Close

مذاہب کی میتھالوجی

اگر آج کے مذاہب کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو معلوم پڑے گا کہ ان کی بہت ساری صفات باہم مشترک اور ایک جیسی ہیں، اور کچھ نہیں تو اس سے انسان کے مزاج کا ایک معمولی سا تکوینی نقص ضرور ابھر کر سامنے آتا ہے جسے ارتقاء اور علوم کی طاقت ابھی تک ختم نہ کر سکی اور وہ ہے اطمینان اور یقین کی شدید خواہش.

تاریخ ایسے مذاہب سے بھری پڑی ہے جو مر کر ناپید ہوگئے کیونکہ ان کے ماننے والوں کا ان پر سے اعتقاد اٹھ گیا، جب مذہب مر کر ختم ہوتا ہے اور اسے کوئی ماننے والا نہیں رہتا تب یہ جدید مفہوم میں "میتھالوجی” بن جاتا ہے جیسے مشہور ومعروف یونانی میتھالوجی جو اب صرف قصے کہانیوں اور قدیم خرافات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے جنہیں بچوں کو سلانے کی غرض سے نیند سے پہلے سنایا جاتا ہے.

ایسے ہی مذاہب میں جو اب محض افسانوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں قدیم مصری مذہب ہے جو فوت ہوکر ختم ہوچکا ہے، اسی قدیم مصری مذہب سے ملتا جلتا ایک قرطاجی مذہب بھی ہے جو تمام ہوچکا ہے، روم کا قدیم مذہب بھی قصہء پارینہ بن چکا ہے جبکہ قدیم طاوی مذہب تیزی سے ناپیدگی کی طرف گامژن ہے تاہم جو بات زیادہ تر عام لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ آج بھی لوگوں کے درمیان رائج بیشتر خرافات جنہیں وہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی مطلق حقیقت سمجھتے ہیں دراصل ناپید ہونے والے انہی پرانے مذاہب کی باقیات ہیں جن پر زمانے کے حساب سے کچھ ٹوٹے لگا انہیں خوشنما بنا دیا گیا ہے.

کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آخر یہ پرانے مذاہب ناپید ہوکر خرافات میں کیسے تبدیل ہوگئے؟ کیا اس لیے کہ یہ غیر حقیقی مذاہب تھے اور اب خدا نے حقیقی مذاہب نازل کردیے ہیں؟ جواب یقیناً نفی میں ہے، یہ مذاہب اس لیے ناپید ہوگئے کیونکہ ان سے زیادہ طاقتور لوگوں کے مذہب نے ان پر قبضہ کر کے ان پر اپنی نئی فکر تھوپ دی مثال کے طور پر فرعونی مصر پر بازنطینی سلطنت نے قبضہ کر کے اپنا آرتھوڈکس عیسائی مذہب تھوپ دیا یا پھر اس لیے کہ پرانا مذہب تقلباتِ زمانہ کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے اس کے ماننے والے اپنے آپ کو اپڈیٹ کرنے پر مجبور ہوگئے اور پھر وقت کے ساتھ وہ مذہب ناپید ہوگیا یا پھر اس لیے کہ نیا مذہب پرانے سے زیادہ طاقتور تھا، اس کی قریبی مثال ہسپانویوں کی ہے جب وہ اسلحے اور گھوڑوں سمیت جنوبی امریکہ پہنچے تو وہاں کے اصل شہریوں پر واضح ہوگیا کہ ہسپانویوں کا نیا خدا ان کے پرانے خداوؤں سے زیادہ طاقتور ہے چنانچہ انہوں نے اپنا پرانا دین چھوڑ کر عیسائیت کو اپنا لیا.

انسانی دماغ کے پاس یقین کرنے، اعتقاد رکھنے اور ایمان کی بڑی صلاحیت ہے چاہے یہ عقیدے ہمارے آج کے زمانے کے حساب سے کتنے ہی بوسیدہ کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ حقیقت میں کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہوتا ہے جو اسے بعد از مرگ بھی زندگی دے سکے اور اس مراد کے لیے چاہے اسے اپنے آپ کو کسی فریب سے ہی کیوں نہ قائل کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج بھی ایسے ہزاروں عقیدے موجود ہیں جو ایک دوسرے سے نہ صرف متصادم ہیں بلکہ ایک دوسرے کا اعتراف تک نہیں کرتے… غور طلب بات یہ ہے ماضی کے ہزاروں مذاہب کا زندگی کے آغاز کے حوالے سے اپنے اپنے الگ نظریات تھے اور ہر فریق کو اپنے نظریے کی درستگی کا ایمان کی حد تک یقین تھا چنانچہ کسی کا خیال تھا کہ ہم کینگرو کی نسل سے ہیں جیسا کہ اسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا عقیدہ تھا یا ہم روحوں کی Reincarnation کا نتیجہ ہیں کہ آج کی بلی مر کر ہاتھی کی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ آدم اور حواء ہی اصل ہیں جبکہ اصل میں ان میں سے کسی بھی تاویل کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کچھ عرصہ قبل میں اپنے ایک ذرا آزاد خیال دوست سے گفتگو کر رہا تھا، اس نے بتایا کہ اصل میں نظریہ ارتقاء قرآن سے متصادم نہیں ہے!!! یہ یقیناً ایک مذہب کی ناپیدگی کی علامت ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی زمانے سے ہم آہنگی کی کوشش میں مذہب میں تبدیلی کرنا.

جب انسان کی عقل یہ سمجھنے لگے کہ صرف اسی کے پاس ہی مطلق حقیقت ہے تو یقیناً اسے باقی لوگ غلطی پر نظر آئیں گے یہی وجہ ہے کہ سنی اور شیعہ کی بحث کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ ہر کوئی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے جبکہ عیسائی ان دونوں پر ہنس رہا ہوتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ دونوں غلطی پر اور وہ حق پر ہے جبکہ بہائی ان تینوں کو دیکھ کر ان کی بے وقوفی پر دل ہی دل میں ہنستا ہوگا اور پتہ نہیں ہندو کیا سوچتا ہوگا..؟!

مذاہب اندھیری جگہوں پر ہی پنپتے ہیں جہاں جہالت ناچ رہی ہو تاہم انٹرنیٹ اور جدید میڈیا کی آمد سے ان کا پھیلاؤ کسی حد تک رک گیا ہے اور جلد ہی مذہب کے پیڑ کا آخری پتہ بھی گر جائے گا جس نے مذہبی فکر کی شرمگاہ کو چھپا رکھا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ مذاہب کی زیادہ سے زیادہ بقیہ عمر دو سو سال سے زیادہ نہیں تب آج کے بڑے مذاہب کا انجام بھی اپنے سابقہ مذاہب سے مختلف نہیں ہوگا کہ تاریخ کسی افسانے پر رحم نہیں کرتی…

7 Comments

  1. مذاہب کا تعلق روحانی طلب سے بھی ہے. یہ صرف بعد از مرگ زندگی سے ہی تعلق نہیں رکھتا جیسا کہ ہندئووں کے سلسلے میں انکا تناسخ کا عقیدہ دیکھتے ہیں بلکہ یہ انسان کی دیگر تمنائووں سے بھی جڑا ہوا ہے. جیسے مطلق محبت، مطلق انصاف. خدا کے علاوہ انسان کسی ایسی مطلق ہستی کا سوچ نہیں پاتا جو ہر مشکل گھڑی میں اسکے ساتھ ہو، جو دکھ کا ہر لمحہ سمیٹ لینے کا کہتا ہو، جو اس بات کو دہراتا ہو کہ جب تم دنیا سے ناکام ، نامراد واپس آئوگے، جب تم اس طرح آئوگے کہ لوگوں نے تمہارے جسم کو آروں سے چیر دیا ہوگا، جب تم اس طرح آئوگے کہ تمہارے ہاتھ اپنے قاتل کے دامن کو چھونے میں ناکام ہونگے تو اس وقت صرف میں ہونگا جو تمہیں وہ انصاف دونگا جو تمہیں چاہئیے ہوگا.
    جب تک دنیا میں انصاف عام نہیں ہوتا اور جب تک انسان اپنے دل سے تمام نفرت کو دھو نہیں ڈالتا ، تب تک خدا مذہب کے ذریعے وعدے کرتا رہے گا اور جب تک انسان مجبور مھض رہے گا وہ اس وقت تک اعتبار کرتا رہے گا.
    اس لئے یہ کہنا صحٰیح نہیں ہوگا کہ مذہب ختم ہوجاءے گا. یہ شاید ہو کہ انسان روحانیت کی نئ جہتوں کو جان سکے. جو اس کے اندر وہ اخلاقی خوبیاں پیدا کر سکے جو مذہب کوشش کے باوجود اب تک نہیں کر سکا. خدا کے تصور کے بغیر اس وسیع کائنات میں انسان تنہائ کے احساس سے ہی ختم ہوجائے گا.

  2. مذہب کے خلاف ایسے خیالات کو غذا ان فرسودہ نظریات سے ملتی ہے ؛ جن میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء، فرائڈ کا نظریہ جنس، مارکس اور اینجلز کے معاشی نظریات اور ڈرخم کے عمرانی نظریات شامل ہیں؛ جن کی سائنسی اساسات کے انہدام پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹرک گلائن کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے:

    پچھلے دو عشروں کی ریسرچ نے جدید سیکولر اور ملحد مفکرین کی پچھلی نسل کے تمام مفروضات اور پیش گوئیوں کو گرا کر رکھ دیا ہے جو انہوں نے خدا کے وجود کے بارے میں قائم کئے تھے۔ جدید (ملحد) مفکرین نے یہ فرض کر رکھا تھا کہ سائنس پر مزید تحقیقات اس کائنات کو بے ترتیب (Random) اور میکانکی ثابت کردیں گی؛ لیکن اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو غیر متوقع طور پر ایسا منظم نظام ثابت کیا ہے جو کہ ایک ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ ماڈرن (ملحد) ماہرین نفسیات یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مذہب محض ایک دماغی خلل یا نفسیاتی بیماری ثابت ہو جائے گا لیکن انسان کا مذہب کے ساتھ تعلق مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں دماغی صحت کا اعلیٰ ترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو ابھی صرف چند لوگ ہی تسلیم کر رہے ہیں لیکن یہ بات اب واضح ہو جانی چاہئے کہ مذہب اور سائنس میں ایک صدی کی بحث کے بعد اب پانسہ مذہب کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ڈارون کے نظریے کے فروغ کے دور میں ، ملحدین اور متشککین جیسے ہکسلے اور رسل یہ کہہ سکتے تھے کہ زندگی اتفاقی طور پر وجود میں آئی اور کائنات محض ایک اتفاق ہی سے بنی۔ اب بھی بہت سے سائنس دان اور دانشور اسی نقطہ نظر کو مانتے ہیں لیکن وہ اس کے دفاع میں اب بے تکی باتیں کرنے پر ہی مجبور ہیں۔ آج حقائق کے مضبوط اعداد وشمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے موجود ہونے کا نظریہ ہی درست ہے۔

    (Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 1997, pp.19-20, 53)

  3. جدید دنیا میں جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔ مگربیسویں صدی میں فلکیات (Astronomy) کے میدان میں جدید علمی تحقیقات نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ 1929 میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ اس سے سائنس دانوں نے یہ اخذ کیا کہ ماضی میں کسی وقت یہ کہکشائیں اکٹھی تھیں۔ اس وقت یہ کائنات توانائی کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھیں جو ایک بہت عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں مادے کی صور ت اختیار کرگیا۔ملحد مفکرین نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کردیا لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے اس نظریے کو تقویت دی۔ 1960 کے عشرے میں دو سائنس دانوں ارنو پینزیاز اور رابرٹ ولسن نے دھماکے کے نتیجے میں بننے والی Cosmic Background Radiation کو دریافت کیا۔ اس مشاہدے کی تصدیق 1990 میں Cosmic Background Explorer Satellite کی ذریعے کی گئی۔ اس صورتحال میں انتھونی فلیو جو کہ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر ہیں، کہتے ہیں:

    اعتراف روح کے لئے اچھی چیز ہے۔ میں اس اعتراف سے آغاز کرتا ہوں کہ علم فلکیات میں اس اتفاق رائے سے ایک ملحد کے نظریات پر زد پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات دان اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو سینٹ تھامس فلسفیانہ طور پر ثابت نہ کرسکے یعنی یہ کہ اس کائنات کی کوئی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ اطمینان رکھتے تھے کہ اس کائنات کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام—— اب یہ کہنا بگ بینگ تھیوری کے سامنے آسان نہیں ۔

    (Henry Margenau, Roy Abraham Vargesse, Cosmos, Bios, Theos, La Salle IL: Open Court Publishing, 1992, p.241 )

    جان میڈکس جو کہ ایک ملحد ہیں اور Nature کے نام سے رسالہ نکالتے ہیں نے اس نظریے کو اس بنیاد پر رد کر دیا کہ اس سے خدا کو ماننے والوں کو حجت مل جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ نظریہ دس سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا لیکن مزید تحقیقات نے اس نظریے کو اور تقویت دی۔ برطانوی ملحد اور ماہر طبیعات ایچ پی لیپسن لکھتے ہیں:

    میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ قابل قبول تشریح یہی ہے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ملحدین کی زبان بند کردے گی جیسا کہ میرے ساتھ ہوا لیکن ہمیں کسی چیز کو صرف اس بنیاد پر رد نہیں کردینا چاہئے کہ ہم اسے پسند نہیں کرتے اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ اسے ثابت کررہاہو۔

    (H. P. Lipson, "A Physicist Looks at Evolution”, Physics Bulletin, vol. 138, 1980, p. 138)
    حوالہ :‌http://www.mubashirnazir.org/ER/L0001-05-Ateism.htm

  4. نفسیات کے میدان میں الحاد کی اساسات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر قائم تھیں جو کہ آسٹریا کے ماہر نفسیات تھے۔ فرائڈ مذہب کو محض ایک نفسیاتی بیماری قرار دیتے تھے او ران کا خیال یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جیسے جیسے ترقی کرے گا، یہ مرض دور ہوجائے گا۔ ماہرین نفسیات میں الحاد بہت تیزی سے پھیلا۔ 1972 میں امریکن سائکالوجی ایسوسی ایشن کے ممبرز کے مابین ایک سروے کے مطابق ماہرین نفسیات میں صرف 1.1% ایسے تھے جو کسی مذہب پر یقین رکھتے ہوں۔ انہی ماہرین نفسیات نے طویل عرصے تک لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے قائم کی، وہ پیٹرک گلائن کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:

    نفسیات کے میدان میں پچیس سالہ ریسرچ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فرائڈ اور ان کے پیروکاروں کے خیال کے برعکس ، مذہب پر ایمان ذہنی صحت اور خوشی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ ریسرچ پر ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب پر ایمان اور اس پر عمل انسان کو بہت سے غیر صحت مندانہ رویوں جیسے خودکشی، منشیات کے استعمال، طلاق، ڈپریشن اور شادی کے بعد جنسی عدم تسکین سے بچاتا ہے۔ مختصراً، مشاہداتی ڈیٹا پہلے سے فرض کردہ سائیکو تھیراپک اجماع سے بالکل مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔

    Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 1997, pp.60-61)

  5. معاشیات کے میدان میں الحاد کی سب سے بڑی شکست کمیونز م کا زوال ہے۔ کمیونزم جو دنیا میں الحاد کا سب سے بڑا داعی تھا، بالآخر اپنے دو بنیادی مراکز روس اور چین میں دم توڑ گیا۔ لینن نے اپنے تئیں خدا کو سوویت یونین سے نکا ل دیا تھا لیکن خدا نے اس کے غرور کا خاتمہ کر ہی دیا۔ کمیونزم کے آخری دور میں روسی عوام اور آخری صدر گوربا چوف کو خدا کی ضرورت بری طرح محسوس ہوئی۔ سیاسیات کے باب میں الحاد کی بنیاد پر بننے والے نظریات فاشزم وغیرہ بھی دم توڑ گئے۔

    معاشریات یا عمرانیات (Sociology) کے اعتبار سے الحاد اہل مغرب کو سکون فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بے سکونی اس قدر بڑھی کہ وہاں ہیپی تحریک نے فروغ پایا جو دنیا کی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر منشیات کے نشے میں مست پڑے رہتے اور سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتے حتیٰ کہ بعض تو اسی حالت میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔

    یہ چند مثالیں ہیں جو بیسویں صدی کی جدید سائنسی تحقیقات کی نتیجے میں الحادی نظریات کی تردید میں آپ کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان میں سے اگر صرف کائنات کے توازن اور اس کے عین انسانی ضروریات کے مطابق ہونے ہی کو لیا جائے تو خدا کے وجود کا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس میں بعض چیزیں تو اتنی بدیہی ہیں کہ ان کوجاننے کے لئے کسی سائنسی تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ دیہات میں رہنے والے عام انسان بھی ان کو سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں تفصیلی سائنسی دلائل کی بجائے بالعموم ایسی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے جو ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں۔

    دور جدید میں کائنا ت کا علم یعنی فلکیات ہو یا انسان کی اپنی ذات کا علم یعنی حیاتیات و نفسیات، جیسے جیسے انسان پر حقائق منکشف ہو رہے ہیں ، وہ جانتا جارہا ہے کہ واقعی اس کائنات کا خدا اور اس کا کلام حق ہے۔ سَنُرِیہِم اٰیٰتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنفُسِہِم، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُم اَنَّہُ الحَقُّ (حم سجدہ 41:53) ’’ہم عنقریب انہیں(انسانوں کو) اس کائنات اور اور خود ان کی ذات (جسم وروح) میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ (قرآن) حق ہے۔‘‘

    اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اثبات خدا سے متعلق سائنسی دلائل دیتے ہوئے ہمیں صرف ان چیزوں سے استدلال کرنا چاہئے جن کی حیثیت سائنس میں حتمی قانون (Law) یا مسلمات کی ہو۔ اگر ہم بھی ملحدین کی طرح محض سائنسی نظریات (Theories) سے استدلال کرنے لگیں گے تو عین ممکن ہے کہ کل وہ نظریات بھی غلط ثابت ہو جائیں اور ہمارا استدلال غلط قرار پائے۔

    حوالہ: http://www.mubashirnazir.org/ER/L0001-05-Ateism.htm

    1. عبدالرؤف صاحب آپ نے تو تقریباً پورا مضمون ہی یہاں کاپی کرڈالا ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے بوگس مضامین میں نے نہیں پڑھے یا یہ مضمون میری نظر سے نہیں گزرا؟ سارا مضمون یہاں کاپی کرنے کی بجائے آپ محض ربط دے کر میری توجہ مبذول کرا سکتے تھے سارا مضمون یہاں کاپی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ سپیمنگ کر رہے ہیں؟

      براہ کرم خود سے سوالات کریں ادھر ادھر کے مضامین کاپی پیسٹ کرنے سے گریز کریں کہ اس سے اردو کی کوئی خدمت نہیں ہوتی الٹا ڈپلیکیٹ متن جنریٹ ہوتا ہے.. 🙂

جواب دیں

7 Comments
scroll to top