Close

اسلام کیسے پھیلا؟

عام طور پر مسلمانوں میں یہی مشہور ہے کہ اسلام کی دعوت کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب خود محمد صلعم اور ان کے ساتھیوں کا کردار تھا یا اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا معجزہ تھا کہ جو بھی سنتا ایمان لے آتا اور اس پر مسلمانوں کی کتب میں کئی ایک واقعات بیان ہوئے ہیں جبکہ جو شخص تھوڑا بہت بھی اسلامی تاریخ سے شغف رکھتا ہے، اس پر اس بات کا کھوکھلا پن بہت جلد واضح ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دعوت اسلام کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک مکی دور اور دوسرا مدنی دور۔ مکہ کی13سالہ دعوت کے دوران بہت تھوڑی تعداد مسلمان ہونے والوں کی تھی اور ان میں سے بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو اس عرب معاشرے میں پس رہے تھے۔ اس دور میں قرآن کوئی خاص اثر دکھا سکا اور نہ محمد صلعم اور ان کے ساتھیوں کے اسوہ و کردار کی کہانیاں۔
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد جب رفتہ رفتہ مسلمانوں کو قوت حاصل ہونا شروع ہوئی تو اس کے ساتھ ہی اسلام کا پھیلاؤ بھی تیز ہوا اور فتح مکہ کے بعد وہی تمام لوگ جن کو قرآن اسلام کی طرف لا سکا اور نہ محمد صلعم کا کردار، وہ سب اپنے ذاتی مفادات اور جانوں کے تحفظ کی خاطر مسلمان ہو گئے۔ اس ضمن میں تین بڑے عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں، جن کی بادلیل تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔
زور زبردستی کا اسلام
صحابی رسول صلعم ابو ہریرۃ نے ایک آیت کی تفسیر میں فرمایا: “تم سب لوگوں میں تمام لوگوں کے لئے بہترین ہو کیونکہ تم انہیں، ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لے آتے ہو حتیٰ کہ وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔“
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، حدیث:4557)
مدینہ منورہ میں قوت حاصل کر لینے کے بعد اس زور زبردستی کے ساتھ لوگوں کی گردنوں میں زنجیریں ڈال ڈال کر اسلام قبول کروانے والی پالیسی کو دن بدن مقدم کیا گیا۔ جتنی مسلمانوں کو قوت حاصل ہوتی رہی اتنی ہی زور زبردستی کی اس پالیسی پر اسلام کا پھیلاؤ ہوتا رہا۔
محمد صلعم کے بھیجے ہوئے سپاہی تلوار لئے لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوتے اور ان سے صاف کہتے،“کلمہ شہادت پڑھ لے بصورت دیگر میں تیری گردن اڑا دوں گا“۔ اس احسن دعوت کے نتیجے میں کلمہ شہادت پڑھ لیا جاتا۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ ذی الخلصۃ، حدیث:4357)
مدینہ اور اس کے آس پاس مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے حالات اس قدر ابتر ہو چکے تھے کہ مسلمانوں سےکسی کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی امید نظر نہ آتی تھی ۔ مسلمانوں کے نبوی مجاہد نکلتے، عام بکریاں چراتے چرواہے تک کو مسلمان نہ سمجھتے تو قتل کر دیتے اور اس کی ساری بکریوں پر قبضہ کر لیتے۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب ولا تقولوا لمن حدیث:4591)
محمدصلعم کی جانب سے دوسرے قبائل کو اپنی نبوت کے قبول کرنے کی جو دعوت دی جاتی تھی اس میں باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی تھیں کہ اگر تم لوگوں نے دین اسلام کو قبول نہ کیا تو ہم تم لوگوں پر حملہ آور ہوں گے۔
یمامہ کے رہنے والے ایک شخص کو جب محمد صلعم کی طرف سے نبوت کا ایسا ہی دعوتی خط ملا تو اس نے اس خط کی جب کوئی پرواہ نہ کی تو محمد صلعم نے اپنے فوجیوں کا دستہ اس کی طرف بھیجا، انہوں نے اس شخص کا مال و اسباب اور تمام اہل و عیال کو قابو کر لیا۔ جس کے بعد یہ شخص مدینہ پہنچا، اسلام قبول کیا اور یوں اپنے مال و اسباب اور اہل و عیال کا تحفظ کر لیا۔
اس ساری تفصیل کے لئے دیکھئے مشہور عربی سیرت نگار دکتور مہدی رزق اللہ احمد کی کتاب سیرت نبوی (جلد دوم، ص123، مطبوعہ دارالسلام پبلشرز لاہور)
ان حالات میں مدینہ اور اس کے گردو پیش کے لوگوں کے پاس اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ کا ایک ہی مستقل حل تھا اور وہ تھا اسلام کو قبول کر لینا۔ مدینہ میں منافقین کی ایک بڑی جماعت کے جس وجود کا رونا مسلمان ہمیشہ سے روتے آئے ہیں، وہ اسی زور زبردستی اور جبر کے ماحول کا نتیجہ تھی۔ منافقین کا یہ گروہ محض اپنی جان و مال اور عزت کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے مستقل طور پر محفوظ رکھنے کے لئے اسلام قبول کئے بیٹھا تھا اور اس کے بعد حالات یہ تھے کہ کسی بھی صورت یہ لوگ اسلام کو چھوڑ نہ سکتے تھے کیونکہ تب بھی ارتداد کی صورت میں قتل کر دیے جانے کا مستقل حل اسلام ان کے لئے پیش کر چکا تھا۔
منافقین کی یہ جماعت اپنے جان و مال کی خاطر جبر کے جن حالات کا شکار تھی ، ان کی آنے والی نسلوں پر ان کے حوالے سے، اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے۔ یہاں تک یہ تفصیل اس لئے ضروری تھی کہ دلائل کے ساتھ یہ بات پیش کر دی جائے کہ اسلام کے پھیلنے بلکہ پھیلانےمیں زور زبردستی اور جبر کا بہت بڑا عنصر شامل تھا۔
عربوں کی پسماندہ ذہنیت
عربوں کی اکثریت اس دور میں ایک انتہائی جاہل اور پسماندہ ذہنیت رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ ان لوگوں کے لئے اپنے دین کی حقانیت اور دوسرے کے دین کے بطلان کی کوئی علمی و ٹھوس وجوہات موجود نہیں تھیں۔ سرداروں پر مشتمل قبائلی نظام تھا اور اکثر ایسا ہوتا کہ قبیلے کا سردار جو دین قبول کر لیتا، وہی اس قبیلے کے باقی لوگ بھی قبول کر لیتے۔ ذہنی پسماندگی اس حد تک تھی کہ حق اور باطل کا فیصلہ جنگوں اور لڑائیوں کی ہار جیت سے کیا جاتا۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے، اس کی وجہ قرآن یا نبوی تعلیمات کا کوئی مثبت پہلو نہ تھا بلکہ اسلام میں ان لوگوں کے دخول کا سبب یہی ذہنی پسماندگی تھی۔
چنانچہ ایک صحابی رسول عمرو بن سلمہ نے خود بیان کرتے ہوئے کہا: “اور اہل عرب مسلمان ہونے کے لئے فتح مکہ کے منتظر تھےاور کہتے تھے کہ حضرت محمد صلعم کو اور اس کی قوم کو چھوڑ دو۔ اگر حضرت محمد صلعم ان پر غالب آ گئے تو وہ نبی برحق ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے چاہا کہ وہ پہلے مسلمان ہو جائے۔”
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4302)
اس سے خود اندازہ لگائیے عرب کس قدر ذہنی طور پر مفلوک الحالی کا شکار تھے۔ ان لوگوں نے محض اس لئے اپنے دین کو چھوڑ کر اسلام کو قبول کر لیا کہ ان کے خیال میں جو غلبہ پا جائے وہ حق پر ہوتا ہے۔ قرآن یا محمد صلعم کی تعلیمات یا ان کے کسی معجزے سے ان کا نبی ہونا، ان کو قبول نہ ہوا تھا بلکہ محض اس لئے کہ محمد صلعم مکہ والوں پر غلبہ پا گئے تھے۔ گویا خود اسلام کے دعوے کے مطابق اتنے بے شمار نبی جو غلبہ نہ پا سکے اپنی قوموں پر، وہ جھوٹے ہو گئے اور محمدصلعم اس لئے نبی برحق ہوئے کہ اپنی قوم پر غلبہ حاصل کر گئے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی مفلوک الحال اور پسمانہ ذہنیت کے لوگوں کا اسلام قبول کرنا ، قرآن بطور فخر بیان کرتا ہے کہ لوگ گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ (سورۃ النصر:2)
کوئی بھی فہم و فراست والا انسان کبھی بھی ہار جیت یا غلبہ و مغلوبیت کوحق و باطل کا معیار نہیں بنا سکتا۔ دین، عقائد و نظریات کے بدلاؤ میں جنگ یا لڑائی کا نتیجہ کیسے کوئی فیصلہ کن بنیاد بن سکتا ہے؟ آج اگر مسلمانوں کو ہر طرف سے کفر کے مقابلے میں ذلت آمیز رسوائیوں کا سامنا ہے تو کیا یہ کفر کے حق اور اسلام کے باطل پر ہونے کی دلیل ہو گی؟ مگر افسوس کے اس وقت کے عرب ایسی ہی ذہنیت کے حامل تھے اور یہی پسماندہ ذہنیت کے لوگ اسلام کے پھیلاؤ کا دوسرا بڑا سبب تھے۔

islam-battles-660x330مال و اسباب کا لالچ
دور نبوی میں ہی مدینہ کے گرد و پیش ، پھرفتح مکہ اور اس کے بعد جو فتوحات ہوئیں، ان میں مسلمانوں نے بے شمار مال و اسباب شکست کھانے والوں سے لوٹا۔ اس مال و اسباب کو اسلام قبول کروانے کے لئے لوگوں کے سامنے بطور رشوت پیش کیا گیا۔
انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی قوم کو جا کر کہا:
“اے لوگو! مسلمان ہو جاؤ، اللہ کی قسم! محمد صلعم اتنا کچھ دیتے ہیں کہ محتاجی کا ڈر نہیں رہتا۔“
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی سخائہ، حدیث 2311)
فتح مکہ کے بعد صرف غزوہ حنین میں مسلمانوں کی لوٹ مار کے حاصل کو بیان کرتے ہوئے عربی سیرت نگار دکتور مہدی رزق اللہ نے مختلف حوالہ جات کو پیش کرتے ہوئے لکھا:
“قیدی اور مال غنیمت کا کوئی شمار نہ تھا۔ روایت ہے کہ حنین کی جنگ کی قیدی عورتیں اور بچے چھ ہزار تھے۔ چاندی چار ہزار اوقیہ یعنی 1،60،000 درہم تھی۔ اونٹ چوبیس ہزار تھے۔ بھیڑ بکریاں چالیس ہزار سے زیادہ تھیں۔
(سیرت النبی، جلد دوم، ص235، مطبوعہ دارالسلام پبلشرز لاہور)
محمد صلعم نے فتح مکہ کی فتوحات کے بعد مال غنیمت کی عام اسلامی تقسیم کا کوئی لحاظ نہ رکھا اور من مرضی سے لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کے لئے بے دریغ مال خرچ کیا ، حتیٰ کے اس کی خاطر اپنے ساتھیوں کی سخت کڑوی کسیلی بھی سننا پڑیں۔
صحابی رسول انس کی مختلف روایات میں ہے کہ :
“جس روز مکہ فتح ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں اموال غنیمت تقسیم کئے تو انصار غضبناک ہو گئے۔“
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث:4332)
“جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے رو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی صلعم نے لوگوں کو سو سو اونٹ دینا شروع کر دیے تھے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول صلعم کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں۔“
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث:4331)
من پسند اشخاص کو سو سو اونٹوں کے عطیات دینے پر ایک شخص نے صاف کہا: “اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔“
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث:4336)
سونے کی ایسی ہی من پسند تقسیم پر ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ “آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: ہم ان لوگوں سے زیادہ اس سونے کے حقدار تھے۔” جب محمد صلعم کو یہ خبر پہنچی تو شکوہ کرتے ہوئے کہا: “تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے۔“
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث:4351)
ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ مال غنیمت کی کیسی اندھی و غیر منصفانہ تقسیم صرف اس لئے شروع کر دی گئی تھی کہ لوگ اسلام میں داخل ہوں اور اس کی خاطر اپنے پرانے ساتھیوں کی انتہائی سخت و تند باتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان باتوں پر زرا غور فرمائیں، یہ ایسی سنگین ہیں کہ اگر آج کوئی محمد صلعم کے بارے میں کہے تو فوری طور پر اس کی گردن اتار دی جائے، لیکن یہ سب ایک بڑے مقصد کی خاطر برداشت کیا جا رہا تھا۔
مختلف جنگوں میں لوٹ مار کے بعد حاصل ہونے والے اس کثیر مال و دولت کو لوگوں کے اسلام کی رشوت بنا دیا گیا تھا۔ مال و دولت کے لالچ میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے تھے اور اس مال کی خاطر ان کے دل کی دنیا بدل رہی تھی ۔ محمدصلعم جو اتنا کثیر مال ان پر خرچ کر رہے تھے، ان کے لئے سب سے محبوب ذات بن رہے تھے۔
صحابی رسول صلعم صفوان بن امیہ اپنی دل کی تبدیلی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “اللہ کی قسم! جس وقت رسول اللہ صلعم نے مجھے مال دینا شروع کیا تو میرے دل کی حالت یہ تھی کہ آپ صلعم مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر ناپسند تھے۔ آپ صلعم مجھے مال دیتے رہے، دیتے رہے، حتیٰ کہ آپ مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہو گئے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی سخائہ، حدیث 2313)
صحابی رسول صلعم انس اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ بہت سے لوگوں نے صرف دنیا کی خاطر اسلام کو قبول کیا۔ چنانچہ فرمایا: “آدمی اسلام قبول کرنے لگتا ہے تو وہ محض دنیا کا خواہشمند ہوتا ہے اور پھر جیسے ہی اسلام قبول کر لیتا ہے، اسلام اسے دنیا اور اس کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے۔“
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی سخائہ، حدیث 2312)
گویا کہ لوگ اسلام کو قبول دنیا کی خاطر ہی کر رہے تھے کہ زیادہ سے زیادہ مال انہیں محمد صلعم سے حاصل ہو سکے اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اس کے محبوب ہونے کی بات اسی لئے تھی کہ مال پر مال مل رہا تھا جیسا کہ صفوان بن امیہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دفعہ دنیا کی خاطر اسلام قبول کر لینا ان کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ واپسی کا نہ چھوڑتا تھا کیونکہ اسلام چھوڑنے کی صورت میں ارتداد کی سزا قتل ان کا مقدر تھی تو بہتری اسی میں تھی کہ یہ مال و اسباب والے دین کو دل و جان سے تسلیم کر لیا جائے۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہے کہ مال و اسباب کی بے پناہ من چاہی تقسیم بھی ایک بڑا سبب اسلام کے فروغ کا بنی۔ کچھ پرانے ساتھیوں کی ناراضگیاں، من چاہی ، غیر منصفانہ تقسیم کے الزامات سب اسی لئے برداشت کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ نئے لوگوں کو ایک دفعہ مال کی خاطر اسلام میں داخل کر لیا جائے کیونکہ پھر ان کی باسلامت واپسی ناممکن ہی تھی۔

 

6 Comments

  1. جناب کی تحریر آنکھوں سے گزری ۔ ماشاٰ اللہ اگر کسی پرجھوٹی تنقید کرنی ہو تو جناب وہ آپ کا شاگرد بن جائے۔حضرت کی دی ہوئی احادیث دیکھیں اور آپ کا ان احادیث سے اپنا مطلب اخذکرنے کا انداز بھی دیکھا ماشاٗ اللہ کیا خوب کھل کھلا کر جھوٹ بولتے ہیں صاحب کہ کوئی پہچان بھی نہیں سکتا۔
    جنا ب اس تحریر کا جواب دینے کا سوچا۔ لیکن دیکھا اگر جناب چاند پر تھوک رہے ہیں اور تھوک خود ان پر ہی گر رہا ہے تو جواب دینے کا فائدہ۔
    جہاں جہاں سے بھی حدیث کے ریفرنس دئے ان تمام مقامات سے یا تو اصل حدیث ہی توڑ مروڑ کر پیش کی یا پھر اپنا مطلب اخذ کیا۔
    حضرت ایک انصاف پسند اور حقیقت پسند بندہ کبھی یہ حرکت نہیں کرتا جو آپ نے کی۔ اگر ہمت ہے تو پہل پوری حدیث لکھو اور پھر لکھوکہ یہ کس واقعہ کے متعلق ہے پھر اپنے اس غلامانہ ذہن کی تشریح بھی لکھنا تو پتہ چلے تم کتنا حق لکھتے ہو اور کتنا جھوٹ
    اللہ تمھیں ہدایت اور حق پہچاننے کی توفیق دے

    1. اگر بغیر سوچے سمجھے کوئی دعویٰ داغنا ہو تو پھر آپ کا شاگرد ہونا پڑے گا، آپ کے تبصرے میں صرف دعوے ہی دعوے ہیں، کوئی ثبوت دینے کی آپ کو ہمت نہیں ہوئی، یا اہلیت نہیں ہے۔ محترم اگر آپ نے جواب تحریر نہ کیا تو قیامت کے دن آپ سے باز پرس ہوگی، اس لئے ہمت کیجئے اور تحقیقی جواب دیجئے، ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ آپ کس قدر پانی میں ہیں۔

  2. Shehad ki Makhi 2 qism ki hoti hain, aik wo jo pholoon sey rass nikal kar insan kay liye shehed banati jo shifa ka bais banti hai, aik wo makhi bhi hoti hai jo sirf gund per bhaiti hai…..
    ——————————————————-
    Isi tarah Rasullah ko badnaam kia jata ghalat Ahadees quote karkay….. Aisi negative ahadees Bukhari, muslim aur dosri ahadees ki kitaboon maim dali gayeen aur aaj ka
    mullah bhi yahi kam kar raha hai aur logon ko marwa raha hai, islam ko badnam kar raha hai,
    Insan acha ho toe achi batain sochta hai….

جواب دیں

6 Comments
scroll to top