Close

شر اور آزاد ارادہ

خدا کے معیاری وصف کے مطابق جن جدلیات سے خدا کی نفی ہوتی ہے ان میں سے ایک مندرجہ ذیل ہے:

1- اگر خدا موجود ہے تو وہ سب کچھ جانتا (علیم) ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور مجسم اچھائی ہے۔
2- شر، درد اور تکالیف کی موجودگی ایک ایسے خدا سے راست تناسب نہیں رکھتیں جو مجسم اچھائی ہو کیونکہ یہ برائیاں موجود ہیں۔
3- لہذا خدا وجود نہیں رکھتا کیونکہ برائی کے وجود سے اس کے مجسم اچھائی کی صفت کی نفی ہوجاتی ہے۔

مؤمنین کی طرف سے اس کا دفاع آزاد ارادے کی موجودگی سے کیا جاتا ہے، آزاد ارادے کے اصول کے تحت یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اوپر کا مفروضہ نمبر 2 غلط ہے کیونکہ شر انسان کا پیدا کردہ ہے اور خدا نے انسان کو خیر وشر میں انتخاب کی صلاحیت یعنی آزاد ارادہ دیا ہے لہذا شر کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ خدا نہیں ہے۔

جب شر کی موجودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مؤمن کو خدا کی موجودگی کو جواز دینے کے لیے مجبوراً یہ کہنا پڑتا ہے کہ خدا نے انسان کو آزاد ارادے سمیت تخلیق کیا ہے، اس ضمن میں سب سے طاقتور بیان رچرڈ سوینبرن (Richard Swinburne) کا ہے، وہ کہتے ہیں کہ شر کا پیشگی علم رکھتے ہوئے بھی خدا نے دنیا تخلیق کی، اس خدا نے شر کے خاتمے کے لیے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ انسانی فیصلوں کی خود مختاری ضروری ہے، خدا سمجھتا ہے کہ اگرچہ یہ خود مختاری شر کی طرف بھی لے جائے گی تاہم اس خود مختاری کی مطلق قیمت مطلق اچھائی سے زیادہ ہے۔

یہ نکتہ کافی اہم اور قابلِ غور ہے، لہذا ہم یہ فرض کرتے ہوئے کہ توراتی مسالک درست ہیں اس پر تھوڑی سی بحث کرتے ہیں:

ہم کہیں گے کہ خدا ازل سے موجود ہے، وہ نہ صرف ہر چیز پر قادر اور عالم ہے بلکہ وہ مجسم اچھائی بھی ہے، اس خدا نے کسی خاص لمحہ (مثلاً ل-1) میں کائنات تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے آدم اور حوا کو بھی تخلیق کیا اور انہیں جنت میں بھیج دیا تاکہ وہ وہاں خوش وخرم زندگی گزار سکیں اس لمحہ تک جب ابلیس انہیں اپنے خالق کے خلاف بغاوت پر اکساتا ہے، اب چونکہ ان کے پاس آزاد ارادہ تھا لہذا انہوں نے خدا کی نا فرمانی کرنے کا انتخاب کیا، اس حماقت کا تمام انسانوں پر ایک لا متناہی اثر ہوا، انسان سے معصومیت اور لا فانیت چھین لی گئی اور شر اس کی نیچر کا ایک حصہ بن گیا، اب یہ ممکن نہیں رہا کہ انسان غلطی نہ کرے، یقیناً توراتی مسالک میں گناہِ اصل کے حوالے سے کافی اختلافات ہیں جو کہ ہمیشہ ہر مذہب کا خاصہ ہوتے ہیں، بعض کے نزدیک گناہِ اصل کا ازالہ ممکن نہیں جبکہ بعض دیگر کا خیال ہے کہ حضرت یسوع کے مصلوب ہوتے ہی یہ زائل ہوگیا تھا وغیرہ، اور جس طرح توراتی مسالک میں اس قصہ کو لے کر اختلافات ہیں اسی طرح اسلامی کہانی بھی اس حوالے سے کافی مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ کسی گناہِ اصل کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔۔ بہر حال ہم آزاد ارادے کے مسئلے کے ارتقاء کا تعاقب طے شُدہ لمحہ سے کرتے ہیں جب آدم اور حوا نے خدا کی نا فرمانی کرنے کا فیصلہ کیا جو اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ غلطی کریں گے مگر اس نے یہ خیال کیا کہ آزاد ارادے کی حفاظت از بس ضروری ہے چاہے انسان شر کے ارتکاب کا فیصلہ ہی کیوں نہ کر لے، لہذا خدا پر شر کی موجودگی کا الزام نہیں دھرا جاسکتا۔

یوں لگتا ہے کہ آزاد ارادے پر مشتمل یہ دفاع خدا کا انکار کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہے، ذیل میں ہم اس منطق کے جھول کو بیان کریں گے:

طبعی شر:

آزاد ارادے کی یہ حجت خدا کے کندھوں پر سے برائی کی تمام تر ذمہ داری رفع کرنے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ درد وتکالیف اپنی طبعی شکل میں موجود ہیں اور اس طرح کا شر انسان کے کردار کے نتیجہ میں واقع نہیں ہوتا، مثلاً بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی، زلزلے، وبائیں اور بیماریاں، انفرادی انسانی سطح کی اگر بات کی جائے تو خواتین کے ہاں عملِ تولید اور حیض کی تکالیف، ناقص ساخت وبد ہیئت بچوں کی پیدائش اور وراثتی بیماریاں جن کے ہونے میں انسان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، اس طرح کے آلام وتکالیف سے صرف دو ہی نتیجے برآمد ہوتے ہیں:

1- یا تو خدا اس طبعی شر کا ذمہ دار ہے جس سے اس کے مطلق اچھائی کی صفت ساقط ہوجائے گی۔
2- یا خدا کو اس طرح کے شر پر کوئی اختیار نہیں ہے جس سے اس کے قادرِ مطلق کی صفت ساقط ہوجائے گی۔

انسان کا پیدا کردہ شر:

آزاد ارادے کی منطق کا دوسرا مسئلہ یہ کہنا ہے کہ خدا نے آدم اور حوا کو معتدل طبیعت میں تخلیق کیا ہے، یعنی نا تو وہ اچھائی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور نا ہی برائی کی طرف تاکہ انسان آزادی سے خیر وشر کے انتخاب کا فیصلہ کر سکے، لیکن چونکہ یہ فطرت بنی نوعِ انسان میں وراثتی ہے چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ چونکہ یہ بے چین فطرت خدا نے ہی انسان میں ودیعت کی ہے لہذا خدا ہی انسانوں کے اس رجحان کا ذمہ دار ہے کیونکہ انسان اور اس کی فطرتوں اور رجحانات کا اول وآخر خالق خدا ہی ہے، یوں جو خدا برائی کے امکانات تخلیق کرتا ہے وہ مجسم اچھائی نہیں ہوسکتا، مزید برآں یہاں کسی آزاد ارادے کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ انسان کی ایسی فطرت اسے عقلی، جسمانی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار بنا دے گی اور ایسے کسی مسلط دباؤ کے تحت وہ جو کچھ بھی کرے گا وہ اس کا پوری طرح ذمہ دار نہیں ہوگا اور اس کا ارادہ پوری طرح آزاد قرار نہیں پائے گا۔

اصولِ سببیت اور شر:

اصولِ سببیت یا ہر چیز کا ایک خالق اور مسبب ہے آزاد ارادے سے متصادم ہے، اگر ہر چیز کا کوئی سبب اور مُسبب ہے اور یہ مُسبباتی سلسلہ سببِ اول کی طرف جاتا ہے جو کہ خدا ہے تو ایسے میں میرے تمام افعال کا سبب مرے ارد گرد موجود چیزوں، مکانی وزمانی حالات اور میری وہ محدود صلاحیتیں ہیں جو میں نے اپنے اجداد سے ورثہ میں پائی ہیں، نتیجتاً میرے افعال اور فیصلے اگرچہ بادی النظر میں آزاد ارادے وانتخاب کا نتیجہ لگتے ہیں لیکن وہ در حقیقت خدا سے مسبُوب ہیں جو مُسببات کے تکون کے سب سے اوپر کھڑا ہے کیونکہ وہ مُسببِ اول ہے لہذا میں اپنے فیصلوں میں جبریت کا شکار ہوں آزاد قطعی نہیں ہوں۔

اور اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ انسان آزادانہ طور پر اپنے افعال کا خالق اور مُسبب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر چیز کا خالق اور مُسبب خدا نہیں ہے اور میرا انتخاب یا فیصلہ بغیر کسی سبب اور مُسبب کے تھا یعنی جو فعل میں نے انجام دیا ہے اسے خدا نے تخلیق نہیں کیا یوں ہمیں لا محالہ خدا پر سے قادرِ مطلق کی صفت کو ساقط کرنا پڑ جائے گا اور وہ قطعاً عبادت کے قابل نہیں رہے گا، دوسری طرف اگر خدا ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جانتا ہے کہ میں ایک لمحہ بعد کیا کروں گا، اگر وہ جانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں یہ کام لا محالہ انجام دوں گا جو آزاد ارادے کے اصول کے منافی ہے کیونکہ میں کوئی مخصوص کام یا فعل کرنے کا لازماً پابند ہوں کیونکہ خدا یہ سب پہلے سے جانتا ہے، اور اگر خدا نہیں جانتا کہ میں اگلے لمحہ کیا کرنے والا ہوں کیونکہ میرے پاس آزاد ارادہ ہے اور میں اپنے انتخاب میں آزاد ہوں تو یہ امر خدا پر سے علیم کی صفت ساقط کردے گا۔

خدا کی محدود فطرت اور شر:

بعض لوگ خدا کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ خدا برائی کرنے پر قادر ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ خدا کی فطرت میں صرف اچھائی کرنا ہے۔۔ مگر ❞خدا کی فطرت❝ سے ان لوگوں کا کیا مطلب ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ کسی فطرت یا نیچر کے ہونے کا مطلب محدودیت کی موجودگی ہے، انسانی فطرت جینوں اور موروثاتی صفات کا مجموعہ ہے جن میں جسمانی حدیں بھی شامل ہیں، مثلاً اگر ہم چاہیں بھی تو ہوا میں نہیں اُڑ سکتے کیونکہ ہماری فطرت ہمارے سلوک پر کچھ حدود لاگو کرتی ہے، اب یہ کہنا کہ انسان اگر چاہے تو ہوا میں اُڑ سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس کی فطرت میں اڑنا نہیں ہے بالکل بکواس بات ہے، فطرت ہی حدیں لاگو کرتی ہے جس کے خلاف جانا نا ممکن ہے، ایسے میں یہ ایک بے تُکی بات ہے کہ خدا جس کی طاقتیں لا محدود ہیں اس میں اچھائی کرنے کی پیشگی فطرت موجود ہے؟

آزاد ارادے کے لیے لازم ہے کہ:

1- مساوی قدر کے متعدد اختیارات ہوں۔
2- نفسیاتی اور جسمانی رکاوٹیں نہ ہوں۔
3- ہدف کے حصول کی قدرت ہو یعنی طاقت اور وسائل۔

مثلاً ہم ایک سیکنڈ میں سو کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں مگر ہم یقیناً ناکام ہوجائیں گے، ایسے عوامل ہماری انسانی فطرت کا تعین کرتے ہیں، اگر ہم فرض کر لیں کہ خدا کی بھی کوئی فطرت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے کچھ مخصوص حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہوگا اس طرح وہ قادرِ مطلق اور اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہوگا۔

شر بطور ایک ضرورت:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ شر اور تکالیف کی موجودگی آزاد ارادے کے لیے ضروری ہے کہ بغیر شر یا برائی کے آزاد ارادہ نہیں ہوگا۔۔ اس منطق میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ تکلیف شکار کو ہوتی ہے شکاری کو نہیں، شکار نے برائی کرنے کا انتخاب نہیں کیا بلکہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی برائی کا شکار ہوا ہے، شکار کسی دوسرے شخص کے برے انتخاب کی قیمت کیوں ادا کرے؟ معیاری صفات کے مطابق اگر خدا منصف وعادل ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شکار پر واقع ہونے والے کسی بھی طرح کے برے اثرات کو زائل کرے۔۔ اگر آزاد ارادے کی تکمیل کے لیے شر کا وجود ضروری ہے تو پھر تو جنت میں بھی شر موجود ہوگا؟!!۔۔ ابراہیمی مذاہب کے مطابق ساکنانِ جنت آزاد ارادے کے مالک ہوں گے تاہم ان پر برائی کے ارتکاب کو ختم کر دیا جائے گا۔۔ سوال یہ ہے کہ اس علیم وقدیر نے یہ زمین پر کیوں نہیں کیا؟

شر گناہوں کا کفارہ ہے:

بعض مؤمنین شر اور تکالیف کی موجودگی کو یہ کہہ کر جسٹی فائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمین پر انسان جو تکالیف جھیلے گا وہ آخرت میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوگا لہذا مصائب وآلام آخری حساب کتاب کے لیے ایک اچھی چیز ہیں، اور جیسا کہ برٹرینڈ رسل کہتے ہیں کہ یہ سادیت کو عقلیانے کی ایک بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں، وہ کہتے ہیں:

❞ایسی منطق پیش کرنے والوں کو میں دعوت دوں گا کہ وہ میرے ساتھ خطرناک امراض میں مبتلا بچوں کے وارڈ کی زیارت کریں اور اپنی آنکھوں سے ان تکالیف کو دیکھیں جنہیں یہ بچے جھیل رہے ہیں، کیا مؤمن مجھے یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ بچے جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہیں کیا انہیں تکلیف دینا اخلاقی ہے تاکہ آخرت میں ان کی خلاصی ہوسکے؟ جو اپنے آپ کو اس درد وتکلیف کی اخلاقیت کا قائل کر لیتا ہے وہ ایک ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اپنے تمام تر انسانی احساسات کو تباہ کر کے اپنے خدا کی طرح ایک بے درد سنگ دل شخصیت میں بدل جاتا ہے❝۔

عقل مندوں کو سلام!

2 Comments

جواب دیں

2 Comments
scroll to top