Close

فری تھنکنگ

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ فری تھنکنگ کیا ہے؟ اس ضمن میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنے سے قبل کچھ باتیں کرنا چاہوں گا گر قبول افتد زہے عزو شرف۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عقائد و معجزات کو راہنما بنا کر حقیقت و صداقت کے راستے طے کئے جا سکتے ہیں؟ اس پر آپ کیا سوچتے ہیں اس کا فیصلہ تو آپ کے اظہار سے ہی ممکن ہو سکے گا، لیکن میرا جواب اس سلسلے میں بڑا واضح ہے کہ: "نہیں!”

اس کائنات میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں سربستہ راز پنہاں و مضمر ہیں، انسان کی علمی سطح میں جوں جوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ دنیا اور کائنات کے خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھاتا جا رہا ہے، ہماری اس دنیا اور کائنات میں کیا کیا پوشیدہ ہے اس کا علم دھیرے دھیرے ہوتا جا رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا، مسلسل آگاہی کا، تحقیق و جستجو کا اور علمی پیش رفت کا یہ سلسلہ رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا، علم و آگہی، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں سائنسدان و محقق حضرات کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جو حقیقت و صداقت تک انسان کی راہنمائی کرتے جا رہے ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس کی طرح واضح ہے کہ حقیقت و صداقت کے راستے معجزات و عقائد کی راہنمائی میں طے نہیں ہوتے۔

علم و آگہی کی اس ترقی نے جہاں انسان کی مادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں اس نے انفرادی اور اجتماعی شعور کی ترقی میں نہایت گرانقدر کارنامہ سر انجام دیا ہے، واقعہ تو یہی ہے کہ جیسے جیسے تہذیب و تمدن کی ترقی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے انسان کا انفرادی و اجتماعی شعور بھی ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جاتا ہے، کسی بھی تہذیب کی نمایاں خصوصیت یہی ہونا چاہئیے کہ وہ متحرک ہو، جامد اور بے حرکت نہ ہو، وہ تہذیبیں مردہ یا زائدالمعیاد (Out Dated) خیال کی جاتی ہیں جو جامد ہوں، جو بھی تہذیب حرکت پذیر نہ ہو، مردہ ہو جاتی ہے، ظاہر ہے ایک تہذیب اسی وقت حرکت پذیر ہوگی جب اس میں ترقی کا عمل جاری و ساری ہو، تہذیب افکار و نظریات سے تشکیل پاتی ہے، جبکہ تمدن انہی افکار و نظریات کے عملی اظہار کا نام ہے، اصطلاحی اعتبار سے تمدن کا مطلب ہے کہ زندگی کی ضروریات و لوازمات پورا کرنے کیلئے انسان جو کچھ بناتا ہے، ایجاد کرتا ہے، تیار کرتا ہے، وہ سب تمدن کے تحت آتے ہیں اور تمدن کے مظاہر ہیں، معمولی سی معمولی چیزوں مثلاً سوئی، صابن وغیرہ سے لے کر جہاز تک، صنعت و زراعت، سماجی ادارے وغیرہ سب تمدن میں شامل ہیں اور انہی سب چیزوں سے تمدن تشکیل پاتا ہے۔

تصور کریں کہ کسی تہذیب میں نئے نظریات و افکار کا فقدان ہو جائے، جس معاشرے میں کسی ایک مخصوص نظریے کو شعار بنا لیا جائے، وہ تہذیب تمدنی لحاظ سے ترقی کر سکے گی؟ جس معاشرے میں نت نئے نظریات نا پید ہو جائیں اور وہاں کے لوگ کسی ایک ہی نظریے یا عقیدے کے قائل ہو جائیں، ان میں استنادیت اور ادعائیت اپنی جڑیں پھیلا لیتی ہے، اور بالآخر اس معاشرے کو تمدنی لحاظ سے کمزور کرنا شروع کر دیتی ہے، اذہان کو بانجھ کر دیتی ہے جس میں نئی فکر و نظریات آنا بند ہو جاتے ہیں اور تہذیب آہستہ آہستہ جمود کی بانہوں میں دم توڑ دیتی ہے۔

یہاں ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ہر معاشرے اور ہر فرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی سعی کرتے ہیں لیکن اس نظریے میں رہ کر اس پر سختی سے جم جانا اور اس معاملے میں غیر لچکدار رویہ اپنا لینا، اذعانیت اور ادعائیت کو فروغ دیتا ہے، معاشرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی مل کر رہنا اور زندگی بسر کرنا ہے، معاشرے کیلئے انگریزی لفظ سوسائٹی (Society) استعمال کیا جاتا ہے جو لاطینی لفظ سوسئیس (Socius) سے نکلا ہے جس کا مطلب کمپینئین (Companion) یعنی ساتھی ہے، اسی طرح معاشرے کا مطلب ساتھیوں کی ایسی جماعت ہے جو مل جل کر رہتی ہو اور اس کے سامنے چند مشترکہ مقاصد ہوں۔۔ مشہور مفکر لنٹن (Linton) کہتا ہے کہ:

"افراد کا ایسا گروہ جو طویل عرصہ سے ایک جگہ مقیم ہو اور اشتراکِ عمل کی بدولت وہ اتنا منظم ہو جائے کے لوگ اس گروہ کو وحدت کا درجہ دے دیں تو وہ گروہ معاشرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔”

ظاہر ہے ایک اکیلا فرد معاشرے کی تشکیل نہیں کر سکتا نہ ہی افراد کا کوئی گروہ معاشرہ کہلاتا ہے، معاشرے کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ ایک سے زیادہ افراد ہوں اور ایک طویل عرصے تک اکھٹے رہے ہوں اور ان میں باہمی اتحاد، یگانگت اور باہمی ربط جیسی صفات موجود ہوں، معاشرے کے ارتقا اور بقا کیلیے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کے سامنے کچھ مقاصد ہوں، ان کے رسم و رواج میں یکسانیت ہو اور وہ یہ رسم و رواج مل جل کر سر انجام دیتے ہوں، ایک معاشرے کے افراد میں ذہنی ہم آہنگی کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے، دراصل یہی وہ شے ہے جس پر معاشرے کی مضبوط عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، لیکن معاشرے میں مختلف عقائد اور خیالات کے فرد بھی ہو سکتے ہیں، معاشرہ ایک فطری ادارہ ہے، اور اس کے بغیر فرد کی صحیح نشونما ممکن نہیں، اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان کسی نہ کسی معاشرے سے تعلق رکھتا ہے، بقول ارسطو اگر کوئی انسان معاشرے کے بغیر رہ سکتا ہے تو وہ یا تو حیوان ہے یا دیوتا۔

کوئی بھی معاشرہ ساکن و جامد نہیں ہوتا، انسانی سوچ اور نقطہ نظر بدلنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی تغیر پذیری کا عمل جاری رہتا ہے، موجودہ معاشرے کی شکل و صورت قدیم معاشرے سے قطعی مختلف ہے، معاشرے کی بات اختصار کے ساتھ اس ضمن میں کی گئی کہ اس پس منظر میں انسان کی ذہنی تربیت کے عمل کو جان سکیں، انسان معاشرتی رسم و رواج کو معاشرے سے ہی بتدریج سیکھتا ہے، خاندان کی ابتدائی پرورش کے بعد بچہ اسکول اور مذہبی تعلیم کیلیے مذہبی اداروں کا رخ کرتا ہے تو یہ ادارے فرد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تربیت کرتے ہیں، اس ضمن میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری تہذیب کی اس جہت میں استنادیت کی کار فرمائی نظر آتی ہے، مذہبی کتب کا سمجھنا ہو یا دنیاوی علوم کا یا پھر کوئی علمی و عملی مسئلہ ہو، یا کوئی اخلاقی یا سیاسی سوال ہو، ہم حکم اور سند ڈھونڈتے ہیں اور اس کے حاصل ہونے پر مزید بحث اور گفتگو کی ضرورت نہیں سمجھتے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جستہ جستہ واقعات کی حد تک یا کبھی کبھار ہم کسی ماہر کی بات یا صاحب علم کا مشورہ یا کسی مقتدر ہستی کا کہا سن لیں اور مان لیں، بلکہ استنادیت سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ علم کا ذریعہ اور اس میں تیقن مقتدر ہستی کا مرہون منت ہے، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ یہ مقتدر ہستی ایک فرد واحد ہو، بعض جگہ علما کا ایک گروہ ہو سکتا ہے، کسی پروہتوں، ملاؤں، پنڈتوں، ربیوں، پادریوں، بشپ وغیرہ کی انجمن ہو سکتی ہے، غالب سیاسی جماعت یا اس کے نمائندہ دانشور ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسولینی کی فسطائیت، نازی سوشلزم، لینن کی کی اشتراکی ریاست میں ہوا، ان سب صورتوں میں مستند ہے میرا فرمایا ہوا کا اصول کام کرتا ہے جو اذعانیت اور ادعائیت کو فروغ دینے کا باعث ہے، ہمیں اس قسم کی غیر دانشمندانہ صورتحال سے بچنا چاہئے کیونکہ انسان تقلید سے نہیں سیکھتا جس میں انفرادی غور و فکر کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔

ہمارے ذہن میں پیش نظر ہر آن نظریہ امکان رہنا چاہئے کیونکہ کوئی بھی نظریہ حرف آخر نہیں ہوتا، نہ ہی اسے مقدس گائے سمجھا جانا چاہیے، انسان اور کائنات سے متعلق ہر شے نظریہ امکان کی زد میں ہے، کوئی بھی نظریہ حتمی نہیں، کچھ بھی قطعی اور حرف آخر نہیں، تلاش مسلسل میں رہنا چاہئے، کسی نظریے پر یقین رکھنے سے بہتر ہے کہ "تجربہ” پر یقین رکھا جائے کیونکہ جو چیز یقینی ہے وہ تجربہ ہے، حقائق جن کے بارے میں فلاسفہ بحث کر سکتے ہیں وہ ہیں اور وہی ہونے چاہئیں جن کی تعریف ان حدود میں ہو جو تجربے سے حاصل کی گئی ہوں نہ صرف یہ بلکہ وہ اضافات جو ایک تجربہ سے دوسرے تجربہ کو متعلق کرتے ہیں وہ بھی تجربی حقائق ہیں، اس تجربی دنیا کے مختلف عناصر کے پس پردہ کوئی ان دیکھی حقیقت نہیں، کوئی مطلق نہیں، علم سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہم دو تجربی حقائق کے مابین تعلق کو پڑھ لیں، لیکن سارا علم ایک تجربی استمار ہے، ایک تجربے سے ہم دوسرے پر جاتے ہیں، ایک لمحاتی تجربہ ہمیں دوسرے سے ہمکنار کراتا ہے، ہم تجربہ کے مختلف عناصر کی ہر لمحہ ترتیب کرتے ہیں اور ان کے ثمرات وصول کرتے ہیں۔

عناصر کی ترتیبِ نو ہمارے اغراض و مقاصد کی روشنی میں ہوتی ہے، کیونکہ بہرحال ذہن کا علیحدہ سے اپنا وجود نہیں اور علم ایک مجموعہ تصورات نہیں جو کہیں باہر سے تھوپ دیا گیا ہو، ذہن ایک فعال عملیہ ہے جو عضویہ سے جدا نہیں اور یہ عضو انسان ہے، ذہن ایک عمل ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب کہ عضویہ انسان اپنے ارد گرد موجود اشیا کو اپنے تصرف میں لاتا ہے، یا ماحول کی تشکیل نو کرتا ہے یا کسی اور تعمیری مصروفیت میں منہمک ہوتا ہے۔

ہمارا تفکر حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اسے سمجھتا ہے اور کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے کیونکہ تفکر ایک عضویاتی وظیفہ ہے اور اس کا مقصد عضویہ اور ماحول میں مطابقت حاصل کرنا ہے یا اس میں اصطلاحات کرنا ہے، اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر نظریات جو اپنے وقت کے حساب سے انتہائی مناسب تھے، اس کے باوجود استنادیت میں گم ہو جاتے ہیں اور حقیقت معروضیت کے ایک نہایت محدود تصور کے سبب فرد کی زندگی سے رنگینی اور آزادی سلب کر لیتی ہے، لیکن انسانی فکر کی تاریخ متنوع تعلیمات از مذاہب، مارکسزم، کیپیٹلزم، آئیڈلزم وغیرہ پر ہی آ کر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ذہنِ انسانی روز ایک نئی فکر دیتا ہے اور سوچ کے نئے سوتے ہر عہد میں اپنی بہار دکھلاتے رہتے ہیں، ہمیں انہی نظریات سے باہر آ کر ایک وسیع تر سیاق میں سوچنے کی عادت ڈالنی چاہئے، کسی بھی نظریے میں رہنا دراصل ایک قسم کی ذہنی بندش اور مصنوعی حد بندی ہے جس سے انسانی فکر کا وقار مجروح ہوتا ہے، ہمیں اس طرزِ فکر پر سوچنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا چاہئے جس میں حریت اور داخلیت کی بھی تسکین ہو اور مصنوعی حد بندیوں اور ذہنی بندشوں کو توڑ کر انسان اپنی ذات کا صحیح تحقق کر سکے۔

میں سمجھتا ہوں کہ: "فکری غلامی سے جسمانی غلامی بہتر ہے۔”

فکری غلامی سے مراد کسی بھی نظریے پر مستقل قیام کرنا ہے، جبکہ کسی بھی سوچنے والے مفکر کیلیے کسی بھی مخصوص نظریے پر قیام کرنا فکر کو جمود کے حوالے کر دینے کے مترادف ہے، ایک متشکک ذہن کسی بھی ضابطے اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتا (یہاں ضابطوں اور قاعدوں سے مراد اخلاقی اقدار اور قانوں ہر گز نہیں) اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فکر مجموعی طور پر ترقی پسند ہوتی ہے، کسی مخصوص جگہ پر ہو تو دائروں میں گھومتی رہ جاتی ہے، ایسے کتنے لوگ ہیں جو سمندروں کی طرح بولتے ہیں لیکن ان کی سوچ گندے جوہڑ کی مانند ہے، کسی مخصوص نظریے پر قیام کرنا ایسا ہی ہے جیسے مثال کے طور پر ایک گڑھے میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور باہر آنے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا جس سے اس میں تعفن، بدبو اور غلاظت پیدا ہو جاتی ہے، یہی حال ان انسانوں کا ہے جن کا قیام کسی مخصوص نظریے پر ہے، ایسے لوگ اپنی مخصوص نظریاتی سوچ کی بنا پر جس زاویے سے دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں، اس میں انہوں نے دنیا کو دو دھڑوں میں تقسیم کر رکھا ہوتا ہے، مثلاً ایک مسلمان کو دنیا میں صرف مسلم اور غیر مسلم نظر آتے ہیں، مارکسسٹ حضرات کو دنیا میں صرف دو دھڑوں کا یقین کامل ہوتا ہے جن میں سے ایک مارکسی بقایا سرمایہ دار، ایسا سوچنا اور کہنا صرف راسخ العقیدگی کی وجہ سے ممکن ہے جن پر ان حضرات کا کسی مخصوص نظریے پر قیام ہے، اسی فکری قیام کی وجہ سے ان کی محدود سوچیں انہیں وہی کچھ دکھاتی ہیں جو ان کی مخصوص نظریاتی سوچ انہیں دکھانا چاہتی ہے۔

فکر آزاد ہو تو نت نئے نقطے ڈھونڈ لاتی ہے، انسان کی سوچ ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتی ہے، کیونکہ انسان اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوتا ہے اور اس کا اثر قبول کرتا ہے، فکری قیام ذہنی ارتقا کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور انسان کی سوچ کو دائروں میں گھمانا شروع کر دیتا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ جتنے بھی نظریات و عقائد موجود ہیں ان کو پرکھ کر، ان کی ترتیب و تحلیل کر کے ہی فکری ارتقا کی راہ پر گامژن رہا جا سکتا ہے، یہی ارتیابیت ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ حرف آخر نہیں، لہذا اس میں ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے کہ اس سے بہتر کو سامنے لایا جائے، ہر نظریے کو تشکیک کی زد میں لایا جا سکتا ہے، ایک متشکک ذہن کسی ایک جگہ قیام نہیں کر سکتا اور ہمیشہ ان زاویوں پر سوچتا ہے، معاشرے میں رائج نظریات یا کتابی نظریات کے ان گوشوں کو کھنگالنے کی سعی میں جتا رہتا ہے جس پر ان نظریات کے اندر رہ کر سوچنے والوں کی رسائی نہیں ہونے پاتی اور ان نظریات کے ان تاریک گوشوں کو سامنے لے کر آتا ہے جس کا ذکر بھول کر بھی نظریات میں رہنے والے کرنا پسند نہیں کرتے، صحافت میں ایک طریقہ کار یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی شے کا جائزہ باہر رہ کر لیا جائے تو وہ شے زیادہ بہتر انداز میں کھل کر یوں سامنے آئے گی گویا وہ اس کا شاہد ہو، اس میں بتایا جاتا ہے کے کیسے تہذیب کے باہر آ کر تہذیب کو دیکھا جائے، اور یوں اسے جانا جائے کہ ایک ایک گوشہ کھل کر نگاہوں کے سامنے آ جائے، چنانچہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی بھی شے کے ہر پہلو سے مکمل آگاہی کیلیے اس سے باہر آ کر اسے دیکھا جائے، یعنی اگر آپ خود کسی کھیل میں مگن ہوں تو آپ پر ایک نفسیاتی دباؤ سا ہوتا ہے، جبکہ کھیل کا مشاہدہ کرنے والوں کا ذہن اس کیفیت سے آزاد ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ اپنے آزاد ذہن سے کھیل کو کھیلنے والوں سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ اکثر رائے زنی بھی کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر آراء بالکل درست نکلتی ہیں (اس تجربے سے سب ہی حضرات بارہا گزرے ہوں گے)۔

اس طرح فلسفہ کا مطالعہ انسان کو تمام تر یقینیات سے محروم کر دیتا ہے، چنانچہ اس کے ساتھ ہی اذعانیت اور ادعائیت دم توڑ دیتی ہے، لہذا فکر کی بلند پروازی کو جاری رہنا چاہئیے، محض سوچنے کیلیے نہیں بلکہ کسی نتیجے تک پہنچنے کیلیے، کسی مخصوص نظریے میں قید رہ کر سوچنا یا کسی مخصوص فکری سانچے کو معیار بنا لینا فکر کے ساتھ ظلم ہے، یہ ایک تمثیلی جملہ ہے کہ فکری غلامی سے جسمانی غلامی بہتر ہے، یعنی اپنی فکر گروی رکھنے سے بہتر میں یہ پسند کروں گا کہ مجھے جسمانی طور سے غلام بنا لیا جائے، فکری آزادی ہوگی تو ہی جسمانی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کیلیے جد وجہد کر پاؤں گا، اس کی تحلیل کا جائزہ ان مفکروں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ہر دور میں آزادی کیلیے تحاریک چلائیں اور اکثر کامیاب بھی رہے، اگر فرانس کے مفکر فکری طور پر آزاد نہ ہوتے تب انقلابِ فرانس ہر گز نہ آتا، اگر کے برصغیر میں فکری غلامی پائی جاتی تب ہندوستان دو لخت ہر گز نہ ہوتا، یہاں میں ان فکری تحاریک چلانے والوں کو "فری تھنکر” نہیں گردان رہا، اس کے برعکس اشارہ اس بات کی جانب ہے کہ اگر ان مفکروں کی سوچ پر غالب قوت کا فکری غلبہ ہوتا، تب یہ مفکر جسمانی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی تحاریک چلانے کے قابل نہ ہوتے۔

ہمیں جاننا چاہیے کہ انسان اس وقت تک انسان ہے جب تک کے وہ "شے” نہیں بن جاتا، یا اگر دوسرے اسے شے بنا دینا چاہتے ہیں اور وہ اس عمل سے مزاحمت کرے اور خود کو شے میں تحویل کر دیئے جانے کو قبول نہ کرے، اس ضمن میں ہمیں ان فرانسیسی حریت پسندوں کو یاد رکھنا چاہئیے جنہوں نے نازی
بربریت کا مقابلہ کیا، جنہوں نے لاکھ اذیتوں کے باوجود اپنے رفقا کے نام افشا کرنے سے ہمیشہ انکار کیا، دراصل بربریت اور اذیت ناک موت سے مقابلہ کرنا ہی آزادی ہے، یہاں یقینی موت کے منہ میں اپنی سی کہنا اور کرنا انسانی فکری آزادی کا اثبات کرنا ہے۔

جنگ میں نازی پروپیگنڈہ اور گستاپو ہتھکنڈوں کا مقصد عام فرانسیسیوں کو زندگی کی انتہائی تاریکیوں میں دفن کرنا تھا، لیکن ان سے مزاحمت، ان سے انکار اور ان اذیتوں کا سہار جانا ہی نعرہ حریت بن گیا، اعلان آزادی کی صورت اختیار کر گیا۔

چاہے دکھ، تکلیفوں کے تجربوں کے باعث انسان کا جسم اس کا ساتھ چھوڑ چکا ہو، لیکن اس کے ہوش و حواس سلامت ہوں اور اس میں ظالم اور موذی کو "نا” کہنے کی بھی صلاحیت اور جرآت ہو، تو وہ انسان ہے، فکری طور پر آزاد بھی ہے اور بااختیار بھی، لہذ کبھی ایسا وقت آن پڑا کہ کسی بھی جانب سے کسی بھی قسم کی جنگی جارحیت کا سامنا کرنا پڑے، تب ذہن کو غلامی میں دینے سے بہتر جسم کو غلامی میں دے دیا جائے، ذہن آزاد ہو اور اس پہ غالب قوت کا فکری غلبہ نہ ہو تو اس میں راحت ہے اور عین ممکن ہے کے جلد جسمانی غلامی سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا جائے گا، کیونکہ فکر بہرحال آزاد ہے۔

ہر لحظ ہر آن نظریہ امکان کو مدِ نظر رکھنا چاہئیے کیونکہ بہرحال یہ امکانات کا عالم ہے، تاریخ پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جسے انتہائی حد تک نا ممکنات میں تصور کیا جاتا تھا، اگلے کچھ وقتوں میں وہی عین ممکنات میں شامل ہو گیا، پھر کچھ وقت کا سفر آگے کو ہوا تو وہی چیز معمول کی باتوں میں شامل ہوگئی۔ کچھ اور وقت گزرنے کے بعد اس شے سے بھی بہتر کئی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں، اس ضمن میں کسی بھی ایجاد کو دیکھ لیں، جیسے ہوائی جہاز کی ایجاد ناممکنات میں سے تھی، خود رائٹ برادران کے ابا حضور جو کہ پادری بھی تھے، اس کی شدید مخالفت کر رہے ہوتے تھے اور اپنے وعظ میں اس کی شدید مذمت کرتے اور ٹھٹھے اڑاتے، ایسی ایجاد کا تصور بھی اس وقت کے انسانوں کیلیے ایک اچنبھے کی اور انتہائی ناممکن بات تھی لیکن رائٹ برادران نے اسے ایجاد کر ڈالا، پھر یہ ایجاد عام ہوئی، اور اب طیارے کا سفر معمول کی بات ہے، اور طیاروں کی ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ رائٹ برادران کا جہاز ان کے آگے ہیچ ہے، لیکن بہرحال وہ طیاروں کا جد امجد تھا۔

معاشرے پر نگاہ دوڑائیں، ایسے لوگ دکھائی دیں گے جو درحقیقت "طوطے” ہیں، جو رٹی ہوئی باتیں دہراتے ہیں، ایسے ہی یہ لوگ بھی وہ باتیں کرتے ہیں جو انہیں دوسرے بتاتے ہیں، یعنی سنی سنائی پر زندہ ہیں، اسی پر یقین رکھتے ہیں حرف آخر جان کر، جو انہیں کسی سے معلوم ہو جائے، جو کہیں سے سن لیں پڑھ لیں، اپنی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے اسے مزید جاننے اور پرکھنے کی، تحقیق نہیں کرتے، ان کا اپنا مشاہدہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے سامنے کی بات کا اقرار نہیں کرتے گویا اسے بھول جاتے ہیں، اور اس بارے میں وہ بات کرتے ہیں جو دوسرے ان سے کہہ دیتے ہیں، دراصل ایسے لوگ اپنی سہل پسند طبیعت کی وجہ سے عقل کا استعمال نہیں کرتے اور استنادیت پسند ہو جاتے ہیں، کسی بھی قوم کے زوال کا اہم ترین سبب ایک یہ بھی ہے کہ اس قوم کے افراد تحقیق کرنے اور جستجو رکھنے کے بجائے تقلید کا رویہ اپنا لیتے ہیں، اور یوں ان کی فکر جمود کا شکار ہو کر بانجھ ہو جاتی ہے، پھر یہ اپنے نظریاتی دائروں میں گھومتے رہ جاتے ہیں، اور جو ہم خیال نہ ہو انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کی وجہ سے مخالفین کو بڑی سہولت رہتی ہے، افواہیں پھیلانے میں، پروپیگنڈہ کرنے میں اور وہ ان کو جب چاہیں اپنی سے مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں، وہ ان کا رخ کسی بھی جانب موڑ سکتے ہیں جو کہ ایک خطرناک بات ہے اور لمحہ فکریہ ہے-

اس کی مثال یوں بھی لیجیے کہ کیسے سیاسی و مذہبی لیڈر اس قسم کے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں، وہ انہیں کسی شے یا مسئلے پر کہہ دیں کہ یہ صحیح تو وہ کہتے ہیں ہاں صحیح ہے، وہ اس کو غلط کہیں تو یہ کہیں گے ہاں غلط ہے، یعنی ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی، یاد رکھیں! اگر آپ کی اپنی کوئی مضبوط اور سوچی سمجھی رائے نہیں تو آپ کبھی بھی سیدھی راہ نہیں پا سکتے اور استنادیت میں گم ہو کر اذعانیت اور ادعائیت کا شکار ہو جائیں گے۔

انسان کو اپنے مشاہدے، تجربے سے کام لینا چاہئیے اور اس کے مطابق بات کرنی چاہئیے، ہر شے پر بعد از تشکیک اپنی سی تحقیق کرنی چاہئیے، سنی سنائی پر یقین کرنا گمراہی ہے وجہالت ہے، اگر کوئی آپ سے سنجیدگی سے کوئی "مسلمہ مانی جانے والی” آئیڈیالوجی بیان کرتا ہے، تو اسے من و عن مان لینے کے بجائے اپنی سی کوشش اسے جاننے کی کیجیے، جستجو رکھئیے، تحقیق کیجیے- اسے مزید جاننے کی کوشش کیجیے، اگر وہ نظریہ درست نکلے تو ہی اسے مانئے ورنہ اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کریں، کہ اپنی تحقیق میں کیا پایا اور اگر آپ کی تحقیق صحیح غلط کا فیصلہ نہ کر سکے تو مزید کوشش کیجیے اور کرتے رہئیے۔

یاد رکھیں "ایک شرارے سے شعلہ لپکتا ہے اور ایک شعلہ سے ایک بڑا الاؤ روشن ہوتا ہے۔”

کسی بھی فلسفی، منطقی، مصلح کی بات کو بلا چوں چرا مان کر اسے اپنا عقیدہ بنا لینے کے بجائے تشکیک کیجیے اور عقل کے گھوڑے دورائیے، غور و فکر کی عادت کو شعار بنا لیں، اگر محقق، سائنسدان اور فلسفی حضرات وغیرہ استنادیت اور اذعانیت و ادعائیت کو اپنا شعار بنا لیتے، تب کیا یہ دنیا اس مقام تک پہنچ پاتی جہاں آج کھڑی ہے؟ یقیناً نہیں! اگر معاشرے و سماج میں رائج مفروضات و تصورات و نظریات سے یہ لوگ نہ نکلتے تب ہم آج بھی پتھروں کے دور میں کھڑے ہوتے، ذرا سوچئے۔۔ تہذیب کے، نظریات کے، عقائد کے دائروں اور مصنوعی حد بندیوں سے انہیں باہر آ کر دیکھیں اور جانئے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا، استنادیت سے چھٹکارا پائیے، ادعائیت کو خیر آباد کہئیے، فکر کے چراغ روشن کیجیے، اپنی فکر کی راہ کا تعین خود اپنے تجربہ و تحقیق کی روشنی میں کیجیے، اس دنیا نے فکری طور پر ابھی بہت آگے جانا ہے، کسی مخصوص جگہ قیام نہیں کرنا جو کہ تہذیب و تمدن کی موت کے مترادف ہے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top