Close

ما بعد الطبیعات میں ابدیت کا مفہوم

 

عام طور پر ما بعد الطبیعات یعنی میٹا فزکس کو فلسفہ ❞ما ورائے مادیت❝ سمجھا جاتا ہے، یہ ان چیزوں پر بحث کرتی ہے جو فطرت کے قوانین کے تابع نہیں، یا جو ❞چیزیں❝ مادیت سے ما وراء ہیں، جو بھی ہو.. آخر میں اس کا سِرا ❞علمِ الہیات❝ سے جا ملتا ہے، مختلف زمانوں میں مختلف فلاسفہ نے ما بعد الطبیعات کو مختلف نام دیے، جدید افلاطونیت اسے ❞علمِ وحدت❝ کہتی ہے، ڈیکارٹ کے ہاں یہ ❞لا مادیت کا علم❝ ہے جبکہ ہیگل کے ہاں یہ ❞تصورِ محض❝ یا ❞خالص روحانی سچائی❝ ہے، اور یقیناً مختلف مکاتبِ فکر کے حساب سے اسے اور بھی کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

طبیعات اور ما بعد الطبیعات میں کیا فرق ہے؟

طبیعات کی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے بیان کیا جائے اور اس کی پیشگی پیش گوئی کی جائے، آئن سٹائن کہتے ہیں: ❞کائنات میں سب سے ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے❝. یہ بات علمِ الہیات کے مفہوم سے ٹکراتی نظر آتی ہے جو ایسے معاملات میں مصروفِ کار نظر آتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں یعنی جس کا تعلق غیبیات سے ہے!!

کیا ما بعد الطبیعاتی فکر کی موجودگی کا سبب کائنات کی مکمل تفہیم میں ناکامی ہے؟

ابتدائے تاریخ سے انسان کی کوشش رہی ہے کہ وہ دنیا اور زندگی کی سمجھ حاصل کر لے، سائنس اس ضمن میں سب سے بہترین حل ثابت ہوئی، جہاں تک بات اساطیر اور غیبیات کی ہے تو یہ توجیہ محض کند ذہنوں کو ہی پسند آتی ہے۔

آج ما بعد الطبیعات محض ❞بلند اصولوں کی تلاش❝ تک محدود ہوگئی ہے جن کا وجود محض تخیلی صورت میں صرف ذہن میں ہوتا ہے ناکہ کوئی مادی وجود جسے طبیعات وحساب کتاب کی زد میں لایا جاسکے، آج کل طبیعات دانوں کا نقطہ نظر سائنس میں سمتوں کا تعین کرتا ہے، لہذا سائنسی حلقوں میں عام تصور یہ ہے کہ: میٹا فزکس دنیا کو دیکھنے کی ایک سطحی اور محدود سوچ ہے!!

در حقیقت ما بعد الطبیعات یعنی میٹا فزکس کو ابدیت پر پورا یقین ہے، اس بحث نے ما بعد الطبیعات دانوں کو بھی ایک لمبی چوڑی بھول بھلیا میں پھنسایا ہوا ہے.. مثال کے طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت کے کنارے پر کھڑے کسی مریض پر گزرنے والا محدود وقت ابدی کیسے ہوسکتا ہے؟

فلسفہ ما بعد الطبیعات کے ابدی مفہوم کو سمجھانے کے لیے مختلف قصے بیان کرتا ہے، ایسا ہی ایک مناسب سا قصہ یہاں درج کیا جا رہا ہے جو علامتی طور پر ما بعد الطبیعات کے ابدی مفہوم کو بیان کرتا ہے:

***********

ابدی زندگی۔

آپریشن کے بعد فاطمہ کی حالت مزید ابتر ہوگئی، ڈاکٹر نے بتایا کہ صورتِ حال نازک ہے، بیماری پھیپڑوں تک پہنچ گئی ہے اور اسے نہیں لگتا کہ وہ چھ ماہ سے زیادہ جی پائے گی۔

یہ خبر سن کر اس کے پیروں تلے سے گویا زمین ہی نکل گئی، اور وہ چلائی: صرف چھ ماہ؟

ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم کر چکے، اب معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ڈاکٹر نے سر ہلاتے ہوئے وضاحت کی۔

مگر مجھے زندگی سے پیار ہے… میں جینا چاہتی ہوں.. بلکہ صدیاں جینا چاہتی ہوں.. ابھی میری عمر ہی کیا ہے…

ایک حل ہے۔ ڈاکٹر نے اعلان کیا۔

یہ سن کر فاطمہ امید افزا نظروں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگی، لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر کی خاموشی لمبی ہوگئی ہے تو اس نے سوال کیا:

کیا حل ہے؟

حل یہ ہے کہ تم کسی شاعر سے شادی کر لو؟!

شاعر؟! شاعر سے شادی کر کے میری بیماری کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے؟ کیا شاعر کے پاس کوئی ایسا علاج ہے جو میڈیکل سائنس کے پاس نہیں؟!

اچھا سوال ہے… میں وضاحت کرتا ہوں..

یہ کہہ کر ڈاکٹر کی خاموشی ایک بار پھر طویل ہوگئی۔

میں سن رہی ہوں.. بتائیے؟ فاطمہ نے گویا ڈاکٹر کو جھنجھوڑا..

بات یہ ہے.. (ڈاکٹر نے تمہید باندھی)… کہ شاعر مغرور مخلوق ہوتے ہیں.. متقلب المزاج اور کثیر الفرمائش ہوتے ہیں.. انہیں یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ کسی الگ نوع کے انسان ہیں، وہ خود کو برتر سمجھتے ہیں اور باقیوں کو کمتر.. وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے ساتھ ہیں مگر در حقیقت وہ الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں.. شاعر چاہتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان کی منقلب المزاجی سے خود کو ہم آہنگ کریں، تمہیں دن رات اپنے شوہر کی اتنی شاعری سننی پڑے گی کہ بالآخر تم تنگ آجاؤگی.. اور خبردار جو تم نے اس کی شاعری پر ذرا بھی تنقید کی یا اسے نا پسند کیا.. قیامت کے دن بھی جب خدا اس سے نیکیوں اور گناہوں کا پوچھے گا تو وہ کہے گا کہ اس کے کھاتے میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہیں کیونکہ وہ ایک بڑا شاعر ہے.. اس کا واحد گناہ صرف تم سے شادی کرنا ہے اور یہ گناہ تو مردوں کو ویسے ہی معاف ہے کیونکہ خدا نے آدم کو بھی حواء کے بہکاوے میں آنے کے با وجود معاف کر دیا تھا.. اسے توقع ہوگی کہ قیامت کے دن خدا اس سے کہے گا کہ چونکہ تم ایک بڑے شاعر ہو لہذا تمہاری جگہ یہاں ہے جہاں میں بیٹھتا ہوں.. آؤ اور میری جگہ پر جلوہ افروز ہوجاؤ.. یہ بھی خیال رہے کہ جب وہ کوئی غزل یا نظم لکھ رہا ہو تو چائے کافی کو دیر نہیں ہونی چاہیے.. یا چائے میں چینی اس کی پسند کے مطابق نہ ہو.. ورنہ وہ تم پر اپنی غزل کی خرابی کا الزام ڈال دے گا، اگر اس کی کسی غزل پر تنقید ہوئی تو تم پر الزام ہوگا کہ اس کے ناقدین کی طرح تم میں بھی رتی بھر ادبی ذوق نہیں ہے، اور اگر اس کی غزل کی پذیرائی ہوئی تو تمہیں پھول ملیں گے.. مگر خیال رہے.. اس کے بیڈ کے سرہانے رکھنے کے لیے۔

مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس سب کا میری بیماری کے ٹھیک ہونے سے کیا تعلق ہے؟ میں زندہ کیسے رہوں گی؟ فاطمہ نے استفسار کیا۔

یہ بڑا اہم سوال ہے.. شاعر جیسا کہ میں نے بیان کیا تمہاری زندگی جہنم بنا دے گا۔

مگر چھ ماہ بعد میری ممکنہ موت کا کیا؟

یہ تو گویا خلاصہء کلام ہے.. تمہاری بیماری ٹھیک نہیں ہوگی.. تم چھ ماہ بعد مر جاؤگی.. مگر کسی شاعر کے ساتھ گزرے چھ ماہ تمہیں صدیوں پر محیط محسوس ہوں گے.. شاید ان چھ ماہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی تم موت کی تمنا کرنے لگو!!

2 Comments

  1. واہ صاحب ! مابعدالطبیات کا نام دیکھ کر سمجھ رھا تھا کہ کوی سنجیدہ گفتگو ھوگی مگر ڈاکٹر والا لطیفہ پڑہ کر لگا کسی نے مابعدالطبیات کے ساتھ مذاق کیا ھے – اگر لکھنا نھیں آتا تو کم از کم اس ٹوپک سے مذاق تو نہ کرو ؟

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

2 Comments
scroll to top