Close

قرآن میں انسانی تصرف کی نشاندہی

سادہ سا سوال ہے کہ اگر اللہ نے اپنے ماننے والوں کو ایک حکم دے رکھا ہو، پھر اللہ کے ماننے والے ہی اس کی حکم عدولی کرکے ایک ایسے حکم کو پامال کرکے رکھ دیں جس کا تعلق شعائر اللہ سے ہو، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس پر اللہ کا کیا رد عمل ہونا چاہئے؟
اسلام سے قبل مشرکین مکہ کے ہاں حج رائج تھا، جس میں کچھ رسومات میں ترامیم کرکے اسلام نے اسے جوں کا توں برقرار رکھا، حج کے موقع پر حجاج کے قافلوں کی آمد کے دوران امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے اسلام سے قبل ہی چار مہینوں کو ”حرام“ یعنی حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، کیونکہ حج نہ صرف ایک مذہبی رسم تھی بلکہ قریش کی معیشت کا بنیادی ستون بھی تھا، جیسا کہ آج بھی ہے۔ قریش ان چار مہینوں میں جنگ و جدال سے مکمل احتراز برتا کرتے تھے، تاکہ دوران حج ان کی کاروباری سرگرمیاں محفوط طور پر جاری رہ سکیں۔ ان چار مہینوں میں سے تین مہینے تو تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے آتے ہیں یعنی ذو القعدة، ذو الحجة اور محرم الحرام، جو بالترتیب سال کا گیارہواں، بارہواں اور پہلا مہینہ ہیں اور ان تین ماہ کے علاوہ رجب بھی ان حرمت والے مہینوں میں شامل تھا، جو ساتواں مہینہ ہے۔ عربی میں ان چار مہینوں کو ”اشھر حرم“ کہتے ہیں۔ اسلام نے بھی ان مہینوں کی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے ان مہینوں میں جنگ و جدال کو حرام قرار دیا۔
حرمت کے مہینوں میں جنگ و جدال سے ممانعت کا حکم جس آیت میں بیان کیا گیا وہ درج ذیل آیت ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا  وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا  وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا  وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ  وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿ المائدة٢﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت میں ہمارے موضوع کے اعتبار سے دو باتیں بہت اہم ہیں:
1- حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھنے یعنی ان میں جنگ و جدال کرنے کی ممانعت۔
2- قریش کے ساتھ دشمنی کے باعث مسلمانوں کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ تمہاری طرف سے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے، اور ظلم پر ظالم کی مدد نہ کرنا۔
قران میں ”اشہر حرم“ سے متعلق دیئے گئے حکم کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئندہ سطور میں بیان کئے واقعہ کا مطالعہ کیجئے، اور پھر دماغ کی بتی جلا کر اس بات کا جائزہ لیجئے کیا خدا اپنے متبعین کو کسی ایسی بات کا حکم دے گا کہ بعد میں خود خدا کو اپنی حکم عدولی پر بجائے ان متبعین کو متنبہ اور سرزنش کرنے کے شاباشی دینی پڑے، کیا خدا واقعی عالم الغیب ہے اور اسے مستقبل میں آنے والے واقعات کا پہلے سے علم ہے؟ اس جائزے میں صرف عقل والوں کیلئے سوچ کے نئے راستے ہیں، جو لوگ عقیدت کا حصار توڑنے کی جرأت نہیں رکھتے، مقدس بتائی گئی باتوں پر شک کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، ان پر سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے وہ صرف اندھی اطاعت ہی کر سکتے ہیں، ذہنی غلامی پر صابر و شاکر رہ کر فریب زدگی کو عبادت اور اطاعت سمجھتے ہیں۔
نیچے سیرت ابن ہشام سے ایک واقعہ ذکر کر رہا ہوں جو مسلمانوں کے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کے 16 ماہ بعد، اور غزوہ بدر سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے، یہ واقعہ قرآن کی ایک اہم ترین آیت کا شان نزول بنا، اور اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے:
سریہ عبد اللّٰه بن جحش:رسول اللہ نے رجب (۲ ہجری) کے مہینے میں عبد اللہ بن جحش بن رماب اسدی کو مع آٹھ مہاجرین کے روانہ فرمایا اور ایک کاغذ لکھ کر ان کو عنایت کیا اور فرمایا دو منزل راہ طے کرکے اس کاغذ کو دیکھنا، چانچہ عبد اللہ بن جحش نے ایسا ہی کیا اور عبد اللہ بن جحش کے ساتھی یہ لوگ تھے:
بنی عبد شمس بن عبد مناف میں سے ابو حذیفہ بن عقبہ بن ربیعہ بن عبد شمس اور ان کے حلفاء میں سے عبد اللہ بن جحش جو سردار تھے، اور عکاشہ بن محصن بن حرثان اسدی، اور بنی نوفل بن عبد مناف میں سے عتبہ بن غزوان ابن جابر ان کے حلیف اور بنی زہرہ بن کلاب میں سے سعد بن وقاص، اور بنی عدی بن کعب میں سے عامر بن ربیعہ ان کے حلیف جو عشر بن وائل کے قبیلہ سے تھے اور واقد بن عبد اللہ بن عبد مناف بن عربد بن ثعلبہ بن یربوع بنی تمیم میں سے ان کے حلیف اور خالد بن بکیر بنی سعد بن لیث میں سے ان کے حلیف، اور بنی حرث بن فہر میں سہیل بن بیضاء۔
نخلہ جانے کا حکم: راوی کہتا ہے کہ جب عبداللہ دو دن راہ طے کرچکے تب انہوں نے نبی کریم کے کاغذ کو کھول کر دیکھا اس میں لکھا تھا کہ جب تم میرا یہ کاغذ دیکھو تو سیدھے مقام نخلہ میں جو طائف اور مکہ کے درمیان ہے جا پہنچنا اور وہاں قریش کے قافلہ کا انتظار کرنا اور ہم کو اس کی خبر دینا۔ جب عبد اللہ بن جحش نے یہ حکم دیکھا، کہا میں ہر طرح حکم کا مطیع ہوں، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اس کو بیان کیا اور کہا رسول اللہ نے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ تم اپنے ساتھیوں پر زبردستی نہ کرنا۔ لہذا جو تم میں سے شہادت کی آرزو رکھتا ہو وہ میرے ساتھ چلے اور جو واپس جانا پسند کرے وہ چلا جائے۔ مگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی واپس نہ پھرا اور سب حجاز کی طرف روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب یہ مقام بحران میں پہنچے سعد ابن وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ گم ہوگیا، یہ دونوں ایک ہی اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ اس کی تلاش میں یہ پیچھے رہ گئے اور عبد اللہ بن جحش باقی ساتھیوں کے ساتھ مقام نخلہ میں پہنچ گئے، وہاں قریش کے سوداگروں کا قافلہ ان کے پاس سے گذرا جس میں کشمش اور چمڑا وغیرہ مال تجارت کثرت کے ساتھ تھا اور عمرو بن حضرمی بھی قافلہ میں تھا۔
ابن ہشام کہتے ہیں کہ حضرمی کا نام عبد اللہ بن عباد تھا اور یہ صدف کی اولاد میں سے تھا اور صدف کا نام عمرو بن مالک ہے اور یہ سکون بن مغیرہ بن اشرس بن کندہ کی اولاد سے تھا اس واسطے اس کو کندی بھی کہتے ہیں۔
قافلہ قریش سے جھڑپ:ابن اسحاق کہتے ہیں: عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اور اس کا بھائی نوفل بن عبداللہ مخزومی اور حکم بن کیسان، ہشام بن مغیرہ کا غلام، یہ سب لوگ اس قافلہ میں تھے۔ جب ان کفار نے مسلمانوں کو دیکھا تو خوف زدہ ہوئے، عکاشہ بن محصن نے سر منڈا رکھا تھا، یہ کفار کے سامنے ایک ٹیلے پر چڑھے۔ کفار ان کو دیکھ کر مطمئن ہوئے اور کہنے لگے کچھ ڈرنے کی بات نہیں ہے۔۔ پھر مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آج رجب کا آخری دن ہے اگر تم ان سے لڑتے ہو اور ان کو قتل کرتے ہو تو یہ مہینہ حرام ہے اور اگر آج انتطار کرتے ہو تو راتوں رات یہ حرم میں داخل ہو کر پھر تمہارے ہاتھ نہ آئیں گے۔
آخر انہوں نے اپنے دل قوی کئے اور جنگ ہی پر سب کا اتفاق ہوا اور واقد بن عبداللہ تمیمی نے ایک تیر ابن حضرمی کے ایسا مارا جس سے وہ جہنم رسید ہوگیا۔ اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو مسلمانوں نے قید کر لیا اور نوفل بن عبداللہ بھاگ گیا۔ ہر چند اس کو تلاش کیا، مگر کہیں نہ ملا۔ پھر عبد اللہ بن جحش ان دونوں قیدیوں اور مال غنیمت کو لے کر مدینہ میں رسول اللہ کے پاس حاضر ہوئے۔
مدینہ منورہ واپسی:روایت ہے کہ عبداللہ بن جحش نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ یہ جس قدر مال غنیمت ہمارے ہاتھ لگا ہے اس میں سے پانچواں حصہ ہم رسول اکرم کی نذر کریں گے۔ اور یہ واقعہ خمس کے فرض ہونے سے پہلے کا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن جحش نے آنحضرت کے واسطے خمس نکالا۔
ابن ہشام کہتے ہیں جب عبد اللہ بن جحش مدینہ میں آئے تو رسول پاک نے ان سے فرمایا کہ: ”میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ تم حرام مہینہ میں جنگ کرو“ اور آنحضرت نے اس خمس کو بھی نہں لیا۔ اور سب مال اور دونوں قیدیوں کو رہنے دیا۔ عبد اللہ اور ان کے ساتھی بہت رنجیدہ تھے اور خیال کرتے تھی کہ ہم ہلاک ہوگئے اور مسلمان بھی ان کی اس حرکت کو برا کہتے تھے اور قریش یہ کہتے تھے کہ محمد نے حرام مہینہ کو بھی حلال کرلیا اور اس میں خون بہایا اور مال لوٹا اور لوگوں کو قید کیا۔ مکہ کے مسلمان ان کو یہ جواب دیتے تھے کہ وہ دن شعبان کا تھا رجب کا نہیں۔
ارشاد قرآن مجید: جب لوگوں نے اس واقعہ میں بہت قیل و قال کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ  قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ  وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ  وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ  وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا
ترجمہ:آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تب مسلمانوں کی بے چینی اور تردد رفع ہوا اور رسول اللہ نے خمس بھی قبول فرمایا اور قیدیوں کو اپنے قبضے میں کیا۔ قریش نے عثمان بن عبد اللہ اور حکم کیسان کو چھڑانے کیلئے آنحضرت کے پاس فدیہ بھیجا۔ رسول پاک نے فرمایا ابھی میں ان کو نہیں چھوڑتا جب تک کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان واپس نہ آ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے ہاتھ آ جائیں اور تم ان کو قتل کر دو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں ان دونوں کو قتل کر دوں گا۔ چنانچہ جب سعد اور عتبہ اپنا اونٹ لے کر آگئے تو رسول اللہ نے عثمان اور حکم کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان تو مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام بہت اچھا ہوا اور رسول اللہ ہی کے پاس مدینہ میں رہے یہاں تک کہ بیر معونہ کی جنگ میں شہید ہوئے، اور عثمان بن عبد اللہ مکہ چلا آیا۔ اور کفر ہی کی حالت میں مر گیا۔
الله کی رحمت:جب عبد اللہ بن جحش اور ان کے ساتھیوں کو آیت يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ کے نازل ہونے سے اطمینان ہوا، تب انہوں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس ہمارے غزوے کا ہم کو ثواب بھی ملے گا یا نہیں جو مجاہدین کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّـهِ  وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿ سورة البقرة٢١٨﴾
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور الله کی راہ میں جہاد کیا وہی الله کی رحمت کے امیدوار ہیں اور الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
مال غنیمت:ابن اسحاق کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عبد اللہ بن جحش کی رائے کے موافق مال غنیمت کا فیصلہ فرمایا۔ یعنی تمام مال کے پانچ حصے کرکے چار حصے ان مجاہدین کے مقرر کئے جنہوں نے وہ مال حاصل کیا ہے اور پانچوں حصہ خدا اور رسول کا مقرر کیا۔
ابن ہشام کہتے ہیں یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور عمرو بن حضرمی پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان پہلے قیدی تھے جو مسلمانوں نے گرفتار کئے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں بعض لوگوں کا قول ہے بیت المقدس کی طرف قبلہ ماہ شعبان میں رسول مقبول کے مدینہ تشریف لانے کے اٹھارہ مہینے بعد مقرر ہوا۔
(سیرت ابن ہشام، اردو مترجم جلد اول، نسخہ ادارہ اسلامیات لاہور)
تنقیدی جائزہ:
اب اس ساری صورت حال کا تنقیدی جائزہ لیجئے، عقیدت کے خول سے تھوڑی دیر کیلئے باہر نکل آیئے، کیا ایسا ممکن ہے کہ اللہ نے ایک حکم جاری کیا ہو، مسلمانوں کو کسی کام سے سختی سے منع کیا ہو، پھر مسلمان ہی اس حکم خداوندی کو پامال کریں، اس کی خلاف ورزی کریں، اور اللہ تعالیٰ بجائے ان مسلمانوں کی سرزنش کرنے کے اپنی اس حکم عدولی کو وحی کے ذریعے ”سند جواز“ جاری فرمائے؟ اور نہ صرف سند جواز عطا کرے بلکہ انعام کے طور پر لوٹ مار اور رہزنی کے مال کو مسلمانوں کو حلال قرار دے، اور رسول اللہ کیلئے بھی اس میں سے تاحیات ایک حصہ مقرر کرے؟ ایک ایسا زود رنج خدا جو معمولی باتوں پر ناراض ہو کر ہمیشہ کے عذاب سے ڈراتا ہو، اتنی بڑی حکم عدولی سے چشم پوشی کرے گا؟
یہ ساری صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ نہ تو ”اشہر حرم“ میں جنگ کی پابندی والا حکم، حکم الہی تھا، اور نہ ہی بعد میں اسے سند جواز عطا کرنے والی وحی، وحی الہی تھی، بلکہ یہ سارا معاملہ انسانی فیصلوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی کا آئینہ دار ہے۔
”اشہر حرم“ میں جنگ کی ممانعت کے متعلق آیت اور درج بالا واقعہ کو ملاحظہ کرنے کے بعد بہت سے شکوک و شبہات انسان کے ذہن میں سر اٹھاتے ہیں کہ:
حرمت کے مہینوں میں جنگ کی واضح ممانعت کے باوجود رسول اللہ نے رجب کے مہینے میں ہی ایک مسلح دستے کو قریش کے تجارتی قافلے کی جاسوسی کیلئے کیوں روانہ فرمایا؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی خبر رسول اللہ کو جبرائیل امین عالم بالا سے تشریف لا کر دیا کرتے تھے، یہاں بھی یہی فرض کر لیتے ہیں کہ اس قافلے کی خبر بھی رسول اللہ کو جبرائیل امین نے ہی عالم بالا سے تشریف لا کر دی، تو کیا اس ساری صورت حال سے اللہ تعالیٰ بے خبر تھا؟ کیا اللہ کو پہلے سے ہی معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلح دستہ رجب کے حرمت والے مہینے میں ہی قریش کے تجارتی قافلے کا سامنا کرے گا اور یہ مسلمان حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ممانعت کے واضح حکم خداوندی کے باوجود حکم الہی پر مال غنیمت کی چاہت کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر حملہ کر بیٹھیں گے، جو مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سبب بنے گا؟
واقعہ میں مذکور ہے کہ جب عبد اللہ بن جحش نے واپس آ کر اپنی کارگزاری کی رسول اللہ کو اطلاع دی تو رسول اللہ نے ناگواری کا اظہار فرمایا اور مالِ غنیمت تک لینے سے انکار کر دیا، رسول اللہ، اللہ کی محبوب ترین ہستی، جن کیلئے اس ساری کائنات کو اللہ نے تخلیق کیا، ان کی ناگواری کا تقاضا تو یہ تھا کہ اللہ تعالی خود اپنی حکم عدولی اور رسول اللہ کی ناگواری کا سبب بننے والے ان صحابہ کو تا قیامت نشانہ عبرت بنا دیتا، اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دیتا جو رسول اللہ کو ایذاء پہنچانے کا باعث بنے (قرآن کی آیت الذين يؤذون اللّٰه و رسوله کو ذہن میں رکھئے ، جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، اورجس سے بہت سے علماء کرام نے مرتد کی سزا قتل کا استدلال بھی کیا ہے) لیکن یہاں اللہ تعالیٰ اپنی محبوب ترین ہستی کے بجائے ان نافرمان اور رسول اللہ کی ناراضگی کا سبب بننے والے صحابہ کی طرف داری کرتے ہوئے ان کے اس فعل کو سند جواز بذریعہ وحی الہی عطا فرمائی۔
ان صحابہ کے اس فعل کو اللہ نے بذریعہ وحی الہی سند جواز عطا کرتے ہوئے یہ توجیہ بیان کی کہ الفتنة اشدّ من القتل، یعنی فتنہ کسی کو قتل کر دینے کی نسبت زیادہ بڑی برائی ہے۔ فتنہ سے مراد مسلمان مفسرین کے نزدیک قریش مکہ کی سازشیں ہیں جو وہ مسلمانوں کے خلاف گھڑا کرتے تھے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ محض کسی پر سازش کا الزام لگا کر کیسے اس کے خلاف عسکری کارروائی کی جا سکتی ہے؟ اور وہ بھی براہ راست سازش کے مرکز پر نہیں بلکہ ایک تجارتی قافلے پر حملہ کرکے تجارتی شاہراہ کا امن و امان پامال کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے یہ وہی تجارتی شاہراہ ہے جس کا قرآن سورۂ قریش میں ذکر کرتے ہوئے اس تجارتی شاہراہ کا پر امن اور بے خطر ہونا قریش پر بطور نعمت خداوندی ذکر کرتا ہے اور پھر اللہ اپنے ہی بندوں کے ہاتھوں اس شاہراہ کو پر خطر بھی بنا ڈالتا ہے۔
قرآن کی جس آیت میں مسلمانوں کو حرمت کے مہینوں میں جنگ سے منع کیا گیا تھا اسی آیت میں مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کی گئی تھی کہ قریش کی ساتھ تمہاری دشمنی تمہاری جانب سے ان پر زیادتی کا باعث نہ بن جائے، یہاں بھی مسلمانوں نے حکم خداوندی کی لاج نہ رکھتے ہوئے نہ صرف زیادتی کی بلکہ اس زیادتی میں قریش پر سبقت بھی لے گئے۔ اگر اس واقعہ سے قبل قریش کی جانب سے کوئی زیادتی اہل مدینہ پر ہوئی ہوتی تو مسلمان یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ چونکہ ابتداء قریش کی جانب سے ہوئی تھی اس لئے ہماری طرف اسے جوابی کارروائی سمجھ لیا جائے، لیکن مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد مسلح کارروائیوں کے ذریعے تجارتی شاہراہ پر قریش کے تجارتی قافلوں کو نشانہ بنانے کا اعزاز بھی قرآن کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرنے کی صورت میں مسلمانوں کو ہی حاصل ہوا، اسی لئے ابن ہشام گواہی دے رہے ہیں کہ:
”یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور عمرو بن حضرمی پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان پہلے قیدی تھے جو مسلمانوں نے گرفتار کئے“

جواب دیں

0 Comments
scroll to top