Close

ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفص میں ایجاد

 

معاشرتی و سماجی جبری حرکیاتی فضاء نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ جس کی بنا پر لادین حضرات سوشل میڈیا پر ہی آزادی کے ساتھ اظہارِ رائے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر روز مرہ کی زندگی میں سب کچھ کہا سنا جائے تو جس معاشرہ کے ہم پروردہ ہیں، اس نے جو حال کرنا ہے وہ آپ سے یا کسی سے ڈھکا چھپا ہرگز نہیں۔ مذہب میں ہر بات ‘حرفِ آخر’ سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے مذہب پر تنقید بھی نہیں کی جا سکتی۔ نہ آسانی کے ساتھ اصلاحات کی بات کر سکتے ہیں۔ مذہب پر تنقید کرنے والوں کو صرف تضحیک کی نگاہ سے ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان کا سوشل بائکاٹ کیا جاتا ہے۔ ان پر زندگی تنگ کی جاتی ہے اور موقع محل ملتے ہی جنت کما لی جاتی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا رہ جاتا ہے۔ جہاں کوئی کسی سے واقف نہیں ہوتا جب تک واقفیت پیدا نہ کرے۔ ہر کس و ناکس اپنے محسوسات و جذبات یہاں شئیر کر سکتا ہے۔ کیوں نہ کرے؟ معاشرتی و سماجی خاندانی جبری رویوں کی گھٹن سے آزاد ہو کر کھل کر ہر بات کہہ سکنے کی آزادی جہاں میسر ہو، اس جگہ انسان ہر شے پر بات کرتا نظر آئے گا۔ ایتھئیسٹ حضرات بھی مذہب پر تنقید کرتے نظر آئیں گے۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ اس ضمن میں کوئی جمہوری انداز اپنانے کو تیار نہیں اور نا ہی جمہوریت کو سقراط کے عہد سے آگے لے جانا چاہتا ہے۔ اگر لوگوں کو یہ جمہوری حق حاصل ہو جائے تو کم از کم ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کافی حد تک تبدیل ہو سکتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں جمہوری نظام کو غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو جمود کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ ‘آزادی’ کو جمہوری حق کے طور پر اب تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہمارے ہاں جمہوریت ابراہام لنکن کے دور سے آگے نہیں بڑھی۔ حد تو یہ ہے کہ اس معاشرہ کے پروردہ سوشل میڈیا پر بھی یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ جرآت تحقیق بلاگ تک کی پاکستان میں رسائی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سوشل سائٹس پر ایتھئیسٹ حضرات کے گروپس، پیجز اور آئی ڈی کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔ (رپورٹ کرنے کی نفسیات کا اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو اس کا محرک اور قتل کا محرک ایک ہی ہے)۔ پھر میسجز میں شدید ترین زمانے بھر کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ بلکہ سوشل سائٹس پر کھلے عام قتل کرنے تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اور آئے روز واجب القتل ہونے کے فتوے دیے جاتے ہیں۔ اس قدر شدت پسندی کے مقابلے میں ملحدین کی شدت پسندی کیا ہے؟ صرف اتنی کہ مذہب پر تنقید کی جاتی ہے۔ یا کہا جاتا ہے کہ اپنے عقائد اپنی ذات تک رکھے جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ سوشل میڈیا کہ علاوہ ملحدین کے پاس اور کوئی میڈیم نہیں جہاں وہ اپنے نظریات و خیالات کا اظہار کر سکیں۔ سارا وقت مذہب متاثرہ لوگوں میں گزارنے والے اس گھٹن سے باہر آنے کیلیے سوشل میڈیا پر بھی اس کا اظہار نہ کریں تو جائیں کہاں کس سے کہیں۔ مذہب ہر جگہ زندگی میں مداخلت کرتا ہے۔ اس گھٹن سے دو گھونٹ آزادی ہر ایتھئیسٹ کا حق ہے۔ پاکستان میں ملحدین کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ جن کا اٹھنا بیٹھنا جینا مرنا یہیں ہے۔ ان کے پاس اظہارِ رائے کیلیے انٹرنیٹ کے علاوہ اور کوئی میڈیم نہیں۔ جب تک آزادیِ اظہارِ رائے کی آزادی نہ ہو پاکستان میں تب تک انٹرنیٹ سے بہتر میڈیم اور کیا ہے؟ جس طرح سے مغربی ممالک میں مسلمانوں کو کھل کر تبلیغ کی اجازت ہے، کیا ایسے ہی ہمیں بھی آزادیِ اظہار کا جمہوری حق دیا جائے گا؟ برداشت کیا جائے گا؟

دیگر مذاہب والوں کو مسلمان کچھ بھی کہیں وہ جائز ہے، اگر ان کے مذہب پر کوئی انگلی اٹھائے تو یہ برداشت کرنے کی ہمت بھی ان میں ہونی چاہیے۔ جیسے تمام دنیا  میں انہیں سنا اور برداشت کیا جاتا ہے ویسا ہی حوصلہ اگر مسلمانوں میں نہیں تو خرابی ساری دنیا میں ہے یا ان میں ہے؟ پاکستان میں ہندو، عیسائی، یہودی وغیرہ کو کھل کے گالی دی جاتی ہے، جس طرح سے یہ عیسائی، یہودی، ہندو کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں۔ دوسروں کی لیتے رہنا جزو ایمان ہے لیکن جب اسی اصول کے تحت کوئی مسلمانوں کی لیتا ہے تو فوراً سیخ پا ہو جاتے ہیں، اسلام خطرے میں آجاتا ہے۔ حرمتِ رسول کیا صرف مسلمانوں کے مذہب، مسلمانوں کے رسول کی ہے؟ کیا دوسرے مذاہب اور ان کے اکابرین کی کوئی اہمیت و تکریم نہیں؟ دوسروں کے مذاہب اور ہستیوں کے نام تک کو تو گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور خود چاہتے ہیں کہ دوسرے عقائد سے تعلق رکھنے والوں، لادین حضرات کی گردن کاٹ کر اپنے نبی کی عزت بچائیں، اسلام بچائیں۔ یہ منافقت صرف مسلمانوں کو ہی جچتی ہے۔

اسلام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو کافر (سچ کا انکار کرنے والے) کہتا ہے۔ جو انتہائی بد تہذیبی ہے۔ ہمارے یہاں ہنود و یہود کے الفاظ ایک گالی کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مرزا غلام احمد کے ٹٹی خانے میں مرنے کے اشعار سنائے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی ہمارے ‘دینِ حق’ کی طرف بری نگاہ سے دیکھے گا تو اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ حرمتِ رسول پر جان (کسی کی بھی) قربان ہے۔

ہم جو کچھ بھی ہوں، جہاں کہیں بھی ہوں، ہمارے ارد گرد انواع اقسام کی بے شمار چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ ان اشیاؤں کے مجموعے میں سے ہم ایک وقت میں کسی خاص شے ہی کو اپنی توجہ کیلیے منتخب کرتے ہیں۔ بہت سی اشیاء میں سے کسی ایک وقت میں کسی ایک ہی شے کو توجہ کا مرکز بنانے میں متعدد عناصر کا دخل ہے جو خارجی اور داخلی دونوں نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اب مذہب پر خود انسان کے اندر دلچسپی موجود ہوتی ہے۔ خاص کر ایک موازنہ کرنے والا ذہن، بچپن سے انڈیلے گئے عقائد کا موازنہ شروع کرتا ہے تو اس عمل میں اس کی دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ اور وہ مذہب کو مزید جاننے کیلیے اس کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔ جب کہ خارجی عناصر میں مذہبیوں اور عقائد پرستوں کی شدت، حرکیت، تکرار وغیرہ دیکھ کر ذہن اس پر کھلے ماحول میں گفتگو کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اس کے ذہن میں مذہب کا مطالعہ کرنے کے نتیجے میں جو بھی سوالات اٹھتے ہیں، ان کا سنجیدہ اور تشفی بخش جواب بھی ملے۔ لیکن ایک شدت پسند معاشرہ عموماً اس قسم کے سوالات کو اور اس کے کرنے والوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتا ہے۔ اور بجائے ان سوالات کا جواب دے کر مطمئن کرنے کے سوال کنندہ پر کفر کے فتووں کا انبار لگا دیتا ہے۔ نیز اس شخص کے متعلق غلط فہمیاں عام کی جاتی ہیں۔ پروپیگنڈہ سے کام لیا جاتا ہے۔ شاید معاشرہ سوال کرنے سے اس لئے روکتا ہے کیونکہ سوالوں کے کوئی جواب نہیں ہیں۔ دنیا کے خطوں میں اسلام یا تو تلوار سے پھیلا یا ابتدائے اسلام سے متعلق جھوٹی کہانیاں سنا کر۔ اب جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، ان کے جوابات نہ ہزار سال پہلے تھے نہ اب ہیں نہ ہزار سال بعد ہوں گے۔ جس بنا پر معاشرہ سوالات کرنے والوں کو نہ اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے کردار پر لایعنی سوالات اٹھانے لگتا ہے۔ اسے پاگل، خبطی، نفسیاتی وغیرہ کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ حس کے ذریعہ سوالات کرنے والے کی تشفی کرانے اور اس کے اعتراضات کو دور کرنے کے بجائے ایسے رویوں سے اسے الٹا اور مذہب سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ۔ اگر کسی مذہب کے پیروکار یہ سمجھتے ہیں (بلکہ ان کی مذہبی تربیت اس بات پر ایمانی قسم کا پختہ یقین رکھتی ہے) کہ وہ حق پر ہیں، تب انہیں چاہیے کہ اس قسم کے غیر دانشمندانہ رویوں سے استدلال کرنے کے بجائے مناسب اور مہذب انداز میں جواب دینے کی کوشش کریں۔ لیکن مجموعی طور پر عقائد کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے۔ اس لئے مذہبی عقائد پر سوال اٹھانے، اعتراضات کرنے والوں کی آواز کو ہر ممکنہ طریقے سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کیلیے اگر ایذا رسانی، دھونس زبردستی سے کام لینا پڑے تو بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ اور محض سوالات کرنے کے جرم میں انسان کو تختہ دار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ جو ظاہر ہے کسی مہذب معاشرے کا خاصہ نہیں۔ ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو متعلقہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ لیکن چونکہ ایک شدت پسند معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا، لہذا سوشل میڈیا کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں کوئی کسی سے واقف نہیں ہوتا اور سب مکمل آزادی کے ساتھ ہر معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس! سائبر بل کے ذریعے اس واحد آزادیِ اظہارِ رائے کے میڈیم کو بھی چھینا جا رہا ہے۔

اگر ‘احساسِ جرم’ کو دیکھا جائے تو رسول اللہ نے آدھی زندگی کافروں سے لڑنے اور ان کے دین کو جھوٹا کہنے میں گزار دی۔ خود قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کفاروں کو بدترین جانور اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ کر اس ‘احساسِ جرم’ کا پتہ دیا جس کا الزام معاشرہ مذہب پر اعتراضات کرنے والوں کو دیتا ہے۔ اور جس کا الزام سوشل میڈیا پر ملحدوں کے سر تھوپا جاتا ہے۔

آزادی کے ساتھ ہر چیز پر بات کرنے کیلیے زندگی سے ‘دو گھونٹ  آزادی’ کم از کم سوشل میڈیا پر ہر انسان کا حق ہے۔ اس حق کو دبانے کی ہر قسم کی کوشش اور جد وجہد انسان کے جمہوری حق، اس کے انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ ہم اس معاملے میں اب تک سقراط کے عہد میں کھڑے ہیں جس میں عقائد مخالف جائز بات کہنے پر بھی زہر کا پیالہ نوش فرمانے کو دیا گیا۔

کیا مذہب پر سوالات کرنے، عقائد کی غیر عقلی باتوں پر اعتراضات اٹھانے سے اسلام کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں؟ تبلیغ کا رواج دنیا کے چند مذاہب میں ہی ہے۔ جس میں اسلام سرِ فہرست ہے۔ خاص کر ایک سچا مسلمان سب کو مسلمان کر دینا چاہتا ہے۔ اسلامی انتہاء پسند تنظیمیں ہر اس شے، ہر اس شخص کو صفحہِ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہیں جو ذرا بھی غیر اسلامی، اسلام مخالف ہیں۔ اس کیلیے وہ متشدد ہونے پر بھی فخر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر شخص کو آزادی ہونی چاہئیے کہ غور و فکر کر کے اپنی مرضی کے مذہب کا انتخاب کرے یا پھر لادین ہو جائے۔ اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں بنتا۔ لیکن مسلمان بھائی کسی ملحد کو سوشل میڈیا تک پر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ جبکہ خود ‘دینِ حق’ فرد کی ذاتی زندگی میں گھسنا فرض سمجھتا ہے۔ غسل کیسے کرنا ہے، ناخن کیسے کاٹنے ہیں، بیت الخلاء کیسے جانا ہے، مونہہ پر ہونٹ کے نیچے ہونٹ کے اوپر کتنی زلفیں ہونی چاہئیں، عملِ مباشرت کیسے سر انجام دینا ہے، پانی کیسے پینا ہے، چلنا کیسے ہے وغیرہ وغیرہ۔ خود کو دینِ فطرت کہلوانے والا مذہب فرد کی ذاتی زندگی کے ہر معاملے میں اس کے سر پر سوار رہنا چاہتا ہے۔ ان باتوں پر بات کی جائے تو اسلام فوراً سے پیشتر خطرے میں آ جاتا ہے۔ اس کے پیروکار فوراً اس شخص کی گوشمالی کو نکل پڑتے ہیں۔ ایسے رویے، ایسا معاشرہ ہر گز ترتیب نہیں دے سکتے جو وسیع تر سیاق میں انسانیت کو سب سے مقدم سمجھے۔ ؏

آپ کو مجھ سے ہے اک نسبتِ احساس لطیف
ایسا لوگ کہتے ہیں مگر میں تو نہیں کہتا ہوں

اس پر طرہ یہ کہ کچھ مہربان چاہتے ہیں کہ ‘مناظرہ’ کیا جاوے۔ کس سے؟ اجی اسلامیوں سے۔ وہ یہی کچھ چاہتے ہیں۔ کیوں چاہتے ہیں؟ یہ تو ہم بھی نہ جانیں۔ جان کر بھلا کرنا بھی کیا۔ ہم لوگ ‘مناظرہ’ نہیں کیا کرتے۔ محض شریف آدمیوں کی طرح تبادلہِ خیالات پر یقین رکھتے ہیں۔ مناظرہ اذعان اور استنادیت کی مشترکہ جنگ ہے۔ جس کا نتیجہ مزید ادعائیت ہی کو جنم دیتا ہے۔ اس میں حقائق بیان کرنے کے بجائے اس بات پر بحث ہوتی ہے کے فلاں مقتدرہ ہستی کا فرمایا درست ہے۔ ڈھمکاں کتاب کی کہانی ایک دم سچ ہے۔ اب اسے درست ثابت کرنے کے چکر میں نزدیک و دور کی ایسی کوڑیاں بھی لائی جاتی ہیں جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پیر۔ جب کہ منطقی گفتگو کا طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی شے پر گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے اس کے معنی اور تصورات کی تحلیل کا مرحلہ ہے۔ پھر تصورات کی قدر اور اہمیت کا اندازہ لگانے کا مرحلہ ہے۔ جو کہ بہت اہم ہے۔ اور آخر میں ان تصورات کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں جواز فراہم کرنے کا مرحلہ ہونا چاہیے۔ جبکہ ایسا منہاج تو کجا اکثر مبحثین پہلے ہی کسی نہ کسی ماورائیت کو مطلق تسلیم کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ صحیح کیا ہے درست کیا ہے وہ جائے بھاڑ میں۔ بس میں نہ مانوں ہار سجناں۔

جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی بھی شے سے متعلق بات کرتے وقت حقائق بیان کر دیے جائیں، جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر۔ ان حقائق کو بیان کرتے وقت لہجہ اذعانیت کا شکار نہ ہو، ادعائیت کا شائبہ نہ ہو اور کسی ماورائیت کی استنادیت نہ ہو کہ جس مقتدرہ ہستی کا فرمایا معجزہ یا مستند جان کر ارشاد فرمایا جا رہا ہے، خود اس کی علمی حیثیت صفر ہو۔ علمی حیثیت سے مراد حقیقتاً اور واقعتاً علم ہے، ماورائیت نہیں۔

لیکن اس سب کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہمیں اور بھی غم ہیں اے غمِ جاناں! ہم کسی کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے زور نہیں لگاتے۔ کہاوت مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ زیادہ دور تک چل نہیں پاتا۔ تو بھلا پھر  ہم کیوں کسی لایعنی جھوٹ کو پکڑنے کیلیے بھاگیں۔ اس نے ایک وقت میں خود ہی رک جانا ہے، پکڑے جانا ہے۔ ہاں مگر ہم اس جھوٹ کی کہانی کو ہر اس جگہ بیان کریں گے جہاں ہم چاہیں گے، جہاں سہولت محسوس کریں گے۔ جہاں ہماری جانوں کو خطرہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے وقتوں میں اپنے ان مسائل پر بات کرے جو خطرناک ہیں، باعثِ آزار ہیں۔ کہ جن کی سچائی سے ابھی سے آگاہ نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں یہ عفریت اور بھی بے قابو ہو جائے گا۔

اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارا نام بھی تاریخ انہی لوگوں میں لکھے گی جو ظلم سہتے تھے بغاوت نہ کرتے تھے۔ ہماری خاموشی بھی اس عفریت کی حمایت گردانی جائے گی جنہوں نے انسانیت کی شہ رگ کو سختی سے دبا رکھا ہے۔ جو تفریق کا ایسا نادر فارمولا بنائے بیٹھے ہیں جو کچھ اچھا کرنے سے قاصر ہے۔ جو انسان کو، انسانیت کو لہو تھکواتا ہے۔

یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو شعور دیں، انہیں سوچنا سکھائیں تا آنکہ آئندہ نسل کو پُر امن دنیا ملے۔ انسان دوست ماحول ملے۔ ہمیں کسی سے کوئی نفرت نہیں۔ کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ ہمیں انسان سے نہیں اس کے جاہلانہ افعال سے نفرت ہے۔ جن کی بنیاد پر وہ دنگا فساد مچا رہا ہے، انسانیت سوز کام کر رہا ہے، ہمیں ان تعلیمات سے چِڑ ہے۔ جو تعصب کی بنیاد رکھتی ہیں جو نفرتیں کرنا سکھاتی ہیں جو انسانیت کو بانٹ رہی ہے۔ اس کی بات تو ہم کریں گے۔ ہم تو بولیں گے۔

مناظرے کی دعوت دینے والو! آپ کی رحمت سے تو آپ کے اپنے شیعہ بھائی، احمدی بھائی، اور نجانے کتنے فرقہ وارانہ بھائی ہی محفوظ نہیں۔ پھر ہم یعنی ہم فری تھنکرز ایتھئیسٹ کس کھیت کی مولی ہیں؟!

عہدِ حاضر برقیات کا عہد ہے۔ برقیاتی سرعت کے ساتھ اطلاعات کی ترسیل ہوتی ہے۔ خیالات کی تشہیر اور توسیع ہوتی ہے۔ اب عالمی افق پر اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنا ایک نہایت آسان  کام ہے۔ لیکن جس طرح اپنے خیالات کو دوسروں تک پہچانا آسان ہے تو دوسروں کے خیالات سے متاثر ہونا بھی اسی قدر سہل ہے۔ اس عہد میں کسی جگہ بلا کر مناظرہ کی دعوت دینے کے بجائے سوشل میڈیا پر شریف آدمیوں کی طرح تبادلہ خیالات و معلومات فرمائیے۔ ادب کے دائرے میں گفتگو کیجیے۔ خوامخواہ تو کون میں تیرا مہمان کے مصداق ایسی فضول دعوتیں نہ دیجیے یا پھر اس معاشرے کی تربیت ایسی کر کے آجائیں جہاں ہم بغیر کسی  خوف و خطر کے اپنے نظریات بتا سکیں۔ ہمیں ہمارا یہ جمہوری حق ملے تو مناظرہ کرنے جیسی عیاشیوں سے متعلق سوچیں بھی۔

ویسے بھی ہمارا مقصد کسی سے کچھ منوانا نہیں۔ روشن خیالی کی تحریک کا مقصد معاشرے میں موجود اکائیوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھتے ہوئے اس کا احترام عقائد و نظریات کے لزوم سے ماوراء ہو کر کرنے لگ جائیں۔ یعنی کسی بھی انسانی گروہ کو محض عقائد کی بنیاد پر تول کر معاشرے میں اس کی حیثیت کا تعین نہ کیا جائے۔ روشن خیالی کی تحریک کا مقصد معاشرے کو یہ شعور دینا ہے کہ کیسے نظریات و عقائد کے دائروں سے نکل کر انسانیت کا احترام کیا جائے۔ لیکن ن ہجانے یہ آسمانی سیاحوں کے غمخوار خوفزدہ کس بات سے ہیں۔ شاید اس بات سے کہ سوشل میڈیا پر مختلف علوم، معاملات و واقعات کی مد میں ہونے والے تبادلہِ خیالات اور گفتگو قارئین کے ذہن میں بنی مِتھس کو توڑنے کا اہم کام سر انجام دے رہی ہے۔

تم اپنی سرکار سے یہ کہنا، نظامِ زر کے وظیفہ خوارو!
نظامِ کہنہ کی ہڈیوں کے مجاورو اور فروش کارو!
تمہاری خواہش کے برخلاف اِک نیا تمدن طلوع ہوگا۔
نیا فسانہ، نیا ترانہ، نیا زمانہ شروع ہوگا۔

ہم لوگوں کا واسطہ ان لوگوں سے ہے جو کچھ غیر ثابت شدہ نظریات کے جال میں ہیں۔ اور ان نظریات کی ترویج و ترقی کیلئے جان دینے تک راضی ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے ملحدین کی مثال ایسے ہے جیسے لاکھوں سانپوں کے درمیان چند خرگوش یا چوہے پھنسے ہوئے ہوں۔ جن کا اگلا سانس ان سانپوں کی مرضی، رحم و کرم پہ ہو۔ سوشل میڈیا پر موجود زیادہ تر ملحدین ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ اکثر اپنے ہم خیال لوگوں سے اپنے دل کا حال کہہ سکتے ہیں۔ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق یعنی آزادیِ اظہارِ رائے اور آزادی پیس فل اسمبلی سے یکسر محروم ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں قسم قسم کے مبلغین مولوی لوگوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ ممتاز قادری جیسا پولیس کا عام سپاہی صرف اختلافِ رائے پر صوبے کے گورنر کو دن دہاڑے قتل کر کے بھی اس معاشرے میں ارفع مقام پاتا ہے۔ اتنے گھٹن زدہ اور تعفن زدہ معاشرے میں رہنے والے ملحدین کا مذیب اور اس کے پیروکاروں کی زیادتیوں اور اس کے تدارک پر بات کرنا قابلِ فہم ہے۔ مہذب معاشروں میں رائج آزادیِ اظہارِ رائے کو تو چھوڑیں یہاں تو زندہ رہنے کے بنیادی حق سے بھی ملحد حضرات محروم ہیں۔

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر۔
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

ہم جہالت کے خلاف قلمی جنگ کو جہاد سمجھتے ہیں۔ اور یہ جہالت ہی ہے جو ہمارے معاشرے کو چاٹ گئی ہے۔ پانی سے گاڑی چلانے والے، جنوں بھوتوں سے بجلی پیدا کرنے والے لوگ ہمارے ہاں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد دیکھیں، مجھے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہم صدیوں پرانی کہانیوں اور دعووں کو نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ انہیں رد کرتے وقت اس کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ہمیں ان وقتوں کا نبی بھی سمجھ سکتے ہیں جو باطل کے خلاف علم بلند کر رہے ہیں۔ ہم چند لوگ جو اگر کہیں باہر آجائیں تو حوروں کے دیوانے ہمیں ایک دم سے ‘فارغ’ کر دیں۔ جب مذہب ہمارے پیچھے پڑا ہو تو کیا ہمیں حق حاصل نہیں واپس اس کا جواب دیں؟

رسول اللہ سے جو بھی بن پڑا انہوں نے کیا، انہوں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ باطل ایک دن خود بخود ختم ہوجائے گا۔ رسول اللہ نے چن چن کر مخالفوں کو قتل کرایا۔ ہم تو تلوار کے بجائے کی بورڈ استعمال کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم نہ کسی کو ایذا پہنچاتے ہیں نہ قتل کرتے ہیں نہ قتل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔

دکھ ہوتا ہے اپنے ملک و قوم کو اب تک جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے دیکھ کر۔ دنیا کی اقوام کہاں سے کہاں پہنچ گئیں، جنوبی کوریا جیسا ملک جو کبھی ہم سے ترقی کے راستے پر چلنے کیلیے تجاویز لیا کرتا تھا، آج ایشین ٹائیگر ہے۔ اور ہم مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ بس اسی بات کا دکھ ہمیں ہمت اور قوت عطا کرتا ہے کہ ہم بے لوث ہو کر اپنے ہم وطنوں کو سمجھا سکیں کہ مذہب کو ہر انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اپنی معاشرتی و سفارتی پالیسیاں بہتر بنائیں۔ بطور فری تھنکر ہمارا اولین مقصد ایک سیکولر پاکستان ہی ہے۔ اب اس مقصد کیلیے ضروری ہے کہ ہم نے اس ملک کے آئین کو ‘اسلامی جمہوریہ’ کے بجائے ‘عوامی جمہوریہ’ میں تبدیل کرنا ہے۔

شدت پسندوں کی انتہاء پسندی، عدم برداشت یقیناً خوش آئند تو نہیں لیکن ہم یہی سوچ کر خاطر جمع رکھے ہوئے ہیں کہ ابھی ابتداء ہے۔ اور سوشل میڈیا کے توسط سے شروع ہونے والی یہ تحریک، فکر و سوچ کو بدلتی چلی جائے گی۔

اب اور کتنی دیر یہ وحشت یہ ڈر یہ خوف
یہ گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
شام آ گئی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر

3 Comments

  1. بہت اعلی تحریر جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پیا ہمارے بھی اس آرٹیکل کو پڑھ لینے کے بعد کچھ اس قسم کے جذبات ہیں۔
    سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
    دیکھنا ہے زور کتنا بازو قاتل میں ہے!!
    گلا چھل گیا چلا چلا کر ہم۔تو انسان دوست ہیں ہم بولتے ہیں اس مذہبی گندگی کے خلاف جس نے انسانوں کو انسانیت کی معراج سے گرا کر درندگی کی سطح پر لے آئے 1400سال قبل کی شخصیات کے کاموں اور نظریات پر تنقید کرنے سے اس دور کے انسان قابل جرم اور معتوب کیوں ٹھہرا ۓ جا رہے ہیں۔ ہم شریعت محمدی نہیں چاہتے سیکولر پاکستان چاہتے ہیں ۔

جواب دیں

3 Comments
scroll to top