Close

اسلام اور غیر مسلموں کے حقوق

مسلمان آج ساری دنیا میں یہ شور مچائے پھرتے ہیں کہ اسلام جیسا بہترین دین کوئی نہیں اور اس نے غیر مسلموں کو بھی بہترین حقوق اور مقام و مرتبہ سے نوازا ہے یا اسی طرح یہ شور مچانا کہ اسلام رواداری و برداشت کا دین ہے جو کافروں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات غیر مسلم کافروں کے ساتھ بغض و نفرت، حقارت اور کمتر امتیازی سلوک سے بھری پڑی ہیں۔ جو اسلام کو قبول نہ کرے اسے قدم قدم پر ذلیل و رسوا کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ ان ساری نفرت انگیز حقیقی تعلیمات پر آج مسلمان علماء و داعی پردہ ڈالے رکھتے ہیں اور دوسروں کے سامنے خود پر ظاہری و جھوٹے اخلاق و کردار کا غلاف چڑھا لیتے ہیں۔ اس ظاہری لبادے کا مقصد بھی سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ جو اسلام کی اصلی تعلیمات سے واقف نہیں وہ اس ظاہری اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام کے جال میں پھنس جائے۔
چنانچہ اس سلسلے میں اسلام کی دوسروں سے نفرت و بغض سے بھری تعلیمات کو سامنے لایا جانا ضروری ہیں کیونکہ غیر تو غیر، ان تعلیمات سے آج خود مسلمان تک واقف نہیں ورنہ یہ اس قدر کراہت انگیز ہیں کہ آج کسی انصاف پسند مسلمان کو بھی اسلام کا یہ چہرہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔
 کفار جانوروں سے بھی بدتر
قرآن میں اسلام کو نہ ماننے والے کافروں کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا:
“یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیاده گمراه ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں۔” (الاعراف: 179)
مشہور مفسر و امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: “اور جس نے کفر کیا وہ جانور بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر مترجم، جلد2 صفحہ438، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
اسی طرح ایک اور آیت میں کہا گیا: “کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے، ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گم کردہ راہ ہیں۔” (الفرقان: 44)
گویا اسلام کی دعوت کے نہ ماننے والوں کو سب سے پہلے جس اعزاز سے نوازا گیا ہے وہ یہ کہ ان کی انسانیت کا ہی انکار کر دیا گیا اور انہیں جانوروں جیسا بلکہ ان سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ چند مخصوص جانوروں سے بُرا قرار دیا گیا ہو بلکہ انہیں تمام مخلوقات و جانداروں سے بدتر قرار دیا۔
چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا: “اور الله کے ہاں سب جانداروں میں سے بدتر وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لاتے۔” (الانفال: 55)
 کافر نجس و ناپاک ہیں
قرآن میں غیر مسلم مشرکین کے بارے ارشاد ہوا:
“اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی نجس (ناپاک) ہیں۔” (التوبہ: 28)
قرآن کی اس نفرت انگیز تعلیم کو دیکھئے کہ اپنے تصور توحید کے نہ ماننے والوں کو نجس و ناپاک قرار دیا۔ زیادہ تر مسلم علماء کا تو ماننا یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے باطن سے گندے و نجس ہیں لیکن ان کا جسم ناپاک نہیں۔ مگر بعض ایسے علماء جو قرآن کے ظاہری الفاظ کو ہی اپنی دلیل مانتے ہیں ان کے نزدیک تو کافروں کے جسم بھی ناپاک ہیں، حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے ہاتھ ملا لے تو اپنے ہاتھ دھوئے۔ چنانچہ مفسر ابن کثیر نے لکھا:
“یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل ہے۔۔۔۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے کہ نہیں، پس جمہور کا تو قول ہے کہ نجس نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہریہ (علماء) کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہیں۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔”
(تفسیر ابن کثیر مترجم، ج2 ص550-549، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
 کافروں پر اللّٰه کی لعنت ہے
قرآن کے خدا نے کافروں کو ایک اور اعزاز سے نوازتے ہوئے کہا:
“پس کافروں پر الله کی لعنت” (البقرۃ: 89)
صرف اللہ ہی کی لعنت نہیں اور صرف زندہ کافروں پر ہی نہیں بلکہ دنیا سے گزر جانے والے کافروں تک کے بارے میں فرمایا:
“جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت۔” (البقرۃ: 161)
ایسی تعلیمات کو ماننے والے اور اپنا ایمان قرار دینے والے مسلمان دوسروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ غیر مسلم کفار ان سے بغض رکھتے ہیں۔ ہرگز نہیں یہ تو مسلمانوں کے دل ہیں جو ان نفرت انگیز تعلیمات کے زیر اثر جانتے نہ جانتے ہر غیر مسلم کافر کے خلاف بغض و حقارت سے بھرے ہوئے ہیں۔
 کافروں سے لڑو حتیٰ کہ ذلیل ہو کر جزیہ دیں
قرآن نے اسلام کے قبول نہ کرنے والوں کے خلاف اشتعال اور نفرت دلاتے ہوئے کہا:
“ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ﻻتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کرده شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔” (التوبہ: 29)
مفسر ابن کثیر نے اس آیت کی شرح میں لکھا: “پس (اللہ) فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو۔”
(تفسیر ابن کثیر مترجم، ج2 ص550، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
یہ ہیں وہ تعلیمات جن پر ایمان لانے اور عامل ہونے کی وجہ سے اسلام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں یا دیگر غیر مسلموں کے لئے مسلسل خطرہ ہے۔ قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تک کافر ایمان نہیں لے آتے اور اسلام کے ہی نافذ کردہ حلال و حرام کو مان نہیں لیتے تب تک مسلمان ان سے لڑتے رہیں حتیٰ کہ مسلمان ان غیر مسلموں کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر جزیہ دیں۔ لہٰذا مسلمان دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو لڑنے مرنے کی دھمکیاں لگا کر نہ صرف جزیہ کے نام پر بھتہ وصول کرتے بلکہ انہیں ذلیل ہونے کے لقب دیتے۔
چنانچہ مشہور جنگجو صحابی خالد بن ولید نے اہل فارس کے نام خط لکھا، جس میں موجود تھا کہ:
“ہم تمھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، اگر تم انکار کرو تو تم اپنے ہاتھوں جزیہ ادا کرو اس حال میں کہ تم ذلیل ہو کیونکہ میرے ساتھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں قتال کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے فارسی شراب پسند کرتے ہیں۔”
(حاکم: 299/3، طبرانی کبیر: 105/4، مسند علی بن الجعد: حدیث 2304، مجمع الزوائد: 310/5، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔)
قرآن نے غیر مسلموں کو ذلیل سمجھ کر جزیہ لینے کی بات کی لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ساتھ میں یہ بھی لازم کیا کہ اگر ان کو ذلیل سمجھنے والے مسلمانوں میں سے کوئی ان کے پاس سفر کرتے ہوئے گزرے تو یہ اس کی تین دن تک مہمان نوازی بھی کریں گے۔
چنانچہ ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے “ایلہ” سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں پر ہر سال تین سو دینار کی ادائیگی لازم قرار دی تھی اور یہ لازم قرار دیا تھا کہ جو مسلمان ان کے پاس سے گزرے وہ اس کی تین دن تک مہمان نوازی کریں گے اور وہ کسی مسلمان کو دھوکہ نہیں دیں گے۔”
(مسند امام شافعی ، جزء چہارم، کتاب الاسر و الفداء، باب ضرب الجزیۃ، حدیث 1771، مصنف عبدالرزاق: حدیث 10092، السنن الکبریٰ للبیہقی: 19/9)
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر نے اس پر مزید یہ بھی اضافہ کر دیا کہ اگر مسلمان ان کے پاس سے گزریں تو یہ کافر تین دن تک ان کی نہ صرف مہمان نوازی کریں گے بلکہ ان کی دیگر ضروریات زندگی بھی مہیا کرنے کے پابند ہوں گے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سونے (میں ادائیگی کرنے) والوں پر چار دینار اور چاندی (میں ادائیگی کرنے) والوں پر چالیس درہم جزیہ مقرر فرمایا، اس کے ساتھ ساتھ (گزرنے والے) مسلمانوں کی ضروریات زندگی اور تین دن کی مہمان نوازی”
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجہاد، باب الجزیۃ، حدیث4041 ،مئوطا امام مالک: 1/279، حدیث 623)
یہ زبردستی کی مہمان نوازیاں اور غیر مسلموں کے ساتھ ذلت بھرا سلوک یہیں ختم نہیں ہو گا بلکہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم زبردستی کی ان خوامخواہ کی مہمان نوازیوں سے انکار کریں تو وہ زور زبردستی کے ساتھ مہمان نوازی کا اپنا یہ “اسلامی حق” وصول کریں۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی کرتے ہیں نہ ہمارا وہ حق ادا کرتے ہیں جو ان پر عائد ہوتا ہے اور ہم بھی ان سے اپنا حق (زبردستی) حاصل نہیں کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر وہ انکار کریں اور تمھین زبردستی لینا پڑے تو (زبردستی کر کے) لو۔”
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجہاد، باب الجزیۃ، حدیث 4040، سنن ترمذی: حدیث 1589)
غیر مسلموں پر جنگی یلغار
اسلام چونکہ مسلمانوں کے نزدیک ایک مکمل نظام حیات ہے، اس لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ صحیح اسلامی حکومت اپنے ارد گرد پائے جانے والے دیگر غیر اسلامی قبائل و ریاستوں کے لئے کیسے نادر و نایاب حقوق و فرائض کا عملی نظام رکھتی ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی حکومت جو سب سے پہلا حق رکھتی ہے، وہ یہ کہ جن قبائل اور ریاستوں کا اسلام لانا ثابت نہ ہو، ان پر چڑھ دوڑے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ “آپ جب بھی کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس پر اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سُن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے۔”
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب ما یحقن بالاذان من الدماء، حدیث 610)
امام بخاری نے اس حدیث پر کیا خوب عنوان باندھا ہے: “اذان کی آواز سُن کر خونریزی سے رُک جانا”
اس نبوی نمونے سے سیکھنے والی جو بات ہے وہ یہ کہ ضروری نہیں کہ اہل اسلام کسی غیر مسلم قبیلے یا ریاست کے بارے میں حملہ کرنے سے پہلے ضرور جانتے ہی ہوں کیونکہ جس کے بارے میں جانتے ہوں اس کا اذان سے اسلام پرکھنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اذان کا انتظار اس لئے کیا جاتا کہ جن پر حملہ کیا جا رہا ہے ان کی ایمانی و اسلامی حالت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اگر اذان کی آواز آ جائے تو گویا سامنے والے لوگ مسلمان ہیں، ان پر چڑھائی کا ارادہ ترک کر دیا جائے اور اگر اسلام کی دولت سے مالامال نہیں تو ان کو دنیاوی مال و دولت اور جان کے تحفظ کا بھی کوئی حق نہیں، لہٰذا ان پر چڑھائی کر دی جائے۔ اس لئے اکثر ملتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دشمنوں کی بے خبری و غفلت میں ان کی بستیوں پر حملہ کیا، نوجوانوں کو قتل کیا اور ان کے بے قصور عورتوں اور بچوں کو قیدی و غلام بنا لیا۔ چنانچہ ایسے ہی ایک واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنو مصطلق پر حملہ کیا تو وہ بالکل بے خبر تھے اور ان کے جانوروں کو تالاب پر پانی پلایا جا رہا تھا، چنانچہ آپ نے ان کے لڑنے والوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچون کو قیدی بنا لیا۔ انہی قیدیوں میں جویریہ (بنت حارث) بھی تھیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب العتق، باب من ملک من العرب۔۔۔۔۔، حدیث: 2541)
 مشرکین سے میل ملاپ کی ممانعت
اس احتیاط اور تدبر کے باوجود یہ خطرہ باقی رہ جاتا ہے کہ کہیں کوئی مسلمان ایسے اندھا دھند اسلامی حملوں میں “جانوروں سے بدتر” کافروں کے ساتھ مارا نہ جائے۔ چنانچہ اس کے لئے یہ نبوی حکم دیا گیا کہ
“مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار نہ کرو، ان کے ساتھ میل جول نہ رکھو۔ جو شخص ان کے ساتھ رہائش اختیار کرے اور ان کے ساتھ میل جول رکھے، وہ بھی انہی کی مانند ہو گا۔”
(سنن ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی کراہیۃ المقام بین اظہر المشرکین، حدیث بعد 1530)
اہل اسلام کو کافروں اور مشرکین کے ساتھ میل جول اور رہائش سے اس قدر نفرت اور کراہت دلائی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان باوجود ان اسلامی احکامات کے ان کے درمیان رہیں تو پھر اسلامی حملوں میں ایسے مسلمانوں کے مارے جانے کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خثعم قبیلے کی طرف ایک جنگی مہم روانہ کی، کچھ لوگوں نے سجدے کے ذریعے بچنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے انہیں تیزی سے قتل کر دیا۔ اس بات کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نصف دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا: “میں ہر ایسے مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔”
(سنن ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی کراہیۃ المقام بین اظہر المشرکین، حدیث 1530)
اس روایت میں انتہائی غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اسلام کے نبوی مجاہدین نے ان لوگوں کو بھی کاٹ پھینکا جو سجدے میں گرے ہوئے تھے یعنی ان کا مسلمان ہونا یا نہ ہونا تو ایک طرف لیکن یہ بات تو یقینی تھی کہ وہ لڑ نہیں رہے تھے بلکہ خود کو سجدے میں سرنڈر کر چکے تھے۔ مگر ایمانی تلواروں کے ساتھ ان نہتے لوگوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا گیا۔
آج اسلامی جہادی تنظیمیں اور جماعتیں ان اسلامی احکامات کے مطابق غیر مسلموں پر حملے کرتی ہیں تو ان کو اکثر اپنے ماڈریٹ اور اسلام سے نابلد مسلمانوں کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ان جہادی حملوں میں تو مسلمان بھی مارے جاتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ اسلامی جہادی تنظیمیں اپنے ان اسلامی احکامات کو آپ سے بڑھ کر جانتی ہیں اور اس حقیقی اسلام کی پیروکار ہیں جو کفار کو تو پہلے ہی انسان نہیں سمجھتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کافروں کے ہاں رہنے والے مسلمانوں تک کے بارے میں یہی حقوق اور مقام بیان کرتا ہے۔
 مسلمان کو غیر مسلم کے قتل کے بدلے جان کا تحفظ
ایک اسلامی ریاست میں ایک غیر مسلم کافر کو یہ حق اور مقام بھی حاصل ہو گا کہ اگر کوئی مسلمان اس کو قتل کر دے تو اسلامی ریاست جو اپنے ہاں قتل کے بدلے قتل پر یقین رکھتی ہے، مگر اس کافر کے بدلے میں اس قاتل مسلمان کو ہرگز موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو وصیت کر رکھی تھی جو انہوں نے لکھ رکھی تھی۔ اس میں یہ حکم بھی موجود تھا کہ “کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔”
(سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، باب ایقاد المسلم من الکافر، حدیث 4530)
لہٰذا کوئی بھی غیر مسلم یہ بات بھول جائے کہ ایک اسلامی ریاست میں اس کی جان تک کے بارے میں برابری کی سطح پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح ایک مسلمان کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی غیر مسلم کافر اس کے ہاتھ سے مر مرا جائے تو وہ کم از کم اپنی جان کو بالکل محفوظ و مامون سمجھے۔
 غیر مسلموں کو کمتر و حقیر کام ہی سونپے جائیں
ایک بہترین اسلامی ریاست میں ایک غیر مسلم کافر کو یہ حق اور مقام و مرتبہ بھی حاصل ہو گا کہ اسے کوئی عزت و اکرام والے کام کا اہل نہ سمجھا جائے۔ موجودہ دور کے عرف عام میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی غیر مسلم کافر کو اسلامی ریاست میں “وائٹ کالر جاب” کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کا مقام و مرتبہ یہی ہے کہ اسے ذلت و پستی والے کام ہی سونپے جائیں۔
چنانچہ ابو موسٰی رضي اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے ، وہ کہنے لگے:
“تجھے کیا ہوا، اللہ تجھے تباہ کرے، کیا تو نے اللہ کا فرمان نہيں سنا: {اے ایمان والو ! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا } المائدۃ ( 51 )۔ تو نے ملت حنیفی پر چلنے والے کو حاصل کیوں نہ کیا ( یعنی مسلمان کاتب کیوں نہ رکھا)؟”
ابو موسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: اے امیرالمومنین! مجھے تو اس کی کتابت چاہیے اور اس کے لیے اس کا دین ہے، عمر رضي اللہ عنہ فرمانے لگے :
“جب اللہ تعالی نے ان کی توہین کی اور انہیں ذلیل کیا ہے تو مَیں ان کی عزت و احترام نہيں کرونگا ، اورجب اللہ تعالی نے انہیں دور کیا ہے تو مَیں انہیں قریب نہیں کروں گا۔”
(مجموع الفتاویٰ: 326/25، السنن الکبریٰ للبیہقی: 204/9، أحكام أهل الذمة لابن القيم: 1/ 454، إرواء الغليل: 256/8، محدث و امام ابن تیمیہ نے اس روایت کو صحیح اور محدث علامہ البانی نے “اسنادہ حسن” قرار دیا ہے۔)
 غیر مسلموں کو تحقیر و تضحیک کا نشانہ بنایا جائے
ایک صالح اسلامی معاشرے کا خاصہ یہ ہو گا کہ غیر مسلم کافروں کو سلام میں بالکل پہل نہ کی جائے اور اپنے ارد گرد رہنے والے کافروں کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے حتیٰ کہ اگر راستے میں کوئی غیر مسلم کافر گزرتا نظر آئے تو اسے ذلیل کرنے کے لئے اس کا راستہ تنگ کر دیا جائے۔ یہ ہیں اسلام کی وہ اخلاقی اقدار، جن پر مسلمان جتنا فخر کریں کم ہے کیونکہ یہ اس نبی آخرالزماں کی تعلیمات ہیں کہ جن کا لقب ہی “رحمت اللعالمین” ہے۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کوئی راستے میں مل جائے تو اُسے تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔”
(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب النھی عن ابتداء اہل الکتاب بالسلام و کیف یرد علیہم، حدیث 5546)
مشہور محدث اور امام ترمذی اسی حدیث کو اپنی کتاب میں لانے کے بعد لکھتے ہیں: “بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے نا پسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہوگی جب کہ مسلمانوں کو ان کی تذلیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہو جانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیوںکہ اس میں بھی ان کی تعظیم ہے۔”
(سنن ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی التسلیم علی اہل الکتاب، تحت حدیث 1602)
ذرا اس اعلیٰ اخلاقی تعلیم کو عملی طور پر صرف سوچ کر دیکھئے ٰکہ آتے جاتے گزرتے ہوئے دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے ان کا راستہ تنگ کر دیا جائے۔ کیا تعصب اور حقارت آمیز رویے کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو گی جو اسلام اپنے ماننے والوں کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ غیر مسلموں کی تذلیل و تحقیر وہ بنیادی سبق ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے اور یہی وہ برتاؤ اور تربیت ہے جس پر مسلمان سلف علماء کاربند رہے۔ مگر آج ان اصل تعلیمات کو چھپا کر ظاہر یہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اسلام انتہائی برداشت و رواداری کا دین ہے۔
غیر مسلموں کے بارے دیگر تحقیر آمیز احکامات
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دوسروں کے ساتھ جو سلوک اور برتاؤ سکھا رکھا ہے وہ اخلاقی پست روی اور ذلت آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہے۔ اگر ابھی بھی یقین نہ آئے تو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب کی اہل شام پر عائد کردہ وہ شرائط پڑھئے جن کی بنا پر وہاں کے لوگوں نے ان سے امان حاصل کی تھی۔
چنانچہ عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں: “مَیں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر کو دیا تھا کہ اہل شام کے فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے ساتھ کہ جب آپ نے ہم پر لشکر کشی کی تو ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں:
(اس عہد نامہ کی انتہائی قابل توجہ شرائط درج ذیل ہیں کہ جن سے ایک صحیح اسلامی خلافت و ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے مقام و مرتبہ پر خوب روشنی پڑتی ہے)
ہم اپنے شہروں اور اس کے اطراف میں کوئی نیا کلیسا یا خانقاہ نہیں بنائیں گے۔
ہم اپنے خستہ حال پرانے یا معدوم ہو جانے والے کلیساؤں کی تعمیر نو یا مرمت نہیں کریں گے۔
ہم مسلمان مسافروں کو دن یا رات کسی بھی وقت اپنے کنیساؤں میں قیام سے منع نہیں کریں گے، اور تین دن تک مسلمان مسافروں کی مہمان نوازی کریں گے۔
ہم اپنے کلیساؤں اور گھروں میں کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے۔
ہم مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش یا دھوکہ نہیں کریں گے۔
ہم اپنے کلیساؤں میں بجنے والے ناقوس کی آواز نہایت پست رکھیں گے۔
اپنے کلیساؤں پر نمایاں مقام پر صلیب نصب نہیں کریں گے۔
جب مسلمان ہمارے کلیساؤں میں موجود ہوں تو اپنی عبادات کی ادائیگی کے وقت اپنی آوازیں پست رکھیں گے۔
مسلمانوں کے راستوں میں صلیب اور اپنی مقدس کتاب لے کر نہیں جائیں گے، نا کسی مذہبی اجتماع کا انعقاد یا عید کریں گے۔
اپنے جنازوں کو خاموشی سے گذاریں گے اور (اپنی مذہبی رسم کے مطابق) ساتھ مشعلیں لے کر نہیں چلیں گے۔
مسلمانوں کے سامنے خنزیر لے کر جائیں گے نہ شراب بیچیں گے۔
مسلمانوں کو عیسائیت کی تبلیغ نہیں کریں گے، نا کسی شرک کا ارتکاب کریں گے۔
کسی غلام کو خریدنے کیلئے مسلمانوں کے مقابلے بولی نہیں لگائیں گے۔
اپنے رشتے داروں میں کسی کو اسلام قبول کرنے سے نہیں روکیں گے۔
کسی بھی حال میں زیب و زینت اختیار نہیں کریں گے۔
مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مشابہت اختیار نہیں کریں گے،نا مسلمانوں کی طرح ٹوپی پہنیں گے، نا عمامہ باندھیں گے، نا جوتا پہنیں گے، نا بال بنائیں گے، نا سواری اختیار کریں گے۔
نا مسلمانوں کی زبان بولیں گے، نا ان جیسے نام رکھیں گے۔
اپنی پیشانی کے بال منڈوائیں گے، اور مانگ نہیں نکالیں گے۔
کمر پر زنّار (پٹکا) باندھیں گے، اپنی انگوٹھیوں پر عرب عبارت کندہ نہیں کرائیں گے۔
سواری کیلئے زین (کاٹھی) استعمال نہیں کریں گے، نا کوئی اسلحہ رکھیں گے نا تلوار لٹکائیں گے۔
مسلمانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنےمیں ان کی عزت افزائی کریں گے، انہیں راستے کی نشاندہی کریں گے، کسی محفل میں مسلمان بیٹھنا چاہیں تو ہم کھڑے ہو جائیں گے۔
ہم مسلمانوں کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔
طاپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے۔
کوئی عیسائی، مسلمان کے ساتھ تجارت نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ اس تجارت کا مکمل اختیار مسلمان کے پاس ہو۔
ہم ہر مسلمان مسافر کی تین دن تک مہمان نوازی کریں گے اور اس کے قیام و طعام کا بندوبست کریں گے۔
یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی انہی شرائط پر امان ملی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔
جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کرایا کہ ”کوئی عیسائی مسلمانوں کے بنائے گئے غلام نہیں خریدے گا اور اگر کسی عیسائی نے کسی مسلمان کو مارا تو وہ اس معاہدے میں دی گئی امان کا حق دار نہیں ہوگا“۔
(أحكام أهل الذمة لابن قیم: 1149/3، تفسیر ابن کثیر: تحت سورۃ توبہ آیت 29، إرشاد الفقيه لابن کثیر: 340/2، المحلی لابن حزم: 346/7، الاحکام الصغریٰ لعبدالحق الاشبیلی: 600)
امام ابن کثیر نے ان شرائط کے بارے میں لکھ رکھا ہے کہ “اسے اسحاق بن راہویہ، قاضی ابو محمد بن زبر، بیہقی اور کئی ایک ائمہ نے روایت کیا ہے اور اس کے طرق جید ہیں۔۔۔۔۔ آئمہ اسلام نے ان شروط پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اُن خلفاء راشدین اور ائمہ مھدیین نے اس پر عمل کیا ہے، جنہوں نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا اور اسی کے ساتھ وہ عدل کیا کرتے تھے۔” (إرشاد الفقيه: 340/2)
صرف یہی نہیں بعد والے خلفاء نے بھی غیر مذاہب کے ساتھ اس غیر انسانی و تحقیر آمیز سلوک میں کمی نہ آنے دی بلکہ اضافہ ہی کیا۔ چنانچہ فقہ حنفی کے امام اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز قاضی ابویوسف نے اپنی مشہور کتاب الخراج میں غیر مسلم ذمیوں کے لئے ایسے بہت سے احکامات نقل کئے ہیں۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر ان کی کتاب سے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک خط نقل کیا جا رہا ہے جو انہوں نے اپنے ایک گورنر کو بطور تنبیہ لکھا تھا جس نے شاید غیر مسلموں کی تحقیر و تذلیل پر مبنی احکامات پر عملدرامد چھوڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں کے ہاں پانچویں خلیفہ راشد مانے جاتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک عامل کو یہ لکھا کہ:
“اما بعد، جو صلیبیں اعلانیہ نصب ہیں انکو توڑ دیا جائے۔ اور یہودیوں اور عیسائیوں کو اجازت نہیں کہ وہ سواری کے لیے زین کا استعمال کر سکیں بلکہ انہیں سامان ڈھونے والی کاٹھی رکھ کر ہی سواری کرنا ہو گی اور انکی خواتین بھی زین پر بیٹھ کر سواری نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں بھی سامان ڈھونے والی کاٹھی ہی استعمال کرنی ہے۔ اس کا باقاعدہ فرمان جاری کرو اور عوام کو اس کی نافرمانی نہ کرنے دو اور فرمان جاری کرو کہ کوئی عیسائی قبا نہیں پہن سکتا اور نہ ہی نفیس کپڑا پہن سکتا ہے اور نہ ہی عمامہ پہن سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری عملداری میں بہت سے عیسائی عمامہ پہننے کی رسم میں دوبارہ مبتلا ہو گئے ہیں اور وہ کمر کے گرد پیٹی (زنار) بھی نہیں باندھ رہے ہیں اور اپنے آگے کے سر کو گنجا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اگر تمہاری موجودگی میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اسکی وجہ تمہاری کمزوری ہے، تمہاری نااہلی ہے اور تہمارا خوشامدیں سننا ہے، اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے پرانے رسوم کو جاری کریں۔ تم کس قسم کے انسان ہو؟ ان تمام چیزوں کا خیال رکھو جن کی میں نے ممانعت کی ہے اور ان لوگوں کو ایسا کرنے سے بالکل روک دو۔ والسلام”
(کتاب الخراج لأبي يوسف، صفحہ 145، المكتبة الأزهرية للتراث)
ان تمام شرائط و احکامات پر دوبارہ ایک نظر ڈالئے جو مسلم خلفائے راشدین کی جناب سے دیئے گئے اور پھر انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ یہ کیسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کے دلوں میں دوسروں کے لئے ایسی نفرت اور حقارت پیدا کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے ایسا رویہ و سلوک رکھیں جو جانوروں سے بھی مستحسن نہ سمجھا جائے۔ یہ کیسی بیمار ذہنیت ہے جو اپنے ہی جیسے انسانوں کی ذلت و رسوائی میں اپنی عزت اور توقیر سمجھتی ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان خود اسلام کی ان نفرت انگیز اور تحقیر آمیز تعلیمات سے واقف نہیں اور ضرورت اسی امر کی ہے کہ ان حقیقی اسلامی تعلیمات کو سب کے سامنے لایا جائے تاکہ ان وجوہات کو تلاش کیا جا سکے جو مسلمانوں کے اندر دوسروں کے ساتھ باہمی انسانی اقدار کو اپنانے میں رکاوٹ ہیں۔ حقائق کو چھپا کر ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتے۔

2 Comments

  1. آپ نے جن حوالاجات کو بیان کیا سب درست ہیں لیکن افسوس کہ ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے خود بھی ان احکام کا عمیق مطالعہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کے آپ ان کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔
    ان احکام کی ضروری وجوہات ہیں جن سے آپ قطع نظر فرما رہے ہیں۔
    درج ذیل احکام بھی اسی اسلام کے ہیں جن پر کم فہمی کی وجہ سے آگ برسائی جا رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
    http://magazine.mohaddis.com/shumara/132-sep2006/1931-bilad-e-islamia-main-ghair-muslimon-k-huqooq

جواب دیں

2 Comments
scroll to top