Close

قرآنی جائزہ 1

دیگر علوم کی طرح علمِ تاریخ کے بھی اصول ہیں اور یہ جانچ پڑتال کے عمل سے گزرتا ہے، ہر تاریخی خبر کی کوئی نہ کوئی تحریری یا تصویری سند ہونی چاہئیے تاکہ اس کی جانچ سے اس خبر کی درستگی کا تعین کیا جاسکے، جب ہم قدیم مصر کے حکمران خاندانوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی تاریخ کے حوالے سے ہمارے پاس تاریخی دستاویزات ہونی چاہئیں جو کہ موجود ہیں اور تحقیق کاروں نے انہیں اہرام مصر اور دیگر فرعونوں کی قبروں سے دریافت کیا ہے اور یہ ساری دستاویزات مصر کی لائبریریوں میں موجود ہیں. یہی بات قدیم یونانی یا فارسی تاریخ پر بھی لاگو ہوتی ہے.

اور اگر کھدائیاں اور مخطوطے کسی تاریخی حادثہ یا واقعے کے تمام پہلو اجاگر نہ کریں تو اس صورت میں ہم اس واقعہ یا حادثہ سے متعلق قیاس سے کام لے سکتے ہیں، مثلاً اگر ہم دوسری عالمی جنگ سے مثال لیں اور نازی دور حکومت اور اس کے دیگر ملکوں پر طاقت کے ذریعے قبضے پر نظر ڈالیں کہ کس طرح ہٹلر کی گستاپو Gestapo فورس نے یہودیوں اور دیگر لوگوں پر مظالم ڈھائے اور ان کا قتل عام کیا تو ہمیں ان واقعات کی تصاویر اور دستاویزی فلمیں میسر ہیں مگر یہ دستاویزات ہمیں یہ نہیں بتاتیں کہ وہ کون کون لوگ تھے جو یہودیوں کو مقتل کی طرف لے جارہے تھے اگرچہ ہم گستاپو فورس کے سربراہان اور کچھ دیگر ذمہ داروں کے نام جانتے ہیں جو اس قتل عام کی سرپرستی کر رہے تھے، اس صورت میں ہم قیاس سے کام لیتے ہوئے خود سے سوال کریں گے کہ جیسے ہی اتحادی فوج برلن کے نزدیک پہنچی تو نازی فوج کا ایک ڈاکٹر کیوں بھاگ کھڑا ہوا؟ ڈاکٹر جوزف منگلی Josef Mengele بھیس بدل کر ارجنٹائن بھاگ گیا تھا اور وہاں اس نے اپنا چہرہ بدلنے کیلئیے کئی آپریشن کرائے. اور جب قتلِ عام سے بچ جانے والے کچھ لوگوں نے بتایا کہ کچھ ڈاکٹر قیدیوں پر تجربات کر رہے تھے تو یہاں ہم ایک پُر یقین قیاس کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر منگلی ان تجربات میں ملوث تھا ورنہ وہ بھاگ نہ کھڑا ہوتا کیونکہ وہ فوجی نہیں تھا. اسلامی تاریخ پر بات کرتے ہوئے ہم اسی طرح کے قیاسات روبہ عمل لائیں گے.

جزیرہ نما عرب کی زیادہ تر تاریخ ابھی تک دستاویز شدہ نہیں ہے ما سوائے یمن جس کے ایک ہزار سال قبل از عیسوی کے زمانے کے مخطوطے اور پتھری نقوش ہمیں میسر ہیں جن سے ہمیں وہاں کی تاریخ کی اچھی معلومات میسر ہیں جیسے معینی سلطنت اس کے شاہوں خداؤں اور عبادتگاہوں کے بارے یا حضرموت اور سلطنتِ سبا یا پھر مارب کے ڈیم اور حبشی حاکم ابرہہ کی اس ڈیم کی ترمیم کی معلومات وغیرہ..

حجاز اور وسطی جزیرہ عرب میں تحقیق کاروں کو قبل از اسلام کے زمانے کے کوئی خاص مخطوطے نہیں ملے ماسوائے چند ٹکڑوں کے جن سے پتہ چلتا ہے کہ عربی زبان لوگوں کے بول چال کی زبان ضرور تھی مگر اس میں نقطے، تنوین کی علامتیں اور حروفِ علت vowels نہیں تھے جن کے متبادل کے طور پر بعد میں تشکیل یعنی زیر زبر تشدید پیش وغیرہ سے کام چلایا کیا، اعداد بھی عربوں نے اسلام کے بعد آرامی یا سریانی زبان سے لئیے. اب تک دریافت ہونے والا سب سے پرانا مخطوطہ "الرقش” یا "الرقشہ” ہے جس کی تاریخ 267 عیسوی کی ہے (تصویر کا منبع Arabic Script & the Alleged Syriac Origins of the Quran):

 

raqsh

 

مخطوطے کے بائیں طرف کی تحریر عربی اور نبطی کا ایک آمیزہ ہے جس میں کوئی نقطے یا اعداد وغیرہ نہیں ہیں، اس کے ساتھ کی تحریر ثمودی ہے جبکہ دائیں طرف کی تحریر عربی اور نبطی تحریر کی جدید عربی میں ڈیکوڈنگ ہے، اس مخطوطے سے پتہ چلتا ہے کہ عربی زبان آج کی طرح لکھی جانے والی زبان نہیں تھی.

اگر 267 عیسوی تک یعنی قرآن کے منظرِ عام پر آنے سے کوئی تین سو سال پہلے عربی تحریر کا یہ عالم ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی لکھنے پڑھنے کی زبان نہیں تھی بلکہ محض بول چال کی زبان تھی، کچھ زبان دانوں کا خیال ہے کہ قرآن کے زمانے میں عربی زبان آرامی اور سریانی حروف سے لکھی جاتی تھی کیونکہ آرامی اور سریانی زبانیں ہی اس زمانے کی تحریری زبانیں تھیں.

اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری اسلامی تاریخ محض زبانی تاریخ ہے جو تب احاطہ تحریر میں لائی گئی جب عربی زبان پہلی صدی ہجری کے اواخر اور دوسری صدی ہجری کے وسط میں ترقی کر گئی اور اس میں نقطے اور اعداد شامل کئیے گئے، جس تاریخ کا انحصار سو سال یا اس سے بھی زائد عرصہ تک راویوں کی یاداشت پر رہا ہو کسی طور قابلِ اعتبار نہیں ہے. اس صورت میں صرف قیاس ہی کیا جاسکتا ہے.

لیکن عالمِ اسلام کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی مولویوں سے سنتے ہیں اسے نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اسے عین حقیقت سمجھتے ہیں جس پر کوئی دوسری بات ہو ہی نہیں سکتی اس سنی سنائی پر غور وفکر یا تنقید کرنا تو بہت دور کی بات ہے، مثال کے طور پر اگر ہم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضرت محمدﷺ کا عقد اور ان سے بچوں کی تعداد کو ہی لے لیں تو ہمیں اس تاریخ کی فرسودگی اور اس کا تضادات کا اندازہ ہوجاتا ہے، سیرت کی تمام کتابیں بشمول بخاری اور دیگر کے سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت محمدﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پچیس سال کی عمر میں نکاح کیا جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چالیس سال تھی اور اِس سے پہلے وہ دو عقد کر چکی تھیں جن میں سے ان کے کچھ بچے بھی تھے مگر کوئی بھی راوی ان بچوں کی تعداد یا ترتیبِ پیدائش پر متفق نہیں ہے، ابن کثیر مختصر السیرہ النبویہ میں کہتا ہے "ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ کا سب سے بڑا بیٹا القاسم تھا، پھر زینب، پھر عبد اللہ، پھر ام کلثوم، پھر فاطمہ، پھر رقیہ” (ص 512). اور ابو الفرج المعافی بن زکریا الجریری نے ابن عباس سے روایت کیا "حضرت خدیجہ نے نبی ﷺ سے ان کا بیٹا عبد اللہ پیدا کیا، پھر ان کیلئیے زینب پیدا کی، پھر رقیہ، پھر القاسم، پھر الطاہر، پھر المطہر، پھر الطیب، پھر المطیب، پھر ام کلثوم، پھر فاطمہ پیدا کی جو سب سے چھوٹی تھی” (وہی سابقہ منبع اور سابقہ صفحہ) اس روایت میں حضرت خدیجہ نے محمد ﷺ کیلئیے دس بچے پیدا کئیے جبکہ دونوں روایتیں ابن عباس کی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یا تو ابن عباس اپنی یاداشت پر انحصار کرتے تھا جو انہیں اکثر دھوکہ دے جاتی تھی یا پھر ان سے روایت کرنے والے غلط بیانی کر گئے۔

علمِ فعلیات physiology کے ذریعے ہمیں معلوم ہے کہ چالیس سال کی عمر کے بعد عورت کے زنانہ ہارمون میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے اور سنِ یاس menopause شروع ہوجاتا ہے جس میں ماہواری کا نظام خراب ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے حمل کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، زیادہ تر خواتین میں پینتالیس سال کی عمر میں ماہواری بند ہوجاتی ہے اور اس کے بعد حمل ناممکن ہوجاتا ہے، اگر حضرت محمدﷺ کی ایک چالیس سالہ خاتون (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا) سے اتنی اولاد تھی تو سوال یہ ہے کہ باقی تین درجن امہات المومنین سے اُنکی کوئی اولاد کیوں نہیں ہوئی؟ نہ حضرت عائشہ صدیقہ نہ نوجوان حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جن سے انہوں نے اسی رات عقد مبارک فرمایا جس رات حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا شوہر قتل ہوا تھا اور نا ہی کسی کنیز سے جیسے ریحانہ جبکہ ان کی اکثر ازدواجِ مطہرات کے اپنے سابقہ شوہروں سے بچے تھے؟

اسلامی مؤرخین نے حضرت خدیجہ سے جن بچوں کی ولدیت حضرت محمدﷺ سے منسوب کی ہے قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ اُن کے نہیں تھے، ممکنہ طور پر حضرت خدیجہ کے یہ سارے بچے اُن کے سابقہ شوہروں سے تھے، اگر ہم راویوں کی اس تاریخ پر تھوڑی دیر کیلئیے اعتبار کرلیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جو محمدﷺ کی سب سے چھوٹی اولاد ہے اُن سے حضرت علی بن ابی طالب نے سنہ 2 ہجری کو شادی کی تھی اور اس وقت اُن کی عمر 15 سال تھی (العجاب فی بیان الاسباب، ابن حجر العسقلانی، ص 77) جبکہ حضرت خدیجہ کا انتقال رسالت کے آغاز کے دسویں سال میں ہوا تھا یعنی ہجرت سے تین سال پہلے، اگر ماں کی وفات کے وقت حضرت فاطمہ کی عمر دس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی وفات 65 سال کی عمر میں ہوئی تھی تو اس طرح حضرت فاطمہ کی پیدائش کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر 55 سال تھی جو کہ علمی طور پر ناقابلِ قبول امر ہے، مگر اس حقیقت کے محض ذکر سے ہی آدمی مرتد اور شاتمِ رسول بن جاتا ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہوسکتی جیسا کہ ابن تیمیہ "الصارم المسلول علی شاتم الرسول” میں کہتا ہے.

اسلام کی ساری تاریخ بشمول قرآن کے نزول اور اس کی جمیع وتدوین کے ساری کی ساری جعلی تاریخ ہے جسے راویوں نے اسلام کے ظہور کے دسیوں سالوں بعد لکھا وہ بھی غیر جانبدارانہ تاریخ کے طور پر نہیں بلکہ محض محمدﷺ اور کچھ مذہبی تعلیمات و رسومات جسے اسلام کا نام دیا گیا کو خدا بنانے کیلئیے، تحریر کے اگلے حصہ میں ہم بتائیں گے کہ جس قرآن کو مسلمان دیوانوں کی طرح پوجتے ہیں وہ جبریل کے ذریعے محمدﷺ پر نازل ہونے والا قرآن ہو ہی نہیں سکتا.

0 Comments

  1. پنگ بیک: قرآنی جائزہ 2
  2. پنگ بیک: قرآنی جائزہ 3

جواب دیں

0 Comments
scroll to top