Close

حقیقت اور افسانہ

عرصہ دراز قبل ایک جاننے والے نے فدوی سے دریافت کیا: ”کیا مادہ حقیقتاً اور واقعتاً پایا جاتا ہے یا یہ محض نظروں کا دھوکہ ہے۔؟“ جواباً ہم نے فرمایا جہاں تک احساسات سے محسوس کرنے کا تعلق ہے آپ ضرور متفق ہوں گے کہ مادہ کا وجود ہے۔ مثلاً اگر آپ ایک بڑے پتھر کو زور سے لات ماریں تو آپ کا سارا وجود اس بات کی فوری گواہی دے گا کہ ہاں پتھر موجود ہے۔ رہی بات ”سب اٹامک پارٹیکلز“ کی کہ کیا ان کا وجود بھی اسی طرح ثابت ہوتا ہے؟ تو عرض ہے کہ جی ہاں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں تجربہ میں آپ کو مناسب چھوٹے ذرے سے کسی اور ذرے کو ”ٹھوکر“ لگا کر دیکھنا پڑتا ہے کہ جسے ٹھوکر ماری وہ ذرہ کن خواص کا حامل تھا۔ میرے خیال میں آپ اقبال کے اس شعر کے مصداق ”تو ہے تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے“ جذبہ میں ذاتی تجربہ کو حقیقت اور معروضی مظاہر کو وہم یا بے ثبات فریب بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ فلسفہ کی ایک بہت بڑی بحث ہے۔ یہاں متعلقہ سوال یہ ہوتا ہے کہ: ”کیا چاند کا اس وقت بھی وجود ہوتا ہے جب کہ میں اسے دیکھ نہیں رہا ہوتا ہوں؟“ رہا مادے کا خرد بینی اجزاء کا سوال تو انہیں خردبین جیسے آلات سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دیکھ کر ماننا تو عین الیقن کے زمرے میں آتا ہے ناں۔ کیا اب بھی آپ مادے کو فرضی علت کہہ کر اس کے وجود کے ثبوت مانگنے پر مصر ہیں؟

وہ فلسفیانہ نظریات جو معروضی مطالعہ کے بغیر صدیوں پہلے تخلیق کئے گئے تھے، انہیں سائنس سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔ فلسفہ میں ان کی اہمیت اپنی جگہ ہے کیونکہ سوال اٹھانا اور سوچنا ضروری ہے اور فلسفے نے سائنس کو سمت دینے میں کردار بھی ادا کیا ہے۔ مگر پرانے لوگوں کی وہ باتیں جو اب بعید از حقیقت معلوم ہوتی ہیں وہ تو اب ہمیں صحیح سمت دینے سے رہیں۔ افلاطون، ارسطو، دیمقراطیس، فیثا غورث، برکلے وغیرہ سب ایٹم کی دریافت سے ہہلے کے دور کے لوگ تھے۔ انیسویں صدی سے پہلے کے فلسفیوں کا idealism کی طرف جھکاؤ زیادہ تھا۔ ان میں سے کچھ تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ دنیا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔ یہ سب ہماری سوچ کی پیداوار ہے یا دوسرے لفظوں میں ایک فریب ہے۔ اصل حقیقت (مثلاً افلاطون کے ideas) اس دنیا سے ماوراء ہے، جسے mysticism کے ذریعے پایا جا سکتا ہے۔ ‘حقیقت’ کے بارے میں یہ باتیں وہ بغیر کسی ثبوت کے پیش کرتے تھے۔ کیا اس قسم کے خیالات محض ان فلسفیوں کا اندازہ نہیں تھے؟ مادے کو انہی idealists فلسفیوں نے وہم قرار دیا تھا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مادہ اور دنیا کے بارے میں ایسے تصورات آج ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں؟ حقیقت کو ‘فریب’ تصور کرنا ایک گمراہ کُن خیال ہے۔ جس کی اثبات سے ہم حقائق کی بے بدل دنیا کا انکار کر دیتے ہیں۔

مجھ سے اسی بابت ایک اور صاحب نے استفسار کیا کہ دنیا فریب ہے۔ کائنات فریب ہے۔ ہم نے جواباً استفسار کیا دنیا بذاتِ خود فریب ہے یا ہمارا دنیا کے بارے میں تصور فریب ہے؟ کیا غالب کی طرح آپ بھی سمجھتے ہیں ؏

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

موصوف نے فرمایا اگر غالب کے خیال پر ایمان رکھتا تو مجھے فریب کے خود کو فریب سمجھنے پر حیرت نہ ہوتی۔ فریب خود کو فریب کہتا ہے۔ یہ سن کر مجھے وہ بات یاد آ گئی کہ اگر کوئی کہے: ”میں جھوٹا ہوں، سچ ہے“ چنانچہ وہ جھوٹا ہے۔ اگر اسے سچا مانیں تو نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ اگر اسے جھوٹا مانیں تو نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ سچا ہے۔ دونوں صورتوں میں بات خود اپنی نفی کر دیتی ہے۔ بہرحال ہم فریب نہیں حقیقت ہیں۔ حقیقت کے بارے میں ہمارا تصور درست نہیں ہے۔ غالباً اس غلط تصور کو فریب کہا جا رہا ہے یا میں بات ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا۔ کیا آپ کے خیال میں یہ دنیا حقیقت نہیں بلکہ فریب ہے؟ اس قسم کی ساری روایتی فلسفیانہ گفتگو دراصل فرد کے غلط تصور سے شروع ہوتی ہے۔ ذہن مادی حقائق کے ساتھ لایعنی لاحقہ کے طور پر چسپاں ہے۔ اصل حقیقت مادہ اور مادی مظاہر ہی ہیں۔ ان مادی ظواہر کے ساتھ دماغ کی بعض فعلیتوں سے وابستہ ذہنی افعال ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ ذہنی افعال خود کسی اعتبار سے موثر نہیں ہوتے۔ ذہن ادراک نہ بھی کرے تب بھی یہ کائنات جوں کی توں موجود ہے اور موجود رہے گی۔

میرے خیال میں فریب کا لفظ گمراہ کن ہے اور راہبانہ ماورائیت کی پیداوار ہے۔ اس معاملے اور ایک اور سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر میرے فلسفی دوست ابو بکر نے نہایت خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ احباب کی نذر کر رہا ہوں:

”حقیقت کیا ہے اورہمارے تصورِ حقیقت کا اصلی حقیقت سے کیا تعلق ہے؟“ یہ سوال ابتدا سے ہی فلسفے کا اہم ترین سوال اور خصوصا’ مابعد الطبعی فکر کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ جدید دور میں مظہریات نے اس سوال کی نفی میں یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ جو دکھتا ہے وہی حق ہے۔ یہ موقف اپنانے میں یہ مجبوری بھی شامل ہے کہ دکھائی دینے والی حقیقت سے سوا کسی "اصلی” حقیقت کا وجود بہرحال ایک مفروضہ ہے اور اسے اپناۓ بغیر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ جدید فلسفے میں یہ بحث کانٹ کے ہاں سب سے زیادہ تکنیکی انداز میں پائی گئی ہے۔ کانٹ ” اصلی حقیقت” کو "نامینا” اور ظاہری حقیقت کو ” فی نامینا” کہتا ہے۔ یہاں سے ہی اس سوال کی پرتیں کھلتی ہیں اور چند مزید سوال پیدا ہوتے ہیں۔

1۔ اگر کوئی اصلی حقیقت نہیں ہے تو یہ سب جو ظاہری ہے اس کی علت کیا ہے۔ کیا اس کی علت خود انسان ہے یعنی کیا یہ انسانی ذہن کا کیا دھرا ہے ؟ تجربیت پسندی نے بشپ بارکلے کے دور میں یہی موقف اپنایا اور کہا کہ وجود وہی ہے جو کسی ذہن کے ادراک میں ہے۔ گویا یہ سب ذہن کا کیا دھرا ہے اور وہ اس طرح کہ ہمارے ذہن میں مختلف اشیاء کے جو مدلولات حواس کے راستے سے آتے ہیں ہم محض ان ہی سے واقف ہیں۔ ان مدلولات میں چیزوں کا رنگ ذائقہ اور کمیت تک شامل ہیں۔ چونکہ صفات کا موجود ہمیشہ جوہر کے وجود سے مشروط ہے ( یعنی صفات ہمیشہ کسی موصوف کی ہوتی ہیں) لہذا مادی اشیاء کے ان احساسات کے پیچھے ایک مادی جوہر کا وجود مانا گیا تھا۔ بارکلے کے خیال میں کوئی مادی جوہر وجود نہیں رکھتا۔ تو اب صفات کا کیا ہو؟ لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ذہن ہی یہ صفات پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ بارکلے جو "ذہنی جوہر” کا وجود مانا اور کہا کہ یہی جوہر ان صفات کے وجود اور ترتیب کا سبب ہے۔ بارکلے کے بعد ڈیوڈ ہیوم نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور بارکلے وہ وہ دلائل جو مادی جوہر کے خلاف تھے انہیں ممکنہ حد تک خطرناک بنا کر ذہنی جوہر پر لاگو کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ ذہنی جوہر کا بھی مادی جوہر کی طرح کوئی وجود نہیں۔ بلکہ کسی جوہر کا بھی کوئی وجود نہیں اور یہ محض ہماری عادت ہے کہ ہم صفات کے پس پردہ کسی ایسی ذات کا وجود فرض کرتے ہیں کہ جو ان صفات کا حامل ہو۔ پس ڈیوڈ ہیوم کے خیال میں محض احساسات ہیں جن کے پیچھے نہ کوئی مادی جوہر ہے اور نا ہی سامنے کوئی ذہنی جوہر۔ گویا تمام کچھ عدمیت میں لٹکتا ہیولا ہے۔ مقصد اس کلام کا یہ ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ذہنی حقیقت ہی اصلی حقیقت ہے انہیں اس بات کا جواب دینا ہوگا جو تجربیت نے آج سے کئی صدیاں پہلے پیش کیا تھا۔

2. ایک اور کیفیت اس سوال کی وہ ہے جو کانٹ کے ہاں ملتی ہے۔ احساسات کو اگر حسی جوہر سے آزاد کردیا جاۓ تو اس کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ ہم تجربیت کے ضمن میں دیکھ چکے ہیں۔ کانٹ نے اسی مشکل سے بچنے کے لئے یہ فرض کیا کہ "نامینا” یعنی احساسات کی ایک حسی علت آزادانہ وجود رکھتی ہے جو ہمارے ذہنی احساسات کی علت ہے۔ مگر ہم احساسات کو چند سانچوں کی صورت میں ڈھال کر ہی محسوس کرتے ہیں پس یہ حسی علت ہمیں اس انداز میں نظر آتی ہے جیسا کہ ہم اسے دیکھتے ہیں۔ (خطرناک حد تک آسان تشریح ) ۔ لہذا ہمیں حقیقت ہمشہ ویسی ہی نظر آئی گے جیسا ہم اسے دیکھنے کے لئے اپنے علمیاتی ڈھانچے کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اس ظاہر حقیقت کو ہمارے ذہن نے نہیں بنایا بلکہ اس کی ایک حسی علت موجود ہے مگر ہم اس کو کبھی جان نہیں سکتے کیونکہ اس کے لئے ہمیں اپنے نکتہءادراک سے ہٹنا ہوگا جو ممکن نہیں۔ پس ہم محض ” فی نامینا ” یا مظہر کا علم رکھتے ہیں۔ گویا اگر کوئی ایسی اصلی حقیقت ہے بھی جو ذہن سے آزاد وجود رکھتی ہے تو ہم اسے جان نہیں سکتے۔ ہمارے لئے وہی کچھ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے۔

3۔ حقیقت اور نوعیتِ حقیقت کا یہ سوال دراصل مادے اورشعور کے تعلق کے سوال سے پیدا ہوتا ہے اور فلسفے میں اس کا آغاز قبل سقراطی یونانی فلسفی پارمینڈیس سے ہوتا ہے جس نے "حقیقت” اور "مظہر” کی تفریق کا تصور پیش کیا اور محض حیقیقت کا وجود تسلیم کیا۔ یہ سوال تب پیدا ہوتا ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہمارا ذہن اور اس کی بنائی حقیقت ہی اصلی ہے یا ذہن سے آزاد حقیقت اصلی حقیقت ہے۔ اوپر کی بحث میں یہ دیکھا جا چکا ہے کہ صرف ذہنی یا صرف غیر ذہنی حقیقت کاوجود تسلیم کرنے میں بہت مشکلات ہیں۔ ہم اگر کچھ کر سکتے ہیں تو محض یہی کہ مظہر کا مشاہدہ کریں اور اس کے قوانین کا شعور حاصل کریں اور اس سے بالا اگر کچھ ہی بھی تو ہمارے کسی کام کا نہیں کیونکہ جہاں ہم ہوں گے وہیں ہمارا ذہن بھی ہو گا اور جہاں ذہن ہوگا حقیقت بھی اسی کے آئینے سے ہی نظر آۓ گی۔ پس ایک دائروی مشقت ہے جس سے محض اعصاب ہی تھکاۓ جا سکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ فریب کا لفظ نہایت غیر موزوں ہے۔ ہندی فلسفہ اور تصوف کے اثر نے رہبانیت کے تابع یہ تصور پیدا کیا جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگر ظاہری دنیا فریب ہے تو اس کی نوعیت ، قوانین اور وجود سب کو ایک جیسا ہی کیوں محسوس ہوتا ہے؟ ہمارے مشاہدات میں اشتراکات کس بنیاد پر ہیں؟ کیا یہ فریب عالمگیر سطح پر انسانیت کو مسلسل درپیش ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے یہ تو فریب کی تعریف کے بھی خلاف ہے جس میں کم از کم ایک فریق کو حقیقت کا علم ضرور ہوتا ہے مگر یہاں تو سب کو ہی ایک جیسا دکھتا ہے۔ سو بھیا یہ فریب نہیں بلکہ سادہ سی بات ہے کہ وہ ذرائع جن سے ہم خارج کا علم حاصل کرتے ہیں اور جن کے راستے حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے وہ سب انسانوں میں ایک سے ہیں۔

اس دنیا کو فریب کون کہہ سکتا ہے؟ اس سب کچھ کو فریب کہنے والے خود موجود نہیں، حقیقت نہیں؟ اگر حقیقت نہیں، کچھ موجود نہیں، فقط گمان و خیال ہے تو ہر چیز گمان و خیال ہے سو ان برکلے کے چمچوں سے کہئے کہ میاں ذرا کسی سامنے سے آتی ریل گاڑی کے آگے کھڑے ہو کر تصور کریں کہ وہ حقیقت نہیں فریب ہے۔ اس کے بعد ہم بھی اس خیال پر غور فرمائیں گے کہ یہ سب کچھ فریب ہے۔
ہمارا وژن فریب نہیں۔ ہمارا سچ غلط نہیں۔ فرق حدود کا ہے کہ ہم کس حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کا المیہ ہے کہ باتیں فلسفیانہ انداز میں کرنے کے عادی ہیں مگر صرف انداز کی حد تک ہی۔ اپنے تئیں بہت دور کی کوڑی لائیں گے مگر اسی وقت فلسفہ و سائنس سے بیر رکھے ہوئے ہیں اور اس مفت کی عداوت کو ختم کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ یہ ذرا سا سچ برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں تو ہمیں جو مجاز اور حقیقت میں الجھایا گیا، ان کے کند یا تیز ہتھیاروں کا پول بھی دو دن میں کھل جائے۔ زنجیروں سے باندھ کر لڑنے والوں کو اگر اس کے باوجود آگ لگ جائے ہے تو۔۔۔ تصور محال نہیں کہ نتیجہ کیا ہوگا۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top