Close

خدا کی زبردست ہٹ دھرمی

سورہ مائدہ آیت 32 میں ارشاد خداوندی ہے کہ من قتل نفس بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا، ترجمہ: جس انسان نے کسی دوسرے انسان کو قصاص اور فساد کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔۔۔ اب ذرا سورہ الانفال کی آیت 65 میں خدائی بیان سنئے، یا ایھا النبی حرض المومنین علی القتال، ترجمہ: اے نبی مومنین کو قتال پر ابھارئیے، خدا نے اپنے پیغمبر کو محض دو صورتوں میں ایک انسان کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے لہذا اب ہم تحقیق کریں گے کہ غزوہ بدر، احد، خندق اور خیبر میں مرنے والے کفار ان دو صورتوں میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں،  سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان جنگوں میں مرنے والے لوگ قصاص کے زمرے میں تو بالکل نہیں آتے، کیونکہ قصاص دراصل ایک  معروف اسلامی قانون ہے جس کے مطابق قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے باقی بچی دوسری صورت یعنی فساد، اب ہم تحقیق کریں گے کہ ان لوگوں کا فساد کیا تھا جو بدر، احد اور خندق وغیرہ میں مارے گئے، ہم خدا کے کلام  قرآن ہی سے پوچھیں گے کہ فساد کی بنیاد کیا ہے چنانچہ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیت 8 میں ارشاد خداوندی ہے کہ، ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین ، ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے خدا اور اسکے رسول پر مگر وہ ایمان لانے والے نہیں،  گویا فساد کی بنیاد خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا ہے سو اب ہم ایمان کی تعریف بیان کریں گے، ایمان کا بنیادی مادہ امن سے ہے جبکہ اس کے اصطلاحی معنی جو یہاں پر مراد ہیں اعتماد یا یقین کے ہیں چنانچہ جمہور علماء اسلام کے مطابق ایمان کے معنی بن دیکھے خدا پر یقین کرنا جبکہ جدید روشن خیال اہل اسلام علماء کے مطابق بن دیکھے مگر عقل کے مطابق یقین کرنے کے ہیں،  ایمان کے جو بھی معانی لئے جائیں بہرحال اس کی تعریف یہاں پر آکر رک جاتی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر یقین کرنا،  اصول معقولات یہ ہے کہ جو شخص بھی خدا کے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اول تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کا وجود ثابت کرے، اگر بالفرض وہ خدا کا وجود ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے پھر اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی خدا کا نبی ہے، تب کہیں جا کر کسی کو اس بات کا قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ یقین کرلے، مگر اس کے برعکس اسلام اور اس کے لانے والے کی یہ ضد ہے کہ بغیر کسی ٹھوس منطقی ثبوت کے لوگ نہ صرف اس کے خدائے واحد یعنی اللہ کو تسلیم کرلیں بلکہ یہ بھی تسلیم کرلیں کہ وہ اس اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا یعنی اس کا پیغمبر ہے، پیغمبر نے اپنی قوم والوں کو تو ایمان نہ لانے کے عوض فسادی قرار دے کر ابدی نیند سلا دیاتو کیا اس پیغمبر کے اپنے بھی اس کے ایمان کو تسلیم کرتے تھے اس پر ہم ابھی بحث کرلیتے ہیں کیونکہ یہ نقطہ بنیادی ہونے کے علاوہ بہت اہم ہے، دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ  ایک انسان کی شخصیت کو اس کے والدین سے بڑھ کوئی نہیں جان سکتا چنانچہ ابھی ہم اسی کسوٹی پر پیغمبر اسلام کو پرکھتے ہیں پیغمبر اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ ان کے والد عبد اللہ فوت ہوگئے تھے، جبکہ غالباً 6 سال کی عمر میں اس کی والدہ آمنہ فوت ہوگئی تھی، اس کے بعد پیغمبر کی دیکھ بھال اس کی کزن ام ہانی کرنے لگی جبکہ اسی دوران پیغمبر کے دادا عبد المطلب نے بھی حتی الوسع آپ کی پرورش کی جب دادا فوت ہوگئے تو پیغمبر کی مستقل پرورش کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے اپنے سر لے لیا، ابو طالب قریش کے معتبرین میں سب سے زیادہ ذہین اور بذلہ سنج تھے ابو طالب نے پیغمبر کو بچپن ہی سےکاروباری سرگرمیوں میں اپنے ساتھ کرلیا تھا، گویا ابو طالب پیغمبر کیلئے ایک باپ کی حیثیت رکھتے تھے چنانچہ جب پیغمبر نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ نے بارہا ابو طالب کو اپنے اس نئے دین کی دعوت دی مگر ابو طالب آخری دم تک پیغمبر کی دعوت کو ٹھکراتے رہے حتی کہ ایک مشہور روایت کے مطابق پیغمبر ابو طالب کو مرتے وقت یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چچا آج تو میرے کان میں کلمہ پڑھ دے کل قیامت کے دن میں خدا کے سامنے گواہی دوں گا کہ تم نے کلمہ پڑھا تھا، قارئین ابو طالب کا جواب سنئے، نہیں بالکل نہیں، لوگ کیا کہیں گے کہ موت کے ڈر سے بھتیجے کا دین قبول کرلیا (مسلم رقم 24) قارئین پیغمبر کی اس قدر حوصلہ شکنی پر پیغمبر کا خدا ہٹ دھرم بن کر فوراً پینترا بدل لیتا ہے چنانچہ اب وہ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتا ہے کہ: انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء، ترجمہ: بے شک تو ہدایت نہیں دے سکتا اسے جس سے تو محبت کرتا ہے بلکہ ہدایت تو خدا دیتا ہے جسے چاہتا ہے، (سورہ قصص 56) قارئین اب آئیے اس اہم نقطہ کی جانب جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا کہ وہ لوگ جو یمان نہیں لاتے وہ فسادی ہیں پس ان کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے عوض تو مومنین کو جنت ملے گی ملاحظہ کیجئے سورہ توبہ، ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ، ترجمہ: بے شک خرید لیا ہے مومنین سے ان کے خدا نے ان کی جان اور مال جنت کے بدلے (سورہ توبہ 111) قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ پیغمبر کے باپ یعنی اس کے چچا کے انکار پر پیغمبر کا خدا کتنی ہٹ دھرمی سے اس کے لئے سہولت پیدا کر رہا ہے جبکہ عوام کیلئے کچھ اور ہی ضابطہ ہے، یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم، ترجمہ: اے نبی جہاد کرو کفار اور منافقین کے ساتھ اور ان پر سختی کرو (سورہ توبہ 73) یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر کے چچا ابو طالب کفار میں سے نہیں تھے؟ کیا پیغمبر نے خود ان پر اتمام حجت نہیں کیا تھا؟ قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ پیغمبر اپنے چچا کو اپنے دین میں داخل کرنے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرچکے تھے مگر اس سب کے باوجود بھی پیغمبر کے چچا اپنے بھتیجے کے خدا اور اس پر ایمان نہ لاسکے، اب دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر پیغمبر نے کیوں اپنے چچا کو زندہ چھوڑ دیا کیوں ان کے خلاف جہاد نہیں کیا کیوں ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی، کہیں ایسا تو نہیں کہ پیغمبر کے خود ساختہ ہٹ دھرم خدا کو شرم آرہی تھی کہ وہ اب اپنے پیغمبر کو اپنے محسن چچا کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم کیسے دے گا گویا پیغمبر کے خدا کا ضمیر گوارا نہیں کررہا تھا قارئین اچنبھے میں پڑنے کی ضرورت نہیں بالکل یہی وجہ تھی کہ ایک باپ نما چچا جس نے کل کلاں مجھے پال پوس کر بڑا کیا ہے اب اس کے خلاف کیسے تلوار اٹھاؤں ہماری الجھن بھی یہی ہے کہ جب پیغمبر اپنے باپ نما چچا کو مسلمان نہ کر سکے تو پھر دیگر عوام کے خلاف تلوار اٹھانے کا کس بنیاد پر جواز نکال رہے ہیں اگر کفار کے خلاف تلوار اٹھانا ضروری ہے تو پھر ابو طالب کیسے بچ نکلا، کیا ان کا شمار کفار میں نہیں تھا اگر ان کا شمار کفار میں نہیں تھا تو پھر اس وقت کے تمام کفار کا شمار بھی کفار میں نہیں کیا جا سکتا، قارئین گھر کی بات تھی نا اس لئے تو خدا نے خود مداخلت کردی اس کے بر عکس عوام کا انکار سامنے آیا تو فوراً خدا اپنی منشاء کو پس پشت ڈال کر اپنے پیغمبر کو حکم دے رہا ہے کہ ان کفار کے خلاف تلوار اٹھاؤ، قارئین یقین کریں ایسا اقرباء پرور اور ہٹ دھرم خدا میں نے تو آج تک کسی مذہب میں بھی نہیں دیکھا۔

42 Comments

    1. یہ کہنا کہ ابوطالب بالکل اسی طرح مسلمان تھے جس طرح کہ پیغمبر کے اور رفقاء تھے کہیں بھی ثابت نہیں، اہل سنت عموماً مسلم کی درج بالاحدیث کو حجت مانتے ہوئے ابو طالب کو مسلمان نہیں سمجھتے ، باقی رہا اہل تشیع کا مسئلہ تو وہ بھی اس ضمن میں ابو طالب کے چند اشعار سے ابو طالب کے مسلمان ہونے کو دلیل بناتے ہیں اس ضمن میں انکے پاس بھی کوئی مستند تاریخی مواد موجود نہیں تاہم اہل تشیع کے پاس دلائل اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ ان پر ابو طالب کو مسلمان کہا جاسکے ، بہرحال جو بھی ہو اہل سلام کی چودہ سوسالہ مستند تفسیری روایات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ابو طالب اپنے آخری وقت تک کفر پر اڑے رہے چنانچہ سورہ قصص کی درج بالا آیت کے شان نزول کے حوالہ سے مسلمانوں کے مستند مفسر علامہ ابن کثیر کچھ یوں بیان کرتے ہیں بخاری و مسلم میں یہ آیت رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت طرفدار تھا اور ہر موقع پر آپکی مدد کرتا رہتا تھا اور آپ کا ساتھ دیتا رہتا تھا اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعاً نہیں تھی جب اسکی موت کا وقت کا قریب آیا تو حضرت محمد نے اسے اسلام میں آنے کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آیا ، یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑا رہا (حوالہ تفسیر ابن کثیر صفحہ 546)

    1. جو 313 بدر میں لے کے آئے تھے۔ اُن کو کس تلوار سے مسلمان کیا تھا؟
      جواب: 313 تو بتا دیئے محترم اور ایک ہزار بھول گئے۔
      اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔ تلوار سے دل نہیں خریدے جا سکتے۔
      جواب: اگر اسلام تلوار سے نہیں پھیلا تو پھر یہ کیا ہے” یا ایھاالنبی حرض المومنین علی القتال”

        1. نقشبندی صاحب، آپنے تین سو تیرہ کا حوالہ دیا کہ انکو تو زبردستی مسلمان نہیں کیا گیا تھا۔ ہماری عرض یہ ہے کہ مذہب کی شروعات میں کچھ کم عقل، ضعیف الاعتقاد لوگوں کو زیرِاثر لایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو اپنے چرواہے کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں۔ خواہ وہ ان سے انکی نوسالہ بچی کو بحیثیتِ بیوی کے مانگ لے یا کسی خیالی خچر پر بیٹھ کر ساتویں آسمان کی سیر کا دعویٰ کرے۔ ایسے لوگ اپنے لیڈر کی ہر بات پر آنکھیں بند کر ایمان لاتے ہیں اور اسکی ہر خواہش پوری کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔

          ایسے لوگ اکھٹے کر لینے کے بعد جس وقت مسلمانوں کے سربراہ نے اپنے ہاتھ مضبوط محسوس کئے اور عقل سے عاری جانثاروں کی ایک معقول تعداد اسکے گرد اکٹھی ہوگئی جبکہ یہودیوں کو نیچا دکھانے کی لالچ میں انکو مہمان بنا لینے والے اہلِ مدینہ کی پشت پناہی بھی حاصل ہو گئی تو یہ گروہ آہستہ آہستہ پرامن سے دہشت گردی پہ اُتر آیا (جو کہ بطور سنت آج تک جاری و ساری ہے)۔

          آپ فرماتے ہیں کہ تمام غزوات سیلف ڈیفنس تھے؟ یہ وہ سفید جھوٹ ہے کہ جو تقریبا” تمام مسلمان بغیر تحقیق کئے دوہراتے ہیں۔ضروری نہیں کہ سب ایسا جان بوجھ کر کہتے ہیں، بلکہ اسکی وجہ اسلامی برین واشنگ ہے کہ جسکی وجہ سے یہ جھوٹ بچپن سے انکے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں اور وہ بغیر جستجو کے اس کو سوفیصد حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔
          لفظ غزوہ کا معنی ہی اپنی تعریف آپ ہے۔ میں اس موضوع پر آپ کو تحقیق کی دعوت دیتا ہوں، اسلامی تواریخ اور صحیح احادیث نیز آیاتِ قرآنی کا مطالعہ اس سلسلے میں خاصا مفید ثابت ہوگا۔ کھوج لگائیے کہ غیر مسلموں نے کس کس موقعے پر مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور کتنی بار ایسا کیا جبکہ مسلمانوں کی جانب سے ایسا کتنی بار ہوا۔

  1. ابو العقل sir thanks for your feedback.
    Bherhal SHIA apnay sey tu sabit karty hain k Abu Talib muslim thy, bat kuch kuch aqal ko bhi lagti hai k ager wo muslaman na hotay to apnay nephew ki itni taraf dari nah kartay or har bar un k sath kharay na hotay.
    Baki ye bhi hakeekat hai k sara islam talwar se nahe phaila q k us wakt bhi bai-wakoof logo ki kami nahe thi jo aqal se paidal islam main dakhil hotay gai.
    Dill jeetnay ki jo itni hi bat karta hai tu muje sirf ye bta dai k islam se phir janay walay ki saza ” sar tan se juda” q hai phir…….!

  2. سورج کا واپس پلٹ آنا۔ چاند کا دو ٹکرے ہونا۔ کیا سب فرآڈ تھا۔1400سال سے لوگ بےوقوف تھے ؟ جو آپ لوگ آ گئے ہیں۔۔۔۔کم آن یار۔۔۔۔۔۔۔ایسی ہٹ دھرمی نہ کیجیے۔ کیا جھوٹ پہ کرڑوں لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں….

    1. اگرچہ سورج کا پلٹنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ذمین ہے کہ جو سورج کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن اگر اس بات کو وقتی طور پر مان بھی لیا جائے کہ سورج ذمین کے گرد چکر لگاتا ہے تب بھی بڑی دلچسپ بات ہے کہ یہ نظارہ صرف عرب کے ریگستان کے ایک چھوٹے سے شہر کے چند افراد کو نظر آیا اور باقی ماندہ دنیا کی تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔
      چاند کے دوٹکڑے ہونا بھی "پِیر خود نہیں اُڑتا بلکہ اسے اسکے مرید اُڑاتے ہیں” والے محارے ہی کے مصداق ہے۔ کسی قسم کا کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں ہے اور تصدیق کے لئے ہمارے پاس ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے چند عرب بدووں کی سنی سنائی کہانیاں ہیں۔

      ویسے آپ اِن معجزوں پہ اصرار کر کے خود اپنے قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔ قرآن تو اس بارے کچھ اور ہی بیان کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
      وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْ‌سِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَ‌ةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْ‌سِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا
      "اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ہم نے ثمود کو علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ہم نشیانیاں اسی لئے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔”
      17:59

      وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّـهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٥٠﴾ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَ‌حْمَةً وَذِكْرَ‌ىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٥١﴾
      "یہ کہتے ہیں کہ "کیوں نہ اتاری گئی اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے؟” کہو، "نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں، میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر”۔ اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔”
      29:50-51

      کون ہٹ دھرم اور جھوٹ پہ اکٹھا ہے اسکا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

  3. ابو الحکم ۔۔۔جناب اِسلام معجزات کا محتاج ہی نہیں۔کیوں کے اِسلام ایک زندہ معجزہ ہے۔اور بقول آپ کے ” عرب کے ریگستان کے ایک چھوٹے سے شہر ” کی ہی عظیم شخصیت کی تعلیمات پوری دُنیا میں پھیل جانا؟ یہی تو اعجاز ِ اسلام ہے۔

  4. ابوُ الحکم صاحب ۔۔۔مسلمانوں کی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے آپ جیسے لوگ اسلام کی حقانیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔۔اسلام کا معاملہ ایساہی ہے کہ
    بقو ل شاعر۔۔۔۔۔
    مری فطرت رہی ہے قتل ہونا۔۔۔۔
    مگر مشہور قاتل ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

    1. نقشبندی صاحب فرماتے ہیں کہ:

      "دلائل کیا دینے ہیں۔۔۔آپ کی اپنی سوچ ہے۔ اور دین میں کوئ جبر نہیں۔”

      اگر مسلمان ایسا سوچتے اور انکو انکا مذہب ایسا کرنے کی اجازت دیتا تو اس سے اچھی بھلا اور کیا بات ہوسکتی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسلام سے ناواقف حضرات ہی ایسے شوشے پھیلا سکتے ہیں یا پھر تقیہ سے کام لینے والے دو چہرہ ٹپیکل مسلمان۔
      فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ‌ الْحُرُ‌مُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُ‌وهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٥﴾
      "پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لئے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور ذکواۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے”۔ سورة التوبة

      حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی چاروں مسالک کے نزدیک مرتد (جو دین اسلام کو چھوڑ دے) کی سزا موت ہے۔ کیسی آزادی کی بات کرتے ہیں آپ؟ خالی "لا اکراہ فی الدین” کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے؟ قرآن مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے، احادیث کا ڈھیر لگا ہے اس معاملے میں۔ احادیث (کہ جس پہ شریعت استوار ہے) ببانگِ دہل جبر و استبداد کا پرچار کر رہی ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ کوئی جبر نہیں؟
      معذرت، لیکن اس کو میں مسلمانوں کی جہالت یا منافقت سمجھنے پر مجبور ہوں۔

      عقلمندوں کو سلام

      1. قرآن نے کب اسلام سے واپس پھر جانیوالوں کو قتل کرنے کا کہا؟صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا معاہدہ ہوا تھا کہ جو کافر مسلمان ہوا اسے واپس کردیا جائیگا اور جو مسلمان کافر ہوا اسے کچھ نہ کہا جائیگا۔یہ مجوسی اماموں کی گند سے ہمارے قرآن پر کیچڑ نہ اچھالیں،مانا کہ مولوی حضرات آپ کے جوابات نہیں دے سکتے مگر ہم مولوی نہیں ہم مفتی ہیں ۔:) ،مذاہب اور خدا پر لعنت بھیج کر دین اور اللہ کی بات کرتے ہیں انسانوں کے چورن کو چھوڑ کر صرف وحی کی بات کریں۔
        مذہب کی آڑ میں حل ہونے لگا ہو نا سکا
        ساحل روم کی زرکار سیاست کا سوال
        یوں ارض مقدس کے ہر اک گلی کوچے میں
        خون انسانی میں نہاتے تھے صلیب و ہلال

        1. جناب ڈاکٹر منیب احمد ساحل صاحب
          ایک طرف تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ :مجوسی اماموں کے گند سے آپ کے قرآن پر کیچڑ نہ اچھالیں۔
          اب آپ نے "صلح حدیبیہ” کا جو حوالہ دیا ہے، یہ بھی تو "مجوسی اماموں” کا ہی بیان کردہ واقعہ ہے، مجوسی اماموں کی کتابوں کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا واقعہ رونما ہوا تھا؟
          کیا یہ pick and choose یا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی پالیسی نہیں ہے؟؟
          جواب کا منتظر ہوں۔

  5. آپ جتنے بھی ملحدین ہیں ۔مجھے بتائیں۔ اگر مذہب نہ ہو تو کیا مقصد ہےزندگی کا؟ اگر کوئ نظریہ ِ حیات نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔اگر جزاء اور سزاء کا تصور ہی نہ ہو ؟ تو جو اس دنیا کا استحصالی اور ظالم طبقہ ہے اُسے تو پھر کھلی چٹھی ہے۔ اِس کے علاوہ مذہب پابند کرتا ہے انسانوں کو اخلاقیات کے دآرے مَیں ورنہ تو مادر پدر آزادی ہو جائے۔رشتوں کا تقدس پائمال ہو اور انسان ، حیوان بن جائے۔ یہ مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے انسانیت باقی ہے۔ ورنہ جزاء اور سزاء کے تصور کے بغیر انسانوں نے فقط استحصال کرنا تھا۔ حکومتیں قوانین کیوں بناتی ہیں؟ کیوں کے انسانی فطرت ہے کے وہ سزاء کے تصور کے بغیر جرم پہ دلیر ہو جاتا ہے۔جب قانون کے بغیر ایک چھوٹی سی ریاست نہیں چل سکتی تو کائنات کیسے چلے گی؟ اور اگر کوئ کہے کے سب ّ فطرت یا نیچر ّ کروا رہی ہے تو فطرت کا بھی کوئ خالق ہے۔کائنات کی ترتیب اور ایک منظم نظام خالق کا شاھد ہے۔ کیوں کے حادثے تباہ کرتے ہیں تنظیم نہیں کرتے۔

    1. بہت اچھا سوال کیا ہے۔
      زندگی ایک اتفاق ہے، اسکا کوئی "ماورائی” مقصد نہیں ہے۔گائے بھینس کا کیا مقصد ہے؟ ہماری خوراک بننا اور ہماری غذائی ضروریات پوری کرنا؟ مرغی کا کیا مقصد ہے؟ ہمارے لئے انڈے دینا اور غذا بننا؟ آپکا کیا خیال ہے جب آپ ایک جانور کے گلے پہ چھری پھیرتے ہیں تو اسکو درد نہیں ہوتا ہوگا؟ کبھی مرغی ذبح کرتے وقت باقی تماشہ کرتی مرغیوں کی آنکھوں میں آپنے خوف و دہشت دیکھی ہے؟ خُدا (اگر کوئ ہے تو) اسکے لئے کیا بعید تھا کہ ہماری آپکی غذا کا نظام اسقدر ظالمانہ نہ رکھتا۔
      زندگی ایک اتفاق ہے۔ جی ہاں، یہ حقیقت شاید بہت سوں کو تلخ لگے لیکن حقیقت کا سامنا ہی بہادری ہے۔ زندگی کو مقصد ہم خود عطا کرتے ہیں۔ انسانیت سے بڑا کیا نظریہ حیات ہو سکتا ہے؟
      یہ مقصد کیوں ناکافی ہے کہ ہم نے دنیا کو جس حالت میں پایا اسے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے اس سے بہتر شکل میں چھوڑ کر جائیں۔
      اگر نیکی کی ترغیب کے لئے ہمیں جزا کا لالچ اور برائی سے احتراز کے لئے ہمیں سزا کا خوف درکار ہے تو بلاشبہ ہم بدبخت، سفاک، لالچی اور بے حس نوع ہیں اور جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور ہماری اپروچ میں غلطی ہے تو زندگی کا مقصد آپ بتائیے۔

      کیا مذہب نے انسان کو حیوان بننے سے روک دیا ہے؟ کیا جنت و جہنم کے لالچ اور خوف نے استحصال کے دروازے بند کر دئیے؟ جاگئے حضور، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔ پیاسے کو پانی اور بھوکے کو کھانا کھلانے کے لئے مذہب کیوں لازم ٹھہرا؟ کیا کسی کا درد محسوس کرنے کے لئے ہمیں "خُدائی” راہنمائی کی ضرورت ہے؟ جناب انسان کو انسان بننے کے لئے مذہب کی نہیں بلکہ ہمدردی اور ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اور یہ صلاحیت تفکر سے، محبت سے جنم لیتی ہے مذہبی کتابوں کے اشلوک یا آیات سے نہیں۔
      یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اخلاقیات اور قوانین بنانے کے لئے مذہب کی ضرورت ہے؟ اچھا بننے کے لئے اور انسانی قوانین بنانے کےلئے اجتماعی عقل و ضمیر کا ہونا کافی ہے، مذہب تو ایک اچھے بھلے انسان کو بھی بھیڑیا بنا دیتا ہے۔ وہ انسانیت سوز اور اخلاق سوز مظالم کرتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتا کیونکہ یہ اسکے مذہب کی تعلیمات ہیں اور مذہب پہ عمل کرتے وقت انسان اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔
      یہ ایک مثال دیکھئے، بنگلہ دیش کی علٰحدگی کی تحریک کے دوران اسلامی مجاھدوں اور فوجیوں نے جو زبردستی ہندوؤں کو مسلمان کیا اور لاکھوں بنگالی عورتوں کا ریپ کیا۔ اور لاکھوں صرف وہ ہیں جو رپورٹ ہوئی ہیں، نہ جانے اور کتنی مظلوم ہوں گی۔
      http://en.wikipedia.org/wiki/Delwar_Hossain_Sayeedi
      http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/02/130228_bangladesh_war_tribunal_zz.shtml
      اور ایسا کیوں کیا گیا؟ کیونکہ اسلام کے بانی نے اسکی بنیاد رکھی ہے۔ جنگ میں دشمن کی عورتوں کو قید کرنا اور ریپ کرنا اسلام کے نزدیک مالِ غنیمت کے ذیل میں آتا ہے۔
      جیسا نبی ہوگا ویسے ہی امتی ہوں گے، ویسا ہی دین ہوگا۔

      بائی دا وے، اگر فطرت کا کوئی خالق ہے تو پھر خالق کا خالق کون ہے؟
      اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کائنات کی ترتیب و تنظیم خدا کے وجود کا ثبوت ہے تو پھر اسکے لئے آپکو جدید سائنسی نظریات اور موضوعِ کائنات پہ لکھی گئی عظیم سائنسدانوں کی کتب کے مطالعے کی ضرورت ہے۔

      1. MULHADEEYAT OR MULLAEYAT EK HI CHEEZE HAY 🙂
        JANAB ABUL HUKUM SAHAB ap apni kaheen scientist ki chorain
        ap apna science mutalla bataeen ap k pass konis esi telescope hay jis ki madad say ap in nataij per phonchay
        ap k nazareeya kaheen esa to nahee hay
        there was nothing
        nothing happened to nothing
        nothing magically exploded for no reason
        creating every thing
        and the bunch of everything
        magically rearrange for no reason
        koi tuk ki bat kerain 🙂
        jahan tak murghi k galay pay churi phernay ki bat hay to ap k pas who konsa sa aalla e kar hay jis say ap murgh ki deshat zada ankhain dekh letay hain yahan tak k ap murgh k dil ka khauff bhi jan letay hain
        hahahhaahha sir g baray door ki kori phenki hay apnay
        mera ek dost meray sath kam kerta tha to jab who meter guage ki reading leta tha to 2.2 ki reading ko 2.25 likhta tha
        i was so amazed k jis nay guage banaya hay usnay to 2.2 k bad 2.3 likha hay magar who sahab to inthea super intelligent thay jo apni ankhoon say itni accuracy dekh leta thay
        ap nay muhay usi dost ki yad dila di 🙂

        1. عمر رسول صاحب، جراتِ تحقیق پہ خوش آمدید۔
          آپکا سپر کیوٹ تبصرہ پڑھ کے طبیعت پہ صبح سے جاری خشک اور بورنگ کام کی وجہ سے چھائی ہوئی بےکیفی چھٹ گئی اور بے ساختہ سنجیدگی مسکراہٹ میں تبدیل ہو گئی۔ تبصرہ اگرچہ رومن اردو میں ہے جسکو پڑھنا ہم جیسوں کے لئے ازحد دشوار ہے تاہم دلچسپ ہونے کی وجہ سے پڑھ لیا۔
          آتے جاتے رہئے گا۔ 🙂

  6. ابو طالب کی موت ہجرت سے پہلے واقع ہویُ تھی جبکہ قتال کا حکم ہجرت کے بعد آیا تھا
    نبیُ کریم کی تمام جنگیں مشرکوں اور کافروں پر خدا کا عذاب اور قانونِ رسالت کے مطابق تھیں- اس قانون کے تحت جب کسی قوم میں رسول کی بعثت ہو جاتی ہے تو منکروں پر خدا کا عذاب رسول اور اس کے ساتھیوں کی تلواروں سے نازل ہوتا ہے-اگر رسول کے ساتھیوں کی تعداد اتنی نہ ہو سکے تو عذابِ الہی آسمان سے نازل ہوتا ہے – رسول اور اس کے ساتھیوں کو صاف بچا کر نکال لیا جاتا ہے

  7. جنگ صاحب جرات تحقیق پر خوش آمدید
    جنگ صاحب یہی تو بھینس کی دم ہےمطلب”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے” ہماری یہ الجھن ہے کہ قتال کا حکم اس وقت کیوں نہیں نازل نہیں ہوا جب پیغمبر کے چچا بقید حیات تھے؟ یقیناً اب آپ یہی فرمائیں گے کہ اس وقت خدا کی طرف سے حکم نازل نہیں ہوا تھا تو جنگ صاحب بتاتے چلیں کہ ہمارے نزدیک نہ تو کسی مذہب کا کوئی وجود پایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی مذہبی خدا اور اسکے رسول کا، بحث کو جاری رکھنے کیلئے پہلے آپ کو مذہبی خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، علاوہ ازیں قتال کے متعلق آپ نے جو مذہبی منطق بیان فرمائی ہے اس کا مصدر دور حاضر کے ایک روشن خیال مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی کا اجتہادی نقطہ نظر ہے جمہور علماء اسلام کے نزدیک آج بھی نفاذ شریعت کیلئے تلوار اٹھانا جائز ہے یقین نہیں تو پاکستان میں موجود ایک مسلح مذہبی گروہ کی جانب سے آئے دن قتل وغارت کا مشاہدہ فرماسکتے ہیں۔

    1. ہم ابھی اس بات پر تو بحث ہی نہیں کر رہے کہ کویُ خدا ہے یا نہیں- چونکہ آپ نے استدلال کیا ہے کہ چچا کو کیوں نہیں قتل کیا اور حوالے بھی قرآن سے دے ہیں اس لیُے ہم اسی کے حوالے سے بات کریں گے -اور دوسری بات یہ کہ ہم اس بحث میں بھی کیوں پڑیں کہ کس نے کس موضوع پر کیا کہا ہے کیونکہ بہتر ہوگا کہ ہم دلیل کا جایُزہ لیں اور اس پر غور کریں کہ کیا کہا گیا ہے نہ کہ کون کہ رہا ہے-

  8. tera tabsra parh k boht hairani hoi k tery jaisy log jo Quran e Pak parh kr bhi nahi samjh paye. ab daikh lay hr insaan apni soch ka malik hai isi liye tou insaan ko Ashrafal Makhlooqat kaha gaya hay. soch ki azadi hr insan ko hai magr aik hud tuk. teri he baat hai murghi ko dard nahi hota jb usy kata ya zibha kia jata hai tou. agr aisa he dard ka ahsaas hai tujhy tou ye fruit vegetables kyn khaty ho. scince k mutabiq tou life in sb main b hai. dard tou inhain b hota ho ga. Islam darhaqeeqat aik aik mukamal zabta hayat hai jo hamien zindgi guzarny k hr aik tareeqay sy aagah krta hai. kisi b jurm ki agr koi saza bari rakhi jati hai tou is ka maqsad ye hota hai k aik ko daikh kr baqi us sy ebrat hasil krin. is ki misal simple c hai Dubai main metro main eatables allow nae else 1000 darham fine hai. dont u think this punishment worth more then the act. just because others could learn some lesson and avoid doing that stuff. deen insaan ki aasani k lye bana hai ye aik scure rasta hai jo ap ko aakhrat tak lay kr jata hai safe and secure agr ap iss k mutabik chalien tou. aik simple c misal daina chahon ga ap metro train ya plane pay safar krty hain jb aik bar ap us main sawar ho jaty hain tou ap ko rasty main utrna allow hota hai ? kia ap chalti train ya urty plane sy utr sakty hain ? utrain gaye tou nateeja kia hoga ? ap behtr janty hain n ap ko b allow nae hota k chati bus sy utrna ya urty jahaz sy nikalna. both takes ur life. agr ap plane ka door open kr k nikal jain tou ap k ilawa dosron ko bhi problem, ho ge isi lye mana kia gaya hai hamari soch aik mehdood hud tak kaam krti hai us sy xiada hum nahi soch sakty. ye kainaat ye duniya sb kuch aik Khuda ki paida ki gain hain. or Islam Khuda ka wo rasta hai jis per chal kr ap apni manzil per pohnchty hain. agr tujhy mout per yaqeen hai tou us waqt tak sbr kr lay phir teri soch k parday khud he wasee ho jain gay pr afsoos us waqt touba ka darwaza bund hojaye ga.

  9. Or han jahan tak kam aqal ki baat kr raha hai tujhy Hazrat Ali R.A k ilm or danishwari ka andaza nae ?? agr ye 313 itny he kum aqal or credulous thay tou wo hazaron pay ghalib kaisy aa gaye ? hr doar main tery jaisy fitna phailany waly criticisers hotay hain jo hr cheez main aib dhoondty hain. Agr khuda ka wajood janna chahta hai tou sb chor apny under jhank k daikh tujhy tery under sy he hidayat mil sakti hai agr Khuda chahy tou. agr hum maan bhi lain k ye jism kisi taghaiuraati act ka nateeja hai jaisa Darwon theory main hai tou rooh kahan sy aai ? rooh ko kis nay paida kia kia ye bhi kisi taghaiurati act ka nateeja hai ?? ya marnay k baad bta rooh kahan jati hai ? agr koi jandar tabai mout marta hai tou us k jism sy rooh parwaz kr jati hai tu mujhy bta kon hai jo jandaron main rooh dalta hai rooh nikalta hai. bhool gay hazrat Eesa A.s ka moajza. wo murdon main rooh daal daity thay or tableegh khuda ki krty thay . tujhy lagta hai tu jitny b musalman guzry hain ya jo bhi insaan jo khuda per yaqeen rakhty thay un sb sy xiada zaheen hai ?? nae balky such ye hai tu gumrahi main hai or baqi sb sahi thay. khair dosron ko gumrah kry sy pahly khud ka soch.

  10. Some people asked the Prophet about spirit. He did not answer, waiting for revelation. The revelation which was sent down was quite clear. “Say, ‘The Spirit (cometh) by command of my Lord’.” The existence of the spirit was confirmed, yet its essence was not explained because it was impossible for the people to comprehend it. Human mind was incapable of comprehending a being from the “metaphysical world.”

    Metaphysical world is the world of beings which are freed from size, weight, form and color. Words which are used to describe beings, such as long, short, blue, yellow, rounded, straight, heavy, light and etc, do not have equivalents in the metaphysical world. We do not know the spirit itself. Yet we can converse about some of its characteristics. When the body reaches a certain growth in mother’s womb, it is given a spirit.

    The spirit, which is the sultan of body, is a conscious, luminous, live being with an external existence. It was created later; however, it is immortal. It is one and cannot be separated or divided into pieces. It is present everywhere in the body with its effects; however, it is not limited to a specific place. It is neither inside nor outside the body. It is neither close to nor far from it. It handles everything at the same time and one thing does not hinder another. It resembles the laws in nature. If law was conscious and wore a physical body, it would be characterized as spirit. A spirit is aware of its own existence and of other beings. Life, liveliness, breath, Gabriel…”, “A law which has got an independent being”. “A law from metaphysical world, which has been given an independent being in order to control the body. A fine being which can continue its existence even when it is separated from the body. Sight is a sense, through which the spirit watches the world like through a window. Death is for the body, not for the spirit. The body, which was created with reasons, in the course of time and by stages, starts to decay by stages and quite quickly as soon as the spirit leaves it. However, since the spirit was created without reasons and at once, it was blessed with the boon of immortality. Those who develop slowly by stages come to an end again by stages. The spirit is not bounded by that rule. The spirit will live eternally thanks to Allah’s making it eternal and that He will not take this boon bestowed on it back. As a matter of fact, all true believers’ spirits will be victorious over their bodies in that land of bliss. However, the state of those who had this honor in this world will be much more different than the others in the afterlife.

    Alaaddin Başar (Ph. D(

  11. محترم دوستو …
    یہ سپر نیچرل یا پیرا نارمل کچھ بھی نہیں ہوتا .. صرف اور صرف انسانی وہم یا نفسیاتی بیماری کی وجہ سے ایسا دھوکہ ہوتا ہے.

    ایک مدت سے مختلف آرگنائزیشنز نے کافی بڑا انعام، رکھ چھوڑا ہےاس پر جو کوئی بھی کنتروللڈ انورامنٹ میں اس کو ثابت کر سکے . روح یا ارواح کا نظریہ سراسر انسانی تخیل کی پیداوار ہے .

    مزید تفصیل کے لیے لنک پر کلک کریں .
    http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_prizes_for_evidence_of_the_paranormal

جواب دیں

42 Comments
scroll to top