Close

کیا اسلام ناپیدگی کی راہ پر گامژن ہے؟

تاریخِ انسانی نے کئی مذاہب دیکھے جن کی اکثریت اب ناپید ہوچکی ہے جیسے فرعونی، یونانی، میسوپوٹیمیا اور جزیرہ نما عرب کے بُت پرستانہ مذاہب، یہ ناپیدگی عام طور پر پرانے مذہب کے ملبے پر نئے مذہب کے ظہور کی وجہ سے رونما ہوتی ہے جو سلامتی سے گزرنے کے لیے پرانے مذہب کے کچھ عناصر بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے، مثال کے طور پر یہودیت نے توحید کا تصور مصر کے فرعون اخناتن کی فکر سے لیا جس نے بُت پرستی کو مسترد کرتے ہوئے سابقہ خداؤوں کی عبادت گاہیں بند کرادی تھیں جبکہ شریعت کے لیے یہودیت نے حمورابی کے قوانین (کوڈ آف حمورابی) سے فیض حاصل کیا۔

عیسائیت آئی تو اس نے یہودیت سے وحی اور انبیاء کا تصور لیا اور اس کی مقدس کتاب اپنا کر انجیل کی شکل دی اور یہودیت کو منسوخ اور عیسائیت کو اس کی تکمیل قرار دیا، ایزیئس کی جگہ کنواری مریم نے لے لی اور ❞عنخ❝ نامی مصری کلیدِ حیات کی جگہ صلیب نے لے لی، عنخ کی یہ علامت مصر کے اقباط کے ہاں آج بھی مستعمل ہے، قدیم مصری اسے بعد از مرگ زندگی کی علامت قرار دیتے تھے جس کی جگہ اب عیسائیوں کے ہاں صلیب نے لے لی ہے۔

پھر اسلام نے آکر نہ صرف یہودیت سے توحید اور بت شکنی کے تصور کو اپنایا بلکہ سزاؤں کے نظام اور عورت دشمنی کو بھی بعینہ نقل کیا اور اسے ناقصِ عقل ودین قرار دیا، اسلام نے یہودیوں کے سابقہ انبیاء کو بھی اپنایا اور ان میں مزید اضافہ بھی کیا جیسے زکریا، مسیح، صالح اور یوحنا المعمدان (یحیی)، اسلام نے جہاں عقیدہ تثلیث اور صلیب کے تصور کو مخالف بر توحید قرار دیتے ہوئے مسترد کیا وہیں اس نے بت پرستانہ رسوم ورواج جیسے حج اور کعبے کے گرد طواف کو پوری طرح اپنا کر اسے عین توحید قرار دیا، اب مسلمان حجرِ اسود کو چوم کر خود کو موحد وبت شکن قرار دیتے ہیں اور عیسائی صلیب کو چوم کر، ہندوؤں کے پتھروں میں مسلمانوں کو شرک اور حماقت نظر آتی ہے مگر حجرِ اسود کو چومتے وقت انہیں یہ حرکت عین عقلی معلوم ہوتی ہے؟! اسلام نے غیر مسلموں کو قبول تو کیا مگر صرف اس شرط پر کہ وہ ذلیل ہوکر انہیں جزیہ ادا کریں (حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ – التوبہ 29 ترجمہ: ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں۔) یا مسلمانوں کو غیر مسلموں کی عورتوں سے شادی کی اجازت دے کر مگر دوسری طرف غیر مسلم کو مسلمان عورت سے شادی کی اجازت نہیں، بیشتر اسلامی ممالک میں یہ غیر منصفانہ نامعقول قانون اب بھی موجود ہے، اگرچہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر آج بھی بہت سے مسلم علمائے دین اس قرآنی حکم کی واپسی کی تمنا رکھتے ہیں تاکہ نبی اسلام کے اس قول پر عمل کیا جاسکے: ❞اغزوا تغنموا بنات الاصفر ونساء الروم❝ (جنگیں کرو تو تمہیں غنیمت میں پیلے بالوں والی لڑکیاں اور روم کی عورتیں ملیں گی)۔

عالمی برادری جس انسانی حقوق کے چارٹر کو تسلیم کرتی ہے اسلامی شریعت اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے، خاص طور سے سزاؤوں، عورت اور غیر مسلموں کے حقوق کے معاملے میں، اسلام کا خاتمہ اس کے اندر سے ہی ظہور پذیر ہوگا، خود اسلامی معاشرے ہی اس دین کے ضرر رساں اثرات پر روشنی ڈالیں گے کیونکہ اس جدید دور میں یہ ان کے لیے صرف مصیبتیں ہی لائے گا، مسلمانوں کے رویے نے جہاں دوسرے معاشروں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے وہیں اب خود مسلمان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر اس میں کہیں تو کوئی گڑبڑ ضرور ہے، اس کی بہترین تعبیر ایک سادہ لوح عورت کی ہے جس نے کہا: ❞لو کان دہ الدین الاسلامی انا خارجہ منہ❝ ترجمہ: اگر یہی دینِ اسلام ہے تو میں اس سے نکل رہی ہوں۔

انسانی حقوق کے داعی احمد المناعی کہتے ہیں: ❞اگر احیائے ثانیہ (Renaissance) صرف دس سال تک لاگو کردی جائے تو آدھی امت ہجرت کرجائے گی اور محمد کی ملت سے مزید لوگ نکل جائیں گے❝ الجزائر کے اخبار ❞النہار الجدید❝ کی ایک خبر کے مطابق مسلم اکثریتی عرب ملک الجزائر میں ہر ہفتے پچاس سے زائد مسلمان مرتد ہوکر عیسائیت میں داخل ہو رہے ہیں، اس کی وجہ یقیناً وہ قتلِ عام ہے جو اسلام پسندوں نے الجزائر میں 1992ء میں شروع کیا اور جس نے مرد وعورت، بچے اور بوڑھے میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی، اس کی بنیادی وجہ تکفیر تھی، اسلام پسندوں کی نظر میں ہر وہ شخص کافر تھا جو حکومت کے خلاف نہیں لڑتا تھا، یہی بات اخوان المسلمین بھی کہہ رہے تھے اور ہر اس شخص کو کافر قرار دے رہے تھے جو ان کے اقتدار کو تسلیم نہیں کرتا تھا، شیخ محمود شعبان نے تو سیدھا سیدھا فتوی ہی دے دیا تھا کہ: ❞جو شخص مرسی کو گرانا چاہتا ہے اس کا قتل اور خون بہانا واجب ہے۔❝

یقیناً جزائری اخبار کی خبر میں صرف ان جزائریوں کا ذکر ہے جو اسلام کو خیر باد کہہ کر عیسائیت اپنا رہے ہیں، لادینیت اختیار کرنے والوں کے کوئی اعداد وشمار نہیں ہیں، مجھے یقین ہے کہ ان کی تعداد عیسائیت میں داخل ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہوگی، پیو فورم (Pew Forum) کے ایک سروے کے مطابق لادین، عیسائیت اور اسلام کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا گروہ ہیں، ظاہر ہے یہ لوگ مریخ سے تو نہیں آرہے، بلکہ انہی دو بڑے مذاہب عیسائیت اور اسلام کو چھوڑ کر ہی آرہے ہیں، وکیپیڈیا کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کی آبادی 2.2 بلین، مسلمانوں کی آبادی 1.6 بلین جبکہ لادینیوں کی آبادی 1.1 بلین ہے، جس شرح سے لادینیت میں اضافہ ہوا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اگلی ایک دہائی میں لادینیوں کی آبادی اگر عیسائیت سے نہیں تو اسلام سے ضرور بڑھ جائے گی۔

عام طور پر مسلمان اسلام کی ناپیدگی کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ❞اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ – آل عران 19 ترجمہ: دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔❝ اور وضاحت کرتے ہیں کہ اگر اسلامی معاشروں میں کوئی نقص ہے تو اسے اسلام سے منسوب نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے ذمہ دار مسلمان ہیں نا کہ اسلام، یہ عقیدہ بھی قرآنی پس منظر کا حامل ہے کیونکہ اسلام ہی وہ اکلوتا مذہب ہے جسے اللہ کی منظوری حاصل ہے چنانچہ وہی کامل ہے کیونکہ ❞اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنً – المائدہ 3 ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا❝ تاہم یہ آرگومنٹ حقیقت پسندانہ ہونے سے زیادہ خرافاتی ہیں کیونکہ اسلام کا دیگر مذاہب کی طرح خدا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہر مذہب کچھ شعائر کا ایک مجموعہ ہے جن کا مقصد خدا کے نام پر معاشرے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے اسی لیے ان کی بنیاد رکھنے والے انہیں خدا سے منسوب کرتے ہیں تاکہ ان کی باتوں کو زیادہ مصداقیت حاصل ہوسکے، بالکل جس طرح حمورابی نے اپنی شریعت کو سورج کے خدا سے منسوب کیا تاکہ وہ معاشرہ جس پر مذہبی فکر غالب ہے اسے آسانی سے قبول کر سکے، یہ کہنا کہ اسلامی معاشروں اور دنیا کی مصیبتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے انفرادی کرتوت ہیں ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ نازیت اور کمیونزم کی مصیبتوں کا تعلق نازیت اور کمیونزم سے نہیں بلکہ نازیوں اور کمیونسٹوں سے ہے۔

بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ اسلامی دنیا کی ساری مصیبتوں کی وجہ امریکی یہودی سازش ہے، اس قوم کو نظریہ سازش سے عشق ہے تاکہ اپنے عمل کی ذمہ داری نہ اٹھانی پڑے اور یہ اعتراف نہ کرنا پڑے کہ اصل مسئلہ اسلام ہی میں ہے جو اسے ایک دن لے ڈوبے گا، یہ مذہب ساتویں صدی میں ایک جاہل بدو معاشرے کے لیے وضع کیا گیا تھا، اور اب یہ ایک انٹیک بن چکا ہے جس سے دوسری قوموں سے زیادہ خود مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہے، یقین نہ آئے تو اسلامی ممالک کی نا گفتہ بہ حالتِ زار دیکھ لیں، مسلمانوں کو اسلام سے نکالنے کے لیے کوئی سرگرداں نہیں، وہ خود ہی اس کے نقصانات سے بچنے کے لیے اسے خیر باد کہہ دیں گے جیسے کوئی طاعون زدہ علاقے سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے، اگر اسلامی ممالک میں مذہبی آزادی کی ضمانت دے دی جائے تو اسلام میں صرف نفسیاتی قسم کے لوگ ہی رہ جائیں گے اور یہ محض نصف صدی میں ہی خاتمے کی کگار پر ہوگا، یہ بات عرب وزرائے انصاف کی مجلس بخوبی جانتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام ترک کرنے والے کی سزا موت تجویز کی ہے، اسلام کو باہر سے کسی دشمن کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اخوان، داعش اور طالبان جیسے گروہ ہی اس مہم کے لیے کافی ہیں بقول غالب:

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کہ پرانے مذاہب نا پید ہوگئے اور ان کے ملبے پر نئے مذاہب وجود میں آئے، عمومی زندگی کو خلاء سے پرہیز ہے، تو پھر اسلام سے بھاگے ہوئے لوگ کہاں جائیں گے؟ یہ خلاء کون پُر کرے گا؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جزائری اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی گود میں گر رہے ہیں، اس کی ایک وجہ تو پادری اگسٹینس (پیدائش 354ء) کا الجزائر سے تعلق ہوسکتا ہے جبکہ دوسری اور اہم وجہ بربروں (امازیغ) کا یہ احساس ہے کہ جاہل بدؤوں کی طرف سے اسلام بزورِ تلوار ان پر تھوپا گیا جنہوں نے ان کی تہذیب کو ملیا میٹ کردیا اور ان کی عزتیں لوٹیں اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلاموں کے بازار میں سرِ عام فروخت کیا جیسے کسی جانور کو فروخت کیا جاتا ہے، ان کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ تاریخ دوبارہ لکھی جائے، ان لوگوں کے عیسائیت کی طرف رجوع کو جڑوں کی طرف واپسی اور تاریخی ظلم کے ردِ عمل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

تاہم عیسائیت عقائدی طور پر ایک مشکل مذہب ہے اور جس کا براہ راست تعلق ان استعماری ممالک سے ہے جو عرب ممالک پر قابض رہے اور انصاف سے کام نہیں لیا، چنانچہ زیادہ امکان لادینیت کا ہے جو تیزی سے عالمی سطح پر فروغ پا رہی ہے۔

کوئی یہ سوال ضرور اٹھا سکتا ہے کہ یہ کیوں فرض کیا جارہا ہے کہ اسلام اپنی خامیوں کی وجہ سے ناپید ہوجائے گا، اس کی اصلاح بھی تو کی جاسکتی ہے؟ اس میں شک نہیں کہ کچھ لبرل مسلمانوں نے اسلام کے مسائل یا اسلام سے پیدا ہونے والے مسائل کے اچھے حل پیش کیے ہیں مگر ایک تو ان بے چارے لبرل مسلمانوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا دوسرا یہ کہ اسلام کی اصلاح نہیں کی جاسکتی تا آنکہ اس کے بنیادی اجزاء نکال باہر نہ کیے جائیں جو قرآن اور سنت پر سے تقدس کا لیبل ہٹائے بغیر ممکن نہیں جس سے اسلام کی جڑیں ہی ہل کر رہ جائیں گی، اگرچہ کسی پرانی گاڑی کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور پھٹے ہوئے کپڑے کو ٹوٹا لگایا جاسکتا ہے تاہم مرمت اور ٹوٹے لگانے کا عمل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتا، آخر کار آپ کو وہ پرانی گاڑی اور پرانا کپڑا دونوں پھینک کر انہیں نئی گاڑی اور نئے کپڑے سے بدلنا ہوگا۔

اسلام کے اب تک باقی رہنے کی اصل وجہ ردت کی حد ہے، کچھ لوگ ❞لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ – البقرہ 256 ترجمہ: دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔❝ کی آیت دہرا دہرا کر اسلام کو ردت کی حد سے بری الذمہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جیسے مرحوم شیخ جمال البنا، یا آج کل عدنان ابراہیم، مگر اصل میں یہ آیت سورہ توبہ کی آیت 5 جسے ❞آیۃ السیف❝ یعنی تلوار کی آیت کہا جاتا ہے سے منسوخ ہے (فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ – ترجمہ: پس جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔) اور یہ بات اسلام کے یہ شیخ ہمیں نہیں بتاتے، اور ویسے بھی یہ لوگ ایک پھٹے ہوئے غبارے میں ہوا بھر رہے ہیں جو کہ بے سود ہے، ردت کے ظالمانہ اسلامی قانون کی منظوری عرب وزرائے انصاف نے دی تھی جو عرب مشترکہ قانون کا حصہ ہے اور عرب لیگ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ قانون کیا کہتا ہے؟ ذرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

آرٹیکل 162 – مرتد وہ ہے جو دینِ اسلام چھوڑ دے چاہے مرد ہو یا عورت، کسی واضح قول، یا فعل سے یا اللہ، اس کے رسول اور دینِ اسلام کو گالی دے یا جان بوجھ کر قرآن میں تحریف کرے۔

آرٹیکل 163 – مرتد کی سزا موت ہے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے جان بوجھ کر اسلام چھوڑا ہے اور توبہ کرانے اور تین دن کی مہلت دینے کے باوجود اصرار کرے۔

آرٹیکل 164 – مرتد کی توبہ تب قبول کی جائے گی جب وہ ردت کی وجہ سے واپسی اختیار کر لے، اس شخص کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی جس کی ردت دو بار سے بڑھ جائے۔

آرٹیکل 165 – مرتد کی ردت کے بعد اس کے تمام تر فیصلے باطل سمجھے جائیں گے اور ان فیصلوں سے کمائی گئی ساری دولت حکومت کے خزانے میں جائے گی۔

ردت کی حد مصر کے سنہ 1982 کے اسلامی سزاؤں کے قانون کے منصوبے میں بھی شامل ہے جسے جامعہ ازہر کی منظوری حاصل ہے اور جو تمام عرب ممالک میں لاگو ہے کہ مرتد کی بیوی سے اس کی طلاق کرائی جائے گی، اور اسے اپنے بچوں اور جائیداد سے محروم ہونا پڑے گا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اقوامِ متحدہ کے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکل 18 پر احتجاج کیا تھا جو کہتا ہے:

❞ہر شخص کو سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی ہے، اس حق میں مذہب اور عقیدے کی تبدیلی بھی شامل ہے، اور تعلیم، عمل ور شعائر کی ادائیگی کی آزادی بھی شامل ہے چاہے پوشیدہ ہو یا اعلانیہ۔❝

خدا اسلام سمیت تمام دیگر مذاہب اور ان کی مقدس کتابوں سے بالکل اسی طرح بری ہے جس طرح بھیڑیا خونِ یوسف سے، تمام مذاہب اور ان کی کتابیں انسانی تخلیق ہیں اور انسانی تخلیق ہونے کے ناتے ان میں انسانی خامیاں بدرجہ اتم موجود ہیں، انہی خامیوں کا نتیجہ ہے کہ ہر مذہب کئی ذیلی فرقوں میں بٹ جاتا ہے، پوری انسانی تاریخ میں کسی مذہب کی کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے جو فرقوں میں نہ بٹ گیا ہو، اور ظاہر ہے کہ کسی حقیقی خدا کے حقیقی مذہب کے ساتھ ایسا ہونا ممکن نہیں بصورتِ دیگر ایسے خدا کی حکمت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں شیخ قرضاوی جو علمائے اسلام کی عالمی مجلس کے سربراہ ہیں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ردت کی حد اسلام میں سے ہے اور اس کی بقاء کی ضامن ہے کیونکہ اگر مسلمان ردت کی حد سے دستبردار ہوجاتے تو اسلام رسولِ اسلام کی وفات کے بعد ہی ختم ہوجاتا، ردت کے سامنے کھڑے رہنے کی وجہ سے ہی اسلام اب تک باقی رہ پایا ہے۔

شیخ قرضاوی نے بجا فرمایا ہے، آج سارے اسلامی ممالک ردت کی حد ختم کردیں پھر دیکھتے ہیں کہ اسلام کی زنبیل میں کیا بچتا ہے؟

5 Comments

  1. ہاے ! میں آپ کے سایٹ پر فرسٹ ٹایم آیا ھوں اور آپ کے خیالات کو مکمل طور پر سمجھنا چاھتا ھوں ٓ اگر آپ کے پاس اردو میں آپ کے کتاہیں یا وڈیوز ھیں تو پلیز میرے ای میل پر سینڈ کر دیں۔ مجھے انتظار رھےگا۔ شکریہ

    1. جرات تحقیق کی ویب سائٹ کے سب سے اوپر والے ہیڈر پر ڈاون لوڈ کا بٹن موجود ہے اس پر کلک کریں تو آپ کو وہاں بہت سی کتابیں ملیں گی جو آپ ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اسی ہیڈر پر آپ کو ویڈیوز اور گیلری کے پیجز بھی ملیں گے۔

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

5 Comments
scroll to top