد رکح نہیں پاتی. حالانکہ آج کسی طالب علم سے پوچھیں تو وہ جواب دے گا لڑکیاں اس لئے پوزیشن لیتی ہیں کہ یاد بڑا رکھتی ہیں. خواتین کی اس بری یادداشت کا صرف مولانا صاحبان کو یا آپ جیسے لوگوں کو یقین ہوگا.
    میری بات کوآپ نے کہا کہ میں قرآن سے کھینچ تان کر ثابت کرنے کی کوشش کی. در حقیقت آپ اپنے جذبے میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اسکے لئے قرآن میں تضاد پیدا کرنے سے نہیں ہچکچاتے. آپ نے میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ایک واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک جاہل مرد موجود ہے جو کسی گائوں سے شہر میں نووارد ہے اور ایک عورت ہے جو اسی شہر میں رہتی ہے پڑھی لکھی ہے ، تمام فہم و فراست رکھتی ہے، جدید علوم سے واقف ہے. وہ ایک بہتر گواہ ہوگی یا وہ جاہل مرد جو اس شہر کی گلیوں سے نا آشنا. اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں مرد ہی پوری گواہی رکھتا ہے تو آپ اسلام کے اس سلوگن کو مسخ کر رہے ہیں جسکے تحت اسلام اپنے آپ کو انصاف کا مذہب کہتا ہے.
    لیجئیے دوسرا تضاد حاضر ہے اگر الرجال قوامون النساء کا مطلب عمومی طور پہ مرد عورت سے برتر ہے تو پھر آپ اپنی ماں پہ برتر ہوئے. پھر ایسا کیوں ہوا کہ آپکی جنت آپ کی ماں یعنی ایک عورت کے قدموں تلے آگئ.
    اگر آپ علماء کی عقل پہ سوچنے کے بجائے اپنی عقل سے نہیں سوچیں گے تو قرآن بہت تضاد رکھنے والی کتاب بن جائے گی.اور آخیر میں آپکو ہر اس طرح کے تضاد پیش کرنے والے شخص کو دہریہ کہہ کر خلاصی حاصل کرنی پڑے گی.

جواب دیں

44 Comments
scroll to top