Close

گر ہوا سامنا بعد مرگ خدا کا

 

متعدد بار یہ سوال سامنے آیا کہ ”اگر مرنے کے بعد معلوم ہوا کہ خدا تو موجود ہے، تو دنیا میں خدا کا انکار تو گلے پڑ جائے گا، اس لئے مرنے کے بعد خدا کا سامنا ہونے کے امکان کا تقاضا ہے کہ دنیا میں خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے، تاکہ مرنے کے بعد دنیا میں خدا کا اقرار، آخرت میں ہمارے لئے ”محفوظ راستہ“ ثابت ہو۔ نیز خدا کو تسلیم کرلینے میں انسان کا کوئی نقصان نہیں ہے، لیکن اگر مرنے کے بعد خدا کا سامنا ہو گیا تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے، اس لئے بھی محفوظ راستہ یہی ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے۔

الحاد کے بارے میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی معلومات اور لوگوں کے الحاد کی جانب مائل رجحان کو دیکھتے ہوئے، مذہبی حلقے، ایمان اور الحاد کے مابین مذبذب افراد کو ایمان پر قائم رکھنے کے آخری حربے کے طور پر اس استدلال کو استعمال کر رہے ہیں۔ معلومات اور مطالعے کی کمزوری کی بناء پر کچھ لوگ اس دلیل کا شکار بھی ہو جاتے ہیں تو اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک تحریر میں اس خدشے کی مکمل توضیح اور تنقیح بیان کر دی جائے۔

بنیادی طور پر یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ باوجودیکہ وجود خدا کے دستیاب دلائل عقلی اور منطقی اعتبار سے قابل تسلی و تشفی نہیں ہیں، لیکن پھر بھی امکان کے درجے میں یہ ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کسی خدا کا سامنا ہو تو اس ”خدشے“ کے پیش نظر وجود خدا کا اقرار ہی آخرت میں انسان کیلئے ”محفوظ راستہ“ ثابت ہوگا۔

پاسکل ویجر

اس فلسفیانہ مقدمے کو ”پاسکل ویجر“ (Pascal’s Wager) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ ستارہویں صدی کے ایک فرانسیسی فلاسفر، بلیز پاسکل Blasise Pascal نے پیش کیا تھا۔ ویجر Wager کا اردو ترجمہ، داؤ، شرط، جوا، خدشہ، اور گروی رکھنا ہے۔ پاسکل ویجر کا اردو میں مفہوم پاسکل کا داؤ، یا پاسکل کا جوا، ہے۔ گویا انسان اپنی زندگی کا جُوا خدا کے وجود کو تسلیم کرکے کھیلے تاکہ مرنے کے بعد اگر خدا کا سامنا ہو تو خدا کے ابدی عذاب سے بچا جا سکے۔

پاسکل ویجر کچھ عقلی مقدمات پر قائم کیا گیا ہے، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

امکانی طور پر ممکن ہے کہ خدا کا وجود ہو یا نا ہو۔
اگر خدا کا وجود ہوا تو مرنے کے بعد ملحد انسان کا خسارہ بے انتہاء ہے کہ اسے ابدی جہنم میں جلنا ہوگا، گرچہ اس نے دنیاوی زندگی میں الحاد کے سبب بہت محدود فوائد حاصل کئے ہوں گے۔
اس کے برعکس اگر ایک انسان دنیا میں خدا کے وجود کو اس خدشے کے پیش نظر تسلیم کرکے زندگی گزارے کہ ممکن ہے کہ مرنے کے بعد کسی خدا کے سامنے پیشی ہو تو آخرت میں اس کا بے انتہاء فائدہ جنت کی صورت میں حاصل ہوگا، گرچہ اس نے دنیاوی زندگی میں اپنے عقیدے کی بدولت محدود نقصان برداشت کیا ہوگا کہ زندگی سے بہتر طور پر لطف اندوز نہیں ہوا ہوگا۔
پس آخرت کے ابدی فائدے کے حصول اور ابدی نقصان سے بچاؤ کی خاطر محفوظ چال یہی ہے کہ خدا کو تسلیم کرکے زندگی گزاری جائے۔
اگر خدا پر یقین رکھنے کے بعد امکان کے دوسرے پہلو کو سامنے رکھا جائے کہ خدا کا وجود نہیں ہے تو دنیا میں خدا کے وجود پر یقین رکھنے کا کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ملحد ایک زیادہ بہتر زندگی سے لطف اندوز ہوگا، اور خدا پر یقین رکھنے والا نسبتاً کم، لیکن یہ نقصان اس نقصآن کی نسبت بے حد کم ہے جو مرنے کے بعد خدا کا وجود سامنے آنے کی صورت میں ابدی سزا کی شکل میں بھگتنا ہوگا۔

PascalWager

پاسکل ویجر کا تجزیہ

یہ نظریہ اپنی ذات میں ہی اس قدر ناقص اور غیر تسلی بخش تھا کہ فلاسفہ کے حلقوں کے علاوہ خود مذہبی حلقوں میں بھی اسے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی،اور بلیز پاسکل کی زندگی میں ہی فلاسفہ، ملحدین اور مذہبی حلقوں کی طرف سے اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ سطحی سوچ کے حامل افراد اس نظریئے سے بہت متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے ”امکان“ کی بنیاد کسی معقول وجہ (Valid Reason) پر قائم نہیں ہے، بلکہ ”افسانوی تخیل“ کارفرما ہے۔ مغرب میں پاسکل ویجر کا نظریہ بری طرح فلاپ ہونے کے بعد آج کل اسلامی ممالک میں بڑھتے ہوئے الحاد کے آگے آخری بند باندھنے کیلئے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاسکل ویجر کے ردّ کی مذہبی وجوہات

اسلام کی طرح عیسائیت بھی عقائد کی درستگی کیلئے معرض وجود میں آیا تھا، ان دونوں مذاہب میں انسان یا انسانی مسائل سے زیادہ اہمیت خدا اور اس سے متعلق عقیدے کی ہے، اس لئے مغرب میں خود مذہبی حلقوں نے پاسکل ویجر کو مذہب کے دفاع کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اسے ردّ کر دیا، کیونکہ پاسکل ویجر میں اس خدشے کا تو اظہار ہے کہ ممکن ہے کہ مرنے بعد خدا کا سامنا ہو، لیکن یہ کون سے مذہب کا بیان کردہ خدا ہوگا ؟ اس اعتبار سے پاسکل ویجر ناصرف خاموش ہے بلکہ ابہام کا شکار بھی ہے۔

پاسکل ویجر کی کھپت کسی بھی مذہب میں عملی طور پر ممکن نہیں، کیونکہ ہر مذہب کے خدا کی خصوصیات اور صفات الگ الگ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں تو آپ نے کسی اور خدا کے وجود پر یقین رکھا، لیکن مرنے کے بعد آپ کا سامنا کسی اور خدا سے ہوتا ہے تو ایسی صورت میں جس خواہش (پاسکل ویجر) کے آسرے پر دنیا میں خدا کے وجود پر یقین رکھا تھا، آخرت میں وہ خواہش شرمندہ تعبیر نا ہو پائے گی۔ ایک ہندو کو عیسائیت یا یہودیت والے خدا کا سامنا ہو سکتا ہے، ایک عیسائی کو اسلام یا ہندو مت والے خدا کا سامنا ہو سکتا ہے، و علی ہذا القیاس۔ تو ایسی صورت میں خدا بھلا کیوں کسی دوسرے غلط خدا کے وجود پر یقین رکھنے کے باوجود کسی رُو رعایت سے کام لے گا ؟

پاسکل ویجر محض ایک خدشہ اور جُوا نہیں ہے، بلکہ یہ خدشہ در خدشہ اور جُوا در جُوا ہے۔ پہلا خدشہ اور جُوا یہ کہ حتمی طور پر معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد خدا کا سامنا ہوگا کہ نہیں، پھر مزید خدشہ اور جُوا یہ کہ مرنے کے بعد اگر کسی خدا کا سامنا ہوا بھی تو اب تک کے بیان کردہ تقریبا پانچ ہزار خداؤں میں سے کون سا خدا ہوگا ؟ اس لئے پاسکل ویجر کا اپنی زندگی پر اطلاق بھی آخرت میں عذاب سے نجات یا جنت کے حصول کا ضامن نہیں ہے۔

مختلف مذاہب کی تعلیمات سے واضح ہے کہ خود مذہب میں محض خدا کے وجود پر یقین، آخرت میں نجات کا ہرگز ضامن نہیں ہے، بلکہ اس کیلئے بہت سی دیگر قیود و شرائط بیان کی جاتی ہیں۔ پاسکل ویجر کے مقدمات سے واضح ہے کہ اس میں خدا کو جھانسہ دینے کیلئے اس کے وجود کا اقرار کیا جا رہا ہے، خواہ وجود خدا پر شرح صدر نا بھی ہو۔ کیا ایسے خود غرضانہ اور دھوکے پر مبنی ایمان سے خدا واقف نہیں ہوگا اور وہ بآسانی انسان کے اس جھانسے میں آ جائے گا ؟

پاسکل ویجر کے ردّ کی عقلی وجوہات

خدا کا تصور مذہب سے لازم و ملزوم ہے آج تک خارج از مذہب خدا کے کسی تصور کا وجود نہیں ملتا، اور دنیا کا کوئی بھی مذہب وجود خدا کو معقول دلائل کے ذریعے ثابت کرنے سے قاصر رہا ہے، وجود خدا کا تعلق محض ایمان بالغیب سے ہے، اور عقلی علوم میں ایمان بالغیب کسی بھی کھاتے میں شمار نہیں ہوتا۔ ایک عقلیت پسند انسان کیلئے مرنے کے بعد خدا سے موہوم ملاقات سے زیادہ اہم، مذاہب اور ان کی تعلیمات کا عقلی معیار پر پورا اترنا ہے، اگر مذاہب اور ان کی تعلیمات ہی عقلی معیار پر پوری نہیں اترتیں، تو پھر ایک ملحد کیلئے کسی مذہبی خدا کے سامنے پیشی کا مفہوم ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

پاسکل ویجر اپنی ذات میں ایک ”جُوا“ ہے۔ جسے منطقی اصطلاح میں ظنّ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ظنّ کبھی یقین کا فائدہ فراہم نہیں کرتا۔ ایک عقل پسند انسان اپنی زندگی کے فیصلے یقینیات کی بنیاد پر تو استوار کر سکتا ہے، لیکن ظنیات کی بنیاد پر اپنی زندگی کے فیصلے استوار کرنے کیلئے اس کی عقل ہرگز اسے اجازت نہیں دیتی۔ ملحد اپنی زندگی پر کوئی نظریہ مسلط کرنے کیلئے ”اگر مگر“ کے کسی جوے یا خدشے پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اگر یقینیات کو چھوڑ کر ظنیات کی بنیاد پر زندگی گزاری جائے تو اس زندگی کا الجھن زدہ ہونا بدیہیات میں سے ہے۔ پاسکل ویجر کا شکار انسان اس بے وقوف انسان کی طرح ہوگا جو آرام دہ پختہ خواب گاہ دستیاب ہونے کے باوجود محض اس خدشے کی بدولت روزانہ کھلے آسمان تلے تکلیف دہ رات گزارے کہ ممکن ہے کہ آج کی رات زلزلہ آ جائے۔

اگر خدا کے وجود کے امکانی پہلو کو بھی مدّنظر رکھا جائے تو ایک عادل اور منصف خدا، ملحد کی خدا کو جاننے کی حتی الامکان جستجو کے بعد دیانت دارانہ طور پر وجود خدا کے معدومیت کے فیصلے کو مومن کے اندھے اعتقاد پر ضرور ترجیح دے گا۔

ضمناً ایک لطیفہ ذکر کرتا چلوں کہ ایک مغلوب الحال شخص کو محلے کے بچے بہت تنگ کیا کرتے تھے، ایک دن حسب معمول راستے سے گزرتے ہوئے بچے اسے تنگ کر رہے تھے کہ یکایک بچوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا اور اس نے بچوں کو کہا کہ ارے تم سب یہاں کیا کر رہے ہو ؟ فلاں حاجی صاحب کے ہاں تو مٹھائی بٹ رہی ہے! بچے مٹھائی کا نام سنتے ہی اسے چھوڑ کر حاجی صاحب کے مکان کی طرف دوڑ پڑے۔ تھوڑی دیر بعد اس مغلوب الحال شخص کے ذہن میں ”خدشہ“ ابھرا کہ کیا معلوم واقعی میں حاجی صاحب مٹھائی بانٹ رہے ہوں، یہ سوچ کر وہ خود بھی بچوں کے پیچھے حاجی صاحب کے مکان کی طرف دوڑ پڑا۔

بس کچھ ایسا ہی حال مرنے کے بعد کسی خدا کے سامنے پیشی کے خدشے کا ہے۔ پاسکل ویجر واقعی ایک جھانسہ ہے، لیکن یہ خدا کو جھانسہ نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو غیر ثابت شدہ عقائد پر بدستور اعتقاد رکھنے کا آخری جھانسہ ہے۔

2 Comments

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

2 Comments
scroll to top