Close

اللہ کا دشمن کون ہے؟

میں اس شخص کا دشمن کیسے ہوسکتا ہوں جس سے میں کبھی ملا ہی نہیں اور جو مجھے جانتا بھی نہیں؟

مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان کا قتل ایک جرم ہے الا یہ کہ وہ اللہ کا دشمن ہو۔۔

تو پھر اللہ کا دشمن کون ہے؟

کیا آپ کے کچھ ایسے دشمن ہیں جنہیں آپ قتل کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ کا شکر ہے کہ میرے کوئی دشمن نہیں ہیں! یہ درست کہ آفس میں مجھے شپنگ منیجر سے نفرت ہے جو ہر پرفارما میں کیڑے نکال کر میرا کام بڑھا دیتا ہے، محلے کی مسجد کے مولوی سے بھی مجھے نفرت ہے جو دن رات لاؤڈ سپیکر پر گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے آقائے مُردار پر درود وسلام بھیجتا ہے اور سارے محلے کا سکون برباد کرتا ہے۔۔ اور چڑیا گھر سے بھاگے ہوئے اس بھنگی سے بھی مجھے نفرت ہے جو آج کل کیپٹل ٹاک میں نظر آتا ہے۔۔ طارق جمیل سے بھی مجھے نفرت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب اسے پاگل خانے بھیج ہی دیا جانا چاہیے۔۔ تاہم ان میں سے کسی کے لیے میں موت کا متمنی ہرگز نہیں ہوں اور نا ہی انہیں قتل کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں کیونکہ آخر کار میں ایک انسان ہوں اور میرے کچھ اصول اور اخلاقیات ہیں جن کا میں خود کو پابند سمجھتا ہوں۔

سیرتِ نبوی میں قتل اور اجتماعی نسل کشی کے کئی واقعات ہیں، بنی قریظہ کے یہود یا خیبر اس کی مثال ہیں، بنو قریظہ کے قتلِ عام کے بارے میں خون سے لتھڑی مُعطر سیرتِ مصطفی ہمیں بتاتی ہے کہ جب وہ شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آئے تو صلعم نے انہیں بنی النجار کے ایک گھر میں قید کردیا اور ایک ایک کو باہر نکال کر ذبح کرتا گیا اور خندق میں پھینکتا گیا جبکہ باقی قیدیوں کو پتہ ہی نہ تھا کہ ان کے ساتھ باہر کیا ہو رہا ہے حالانکہ شکست کے معاہدے کے مطابق صلعم کو ان کے مال کے بدلے ان کی جان بخشنی تھی مگر صلعم نے اپنی سرشت کے مطابق غداری کی، اس دوران کٹتی انسانی گردنوں اور بہتے خون کے ان ہولناک مناظر نے انصار کے دل دہلادیے، یہ وہ لوگ تھے جو صلعم کے مدینہ آنے سے پہلے ان کے پڑوسی تھے اور ان سے ان کے اچھے برادرانہ تعلقات تھے لہذا انہوں نے صلعم کو یہ قتلِ عام روکنے کے لیے کہا مگر صلعم اپنی مکارانہ فطرت سے مجبور تھا، اس نے کسی کی نہ سنی اور یہ بہیمانہ قتلِ عام جاری رکھا جہاں خونین سیرت کے مطابق چھ سو سے سات سو انسانوں کی گردنیں اتاری گئیں پھر صلعم نے ان کے مال ودولت اور عورتوں پر قبضہ کر لیا، سب سے بڑا انعام حیی ابن اخطب کی بیٹی صفیہ تھی جس سے صلعم نے بغیر عدت کے اس کے باپ اور شوہر کو قتل کرنے کے بعد فوری طور پر شادی رچا لی۔۔ (تفسیر الطبری میں دیکھیے سورۃ الاحزاب کی آیت 26 کی تفسیر، صفحہ 421)

اس قصے کو جسٹی فائی کرنے کے لیے مسلمانوں کے ایک ہزار ایک بہانوں سے مجھے حیرت نہیں ہوگی۔۔ خاص طور سے جبکہ وہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے لہذا ان کے ساتھ جو کچھ ہوا بالکل ٹھیک تھا کہ یہ اُس جلاد اللہ کی حکمت ہے جس نے احمقوں کی طرح آسمان کو بغیر ستونوں کے اٹھا رکھا ہے۔

 

پھر اللہ کا دشمن آخر ہے کون؟

اللہ کے دشمن کی تعریف وضع کرنا خاصہ مشکل کام ہے، کیا یہ وہ ہندو ہے جو بتوں کی پوجا کرتا ہے یا بدھ مت؟ یا یہ وہ عیسائی ہے جو صلیب کی پوجا کرتا ہے؟ کیا یہ وہ رافضی ہے جو رسول کے پالتو پیارے صحابہ کو گالیاں دیتا ہے؟ یا خشک دماغ وہابی یا قادیانی، یا بہائی، یا صوفی، یا اسماعیلی، یا سیکولر، یا کمیونسٹ یا پھر وہ جو مسلمانوں سے کسی بات پر اختلاف کرے؟

ابھی تک اللہ کے دشمن کی کوئی تعریف نہیں مل سکی؟

چاروں آسمانی کتابیں، قرآن، تورات، انجیل اور اور نبیوں کے نبی سید قطب کی کتاب فی ظلال القرآن یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ اللہ کے دشمنوں کو تباہ وبرباد کردیا جائے جبکہ ان میں سے ہر کوئی دوسرے کو اللہ کا دشمن سمجھتا ہے، شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو اللہ کا دشمن سمجھتے ہیں بلکہ قصہ تخلیق کے آغاز سے ہی اللہ کا ایک دشمن موجود تھا۔۔ ذرا بوجھیے تو وہ کون ہے؟۔۔۔۔۔ جی ہاں یہ ابلیس ہے۔۔

حضرتِ مسیح اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت کریں مگر یہی بات وہ خود پر لاگو نہیں کرتے اور اپنے دشمن شیطان سے محبت نہیں کرتے بلکہ اسے صلیب کا دشمن قرار دیتے ہیں، میں نے کبھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو اپنے آلہ قتل سے اس قدر محبت کرتا ہو جتنا کہ یہ شخص کرتا ہے، یعنی اگر اسے پھانسی دے کر مارا جاتا تو کیا وہ رسیوں سے محبت کرتا؟!

قرآن اور سیرت میں اللہ کے بہت سارے دشمنوں کا ذکر ہے، موسی کا فرعون اللہ کا دشمن تھا، ابو لہب اللہ کا دشمن تھا، ابو جہل، مسیلمہ، نمرود، عامر بن طفیل، لوط کی بیوی، مایکل جیکسن، برکت حسین اوباما اور ہر وہ شخص جو گناہ کرتا ہے اللہ کا دشمن ہے۔۔

اللہ کے دشمن کی گالی صحابہ میں خاصی پاپولر ومقبول تھی، جب اللہ کی بے نیام تلوار خالد بن الولید نے بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل کیا جو مرتد نہیں ہوا تھا اور اسلام کو اپنے تمام تر ارکان سمیت قبول کر لیا تھا مگر اس نے اپنے اوپر قریش کے تسلط کو مسترد کردیا تھا، تو ہمارے اس جلیل القدر صحابی نے اسے صرف قتل کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بیوی لیلی بنت المنہال التمیمیہ سے فوری طور پر شادی بھی رچا لی جو اپنی خوبصورت ٹانگوں کی وجہ سے بہت مشہور تھی اور اسلامی عدت کی شرط کو دیوار پر دے مارا، اس طرح اس نے اپنے رسول کی سلفیانہ اتباع کی جس نے صفیہ بنت اخطب سے شادی کرتے وقت عدت کی شرط کو خود ہی پامال کردیا تھا، عباس محمود العقاد اپنی کتاب ❞عبقریۃ خالد❝ میں اس عورت کا المیہ لکھتے ہیں:

(کان ثدییہا ینضحان بلبن الرضاع من اولاد لہا من مالک)
❞مالک سے اس کی اولاد کے لیے اس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے❝

خالد جنگی مجرموں کے لیے ایک بہترین نمونہ تھا حتی کہ عمر نے اس سے کہا تھا کہ:

(یا عدو اللہ قتلت امرءاً مسلماً ثم نزوت علی امراتہ، واللہ لارجمنک بالاحجار)
❞اے اللہ کے دشمن ایک مسلمان شخص کو مار کر اس کی بیوی پر سوار ہوگئے، اللہ کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کروں گا❝

ایک اور قصے میں حضرت ابو ہریرہ نے جب بحرین کے بیت المال کی کرپشن سے دس ہزار درہم بنائے تو حضرت عمر نے اسے ❞اللہ اور اس کی کتاب کا دشمن❝ قرار دیتے ہوئے اس کی کتوں کی طرح اتنی پٹائی کی کہ وہ لہو لوہان ہوگیا۔

 

اسلامی ملوکیت کے دور میں بھی اللہ کے دشمن کے الزام کی اصطلاح کا استعمال جاری رہا، جب عباسی بنو امیہ کی تخلیق کردہ احادیث کی چھانٹی کر رہے تھے اور انہیں ایسی احادیث سے بھر رہے تھے جو ان کے اقتدار کو جواز دیتیں، ہمیں ہارون الرشید احادیث کے ایک مصنف سے اختلاف کرتے ہوئے ملتا ہے، اور اس سے پہلے کہ وہ اس کا سر کاٹے وہ بے چارہ اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ احادیثِ نبویہ کی جعلسازی میں مہارت رکھتا تھا تو ہارون الرشید جو ایک سال جنگیں لڑتا تھا اور ایک سال حج کرتا تھا اور فارغ وقت میں لوگوں کو قتل کرتا تھا نے اسے ❞اللہ کے دشمن❝ کی گالی دیتے ہوئے مطلع فرمایا کہ جناب ہمارے پاس ابی اسحاق الفزاری اور عبد اللہ بن المبارک جیسے آپ سے اچھے احادیث گھڑنے والے جعلساز موجود ہیں۔ (حوالہ)

آج جمہوری اسلامی پاکستان اللہ کے دشمنوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں اسلام پسند اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے روزانہ بموں سے اڑاتے ہیں، جمہوری اسلامی پاکستان کے سارے لیڈر اللہ کے دشمن ہیں، نواز شریف اللہ کا دشمن ہے، اس کا بھائی شہباز شریف بھی اللہ کا دشمن ہے، جنرل کیانی بھی اللہ کا دشمن ہے، حسنی مبارک بھی اللہ کا دشمن ہے، قذافی بھی اللہ کا دشمن تھا، خادم الحرمین الشریفین بھی اللہ کا دشمن ہے، پوپ بھی اللہ کا دشمن ہے، موم بھی اللہ کی دشمن ہے، سلمان رشدی بھی اللہ کا دشمن ہے بلکہ انسان تو انسان اب تو چیزیں بھی اللہ کی دشمن ہونے لگیں ہیں۔۔ ٹی وی بھی اللہ کا دشمن ہے اور اب تو موبائل فون بھی اللہ کی دشمنی سے نہ بچ سکا۔

اگر آپ صلعم کے دشمن ہیں تو آپ خودکار طور پر اللہ کے بھی دشمن ہیں، اور اگر آپ صلعم کے کسی قلیل القدر صحابی کے دشمن ہیں تو آپ اللہ کے بھی دشمن ہیں، اور اگر آپ کسی تابعی کے تابع کے تابع کے تابع کے تابع کے کسی قول سے متفق نہیں ہیں تب بھی آپ اللہ کے دشمن ہیں، اور اگر آپ ثابت شدہ یا متفق علیہا عباسی یا اموی دور کے رسول اللہ سے احادیث گھڑنے والے کسی زندیق سے متفق نہیں ہیں تو بھی آپ اللہ کے دشمن ہیں، اگر آپ لبرل ہیں، یا سیکولر ہیں یا ملحد ہیں اور بھلے ہی آپ کا ان سے دور تک کا کوئی واسطہ نہ ہو تب بھی آپ اللہ کے دشمن ہوں گے۔

آپ شاید یہ تصور نہ کر سکتے ہوں کہ کوئی بازاروں میں جاکر بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو محض اس لیے قتل کرے گا کیونکہ اس کے خیال میں وہ اللہ کے دشمن ہیں۔۔ مگر جہاں اللہ کے دشمنوں کو قتل کرنے کے خدائی احکامات ہوں اور ان احکامات کو ماننے والے بے وقوف بھی ہوں تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔ معاملہ بس ایک نظر، پھر ایک مسکراہٹ اور پھر لبیک اور پھر۔۔۔۔ دھڑام۔۔۔۔۔ اور پھر بہتر حوروں کے ساتھ گروپ سیکس جس کا مقابلہ جینا جیمسن کی فلمیں بھی نہیں کر سکتیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف ان بہیمانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں میں ضمیر کی ذرا سی بھی خلش نہیں ہوتی کیونکہ بے قصوروں کے قتل کے اللہ کے احکامات اسلام کے ماننے والوں کے ہاں اس قدر عام اور بدیہی ہیں کہ انہیں یہ ایک عام بات لگتی ہے، اور کیسے نہ ہو کہ انبیاء کے باپ ابراہیم کو اللہ نے سات سال کے بچے کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو اس نے بلا چوں وچرا اس پر لبیک کہہ دیا کہ اللہ کا حکم بجا لانا ہے چاہے وہ کتنا ہی انسانیت سوز اور گھٹیا ہو۔

اکثر مسلمان نازی ہولوکوسٹ کی محض اس لیے تایید کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں نے مستقبل میں فلسطین پر قبضہ کرنا تھا!؟ اسی طرح اکثر مسلمان مغرب سے نفرت کی وجہ سے القاعدہ سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ہر اس نظریہ سے جو ان کے نظریات سے مختلف ہے، مسلمانوں کے دماغوں میں یہ فکر قومی عسکری آمریتیں گزشتہ سو سال سے ٹھونستی چلی آرہی ہیں۔

مسلمانوں کے دعوے کے مطابق ریت سے برآمد ہونے والے ان کے اس خدا کے حکم کے بغیر کوئی ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اس قدر بے پناہ طاقت کے باوجود وہ اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے انسانوں کو مامور کرتا ہے حالانکہ وہ یہ گھٹیا کام خود بھی کر سکتا ہے۔۔ ریت کا خدا یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ یہ طریقہ کارگر نہیں ہے، اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو لوگوں کو شروع سے ہی صحیح مذہب میں پیدا کرتا تاکہ وہ میرے دشمن نہ بنیں، تب مجھے دوسروں کو انہیں قتل کرنے کا حکم صادر نہ کرنا پڑتا، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انہیں جان بوجھ کر غلط مذہب میں پیدا کیا کیونکہ وہ شروع سے ہی انہیں قتل کرنے کی نیت کیے بیٹھا تھا۔

اللہ ہمیں اور آپ کو اپنی دشمنی سے بچائے۔۔۔

آمین۔

19 Comments

  1. بنی قریظہ یا یہود خیبر سے کوئی خاص رشتہ ہے !!!
    دنیاقتل عام سے بھری پڑی ہے لیکن 1400 سال کے تعفن تک اپکی سونگھنے کی قوت چلی جاتی ہے اور تعفن پا لیتی لیکن تقسیم ہند کے موقعہ پر یا جنگ عظیم دوم یا بنگلہ دیش کے بننے میں جو ہو اسکی خبر نہین انسانیت میں کونسی انسانیت پسند ہے امریکی جو 50 سال سے مختلف ہتھیارون کا تجربہ کر رہے ہین اور سائنسی ایجاداات کو آزما رہے ہین انسانوں پر- یا برطانوی جو اپنے مختلف منصوبوں سے پوری دنیا کے امن کو برباد کئے ہوئے ہین ساری دنیا کے مذاہب اور انکے رسول اسی لئے وجہ تکلیف ہین کہ جس طرح خالد بن ولید نے عدت کی مہلت کے بغیر مقتول کی عورت پر سوار ہو گیا کوئی عورت ہر دن ایک نیا مرد سوار کروالیتی تھی اسی لئے دنیا میں کچھ دشمنان خیر وجود میں آتے رہتے ہین-
    جنکا وجود ناپاکی سے ہوتا ہے انکا خیر اور امن کا دشمان ہونا ضروری ہے

  2. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ طبری اپنی تفسیر میں تو یہودیوں کے مارے جانے کا ذکر کرتا ہے مگر اپنی تاریخ میں اس کو بالکل ہی گول کر جاتا ہے۔ تاریخ طبری میں غزوہ خیبر کے بعد صلح نامہ کا ذکر کچھ یوں آتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    رسول اللہ (ص) نے اہل خیبرکو ان کے قلعوں وطیخ اور سلالم میں محصور کر لیا۔ جب ان کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوا تو انہوں نے رسول اللہ (ص) سے درخواست کی کہ آپ (ص) ہماری جان بخشی کر دیں اور ہمیں یہاں سے جلا وطن کر دیں۔ آپ (ص) نے اس پر عمل کیا۔ اس سے قبل آپ (ص) نے ان کے مواضعات شق، نطاہ، کیتہ اور ان دو قلعوں کے علاوہ اور تمام قلعوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب اہل فدک کو اہل خیبر کی اس درگت کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے بھی رسول اللہ (ص) سے یہی درخواست کی کہ آپ (ص) ان کی جان بخشی فرما کر انکو جلا وطن کر دیں اور وہ اپنی تمام جائداد آپ (ص) کے لیئے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ آپ (ص) نے اسے منظور کر کے حسبہ عمل کیا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    1. جناب عالی صاحب!
      آپ کا تبصرہ پڑھ کر میں سمجھا کہ شاید آپ نے یہ تبصرہ پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے، میں بھی حیران و پریشان تھا کہ طبری جیسا مؤرخ بنو قریظہ کے قتل عام کے واقعہ کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟ اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جب تاریخ طبری کو کھول کر دیکھا تو اطمینان ہوا کہ آپ نے حسب معمول "مومنانہ تحقیق” سرانجام دی ہے، جبکہ طبری نے بنو قریظہ کے قتل عام کی وہی تفصیل بیان کی ہے جیسی دیگر مؤرخین نے بیان کی اور خود طبری نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کی۔اور یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ طبری بنو قریظہ کے اندہوناک قتل عام کا واقعہ غزوہ خیبر کے ساتھ کرتا کیونکہ غزوہ بنو قریظہ ذی قعدہ 5 ہجری میں وقوع پذیر ہوا، جبکہ غزوۂ خیبر کا واقعہ محرم الحرم 7 ہجری کا ہے۔
      تاریخ طبری کا اردو ترجمہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں نیٹ پر دستیاب ہے جو نفیس اکیڈمی کی شائع شدہ تاریخ طبری سے اسکین شدہ ہے، اس نسخہ کے صفحہ نمبر 299 تا 300 پر بنو قریضہ کے قتل کی اندہناک تفصیلات درج ہیں۔
      امید ہے کہ "جراتِ تحقیق” کرنے کے بعد غلطی کا اعتراف بھی فرمائیں گے۔

      1. ٓآپ کے بلاگ سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        خیبر کے قتلِ عام کے بارے میں خون سے لتھڑی مُعطر سیرتِ مصطفی ہمیں بتاتی ہے۔۔۔!
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سو کالڈ قتل عام غزوہ خیبر کے موقع پر ہی پیش آیا ہو گا۔ جب تاریخ طبری کو کھول کر پڑھا تو ایسا کوئی واقعہ غزوہ خیبر کے باب میں درج نہیں تھا۔

        جو صفحہ نمبر آپ نے اپنے جواب میں بتایا ہے وہ بھی غلط ہے اور بنو قریظہ والا واقعہ نفیس اکیڈمی کی شائع شدہ تاریخ طبری (ترجمہ) کے صفحہ نمبر ۲۲۴ سے شروع ہوتا ہے۔

        بہر حال آپ نے بھی تاریخ پڑھی ہے۔ ٓاپ کو اس کا اندازہ تو ضرور ہو گا کہ یہ اللہ کی سنت ہے کی جب کوئی بھی اللہ کا پیغمبر اپنے دین کی طرف بلاتا ہے اور اس پیغام کو سننے والے اس سے انکار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عزاب نازل کرتا ہے۔ باقی انبیاء کے موقع پر یہ عذاب زلزلوں اور سیلاب وغیرہ کی صورت میں آتا تھا۔ آنحضرت (ص) کے موقع پر یہ تلوار کی صورت میں بازل ہوا۔ بنو قریظہ کے موقع پر یہ عذاب اس لیئے بازل ہوا کیونکہ انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر بد عہدی کی تھی اور احزاب کے ساتھ مل گئے تھے۔ غزوہ خندق سے واپسی پر حضرت جبرایئل آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ملائکہ نے ابھی تک ہتھیار نہیں کھولے۔ آپ (ص) دشمن کے مقابلے میں جائیے اور ان سے لڑیئے۔ آپ (ص) نے زرہ منگوائی اور نبو قریظہ کی جانب جہاد کا قصد کیا۔ تقریبأ ۲۵ دن تک ان کا محاصرہ کیئے رکھا۔ جب وہ محاصرے سے تنگ آگئے تو انہوں نے ہتھیار اس شرط پر رکھنے کی بات کی کہ ان کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ (رض) جو چاہیں فیصلہ کریں۔

        یہ اللہ کا عذاب تھا جو اللہ کی سنت کے مطابق بنو قریظہ پر پیغمبر سے بد عہدی کے نتیجے میں نازل ہوا۔

          1. میرا اقتباس تاریخ طبری کی جلد دوم، طبع 2004 جدید کمپیوٹر ایڈیشن سے تھا۔ میرا خیال ہے کہ آپ پرانا ایڈیشن ریفر کر رہے ہیں۔

            http://imageshack.com/a/img832/7784/uvh9.jpg

            دوسرا یہ کہ مصنف نے اسی واقعے کے آخر میں ام المومنین حضرت صفیہ (رض) سے شادی کا کا ذکر بھی کیا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ مصنف غزوہ خیبر اور غزوہ بنو قریظہ میں کنفیوز ہو رہا ہے یا قاریئین کو کر رہا ہے۔ اسی بات کو میں نے پواینٹ آوٹ کیا تھا۔

  3. میں نے غلطی سے ❞بنو قریظہ کے قتلِ عام❝ کی بجائے ❞خیبر کے قتلِ عام❝ لکھ دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے نیچے کا سارا پیراگراف خیبر پر محمول ہوگیا، یہ ٹائپنگ کے وقت محض ایک چوک تھی جو درست کردی گئی ہے۔ مقصد کسی کو کنفیوز کرنا ہرگز نہیں تھا۔

    1. اگر آپ نے غلطی سے بنو قریطہ کی جگہ خیبر لکھ دیا تھا تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑا انعام حیی ابن اخطب کی بیٹی صفیہ تھی جس سے صلعم نے بغیر عدت کے اس کے باپ اور شوہر کو قتل کرنے کے بعد فوری طور پر شادی رچا لی۔۔۔۔۔۔۔ چہ معنی دارد؟ لگے ہاتھوں اس فقرے کو بھی ڈیلیٹ کر دیں۔

  4. نابغہ روزگار!!!
    انسان کےلئے ایک لفظ ہے اخلاق –
    اگر قتل عام کیا ہے انسانوں کا صرف تو وہ لوگ کہان سے آگئے جو اپکی طرح آج جرائت سے تکذیب کرتے ہین!!!
    نبوت کے دعوی پر شک ہے یا قتل عام کرانے پر،،،،،،
    آپکی تکلیف کیا ہے ؟؟؟ پتہ چلے تو ؟؟؟
    ناپاک لوگ کبھی حق کو نہین پا سکتے اسمین حق کی نہین ان ناپاک لوگوں کے وجود کی خطا ہوتی ہے ان کے آباء و اجداد کی خطا ء
    ہوتی ہے

  5. محسن انسانیت !!!
    انسانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے نہین کہا جاتا، ہر نظام اور مہذب معاشرہ حدود رکھتا ہے اور ہر ملک میں پولس اور جیل ہے اس ملک کے سربراہ کو معاشرہ سے مجرمیں کو پاک رکھنا ہے،
    اور یہی کام محسن انسانیت نے بھی کیا
    جن لوگوں کو قتل کیا گیا وہ اس قابلی ہی تھے کہ قتل کئے جائین اور اسکا احساس ان لوگون کو تھا کہ وہ جو کر رہے ہین اسکا انجام کیا ہوگا
    مہا بھارت میں جب ارجن نے تیر چلائے سب اسکے اپنے ہی تھے لیکن قتل ہوئے تاریخ میں مذہب ہی وہ نظریہ ہے جو انسان کو قتل کرنے کا مجاز بناتا ہے اور قتل جیسے عمل کی تحسین بھی کی جاتی ہے اور قانون مذہب ہی کی ایک شق ہے مگر قانوں میں کوئی عقیدہ نہین ہوتا اور قانون نہ ہو کسی کو امن نہ ہو
    کیا کسی مجموعہ انسان کو بغیر قانون کے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟؟؟

  6. یقین اندھا ہی ہوتا ہے، آزمایا ہوا تو پھر بھی بدل جاتا ہے ہر مرتبہ کا تجربہ نیا ہی نتیجہ ہوتا ہے ایک ہی بات سچ ہے اسلام اللہ اور اللہ کے رسول جو کہ انسانیت سے محبت کا نہ صرف پیغام دیتے ہین بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھا اور سیکھا تے ہین اور جو ناپاک فاسق عقل اور دل کے اندھے ہین وہ نہ صرف خود گمراہ ہین بلکہ اورون کی گمراہی کا سبب بھی ہین- ہر ذی شعور اور انسانیت کے درد مند دل نے تاریخ انسانی مین جب تلاش کیا تو محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو اخلاق اور محسن انسانیت میں یکتا پایا

  7. بے شک مولوی سپیکر کا استعما ل درست طریقہ نہیں کر تے لیکن آپ نے جو لفظ مُردار استعما ل کیا وہ انتہائ نا مناسب ہے
    آپ مسلمان ہین کہ نہیں لیکن آپ کو ﷺ کے بارے ایسے ا لفظ استعما ل نہیں کر نے چاہے

  8. This is what the history is and the action was taken per approval of one Sahabi’s decision which was made on the basis of Torait Torah
    This is something to read for readers to get more information Thanks

    بنو قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں آباد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہجرت کے نتیجے میں مدینہ میں حکومت قائم ہوئی تو مدینہ کے تمام یہودیوں نے بالاتفاق آپ کو سربراہ حکومت تسلیم کر لیا۔ انہیں مکمل مذہبی، معاشرتی اور معاشی آزادی دی گئی۔ دیگر یہودی قبائل کے برعکس بنو قریظہ پانچ سال تک اس معاہدے پر قائم رہے اور انہیں مکمل آزادی حاصل رہی۔

    5H / 626CE میں پورے عرب کے قبائل نے مل کر 10,000 کی ایک فوج کی صورت میں مدینہ پر حملہ کر دیا۔ یہ تعداد شاید اب کم لگے لیکن اس وقت عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا عرب لشکر اکٹھا ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان صرف 3000 تھے۔ معاہدے کی رو سے بنو قریظہ کے لئے لازم تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس پر ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔

    اس نازک موقع پر جب عرب کا سب سے بڑا لشکر مدینہ پر حملہ آور تھا، بنو قریظہ نے صلح کا معاہدہ توڑ کر کفار کے لشکر کو رسد پہنچانا شروع کر دی اور خود حملے کی تیاری شروع کر دی۔ ان کی تیاریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہتھیاروں میں 1500 تلواریں، 2000 نیزے، 300 زرہیں اور 500 ڈھالیں شامل تھیں۔

    اللہ تعالی نے اس موقع پر اپنی قدرتی طاقتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی۔ تیز آندھی، طوفان اور سردی کے باعث کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اب یہ لوگ کبھی مدینہ پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے۔

    بنو قریظہ نے عین اس لمحے عہد شکنی کی تھی جب مدینہ پر پورے عرب کے لشکر نے حملہ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ سخت ترین سزا کے مستحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین تجاویز پیش کیں: اسلام قبول کر لیا جائے، یا ہفتے کے دن مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے (یہودی مذہب میں ہفتے کے دن کوئی کام کرنا منع تھا) یا پھر اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے مسلمانوں پر حملہ کر کے کٹ مرا جائے۔ انہوں نے کوئی تجویز قبول نہ کی۔
    بنو قریظہ میں سے چند افراد اپنی قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے۔ ان کا تفصیلی ذکر ابن سعد نے طبقات الکبری میں کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو عہد شکنی کے خلاف تھے۔ ان سب کے جان و مال کو محفوظ قرار دے دیا گیا۔ ان میں ابو سعد بن وھب النضری، رفاعہ بن سموال القرظی، ثعلبہ بن سعیہ القرظی، اسید بن سعیہ القرظی، اسد بن عبید القرظی اور عمرو بن سعدی شامل تھے۔

    چند ہی دن میں بنو قریظہ نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیےکہ ان کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کریں گے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تورات کے قانون کے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے تمام لڑنے والے مردوں کو قتل کیا جائے اور خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ بنو قریظہ کے جن افراد نے اسلام قبول کیا تھا یا عہد شکنی میں حصہ نہ لیا تھا، انہیں کوئی سزا نہ دی گئی۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنو قریظہ کو اتنی سخت سزا کیوں دی گئی؟ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔ حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔
    اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی تھی جس کی تائید اللہ تعالی نے خود وحی کے ذریعے کر دی تھی۔ اس سخت سزا کی بنیادی طور پر وجہ یہی تھی کہ اس قوم پر اللہ کے رسول سے عہد شکنی کے باعث ان پر اسی طرز کا عذاب مسلط کیا گیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے قوم عاد، ثمود، مدائن، سدوم اور خود بنی اسرائیل پر مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں کے ساتھ ان کے معاہدات رہے ہیں، وہ خود ان پر معاہدات کی خلاف ورزی کی صورت میں یہی سزا مسلط کرتے رہے ہیں۔ ہم یہاں تورات کی متعلقہ آیات نقل کر رہے ہیں:
    اگر وہ صلح کرنے سے انکار کریں اور لڑائی پر اتر آئیں تو تم اس شہر کا محاصرہ کر لینا اور جب خداوند تمہارا خدا اسے تمہارے ہاتھ میں دے دے تو اس میں سے سب مردوں کو تلوار سے قتل کر دینا لیکن عورتوں، بچوں اور مویشیوں اور اس شہر کی دوسری چیزوں کو تم مال غنیمت کے طور پر اپنے لئے لے لینا۔ (کتاب استثنا، باب 20)
    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس معاملے میں قرآن کے نرم قانون کی بجائے تورات کے سخت قانون پر عمل کیوں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کے ایک خصوصی حکم کے تحت ہوا تھا۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کی تائید اللہ تعالی کی طرف سے کر دی گئی تھی۔
    قوموں پر عذاب سے متعلق اللہ تعالی کا یہ قانون ہے کہ وہ جس قوم کا انتخاب کر کے اس کی طرف اپنا رسول مبعوث فرما دے، اس قوم کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی۔ رسول اللہ تعالی کے خصوصی دلائل اور معجزات کے ذریعے اس قوم کے سامنے اس درجے میں اتمام حجت کر دیتا تھا کہ ان کے پاس ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوا کرتا تھا۔
    رسول کی دعوت کو اگر وہ قوم قبول کر لیتی تو اسے دنیا ہی میں سرفراز کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا موسی، یونس اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔ اگر کوئی قوم رسول کی دعوت کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتی تو انہیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عذاب دے دیا جاتا تھا۔ سیدنا نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔ اس طریقے سے یہ اقوام اللہ تعالی کے جزا و سزا کے آخرت کے قانون کا ایک عملی ثبوت بن جایا کرتی تھیں۔ یہ قانون اتنا واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات اور قرآن کا بنیادی موضوع ہی یہی قانون ہے۔

جواب دیں

19 Comments
scroll to top