Close

اوکیم کا نشتر

اوکیم کا نشتر علم منطق کا ایک مشہور اصول ہے جو انگریز فلاسفر اور منطق دان ولیم آف اوکیم کا وضع کردہ ہے، اس اصول کو تمام علمی وتحقیقی میدانوں میں استعمال کیا جاتا ہے، حال ہی میں سائنس فکشن فلم کانٹیکٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس اصول کا استعمال بخوبی دکھایا گیا ہے، علم منطق میں اس اصول کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جس کے مطابق کسی بھی چیز کی آسان ترین توجیہ ہی ہمیشہ درست ہوتی ہے اور جب تک ضرورت نہ ہو معاملے میں کسی طرح کی پیچیدگیاں اور مفروضے شامل نہیں کیے جانے چاہئیں مزید برآں کوئی بھی ایسا دعوی جس کی استدلال سے نفی نہ کی جاسکتی ہو باطل ہے، اس اصول کے پہلے حصے کی ایک مثال یوں دی جاسکتی ہے:

پہلا مفروضہ: ایک کائنات ہے.
دوسرا مفروضہ: ایک کائنات ہے اور ایک خدا ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے.

جیسا کہ واضح ہے پہلا مفروضہ دوسرے مفروضے سے زیادہ آسان ہے جس کا مطلب ہے کہ پہلا مفروضہ ہی پسندیدہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرا مفروضہ لازماً غلط ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اسے ایک ثابت شدہ نظریے کے طور پر قبول نہیں کر سکتے، اوکیم کے مطابق اس کے اس اصول سے خدا کے وجود کی تمام تر دلیلیں ساقط ہوجاتی ہیں حالانکہ وہ خود خدا کو مانتا اور انتہائی مذہب پرست تھا مگر اس کا ایمان منطق پر نہیں بلکہ محض ایمان ہی پر قائم تھا اس کے با وجود اس کا کہنا تھا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں نظریے میں اضافی پیچیدگیاں شامل کرنی پڑیں گی جن کی نا تو ضرورت ہے اور نا ہی یہ نظریے میں کوئی اضافہ کرتی ہیں اوپر کی مثال میں اگر ہم یہ کہیں کہ خدا نے ہی کائنات بنائی ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ خدا کو کس نے بنایا؟ یہاں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاملے میں خدا کو شامل کرنے سے نا ہی کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نا ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ کائنات کیوں موجود ہے کیونکہ خود خدا کی بھی کوئی توجیہ نہیں ہے، اوکیم کی نظر میں علم اور لاہوت دو بالکل ہی الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ خدا کے وجود کی کوئی منطقی دلیل وضع کرنا نا ممکن ہے.

اوکیم کے اصول کے دوسرے حصے کے مطابق کوئی بھی ایسا دعوی جس کی نفی نہ کی جاسکتی ہو باطل ہے، مثال کے طور پر کیمبری دور میں اگر کوئی مامل جانور مل جائے تو ہم نظریہ ارتقاء کو رد کر سکتے ہیں اور اگر تجاذب کی حامل کوئی دوسری قوت دریافت ہوجائے تو تجاذب کو رد کیا جاسکتا ہے تاہم تب تک یہی نظریات ہی درست تصور کیے جائیں گے کیونکہ انہیں رد کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے تاہم ہم ایسا دعوی کر سکتے ہیں جسے رد نہ کیا جاسکے جیسے "خدا زمان ومکان سے باہر ہے اور اسے منطقی طور پر نہیں سمجھا جاسکتا” اس طرح حجت کسی بھی طریقے سے ناقابلِ نفی اور ناقابلِ بحث ہوجاتی ہے! ایسی حجت قطعی باطل اور بکواسِ محض ہوتی ہے.. اس اسلوب کی ایک مثال یوں پیش کی جاسکتی ہے:

پہلا: میں اپنے آپ کا باپ ہوں.
دوسرا: تم اپنے آپ کے باپ نہیں ہوسکتے یہ نا ممکن ہے؟
پہلا: میں ایک خاص حالت ہوں جسے عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا.

مندرجہ بالا مثال میں ایک ایسی حجت وضع کی گئی ہے جسے دنیا کی کسی بھی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا اور وہ یہ کہ پہلا شخص عقل کی حدود سے ماوراء ہے اور اس کی حالت کو نہیں سمجھا جاسکتا یوں یہ استدلال فرسودہ اور باطل ہے.

63 Comments

  1. اب اگر اوکیم کے اصول کو ایک اور زاوئیے سے نافذ کریں تو خدا کا ہونا مددگارہے۔ کیونکہ اسکے بعد محض سبحان اللہ کہنے کی گنجائیش بچ جاتی ہے اور باقی حقائق پہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جبکہ اگر خدا کو منفی کریں تو پھر ہر طرح کی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اسکی وجہ سے ایسے ویسے ہر طرح کے علوم نکل آتے ہیں جو فساد کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر بھی کچھ انسان آسان زندگی کیوں نہیں گذارنا چاہتے۔

  2. سلام علیکم،
    میں ولیم آف اوکیم کے توحید کے معاملے جیسی منافقت کے حق میں نہیں ہوں…. انسان ایک ہی زبان سے اگر دو متضاد باتیں کہ رہا ہے تو وہ یا تو جھوٹا ہے یا پاگل ہے… اور جھوٹے اور پاگل دونوں ہی اعتبار کے قابل نہیں اور انکا استدلال سہی نہیں مانا جا سکتا…
    آپکی باتو کے جواب میں مزید کوئی فسلفہ یا استدلال بیان کرنے کا موڈ نہیں ہے. ایک بات ضرور تنگ کر رہی ہے سو وو پوچھ لوں. سوال یہ ہے کہ کیا آپکو واقعی الله کے ہونے کا یقین ہے؟ کیا آپکو واقعی لگتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بنانے والا بھی ہے جس نے اس سب کو فالتو میں نہیں بنا دیا؟ اور یہ کہ اس سب کا کوئی مقصد ہوگا؟ اگر نہیں لگتا تو آگے کی ساری باتیں بیکار ہی ہوجاتی ہیں نا؟؟؟ دنیا کے بننے کی جو کہانیاں مذہب والے بتاتے ہیں، روح، فرشتے، موت کے بعد زندگی ، جزا سزا، یہ سب کون سا اس دنیا میں نظر آتا ہے….جیسے باقی کہانیاں ویسے یہ مذہبی کہانیاں بھی ہیں اگر ان پر یقین نا ہو… جیسے کوئی fiction story ہو alice in wonderland جیسی… یا matrix جیسی… یا harry potter … یا lord of the rings … آپ کی مرضی ان سب پر ایمان لا کر اس سب concepts کو سچ سمجھ لیں یا نہیں… fiction ہو یا religion سب بکواس ہے اگر اس پر یقین نا ہو…. عقیدہ بننا یا یقین آنا کسی بھی بات پر دو میں سے ایک وجہہ سے ہو سکتا ہے…. یا تو آپ سنی سنی پر اندھا بھروسہ کر کے سچ مان لیں ….یا پھر rational logical thinking کی کسوٹی پر اس بات کو پرکھ لینے کے بعد اس پر یقین کریں
    fiction اور فلسفہ دونو انسانو کا بنایا ہوا ہے اسکا ہمکو پتہ ہے سو یہ دونو غلط اور سہی ہونے کے ٥٠-٥٠ حساب میں ہیں …ٹھیک ہے نا….مگر آپ اس پر فوکس کریے جو انسان کے اختیار اور طاقت سے باہر ہے… کیونکہ جسکو ہم نے تسخیر کر لیا اسکو change یا recreate بھی کر ہی سکتے ہیں… ذرا ایک بار سوچے کہ یہ دنیا یہ کائنات اور زندگی یہ سب خود بخود بن گئی ہے یا واقعی انکا کوئی خالق ہے….یعنی کہ کائنات خود اپنی خالق ہے یا کائنات کا کوئی خالق ہے…. یہ وو سوال ہے جسکا جواب باقی کے زندگی کے اصول بناتا ہے….جب آپ اسکا جواب ڈھونڈ لیں تب مذہبیات پر بحث کریے گا اسکے پہلے یہ ویسا ہے کہ بچے نے abc تو پڑھی نہیں اور لگا poetry کے رموز اوقاف سمجھنے….
    مذہبیت پر سارے debates کرنے والو کو یہی مشورہ ہے میرا کہ پہلے اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ خدا کو مانتے بھی ہیں یا نہیں… اگر نہیں مانتے تو کیوں فالتو کی tension اپنے سر لے رکھی ہے….کھاؤ پیو عیش کرو پا جی چار دن کی چاندنی میں ….
    اور اگر واقعی آپکی عقل خدا کے وجود کو پہچان گئی ہے تب ڈھونڈیں کہ خدا آپ سے کیا چاہتے ہے….
    اس سب کو کوئی personal hit یا کرارا طنز مت سمجھےگا بلکہ ایک sincere مشورہ سمجھےگا… کیونکہ یہ یہی ہے …میں نے بھی یہی کیا ہے اپنی زندگی کے ساتھ
    regards
    Nudrat
    .

      1. کون سا میرا اصول تھا جو میرے تبصرہ کرتے ہی ٹوٹ گیا؟؟؟
        جناب براے مہربانی بات کا جواب بات سے دیجیے نہ کہ بات کے انداز میں خرابی نکل کر بات کو گول کر دیں. اوکیم کی بات میں تضاد ہے کہ اپنے لئے تو خدا مان رہا ہے اور دوسرے کے لئے خدا کے انکار کے ثبوت دے رہا ہے! اسے double standards والے کی کیوں بات سنی جاتے؟ براے مہربانی logical answer دیجیے گا.
        آپ میرے سوال کا جواب دیں ان ادھر ادھر کی باتو میں الجھنے کی ضرورت نہی ہے خدا کے وجود کے انکار یا اقرار کا ثبوت دیں solid ، proven ، strong ، logical ، scientific ، rational باتوں سے اور please فلسفہ نہیں بگھارے گا کیوں کہ میرا اس پر کوئی یقین نہیں ہے.

  3. جناب اینڈرسن شا صاحب ؛ اول تو یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ایک کائنات ہے اور ایک خدا ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے. مگر مشکل یہ ہے کہ چونکہ کائنات (مادہ) کی موجودگی کے احساس کے سبب ہم اس کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے لہذا اس کے وجود کی علت کے لیے مادہ پرست حضرات مذہب کے حوالے سے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اہل مذہب کے خیال میں دراصل خدا نے اس مادے کو بنایا ہوگا جس سے ساری کائنات بنی ہے. مگر اسطرح سے یہ سوال اٹھے گا کہ پھر خدا کو کس نے بنایا؟ اور چونکہ خدا کی ذات کا اقرار سائنسی اصولوں کے تحت نہیں ہوتا ہے لہذا یہ بات درست ہے کہ (نعوذ باللہ) خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور مادہ ہی اصل ہے جو کہ ازل سے آپ سے آپ ہے اور ابد تک رہے گا. اور اہل مذہب نے صرف اپنے پاس سے خدا کا نظریہ گڑھ لیا ہے. مگر اس صورت میں کئ اور پیچیدہ سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے جوابات کے لیے نظریہ ارتقاء جیسے باطل نظریہ کا سہارا لیا جاتا ہے مگر پھر اہل مذہب کی جانب سے سوالات کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کے جوابات آج تک مادہ پرست نہیں دے سکے ہیں اور نا ہی دے سکتے ہیں کیونکہ انکی بنیاد ہی غلط یعنی خدا کے وجود کے انکار پر ہے!

    اب رہا یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا؟ تو اہل مذہب کے نزدیک یہ سوال ہی درست نہیں، کیونکہ مذہب کا مقدمہ یہ نہیں کہ چونکہ ہر شے کا ایک خالق ہوتا ہے چنانچہ اس کائنات کا بھی ایک خالق ہونا چاہئے۔ بلکہ مذہب کا کہنا یہ ہے کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہوتا ہے۔اس کائنات کا وجود ایک مخلوق ہے جو کہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ چنانچہ اس کا ایک خالق خدا کی صورت میں منطقی طور پر ہونا چاہئے۔اب اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ خدا بھی ایک مخلوق ہے توپھر اس سوال کا جواب تلاش کرنا پڑے گا کہ پھر خدا کا خالق کون ہے۔ بصورت دیگر یہ تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ یہ سوال ہی درست نہیں!

    اسکے بعد اہل مذہب کے نزدیک خدا کے وجود کے اقرار کے لیے مزید کسی تحقیق کی ضرورت وگنجائش ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم کسی کمپیوٹر، گھڑی ، کار وغیرہ کو دیکھتے ہیں تو کیا ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ بس ایسے ہی خود بخود بن گئی ہوں گی؟ جب عام چھوٹی موٹی اشیاء کا یہ معاملہ ہے تو پھر اتنی بڑی کائنات، جس میں سائنسدانوں کے بیان کے مطابق ایک گہرا intelligent design کارفرما ہے، کے بارے میں یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی خالق نہ ہونا ممکن ہے؟ اس بات کا 1/1,000,000,000,000,000 گمان بھی محال ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی خالق کے بن گیا ہے جبکہ سو فیصد امکانات خالق کے ہونے کے ہیں۔
    ہاں منطقی اعتبار سے دیگر سوالات جیسے خدا کا آغاز، اس کی طاقت وغیرہ ضرور پیدا ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں ہم غور کر سکتے ہیں البتہ منطقی اعتبار سے خالق کے نہ ہونے کا کوئی امکان عقلاً موجود نہیں ہے۔ ملحدین کا دعوی ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے اور یہ کائنات کھربوں امکانات (Possibilities) میں سے ایک امکان کے طور پر بس ایسے ہی randomly بن گئی، ذرا عقلی اعتبار سے ان سوالات کے جواب تلاش کیجیے:
    ۱۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم بیس تیس ہزار پتھر ہوا میں اچھالیں اور جب وہ گریں تو تاج محل تو کیا، ایک عام سا مکان بنا ہوا ہو؟
    ۲۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیاہی کو اچھالا جائےاور جب وہ کاغذ پر گرے تو غالب کی کوئی نظم لکھی ہوئی ہو؟ یا ایک بامعنی جملہ ہی لکھا ہوا ہو؟
    دراصل ملحدین منطقی اعتبار سے جب بحث کرتے ہیں تو خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات کو ففٹی ففٹی مان لیتے ہیں۔ یہیں سے اصل غلطی کا آغاز ہوتا ہے۔ عقلی اعتبار سے خدا کے ہونے کا امکان سو فیصد ہے اور نہ ہونے کا امکان ایک بٹہ ہزار کھرب بھی نہیں ہے۔

    اب آئیے اہل مذہب کے اس عقیدہ کی طرف کہ خدا کی ہستی عقل سے ماوراء ہے۔ اور اسکی دلیل یہ ہے کہ ہم مخلوق ہیں ، محدود ہیں اور وہ خدا خالق اور لامحدود ہے، اور وہ خدا ہی کیا جو مخلوق کی عقل کی پکڑ میں آجائے! ویسے بھی ہمیں اس سوال کے جواب جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے؟ خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں بہت فرق پڑتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اسی کے مطابق طے کرنا ہے لیکن خدا ازلی ہو یا نہ ہو، اس کا کوئی نقطہ آغاز ہو یا نہ ہو، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو بات سرے سے ہمارے لیے غیر متعلق ہے، اس پر بحث ایک بے کار کام ہے۔ اس وجہ سے میرے نزدیک جو لوگ خدا کے وجود کا اقرار کرنے کے باوجود بھی حادث و قدیم کی بحثوں میں پڑے ہیں، انہوں نے ایک بے کار مشغلے میں وقت برباد کیا ہے۔ اس معاملے میں درست طرز عمل وہی ہے جو کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب شیطان اس سوال پر پہنچائے تو لاحول ولا قوۃ پڑھ لی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور جو چیز ہماری عقل کی حدود سے بھی ماوراء ہے تو پھر اس میں پڑنے کا فائدہ کیا ہے؟ اگر بفرض محال خدا کا کوئی نقطہ آغاز ہو بھی تو یہ اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔

    یہ تو بات ہوئی خالصتاً عقلی بنیادوں پر۔ جو لوگ خدا کے ساتھ مکالمہ (وحی) کے قائل ہیں، ان کے لیے اس کا جواب یہ ہے کہ خود اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ وہ ازلی ہے۔ اب یہ کیسے ہے، اس میں پڑنے کی ہمیں ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک غیر متعلق بحث ہے۔
    خدا کے وجود کی جو دلیل میں نے اوپر بیان کی ہے، اسے آپ کسی کسان کے سامنے پیش کر دیجیے جو ایک لفظ پڑھنا نہ جانتا ہو یا افریقہ کے کسی قبائلی کے سامنے بیان کر دیجیے، یہ دلیل اس کی سمجھ میں آ جائے گی۔ اس کے برعکس خدا کے نہ ہونے کے جو دلائل ملحد فلسفی بیان کرتے ہیں ، وہ تو خودان کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتے ہیں۔ تو کسی دوسرے کی سمجھ میں کیا آئیں گے؟

    بقول شاعر ( اکبر الہ آبادی) :

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
    ڈور کو سُلجھارہا ہے اور سرا ملتا نہیں
    معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
    شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتہ ملتا نہیں
    غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
    عاقلوں کو بے غمِ عقبیٰ مزا ملتا نہیں
    کشتیِ دل کی الٰہی بحر، ہستی میں ہو خیر
    ناخدا ملتے ہیں لیکن باخُدا ملتا نہیں
    زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
    اُن کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں
    صرف ظاہر ہو گیا سرمایہ زیب و صفا
    کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
    پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
    کوہساروں میں نشانِ نقش پا ملتا نہیں

    1. گذشتہ سے پیوستہ …
      انسانی شعور حواس خمسہ کا تابع ہے اور انسانی علم مشاہدات و دریافت پر مبنی کتب اور سائنسی ایجادات و آلات کا محتاج ہے اس لیے بھی وہ خدا کی ذات کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ کہ حواس خمسہ خود سے کچھ نہیں کرتے بلکہ یہ اسٹیتھو اسکوپ یا لینس یا دور بین کی قسم کی طرح کی چیزیں ہیں۔ اصل چیز انسانی عقل ہے جو ان حواس خمسہ سے حاصل کردہ معلومات سے نتائج اخذ کرتی ہے۔ جیسے ہماری جلد ہوا کو محسوس کرتی ہے، تو ہماری عقل یہ نتیجہ اخذ کر لیتی ہے کہ ہوا موجود ہے، بالکل ویسے ہی کائنات کی موجودگی ہی اس کے ایک خالق کے ہونے کا ثبوت ہے۔سائنسدان عقل ہی کی بنیاد پر توانائی کے وجود کو مانتے ہیں ورنہ حواس سے وہ محسوس نہیں ہوتی۔ (نوٹ: انسان کی محدودیت کا یہ مطلب لیا جانا غلط ہے کہ اللہ کی تخلیق میں نقص ہے، بلکہ اپنی جسامت و صلاحیتوں کے حساب سے یہ دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں اللہ کی اشرف المخلوقات ہے.)

      جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ عقل انسان کا یہ ایک ایسا جوہر ہے جو کہ تمام انسانوں میں مشترک ہے۔ جو انسان خود خدا کے وجود کو ماننا نہ چاہے ، اس کو چھوڑ کر آپ کسی بھی انسان کے سامنے اوپر دی گئی دلیلں پیش کیجیے اور کہیےکہ خدا موجود ہے تو وہ فوراً مان لے گا۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں خدا کے نہ ماننے والے چند ہی رہے ہیں جبکہ 99.99% انسان خدا کے وجود کو مانتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں اگر ملحدین کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی ہے تو اس کے اسباب کچھ اور ہیں۔ اس کی تفصیل جناب مبشر نذیر صاحب کی کتاب "الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات” میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
      کتاب کا ربط: http://www.mubashirnazir.org/ER/L0001-00-Ateism.htm

      امید کرتا ہوں کہ اللہ ان باتوں کو آپ کے دل میں اتار دے تاکہ آپ اپنی خداداد صلاحیتوں کو مثبت کاموں میں صرف کرکے دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے مستحق بنیں. آمین (نوٹ: یہ ایک انتہائی مخلصانہ دعا ہے اور اسکو میرا غرور یا تخافر نہ سمجھاجائے.)

    2. اب رہا یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا؟ تو اہل مذہب کے نزدیک یہ سوال ہی درست نہیں

      ظاہر ہے بینڈ بجتی ہے اس لیے غلط ہے 🙂

      کیونکہ مذہب کا مقدمہ یہ نہیں کہ چونکہ ہر شے کا ایک خالق ہوتا ہے چنانچہ اس کائنات کا بھی ایک خالق ہونا چاہئے۔ بلکہ مذہب کا کہنا یہ ہے کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہوتا ہے

      ویری گڈ.. پہلے فرماتے ہیں کہ ہر شے کا ایک خالق ہوتا ہے پھر فرماتے ہیں کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہوتا ہے.. حضرت دونوں باتوں میں کیا فرق ہے؟ سوائے اس کے کہ آپ نے لفظ "شے” کو لفظ "مخلوق” سے بدل دیا ورنہ سوال اور پینترا وہی پرانا ہے، الفاظ کے یہ ہیر پھیر کہیں اور چل جاتے ہوں گے ادھر نہیں چلنے والے.. 😀

      اس کائنات کا وجود ایک مخلوق ہے جو کہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے

      ویری گڈ.. آپ نے تو انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ یوں چٹکی بجا کر ہی حل کردیا.. کاش آپ ذرا جلدی پیدا ہوجاتے تو اتنے علماء وفلاسفروں کو اس قدر مغز ماری نہ کرنی پڑتی 😀 اب جبکہ آپ نے کائنات کا یہ سربستہ راز پا ہی لیا ہے تو جلدی سے کائنات کے مخلوق ہونے کا ثبوت فراہم کر کے انسانیت کا یہ عظیم مسئلہ حل کردیں.. جب آپ یہ ثابت کردیں گے تو پھر آگے بات ہوگی کیونکہ آپ کے تبصرے کے باقی حصے کا سارا انحصار اسی بات کے اقرار پر قائم ہے کہ کائنات ایک مخلوق ہے جو ثابت ہوچکی ہے چنانچہ ہمیں آپ کے ثبوتوں کا انتظار رہے گا.

      1. سبحان اللہ ، لگتا ہے کہ اتنے سارے اور طویل طویل تبصرے کوڑے کے ڈرم میں گئے اور آپ کو جواب دینے کے لیے بعد از قطع و برید کے صرف یہ تین لائنیں ملی! عربی لفظ "دین” کو انگریزی سے غلط ترجمہ کرکے اسلام کو محض ایک معمولی مذہب قرار دینا اور مذہب کےمقدمہ میں درست مفہوم سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے "شے”‌اور "مخلوق” جیسے ا لفاظ سے میں کو ہم مترادف قرار دینا ، آپ کا ہی خاصہ ہے، مجھ غریب پر تو مفت میں‌الزام لگادیا آپ نے الفاظ میں ہیر پھیر کرنے کا. ورنہ میں‌نے آپ کو صاف چیلنج کیا تھا کہ آپ "خدا” کو پہلے "مخلوق” ثابت کردیں پھر ہم اسکا بھی خالق تلاش کر لیں گے، مگر آپ کی ہوشیاری کہ خود تو مجھ پر الفاظ کی جادوگری کا الزام لگا کر نکل لیے اور مجھ سے لگے طنزیہ طریقہ سے پوچھنے کہ میں اس کائنات کے وجود کو ایک "مخلوق”‌ثابت کروں.

        ویسے تو میرے پاس بہترین موقع ہے کہ یہ کہہ کر جان چھڑا لوں کہ چونکہ آپ نے میرے اچھے اخلاق اور حسن ظن کے باوجود بھی میرے اتنے سارے سوالات کے جوابات نہیں دیے ، لہذا جب تک آپ میرے تمام سوالات کے شافی جوابات نہیں‌دے دیتے تب تک ہماری بحث مزید آگے نہیں‌بڑھے گی. مگر خیر آپ بھی کیا یاد کریں گے کہ کس سے پالا پڑ گیا ہے. کہ نہ ہی خود اپنی جان چھوڑاتا ہے اور نہ ہی مجھ کو چھوڑانے دیتا ہے.

        آپ کے سوال کہ کائنات کسطرح سے مخلوق ہے کا جواب یہ ہے کہ ہر شے اپنی اکائی سے سمجھی جاتی ہے، چونکہ اس کائنات کی ہر شے تخلیق کردہ ہے ، لہذا یہ کائنات بھی اپنی مجموعی حیثیت میں‌مخلوق ہے.

        1. سبحان اللہ ، لگتا ہے کہ اتنے سارے اور طویل طویل تبصرے کوڑے کے ڈرم میں گئے

          میرا خیال ہے آپ تبصرے کم اور دیگر ویب سائٹس سے کاپی پیسٹ پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں 🙂

          اور آپ کو جواب دینے کے لیے بعد از قطع و برید کے صرف یہ تین لائنیں ملی

          کیونکہ باقی کی بات کا انحصار کچھ ابتدائی جوابات پر ہے… 🙂

          عربی لفظ “دین” کو انگریزی سے غلط ترجمہ کرکے اسلام کو محض ایک معمولی مذہب قرار دینا

          اس کا جواب میں نے آپ کو یہاں دے دیا ہے 🙂

          مذہب کےمقدمہ میں درست مفہوم سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے “شے”‌اور “مخلوق” جیسے ا لفاظ سے میں کو ہم مترادف قرار دینا ، آپ کا ہی خاصہ ہے

          قبلہ آپ خامخواہ ہی سیخ پا ہو رہے ہیں "شے” اور "مخلوق” لغوی لحاظ سے نہ سہی مگر آپ کی سیاق گفتگو اور مفہوم کے لحاظ سے مترادف ہی ہیں، جب آپ کہتے ہیں کہ ہر شے کا کوئی خالق ہے تو یہاں صاف واضح ہے کہ لفظ "شے” کسی مخلوق کی ہی نمائندگی کر رہا ہے کیونکہ اس کے کسی خالق کی موجودگی کا دعوی کیا جارہا ہے، اسی طرح جب آپ کہتے ہیں کہ ہر مخلوق کا کوئی خالق ہے تو اس طرح آپ بعینہ سابقہ سوال ہی دوسرے پیرائے میں کر رہے ہوتے ہیں اور لفظ "شے” کو ہٹاکر لفظ "مخلوق” استعمال کر رہے ہیں یعنی نئی بوتل میں پرانی شراب.. 😀 دونوں سوالوں میں مسئلہ یہ ہے کہ سائل پہلے سے ہی ہر یا کسی چیز کا پیشگی ایک خالق تصور کر رہا ہوتا ہے جو کہ منطقی مغالطہ ہے کیونکہ اس مجوزہ خالق کو کسی نے تخلیق کا یہ عمل انجام دیتے نہیں دیکھا اس لیے سوال میں منطقی مغالطہ ہونے کی وجہ سے سوال غلط ہوجاتا ہے، یہ مسئلہ میں پہلے ہی بعرہ اور بعیر میں زیر بحث لا چکا ہوں امید ہے آپ نے ضرور پڑھا ہوگا.. 🙂

  4. مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے کہ خدا کا دفاع کرنے کے لئے مسلمان عالم بھی عیسائ عالموں کی طرف رجوع کیوں کرتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کا نظریہ ء خدا ایک دم مختلف ہے۔ مثلاً عیسائ عالموں کی طرح ارتقاء کو لغو بات کہہ دینا۔ ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے آپکو برتر کہنے کے لئے تو ان قوموں کو برا بھلا کہنا بھی برا معلوم نہیں ہوتا لیکن چاہے وہ قرآن کی تفسیر ہو یا مذہب کا دفاع اپنے دلائل کی بنیاد انہی کی روایات اور انہی کے عالموں کے علم پہ کھڑی کرتے ہیں۔
    عبد الرءوف صاحب، کیا قرآن ارتقاء کے خلاف ہے؟ اگر آپ کہیں گے ہاں تو مسائل یہیں سے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب دین کو منجمد چیز بنا دیا جائے تو پھر۴ انسان سوال کرتا ہے کہ اس کائینات میں جب کوئ چیز جامد نہیں تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ دین جامد ہو جائے کیا۔ دین بھی وہ جسے آپ مکمل کہیں اور درست زندگی گذارنے کا طریقہ۔
    اب یہ مت کہئِے گا کہ ارتقاء کی طرح یہ سب لغو باتیں ہیں کہ کائینات ہر لمحے تخلیق ہو رہی ہے۔ کائینات کی حدیں پھیل رہی ہیں اور لمحہ ء کن کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ خدا کن فیکن کہنے کے بعد فارغ ہے اور اب روز قیامت کے انتظار میں ہے۔

    1. محترمہ عنیقہ صاحبہ زرا یہ تو بتائیے کہ کوئی خدا کا دفاع کیسے کر سکتا ہے؟ اور خدا کو کسی کے دفاع کی کیا ضرورت؟‌ اور اگر ہے تو وہ ہرگز خدا نہیں ہوسکتا ہے. ارے ہم تو اپنے عقائد کے حق میں دالائل دیتے ہیں اور پوائنٹ‌آف ریفرینس کے لیے بلا تفریق دیگر اہل علم کی باتیں بھی نقل کر دیتے ہیں کہ اگر تم لوگوں کے نزدیک قرآن مقدس و معتبر نہیں تو کم سے کم ان کی ہی سن لو جو کہ آپ کے نزدیک نبی سے بھی زیادہ معتبر ہستیاں‌ہیں! (نوٹ:‌ایک بار اینڈرسن شا صاحب کہہ چکے ہیں کہ وہ ادھر مباحثہ میں قرآن کو مقدس کتاب کے طور پر نہیں لے رہے، اسی طرف اشارہ کیا ہے.)

      ویسے تو میں نے کسی عیسائی عالم کی طرف رجوع نہیں کیا ہے، ورنہ آپ محض‌جھوٹا الزام دھرنے کے بجائے حوالہ ضرور دیتیں ، باقی سائنسی حوالوں کے لیے تو اگر ان کے ماہرین کی باتیں‌کاپی نہ کرو تو آپ ہی لوگوں کے پیٹوں میں مروڑ ہوتی ہے کہ ماہرین کے حوالے کدھر ہیں اور محض‌دینی حوالے ناکافی ہیں وغیرہ وغیرہ . اور اگر کرو تو بھی آپ کے پیٹ کی مروڑ‌ختم نہیں ہوتی کی اسلام کی بات کے حق میں‌کسی غیر مسلم کی بات کیوں کاپی کی!‌ حالانکہ یہ عام فہم بات ہے کہ ہر اہم سائنسدان
      کا کسی نہ کسی گروہ سے تعلق ضرور ہوگا، مگر انکی علمی باتوں کو نقل کرتے وقت صرف اسی بات کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہو نہ کہ انکے ذاتی اعمال و عقائد کی بنا پر دلائل ہی رد کردیئے جائیں.

      سوال:‌ کیا قرآن ارتقاء کے خلاف ہے؟ اسکا جواب ادھر تفصیل سے دیا گیا ہے ملاحظہ فرمالیں: https://realisticapproach.org/%D9%85%D8%B3%D8%B1%D9%88%D9%82%DB%81-%D8%AA%DB%81%D8%B0%DB%8C%D8%A8/
      باقی رہا قرآن کا سوال تو پہلے یہ اقرار کریں کہ آپ کو خدا کے کا اقرار ہے اور آپ قرآن کو منجانب اللہ مانتی ہیں تبھی بات بن سکے بھی ورنہ مجھے یقین ہے کہ مرتے دم تک ہم کسی بھی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں گے. ویسے آپ نظریہ ارتقاء کی قائل لگتی ہیں تو برائے مہربانی اس سوال کا جواب عنایت فرمانے کی کو شش کریے گا کہ اگر یہ نظریہ 100 فیصد درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ آخر آج کے بندر انسانوں کے شہروں میں انسانوں کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ انسان کیوں نہیں بن جاتے؟

    2. جناب اگر مذہب والوں نے خدا کی خدائی کو مان لیا ہے اور اس پر ایمان لے آے ہیں اور پھر بھی اس کے بعد non -scientific and irrational باتوں اور عقیدوں کو پکڑے رہتے ہیں تو اس سب سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ خدا ہے ہی نہیں. یا خدا کا اقتدار اور اختیار کچھ نہیں…. یہ تو ووہی بات ہی کہ آپ کسی غیر تربیت یافتہ انسان کو کہیں کہ جدید ترین ماڈل کی sports -car کو چلاے اور جب وو خراب چلاے تب کہ دیں کہ گاڑی ہی خراب تھی….مذہب کے خدائی فوجدار چاہے خدا کا image جتنا بھی خراب کرکے خدا میں انسانی نقوص پیدا کر دیں اس سے نہ تو خدا کی ہستی غائب ہوتی ہے نہ انسانوں جیسی محدود ہوتی ہے. خدا کی کاریگری ہی اسکے ہونے کا اور اسکی طاقت کا ثبوت ہے اب جس کی عقل اور سمجھ کا جو لیول ہوگا وو اتنا ہی دیکھ سکے گا خیر اگر آپ ان سائنسدانوں کو جنھیں آج کل creationists کہا جاتا ہے ، انکے جوابات پڑھ لیں نظریہ ارتقا پر. یاد رہے میں نے یہاں صرف ایک سائنس کے نظریے کو solid proven scientific facts پر پرکھنے پر زور دیا ہے اور مذہب کی کوئی بات نہی کی ہے. تو براے مہربانی مذہبیت کے رنگ میں baised کو کر جواب مت دیجےگا
      اور اس غلط فہمی سے باہر آجائیں کہ یہاں خدا کا دفع کیا جا رہا ہے. کم از کم میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے

  5. اوکیم کے نشتر کی نفی کیسے ممکن ہے مطلب یہ کہ اس اصول کو غلط ثابت کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیا آپ یہ نہیں‌سمجھتے کہ اس اوکیم کے سلسلے میں مزید تفصیل کی ضرورت تھی مثلا یہی کہ ہر سادہ توجیہہ ہی درست توجہیہ نہیں‌ہوتی. عالمی حدت یا موسمی تغیر کے معاملے میں سادہ ترین توجیہہ نا صرف غلط بلکہ مضحکہ خیر ہے.

  6. ” اگر یہ نظریہ 100 فیصد درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ آخر آج کے بندر انسانوں کے شہروں میں انسانوں کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ انسان کیوں نہیں بن جاتے؟ ” از عبدالرؤف
    جہالت کی بھی کیا انتہا ہے. 🙂 یہ ثبوت ہے کہ مذہب پرست دائرہ مذہب سے باہر نکل کر کچھ سوچ ، سمجھ اور سیکھ ہی نہیں‌سکتا. اور پھر چیلنج ہے کہ جی اس دائرے میں آکر ان سے بحث کرو. کس پر ؟ پہلے حقائق کو حقائق تسلیم تو کرو.
    انسان بندر سے ارتقاء شدہ نہیں. بندر کے ارتقاء کا سلسلہ اپنا ہے ، انسان کا اپنا. نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان اور بندر کے آباء ایک ہیں. وہ آباء ہیں جو دنوں سلسلوں‌کو جنم دے کر معدوم ہوچکے. بندر انسان لاکھوں سال بعد مزید انواع کو جنم دے کر معدوم ہوسکتے ہیں. ایک دوسرے میں ضم ہونا ارتقاء کے رو سے بے معنی اور ناممکن ہے.
    ہارون یحییٰ مشنری کے علاوہ سائنس کی کوئی معقول کتاب ، جریدہ کبھی مل جائے تو پڑھ لیجیے گا. لوگوں کو مناظرہ ، مکالمہ کی دعوت بعد میں دیجیے. 🙂

    1. مشورہ کا شکریہ، مگر مجھ کو قرآن کافی ہے، اور مجھ کو آدم کا بیٹا ہونے پر فخر ہے، آپ کو آپ کے بندر آباء مبارک ہوں، ویسے آپ کے مشورہ کے جواب میں میرا بھی ایک مشورہ ہے کہ کیسا رہے کہ آپ اپنی کسی خالہ کی لڑکی یعنی کسی بندریا سے شادی کرلیں؟ میرا تو خیال ہے کہ جوڑی خوب جمے گی!

      نوٹ: عثمان صاحب سے سراسر بدتمیزی نہیں کی گئی ہے، بلکہ انکے نظریہ کے عین مطابق انہیں جواب دیا گیا ہے.

      1. آپ کے مشورے کے جواب میں میرا بھی آپ کو ایک مشورہ ہے کہ آپ اپنی کسی خالہ کی لڑکی کے پستانوں سے منہ لگا کر دودھ پئیں تاکہ خلوت میں کوئی مسئلہ نہ رہے، مزید برآں ہمیشہ تندرست وتوانا رہنے کے لیے صبح وشام اونٹھ کا پیشاب مکھی مار کر پیا کریں.. 🙂

        نوٹ: عبدالرؤف صاحب سے سراسر بدتمیزی نہیں کی گئی ہے، بلکہ انکے اسلامی عقائد کے عین مطابق انہیں جواب دیا گیا ہے.

        1. اینڈرسن شا صاحب ، آپ نے تو اپنی علمی قابلیت کا خوب مظاہرہ کردیا ، ماشا اللہ جب مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں رہائش پذیر ہیں تو لازما عربی مجھ سے تو زیادہ ہی جانتے ہونگے ، مگر ایک منٹ ، اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ کیا مکہ میں پیدا ہونے اور عربی جاننے کے معاملے میں آپ مشرکین مکہ کے سرداروں ابو جہل و امیہ تو کیا؟ اس وقت کے کسی عام عرب مشرک سے بھی مقابلہ کرسکتے ہیں؟

          بحرحال یہ ماننا پڑے گا کہ آپ بڑی دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لائے ہیں، بالکل اسکے مصداق ، وہ کیا کہتے ہیں ہاں، اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی! خیر آپ کے علم میں لا دوں کہ رضاعت کی شرعی عمر صرف ڈھائی سال تک ہوتی ہے اور آج کل بڑی عمر کے مرد کی رضاعت کے جواز کیلئے ایک تاریخی واقعہ سے غلط استدلال کرتے ہوئے کوئی غلط فتوی عرب کے کسی عالم نما جاہل نے دے کر فضول میں اہل اسلام کیلئے ایک مسئلہ کھڑا کیا ہے، ورنہ قرآن ، حدیث اور تاریخ سب سے یہ ثابت ہے کہ نہ تو یہ کوئی اسلامی عقیدہ ہے اور نہ ہی کوئی متفق علیہ مسئلہ. اسی طرح اونٹھ کے پیشاب کو بطور دوا کے استعمال کرنے کی ہدایت صرف ایک مخصوص قبیلہ کو محض انکے مخصوص مرض کی بناء پر انہی کے پرانے طریقہ علاج کے مطابق دیا گیا تھا اور یہ بھی کوئی اسلامی عقیدہ یا فرض ، سنت ، مستحب حکم نہیں ہے.

          آپ نے ایک غلط نظریہ ارتقاء کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے مجھ پر الزامی طنز کیا اور وہ بھی غلط و درست حوالوں کو ایک ساتھ جوڑ توڑ کر کے اسطرح سےکردیا کہ کہیں کی مٹی ، کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا، بحرحال آپ نے اپنے ارتقائی بھائی سے دوستی کو خوب نبھایا ہے مگر یہ بھول گئے کہ اسطرح سے آپ بھی انہی کے خاندان میں شامل ہوجاتے ہیں. بحرحال میں آپ سے بدتمیزی سے پیش نہیں آنا چاہتا ہوں اسلئےکم کہے کو کافی سمجھیے کہ عقلمند کےلیے اشارہ کافی ہوتا ہے.

          آپ میں ماشاءاللہ صلاحیتیں ہیں‌ انکو مثبت امور میں صرف کیجیے. یہ نظریہ ارتقاء، اسلامی شعائر پر تشکیک اور خدا کی تحقیق جیسے موضوعات سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ، نہ اس زندگی میں اور نہ ہی اسکے بعد ، اگر آپ کو اللہ کی ذات پر کامل یقین و بھروسا ہے تو یہ باتیں بے معنی رہ جاتے ہیں بصورت دیگر آدمی نام نہاد تحقیق کے نام پر الحاد کے دلدل میں دھنستا چلاجاتا ہے.

          میں تو یہ کہوں گا کہ تشکیک x تحقیق = علم ، یہ فارمولہ ہم کو یہ بتاتا ہے کہ جس معاملہ میں انسان کو ایک بار علم حاصل ہوگیا ہو تو اس حاصل شدہ علم کی روشنی میں اسے چاہیے کہ وہ آگے کے امور کے لیے راہ متعین کرے نہ کہ پچھلے ہی امور پر اگلی کئی صدیوں تک محض تشکیک در تشکیک اور تحقیق در تحقیق کرتا رہے. مثلا جب انسان ایک بار خدا کی ذات کی پہچان کرکے اسے مان لے تو پھر اسکے بعد اسے خدا کے احکامات پر تشکیک کرنے اور ان پر مزید تحقیق کرنے کا کوئی حق و جواز نہیں ملتا ہے. امید ہے تمام حاضرین میرا اشارہ سمجھ ہی چکے ہوں گے! وسلام

          1. آپ تو برا مان گئے ، کسی اور کے کئے کا نہ تو میں جوابدار ہوں اور نہ ہی اسلام، اور میں نے تو قطعی ذاتیات کو اس بحث میں داخل نہیں کیا ، بلکہ آئینہ سامنے کیا ہے کہ یہ تو آپکا ثابت شدہ علمی نظریہ ہے جوکہ محض ظنی علم پر کھڑا ہے اور جو کہ انسانوں کو بندروں کی اولاد ماننے پر مجبور کرتا ہے ، جبکہ مسلمانوں کے اسلامی عقائد کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجانے کے بعد حقیقی علم کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے. جس سے انسان آدم کی اولاد ہے جو کہ روز اول سے ہی انسان تھا نہ کہ بندر.

            خیر چھوڑیے لگتا ہے ہم کوئی علمی مباحثہ کر ہی نہیں سکتے ہیں، لہذا یا شیخ اپنی اپنی دیکھ، اور اگر مجھ سے جانے انجانے میں کوئی گستاخی ہو گئی ہوتو درگزر کردیجئے گا کہ انسان تو خطاء کا پتلہ ہے، وسلام.

          2. تقریبا عرصہ ساڑھے چار سال سے دبئی (متحدہ عرب امارات) میں بسلسلہ روزگار رہائش پذیر ہونے کے باجود عربی سے نابلد ہوں.

            لم دینکم ولی دین بھی لکھ سکتا تھا مگر اسطرح‌پھر سے الفاظ تلخ ہوجاتے، اسی لیے یا شیخ اپنی اپنی دیکھ لکھا جو کہ کراچی (پاکستان) میں بھی کافی مستعمل ہے.

            چلو مذہب کے قصے اور افسانے ہی سہی ، پر ہم کو بندر کا رشتہ دار بننے سے تو محفوظ رکھتے ہیں نا، ویسے بھی اللہ ایسی عقل اور ایسے علم سے محفوظ رکھے جو کہ ہم کو اپنا نسب آدم سے تبدیل کرکے بندر سے جوڑنے پر مجبور کرے. اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کا نام دے دے.

            ازراہ تفنن عرض کررہا ہوں کہ مجھ کو نجانے کیوں شدت سے اس فلم کی یاد آرہی ہے :
            Rise of the Planet of the Apes
            http://en.wikipedia.org/wiki/Rise_of_the_Planet_of_the_Apes

          3. خوب تو ذرا اس پر بھی تو روشنی ڈالیئے کہ جب انسان مذہب اور اسکی نامعقولیات کو قبول نہ کرنے کے سبب توحید، رسالت اور قرآن و اسلام کا انکار کر بیٹھے گا اور نتیجتا جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا شکار ہوگا تو انکا کیا حل ہے؟ ساتھ ساتھ مقصد حیات پر بھی روشنی ضرور ڈالیئے گا کہ کیونکہ میرا فہم تو پھر یہ کہتا ہے کہ اگر خدا کا وجود نہیں یا پھر وہ غیر موجود ہے اور اگر مذہب کچھ نہیں، تو پھر تو میری اس مختصر زندگی کا اس سے زیادہ اور بہتر کوئی مصرف ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اس کے ایک ایک لمحے سے لطف کشید کروں۔ اور اس عمل میں اگر دوسروں کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اپنے لیے تو میں ہی سب سے اہم ہوں۔ باقی سب جائیں بھاڑ میں اسلیئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی کو قتل کر کے اس کی دولت حاصل کر لوں یا کسی کو ریپ کر کے اگر میری درندگی کی تسکین ہوتی ہے تو ایسا کر گزروں۔ کیونکہ صرف اسی طرح ایک انسان صحیح معنوں میں جانور بن سکتا ہے اور اسکی حیوانی جبلت مکمل ہوسکتی ہے.

          4. حضرت میں نے اپنی علمی قابلیت کا مظاہرہ کیا تو آپ نے کس چیز کا مظاہرہ کیا؟ اپنی اخلاقیات سے پہلے کون گرا؟ آخر اتنے سیخ پا کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا یہ چیزیں اسلام میں موجود نہیں؟ کیا رضاعۃ الکبیر کا فتوی ازہر اور سعودیہ کے وڈی وڈی داڑھیوں والے مفتیوں نے نہیں دیا؟ کیا جگہ جگہ آپ لوگ اونٹھ کے پیشاب کی سائنسی حقیقتیں اور اس کے فیوض وبرکات نہیں بیان کرتے پھرتے؟ کیا میں حقائق کو موڑ رہا ہوں؟ آپ نہیں موڑ رہے؟ کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا والی حرکت آپ نے نہیں کی؟ ایک ثابت شدہ علمی نظریے کو ذاتیات پر موڑنے کی آپ کو اجازت ہے ہمیں ثابت شدہ احادیث وفتاوی کو موڑنے کی اجازت نہیں؟ کیا دہرے معیارات ہیں آپ کے.. بہرحال مجھے پتہ تھا آخر میں مذہبی تعلیمات رنگ لاکر ہی رہیں گی سو لے آئیں..

          5. قبلہ میں نے برا ماننا ہوتا تو یہ بلاگ ہی بند کردیتا.. 🙂 رہی بات ارتقاء اور مذہب کی تو محض اس لیے مذہب کے افسانوے قصوں پر یقین کر لیا جائے تاکہ انسان بندر کی اولاد بننے سے بچ جائے بھلے زمینی حقائق کچھ اور طرف اشارہ کر رہے ہوں حماقت کے سوا کچھ نہیں..

            یا شیخ اپنی اپنی دیکھ خوب ہے.. امارات میں رہ کر اتنی عربی تو آہی گئی ہوگی.. 🙂

          6. میرا بھی کچھ یہی موقف ہے کہ مذہبی نا معقولیات تسلیم کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ بندر ہی بھلا.. ویسے بھی مذہبی لوگوں کی حرکتیں بندروں سے کیا کم ہوتی ہیں.. 😀

            فلم کی بھی کیا خوب یاد دلائی کہ یہ بھی ارتقائی منظرنامے پر ہی بنائی گئی ہے ویسے مذکورہ فلم سے پہلے پلانیٹ آف دی ایپس کے نام سے دو فلمیں منظر عام پر آچکی ہیں:

            https://en.wikipedia.org/wiki/Planet_of_the_Apes_%281968_film%29
            https://en.wikipedia.org/wiki/Planet_of_the_Apes_%282001_film%29

    2. im sorry but some words of wisdom are not yet available in urdu unicode so these have to be studied and understood in english only
      anyway if u want simple answers then u may read from this link
      http://www.talkorigins.org/faqs/faq-misconceptions.html

      and for those who really know and understand scientific laws and facts then you will sure find out good food-for-thought here
      http://www.changinglivesonline.org/evolution.html
      alhamdulillah i happen to be enough educated to understand all the scientific laws and facts described in above links and i can easily discuss upon all these in details if needed, specialy if you wanna play rough in biology area you are more than welcome!!! i didn’t evolve from apes thats for sure!
      lolz

    1. قبلہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو بس تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے کا شوق ہے، اس مسئلہ پر امریکہ میں ایک مقدمہ چل چکا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ تخلیقی یعنی کریشنسٹ امریکہ کی ایک ریاست میں ارتقاء کی بجائے انٹیلی جینٹ ڈیزائن پڑھانا چاہتے تھے، جب بات عدالت تک گئی تو عدالت نے فریقین یعنی تخلیقیوں اور ارتقائیوں کو برابر موقع دیا کہ وہ اپنے اپنے دلائل پیش کریں مگر انٹیلی جینٹ ڈیزائن کے وڈے وڈے علماء کمرہ عدالت میں اپنے ہی دلائل میں بس وپیش کا شکار نظر آئے اور ارتقائیوں کے مقابلے میں کوئی ٹھوس دلیل پیش نہ کر سکے اور نتیجتاً مقدمہ ہار گئے، مزید برآں اس دوران 72 نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں نے ایک یادداشت پر دستخط کر کے نظریہ ارتقاء اور اس پر ہونے والی اب تک کی تحقیق پر اپنے اطمینان واعتماد کا اظہار کیا.. آپ نے شاید اس نظریے کے بارے میں ابھی سنا ہوگا اس لیے آپ دنیا جہان کے روابط اٹھا اٹھا کر یہاں پیسٹ کر رہے ہیں جو عبث ہے.. اس مقدمہ کا فیصلہ کب کا ہوچکا ہے جہاں اس نظریے کو 72 نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کا اعتماد حاصل ہو وہاں یہ للو پنجو تخلیقیے کیا حیثیت رکھتے ہیں.. اب جتنا دل چاہے روابط پیسٹ کر کر کے دل کو خوش کرتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا.. ویسے مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد نظریہ ارتقاء کو تسلیم کرتی ہے، مصر کے مشہور ادیب سلامہ موسی نے ارتقاء کے حق میں "نظریہ التطور واصل الانسان” نامی ایک کتاب بھی لکھی ہے، خیال رہے کہ سلامہ موسی نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کے استاد ہیں.. اس کے بعد کسی صاحب عقل کے لیے کیا رہ جاتا ہے؟ سوائے تخلیقی ہٹ دھرمی اور کچھ نہیں حالانکہ یہ خود الٹے ارتقائی ہیں یعنی یہ تو مانتے ہیں کہ انسان بندر بن سکتا ہے مگر یہ نہیں مانتے کہ بندر انسان بن سکتا ہے.. 😀

      1. حضرت یہ تخلقیے نہ میرے خالہ زاد ہیں نہ ارتقایے میرے چچازاد ہیں . عدالتوں میں کہاں ملتا ہے جو آپ ڈھرلے سے اسکا ذکر کر بیٹھے؟ اگر ملتا ہوتا انصاف تو پرانے اتنے بڑے بڑے سائنسدانوں کو خودکشی نہیں کرنی پڑتی. اور جہاں تک امریکہ کے انصاف کا تقاضہ ہے تو اگر آپ اسکو مانتے ہیں تو براے مہربانی "get out of your rabbit hole ” …
        آپ ایسا کریے ان فلموں سے محظوظ ہو جائیں چھوڑے تبصروں کو اور دیکھے
        the devil ‘s advocate
        new york – bollywood
        body of lies

  7. اینڈرسن شا صاحب ،
    یہ دو ہفتوں سے جس خدائی فوجدار کے ساتھ آپ تگ و دو میں‌ مصروف تھے. ان کے اوسان خطا کرنے کے لئے محض ایک اقتباس ہی کافی تھا. 🙂
    جب اپنی جھولی ایک ہی ہلے میں‌ استدلال سے خالی ہو چلی تو ایک لنک آگیا. کہ میں‌ نہیں‌، بلکہ ان سے جا کر لڑو. 🙂 جیسے میں وہاں‌ اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دے کر ان مذہب پرستوں کو قائل کر سکوں گا. جواب میں‌کیا ملے گا ؟ خالہ کی بیٹی کے بجائے پھوپھی کی بیٹی ؟ دو چار مزید لنک کہ اچھا اب ان سے جا کر لڑو ؟ 😀
    اس ہر ایک لنک کے جواب میں‌ ایک درجن لنک ڈالے جا سکتے ہیں. جسے لائیک کرنے کے لئے فیس بک کی بھی ضرورت نہیں. لیکن مقصد اہل مذہب کی قلعی کھولنا تھی جس کے لئے ایک ہی سوال کافی تھا.

    1. ہا ہا ہا — ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ! اگر آپ میں جواب دینے کی ہمت نہیں تھی تو پرائے پھڈے میں ٹانگ ہی کیوں اڑائی تھی؟ اب یہ وہ لوہے کے چنے ہیں جو کہ آپ سے چبائے جا نہیں رہے تو لگے اینڈرسن شا صاحب کی دہائی دینے، ارے دیکھا نہیں کہ ادھر ہی دوسرے لوگ اپنے عقائد تو دور کی بات خود اپنے ہی کہے کا دفاع کر نہیں پا رہے اور پھرہمیں کہا جاتا کہ خدا کا دفاع کررہا ہوں، ارے ابوجہل الوقت جناب عثمان صاحب آپ کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ آپ میں قابلیت ہی نہیں کہ آپ کسی سے علمی مباحثہ کرسکیں. لہذا آپ کو آپ کی بکواسیات کے جواب میں ہر جگہ آپ ہی کے خاندان کی لڑکیا ں ملیں گی، ویسے بھی بندروں میں کونسا محرم یا نامحرم کا چکر ہے ، لہذا اگرآپ کو خالہ یا پھوپھی کی لڑکیوں کے بجائے وہ خود ہی پسند ہوں تو بھی آپ کے لیے تو راہیں کھلی ہیں ؟؟؟ اور اگرانکے نر آپ مواقع نہیں دیتے تو بھی غم نہ کرتے پیارے ، کیونکہ وہ نہیں تو کم سے کم آپکے اپنے گھر کی مادائیں تو آپ کی دسترس میں ہی ہونگی… اور اگر آپ میں اتنی بھی مردانگی نہیں ہے تو پھر تو آپ کو آپ کی نسل کی کوئی مادہ خرید دیتے ہیں، پھر کیا خیال ہے؟ تو ہوجائے کل جنگل میں منگل ؟؟؟

  8. عبدالرئوف صاحب تو آپکا حسن ظن ارتقاء پہ آ کر جواب دے گیا.
    🙂
    عثمان کی بات میں ایسا کیا تھا کہ آپ اتنے چراغ پا ہو گئے۔ یہ بھی یاد نہ رہا کہ یہ لاکھوں سال پرانے بندروں کی بات ہو رہی ہے۔
    آپ نے انکے عالموں کی ایک طرف کی بات تو اٹھا لی انکے عالموں کے دوسری طرف کی بات نہیں اٹھائ کیوں؟ اس لئےکہ ابھی آپکے عالموں کو اندازہ نہیں کہ مکھی پہ مکھی کہاں تک ماری جا سکتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف اپنے برتر ہونے کا زعم بھی ہے۔
    لنک دیکھنے کے بجائے ہم آپکی زبانی آپکے نظریات سننا پسند کریں گے۔ تاکہ اندازہ ہو کہ دئے گئے لنکس میں سے آپ نے کیا سمجھ کر اسے اس جوش جذبے سے قبول کیا ہےء۔ تو اب بتائیے کہ کیا قرآن ارتقاء کے خلاف ہے؟ ارتقاء صرف انسان کو ہی نہیں بیان کرتا بلکہ ہر ہر سطح پہ وہ یہ کہتا ہے کہ کائینات ایکدم سے نہیں بنی بلکہ ارتقائ حالت سے یہاں تک ]پہنچی ہے۔ مثلاً پہلے دن ہی زمین نامی سیارہ وجود میں نہیں آ گیا تھا بلکہ اسے اس حالت میں آنے کے لئے بھی اربوں سال لگے۔ اور اس دوران بہت سی حالتوں نے جنم لیا۔ یوں بگ بینگ کے بعد بھی یہ کائینات اس طرح نہ بن سکی۔ کیا آپ اس نظرئیے کے خلاف ہیں؟

    1. محترمہ عنیقہ جی، آپ اطمینان رکھیے میں اینڈرسن شا صاحب کے بلاگ کا قاری بننے سے بھی پہلے سے آپ کے بلاگ کا قاری ہوں اور آپ کا کافی احترام کرتا ہوں اس لیے آپ سے بدتہذیبی سے پیش نہیں آؤنگا، عثمان اور شعیب کی قابلیت کا اندازہ انکی پوسٹس سے ہوجاتا ہے اسی لیے انکو انہی کے حسا ب سے جوابات دے کر فارغ کردیا ، تاکہ کسی کا قیمتی وقت برباد نہ ہو.

      باقی رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا قرآن ارتقاء کے خلاف ہے؟ تو اسکا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ کیا آپ کو خدا کے وجود کا اقرار ہے اور کیا آپ قرآن کو منجانب اللہ مانتی ہیں، اگر ہاں تب تو بات آگے بڑھ سکتی ہے ورنہ مجھے پکا یقین ہے کہ مرتے دم تک ہم کسی بھی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں گے.

      1. آپکا احترام اپنی جگہ میں تو صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائینات ایک ارتقائ عمل کے نتیجے میں وجود میں آئ حتی کہ مذہب کی رو سے چھ دن میں یہ ارتقائ عمل پورا ہوا تو باقی مخلوقات میں کیا مسئلہ ہے.
        اسکا جواب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ خدا کو مانتی ہیں یا نہیں. جبکہ یہ اب آپکے علم میں آچکا ہوگا کہ کئ مسلمان علماء کے لئے اس میں کوئ مسئلہ نہیں. ارتقاء قرآن کے خلاف نہیں جاتا بلکہ عیسائ نظریات کے خلاف زیادہ جاتا ہے.
        انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانوں ، پودوں حتی کہ عناصر تک میں ایک ارتقائ حالت نظر آتی ہے. اسکا آپ کیا کریں گے؟
        اس مسئلہ کا سادہ حل یہ ہے کہ مذہب اور سائینس کو الگ کر لیا جائے. ایک انسان اپنے ذاتی عقائد کچھ بھی رکھے لیکن جب وہ سائینس کی دنیا میں داخل ہوگا تو لا الہ کی طرح لا علم الا سائینس کہنا پڑے گا. آپ اپنے روحانی عقائد کچھ بھی رکھیں، سائینسی نظریات کی تردید سائینسی طریقے سے ہی کی جا سکتی. اسے سیکولر طرز عمل کہتے ہیں.

        1. میں نے کب یہ کہا کہ میں‌ یہ تسلیم کرتا ہوں یا نہیں کرتا ہوں کہ کائنات ایک ارتقائ عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی؟

          اور اگر مذہب کی رو سے چھ دن میں کائنات کی تخلیق کا عمل پورا ہوا تو بھی اس سے ڈاروؤن کا نظریہ ارتقاء کیسے درست ثابت ہوتا ہے؟ اور یہی نظریہ ہی دراصل باقی مخلوقات کی مد میں مسئلہ ہے. اگر یقین نہ ہو تو اس نظریہ کا اطلاق طبعیات اور ریاضی پر کر کے دیکھئے گا، علم میں آجائے گا کہ یہ نظریہ ادھر بھی باطل ہے.

          کئی مسلمان علماء کے لئے تو اس میں بھی کوئ مسئلہ نہیں(مرزا غلام قادیانی کا جھوٹا دعوی نبوت اور غلام پرویز کا حدیث کو حجت ماننا، تو کیا انکی بات بلمقابل شریعت کے حق اور سچ مان لی جائے؟) کہنے کا مقصد ہے کہ دین میں علماء کی رائے شریعت سے مختلف ہو تو حجت نہیں ہوتی.

          بےشک ارتقاء کا عمل تو قرآن کے خلاف نہیں جاتا، مگر ڈاروؤن کا نظریہ ارتقاء قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں اللہ کے وجود کا انکار ہوتا ہے. اسی لیے آپ سے بار بار یہ پوچھنے کی گستاخانہ جرات کی کہ اگر تو آپ کو اللہ کے وجود میں شک نہیں ہے تو ڈاروؤن کے نظریہ ارتقاء کا بطلان قرآن سے اسطرح ہوتا ہے کہ قرآن کے مطابق تو آدم کو مٹی سے درجہ بہ درجہ مگر براہ راست انسان ہی بنایا گیا تھا نہ کہ بندر سے انسان، اور اگر آپ کو اللہ کے وجود میں شک ہے تو پھر آپ کے لیے قرآن کی بات لایعنی ہوگی. اور عیسایت کے ساتھ ساتھ ڈاروؤن کا نظریہ ارتقاء اسلام کے بھی مخالف اسطرح ہے کہ دونوں کے نبی آدم و عیسی بن باپ کے پیدا کیئے گئے تھے، امید ہے بات سمجھ آگئی ہوگی.

          انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانوں ، پودوں حتی کہ عناصر تک میں ایک ارتقائ حالت نظر آتی ہے. اسکا آپ کیا کریں گے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ ارتقاء‌کے عمل کا انکار نہیں کررہا ہوں ، پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جینیات میں تبدیلی بھی ارتقاء عمل ہے اور یہ فطرت کے آفاقی اصولوں کے ماتحت رہکر ہوتا ہے، مجھ کو و ڈاروؤن کے نظریہ ارتقاء کو من و عن مان لینے میں اسوقت تذبب ہوتا ہے جب وہ آدم کو یعنی پہلے انسان کو بندر کی اولاد بنا دیتا ہے، یہ بات شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہے. نہیں تو آپ مجھ کو شرعی دلیل دے کر غلط ثابت کردیں، میں اپنی غلطی مان کر اللہ کے حضور میں توبہ کر لوں گا. بصورت دیگر آپ کرلیجیے گا.

          سیکولرازم ہو یا سیکولر طرز عمل دونوں ہی اسلام مخالف اور منافقت پر مبنی ہونے کے بنا پر میرے نزدیک قابل التفات نہیں ہیں. باقی رہا علم کا مسئلہ تو لا علم الا سائنس کہنے کے بجائے میں لا الہ کی طرح لا علم الا شریعت کا قائل ہوں اور سائنس کو محض‌ایک اوزار (Tool). کے طور سے لیتا ہوں، یعنی ایک ایسا اوزار جو کہ اگر شریعت کے موافق ہو اور شریعت کی باتیں سمجھنے میں مدد گار ہو تو درست وگرنہ غلط.

          1. تصحیح : اس جملہ : (مرزا غلام قادیانی کا جھوٹا دعوی نبوت اور غلام پرویز کا حدیث کو حجت ماننا، تو کیا انکی بات بلمقابل شریعت کے حق اور سچ مان لی جائے؟)
            کو ایسے پڑھا جائے :
            (مرزا غلام قادیانی کا جھوٹا دعوی نبوت اور غلام پرویز کا حدیث کو حجت نا ماننا، تو کیا انکی بات بلمقابل شریعت کے حق اور سچ مان لی جائے؟)

          2. کیا خدا نے انسان کو ایک کمہار کی طرح کسی چاک پہ بنایا تھا اگر ایسا ہے تو بھی وہ کچھ مراحل میں ہوا ہوگا. اگر کائینات ارتقائ ھالت سے وجود میں آئ تو انسان کے لئے کیا مشکل ہے. اور انسان کو کیوں نہیں ارتقائ حالت سے گذارا گیا ہوگا. خدا قرآن میں سائینس نہیں بیان کر ہا. بلکہ ایک بیان دے رہا ہے کہ انسان کو مٹی سے بنایا. ایک اور جگہ پہ انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا، ایک اور جگہ پہ پانی سے وجود میں آیا.
            چونکہ قرآن سائینس کی کتاب نہیں ہے اس لئے اس میں اتنی تفصیلات بھی نہیں ہیں. کیا قرآن میں پانی بنانے کا فارمولا موجود ہے. اس لئے ہم خدا کے اس بیان سے کہ اس نے انسان کو مٹی سے بنایا ی یہ نتیجہ نکالنے میں کیوں تامل کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان تک پہنچنے کا مرحلہ ارتقائ نہیں ہو سکتا. مزید یہ کہ کیا خدا نے کائینات کی ہر چیز کو الگ الگ بیٹھ کر بنایا یا اس نے کن کہہ کر بس حکم دیا اور کائینات اپنے تخلیق کے مراحل میں داخل ہو گئ. اسکے بعد سے یہ کائینات طبیعیات کے چند اصولوں کی تقلید میں مصروف ہے.
            کیا خدا نے ہر حیوان کو ایک علیھدہ شناخت کے طور پہ بنایا یا اسکے لئے بھی اس نے کن کے مرحلے پہ ہی اپنا اذن دے دیا تھا. اور پھر حیوان کچھ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اس مرحلے تک آ پہنچے جہاں ہم انہیں دیکھتے ہیں. ان حیوانات کی کیا ضروت تھی جو اب ختم ہو چکے ہیں مثلآ ڈاءیناسورز. اور بھی بے شمار جانور ہیں یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ھیوانات نایاب ہو رہے ہیں آخر کیوں؟
            نیئنڈر تھل انسانوں کی ہی ایک قسم تھی جو اب ناپید ہو چکی ہے ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سال پہلے تک موجود تھی انہیں کس کھاتے میں ڈالیں گے.
            آپکو بندروں پہ اعتراض ہے جبکہ انسان ان سے یہ سیکھ رہا ہے کہ انسان نے بولنا کب شروع کیا اور کیسے. مختلف انسانی بیماریوں کے لئے ان پہ بھی تجربے کئے جاتے ہیں اس وقت اپکو اعتراض نہیں ہوتا کہ ہم کوئ بندر ہیں جو انکے نتائج کو ہمارے اوپر لگایا جا رہا ہے. ایسا کیوں؟
            اسی طرح اگر انسان بطور خاص ایک علیحدہ اکائ طور پہ بنایا گیا ہے تو عام انسانون میں ہمیں اتنی ایبنارملیٹیز کیوں نظر آتی ہیں. خون کے مختلف گروپس کیوں اور کیسے وجود میں آئے، جینٹک انفارمیشن کیوں انسانوں کے مختلف گروہوں میں الگ ہوتی ہیں، جینیاتی بیماریوں کی کیا ضرورت تھی، بیماریاں ہی نہیں انسانوں میں اتنی زیادہ جینیاتی پیچیدگیوں کی کیا ضرورت تھی. جبکہ اسے انسان کو اشرف المخلوقات رکھنا تھا. ان میں سے بیشتر ارتقاء کے قوانین کی رو سے تو بیان کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ارتقاء کے بغیر ان سب چیزوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے اور وہ یہ اللہ کے کام اللہ ہی جانے.

          3. عنیقہ جی آپ سے جو جواب درکار تھا وہ تو آپ نے نہیں دیا ، بس مزید فکری مغالطے آگے کردیئے، جن پر تفصیلی باتیں بعد میں ہوں گی ، پہلے آپ مجھ کو میرے پہلے سے پوچھے ہوئے سوال کا شافی جواب دے دیں یعنی صرف ایک ہی ایسی شرعی دلیل دے دیں جس کی رو سے ڈاروؤن کا نظریہ ارتقاء یعنی (پہلا انسان ، بندر کی اولاد ہے) درست ثابت ہوتا ہو.

          4. اچھا میں نے غور نہیں کیا کہ آپ نے یہ سوال کیا ہے۔ پہلے آپ یہ تو ثابت کر دیں کہ قرآن ارتقاء کے خلاف ہے۔ یا قرآن میں یہ کہیں لکھا ہوا ہے کہ انسان اللہ کی بنائ ہوئ سب سے پہلی مخلوق ہے۔
            آپ نے لکھا کہ قرآن میں ہے کہ ہم نے ادم کو مٹی سے بنایا۔ اس سے آپ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان بندر کی ارتقائ شکل نہیں ہو سکتا۔میں نے پہلے بھی پوچھا تھا اور ایک دفعہ پھر کہ کیا آپ اس سے یہ سمجھٹے ہیں کہ اللہ نے ایک کمہار کی طرح پہلے مٹی کے پتلے تیار کئے اور پھر ان میں زندگی دوڑا دی۔ تو آج کے انسان کو تخلیق کے مرحلے سے گذڑنے کے لئے کیوں عورت مرد درکار ہوتے ہیں۔ یہ تو کافی آسان طریقہ تھا۔
            ہم تو یہ بھی سنتے ہیں مذہبی ذرائع سے حضرت آدم کے اولاد ایسے ہوتی تھی کہ دو بچےصبح اور دوشام کو۔ ان میں سے ایک لڑکی اور دوسرا لڑکا ہوتا تھا ۔ صبح والے بچوں کی شام والے بچوں سے شادی کر دی جاتی تھی۔ اور اس وجہ سے ہابیل قابیل کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کا وہ طریقہ خدا نے کیوں موقوف کر دیا؟
            انسان کو مٹی سے بنایا گیا پھر باقی حیوانوں کوکس چیز سے بنایا گیا۔ قرآن نے اسکی کوئ توجیہہ دی ہے۔ کیونکہ عقل کا تقاضہ تو یہ کہتا ہے کہ اگر خدا یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ ہم انسان کو اتنی افضلیت دی کہ اسے مٹی سے بنایا تو اسے یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ ہم نے باقی حیوانوں کو اس سے بنایا لیکن اس اشرف المخلوقت کو مٹی جیسی افضل چیز سے بنایا۔ لیکن خدا اس جیسی یا اس سے ملتی جلتی بات بھِ نہیں کرتا۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ جنات آگ سے تخلیق کئے گئے، انسان مٹی سے اور فرشتے نور سے۔ باقی دنیا میں باقی مخلوقات کس چیز سے بنی ہیں یہ بتانے کی خدا نے کیوں زحمت نہیں کی؟

          5. آپ کے بلاگ کا قاری ادھرکی تحاریر کی روشنی میں آپ کو کافی باعلم، باخبر، ذہین و عقلمند تصور کرتا ہے لہذا اگر تو آپ کے بلاگ کے مراسلے آپ کی خود کی ہی تحاریر ہوتی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ یقینا آپ اپنا اور میرا قیمتی وقت محض بحث برائے بحث میں برباد کررہی ہیں، کیونکہ "شبلی کی سیرۃ النبی اور الرحیق المختوم” جیسی کتب سے نفاست کے ساتھ نبی کی شان میں ایسی گستاخی کرنا کہ نبی کے درجہ کو گھٹا کر محض ایک مصلح اور حالات کی پیداوار قرار دینا کسی جاہل و ناقص العقل کا کام نہیں ہوسکتا ہے. اور مجھ کو فضول وقت برباد کرنے کا شوق نہیں، لہذا آپ کے مزید کسی سوال کا جواب اسوقت تک نہیں دیاجاسکتا ہے جب تک آپ اس بات کی شرعی دلیل نہیں دے دیتی ہیں جس کی رو سے ڈاروؤن کا نظریہ ارتقاء یعنی (پہلا انسان ، بندر کی اولاد ہے) درست ثابت ہوتا ہو. یا کم سے کم اس ہی بات کا شرعی ثبوت مل جائے کہ پہلی مرتبہ زندگی خودبخود پیدا ہو گئی تھی!
            وسلام.

          6. یہ تو ہوتا ہی ہے کہ جب آپ کسی کے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تو اسے ایسے ہی الزامات کی زد میں رکھتے ہیں۔ مثلاً پہلے ثابت کریں کہ آپ مسلمان ہیں اور اب یہ کہ ڈارون کو قرآن سے ثابت کریں۔ ڈارون تو دو سو سال پہلے آِا اسے کیا قرآن سے ثابت کریں میں تو صڑف یہ پوچھ رہی ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں قرآں ارتقاءکے خلاف ہے۔ اسے ہی قرآں سے ثابت کر دیں۔ آپ نے کہا کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا۔ اب ہم پوچھ رہے ہیں کہ حیوانوں کی تخلیق کس مادے سے ہوئ تو آپ یہ نہیں بتا رہے۔ ہم پوچھ رہے ہیں کہ کیا قرآن اس بات سے انکاری ہے کہ انسان سے پہلے کوئ مخلوق موجود نہ تھی تو آپ اسے بھی نہیں سلجھا رہے۔ کیا قرآن نے انسان سے پہلے کی مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے۔ اسکا جواب بھی ہمیں نہیں ملے گا۔ آخری سوال کیا قرآن سائینس کی کتاب ہے؟

  9. مکّی صاحب آپ پہلے خود ارتقا اور وقت مے سفر وغیرہ پر بات کرتے ہیں پھر سائنس کی بحث کوئی کرنا چاہے تو فورا کنی کترا جاتے ہیں… اسکے بھیجے ھوے لنک کو بھی غیر اہم کر دیتے ہیں … مگر وہی جب مذھب پر بات ہو تو خود کو بہت بڑا علم سمجھتے ھوے فورن تنقید شروع کر دیتے ہیں… آپ کو خدا سے جتنی بھی شکایات ہیں یا مذہب پرستوں سے جو بھی مسائل ہیں اس سب کا غصہ کھل کر کر دیتے ہیں … جب کوئی عقل کی بات کرے تو اس کو بدلے میں عجیب فلسفہ سناتے ہیں.
    جناب عقل اور سائنس کا جواب تو کم از کم عقل اور سائنس سے دے دیا کریے نہ کہ فلسفوں اور مقدموں کی کہانیاں لکھ کر یا عجیب و غریب مذاق کر کے.
    ایک طرف آپ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور یقینن یہ جانتے ہوں گی کہ اسلام شروع ہی توحید سے ہوتا ہے …. دوسری طرف آپ کو خدا اسکی خدائی دونو پر شک ہے… اور مذہب کا نام لینے والوں سے بھی چڑ ہے
    یا تو خدا کو ماننا چھوڑ دیں کیونکہ اسکے تقاضوں سے آپکو بہت مسلے ہیں
    یا پھر خدا کو سہی ٹیڑھا سے من کے اسکی مان لیں
    آپ سے ایک سیدھا سا سوال کیا ہے میں نے بارہا کہ خدا کو اگر موجود مانتے ہیں یا نہیں مانتے ہیں تو بھی اسکا بتا دیں دلیل کے ساتھ. یعنی اگر واقعی خدا ہے تو اسکے ہونے کا کیا ثبوت ہے …اور اگر نہیں ہے تو اسکے نہیں ہونے کا کیا ثبوت ہے…. جناب کوئی فلسفہ نہیں چاہیے عقل کا جواب چاہیے جو عام انسان کے بھی سمجھ میں آسکے .
    اور براے مہربانی کسی ہارے ھوے کھلاڑی کی طرح سوال پلٹ کر نہیں پھینک دیجےگا

    1. اینڈرسن شا صاحب آپ پہلے خود ارتقا اور وقت مے سفر وغیرہ پر بات کرتے ہیں پھر سائنس کی بحث کوئی کرنا چاہے تو فورا کنی کترا جاتے ہیں… اسکے بھیجے ھوے لنک کو بھی غیر اہم کر دیتے ہیں … مگر وہی جب مذھب پر بات ہو تو خود کو بہت بڑا علم سمجھتے ھوے فورن تنقید شروع کر دیتے ہیں

      قبلہ آپ نے مجھ سے کب کوئی علمی بحث کی ہے اور میں نے کنی کترائی ہے؟ آپ کون سے ربط کی بات کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے اوپر میرے تبصرے پورے پڑھے ہیں؟

  10. برائے عبدالرؤف صاحب تبصرہ

    جب مذہب پرست حضرات دلیل وحجت سے کچھ ثابت نہیں کرپاتے تو آخر میں ان کے پاس یہی دو سوال آن بچتے ہیں بلیک میل کرنے کے لیے.. یعنی مقصدِ حیات اور اخلاقیات.. طویل موضوعات ہیں.. انہیں بھی زیر قلم لایا جائے گا، فی الحال آپ کے سوچنے کے لیے بس اتنا ہی کہ کیا مذہب پرست محض مذہب کے لیے جیتے ہیں؟ اور کیا مذہب اخلاقیات سکھاتا ہے؟ جلد بازی سے نہیں تسلی سے سوچیے گا.. 🙂

    1. پھر سے ٹال گئے ! ، خیر ہم بھی ان موضوعات پر آپ کے تفصیلی مراسلوں کے منتظر رہیں گے، اور آپ کے ان سوالات (کیا مذہب پرست محض مذہب کے لیے جیتے ہیں؟ اور کیا مذہب اخلاقیات سکھاتا ہے؟) کے ممکنہ جوابات (جو کہ ہم کو پہلے ہی سے معلوم ہیں) ان پر مزید غور و فکر کریں گے لہذا تب تک راوی چٰین ہی چین لکھے گا 🙂

  11. تبصرہ براے انیقہ صاحبہ
    سلام علیکم محترمہ ، نظریہ ارتقا کے بارے میں کچھ حقیقتیں بیان کرنی ہیں مگر اس سے پہلے یہ request ہے کہ بات کو عقل پر جنچیے گا اور سیسے کی بات ہے تو اسکو سائنس کے رنگ مے ہی دیکھیے گا
    darwin کے نریا ارتقا کی کچھ جھلکیات:
    تاریخ کے مطالعہ سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو( 322-384ق م) نے پیش کیا تھا ۔قدیم زمانہ میں تھیلیس ،عناکسی میندر،عناکسی مینس،ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون،ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے ابھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حدتک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔انیسویں صدی عیسوی سےپہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا۔1859 ء میں سر چارلس ڈارون (1818-1882) نے ایک کتابthe Origin of Species by
    Means of Natural Selection
    لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طورپر پیش کیا. پھر اصل الانسان (Origin of man)اور پھر تسلسل انسانی (Decent of man)لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی ۔اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے۔ تنازع للبقاء ، طبعی انتخاب، ماحول سے ہم آہنگی، قانون وراثت. ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب (جسے اب ہم مختصراً ’’اصلِ انواع‘‘ کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritance) کے قوانین دریافت کئے۔ اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔ مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ ’’جینیات‘‘ (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا
    نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں. مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی. مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔ یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے.
    یہ تمام جملے ایک دوسری ویبستے سے لئے گئے ہیں جسکا نام آپکو میرے نام پر کلاک کرنے سے ملجاۓ گا انشاللہ … مزید باتیں دوسری پوسٹ میں ہیں

    1. آپکی ان تمام باتوں کا آپکے ہی الفاظ میں ہے اور وہ یہ کہ سائینسی علم ابھی ختم نہیں ہوا. آپ کہتے ہیں کہ ارتقائ کے ھماءیتی اسکے لءے نءے ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں. اس سے آپکی بات کی ہی نفی ہوتی ہے. سائینس کوئ خدا کا کلام نہیں کہ جو لکھا ہے اور جو چند لوگ اسکی تفسیر کر گئے ہیں اب اسے اسکے باہر نہیں دیکھا جا سکتا.
      تمام کی تمام سائینس ہر روز نئے ثبوت اور دلائل تلاش کرتی ہے تاکہ معلوم شدہ حقائق کو اور زیادہ واضھ اور مربوط کیا جا سکے. میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ آپکی اس لمبی چوڑی تقریر میں سے مکالمے نکال کر کٹ اینڈ پسٹ کروں. لیکن آپ نے کہیں پہ جو چح دن میں کائینات بننے کی بات کی ہے تو کیا واقعی کائینات دنیا کے چھ دنوں میں بنی ہے. جب خدا ہر چیز پہ قادر ہے تو اس نے یہ چشم زدن میں کیوں نہیں کر ڈالا. جب آپ سے کوئ یہ سوال کرے تو آپ کہتے ہیں کہ مذہب میں عقل کی گنجائش نہیں. جب عقل کی گنجاءش نہیں تو اس پہ مکمل طور پہ عمل تو بے عقل ہی کر پائیں گے اور ہر وہ شخص جو خدا کی دی ہوئ عقل استعمال کرنا چاہے گا وہ خدا سے دور رہے گا. پھر شاید انسان سے خدا کا اصل امتھان یہ ہے کہ وہ عقل جو اسے دی گئ ہے وہ اسے استعمال نہ کرے. یہی عقل جنت کا وہ درخت ہے جس کے قریب جانے سے خدا نے منع کیا ہے. اگر استعمال کرے تو طے شدہ پروگرام کے مطابق صرف فلاں فلاں میدان میں استعمال کرے اسکے علاوہ کہیں نہ کرے. اس فلاں فلاں جگہ پہ بھی اسے علماء کی رائے کا اھترام کرنا چاہئیے. اور اس طرھ سے تو واقعی میں انسان کی کامیابی ایک روبوٹ بننے میں ہے. واہ کیا منطق ہے. غیر منطقی باتوں سے ایسی ہی منطق نکل سکتی ہے.
      کتاب خدا تو مکمل علم ہے اس میں سے ثابت کر دیں کہ آدم سے پہلے کوئ مخلوق موجود نہ تھی.

      1. حد ہے بے-عقلی اور بےحسی کی بھی. آپ نے تو گوارا بھی نہیں کیا کہ comments ہی پڑھ لیتیں کہ دوسرے نے لکھا کیا ہے. محترمہ میں نے کہاں کیا ہے یہ سب باتیں جس پر آپ مجھے گھسیٹ رہی ہیں؟ یعنی
        ((( سائینس کوئ خدا کا کلام نہیں کہ جو لکھا ہے اور جو چند لوگ اسکی تفسیر کر گئے ہیں اب اسے اسکے باہر نہیں دیکھا جا سکتا.
        جو چح دن میں کائینات بننے کی بات کی ہے تو کیا واقعی کائینات دنیا کے چھ دنوں میں بنی ہے
        مذہب میں عقل کی گنجائش نہیں. جب عقل کی گنجاءش نہیں
        واقعی میں انسان کی کامیابی ایک روبوٹ بننے میں ہے
        کتاب خدا تو مکمل علم ہے اس میں سے ثابت کر دیں کہ آدم سے پہلے کوئ مخلوق موجود نہ تھی)))
        کہاں لکھی ہیں مے نے یہ باتیں؟ مے نے تو ابھی سے پہلے والی صرف تین پوسٹ مے اسلام کی بات کی ہے. اسکے پہلے صرف سائنس کی ہی باتیں کی ہیں جن مے سے ایک کا بھی آپ نے جواب نہی دیا. مے نے صرف ایک ہی سوال اٹھایا ہے کہ خدا کو مانتی ہیں کہ نہیں اور بس….آپ نے تو مولویون کا جھگڑا مجھ سے شروع کر دیا…. آپ لوگ تو نہ پوسٹ پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں اور نہ اس پر سوچنے کی. جناب ایسے مے کوئی کیا بات کرے؟ آپ کو مبارک رہے آپکی عقل اور اسکی منطق. ہم آپ کے اصولوں پر بات کریں یا اپنے اصولوں پر دونون ہی مے آپکو کیڑے نظر آجاتے ہیں مگر اپنے طریقے پر بھی غور کر لیجیے.اگر عقل استمال کرنے والوں کا یہ طریقہ ہے تو اس سے زیادہ تمیز والے تو دوسرے ہیں. حقیقت تو یہ ہے کہ آپ baised ہیں اور ایسے مے کوئی صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا. ایک آخری اچھی بات پڑھنے کی زحمت کر لیجیے … …

        جناب پاکستان کے مہذہبی علما نے جو کہہ دیا اسلام پر وہی آپکے دماغ میں پھنس گیا ہے شاید . یہ بھی سوچ لیجیے کہ یہ علما غلط بھی ہوسکتے ہیں . میں نے سعودی عرب اور پاکستان دونون جگہ کے مذہبی حلقوں کو دیکھا ہے.خیر، پاکستان کے مولویوں کی باتیں سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ اگر کسی ‘فرقے’ میں نہیں ہیں تو گویا اسلام میں نہیں ہیں خدانخواستہ …. کوئی اسلام کی کوئی چیز کو اپنانا چاہے اور اس پر معلومات حاصل کرنے جاے تو اسلام کے نام پر اتنا زیادہ عجیب و غریب سا response ملتا ہے کہ انسان واپس آجاے confuse اور پریشان کہ اگر واقعی اسلام یہ ہے تو میں کہاں جاؤں؟؟؟؟ سعودی عرب کے بھی حالات کچھ سمجھ نہیں آتے وہاں بھی مولوی لوگ کبھی کبھی بہت عجیب و غریب فتوے دے دیتے ہیں ..میں نے تو بالکل اسلام کے کسی بھی مولوی کی باتیں سننی چھوڑ ہی دی. خاص کر کے درس وغیرہ کو avoid کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے.خیر پاکستان سے آنے کے بعد میرا دماغ بھی ایسے ہی مخمصوں میں پھنسا ہوا تھا اور مجھے کوئی نہیں ملتا تھا جس سے اسلام کے سوالات کروں اور پلٹ کر مجھ پر فتویٰ نہیں لگے. خیر یہاں ایک confrence ہوئی جس مے دنیا کے کچھ مشہور مبلغ آے. اور زندگی مے پہلی بار مے نے اسلام کے بارے مے ایسا سنا کہ مجھے لگا کہ یہ کوئی اور ہی اسلام ہے، یہ وہ نہیں جو مے نے اپنے ملک مے سنا تھا.ایک بار ایسا بھی اتفاق ہوا کہ تین نو مسلم کی کہانی سننے کو ملی جس مے انہوں نے یہ بتایا کہ کیوں اور کیسے وہ اسلام کی طرف مایل ہویے . مے نے ان سے سوال کیا کہ ایک طرف دیکھا جاتے تو دنیا کا سب سے صحیح مذہب اسلام ہی ہے اور خدا کی موجودگی اور سب کا یقین تو ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے کسی gold -cage مے قید ہوں اور اس احساس سے باہر نہی آیا جا سکتا… کیا کروں؟ تو پتا ہے کیا جواب ملا تھا؟ کہ آپکو اسلام کا ‘cultural version ‘ سے پالا پڑا ہے اس لئے ایسا ہے…جب بھی اسلام کو لوگ اپنی جاگیر بنا لیتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے آپکو اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو اسکو اپنے قریبی لوگون سے پوچھنے کے علاوہ صحیح اسلامی علما سے پوچھا کریے تاکہ آپکو اسلام کی اصل شکل ملے اور خود اپنی اسلامی تعلیم مے اضافہ کریے قرآن و صحیح حدیث کا علم حاصل کریے …
        اور اس دن مے نے پہلی دفعہ سمجھا کہ یہ مسئلہ تھا آج تک مجھے… یعنی کہ اسلام کو جو مے نے سمجھا ہے وہ اسکی اصل شکل نہی ہے کیونکہ مے نے تو مولویوں کی سنی ہے … پاکستان اور سعودی عرب مے narrow minded لوگ زیادہ ہیں شاید . خیر میرا آپکو بھی یہی مشورہ ہے کہ ایک بار ہی صحیح غیر جانبداری سے ان تین مے سے کسی ایک کو بھی سن کر دیکھے Abdul rahim green ، yusuf estes ، nouman ali khan . شاید آپکی اسلام اور الله سے شکایتیں دور ہو جائیں گی.

        اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے اور بس. (٣٦:١٧)
        الله حافظ

  12. نظریے ارتقا پر سائنسی اعتراضات :
    جناب یہ بھی ایک ویبستے سے copy paste کے ہے جملے ہی ہیں اور انکا بھی لنک میرے نام پر ‘mouse ‘ رکھنے سے آجاےگا انشاللہ . معاف کیجیے گا اس بار انگلش میں ہیں. اور یہ darwinism ہی نہیں بلکہ پورے نظریہ ارتقا کو نشانہ تنقید بنا رہے ہیں

    The word ‘evolution’ is used in the following contexts:

    Stellar / Planetary Evolution – An explosion (the ‘Big Bang’) supplied non-living material and over billions of years, supposedly this material became organized into planets and stars

    Cellular Evolution – At some point, non-living matter supposedly became living, forming cells that could reproduce

    Evolution of living things – Supposedly, over time, living things appeared which included fish, reptiles, birds and mammals. Human beings are said to be the last to appear in this process. According to evolutionary theory, this change in living things was achieved using time, chance, natural selection (‘survival of the fittest’) and mutation (random changes in genetic code)

    This evolutionary process is claimed to be a natural random process which has taken place without any outside intelligence, plan or guiding force.
    EVIDENCE 1: The universe could NOT have created itself nor has it always existed

    a. The universe could NOT have created itself

    In his latest book, misleadingly entitled The Grand Design, Steven Hawking makes the adventurous claim that “because there is a law such as gravity, the universe can and will create itself from nothing.” Think about that.

    Dr. John Lennox (Professor in Mathematics at Oxford University acknowledges that Hawking is a brilliant theoretical physicist but responds to Hawking’s assertion that “the universe can and will create itself from nothing” with; “That sounds to me like something out of Alice in Wonderland … it’s not science!”11

    Lennox explains by saying; "If I say “X creates X,” I presuppose the existence of X in order to account for the existence of X. To presuppose the existence of the universe to account for its existence is logically incoherent.”12 Or put simply; “From nothing, nothing comes!” or “No-thing cannot do anything!”13

    In relation to Hawking’s latest idea Dr. Lennox rightly concludes; "What this all goes to show is that nonsense remains nonsense, even when talked by world-famous scientists”.14

    The universe cannot have created itself!

    b. The universe could NOT have always existed

    The idea that the universe has always been in existence has been thoroughly rejected on scientific grounds. The Laws of Thermodynamics show the universe must have had a beginning.

    The First Law of Thermodynamics says that there is only a finite amount of energy and the Second Law says that the amount of available energy is continually decreasing. If the universe had existed forever, all the available existing energy would have already been used up.
    EVIDENCE 2: The Second Law of Thermodynamics says no!

    The Second Law of Thermodynamics tells us that a system will always go from order to disorder unless there is a plan or outside intelligence to organize it.

    World-renowned evolutionist Isaac Asimov when discussing the Second Law of Thermodynamics said:
    "Another way of stating the second law then is: ‘The universe is constantly getting more disorderly!'” Viewed that way we can see the second law all about us. We have to work hard to straighten a room, but left to itself it becomes a mess again very quickly and very easily. Even if we never enter it, it becomes dusty and musty. How difficult to maintain houses, and machinery, and our own bodies in perfect working order: how easy to let them deteriorate. In fact, all we have to do is nothing, and everything deteriorates, collapses, breaks down, wears out, all by itself – and that is what the second law is all about.”1

    As Isaac Asimov says, everything becomes ‘a mess … deteriorates, collapses, breaks down, wears out, all by itself’. Now in complete opposition to one of most firmly established laws in science (the Second Law of Thermodynamics), people who support the theory of Evolution would have us believe that things become more organised and complex when left to themselves!

    Some people argue that the earth is an open system and therefore the Second Law of Thermodynamics does not apply. Simply pouring in energy (sunlight) into the earth does not override the Second Law of Thermodynamics. As shown in Isaac Asimov’s quote above, the Second Law still applies on earth. Pouring energy into a system makes things more disordered!

    The brilliant scientist Lord Kelvin who actually formulated the Second Law of Thermodynamics says for very good scientific reasons; "Overwhelming strong proofs of intelligent and benevolent design lie around us … the atheistic idea is so non-sensical that I cannot put it into words.” 9

    As Dr John Ross of Harvard University rightly states:”… there are no known violations of the Second Law of Thermodynamics. Ordinarily the second law is stated for isolated systems, but the second law applies equally well to open systems. …”7

    Evolution has no plan or outside intelligence and, according to the Second Law of Thermodynamics, can never take place.
    EVIDENCE 3. Living Things Never Arise from Non-living Things

    To produce a living thing you must start with a living thing.

    Evolution requires non-living matter to turn into a living organism and this has never been observed.

    A Biology textbook puts it like this: "As we have seen, the life of every organism comes from its parents or parent. Does life ever spring from nonliving matter? We can find no evidence of this happening. So far as we can tell, life comes only from life. Biologists call this the principal of biogenesis.” 8

    So when it comes to real science (i.e. things we can actually establish by observation and experiment) life always comes from life! Evolutionists insist life came from nonliving matter but they have no way of proving this. Just saying something repeatedly doesn’t make it true!
    EVIDENCE 4: Complex Systems do not evolve ‘bit by bit’

    In the following quote, Darwin himself acknowledges the logical absurdity of a complex organ like the eye being formed using the natural processes he was suggesting in his theory. Darwin’s own deductive reasoning should have caused him to reject his own theory but sadly it did not and Darwin continued to promote his theory of trying to explain the complexity of life using natural processes only.

    We are NOT saying that the following quote was Darwin’s conclusion but that it should have been Darwin’s conclusion.

    Darwin said: "To suppose that the eye with all its inimitable contrivances for adjusting the focus to different distances, for admitting different amounts of light and for the correction of spherical and chromatic aberration, could have been formed by natural selection, seems, I freely confess, absurd in the highest degree.” 3

    No mechanism has been put forward that even begins to explain how something like the human eye could have been produced by time, chance, natural selection and mutation.

    A baby needs a number of very complex, interdependent systems to live and survive. These systems include the nervous, digestive, excretory, circulatory, skeletal, muscular and an immune system. For the baby to survive and live each system requires all the other systems to be functioning. Therefore all these systems must be in operation at the same time and could not have evolved slowly over millions of years. Think of the amazing intricacy of the male reproductive system coming about by time, chance and random mutation. It would need to be fully functional all along the evolutionary timeline so that reproduction could continue. And remember this highly unlikely progression would be pointless unless the female reproductive system had randomly evolved in perfect sync to compliment the developing male system so they both worked in harmony over the millions of years of evolutionary refinement! Of course, this logic applies to all the other species on earth as well.

    There is no evidence anywhere of the evolution of such systems. More than that, not even any hypothetical process can be thought of to explain how something like the brain and the digestive system could have evolved bit by bit over time!
    EVIDENCE 5: The Missing Links are Still Missing

    If evolution was true, there should be large numbers of intermediate fossil organisms present in the fossil record. Despite over a hundred years of intensive world wide research into the fossil record, the ‘missing links’ are still well and truly ‘missing’.

    Evolutionists such as Stephen Jay Gould reluctantly concede this when they say, "The evolutionary trees that adorn our textbooks have data only at the tips and nodes of their branches; the rest is inference, however reasonable, not based on the evidence of fossils.” 2

    What does the fossil record teach us about evolution?
    Who’s who & what’s what in the world of "missing” links?
    Is there fossil evidence of ‘missing links’ between humans and apes?
    Did ancient humans live millions of years ago?
    EVIDENCE 6: Mutations are contrary to Evolution

    Natural selection (better adapted organisms surviving to pass on genetic material) cannot produce evolution because it produces no NEW genetic material. Mutations are random changes in the genetic makeup of organisms. Evolutionists say that mutations supply the new genes needed for evolution to proceed.

    For over 1500 generations, fruit flies have been subjected to radiation and chemicals.4 This caused mutations in the flies. If you take a human generation to be 25 years, this is equal to around 37 500 years (1500 x 25) in human terms. What happened to these mutated flies over this time? Firstly, they were still flies and had not evolved into anything else! Secondly the flies as a population were worse off with many dying, having curly wings or stubby wings.

    Mutations are an example of the Second Law of Thermodynamics (when things are left to themselves they become more disordered over time). It is amazing that evolutionists would put forward mutations as the mechanism by which evolution could somehow take place!

    A person with one sickle-cell anaemia gene (a mutation) and malaria has more chance of surviving malaria than a person without the mutated gene. Evolutionists point to this as evolution in action. Read more on malaria / sickle-cell anaemia

    Evolution (things becoming more ordered) and mutations (things becoming more disordered) are processes going in opposite directions!

    Mutations are not a friend of evolution but an enemy that ultimately cuts the theory down and destroys it!
    EVIDENCE 7: Probability Facts are also contrary to Evolution

    Evolutionists such as Sir Fred Hoyle concede this when they say "The chance that higher life forms might have emerged in this way (time and chance) is comparable with the chance that ‘a tornado sweeping through a junk-yard might assemble a Boeing 747 from the materials therein.'”5

    In a desperate attempt to override the very powerful argument that life could never arise by chance, Richard Dawkins conjectures that “If the odds of life originating spontaneously on a planet were a billion to one against …”10

    A billion to one is only 1 in 10 to the 9th power. BUT the probability of even one single protein molecule consisting of 200 amino acids arising spontaneously by chance is 1 in 10 raised to power of 260. This is calculated by raising 20 (the number of different types amino acids available) to the power of 200 (the number of amino acids in the protein chain). Even if the whole universe was packed with amino acids combining frantically for billions of years, it would not produce even one such protein molecule let alone produce a living cell.

    Let’s now put this in its larger context. Proteins are ‘made’ by genes in the cell.

    * The average human gene consists of 3000 bases, but sizes vary greatly, with the largest known human gene being dystrophin at 2.4 million bases.

    * The total number of human genes is estimated at 30,000.

    * The human genome has some 3 billion DNA base pairs. Except for mature red blood cells, all human cells contain a complete genome!

    * The constellation of all proteins in a cell is called its proteome. Unlike the relatively unchanging genome, the dynamic proteome changes from minute to minute in response to tens of thousands of intra- and extracellular environmental signals. A protein’s chemistry and behavior are specified by the gene sequence and by the number and identities of other proteins made in the same cell at the same time and with which it associates and reacts.

    * Finally, It is estimated that the human body may contain over two million different proteins, each with a unique function.

    There is no chance that the human body could have come about by chance!
    GREAT SCIENTISTS FROM THE PAST

    C.S. Lewis showed the very strong connection between the development of modern scientific thought and the belief the scientists held in a Creator (Lawgiver). “Men became scientific because they expected law in nature and they expected law in nature because they believed in a lawgiver.”14

    "Overwhelming strong proofs of intelligent and benevolent design lie around us … the atheistic idea is so non-sensical that I cannot put it into words.” (Lord Kelvin)

    "I am a Christian … I believe only and alone … in the service of Jesus Christ … In Him is all refuge, all solace.” (Johannes Kepler)

    "The more I study nature, the more I stand amazed at the work of the Creator. Science brings men nearer to God.” (Louis Pasteur). Pasteur strongly opposed Darwin’s theory of evolution because he felt it did not conform to the scientific evidence.

    Robert Boyle believed in Jesus Christ’s "Passion, His death, His resurrection and ascension, and all of those wonderful works which He did during His stay upon earth, in order to confirm the belief of His being God as well as man.”

    "Order is manifestly maintained in the universe … the whole being governed by the sovereign will of God.” (James Prescott Joule)

    "There are those who argue that the universe evolved out a random process, but what random process could produce the brain of man or the system of the human eye?” (Werhner Von Braun)

    "Almighty Creator and Preserver of all things, praised be all Thou has created.” (Carl Linnaeus)

    "I am a believer in the fundamental doctrines of Christianity.” (Sir Joseph Lister)

    "Atheism is so senseless. When I look at the solar system, I see the earth at the right distance from the sun to receive the proper amounts of heat and light. This did not happen by chance.” "The true God is a living, intelligent and powerful being.” (Sir Isaac Newton)

    Michael Faraday was careful to "Thank God, first, for all His gifts.”

    Taken from the book 21 Great Scientists Who Believed the Bible by Ann Lamont published by Answers in Genesis, P.O. Box 6302, Acacia Ridge D.C., Queensland, 4110, Australia, 1995.
    PRESENT DAY PhD SCIENTISTS

    "The evidence points to an intelligent designer of the vast array of life, both living and extinct, rather than to unguided mindless evolution.” (Nancy M Darrall, Speech Therapist at the Bolton Community Health Care Trust in the UK. She holds a PhD in Botany from the University of Wales.)

    "Evolutionary theories of the universe cannot counteract the above arguments for the existence of God.” (John M Cimbala, Professor of Mechanical Engineering, Pennsylvania State University. John holds a PhD in Aeronautics.)

    "The correspondence between the global catastrophe in the geological record and the Flood described in Genesis is much too obvious for me to conclude that these events must be one and the same.” (John R Baumgardner, Technical Staff Member in the Theoretical Division of Los Alamos National Laboratory. John holds a PhD in Geophysics and Space Physics from UCLU.)

    "We have already seen that no such system could possibly appear by chance. Life in its totality must have been created in the beginning, just as God told us.” (John P Marcus, Research Officer at the Cooperative Research Centre for Tropical Plant Pathology, University of Queensland, Australia. John holds a PhD in Biological Chemistry from the University of Michigan.)

    "The fossil record is considered to be the primary evidence for evolution, yet it does not demonstrate a complete chain of life from simple forms to complex.” (Larry Vardiman, Professor from the Department of Astro-Geophysics for Creation Research, USA. Larry holds a PhD in Atmospheric Science from Colorado State University.)

    "I … have no hesitation in rejecting the evolutionary hypothesis of origins and affirming the biblical alternative that ‘in six days the Lord God created the heavens and earth and all that in them is’. (Dr Taylor is senior lecturer in Electrical Engineering at the University of Liverpool. Dr Taylor has a PhD in Electrical Engineering and has authored over 80 scientific articles.)

    "I believe God provides evidence of His creative power for all to experience personally in our lives. To know the Creator does not require an advanced degree in science or theology.” (Timothy G Standish is an Associate Professor of Biology at Andrews University in the USA. Dr Standish holds a PhD in Biology and Public Policy from George Mason University, USA.)

    "At the same time I found I could reject evolution and not commit intellectual suicide, I began to realise I could also accept a literal creation and still not commit intellectual suicide.” (AJ Monty White, Student Advisor, Dean of Students Office, at the University of Cardiff, UK. Dr White holds a PhD in the field of Gas Kinetics.)

    "So life did not arise by natural processes, nor could the grand diversity of life have arisen through no-intelligent natural processes (evolution). Living things were created by God, as the Bible says.” (Don Batten, a research scientist for Answer in Genesis in Australia. Dr Batten holds a PhD in Plant Physiology from the University of Sydney and worked for 18 years as a research scientist with the New South Wales Department of Agriculture.)

    "In the words of the well-known scientist, Robert Jastrow, ‘for the scientist who has lived by faith in the power of reason, the story [of the quest for the answers about the origin of life and the universe] ends like a bad dream. He has scaled the mountains of ignorance; he is about to conquer the highest peak; as he pulls himself over the final rock, he is greeted by a band of theologians who have been sitting there for centuries.” (Jerry R Bergman, Instructor of Science at Northwest State College, Archbold, Ohio. He holds a PhD in Evaluation and Research from Wayne State University and a PhD in Human Biology from Columbia Pacific University.)

    Taken from the book In Six Days (why 50 scientists choose to believe in creation) edited by John F Ashton PhD, New Holland Publishers, 1999.
    Acknowledgements

    1 In the Game of Energy and Thermodynamics You Can’t Even Break Even, Isaac Asimov, Smithsonian Institute Journal, June 1970, page 6.
    2 Evolution’s erratic pace, Natural History, vol. LXXXVI (5), May 1977, page 14.
    3 The Origin of Species, Charles Darwin, J.M. Dent & Sons ltd, London, 1971, page 167.
    4 Unlocking the Mysteries of Creation (Volume 1) , Dennis R. Petersen, Christian Equippers Ministries, Calfornia, 1987, page 84. 5Hoyle on Evolution, Nature, vol. 294, 12 November 1981, p105. (Words in italics in the quote are added for clarification.)
    6 Origin of Species, Charles Darwin, 6th edition, NYU, 1988, page 154.
    7 Chemical and Engineering News, John Ross, July 7, 1980, p40; cited in Duane Gish, Creation Scientists Answer their Critics Institute for Creation Research, 1993.
    8 Modern Biology Teacher’s Edition, Holt, Rinehardt and Winston Publishers, USA, 1977, page 19.

    9 "21 Great Scientists Who Believed the Bible” by Ann Lamont published by Answers in Genesis, P.O. Box 6302, Acacia Ridge D.C., Queensland, 4110, Australia, 1995.

    10 The God Delusion, Richard Dawkins, Bantam Press, London, page 138.

    11 Interview with John Lennox and Ravi Zacharias
    12 Article: “Stephen Hawking and God” by John Lennox

    13 Charlie H. Campbell, DVD “Answers to Skeptic”

    14 God and Stephen Hawking (Whose Design Is It Anyway?), John C. Lennox, A Lion Book, 2011, page 32

  13. نظریہ ارتقا پر بات ختم ہوئی. اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ اگر اتنا ہی غلط ہے یہ نظریہ جیسا مے نے اوپر لکھا تو دنیا کے جید سائنسدان اس کے حق مے کیوں ہیں تو اس کے لئے تھوڑی سی ریسرچ کی ضرورت ہے صرف wikipedia پر ہی دیکھ لیں کہ کتنے ملکوں کی کتنی سائنسی societies اسکے حق مے ہیں… آپکو حیرت ہوگی کے امریکا سے باہر کی بہت کم ہیں اور ویسے ہی اگر دنیا کی کل سائنسی societies کا شمار کریں اور پھر favor والوں کا حساب نکل لیں تب بھی result آپکو سمجھ آجاےگا.
    دو فلمیں recommended ہیں آپ دیکھ لیں خود سمجھ جائیں گی. "مشن استمبول” جو کہ ہندی مے ہے، اور "the devil ‘s advocate ” جو انگریزی مے ہے.

  14. قرآن مے بیان کردہ سائنسی حقائق میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں انکو پڑھ کر امید ہے کہ قرآن کہ کلام الله ہونے پر یقین ہو جاتے گا

    Let us use scientific knowledge to kill two birds with one stone, i.e. to prove the existence of God and simultaneously prove that the Qur’an is a revelation of God.

    If a new object or a machine, which no one in the world has ever seen or heard of before, is shown to an atheist or any person and then a question is asked, ” Who is the first person who will be able to provide details of the mechanism of this unknown object? After little bit of thinking, he will reply, ‘the creator of that object.’ Some may say ‘the producer’ while others may say ‘the manufacturer.’ What ever answer the person gives, keep it in your mind, the answer will always be either the creator, the producer, the manufacturer or some what of the same meaning, i.e. the person who has made it or created it.

    THEORY OF PROBABILITY

    In mathematics there is a theory known as ‘Theory of Probability’. If you have two options, out of which one is right, and one is wrong, the chances that you will chose the right one is half, i.e. one out of the two will be correct. You have 50% chances of being correct. Similarly if you toss a coin the chances that your guess will be correct is 50% (1 out of 2) i.e. 1/2. If you toss a coin the second time, the chances that you will be correct in the second toss is again 50% i.e. half. But the chances that you will be correct in both the tosses is half multiplied by half (1/2 x 1/2) which is equal to 1/4 i.e. 50% of 50% which is equal to 25%. If you toss a coin the third time, chances that you will be correct all three times is (1/2 x 1/2 x 1/2) that is 1/8 or 50% of 50% of 50% that is 12½%.

    A dice has got six sides. If you throw a dice and guess any number between 1 to 6, the chances that your guess will be correct is 1/6. If you throw the dice the second time, the chances that your guess will be correct in both the throws is (1/6 x 1/6) which is equal to 1/36. If you throw the dice the third time, the chances that all your three guesses are correct is (1/6 x 1/6 x 1/6) is equal to 1/216 that is less than 0.5 %.

    Let us apply this theory of probability to the Qur’an, and assume that a person has guessed all the information that is mentioned in the Qur’an which was unknown at that time. Let us discuss the probability of all the guesses being simultaneously correct.

    At the time when the Qur’an was revealed, people thought the world was flat, there are several other options for the shape of the earth. It could be triangular, it could be quadrangular, pentagonal, hexagonal, heptagonal, octagonal, spherical, etc. Lets assume there are about 30 different options for the shape of the earth. The Qur’an rightly says it is spherical, if it was a guess the chances of the guess being correct is 1/30.

    The light of the moon can be its own light or a reflected light. The Qur’an rightly says it is a reflected light. If it is a guess, the chances that it will be correct is 1/2 and the probability that both the guesses i.e the earth is spherical and the light of the moon is reflected light is 1/30 x 1/2 = 1/60.

    Further, the Qur’an also mentions every living thing is made of water. Every living thing can be made up of either wood, stone, copper, aluminum, steel, silver, gold, oxygen, nitrogen, hydrogen, oil, water, cement, concrete, etc. The options are say about 10,000. The Qur’an rightly says that everything is made up of water. If it is a guess, the chances that it will be correct is 1/10,000 and the probability of all the three guesses i.e. the earth is spherical, light of moon is reflected light and everything is created from water being correct is 1/30 x 1/2 x 1/10,000 = 1/60,000 which is equal to about .0017%.

    The Qur’an speaks about hundreds of things that were not known to men at the time of its revelation. Only in three options the result is .0017%. I leave it upto you, to work out the probability if all the hundreds of the unknown facts were guesses, the chances of all of them being correct guesses simultaneously and there being not a single wrong guess. It is beyond human capacity to make all correct guesses without a single mistake, which itself is sufficient to prove to a logical person that the origin of the Qur’an is Divine.

    We do know that science many a times takes ‘U’ turns, therefore I have restricted the examples only to scientific facts which have sufficient proof and evidence and not scientific theories based on assumptions.
    the big bang theory in ayat 30 sura anbiya
    moon light is reflected light in sura furqan ayat 61
    shape of earth is like egg , in sura naziyat ayat 30
    about rotation and revolution of sun sura anbiya ayat 33
    universe is expanding , sura dhariyaat ayat 47
    plants are also bi-sexual organisms in sura taha ayat 53
    embryology 96:1-2, embryological stages 23:12-14
    and many more. science has only been recently able to find out these things in proper details. then who could tell these so accurately 1400 years back?
    CREATOR IS THE AUTHOR OF THE QUR’AN

    The only logical answer to the question as to who could have mentioned all these scientific facts 1400 years ago before they were discovered, is exactly the same answer initially given by the atheist or any person, to the question who will be the first person who will be able to tell the mechanism of the unknown object. It is the ‘CREATOR’, the producer, the Manufacturer of the whole universe and its contents. In the English language He is ‘God’, or more appropriate in the Arabic language, ‘ALLAH’.

    Francis Bacon, the famous philosopher, has rightly said that a little knowledge of science makes man an atheist, but an in-depth study of science makes him a believer in God.
    watch the video in link for further references.
    you may also benefit from the work of the speaker (zakir naik) in written for and other from his site on IRF

  15. کچھ اردو مے بھی موجود ہے ابھی میرے پاس material قرآن کے سچے ہونے اور الله کا کلام ہونے کی دلیل کے طور پر:
    http://quraniscience.com/haman-mentioned-in-the-quran-and-modern-research/
    http://quraniscience.com/the-creation-of-man-step-by-step-in-the-light-of-quran-and-science/
    http://quraniscience.com/gender-identity-and-quran-hakeem/
    http://quraniscience.com/origin-of-human-seminal-fluid-in-the-light-of-quran-and-modern-science/
    اور ایک چیز جو پوری طرح مستقبل میں سمجھ اۓ گی
    http://quraniscience.com/teleportation-and-the-throne-of-queen-bilqees/

  16. اب آجاتے ہیں حاصل کلام کی طرف. سائنس کے علم کی حثیت کائنات کے تمام علم کے سامنے ایسی ہے کہ جیسے سمندر کے سامنے کوئی قطرہ … ابھی بہت سے راز ہیں کائنات کے جن کو ہم افشا نہیں کر سکے ہیں. مگر کائنات تو بنی ہوئی بھی ہے اور خیر سے چل بھی رہی ہے. تو یقینن کوئی تو بات ہے. کوئی تو ہے iska انتظام بنانے اور چلانے والا. اب اس سب کے بارے مے انسان سوچتا ہے اور نظریات بناتا ہے …ٹھیک ہے نہ؟ اب کچھ باتیں اسکی عقل سمجھ اور technology کے scope مے ہیں اور کچھ اس سے باہر ہیں. تو اسے مے یا تو وو غلط مفروضے کو سچ مان لیتا ہے یا کسی خدائی طاقت کا ادراک کر کے اسکو سچ مان لیتا دیاعقل ہی کائنات مے غور کر کے الله کی طرف مائل ہوتی ہے. intelligent design والا نظریہ تو آج کے سائنس دنو کا ہے مگر عقل کی ادراک مے یہ intelligent design ہمیشہ سے ممکن رہا ہے کیوں کہ اگر نہیں ہوتا اسکو سمجھنا اتنا آسان تو الله بار بار قرآن مے غور و فکر کے لئے نہیں کہتا . انسان کو اس دنیا مے بھیجنے اور اسکے ذمے جو کام ہے اسکے سمجھنے کی سب تفصیلات قرآن مے ہیں مگر انسان اگر اسکو نہ پڑھنا چاہے یا پڑھ کر بھی نہ سمجھنا چاہے تو اسمے کس کی طرف سے کمی رہی؟ اور کچھ لوگ جو مسلمانو مے سے بھی اور غیر مسلم سے بھی الله کی کتاب کے غلط مطلب دیکھا کر دوسرو کو گمراہ کر رہے ہیں ان سب کی برائی الله پر نہیں آتی….اور جو لوگ اسے سچ سمجھ رہے ہیں بغیر تحقیق کے انکی بیوقوفی کی زمیداری خود انکی اپنی ہی ہے. اب یہ اپ کے اپر ہے کہ اپ اندھی تقلید کر کے کھائی مے گرنے والو مے سے بن جائیں یا عقل استمال کر کے کامیاب اور با- علم لوگو مے. یاد رہے کہ جیسے سائنس کا سہی کونکپٹ ایک سائنس کی کتاب یا ٹیچر ہی دے سکتا ہے ویسے ہی الله کے بارے مے سہی کونکپٹ الله کی کتاب اور اسکے نبی کی سیرت ہی دے سکتی ہے .
    باقی یہ کہ نصیحت پھنچا دینا ہی مجھ پر فرض تھا سو وو مے نے کر دیا ایک اسے طریقے مے جو میرے خیال مے قابل فہم ہوگا. اپنی طرف سے اچھائی چاہی بھی ہے اور دی بھی ہے. آگے الله کی مرضی کہ آپ تک کتنا پہنچتا ہے اور کتنا نہیں.
    یہ میری آخری پوسٹ ہے ادھر.
    الله حافظ

  17. اسلام و علیکم ….!
    ارتقا پر دھواں دار بحث تو بہت کی جا سکتی ہے ہیں تو یہ سب نظریات ہی نہ اینڈرسن شا صاحب جمہور کا اک بات پر قائم ہو جانا اس بات کو سچ ثابت نہیں کر سکتا سقراط ہمیشہ اکیلا ہی ہوتا ہے…. آفتاب دلیل آفتاب خود…!
    عرصہ قبل منیر احمد صاحب کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا تھا اور خوش قسمتی سے اسکا کچھ حصہ آن لائن موجود ہے ایک دفعہ ان مباحث سے وقت نکال کر شامل مطالعہ ضرور کیجئے گا…!
    http://www.cybercity-online.net/The_Universe_Beyond/index.html

    1. سرکار منیر احمد صاحب وہ کون سی نئی بات بتا دیں گے جو ان سے پہلے ہارون یحیی اور اس سے بھی پہلے عیسائی مشینری کے تخلیقیوں نے نہیں کی؟ یہ لوگ بار بار وہی جھوٹ دہراتے رہتے ہیں جن کے جوابات سائنس کب کے دے چکی ہے مگر یہ کچھ جاننا یا سیکھنا نہیں چاہتے بس وہی رٹ لگائے چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ ان کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے، یہ لوگ انا کی عینک اتاریں تو انہیں حقائق نظر آئیں، ذیل کا ربط ملاحظہ فرمائیں جس میں آپ کے منیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ڈے این نے کی دریافت نے ثابت کردیا کہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ ڈی این اے تبدیل نہیں ہوتا اور وہی خصائص اگلی نسل کو منتقل کرتا ہے جسے وہ عظیم دریافت بتاتے ہیں:

      The discovery revealed that all the characteristics of each species remain firmly held in the nucleus DNA in each cell and the same are passed on genetically from generation to generation without a slight change in them. This great discovery in the field of biology totally rejected occurrence of variations due to environmental or any other external conditions in the characteristics of any species as it established the fact that each species firmly held all its features in the DNA molecule contained in the nucleus of each cell and passed on the same without any variation to its off-springs.
      http://www.cybercity-online.net/Origin_of_Species/a_great_discovery.html

      اب کیا واقعی یہ منیر احمد صاحب درست فرما رہے ہیں اور ڈے این اے میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی؟

      انا کے خول سے باہر نکلیں گے تو نظر آجائے گا:

      http://www.nature.com/scitable/topicpage/dna-is-constantly-changing-through-the-process-6524898
      http://healthland.time.com/2012/03/07/how-exercise-can-change-your-dna/

      انا کی تسکین کے لیے گھر بیٹھ کر ارتقاء کو غلط ثابت کرنا بڑا آسان کام ہے، مگر لیبارٹریوں میں سالوں مغز ماری کر کے کوئی نتیجہ حاصل کرنا از حد مشکل اور یہی کام ہمارے "تخلیقیوں” کے بس کی بات نہیں..

  18. چنگیز صاحب، آپ نے اپنے پہلے دو مفروضوں کو ڈھالنے میں جو غلطی کی ہے وہ آپ کی اس تحریر کے ساتھ چھپنے والی اس تصویر سے بھی واضح ہو جاتی ہے- تصویر میں اگر آپ جدید زمانے کے "ریزر” کی جگہ اوکیم کے زمانے میں استعمال ہونے والے "استرے” کی تصویر لگاتے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ ان مفروضوں میں آپ نے استرے کی الٹی دھار استعمال کرکے اپنے پہلے مفروضے کو دوسرے مفروضے کے مقابلے میں زیادہ آسان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے-
    اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی آپ یہ کہتے ہیں کہ ایک کائنات ہے تو فوراً یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا کہ یہ کہاں سے آگئی- اس لئے آپ نے اوکیم کا استرا چلایا تو لیکن غلطی سے استرا الٹا چل گیا!

جواب دیں

63 Comments
scroll to top