Close

حماقت کا دائرہ کار (حصہ دوم)۔

حصہ دوم

 

گزشتہ سے پیوستہ

 

جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی صاحب عقل کے دھوکے کی جو واحد مثال تاریخ سے ڈھونڈ کے پیش کرتے ہیں ، حد درجہ واہیات ہے ۔ ملاحظہ ہو

بہن سے نکاح خلافِ عقل نہیں: آج سے تقریبا” آٹھ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں ایک فرقہ پیدا ہوا جسکو باطنیہ کہتے ہیں اور اسکا مشہور لیڈر عبیداللہ بن حسن قیروانی اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کی بابت ہدایات دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ گھر میں ایک بڑی خوبصورت باسلیقہ بہن موجود ہے جو بھائی کے مزاج کو بھی سمجھتی ہے تو یہ کہاں کی عقل ہے کہ بھائی اسکا ہاتھ کسی اجنبی کو پکڑا دے اور خودکے لئے ایسی لڑکی لے آئے جو عین ممکن ہے حسن و جمال اور سلیقہ شعاری و مزاج شناسی میں بہن سے کمتر ہو، چنانچہ بے عقلی سے اجتناب کرتے ہوئے گھر کی دولت گھر ہی میں رکھیں۔ کیا وجہ ہے کہ جب ایک بہن اپنے بھائی کے لئے کھانا پکا کے اسکی بھوک دور کر سکتی ہے، اسکی راحت کے لئے اسکے کپڑے دھو، بستر درست کر سکتی ہے تو اسکی جنسی تسکین کا سامان کیوں نہیں کر سکتی۔ یہ عقل کے خلاف ہے۔
آپ اسکی بات پر جتنی لعنت بھیجیں لیکن میں (مولانا تقی عثمانی) یہ کہتا ہوں کہ خالص عقل جو وحی الٰہی کی راہنمائی سے آزاد ہو ، جسکو وحی الٰہی کی روشنی میسر نہ ہو۔ اس عقل کی بنیاد پر آپ اسکے اس استدلال کا جواب دیں، خالص عقل کی بنیاد پر قیامت تک اسکے استدلال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔یعنی مذہب اور وحی الٰہی ہی انسانوں بشمول مولانا صاحب کو روکے ہوئے ہے کہ اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے جنسی تعلقات استوار نہ کریں۔ اگر وحی الٰہی نے راہنمائی نہ کی ہوتی تو مولانا صاحب کی عقل اس گھناؤنے فعل میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتی؟ اگر وہ مسلمان نہ ہوتے تو اپنی ہمشیرہ سے عقد میں انکو کوئی عقلی برائی یا معاشرتی عیب نظر نہ آتا؟

کیا مولانا صاحب کی عقل کو یہ دلیل کافی نہیں کہ یہ ایک غیر فطری، گھناؤنا، مکروہ، شرمناک اور نقصان دہ فعل ہے؟
صرف مذاہب ہی نے اس فعلِ مکروہ کی مذمت نہیں کی بلکہ زمانہ قدیم سے ہی یہ برا اور ممنوع قرار چلا آرہا ہے۔ لادین معاشروں میں بھی یہ ممنوع اور اخلاقی جرم کا درجہ رکھتا آیا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ایسا ہوا نہیں، فاسد عقل اور کرپٹ ذہنیت کی کچھ مثالیں ملتی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ ہر طرح کے مذہبی یا لادین معاشرے میں ایک عیب ، برائی اور جرم تصور کیا جاتا رہا ہے اور یہی اُس اجتماعی شعور اور اجتماعی عقل کا مظاہر ہ ہے جسکا ذکر اس ناچیز نے اوپر کیا ہے۔

فرماتے ہیں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ تو بڑی بداخلاقی کی بات ہے، بڑی گھناؤنی بات ہے تو اسکا جواب موجود ہے کہ یہ بداخلاقی اور گھناؤنا پن سب ماحول کے پیدا کردہ تصورات ہیں۔ آپ ایسے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے اسلئے آپ اسکو معیوب سمجھتے ہیں ورنہ عقلی اعتبار سے کوئی عیب نہیں۔

گھناؤنے، مکروہ اور شرمناک والی دلیل کو مولانا صاحب ماحول میں رائج تصورات کی پیداوار قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ماحول میں رائج تصورات کہاں سے پیدا ہوتے ہیں؟ مولانا صاحب۔ ۔ ۔ اپنی تحریر کو پڑھا بھی کرتے ہیں آپ؟ تصور، خیال، ادراک، وہم، گمان یہ سب کہاں سے آتے ہیں؟ صاحب، ان چیزوں کا ماخذ عقل اور سوچ بچار ہی ہے۔

اس فعل کے غیر فطری ہونے سے تو جانور بھی آگاہ ہیں اور حتی الوسع اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ بہت سے تو اس سے بچنے کے لئے اپنے طرزِحیات کو ایک ایسے انداز سے منظم کرتے ہیں کہ جسمیں اس فعل سے ہرممکن حد تک بچا جا سکے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کی عقل کو البتہ اسے سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے چنانچہ وحی الٰہی کی راہنمائی نہ ہوتی تو جانے کیا غضب ہو گیا ہوتا۔
جہاں تک تجربے اور سائنس کا تعلق ہے تو یہ بھی عقل، مشاہدے اور معاشرے میں رائج تصورات کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔
مولانا صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بھی ہیومن ارج (فطری خواہش) کا حصہ ہے۔مولانا صاحب کا یہ دعویٰ کہ اپنی ماں بہن سے شادی کی خواہش انسان کا فطری تقاضاہے، ہمیں چکرائے دے رہا ہے اور اسکے تصورکرنے کا بھی خالی تصور ہی ہمارے ضمیر کو کانٹوں پہ گھیسٹے دے رہا ہے چنانچہ ہم تو انکے اس بیہودہ اور شرمناک دعوے کا فیصلہ قارئینِ کرام پہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے لئے تو اس پہ سوچنا بھی اپنے عقل و شعور اور انسانیت کو لہولہان کرنے کے مترادف ہے۔
آگے چل کے ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔ اگر آپ کہیں کہ اس سے طبی طور پر نقصانات ہوتے ہیں لیکن آپکو معلوم ہے کہ آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں کہ استلزاد بالاقارب انسان کی فطری خواہش کا حصہ ہے اور اسکے جو طبی نقصانات بیان کئے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں ۔

قریبی رشتہ داروں میں ازدواجی تعلقات کے شدید اور ثابت شدہ طبی نقصانات ہیں۔ یعنی باپ بیٹی، ماں بیٹے یا بھائی بہن کے درمیان اسطرح کے تعلق کے صورت میں پیدا ہونے والی نسل میں جینیاتی خرابی کے 25 فیصد(1/4) چانسز ہیں اور یہ بھی صرف اس صورت میں کہ ایسا اس بلڈ لائن میں پہلی بار ہو رہا ہو، ورنہ یہ امکانات شارحانہ یعنی ایکسپونینشئلی بڑھیں گے۔
فرسٹ کزن کا رشتہ یعنی قریبی رشتہ داری تو مولانا صاحب کی وحی الٰہی بالکل حلال قرار دیتی ہے جبکہ روز مرہ کا تجربہ و مشاہدہ تو اسکے برعکس نتائج دیتا ہے۔ عقل اور تجربہ بتاتا ہے کہ ازدواجی تعلق کے لئے اپنے خون سے جتنا دور جائیں گے اتنا ہی جینیاتی خرابیاں پھیلنے کے امکانات کم ہوں گےاور جتنا خون کے رشتے کے نزدیک ہوں گے اتنا ہی امکانات میں اضافہ ہوگا۔ معلوم نہیں تقی عثمانی صاحب نے کونسی کتب کا مطالعہ کیا ہے یا کس مغربی گروہ سے اکتساب فیض حاصل کیا ہے کہ جسکی مدد سے انکو یہ پتہ چلا کہ اس فعل کے کوئی طبی نقصانات نہیں ہیں اور یہ انسان کی فطری خواہش کا حصہ ہے۔ انکو اپنے اس دعوے کا ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہئے تھا چنانچہ میری درخواست ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کا مستند یعنی ثابت شدہ حوالہ پیش کریں، تب تک کے لئے یہ احقر انکے اس دعوے کو ننگا جھوٹ ہی قرار دے گا۔
مولانا صاحب کے منافقانہ مذہب کی تعلیمات ایک طرف محرم سے جنسی تعلقات کی ممانعت کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف انکے نزدیک خود انکے جدِ امجد اسکے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور نوعِ انسانی کی ابتداء ہی incest سے ہوئی ہے۔ ایک طرف مولانا صاحب کا آسمانی مالک ایک ہی جوڑا پیدا کر کے افزائشِ نسل کے لئے بھائی بہن کی باہم شادیاں کرنے پر مجبور کر رہا ہے حالانکہ ایک قادرِ مطلق خدا کو کس چیز نے روک رکھا تھا کہ دو مختلف جوڑے پیدا کر دیتا اور انکو اس فعلِ مکروہ و مضر سے بچا لیتا اور ایسی گھناؤنی مثال ہی قائم نہ ہوتی۔ ۔ ۔ کہیں عبیداللہ بن حسن قیروان نے بھی یہ دلیل خود خدا کے منظور اور نافذ کردہ اس مذموم فعل سے تو نہیں لی تھی؟

جاری ہے

 

حصہ سوم

 

4 Comments

  1. ابو الحکم صاحب اگر دنیا میں آپ کی خواہش کے مطابق کوئی مذہب نہ ہوتا تو انسانیت اور حیوانیت میں کوئی فرق نہ ہوتا. بقول آپ کے چیلے کے آپ نے دوٹوک جواب فراہم کیا ہے تو ذرا یہ ثابت کر دیں.
    "اس فعل کے غیر فطری ہونے سے تو جانور بھی آگاہ ہیں اور حتی الوسع اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ بہت سے تو اس سے بچنے کے لئے اپنے طرزِحیات کو ایک ایسے انداز سے منظم کرتے ہیں کہ جسمیں اس فعل سے ہرممکن حد تک بچا جا سکے”

    1. محترم، آپ سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو "پڑھنے” کا کشٹ کرئیے۔ اس تحریر کے اندر ہی دو عدد ربط دئیے گئے ہیں کہ جن میں آپکے اس سوال کا جواب بھی موجود ہے جبکہ تھوڑی سی مزید تحقیق سے آپکو مفصل جواب بھی خود ہی مل جاتا، اس ضمن میں اور بھی کافی مواد موجود ہے۔ جراتِ تحقیق پہ جو تحاریر شائع کی جاتی ہیں اسمیں حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ حوالہ جات بھی بیان کر دئیے جائیں۔ اسلئے کوشش کیا کیجئے کہ پہلے اچھی طرح "خلوصِ نیت” کے ساتھ مطالعہ کر لیں، اور دئیے گئے روابط بھی ملاحظہ فرما لیں، اگر پھر بھی ذہن میں کوئی سوال اٹھے تو جراتِ تحقیق ڈسکشن فورمز پہ تشریف لا کے ایک صحتمندانہ مباحثے کا آغاز کیجئے۔

جواب دیں

4 Comments
scroll to top