Close

مت قتل کرو آوازوں کو

زمانہ قدیم سے ہی سفیروں کے قتل کو انتہائی معیوب گردانا جاتا ہے، کسی سفیر کا قتل اعلان جنگ کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ فنکار امن کے سفیر ہوتے ہیں، محبتوں کے نقیب ہوتے ہیں، خوشبوؤں کے امین ہوتے ہیں۔ ماہ جبینوں کے حبیب ہوتے ہیں۔ فساد کے حریف ہوتے ہیں۔

امجد صابری کو نفرت کے سوداگروں نے مار ڈالا، ایک آواز کو خاموش کر ڈالا، امن کا ایک سفیر، دنیا کو فتنہ و فساد، قتل و غارت گری، خوف و دہشت سے پاک دیکھنے کے خواب آنکھوں میں لئے شرمندہ تعبیر ہونے سے قبل ہی راہ عدم کو سدھار گیا۔

یوں تو دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی میں ضائع ہو جانے والی ہر جان پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے، لیکن معلوم نہیں کیوں امجد صابری کی موت کا دکھ دو چند تھا۔ امجد صابری اس آواز کی بازگزشت تھے جو بچپن میں ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی کان میں پڑنے لگی تھی اور جسے سن کر بدن کا رواں رواں جھوم جایا کرتا تھا، جی ہاں میں ”بھر دو جھولی مری“ اور ”تاجدار حرم“ کی صداؤں کی ہی بات کر رہا ہوں۔

غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری برادران کی وہ مسحور کن آواز جس نے ساٹھ کی دہائی سے اپنی آواز کا جادو جگانے کا آغاز کیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سر چڑھ کر بولنے لگا۔ دیسی تو دیسی صابری برادران کے فن کے زیر اثر بدیسی لوگ بھی حالت وجد میں پائے گئے۔ امجد صابری نے اپنے والد غلام فرید صابری سے ورثہ میں ملی گائیکی کی اس روایت کو آگے بڑھایا، اپنے والد کی گائی ہوئی مقبول عام قوالیاں بھی زندہ رکھیں اور اپنے انفرادی فن کا بھی بخوبی مظاہرہ کیا۔ افسوس کہ نصف صدی سے زائد قائم اس عظیم ثقافتی ورثہ کا اختتام امجد صابری کے قتل کے ساتھ ہی ہو گیا۔ غالبًا پاکستان میں یہ کسی قوال کا پہلا قتل ہے۔

امجد صابری کا قتل پاکستان کی تہذیب اور ثقافت کا قتل ہے، یہ براہ راست پاکستان کی ثقافتی روایت پر حملہ ہے، ایک بے ضرر قسم کا گائیک جس کا کام اپنی آواز سے ہی محبت کے راگ الاپنا تھا، کسی کیلئے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا تھا ؟ وہ تو پیغام محبت کا پیامبر تھا، مؤذن عشق تھا۔ صابری کے قتل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کے ذہن پر طاری خوف کے سائے اس قدر طویل ہو چکے ہیں کہ اب اسے آوازوں سے بھی خوف آنے لگا ہے، جو پندار، سُر کی لے سے بھی لرزہ براندام ہونے لگے اس کے تار عنکبوت ہونے میں بھلا کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

ادارہ جرات تحقیق امجد صابری کے اہلِ خانہ کے دکھ میں برابر کا شریک ہے اور ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔

 

معلوم نہیں احمد فراز نے کس پس منظر میں یہ نظم کہی تھی لیکن امجد صابری کے قتل پر یہ نظم انتہائی حسب حال منطبق ہوتی ہے ؏

تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا

جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
(احمد فراز)

کہنے والے کہتے ہیں کہ رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے، یہاں تو شیطان دندناتے پھرتے ہیں اور فرشتوں کو پابند موت کر دیا جاتا ہے۔

5 Comments

  1. واہ واہ , نظامی صاحب کی کسی عاشق رسول(ص) بارے قصیدہ گوئ سے دل شاد ہوگیا . دعا ہے کہ اللہ نظامی صاحب کے دل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اتباع سے سرشار فرمادے اور انھیں دین محمدی پر واپس پلٹا کر مسلمانوں کا قبلہ درست کرنے پر مامور فرمادے, آمین. جزاک اللہ .

    1. جو مارا گیا وہ بھی عاشق رسول، اور جس نے مارا اسے بھی عشق رسول کا دعویٰ ہے، ایسے عشق رسول سے ہم باز ہی بھلے۔ یہ کسی عاشق رسول کی قصیدہ گوئی نہیں ہے، ایک فنکار کی قصیدہ گوئی ہے۔ جس مذہب میں بنو قریظہ جیسے سانحہ پر فخر کیا جاتا ہو، ایاز نظامی ایسے مذہب کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔

      1. نظامی صاحب یہ تو آپ کی ہٹ دھرمی ہے, ورنہ جو زور قلم صاحب قلم نے آپ کو عطا کیا اس کا ثانی نہیں.خیر کسی کو آخری لمحے میں بھی ایمان نصیب ہوسکتا ہے یہ خدا تعالی کی مشیتیں ہیں بندہ عاجز ہے محض اپنے اٹکل پچو پر اتراتا پھرتا ہے,فرعون بھی ہوا میں تیر چلاتا تھا.
        لیکن ایک بات تہ ہوگئ کہ قاتل صابری کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں پھر اسے پکڑوانے مدد کیوں نہیں کرتے? یا محض پرانے جزبے کے تحت کسی مدح سرا کے بیہمانہ قتل پر ہمدردی جاگی تھی?
        شہید کے چچا مرحوم کی زبان سے ادا ہوا اک شعر ملاحضہ ہو,
        چالاکیاں تو دیکھیۓ خود قتل کرکے آپ
        اوروں سے پوچھتے ہے ماجاجراکیاہوا.
        مرحوم باپ کے بول ہیں
        مقتل میں حال پوچھو نہ روزہ شکارکے
        تم اپنےگھرکوجاؤ چھری پھیرپھارکے.

جواب دیں

5 Comments
scroll to top