Close

عورت حجاب اور مساوات

 

یہ درست نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے اپنی عورتوں کے لیے حجاب اور دوپٹے کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ روایت میسوپوٹیمیا، سومریوں، بابلیوں، آشوریوں اور قدیم یونان میں بھی پائی جاتی تھی کہ خواتین گھر سے نکلتے وقت سر ڈھانپا کرتی تھیں، سر کو کھلا چھوڑنا ایک کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا جو زنا کے برابر تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔

یہودی شریعت کی تکمیل کے لیے بھی تلمود اور مدراش میں خواتین کے سر ڈھانپنے کے احکامات موجود ہیں۔

حجاب ایک قدیم یہودی روایت ہے جو بعد میں ایک مذہبی فریضہ بن گئی، دونوں صورتوں میں یہ بات مُسلم ہے کہ یہ روایت قدیم یہودی معاشروں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

تلمود یہودی خواتین پر حجاب فرض کرتا ہے جس کے بغیر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں، اور شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر وہ اپنی بیوی کو بغیر کسی قسم کے اخراجات ادا کیے طلاق دے دے، یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کردیے ہوں۔

ڈاکٹر مناحیم بریر جو جامعہ یشیوا میں توراتی ادب کے استاد ہیں اپنی کتاب ❞ربانی ادب میں یہودی عورت کا مقام❝ میں کہتے ہیں کہ خواتین کا سر ڈھانپنا یہودیوں کے ہاں ایک پختہ روایت تھی جو بعض اوقات پورے چہرے پر محیط ہوتا تھا اور دیکھنے کے لیے محض ایک آنکھ کے لیے ایک سوراخ چھوڑا جاتا تھا، جلالیب کی آیت کی حضرت ابن عباس بھی کچھ ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں۔
ذیل میں کچھ قدیم یہودی علماء کے اقوال نقل ہیں:

❞بناتِ اسرائیل کی یہ شان نہیں کہ وہ ننگے سر باہر نکلیں❝

❞وہ مرد ملعون ہے جو اپنی عورت کا سر ننگا چھوڑے❝

❞جو عورت اپنے بالوں کو ذاتی زینت بنائے وہ فاقوں کا سبب بنتی ہے❝

یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اسے عریانیت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سر کھلا چھوڑنے کی پاداش میں یہودی خواتین کو چار سو زوزیم (100 شیکل) جرمانہ کیا جاتا تھا، اس کے برعکس فاحشاؤں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورتوں میں فرق کیا جاسکے۔

یہودیوں کے ہاں عورت کے حجاب کی حیثیت ایک دائمی سوگ کی سی ہے جو عورت کو ہماری پہلی ماں حواء کے سیب کھانے کی عظیم غلطی کی شرمندگی کا احساس دلاتی ہے، یہی وجہ ہے یہودی خواتین پابندی سے سر ڈھانپتی ہیں۔

کچھ ممالک میں جیسے یوکرین اور ہنگری میں آرتھوڈکس یہودی خواتین اپنی شادی کے وقت گنجی ہوجاتی تھیں اور سر کو رومال سے باندھ دیتی تھیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ شادی کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران سر کے بال غلطی سے بھی ظاہر نہ ہوسکیں۔

جب کچھ شوہروں نے اس طرزِ عمل پر اعتراض کیا کہ اس طرح عورت کی خوبصورتی شدید متاثر ہوتی ہے تو اٹھارویں صدی میں یہودی خواتین نے اپنے گنجے سروں پر وگ پہننا شروع کردی، تاہم غیر آرتھوڈکس خواتین مذہبی رسومات کے وقت صرف سر ڈھانپنے پر ہی اکتفاء کرتی ہیں۔

یکم جنوری 2008 کو امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں یاسر عبد السید نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی دونوں بیٹیوں 17 سالہ سارہ اور 18 سالہ امینہ کو اس لیے قتل کردیا کیونکہ ان بچیوں نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تھا، اس نے اپنی دونوں بیٹیوں پر اس وقت گولی چلائی جب وہ کسی ہوٹل کے باہر ٹیکسی پر سوار تھیں۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ٹورینٹو کینیڈا میں محمد پرویز نامی ایک 57 سالہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی زیرِ تعلیم بیٹی کو اپنی دیگر کلاس فیلوز لڑکیوں کی طرح حجاب نہ پہننے کے سبب قتل کردیا۔

ایران کے ایک عالم غلام رضا حسانی نے اپنے جمعے کے ایک خطبے میں یہ فتوی صادر فرمایا کہ حجاب نہ پہننے والی خواتین کو قتل کردینا چاہیے، انہوں نے انقلاب کے بعد ایران میں بے پردہ خواتین کے زندہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا۔

طالبان کے افغانستان میں بے پردہ خواتین کو گولی مار دی جاتی تھی۔

جزیرہ نُما عرب میں ظہورِ اسلام سے قبل حجاب یا نقاب کا رواج نہیں تھا، مسلمانوں میں حجاب مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے اور وہاں کے یہودیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کے بعد متعارف ہوا۔

جب جنگوں سے مسلمان طاقتور ہوگئے اور غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہوگئی تو آزاد اور غلام مرد وخواتین میں تفریق کی ضرورت آن پڑی۔

لہذا آزاد مرد مونچھیں منڈواتے اور داڑھی بڑھاتے اور خواتین حجاب یا نقاب پہنتیں، تفسیر الطبری کے مطابق حضرت عمر جب کسی غلام عورت کو پردے میں دیکھتے تو اسے دُرے مارتے تاکہ آزاد خواتین کے لباس کی حفاظت کی جاسکے جیسا کہ یہودی کرتے تھے۔

ذیل میں اسلام میں حجاب اور اس کی اہمیت پر کچھ ائمہ کرام کے اقوال نقل ہیں:

1- مفسرِ قرآن وصحابی رسول حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: اللہ نے مؤمنین کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنے چہروں کو جلابیب سے سر کے اوپر سے ڈھانپیں اور صرف ایک آنکھ ظاہر کریں۔

2- امام یحیی بن سلام التیمی البصری القیروانی فرماتے ہیں: جلباب ایک لباس ہے جس سے عورت پردہ کرتی ہے۔

3- امام ابو المظفر السمعانی فرماتے ہیں: عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے جلباب سے اپنا سر، چہرہ اور سارا بدن ڈھانپے سوائے ایک آنکھ کے۔

4- امام بغوی فرماتے ہیں: مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کو وہ جلباب سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ پتہ چلے کہ وہ آزاد ہیں۔

5- امام العز بن عبد السلام فرماتے ہیں: جلباب وہ لباس یا نقاب یا ہر وہ لباس ہے جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے اور اپنا جسم اور چہرہ ڈھانپتی ہے تاکہ وہ نظر نہ آئے سوائے ایک آنکھ کے۔

اسی طرح باقی کی کوئی 41 تفاسیر پر قیاس کرتے چلے جائیے جو ساری کی ساری ہماری بہو بیٹیوں سے نقاب کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ ساری تفسیریں یا تاویلیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 کی ہیں:

❞یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز انکے لئے موجب شناخت و امتیاز ہو گی تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔❝

ابنِ کثیر اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ❞مدینہ کے فاسق لوگ رات کو نکلتے، اگر پردے والی کوئی عورت دیکھتے تو کہتے: یہ آزاد ہے، اور اس سے باز رہتے، اور اگر بغیر پردے کے کسی عورت کو دیکھ لیتے تو کہتے: یہ لونڈی ہے، اور اس پر حملہ کردیتے❝

سورہ احزاب کی آیت 33 بھی زیادہ تر مفسرین کے بقول اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار مؤمنین کی عورتوں اور رسول اللہ کی بیویوں کو چھیڑنے لگے تھے۔

لہذا گھر میں رہنے اور حجاب پر زور دیا گیا تاکہ مؤمنین اور خاص کر رسول اللہ کی بیویوں کا پتہ نہ چلے اور وہ کسی طرح کی چھیڑ خانی سے بچ سکیں، یہ حجاب صرف آزاد عورتوں پر فرض کیا گیا تھا لونڈیوں اور کنیزوں پر نہیں، حضرت عمر نے جب ایک لونڈی کو با حجاب دیکھا تو اس پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ: کیا تم آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرتی ہو؟؟

1659 کو ہندوستان کے عسکری قائد افضال خان نے پنجاب کے راجہ شیوا پر حملے سے قبل اپنی 63 بیویوں کو اس ڈر سے قتل کردیا کہ اگر کہیں وہ جنگ میں مارا گیا تو کوئی اور اس کی بیویوں سے شادی نہ کر لے، قرآن کے مطابق رسول اللہ کی بیویوں پر بھی ان کی وفات کے بعد شادی حرام تھی۔

آخر مرد حجاب ونقاب سے عورت کی شخصیت کو مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے؟ کیا اس کی وجہ مذہبی تحریریں ہیں یا پھر یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے کہ آخر مرد ہی ساری صعوبتیں برداشت کرتا اور گھر کا خرچ اٹھاتا ہے اس لیے سارے حقوق صرف اسی کے لیے ہیں اور عورت کو محض اس کی اندھی اطاعت کرنی چاہیے، مرد اپنی عورتوں کو نقاب کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسے گھر میں قید کر سکے ان کی تعلیم اور معاشی خود مختاری پر قد غن لگا سکے۔

مرد کی نظر میں عورت جانور اور انسان کے بیچ کی کوئی ❞انسان نُما❝ مخلوق ہے جسے وہ جب چاہے مار کر اور طلاق دے کر گھر سے نکال سکتا ہے اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے کسی اور کے ساتھ گھر بسا سکتا ہے، گویا عورت اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کی مشین کے سوا کچھ نہیں، جنت میں بھی اس کی یہی حالت برقرار رہتی ہے، مرد حوروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور وہ محض اسی سابقہ شوہر کے زیرِ نگیں رہتی ہے۔

اگر عورت تعلیم حاصل کر کے معاشی خود مختاری حاصل کر لے تو ایسی صورت میں مرد کی مردانگی اور اس کی وراثتی معاشرتی حیثیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ایسی صورت میں وہ عورت کے ساتھ پہلے کی طرح کنیزوں والا رویہ نہیں اپنا سکتا جو کہ اس کی عادت رہی ہے، اس لیے عورت کی شخصیت کو حجاب ونقاب میں مٹانا ضروری ہوجاتا ہے، یہ مرد کے لیے ایک شافی نفسیاتی علاج ہے، یہی وجہ ہے جو طالبان کو مبالغہ آرائی کی حد تک عورت دشمن بنا دیتی ہے اور وہ نقاب وحجاب کے شرعی ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے سے اسے غائب کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، جب افغانستان میں انہیں اقتدار نصیب ہوا تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کروانا اور نقاب کو لازمی قرار دینا تھا، خلاف ورزی کرنے والی کی سزا موت تھی، بیواؤں کو کام کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین اپنے بچوں سمیت بھوکوں مر گئیں۔

دسمبر 2006 میں مشرقی افغانستان میں طالبان نے ایک پورے خاندان کو محض اس لیے قتل کردیا کیونکہ انہوں نے اپنے گھر کے اندر بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی، قبل ازیں طالبان نے 20 مرد وخواتین پر مشتمل اساتذہ کو گھروں میں بچیوں کو پڑھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، کشمیر میں اسلام پسندوں نے سکول جاتی بچیوں پر تیزاب پھینک کر ان کے چہرے مسخ کردیے، 1998 میں الجزائر میں اسلام پسندوں نے سکول جانے کی پاداش میں 300 بچیوں کو قتل کردیا۔

آزادی فکر اور ارادے کی ہوتی ہے جب تک کہ وہ قانون کے دائرے میں رہے، عورت کی آزادی کی مخالفت کرنے والے بعینہ وہی منطق استعمال کرتے ہیں جو وہ آزادیء صحافت، آزادیء اظہار رائے اور دیگر تمام آزادیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، مسلم ممالک کی طرف دیکھیے، آپ کو عورت مرد کی غلام نظر آئے گی اور مرد حاکم، مرد اپنے گھر میں ظالم ہے اور گھر کے باہر مظلوم ہے، مغربی ممالک کی طرف دیکھیے، آپ کو حکومتیں آزادی اور انسانی حقوق کے قاعدے لاگو کرتی نظر آئیں گی، عورت کی قدر ومنزلت احترام کی بلندیوں کو جا پہنچی ہے۔

مغربی اقوام کی بھی اخلاقیات اور اقدار ہیں، وہ صفائی پسند ہیں اور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں تو وفا کرتے ہیں، ان پر یہ الزام کہ وہ مسلم معاشروں سے فکری طور پر پسماندہ ہیں غیر منصفانہ اور بے بنیاد الزام ہے، اگر آپ مسلم معاشروں کی اخلاقیات پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کی اخلاقیات صرف ایک چیز کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہے عورت، مسلم اقوام کو عورت کے برقع اور کنوارے پن کا گویا خبط ہے۔

مغرب کی اخلاقیات کے اسباب علمی ہیں مذہبی نہیں، اخلاقیات پر ارسطو کی پوری ایک کتاب ہے جس میں ثواب اور آخرت میں سزا کا ایک بھی لفظ نہیں ہے، ہر فلسفی نے اخلاقیات کے موضوع کو فلسفیانہ پہلو سے دیکھا ہے، درست فہم اور معرفت کے بغیر اخلاق ایک عارضی حالت بن جاتے ہیں اور جلد ہی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔

مغرب میں عورت کی آزادی اور غلامی کا خاتمہ مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوا، مساوات کے اسباب بھی مذہبی نہیں، رنگ ونسل کی تفریق کا خاتمہ بھی مذہبی بنیادوں پر نہیں کیا گیا، یہ سب سیاسی اور معاشرتی علوم میں ترقی کے سبب ہوا، مغرب میں مساوات تب لاگو کی گئی جب اقوامِ مغرب کو یہ یقین ہو چلا کہ یہ مساوات معاشرے کی ترقی اور سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

1 Comment

جواب دیں

1 Comment
scroll to top