Close

خودکش حملوں کا تاریخی اور نفسیاتی جائزہ

خودکشی! اگر عمومیت میں جا کر بات کی جائے تو خودکشی کے رجحانات کم و بیش ہر فرد میں موجود ہوتے ہیں اور یہ رجحانات بلا تخصیص ہر معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں- لیکن وقت کے ساتھ خودکشی کے رجحان میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودکشی کی بھی اقسام ہیں، انفرادی خودکشی، اجتماعی خودکشی (جس میں افراد کا گروہ باہمی رضامندی سے خودکشی کرتا ہے) تیسری قسم خودکش حملہ ہے جس میں کسی مخصوص مقصد کے پیش نظر مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے، آئیے ایک نظر خودکش حملوں کی تاریخ پر ڈالتے ہیں.

خودکش حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، پہلی صدی عیسوی میں زیلوٹس (Zealots) یہودی فرقہ جو دراصل رومن ایمپائر کے خلاف اٹھا اس فرقہ کے ارکان جو دہشت گردی اور قتل و غارت میں ملوث ہوگئے انہیں سیکاری (Sicarii) کے نام سے جانا جاتا ہے، زیلوٹس کو سکاری خنجر رکھنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، سیکا (sica) سے مراد خنجر ہے جو وہ ہمہ وقت ان کے پاس موجود ہوتا تھا، اکثریت سیکاری عوامی مقامات پر موجود ہوتے تھے خنجروں کو چھپائے ہوئے اور ہر اس شخص پر حملہ کرتے تھے جو روم کی طرف دوستانہ رویہ رکھتا تھا، یہودی سکاری (sicarii) فرقہ ہیلی نائزڈ (hellenized) یہودیوں کو اپنا غیر اخلاقی حلیف سمجھتے تھے کیونکہ وہ روم کی طرف مثبت رویہ رکھتے تھے، روم کے خلاف پہلی بغاوت (66-70) میں زیلوٹس نے نمایاں کردار ادا کیا مسادا (Masada) میں 73 میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے خودکشی کر لی، سول وار کے دوران ان میں سے بہت سے یروشلم میں رومن جرنل ٹائٹس (Titus) کے ہاتھوں مارے گئے جو بعد ازاں شہنشاہ بنا (دور حکومت 79-81) یا لڑائی کے دوران شہر کے گرنے پر مارے گئے.

اساسیون (assassins) کا نام قرون وسطی کے نظاری اسماعیلیوں کیلیے استعمال کیا جاتا ہے، نظاری اسماعیلی اسلام کا ہی اک فرقہ تھا جو گیارہویں صدی میں اسماعلیت سے الگ ہوگیا اور اب خود موجودہ شیعہ اسلام کی شاخ ہے، حشیشین اساسیون جس کی شناخت ایک بزرگ لیڈر تھا جو اچانک سے پہاڑوں کے عقب سے نمودار ہوتا تھا، حشیشین کو لیکر بہت سی کہانیاں مشہور ہیں اور اس لفظ پر بھی خاصے اختلافات ہیں بعض لوگ حشیشن سے مراد حسن کے پیروکار لیتے ہیں جبکہ مارکوپولو نے جب اس علاقے کا سفر کیا تو اس کے علم میں آیا کہ حشیشین انہیں حشیش کے استعمال کی وجہ سے کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اساسیون کو قتل کی تربیت دی جاتی تھی، تاہم اساسیون کا بانی حسن صباء تھا الموت کے قلعے پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے جنت نما ایک باغ تعمیر کیا، کیا کچھ نہ تھا وہاں جس کی کوئی شخص آرزو کرے، حسن صباء اپنے پیروکاروں کو حشیش کھلا کر اسی جنت میں لے جاتا تھا جہاں کمسن خوبصورت لڑکیاں(حوریں) ان کی خدمت پر مامور ہوتی تھیں اور انہیں جام پیش کرتیں، رقص اور سرود کی محفلیں بپا ہوتیں، لیکن ہائے اس ہوش سے آنے میں ہوش گوا دینا زیادہ گھاٹے کا سودا معلوم نہیں ہوتا، ہوش میں آتے ہی پھر سے واپس جانے کی طلب تیزی سے انگڑائیاں لینے لگتی تھی اور یہی تو وہ کمزوری تھی جسے حسن صباء استعمال میں لاتا تھا اور پھر بہت آسان تھے باقی کے مراحل قتل کرنے کیلیے اور پھر ہتھیار ڈالنے کی بجائے خود کو مار ڈالنا بہت ہی آسان لگنے لگتا تھا، جس جنت سے بے دخل کر دیے گئے تھے وہاں واپس جانے کا بس ایک یہی تو راستہ تھا کہ خود کو اس مادی دنیا سے آزاد کر لیا جائے اور پھر نہ ختم ہونے والی عیاشی منتظر تھی، کیا ہی عقلمند دماغ پایا تھا حسن صباء نے، یہ دوسروں کی اور اپنی جان لینے کی نہایت ہی طاقتور تحریک تھی اور آج بھی ہے.

علماء، مولوی منبروں پر چڑھ کر جس طرح جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں اچھوں اچھوں کے پسینے چھوٹ جائیں (خوف سے نہیں، سمجھدار کیلیے اشارہ کافی ہے) طارق جمیل کے حوروں پر بیانات حوروں کے جسم کی ساخت کا علم جتنا مولانا طارق صاحب کو ہے شاید ہی کسی کو ہو، حوروں کی چھاتیوں کے ابھار، ان کی قدو قامت، حور کی اندام نہانی تک کا سفر اور فاصلہ نوجوان سن کر مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں جیکٹ تک کا سفر مزید مشکل نہیں رہا، یہ لفظی حشیش ہی ہے جو یہ مُلا ہماری نسلوں کو دے رہے ہیں، یہ سننے میں تو کانوں کو بہت دلنشین لگتی ہے لیکن جب نشہ اترتا ہے تو پھر اس کی طلب ہوتی ہے اور پھر بالآخر اس نہج تک یہ نشہ لے آتا ہے کہ شراب و شباب تک پہنچنے کیلیے خودکش حملہ آور بننا آسان اور شارٹ کٹ راستہ ہے.

 

کیوں جابجا اسلام میں سیکس پر پابندی ہے اور کیوں اس کے مقابلے میں خیالی حور و شمائل کا ذکر ہے، کیا آپ نے کبھی اس نقطہ پر سوچا؟ سیکس کی طرف شدت پسند رویے جنسی گھٹن کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں انسان کو فرسٹریڈ کرتے ہیں، زندگی میں ہیجانی پژمردگی بڑھتی ہے نتیجے میں جوش و جذبہ میں کمی واقع ہوتی ہے، زندگی کی امنگ ختم ہونے لگتی ہے، بے جا پابندیوں سے پھر اچانک جنت الفردوس کے قصے ان میں حوروں کی خوبصورتی اور پھر ان کے ساتھ فری سیکس دماغ کیلیے تازہ ہوا کے جھونکے ہیں اور پھر تسلسل کے ساتھ ایسے بیانات، اب آپ بالکل تیار ہیں ممکنہ اہداف کو پورا کرنے کیلیے، آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں اپنے ٹارگٹ سمیت خود کو اڑانے کا پہلا سہرا کس شخص نے اپنے سر باندھا، نام نکلتا ہے ایک روسی شخص کا جس کا نام ایگنیٹی گرین وٹسکی (Ignaty Grinevitsky) تھا اس نے زار الیگزینڈر دوئم (Tsar Alexander ii) کو قتل کرنے کیلیے بم پھینکنے والا  یونٹ (جو بطور خاص الیگزینڈر شہنشاہ دوئم کو مارنے کیلیے بنا تھا) جوائن کیا،
قتل سے ایک رات قبل اگنیٹی گرین وٹسکی نے خط لکھا جو ان الفاظ پر مشتمل تھا:

"الیگزینڈر دوئم ضرور مرے گا، اور اس کے ساتھ اس کا دشمن جس نے اسے مارا وہ بھی مرے گا، آزاد ہونے سے پہلے ہمارا ناخوش ملک اپنے بیٹوں سے کتنی قربانیاں مانگے گا، میری عمر مرنے کیلیے ابھی بہت کم ہے, میں ہماری فتح کے روشن موسم میں ایک دن ایک گھنٹہ نہیں جی پاؤں گا، لیکن مجھے یقین ہے موت کے ساتھ ہی میں اپنا فرض ادا کردوں گا، اور اب اس دنیا میں کوئی اس سے زیادہ مجھ سے طلب نہیں کر سکتا”

13 مارچ 1881 کو روس کا شہنشاہ الیگزینڈر دوئم اپنی بگھی پر سفر کر رہا تھا، ہتھیاروں سے لیس کاسک اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ چھ کاسک ہتھیاروں سے لیس اس کی بگھی کے پیچھے چل رہے تھے، جیسے ہی بگھی گلی کے نکڑ پر کیتھرائن نہر کے قریب پہنچی تو پیپلز ول (people,s will) کے بائیں بازو کے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، الیگزینڈر دوئم زخمیوں کو دیکھنے کے لیے باہر نکلا تو ایگنیٹی جو نہر کی باڑ کے ساتھ جھکا ہوا تھا نے الیگزینڈر کے پاؤں میں بمب پھینک دیا یوں ایگنیٹی نے خودکش حملہ کر کے 62 سالہ شہنشاہ الیگزینڈر دوئم کو اڑا دیا اور ساتھ ہی خود بھی ہلاک ہوگیا، یہ پہلا ڈائنا مائٹ سے کیا جانے والا خود کش حملہ تھا، شہنشاہ دوئم نے روس کو ماڈرنائز کرنے میں اور لبرلائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا.

پہلا ملٹری خودکش حملہ جاپان کے کامی کاز (kamikaze) پائلٹس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کیا، یہ قدم ملٹری آرڈرذ کے تحت اٹھایا گیا، حملہ قومیت اور حکم بجا لانے کی تحریک کے تحت تھا، واضح رہے کہ حملے کے وقت دنیا دوسری جنگ عظیم سے گزر رہی تھی، 1980 میں باقاعدہ طور پر خودکش حملے دہشتگردی کی تحریکوں کا حصہ بنے، تامل ٹائیگرز کی مشہور تکنیک خودکش حملے تھے 1980 سے 2000ء تک تامل باغیوں نے 168 خودکش حملے کیے اور عوام کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا، اس تنظیم کے محرکات علیحدگی پسندی، قومیت پرستی اور سوشلزم تھے، ہندوستان کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو 1993 میں اور سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریم داسی (Ranasingha Premadase) کو 1993 میں تامل باغیوں نے خودکش حملے میں مارا، خودکش بیلٹ کے موجد بھی تامل باغی ہیں اور خواتین کی خودکش حملوں میں استعمال کرنے کی داغ بیل بھی انہوں ہی نے ڈالی.

مسلم دہشت گرد تنظیموں نے خودکش حملوں کو نیا عروج بخشا، خودکش حملہ آور کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟ وہ دنیا کو کیسے دیکھتا ہے؟ مختلف وڈیوز اور انٹرویوز سنے جن کا لب لباب یہ تھا کہ یہ دنیا عارضی ہے بے کار ہے، میں خدا سے ملوں گا جنت میں جاؤں گا جہاں حوریں مجھے بطور انعام  ملیں گی، دو ناکام خودکش حملہ آوروں کے انٹرویوز سنے ان میں سے ایک خاتون بھی تھیں دوران انٹرویو اس سے سوال کیا گیا کہ مرد خودکش حملہ اس لیے کرتے ہیں کہ بطور انعام انہیں حوریں ملیں گی لیکن خواتین کا خودکش حملے کا کیا محرک ہے تو اس نے جواب دیا مردوں اور عورتوں کو مساوی انعام ملے گا انہیں بھی برابر تعداد میں مرد ملیں گے، میرے لیے یہ کافی مضحکہ خیز بات تھی، آپ نے بھی شاید پہلی بار ایسا بیان سنا ہو، ایک بات کا اور تذکرہ بھی کروں گی، پاکستان میں طالبان خودکش حملہ آور کی معاشی مدد کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس افغانستان میں بچوں کو زبردستی خودکش حملہ آور بننے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں مختلف عمروں کے بچے بھی شامل ہیں ایک بچہ انٹرویو کے دوران بتا رہا تھا کہ مجھے طالبان نے آفر کی کہ تم خودکش حملہ کرو ہم تمہیں پیسے دیں گے بچے نے جواب دیا کہ جب میں مر جاؤں گا تو قبر میں میں ان پیسوں کا کیا کروں گا بچہ بہت ہی کم عمر تھا بمشکل سات آٹھ سال کا.

خودکش حملوں کا بنیادی محرک قومیت اور علیحدہ ریاست کا قیام ہے، آپ کسی بھی مذہب کو پڑھ لیں، کسی بھی الہامی کتاب کا مطالعہ کرلیں آپ کو یہ رنگ نمایاں نظر آئیں گے، زیادہ دور نہیں جاتے، مذہب اسلام کی ہی بات کرلیتے ہیں، قرآن کی کچھ آیات دیکھ لیں جس میں قومیت پرستی پر جابجا زور دیا گیا ہے اور دوسری قوموں سے نفرت کا درس جا بجا ملتا ہے، قرآن میں ایک جگہ درج ہے:

ترجمہ:  ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بناۓ گا تو ان ہی میں شمار ہو جائے گا-(5:51)

اب ان خودکش حملوں کا ذکر جنہوں نے خودکش حملوں کی تاریخ کو جدت بخشی:

11 مئی 1945 دوسری جنگ عظیم کاماکازی (Kamikaze) مشن ملٹری خودکش حملہ، ایئر کرافٹ کے ذریعے دشمن کے بحری جہاز پر اپنا ایئر کرافٹ تباہ کر دیا.

1971 کی جنگ کے دوران  ایک اور خودکش حملہ جسے ملٹری خودکش  اٹیک کہا جا سکتا ہے جو پاکستان کے انڈر ٹریننگ پائلٹ راشد منہاس نے کیا اس نے اپنے دشمن کو مارنے کے لیے اپنا طیارہ تباہ کر دیا.

11 ستمبر 2011 کو ایک خودکش حملہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوا جس میں جہاز کو بلڈنگ سے ٹکرا کر کریش کیا گیا تاہم یہ دہشت گردی کی کمپین کا حصہ تھا.

ان تینوں حملوں میں ایک کامن بات یہ تھی کہ ان میں جہازوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، تاہم اغراض و مقاصد میں فرق تھا، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہازوں کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ خودکش حملے، خودکش حملوں کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں.

موجودہ دور میں خوکش حملوں کا محرک مخصوص آئیڈیالوجی ہے، خودکش حملہ وارفیئر کا ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے مخصوص آبادی کے لوگوں کے دماغ میں خوف بھرا جاتا ہے اور حکمت عملی کے تحت ان جگہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں عوام خود کو محفوظ سمجھتی ہے بھروسے کی وہ فضا جو معاشروں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے اس اعتماد اور  بھروسے کو توڑنا دھشتگردوں کا ٹارگٹ ہوتا ہے.

انسانی دماغ جہاں ان گنت تخلیقی اور پیدواری کاموں کی آماجگاہ ہے وہاں کچھ لوگوں کے دماغ اس طرح تیار کیے جاتے ہیں کہ وہ روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کیلیے خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار بن جاتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو موت سے ہمکنار کر دیتے ہیں.

انسانی دماغ ماحول کے ساتھ اشتراک، خاندان اور دوستوں کے ساتھ تعلقات اس وسیع دنیا کے ساتھ تعامل ثقافتی اور مذہبی تعلیمات کے زیر اثر مسلسل اپنی تجدید کرتا رہتا ہے مثلاً پاتھ ویز کی ریفائننگ اور فائن ٹیوننگ ایکٹویٹی وغیرہ- یہ تبدیلیاں نئے کرداری ردِ عمل متعارف کراتی رہتی ہیں.

تو کیا تشدد کا رویہ اچانک پنپتا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، تشدد حیرت کی طرف لے جاتا ہے، تاہم نیورل سطح پر اسے بننے کیلیے سالوں درکار ہوتے ہیں، خاص قسم کے لوگوں میں پر تشدد رویہ جات پنپنے کے رحجانات ہوتے ہیں ایک قسم کے افراد وہ ہیں جو مطمئن، سرد اور بے گانے لوگ اور یہ لوگ بے رحم نظریات کیلیے زرخیز زمین ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اینٹی سوشل لوگ ہیں جن کی زندگی جذباتی لحاظ سے مردہ ہوتی ہے، اول الذکر قسم کے لوگ اینٹی سوشل لوگوں میں اپنے ٹارگٹ کے خلاف نفرت اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے کی  وجوہات فراہم کرتے ہیں، تلخ اور زہریلی تنقید ان کے دماغ میں بھرتے ہیں، اینٹی سوشل لوگ ان کیلیے اپنا زہر انڈیلنے کے بہترین سٹور ثابت ہوتے ہیں، اور یوں اینٹی سوشل لوگوں کی زندگی جو پزمردہ ہوتی ہے جذباتی لحاظ سے اس میں جوش بھر جاتا ہے.

اور پھر یوں یہ دونوں فریقین کینہ پرور خدا میں اپنا اتحادی تلاش کر لیتے ہیں جو ان کے دشمنوں کا خاتمہ چاہتا ہے، رسمی تربیت کے دوران ان کی ناراضگی غیض و غضب میں بدل جاتی ہے، ان سے احساس جرم جیسے احساسات چھین لیے جاتے ہیں اور اس نہج پر لے آیا جاتا ہے جہاں یہ قتل سوچے سمجھے بغیر کریں، اور یوں قاتلوں کی ٹیم تیار ہے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top