Close

تُڑا مُڑا ہے مگر خدا ہے!!

 

میرے حلقہِ احباب میں شامل ایک محترم دوست کئی دنوں سے سر کھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں بھیا بہت ہوا ایمان لے آؤ۔ اتنا کفر ٹھیک نہیں۔ ایسا ارتداد ٹھیک نہیں۔ اللہ میاں ناراض ہوں گے۔ بھاڑ میں جھونکیں گے۔ فلاں کر دیں گے۔ ڈھمکاں کر دیں گے۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا۔ کہ میاں! ان لایعنی چکروں میں کچھ نہیں رکھا۔ آپ کا اللہ آپ کو مبارک۔ ہمارے سر نہ تھوپیے۔ ہم اس فسوں سے نکل آئے۔ پھر بھی اگر منوا سکتے ہیں تو دلیل لے آئیے۔ ورنہ جو باتیں جناب آج ابھی کیے دے رہے ہیں، وہ عرصہ دراز قبل ہم کیا کرتے تھے۔ بھلا بتائیے؟ ادعائیت بھی کوئی ثبوت ہوا کرتا ہے؟ ایمان کو دلیل سے کیا؟ ان کا تو آپسی بیر ہے۔ ایمان اور اس کی ادعائیت سراسر نامعقول ہے۔ نامعقولیت ہے۔ اس کو معقول ثابت کرنے کیلیے دیے جانے والا ہر ایک جواز نامعقول ہی ہے۔ گویا کسی نامعقول کو معقولیت کا شرف بخشنے کے واسطے کیے جانے والا ہر ایک معقول جواز اپنی غرض میں نامعقول ہی ہوا کرتا ہے۔ جس سے مزید نامعقولات جنم لیتے ہیں۔ بہرحال برسبیل تذکرہ ان صاحب سے ہونے والی گفتگو کا مختصر سا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

جب کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ خدا ہے تب عقل ایسا جواب چاہتی ہے جو منطقی ہو۔ اور یہ کہ جس سے عقلی و منطقی طور ہر خدا کے وجود کو ثابت کیا جا سکے۔ جبکہ خدا کے دعوے داروں کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں جو خدا کے ہونے کو ثابت کر سکے۔ لے دے کے جو دلائل اہلِ مذاہب کے پاس ہوتے ہیں خدا کی موجودگی کو منوانے کیلیے وہ علت و معلول پر انحصار کرتے ہیں، عام مشاہدہ ہے کہ ہر چیز کا ایک چونکہ بنانے والا ہے لہذا کائنات کا بنانے والا بھی کوئی ہے، اور وہ کوئی خدا ہے۔ کیونکہ کائنات ایک معلول ہے لہذا اس کی علت خدا ہے۔ حالانکہ کائنات کی کوئی علتِ شاعرہ فرض کر لینے سے بھی کسی خدا کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہذا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ کبھی یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے کہ وہ عقل کی گرفت میں بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ عقل شریف سے وراء الوراء ہے۔

جب کہا جاتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے اور کائنات ایک مخلوق ہے۔ اس کائنات کا نظم و ضبط کسی خالق نے قائم کیا ہے۔ اس خالق پر حق جمانے کیلیے اس کے جواب کے طور پر اہلِ مذاہب نے اپنی اپنی بساط بھر جواب دینے کی کوشش کی اور اس عالمِ رنگ و بو کی توجیہ کی۔ ان مذہبی توجیہات و تشریحات کے ثبوت میں ہر اہلِ مذاہب کے پاس یہی کچھ ہے کہ فلاں رسول کا فرمایا راست ہے۔ فلاں ہستی کی کہانی سچ ہے۔ گویا ہر مذہب اور اس کی الہامی کتب خود اپنا اثبات کرتی ہیں۔ اس داخلی اثبات کی تعلیم کے سوا اہلِ مذاہب کے پاس کوئی ایک دلیل نہیں کہ جسے اپنی تعلیمات، اپنے خدا کے برحق ہونے پر بطورِ دلیل و ثبوت پیش کیا جا سکے۔ بہرحال فی الوقت مقدمہ یہ نہیں کہ بین المذاہب الہیات کا قضیہ چھیڑا جاوے اور اس پہ گفتگو کی جاوے۔ مقدمہ خدا کی تحلیل کا ہے۔ لہذا اسی سیاق میں رہیں گے۔

کسی بھی مذہب کے خدا کے اثبات کیلیے، اسی مذہب کی الہامی کتب سے اخذ کردہ الہیات سے رجوع کر کے تصدیقی اثبات پیش کیا جاتا ہے۔ اب ہر مذاہب کی الہامی کتب اسی مذہب کے خدا کا اثبات کر رہی ہوتی ہیں کہ جس خدا کے اثبات کا مقدمہ اسی کی الہیات سے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب کے خدا کا اثبات، دیگر مذاہب کے خداؤں کی نفی، ایسی استنادیت کی بنیاد پر کر رہی ہوتی ہے جسے منطقی مغالطہ کہا جاتا ہے۔ سرکلر ریزننگ۔

ہر مذہب کا اپنا نظامِ ادعائیت ہوتا ہے۔ تمام مذاہب میں خدا کو زمان و مکان کاپابند بتایا گیا ہے۔ چاہے یہودیت ہو، عیسائیت، زرتشت مت، ہندومت یا اسلام۔ تمام مذاہب کی الہیات میں خدا کو موجود تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسا موجود جو وجود کی گرفت میں ہے۔ جب بھی ہم کسی شے کو موجود کہتے ہیں تو اسے محدود کر رہے ہوتے ہیں۔ موجود کا مطلب وجود رکھنا ہے۔ وجود رکھنا یعنی ہیئیت کا خارج میں لازم ہونا۔ اہلِ مذاہب اپنے اپنے خدا کو واجب الوجود کی صفت سے یاد کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ عقلاً جس کا پایا جانا یقینی اور اس کا عدم وجود محال ہے۔ گویا خدا ایسا موجود ہے جو وجود رکھتا ہے۔ یعنی ہیئیت میں خارج ہے۔ لازم ہے۔ زمان و مکان کا پابند ہے۔ لیکن سادہ سی بات ہے کیا آپ ایسا تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی جس نے زمان و مکان کو خلق کیا ہو، خود اپنی ہی تخلیق کی گرفت میں ہو؟ دوسرے لفظوں میں خالق خود ہی مخلوق ہو؟ یعنی خالق خود اپنی ہی تخلیق ہے۔ یقیناً خدا کا یہ تصور لغو تصور ہے کہ اسے زمان و مکان کا پابند بتایا جائے۔ خدا خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر ہو، منطقی طور پر یہ ایک متناقص تصور ہے۔ الہیات کے ماہرین کو اس قسم کے لایعنی تصوراتِ خدا کا بخوبی احساس تھا۔ جس بنا پر ایرین فرقے کے بانی ایریس نے قریب قریب اس تصور کی طرف پیش قدمی کی، خدا کو وجود سے ماوراء قرار دیے جانے کی جانب۔ پھر نامعقولیت کے قائل قبلہ و کعبہ پلوٹینس نے خدا کو وجود سے ماوراء قرار دیا۔ ایس اور لیس سے منزہ قرار دیا۔ لیکن مذہبی مصلحوں کی سمجھ میں الہیات کے یہ گہرے رمز نہ آ سکے۔ لہذا وہ خدا خلق کرتے رہے۔ اسے زمان و مکان کا پابند ثابت کرنے پر زور لگاتے رہے۔ لیکن جیسے جیسے خیالات و نظریات یہاں سے وہاں ہوئے، ایک خطے سے دوسرے خطے میں گئے۔ ویسے ویسے اہلِ مذاہب کو اپنے خداؤں کے لایعنی تصور کا احساس ہوا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ مگر بہرحال پھر تاویل اور تشریح و تفسیر وغیرہ کے نام پر اہلِ مذاہب نے اپنے خدا کے زمان و مکان سے ماوراء ہونے کا اقرار شروع کیا۔

قرآنی الہیات کی رُو سے اللہ زمان و مکان کا مقید ہے، لیکن تبع تابعین کے دور میں ایرانیوں سے میل جول بڑھنے کے بعد مسلمانوں نے ایرانیوں سے یہ عقیدہ مستعار لیا۔ کیونکہ مسلمانوں کی نسبت اہلِ ایران کا تصورِ خدا زیادہ ری ڈیفائنڈ تھا۔ اسلام میں سے پہلے حضرت علی کی کتاب نہج البلاغہ میں اللہ میاں کے زمان و مکان سے ماوراء ہونے کا تصور پیش کیا گیا۔ نہج البلاغہ جس کا مصنف شاید ‘رضی’ تھا، اس نے زمان و مکان سے ماورائیت کا تصور اپنے عہد کی ایرانی و یونانی منطق سے مستعار لے کر علی بن ابو طالب کی طرف منسوب کر دیا۔ اسلامی مصادر اصلیہ میں ایسی کوئی ایک نص بھی نہیں جو خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرتی ہو۔ قرون اولیٰ کے مسلمان ایک مجسم خدا پر یقین رکھتے تھے جو ساتویں آسمان کے اوپر تخت لگائے بیٹھا ہے۔ ایک شخصی خدا جو انسانوں کی طرح سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ ایسا کرنا یعنی تمام مذاہب بشمول اسلام میں خدا کو زمان و مکان سے ماوراء بتانا یعنی اپنی ہی الہامی کتب میں موجود تصورِ خدا کا انکار کر کے خدا کو زمان و مکان سے ماوراء بتانا، درحقیقت اپنی ہی الہامی کتب کی سراسر نفی ہے۔ یعنی ایسا اثبات از خود اپنی ہی نفی ہے۔ گویا کہ اپنے خدا کا اثبات اپنے ہی خدا کی الہامی کتب میں، اپنے خدا ہی کی اپنے وجود سے متلعق بیان کردہ الہیاتی کسوٹی کی نفی کر کے کیا جاتا ہے۔ جو ظاہر ہے ایک دلچسپ اور کافی مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ یہ بے بسی کی انتہاء ہے جو قابلِ دید ہے۔ اس تصور کو لینے کے بعد سب سے زیادہ پریشانی یہی رہی کہ وجود سے ماوراء خدا کی صفات کا اقرار کیسے کیا جائے۔ کیونکہ اگر آپ خدا کی تجسیم کے قائل نہیں تو خدا کی ذات سے منسوب تمام صفات کا انکار کر دیں۔ کیونکہ یہ صفات خدا کی تجسیم کے بغیر ممکن نہیں۔

قرآنی الہیات اور یہ نیا عقیدہ کیا یہ ایسا ہی نہیں جیسے کوئی کہے کہ میں واشنگ مشین ہوں؟ اور اسے جواب ملے نہیں بھائی تم ڈیپ فریزر ہو!

بہرحال، اہلِ مذاہب بہت سادہ لوح ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کے ان کا خدا زمان و مکان سے ماوراء نہیں بلکہ اس کا پابند ہے جیسا کہ ان کی الہامی کتب کہتی ہیں۔ تب اہلِ مذاہب نہایت زور و شور سے یہ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ نہیں جی خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ یعنی وہ ایسا موجود ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا۔ جو وجود ہی نہیں رکھتا اس کے موجود ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ بات انتہائی سادہ سی ہے۔ اہلِ مذاہب یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرنے سے خدا ثابت ہو جاتا ہے۔ جبکہ منطقی طور پر وہ خدا کی ایسی بہترین نفی کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں خدا کے اثبات کا مظبوط ترین استدلال ہے۔ ایسا مبنی بر نفی اثبات استدلال کرتے وقت انہیں اس بات کی لایعنیت کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ اپنی الہامی کتب کی الہیاتی کسوٹی کی نفی کرتے ہوئے وہ اپنے خدا کی موجودگی کا جو اثبات پیش کر رہے ہیں، وہ ایک سراسر نفی ہے اور سوائے اس کے کچھ بھی نہیں۔

الہیاتی مدارس کو اس بات کا احساس ہے۔ اس لئے مذہبی الہیات کے جید علماء کرام خدا کے اثبات کیلیے الہیاتی کسوٹی تک ہی رہ کر استدلال کرتے ہیں اس سے باہر نہیں نکلتے۔

لیکن ایسا طبقہ بھی ہے جو ایسی قرآنی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں جن میں اللہ میاں کو زمان و مکان کا پابند بتایا گیا ہے۔ لیکن وہ اسے غلط ثابت کرنے کے چکروں میں اللہ میاں کو زمان و مکان سے ماوراء بتانے کیلیے پر زور یقین کے ساتھ آیات و احادیث کی اپنے مطلب کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔ اپنے مطالب کی تشریحات پیش کرتے ہیں بمصداق یوں کے بکری کو شیر ثابت کرنے جیسے۔ ایسا کرنا ادعائیت اور الہیات سے ناواقفیت ہے۔

پھر بھی اگر کوئی خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تب ظاہر ہے اس میں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جو شے زمانی و مکانی طور پر واقع نہ ہو، وہ غیر موجود ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ خدا زمانی و مکانی طور پر واقع ہے، اس کا سیدھا سا مطلب ہے وہ غیر موجود ہے۔

پورا مقدمہ نہایت ہی سادہ ہے۔ لیکن جواباً عرض کیا گیا کہ بھئی آپ کو تو اسلامی شریعت کا ذرا سا بھی علم نہیں۔ (حالانکہ الہیات پر بات کرنے کیلیے شریعت کا معلوم ہونا ضروری نہیں)۔ وگرنہ ایسا بھونڈا اعتراض کبھی نہیں کرتے۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ خدا کا تصور کیا ہے اور وہ کہاں ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ اکبر۔ اس پر مجھے شدید حیرت ہوئی۔ یا خدا (جو کہیں نہیں موجود) یہ کیا نیا شوشہ ہے۔ اب دیکھیے کیا نکلتا ہے موصوف کی پٹاری سے۔ موصوف کہنے لگے خدا کے زمان و مکان کی قید والا معاملہ ان دو الفاظ سے رفع ہو گیا۔ یعنی مخلوق اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اللہ اکبر یعنی اللہ زمان و مکان سے ماوراء ہے۔

یا حیرت! ‘اللہ اکبر’ کیا اس سے اللہ میاں کا زمان و مکان سے ماوراء ہونا ثابت ہو رہا ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عقل سے ماوراء ہے جو مخلوق کے احاطہ میں نہیں آ سکتا؟ اللہ اکبر معنی اللہ بڑا ہے۔ نہ کہ یہ ‘زمان و مکان سے ماوراء ہے۔’، ‘عقل سے ماوراء ہے۔’۔ لیکن کیا ‘اللہ اکبر’ قرآنی الہیات کی کسوٹی ہے؟ احادیث سے اخذ کی گئی الہیاتی کسوٹی ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تمام باتیں لایعنی ہیں۔ جن کے کرنے کا مقصد اندھے ایمان کی تقلید ہو سکتا ہے، اور کچھ نہیں۔

اتھئیسٹ حضرات سے کہا جاتا ہے کہ وہ یعنی اللہ کہاں ہے؟ آپ اسے مخلوق میں تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر وہ ہے تو مخلوقات میں بھی نظر آئے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس نے خود اپنے بارے میں بزبانِ رسول فرمایا کہ وہ اوپر عرش پر مستوی ہے۔ یعنی عرش اوپر اور بلند ہے۔ اور عرش سے متعلق رسول اللہ نے فرمایا کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ وہ آسمانوں کے اوپر ہو یا آسمانوں کے نیچے۔ عرش پر مستوی ہو یا کسی جگہ۔ اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ آسمانوں کے اوپر عرش کا ہونا اسے اس کائنات سے باہر ثابت نہیں کرتا۔ بہرحال، آپ اسے ممکن الوجود، واجب الوجود، علتِ شاعرہ، علتِ کاملہ، علتِ اولیٰ جو جی میں آئے گردان لیجیے۔ مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں۔ پھر عرض کر رہا ہوں جو چاہے مان لیجیے۔ علت و معلول کا قضیہ، علتِ شاعرہ، ممکن الوجود، واجب الوجود کے قضیات، ان کے بدیہی تصورات کو بھی بالائے طاق رکھتا ہوں۔ یعنی جو جی میں آئے تاویلات فرما لیجیے اللہ میاں کے وجود سے متعلق۔ وہ موجود ہے۔ تو ماہیت ہے۔ موجود کہہ کر ہم نے اسے ماہیت قرار دے دیا۔ ماہیت نہیں پھر موجود ہی نہیں۔ یہ بدیہی منطقی وظیفہ ہے۔

جواباً یہ کہنا بے محل ہوگا کہ: ‘خالق کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔’

یہاں خدا کے وجود کی ماہیت یا اجزائے ترکیبی زیرِ بحث نہیں بلکہ وجود بذاتِ خود اپنے منطقی متعلقات کی بنیاد پر زیرِ بحث ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ خدا کا وجود انسانی وجود کے مادہ کے مثل مادہ سے بنا ہے۔ یہاں خدا اور انسان کے وجود کا تقابلی جائزہ مقصود ہی نہیں۔ ہمارے پیشِ نظر وجود کا مفہوم اپنی کم از کم بنیادی خصوصیات کے ساتھ ہے۔ یعنی ہیئیت وجود کی اولیں بنیادی خصوصیت ہے جس کے بغیر وجود کا لغوی یا اصطلاحی و منطقی و زمانی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اگر وجود کا مفہوم یا ادراک ہیئیت کے بغیر ممکن ہے تو اس کیلیے ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ یہاں ایک بات اور قابلِ غور ہے۔ خدا کو وہ شے محدود نہیں کر رہی جس میں وہ خود موجود ہے بلکہ اس کا ہونا موجود ہے۔ اور موجود ہونے کی بنیاد پر وجود رکھنا محدود کر رہا ہے۔ مثلاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ کمرے میں موجود ہونے کی صورت میں کمرا ہمیں محدود کر رہا ہے بلکہ ہمارا وجود ہمیں محدود کرتا ہے چاہے ہم کمرے کی بجائے کسی بے کراں سمندر میں ہوں یعنی موجود اپنے معروض کے لحاظ سے محدود نہیں ہوتا بلکہ اپنے وجود کے لحاظ سے محدود ہوتا ہے۔ موجود ہونا وجود رکھنا ہے اور وجود فی نفسہ محدود ہے، بالذات محدود ہے نہ کہ اپنے خارج کے بالمقابل محدود ہے اور خارج سے ہٹ کر محدود نہیں۔ اگر خدا موجود ہے تو اس کا محدود ہونا اس کے وجود کی بنیاد پر ہے۔ لہذا خدا کے وجود کا اس کے وجود کی بنیاد پر محدود ماننا لازم آئے گا۔ اگر وہ وجود نہیں رکھتا پھر وہ محض ایک تجریدی خیال سمجھا جائے گا جو صرف انسانی ذہن میں موجود ہے جس کا کوئی حقیقی مصداق نہیں سمجھا جا سکتا۔

اسلامی اسکالرز کہتے ہیں کہ اللہ میاں کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ یعنی اس کی کوئی مثل نہیں۔ جب کہ خود جگہ جگہ وہ وجودِ باری تعالیٰ کی مادی تمثیلات پیش کیے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ مادی تمثیلات کے بغیر اکثر و بیشتر استدلال دیے ہی نہیں جا سکتے۔ اللہ میاں خود اپنی مثال خود دیتے ہیں کہ میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔ پھر قرآن کی ہی ایک تعریف کے مطابق اس کے مثل کوئی شے نہیں۔ اس کی کوئی مثل نہیں، لیکن اس کی عادات زمینی ہیں۔ سورہ الاعراف۔

درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانون اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوا۔ جب کہ رسول اللہ نے بھی بارہا اللہ میاں کے وجود سے متعلق مادی تمثیلات پیش کیں۔ مثلاً اس کے ہاتھ پاؤں کا ہونا (ایسا قرآن بھی کہتا ہے)۔ اس کا غضبناک، رحم دل وغیرہ ہونا۔ جب ‘لیس کمثلہ شیء’ یعنی جسے نادر تسلیم کر لیا جائے، اس کیلیے مادی مثال کا پیش کرنا خود اپنی ہی اثبات کی نفی ہے۔ یہ نفی ناسمجھی اور کوڑھ فہمی کی بنا پر اللہ میاں قرآن میں اور خود رسول اللہ احادیث مبارکہ میں بارہا فرما چکے ہیں۔ ﮐﺴﯽ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ کے ﻭﺟﻮﺩ کے ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ، ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ- ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﺎ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﺯ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻣﺎﺩﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ- ﺍﻟﮩﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺲ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺲ ﺳﮯ ﻣﻨﺰﮦ ﻭ ﻣﺎﻭﺭﺍﺀ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﺎﺑﻌﺪﺍلطبیعاتی ﺟﮩﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ- ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮩﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﻭ ﻏائیت ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺩﯼ ﻧﮧ ﮨﻮ- ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻟﮍﺍ ﺟﺎﺋﮯ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻗﻀﺎﯾﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﻤﺜﯿﻼﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯿﺌﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻧﺎﻗﺺ ﺗﻮ ﮨﯿﮟ ﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ-

خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے، وجود سے آزاد ہے۔ یہ ایک گپ ہے۔ کیونکہ ہر مذہبی خدا وجود کی گرفت میں ہے۔ بہرحال، اسے زمان و مکان سے ماوراء بتاتے ہوئے اہلِ مذاہب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کے کائنات سے باہر کیا صورتِحال ہوگی؟ کتنی کائناتیں ہوں گی؟ ایک؟ یا کئی ساری؟ لیکن بات تفصیل طلب ہے کہ زمان و مکان سے ماوراء جانے کے کیا معنی ہیں اور ان سے کیا مطلب اخذ کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کائنات سے باہر موجود کائناتیں زمان و مکان سے ماوراء ہیں؟ یا وہ مادہ یا غیر مادہ سے بنی ہیں؟ ان پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اہلِ مذاہب زمین کے معاملات سلجھا لیں، ان مسائل پر توجہ دیں جو زمینی ہیں۔ جو زمینی مسائل سمجھنے اور سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کو زیبا نہیں دیتا کہ مابعد الطبیعاتی مسائل میں الجھ کر سب کا وقت برباد کریں۔ خدا کا تصور زمان و مکان سے ماوراء ہونا لایعنی ہے۔ جو بھی موجود ہے زمان و مکان میں موجود ہے۔ موجود کو وجود، ہیئیت، شیئیت، موج، لہر، ارتعاش، یا مادہ اور توانائی کی کوئی بھی صورت، حالت میں لے لیں۔ ایسی کوئی شے نہیں جو ذرات پہ مشتمل نہ ہو۔ اگر خدا موجود ہے تب اسے زمان و مکان میں موجود کسی بھی شے کی طرح جانا جا سکتا ہے۔ اسے زمانی و مکانی ہندسی رشتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ موجود ہونے کی صورت میں ہم موجود ‘خدا’ کے وجود کے ایٹمز کے سب اٹامک پارٹیکلز کی ری اررینجمنٹ ایک مالیکیولر مشین پہ کر سکتے ہیں۔ اسے چاکلیٹ، کافی، بسکٹ بنا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ۔۔۔۔، چلیے چھوڑیے۔

اگر آپ کے خیال میں خدا عقل سے ماوراء ہے یعنی انسانی عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے۔ اس کی کوئی بھی عقلی منطقی وجہ نہیں کہ ایسا تسلیم کیا جائے۔ ظاہر ہے خدا کو عقل سے ماوراء بتانا کوئی معقول عقلی دلیل نہیں بلکہ ادعائیت ہے۔ جو عقل سے ماوراء ہو اس کے وجود سے متعلق عقلی دلیل قائم نہیں کی جا سکتی۔ نا ہی کوئی عقلی ثبوت فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے نادر کے جو عقل سے ماوراء ہو، اس کے اثبات کیلیے پیش کی جانے والی ہر دلیل کسی بھی خیالی شے پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ یعنی اس سے کسی بھی خیالی کردار کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایک دانا کا قول ہے: تم انگور سے ہاتھی کب تک ٹپکاؤ گے؟!

33 Comments

  1. ترجمہ: اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔(ایت الکرسی)
    بہت بہترین آرٹیکل لکھا "تڑا مڑا ہے مگر خدا ہے”۔ قرآن کی رو سے خدا زمان و مکان کا پابند ہے جو تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے اس کی اپنی نفی ہے۔ زمان و مکان سے ماورا ہونے کا تصور اس کے وجود پر( جو کہ نہیں ہے) سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔ یعنی کان کو ادھر سے پکڑو یا ادھر سے بات ایک ہی ہے۔ جیتے رہیں۔
    اس موقع پر جون ایلیا کا اک شعر یاد آگیا۔
    ” ہم نے خدا کا رد لکھا لا بہ لا نفی بے نفی
    ہم ہی خدا گزیداں تم پر گراں گزر گۓ۔
    ایسے ہی لکھتے رہیے اور علم کی شمع روشن کرتے رہیے۔

  2. ۱۔کہا جاتا ہے کہ غالب نے پہلی بار ماچس دیکھی شاید کسی انگریز کے پاس تو حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گیااوربولا یہ کیسی قوم ہے آگ اپنی جیب میں لیے پھرتی ہے۔ یعنی اس کی معلومات اور عقل کا پیمانہ اس کے دور کے مطابق تھا لیکن پھر بھی وہ عقلِ کل تو نہیں تھا۔
    ۲۔اسی طرح ایک لمبے عرصے تک مغرب میں سائینس دانوں کا قتل ہوتا رہا کیونکہ انہوں نے دریافت کیا تھا کہ دنیا گول ہے اور یہ چیز اس وقت کے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ آپ بتائیں وہ کیسے ثابت کرتے ان کم علم اور کم سمجھ لوگوں کے سامنے؟
    ۳۔ ایک بار ایک کنویں میں ایک مینڈک رہتا تھا اتفاق سے سمندر کے پانی کا ایک مینڈک ادھر آ گرا۔ باتوں باتوں میں اس نے کنویں کے مینڈک کو سمندر کے بارے میں بتایا ۔ اب وہ بیچارہ ساری زندگی کنویں سے باہر نہیں گیا تھا تو اس نے کنویں کے دو چکر کاٹے اور پوچھا اتنا بڑا سمندر ہے؟ سمندری مینڈک نے کہا نہیں اس سے بھی بڑا۔ پھر کنویں کے مینڈک نے کنویں کے دس چکر کاٹے اور پوچھا اتنا بڑا ہے سمندر۔ اس بار بھی سمندری مینڈک کا جواب نفی میں تھا ۔ اگلی بار بیس چکر کاٹنے پر بھی سمندری مینڈک نے نفی میں جواب دیا اور کہا سمندر اس سے بھی بہت بڑا ہے تو کنویں کا مینڈک جو بیزار ہو چکا تھا چڑ کر بولا سمندر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی یہ تم نے ایسے بنا رکھا ہے۔ اگر سچے ہو تو دلیل سے ثابت کر کے دکھائو۔
    مختصر یہ کہ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہم لوگوں نے مادی اور ذہنی اعتبار سے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب ہم ہر چیز، ہر بات اور ہر معما حل کر سکنے کا دعوٰی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہر چیز کو عقلی اور دلائل کے طور پر سمجھنے پر مصر ہیں لیکن ایک موٹی سی بات نہیں سمجھ رہے کہ ہر دور کے انسان کی عقل اس کے دور تک محدود ہوتی ہے اور ہم اس ہستی کو دلائل سے ثابت کرنے پر مصر ہیں جس نے یہ ساری کائنات بنائی اور جس نے ہم کو آزاد ذہن دیا اور ہم اس کائنات میں چھپے رازوں کو کھوج کر انسانیت کے دکھوں اور بیماریوں کا مداوا کرنے کی بجائے ایک لاحاصل بحث میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین

      1. Anderson Shaw صاحب ! پھلی بار ماچس دیکھ کر حیرتوں کے سمندر میں ڈوب جانے والے غالب کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔
        ھے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ،
        ھم نے دشتے امکاں کوایک نقشے پا پایا
        ( نوٹ ۔۔۔ اس شعر کا مطلب مجھے نہی آتا )

    1. جسے نے خدا کو سمجھنا ہو وہ الدین القیم کا مطالعہ کر لے لیکن اپنی عقل پر پڑا تعصب کا پردہ ہٹاکر ، ماشا اللہ آپ کی بات وزن رکھتی ہے ان کے لیے جو کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں ، ان کے لیے نہیں جو عین دریا کے درمیان بچنے کے لیے تسلیم کریں۔
      پنجابی دی اک مثال اے
      راکھے نوں سینت
      کھوتے نوں سوٹا

  3. سبحان اللہ ۔۔۔ ماشااللہ ۔۔۔ کیا کہنے راشد فہیم صاحب آپ کے ۔۔۔ ایمان تازہ ھو گیا ۔۔۔ ایسی پرمغز تحریر شاذوناذر ھی نظر سے گزرتی ھے ۔۔۔ آپ کے اس تبصرے پر ایان شاہ صاحب کی بےبسی میں صاف محسوس کر رھا ھوں ۔۔۔ غالب کا پہلی بار ماچس دیکھنا اورحیرتوں کے سمندر میں ڈوب جانا ۔ دنیا کا گول ھونا ( نوٹ – زمین بھی گول ھے ) اور اس پر مغرب میں لمبے عرصے تک سائنسدانوں کا قتل ھوتے رھنا ( اگر آپ ایک دو مقتول سائنسدانوں کے نام بھی نام بھی لکھ دیتے تو سونے پر سہاگہ ھوتا ) ۔ سمندر کے مینڈک سے کنویں کے مینڈک کی گفتگو ۔۔۔ سبحان اللہ — ایان شاہ صاحب کو تو ان مینڈکوں نے ھی لاجواب کر دیا ۔۔۔ اور ایک موٹی سی بات کہ ( ہر دور کے انسان کی عقل اس کے دور تک محدود ہوتی ہے اور ہم اس ہستی کو دلائل سے ثابت کرنے پر مصر ہیں جس نے یہ ساری کائنات بنائی اور جس نے ہم کو آزاد ذہن دیا ) ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ بھلا ایان شاہ صاحب کی باریک عقل میں اتنی موٹی بات کیسے سما سکتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل درست فرمایا کہ ( ہم اس کائنات میں چھپے رازوں کو کھوج کر انسانیت کے دکھوں اور بیماریوں کا مداوا کرنے کی بجائے ایک لاحاصل بحث میں لگے ہوئے ہیں۔ ) ۔۔۔۔۔ اللہ کی حکمت دیکھیۓ کہ اس نے انسانیت کے دکھوں اور بیماریوں کا مداوا کرنے کام بھی انھی سے لیا جو نام نہاد روشن خیال کہلاتے ھیں ، جنھوں نے مذھب سے دوری اختیار کی اور جھنمی قرار پاۓ ۔۔ انھی سے سی ٹی سکین ، پٹ سکین ، الٹرا ساؤنڈ جیسی پیچیدہ مشینیں ایجاد کروائیں ۔ انھی سے دل ،جگر ،گردے اور پھیپھڑے تک کی پیوند کاری کروائ ۔ انھی سے کیمیکل انڈسٹری سے لے کر الیکٹریکل ، الیکٹرونکس ، کمپیوٹر انڈسٹری تک بنوائ جس کا نتیجہ ماچس ، ھوائ جھاز ، کاروں ، ریل گاڑیوں ، سولر سسٹم ، کموڈ ، پالشوں ، فوم کے گدیلوں ، موبائل ، انٹر نیٹ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی شکل میں سامنے آیا جس سے انسانوں کو بے پناہ سہولت میسر ھوئ ۔۔۔۔ بے شک اللہ نے کافروں کو مسلمانوں کی خدمت کے لئے ھی پیدا فرمایا ھے ۔۔۔ اگر میں آج سے ڈیڑھ سو سال سے پچاس سال پہلے پیدا ھوا ھوتا تو اللہ کی ان نعمتوں سے محروم رھتا کیوںکہ اللہ نے یہ سب کچھ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں ھی ایجاد کروایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار ، بہت پہلے میں نے سوچا تھا کہ قادر مطلق خدا نے لاکھوں برس تک انسان کو اپنی ان نعمتوں سے کیوں محروم رکھا مگر پھر مجھے عقل آ گئ ، توبہ کی اور اللہ سے معافی مانگی کہ جھالت کا بھی ایک اپنا ھی نشہ ھے ۔۔۔۔۔۔ اللہ ایان شاہ صاحب جیسے لوگوں کو بھی عقل عطا فرماۓ ۔۔ آمین ۔۔۔ واسلام ۔

  4. کائنات کو وجود دینے والے نے کیسے کیسے انسان پیدا کئیے جو اسی کی دی ہوئی روح کے ساتھ زندہ رہتے ، اسی کے نظام رزق سے توشہ حاصل کرکے پلتے بڑھتے، اس کے پروگرام سے مراعات لے کر عقل مند ہوتے ، اسی کی زمیں پر بغاوت کرتے ، اور اسی کی نفی کرتے ہیں ،واہ واہ ۔
    نوٹ !بندہ انپڑھ ہے مشکل مشکل اردو کے الفاظ نہیں جانتا جن سے قارئیں کرام پر رعب پڑھ سکے۔
    ایک بات کی تائید کروں گا خدا کو ثابت کرنے کی بجائے اس کی کائینات پر غور کرنا اور امانت کے طور پر ملی ہوئی عقل اور وجود کو استعمال کرکے کسی کامیابی کی طرف بڑھنا مقصود ہونا چاہئیے تھا ۔ اور جو بھی نام رکھ لیا جائے خالق کا ، اسے آٹو میٹک سسٹم کہہ لیا جائے یا لکھے، سنے، پڑھے ناموں میں سے کوئی نام دے لیا جائے، اس نے کائینات کو اس بات کا پابند کیا کہ جو میں تیرے اندر چھوڑ رہا ہوں وہ تجھے تسخیر کرے گا اور تو انکار نہیں کرے گی اور کائینات تخلیق کار کے حکم کی پابند ہوئی لیکن اوسطاً 6 فٹ کا بندہ فرائض منصبی بھول گیا ۔ مگر کامیابی اسی قانون کے تحت کہ( وان لیس للانسان الا ماسعیٰ) کہ جتنی کوشش کرے گا حاصل کریگا ، اچھی یا بری کوشش پر منحصر ہے، نہ کہ بس اپنی دھن میں مست رہے، کتے کی طرح پیٹ بھر ے ، پھرتا رہے ، بھونکتا رہے ، چودتا رہے، سو تارہے؟ یا بہکے ، بٹھکے ہوئے لوگوں کی ذہنی اختراع سے متاثر ہوکر خود ساختہ فلسفی بن اپنے جیسے ساتھیوں کی جماعت تیار کرتا رہے کہ جب عذاب ہو تو کم ازکم میں اکلیلا نہ اس جہنم میں جلوں جو فنا ہونے تک دل و دماغ کو جلاتی رہنے والی آتش ہے۔ انسان کے پاس اختیار ہے چاہے تو سمندروں کا سینہ چیر دے، چاہے پہاڑ ریزہ ریزہ کردے، اور چاہے تو اپنے جیسے اوروں کی فلاح کا بیڑا اٹھالے، نت نئے تجربے کرکے اپنا اور دوسروں کے فائدے کا سبب بنے، چاہے دنیا کی حکمرانی کا خواب نت نئے میزائل بنا کر شرمندہ تعبیر کرلے۔ جیسا کرے گا ویسا تجھے نشہ خمار دے گا وہی خمار جس سے روح مست ہوجائے اور اسی کو دیکھنے لگے جو اسکا معمار ہے۔ لیکن انسان اپنی انسان ہونے کے ناتے اعلی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو منوانے کی سعی کرنے پر تل بیٹھا کبھی مذہب کا پرچار کرکے کبھی سیاست کو استعمال کرکے۔ دنیا میں بڑے بڑے نکتہ داں پیدا ہوئے اور خاک بھی نہ رہی۔ اور جنہوں نے اصلاح و فلاح کا بیڑا اٹھایا تاریخ میں سنہرے لفظوں میں یاد رھا۔
    مجھے 100 فیصدسے زیادہ یقین ہے کہ جو ابلیس خدا کی قدرتوں کو جانکر اس کا انکار کرگیا اس کا چیلا کیونکر کسی دلیل کا قائل ہوگا۔
    نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،نہ ہوتا کچھ تو خدا ہوتا
    ڈبویا مجھ کو ہونے نے میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا.
    رہ کھوتے کا کھوتا۔
    وما علینا اللبلاغ "

  5. بہت اعلئ تحریرھے انوارالحق صاحب! بس دست بستہ اتنی گزارش ھے کہ قران پاک کا تقدس بحرصورت پیش نظر رھنا چاہیۓ۔۔۔۔۔ آپ نے قران پاک کی آیت اور ایک انتہائ فحش لفظ کو ایک ھی صفحے پر یکجا کر دیا۔۔آّپ یہ بھی تو لکھ سکتے تھے کہ ” انسان کتے کی طرح جماع کرتا پھرے "۔۔۔۔۔ اس سے آپ کو گناہ بھی نہ ھوتا اور مافی الضمیر بھی بیان ھو جاتا۔۔بحرحال میں نے آپ کی تحریر پڑھ کر اللہ تعالی سے معافی مانگ لی ھے۔۔۔۔۔۔آپ نے سورۃ النجم کی آیت نمبر 39 (وان لیس للانسان الا ماسعی) کا حوالہ دیا
    مفسرین اس پر متفق ھیں کہ یہ آیت دنیاوی ترقی حاصل کرنے کے بارے میں نہیں ھے ۔۔آپ کوئ بھی تفسیر پاک دیکھ سکتے ھیں۔۔اس ایت کو دنیاوی ترقی کے ساتھ نام نھاد دانشوروں اور سوشلسٹوں نے جوڑا ھے ۔۔۔اس آیت کا تعلق صرف اور صرف دینی اعمال کے ساتھ ھے۔۔۔ اگر آپ سورۃالنجم تسلسل کے ساتھ پڑھیں تو اس آیت کا مفہوم آسانی سے واضع ھو جاۓ کا۔۔۔ آپ کی تسلی کے لیۓ سورۃالنجم کی آیات 38 تا 41 کا ترجمہ پیش خدمت ھے ۔
    آیت38= کہ کوئ شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھاۓ گا ۔
    آیت39= اور یہ کہ ھر انسان کے لیۓ صرف وھی ھے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
    آیت 40= اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جاۓ گی ۔
    آیت41= پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جاۓ گا ۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔انوارالحق صاحب ! آپ نے لکھا ( اور جو بھی نام رکھ لیا جائے خالق کا ، اسے آٹو میٹک سسٹم کہہ لیا جائے یا لکھے، سنے، پڑھے ناموں میں سے کوئی نام دے لیا جائے،) ۔۔اس کی وضاحت ضرور فرما دیجیۓ ۔۔ کیا ھم اللہ تعالی کو رام ، ھنومان یا یسوع وغیرہ کے نام سے پکار سکتے ھیں؟۔۔ آپ نے خود کو انپڑھ کہا، جنابعالی ! یہ تو پیغمبرانہ صفت ھے، آپ کو تو اس پر فخر کرنا چاھیۓ ۔۔۔ انسان انپڑھ بیشک ھو مگر اسے جاھل نھیں ھونا چاھیے ۔۔۔ بدقسمتی سے ھمارے ملک میں جاھلوں کی (مجھ سمیت) کمی نہیں۔۔ اگرمیں آپ کی یہی تحریر جاھلوں کے کسی جلسے میں پڑھ دوں تو اول انعام کا حقدار قرار پاؤں ۔۔۔ آپ نے ایان شاہ صاحب کو ابلیس کا چیلا بالکل درست قرار دیا ۔۔۔ شائد انھی کی کسی تحریر میں میں نے پڑھا تھا کہ ” اگر جنت کالالچ اور جھنم کے عذاب کا خوف نہ ھو تو دنیا میں ایک بھی مسلمان نہ رھے۔۔۔ باقی رھی کھوتے کا کھوتا والی بات توجنابعالی آپ جیسے عالم نما شخص کے لیۓ لفظ کھوتا ھرگز مناسب معلوم نہیں دیتا۔۔۔ ھاں ایک بات اور۔۔اوپر جناب Rashid Faheem صاحب کی تحریر آپ نے دیکھی ھو گی۔۔۔کمال ھے ، آپ اور ان کی سوچ ، بلاغت اور اندازتحریر میں رتی برابر بھی فرق محسوس نھیں ھوتا۔ دونوں کی تحریروں سے بالکل ایک جیسی بو آتی ھے،، ایسا اتفاق صدیوں میں ھوتا ھے ۔۔
    ۔۔۔ اپنی تحریر کے آخر میں آپ نے شائد غلطی سے ” وما علینا اللبلاغ ” لکھ دیا ھے ۔ اکثر بیوقوف لوگ (مجھ سمیت ) یہی کرتے ھیں ۔۔۔ وما علینا اللبلاغ کا مطلب ھے۔ جو مجھ تک پہنچا ، آگے سنا دیا۔۔۔ یعنی یہ میری اپنی کہی ھوئ بات نہیں ھے۔۔۔میں نے جو سنا ، آکے سنا دیا ۔۔۔ دعا ھے کہ اللہ آپ کے علم میں برکت دے اور آپ اسی طرح مجھ جیسے احمقوں کی رھنمائ فرماتے رھیں۔۔۔آمین۔۔۔ وما علینا اللبلاغ ۔

    1. جناب عقل مند صاحب ، گزارش ہے کہ آپؐ سرکار ﷺ کا فرمان ہے ایک وقت آئے گا علم عام اور عمل ناپید ہوگا اور یہ بھی کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ مانا جائے گا ، بندے نے سچ لکھا ہے کہ علم سے نابلد اور ناخواندہ ہوں۔ رہی بات خدا کے ناموں کی تو بھلےشاہؒ نے لکھا ہے رام رحیم تے مولا کی گل سمجھ لئی تے رولا کی ، اصل میں ہم اپنے فہم کے مطابق ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے جسے میں نے چیلا کہا وہ کس اینگل پر بولتا ہے اور ہمارے سمجھنے میں فرق ہو۔ جب ادراک حاصل ہو تو بہت سارے مسٔلے حل ہوجاتے ہیں۔ خدا کے بارے اس لیے لکھا کہ جو خدا کو نہیں مانتے وہ جو بھی سمجھ لیں ، کوشش کے متعلق یہی ہماری کم نصیبی ہے کہ قرآن کو بس اسکے لفظی اور ظاہری معنوں میں ہی لیتے ہیں اس کی روح تک رسائی کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یوں کہ لیجیے کہ اس کے ظاہری احکامات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ کھوتے کا لفظ گدھا بھی لکھ سکتا تھا یا عربی میں جو اسے کہتے ہیں وہ بھی ، اگر کوئی خدا اور اسکے رسول کے بارے غلط نظریہ رکھے تو میں اسے کھوتا کہ دوں تو آسمان نہیں گرنے والا ، اور قرآن منی کا زکر کرتا ہے زنا کا کرتا ہے ہم پنجابی میں چود کہتے ہیں اگر اپنی ماں بولی میں غصے کی حالت میں لکھا ہے تو اس کے گناہ کا ذمے دار ہوں ۔ کنویں میں جیسی آواز دو واپس ایسی ہی سنائی دیتی ہے ، آج کے دور میں کوئی ناسمجھ نہیں جسے الفت کے الفاظوں سے قائل کیا جائے ، جو لوگ نابلد تھے روشنی سے انھیں رسولِ پاکﷺ نے محبت سے دعوت دی انھیں کبھی کسی نے محبت نہ دی تھی پِسے ہوئے تھے کہ اس کا جلدی اثر ہوا ، لیکن آج کے بد بختوں کو محبت نہیں اذیت ناک سزا دینے والا کوئی نہیں ، کیوں کہ خود کوئی باکمال ، باعمل ، %100 ٖفیصد مومن نہیں ۔

      1. بھائ انوارالحق صاحب! آپ کی ھر بات سو فیصد درست ھے۔۔۔واقعی آج کے بدبختوں کو اذیت ناک سزا دینے والا کوئی نہیں۔۔۔انوار بھائ جسطرح آپ اللہ اور اسکے دین کی حفاظت پر کمر بستہ ھیں، اسی طرح اللہ بھی آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔وما علینا اللبلاغ ۔

  6. مجھے اب یاد نہیں کہ کس ردِ عمل اور جواب میں یہ لکھا ، لیکن میرے پاس محفوظ تھا کیوں کہ پہلے لکھ کر خود سمجھتا ہوں کہ کیا جو میں کہنا چاہتا تھا وہ مدعا صحیح لکھا گیا ہے ۔ لیکن جب یہاں دیکھا تو یہ تحریر نہیں تھی شاید سینڈ نہ ہوسکی یا کیا وجہ ہوئی دوبارہ پیشِ خدمت ہے۔ اس سائیٹ پر یہ میری پہلی تحریر ہے جو لکھی تھی، میرے لکھتے ہوئے ہاتھ دکھنے لگتے ہیں نظر کمزور ہے آنکھوں سے پانی نکلنا جاری ہوجاتا ہے یہ میری بڑی ہمت ہے کہ اتنا لکھ پارہا ہوں۔
    ایک حوالہ ڈھونڈتے اس سائیٹ پر بھٹک کر آنکلا، مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کہ بعد تجسس نے یہاں الجھا دیا۔ مجھ سے ہر انسان بہتر ہوسکتا ہے اس لیے کہ شائد ہر کوئی کسی کے کسی کام آتا ہو گا اس کا اخلاق بھی مجھ سے بہتر ہوگا لیکن میں ان اچھے کاموں سے محروم ہوں۔ حالات و واقعات نے نہ تو مجھے شعور کی سیڑھی چڑھنے دیا اور نہ ہی میری بطور انسان صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوسکا۔ سمعے نے جو سکھایا اس سے بھی نبردآزما نہیں ہوپارہا۔ (میں ایک انپڑھ مذدور ہوں) بہر حال
    Anderson Shaw کی تحریروں نے میرے اندر ایک سوال ضرور پیدا کیا ہے جسکا جواب دینے کی ناکام سعی کررہا ہوں۔ہر انسان اپنی فطرت پر معصوم پیدا ہوتا ہے ، اس کے اردگرد کا ماحول اسے ہندو ، مسلم ، سکھ، عیسائی ، یہودی ،بدھ مت ، پارسی ،دہریا، الغرض جتنے بھی دنیا میں ادیان ہیں سکھاتا ہے۔ چند ایک لوگ دنیا میں ایسے ہونگے جو بھوکے ننگے ماں باپ کی اولاد ہونے پر علم حاصل کرسکیں ، فلاسفر بن سکیں، یا بہتر زندگی گزارسکیں۔ ایسا ہر گزنہیں کہ حضرت مریمؑ کی طرح کسی مرد کے نطفے کے بغیر کوئی اور بھی پیدا ہونے کے حادثے کا مظاہرہ ہوسکتا۔ضرور جاگ لگتی ہے تو دہی جمتا ہے میرا مطلب سمجھ رہے ہیں آپ؟ پھر جب کوئی خود مختار ہوجاتا ہے تو وہ آزاد ہے کہ بےدین رہے یا دین دار بنے۔ انسان بنے یا حیوانی صفات کے نتیجے میں فساد کرتا پھرے ۔ خدا کا انکار کرے یا اقرار ، آخرت کو جھٹلائے یا یقین رکھے ، حالات کی سازگاری کے نتیجے میں فلاسفر بن کراوروں پر اپنا نقطہ نظر مسلط کرتا پھرے ورغلاتا رہے۔ لیکن اسے مکافات عمل سے گزرنا ضرور پڑھے گا۔
    رہا اسلامی نکتہ نظر تو اسے مؤرخوں نے خاصہ مسخ کردیا ہے ۔ انسان کے اندر شر اور خیر دونوں قوتیں کارفرما ہیں۔ ایک ایسا نظام جس میں فطرت کے باغیوں کو دعوت خیر کے انکار پر بزورِ تلوار کسی ضابطے کا پابند بنا کر مساوات کا نظام جس میں سب کے حقوق برابر ہوں کوئی کسی سے کمتر یا اعلی نہ ہو سوائے کردار کی دولت کے اسلام کہلایا۔لیکن شر کی قوتیں اس نظام میں خلل ڈالنے کے درپے رہیں جو بھی نظام پر دھوکے سے مسلط ہوا اس نے اپنا فلسفہ ، دین، نظریہ مسلط کیا۔
    جس الہامی کتاب میں سقم ظاہر کیئے جارہے ہیں اسی میں یہ بھی لکھا ہے(جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم ومذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک (یعنی دوسرے انسانوں کی اصلاح کرے گا ، مدد کرے گا ، کسی کامال ناحق نہیں کھائے گا ، طاقت کا غلط استعمال نہیں کرے گا،کسی عورت پر بری نگاہ نہیں ڈالے گا سوائے کسی ضابطے کے وغیرہ وغیرہ) تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔2/62
    اب سوال یہ ہے کہ نظام دنیا چلانے کے لیے کوئی تو ضابطہ اپنانا پڑے گا سرکش کو سزا دیے بغیر دوسرے کیسے محفوظ رہ پائیں گے ۔ لیکن بدقسمتی سے سرکشی کو فروغ دیا جارہا ہے ، ایک مثال ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یہ سراسر طاقت کا غلط استعمال ہے۔ ہر کوئی اپنی مصنوئی بقا کے لیے دوسروں کے وسائل ہڑپ کرتا چلا آرہا ہے، دوسروں پر دھونس جماتا چلا آرہا ہے، غور کرنے سے مجھے تو یہی پتہ چلا ہے۔ ایک سپر پاور نے دوسری کو کسی دوسرے ملک کا میدان استعمال کرکےکمر توڑی ۔پھر جب وہی ملک ایک نظام کی طرف بڑھا تو شترنج کی چال چلنے والے شاطر کھلاڑی کو کھڑکا لگا اور اسی کو نیست نابود کرنے دوڑا ۔ یہی شر کی روِشیں دنیا میں کسی نظام کو نافظ ہونے میں رکاوٹ بنتی رہی ہیں۔

  7. ایان شاہ صاحب سے عاجزانہ التماس ھے کہ مہربانی فرما کر لوگوں کی صحت سے نہ کھیلیں۔۔۔آپ بڑے عالم ھوں گے لیکن خدا کے لیۓ ایسے آرٹیکل(مضامین)مت لکھیۓ جنہیں پڑھ کر خدانخواستہ کسی مومن کو کچھ ھو جاۓ۔۔۔۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آپ کے اس تڑے مڑے مضمون سے میرے بھائ جناب انوار یا ایوارالحق صاحب کی کیا حالت ھوئ۔۔۔انہوں نے تو خیر غصے کی حالت میں چند گالیاں ھی دیں اور ان کے ھاتھوں میں درد ھوا اور آنکھوں سے پانی بہا جس سے یقینآ بینائ متاثرھوئ ھوگی مگر کسی اور کو ھارٹ اٹیک بھی ھو سکتا ھے، کوئ مکمل پاگل بھی ھو سکتا ھے۔۔۔ امید ھے کہ آپ میری گزارش پر ضرور توجہ دیں گے۔۔۔اللہ آپ کو ھدائت دے ۔۔۔ وما علینا اللبلاغ ۔

  8. Bay Aqqal بہت نوازش حضور !
    بندہ ذہنی اور جسمانی طور پر اِل ہے یہ تو آپ پر منکشف ہوا لیکن الحمد للہ روح توانا ہے۔
    الہ کی بارگاہ میں دعا ہے
    یا شافی الامراض
    یا دافع البلییات
    یا حلل مشکلات
    یا قاض الحاجات
    یا مستجیب الدعوۃ۔
    وما علینا اللبلاغ:-

  9. عقل شریف ابھی تک صرف کشش ثقل ہی دریافت کرپائ ہے ا ور اس سے باہر نکلنے کا فی الحال ایک ہی راستہ دریافت کرسکی ہے. اس مشین کی ایجاد کی وجہ یہ ہے کہ عقل اسباب پر بھروسہ کرتی ہے اور وجود پر یقین رکھتی ہے جبکہ اصولی طور پر ثقل کا از خود لطیف بھی موجود ہونا چاہئے جس دن عقل نے ثقل کا لطیف دریافت کرلیا اس دن انسان زمان و مکان کی قیود کا محتاج نہیں رہے گا, اور خدا کی اصلیت بھی دریافت کر نے کے قریب تر پہنچ جائے گا.
    تمامتر جدیدیت کے باوجود ہم ابھی تک دیوار کے اس پار دیکھنے کا کوئی آلہ تو بنا نہیں پائے تو خدا کو کیا دیکھ پائیں گے.اس کی ہیئت کو کیا سمجھ سکیں گے.اس کے وجود کو کیسے نام دے سکتے ہیں۔
    آج کی ایک جدید مشین ڈرونز تو آپکے ملاحظ میں آئ ہوگی. وہ ہوا میں بغیر کسی انسان کے اڑتی ہے اور جہاں اسے استعمال کرنا چاہیں,کر سکتے ہیں..اس مشین کا آپریٹر ایک آئ ٹی ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ جو دور کہیں کسی کمرے میں بیٹھ کر اسے اڑاتا ہے, مشین از خود تو نہیں اڑتی اسے کوئی تو اڑا رہا ہے..مگر کیسے ؟ اس لئے کہ مشین کی بناوٹ میں کچھ کوڈ رکھے گئے تھے ,ان کوڈز کو صرف وہ آپریٹر اور چند ایک مصاحب خاص ہی جانتے ہیں, چنانچہ وہ ان کوڈز کی مدد سے اس مشین کو من چاہی سمت میں حرکت دے سکتے ہیں۔
    بلکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز بنا کر اس میں کچھ کوڈز رکھ دیئے جو وہی اور اس کے حکم سے اسکے مصاحب ہی جانتے ہیں,کوئی دوسرا نہیں چنانچہ وہ ہر شے میں موجود کوڈز کے زریعے موجود ہے بھی اور نہیں بھی.. اور وہ ہر شے کو حرکت دیتا ہے۔
    اب وہ کیا ہے,کیسا ہے کوئی نہیں جانتا…بلکل اسی طرح جس طرح ہم ڈرونز آپریٹر کو نہیں جانتے کہ وہ کوئی لڑکی ہے لڑکا ہے بوڑھا ہے یا جوان ہے وغیرہ لیکن یہ جانتے ہیں کہ وہ ہماری طرح کا کوئی انسان ہی ہوگا.
    جب اللہ تعالیٰ کے وجود کی انسانی متشکل کی مثال دی جاتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سو فیصد ہماری طرح دکھنے والا وجود ہے, بلکہ یہ محض استعاراتی تخیل عوام کو سمجھانے کے لئے ہے, وہ نور ہے مگر کیسا نور ہے کوئی نہیں جانتا,

    1. ماشا اللہ ، جزاک اللہ خیر ، محترم یہ لطیف کلام لطف والوں کے لیے ہے نہ کہ ان کے لیے جو کسی بھی قدرتی قوانین کے منکر ہیں۔
      پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
      مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ھے بے اثر

      1. اہل علم درست استدال کو مان لیتے ہیں کہ انکے دل علم کی مشقت سے نرم ہوجاتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے ایک دن یہی موصوف دین اسلام کی خدمت میں پیش پیش ہونگے…کہ عمر بھی آقاء دوجہاں کو قتل کرنے آئے تھے مگر خود آقاء کی محبت میں کشتہ بن کر لوٹے…

  10. ایان شاہ !

    آپ بیکار اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں- علی مولا پر آپ نے جو تہمت لگائی اس کا حساب آپ کو روز محشر دینا ہوگا- اور جب علی نے نہج البلاغہ میں کہہ دیا کہ خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے پھر آپ کون ہوتے ہیں اس معاملے میں فضول گوئی کرنے والے؟ اپنی توانائیاں مثبت کاموں میں خرچ کریں- آسمان پر تھوکا اپنے مونہہ پر ہی آتا ہے اس لیے زرا سوچ سمجھ کر- والسلام-

  11. اوئے بیوقوفوں گدھوں !
    میرے تبصرے شائع کرو- ایان شاہ تم جیسے لوگ لاتوں کے بھوت ہو- تم سے دلیل سے بات کرنے آیا تھا مگر تم تو کھوتے نکلے- تم سے اب گولی سے بات ہوگی- تم کتے کی دم کتے کی موت مرو گے- خبیث سور- منہوس الو- تم نے علی مولا پر بہتان باندہ کر اپنی موت کے پروانے پر رخصتی کے دستخط کر لیے ہیں- کنجر آدمی تمہاری خیر نہیں اب-

  12. ہون! تو تم لوگ میرے تبصرے شائع نہیں کرو گے؟ ٹھیک ہے! اب تم بچ نہیں سکتے مجھ سے- تم جانتے نہیں مجھے کہ میں کون ہوں کیا کر سکتا ہوں- ایان شاہ تیری موت میرے ہاتھوں ہی ہوگی- کھوتے دا پتر- دنیا کے کسی کونے میں چھپ جا تو مجھ سے اور میری تنظیم سے بچ نہ سکے گا- اگر جان کی امان چاہتا ہے تو اس مضمون میں سے علی مولا پر جو بہتان باندھا ہے واپس لے- ورنہ تو گیا-

  13. کھوتے دا پتر- بیغیرت نیچ آدمی- فورن علی مولا پر باندھا بہتان واپس لے- ورنہ تیری آئندہ آنے والی نسلیں تک کانپیں گی میرے نام سے- ایسا سخت عذاب دوں گا تجھے- کتے کی موت ماروں گا تجھے بے غیرت کنجر کتے سالے-

    1. سلام
      آپ اپنا اخلاق نہ خراب کریں بلکہ ان کے حق میں دعا کریں .
      ممکن ہے یہ حضرات تائب ہو جائیں اور راہ راست اختیار کریں.
      وقت بہت بڑا استاد ہوتا ہے,بڑے بڑوں کو سبق سکھا دیتا ہے.
      آپ کو یاد ہوگا کہ فرعون موسی(ع) بیچ دریا میں خدا پرایمان لانے کےلیے تیار ہوگیا تھا مگر عین موت کے وقت کچھ بھی قبول نہیں ہوتا .

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

33 Comments
scroll to top