Close

الوہی مداخلت

خدا ایک ذہنی مفروضہ ہے یا پھر یوں سمجھ لیں کہ جہاں انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں وہ کسی ایسی طاقت کا تصور کر لیتا ہے جو سب کام انجام دیتی ہے، انسان کا محدود شعور اسے تمام طاقتوں کا منبع و سرچشمہ قرار دے کر ہتھیار ڈال دیتا ہے، یعنی جہاں وہ کسی بات یا کام کی کوئی عقلی توجیہ یا منطق نہیں سمجھ سکتا وہاں وہ کسی خدا پہ اس کی ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہو جاتا ہے اور مطمئن ہو رہتا ہے-

یوں بھی ہے کہ حکومت کا انتظام سنبھالنے کیلئے خدا کا تصور پیش کیا گیا، عوام کو عبادات میں الجھائے رکھنے اور روحانی طور پر غلام بنائے رکھنے کیلئے خدا اور مذہب کی ایجاد ضروری تھی، جو قوم طاقت پکڑتی اور دنیا فتح کرنے نکلتی وہ اپنا خدا بھی وہاں پہنچا دیتی اور مفتوح علاقوں کے لوگوں کے خدا اور مذہب کو منسوخ کر کے اپنا خدا اور مذہب مفتوح قوموں پر لاد دیتے، پھر ان پر کوئی غالب آتا تو مغلوب کے خدا کے تصور اور مذہب کو یکسر حرفِ غلط قرار دے کر اپنے خدا اور مذہب کو مسلط کر دیتا، یعنی اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات اظہر من الشمس کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ ہر مذہب اور "ہر” خدا اپنے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے زورِ بازو پر پھیلا اور جہاں جہاں وہ مغلوب ہوئے ان کا خدا بھی مغلوب ہوا اور اس کی جگہ فاتحین کے خدا نے لے لی، لیکن کہیں ایسا نہ ہوا کہ قوموں کے خداؤں اور مذہب نے ان کو اقتدار میں مدد دی یا ان کی کسی معاملے میں حمایت کی یا ان کا کسی بھی سطح پر ساتھ دیا یا مادی ترقی میں ہی مدد کی، الٹا ہر دور کا ہر مذہب ہر مسلک کا خدا اپنے ماننے والوں کا ہر ہر معاملے میں محتاج رہا، یوں کے بقول شخصے:

چاہے تو کام میں لے، چاہے نکما کر دے
میں تیرا ہوں، تیری مرضی مجھے جیسا کر دے!

جہاں کہیں بھی کسی حکومت یا کسی قوم پر زوال آیا تو اس کا سبب اس کی کمزوری اور عاقبت نا اندیشی تھی، کوئی حقیقی خدا انسانوں کی آپس کی اس باہمی کشمکش میں کہیں نظر نہیں آتا، سب کے نظریے مفروضات پر قائم ہیں، انسانوں کی آپس کی ریشہ دوانیوں میں خدا اور اس کا تصور اور اس کی کی تعلیمات کی حیثیت بس اتنی ہے کہ کیسے حکومت کرنی ہے، اور عوام کو کیسے مطمئن رکھنا ہے اور کیسے ان کو اپنی مرضی پہ چلا کے اپنی مرضی کے نتائج و فوائد حاصل کرنے ہیں، خدا کی ذات کی مداخلت کہیں کسی تہذیب کے معاملات میں ڈھونڈے نہیں ملتی، کسی فوق البشر طاقت کی انسانوں کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی شہادت نہیں ملتی، لہذا کسی شے کو یا موجوداتِ عالم کو کسی تصور سے وابستہ کر کے اسے اسی کی کارستانی قرار دینا ایک بے کار اور لغو خیال ہے۔

کائنات میں کسی الوہی مداخلت کا تصور ناقص ہے، کیونکہ کائنات کا نہ کوئی اندرون ہے نہ بیرون، جو کچھ ہے مظہر ہے، موجودات ہیں، جتنے بھی خدا کے موجود ہونے کے نظریات ہیں وہ سب ضعیف الاعتقاد لوگوں کے مفروضات ہیں جن کی عقل نے غور و فکر کرنے کے بجائے اپنی ہار تسلیم کر لی اور اس کائنات کے متعلق علم حاصل کرنے کی بجائے ایک مفروضہ گھڑ کر ان سب چیزوں کو اس سے نتھی کر کے تصوراتی و مفروضاتی خداؤں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

انسانوں کی آپس کی ریشہ دوانیوں میں خدا کا تصور اور اس کی تعلیمات کی غرض و غایت بنی نوع انسان کو روحانی و سیاسی غلام بنانا ہے، یہ مفادات کی جنگ تھی جسے اذعانیت اور ادعائیت نے مزید فروغ دیا، اور اب یہ ایسا جوہڑ بن چکا ہے جس میں ڈاگما کے شکار ضعیف الاعتقادی کے مزے لوٹتے ہیں، یہ تصور حرص و ہوس پر مبنی تھا، کبھی داسی، کبھی نن، کبھی مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والی لونڈی کی صورت میں، اس تصور نے ہزار ہا سال شبِ خون مارا ہے تہذیب و تمدن کے نادر و نایاب اثاثوں پر۔

انسانوں کو روحانی و سیاسی طور پر غلام بنائے رکھنے کیلیے خدا اور مذہب کو فروغ دیا گیا اور دنیا نے دیکھا کہ مفاد پرستوں نے کیسے کیسے متنوع خدا اور مذاہب متعارف کرائے، کتنے اپنے ماننے والوں کے بل پر پھیلے اور کتنوں نے راج کیا، اور اس راج کا مزا لوٹنے کے بعد ذلتیں بھی اٹھائیں، اور جو خدا کبھی عظیم گردانا جاتا رہا وہی خدا اپنے ماننے والوں کی شکست کے بعد ذلیل ترین گنا گیا، اگر سب کا خدائے واحد اصل اور سچا ہوتا تو جو قومیں اپنے اپنے مذاہب پر پورے طریقے سے عمل پیرا تھیں اور اپنے خدا کی جی حضوری میں وقت گزارتی تھیں، کم از کم ان کا خدا تو ان کو اس دنیا میں ذلیل و خوار نہ کرتا، لیکن چونکہ ایسی مثال نہیں ملتی لہذا یہ انسان کے اپنے قائم کردہ نظریات ہیں، اور انسان اور قوموں کے عروج و زوال کا تعلق بھی انہی کے عمل سے مشروط ہے، ان کا عروج و زوال کسی خدا کی مداخلت کا مرہونِ منت نہیں۔

جتنا وقت اپنے ہی تصور کی جی حضوری اور اس کی عبادات اور مذہبی رسومات میں انسانوں نے ضائع کیا ہے، اتنا ہی وقت کسی تعمیری کام یا کسی اچھے عقلی نظریات پر لگایا جاتا تو یقیناً حالات قطعی مختلف ہوتے، کم از کم یہ جو دنیا ہم آج دیکھ رہے ہیں، یہ عہد گزشتہ کئی صدی قبل آ چکا ہوتا، کسی خدا کے علتِ کاملہ ہونے کا جھگڑا، اس کی موجودگی کو ثابت کرنے یا نہ کرنے کا سلسلہ تو بعد کا ہے، سب سے پہلے ہمیں ان خطوط پر بات کرنی چاہئیے جن پر چل کر کسی خدا تک پہنچا جا سکتا ہے۔

سارے مذاہب اور اکثر مصلح خدا کی بات کرتے ہیں،  انسانی زندگی کا مقصد اس کی عبادت و اطاعت چاہتے ہیں، اور انسانی زندگی کو  کسی خدا کی چاہت بتاتے ہیں، لیکن تاریخ کے عمیق ترین مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا ایک واقعہ نہیں جس میں کسی فوق البشر ہستی کی مداخلت کا ہاتھ نظر آتا ہو، کسی بھی شخص کی ترقی، کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی میں ان کی اپنی محنت اور عمل کا ہاتھ ہے جس کو ان میں سے اکثر حضرات اپنی کم علمی کے سبب کسی مافوق الفطرت ہستی سے نتھی کرتے رہے اور لایعنی عبادات میں اس ہستی کو پوجتے رہے جس کو وہ خود بھی ٹھیک سے نہیں جانتے تھے۔

کسی ایک مذہب میں دعوؤں کے علاوہ اپنی بات  کے حق میں کہنے کیلیے ایک بھی ثبوت نہیں، عیسائی سے پوچھیں تو وہ اپنی کتاب  بطور ثبوت آگے کر دے گا، کسی ہندو سے پوچھیں تو وہ اپنی کتابیں آگے کر دے گا، کسی مسلمان سے پوچھیں تو وہ اپنی کتاب بطور ثبوت پیش کر دے گا، سب کی ایک ہی بات کہ ہماری کتاب خدا نے ہدایت کیلیے بھیجی، لیکن خود اس بات کا  ثبوت ندارد، سب کی اپنی اپنی تاویلات ہیں جن سے وہ اپنے اپنے خدا کو دعووں کے ذریعے ثابت کرتے ہیں، گویا یہاں بھی کوئی خدائی مداخلت نہیں صرف انسان خود ہے، جو خدا کو منوا رہا ہے۔

بہرحال یہاں کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ جس پر چل کر خدا کو مانا جائے اور منوایا جائے، صرف ایمان بالغیب ہے جو کسی خدا کو مان سکتا ہے اور منوا سکتا ہے، صرف چند وہم ہیں خوف کی صورت جو خدا پر ایمان رکھا جاتا ہے، لیکن حقیقت و صداقت کے راستے معجزات و عقائد کی راہنمائی میں طے نہیں کیے جا سکتے، اور نا ہی کبھی ایسا ممکن ہوا ہے، سچائی کو کسی خدا سے منسوب کرنے کی ضرورت اضافی نوعیت کی ہے، خدا پر یقین رکھنا ایسا ہی ہوگا جیسے بچے زمانہ طفلی میں سپرمین، سپائیڈرمین وغیرہ کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔

2 Comments

  1. ‘مولانا’ عبدل عزیز المعروف برقعے والی سرکار کی مثال ہی لے لیں – موصوف کچھ دنوں پہلے تک ہر دوسرے ٹی وی چنیل پر دہایاں دیتے نظر آتے تھےکہ پاکستان کا آئیں اسلامی ہونا چاہیے . انکا طریقہ واردات کچھ اس طرح تھا :

    ١. قرآن تمام قوانین کا ماخذ ہونا چاہئے
    ٢- علما ان قوانین کی تشریح کے ماہر ہیں ، اس لئے یہ معاملات ہم پر چھوڑ دیں !

    دیکھا آپ نے کس قدر سادہ طریقہ ہے ؟ جاہل مسلمانوں کو پہلے confuse کرو کہ پاکستان کافرانہ ڈگر پر چلایا جارہا ہے، پھر اپنے آپ کو ان مسائل کو حل کرنے کے لئے نامزد کر دو . اس بات سے قطع نظر کہ :

    ١. خود مسلمانوں میں قرآن کی تشریح پر واضح اختلافات موجود ہیں، حتیٰ کہ ان معاملات میں بھی جہاں الله میاں نے اپنی طرف سے تصریح فرما دی . مثال کے طور پر: وضو کا طریقہ ، یا وراثت کی تقسیم جہاں قرانی ‘فارمولا’ پورا نہیں اترتا (‘اول ‘ کا طریقہ اس کا حل ہے ، مگر صرف اہلسنّت کے قریب)-
    ٢- باقی مواخذ پر جتنے اختلافات ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا – خود عبدلعزیز کے چہیتے لشکر جھنگوی والے شعیوں کو ذبح کرنے کو کار ثواب مانتے ہیں –

    یعنی آج کے دور میں جو ملا بھی نفاذ اسلام کا نعرہ مارے ، وہ بنیادی طور پر اپنے مسلک کو سب پے مسلّط کرنے کا ‘شارٹ کٹ ‘ ڈھونڈ رہا ہے !

  2. معاف کیجیے گا میرے تبصرے کا پہلا حصہ حذف ہو گیا :

    ایان شاہ صاحب
    بہت عمدہ جناب بہت عمدہ – الوہی مداخلت ہمارے مذہبی لیڈران کا پسندیدہ موضوع ہے – کیوں کہ ملا اس بات کو سب سے بہتر طور پر جانتا ہے کہ مذہب ایک بہت بڑا ‘racket ‘ ہے ، اور اس الوہی راگ کو جتنا الاپو اتنا زیادہ فائدہ ملے گا. اگر مللاؤں کا بس چلتا تو لوگ سانس بھی ان سے پوچھ کر لیتے –

جواب دیں

2 Comments
scroll to top