Close

انڈونیشیا: طالبات کے کنوارپن کے ٹیسٹ کی تجویز

جکارتہگرلز ہائی اسکول کی طالبات کے لیے ایک منصوبہ پر غور ہورہا ہے، جس کے تحت طالبات کو لازماً کنوارے پن کا ٹیسٹ کروانا پڑے گا۔ میڈیا سے اس خبر کے پھیلنے کے بعد انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں میں غم و غصہ کے لہر پھیل گئی ہے۔

انڈونیشیا کے جنوبی سماٹرا میں پربمله شہر کے تعلیم کے سربراہ محمد راسید نے 2014ء سے اس علاقے میں ہائی اسکول کی طالبات کے کنوارے پن کے  ٹیسٹ کو لازم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ”یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے جسم فروشی اور آزادانہ جنسی تعلقات کو روکا جاسکتا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ اگر اراکین پارلیمنٹ نے ان کی تجویز کو منظور کرلیا تو وہ اس کام کے لیے شہری بجٹ کا استعمال کرتے ہوئے اگلے سال سے شروع کردیں گے۔راسید نے کہا کہ ”یہ طالبات کے مفاد میں ہے، ہر عورت کو کنوارپن کا حق ملنا چاہئیے، ہمیں توقع ہے کہ طالبعلم غلط راستے پر نہیں چلیں گے۔“

عالمی خبر رساں ادارے  رائٹرز کے مطابق بہت سے مقامی حکام نے اسے غیر اخلاقی تجویز قرار دیتے ہوئے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا ہے۔ کئی تعلیمی ماہرین اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے بھی اس تجویز کی شدید مخالفت کی ہے۔

16 سے 19 برس عمر کی ہائی اسکول کی طالبات کو اپنے کنوارے پن کی تصدیق کے لیے یہ ٹیسٹ ہر سال گریجویشن پاس کرنے تک کروانا ہوگا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ لڑکوں کو اپنے کنوارے پن کی تصدیق کے لیے کسی قسم کی کوئی تفتیش سے نہیں گزرنا پڑے گا۔اس منصوبے کو کچھ مقامی سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ٹیسٹ سے روز بروز بڑھتی ہوئی آزادانہ جنسی میل ملاپ کے خاتمے میں مدد مل سکے گی۔

جکارتہ پوسٹ سے بات کرتے ہوئے انڈونیشیا کی اسلامسٹ پروسپیریس جسٹس پارٹی (پی کے ایسکے ایک رہنما حسرل ازوار کا کہنا تھا کہ ”کنوار پن ایک مقدس علامت ہے، طالبات کا شادی سے پہلے اپنا کنوار پن کھو دینا ان کے لیے ذلت کاباعث ہوتا ہے۔“

مقامی نیوز ویب سائٹ کومپاس کی ایک رپورٹ کے مطابق کنوارپن کے ٹیسٹ کی یہ تجویز شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ردّعمل میں سامنے آئی ہے، حال ہی میں ہائی اسکول کی چھ طالبات کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے، جن پر مبینہ طور پر جسم فروشی کا الزام تھا۔

دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں یہ تجویز نئی نہیں، بلکہ اس سے قبل مختلف برسوں میں دو مرتبہ اسی طرز کی تجویز سامنے آچکی ہے۔ مغربی جاوا میں 2007 کے دوران ایسے ہی ایک منصوبے کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا تھا، اور پھر سماٹرا میں 2010ء کے دوران بھی اسی قسم کی تجویز پیش کی گئی تھی کہ لڑکیوں کو سرکاری ہائی اسکولوں میں اُسی وقت داخلہ دیا جائے جب وہ کنوارپن کے ٹیسٹ میں پاس ہو جائیں، لیکن عوام کے شور شرابہ کرنے پر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا تھا۔

انڈونیشیا کی خبررساں ایجنسی ٹیمپو کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پربمله ایجوکیشن ایجنسی کے سربراہ ایچ ایم رشید کا بیان قومی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ اس بیان میں رشید نے کہا تھا کہ انہوں نے 2014ء کے سالانہ بجٹ میں ہائی اسکول طالبات کے کنوارپن کے  ٹیسٹ کے لیے بھی رقم مختص کی تھی۔

عالمی خبررساں  ادارے اے پی کے مطابق صوبائی محکمہ تعلیم کے سربراہ ودود کا کہنا ہے کہ ”اس طرح کے ٹیسٹ سے زیادہ ضروری اور مفید دوسرے بہت سے کام ہیں اور طالبعلموں کی ذات کے بارے میں فیصلے دینے سے زیادہ ضروری ان کا تعلیمی میدان میں ترقی کرنا ہے۔  میں رسید کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس تجویز کو واپس لے لیں۔“

انڈونیشیا کے وزیر تعلیم محمد نوح نے بھی اس تجویز کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اگر آپ کو اپنے بچوں کو منفی اثرات سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اور بہت سے  طریقے ہیں، اس  تجویز کو پیش کرکے سمجھداری کا مظاہرہ  نہیں کیا گیا ہے۔“

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انڈونیشیا میں خواتین پر تشدد کے خلاف بنائے گئے قومی کمیشن کی ڈپٹی چیف مسروہچاہ نے اس تجویز پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، ”کنوارپن کا ٹیسٹ خواتین کے ساتھ ایک طرح کے جنسی تشدد کی مانند ہے۔ یہ اشتعال انگیز اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔“

بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا میں سوشل میڈیا پر بھی اس تجویز کے خلاف کافی غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مقامی اور قومی سطح کے پارلیمنٹیرین، انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اور کارکن، بلکہ یہاں تک کہ مقامی اسلامی ایڈوائزری کونسل کے بھی کنوارپن کے ٹیسٹ کی تجویز کی شدید مخالفت کی ہے اور اس منصوبے کو طالبات کے ساتھ جنسی تشدد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کردیا ہے۔

جنوبی سماٹرا کی قانون ساز کونسل کے ڈپٹی اسپیکر ایچ اے جوہری نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ”یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ طالبات کا کنوارپن کسی حادثے کی بنا پر ختم ہوگیا ہو، اور اس میں ان کی کوئی غلطی نہ ہو، پھر ان کے ساتھ تو یہ بہت ہی بُرا ہوگا۔“ بچوں کے تحفظ کے قومی کمیشن نے بھی اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اس کو مذہبی قدامت پسندوں میں مقبولیت حاصل کرنے کی ایک کوشش اور انتہائی قدم قرار دیا۔ اس کمیشن کی رکن ارسٹ مردیکا سیرت نے کہا کہ ”یہ ضروری نہیں کہ کنوارپن کسی جنسی سرگرمی سے ہی ختم ہو، یہ کسی بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور کھیل کود کے دوران بھی، اس کی اور بہت سی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔“

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اس تجویز پر عملدرآمد کس طرح ہوگا اور اس پر اتفاقِ رائے پیدا ہوسکے جو اس کو پاس کرنے کے لیے ضروری ہے۔ مقامی اساتذہ کے سامنے فوری طور پر تو یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ کیا کنوارپن کے ٹیسٹ کے بغیر طالبات کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی۔

انڈونیشیا کے بہت سے علاقوں میں خواتین کے کنوارپن کو ایک قیمتی خزانے کی مانند سمجھا جاتا ہے، لیکن مردوں پر کوئی روک ٹوک عائد نہیں کی جاتی، خاص طور پر دیہی علاقوں میں اس طرح کے سخت گیر روئیے آج بھی موجود ہیں۔ حالانکہ مور نسل کے لوگوں میں کافی تیزی سے تبدیلی آئی ہے، جن کی آبادی لگ بھگ دو کروڑ چالیس لاکھ ہوگی، لیکن  نئی نسل اور پرانی نسل میں تضادات بعض مرتبہ تناؤ کی سی صورتحال پیدا کردیتے ہیں۔

گزشتہ سال انڈونیشین پارلیمنٹیرینز نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ خواتین کے منی اسکرٹ پر پابندی لگادی جائے، اس لیے کہ یہ مردوں کے لیے اشتعال انگیز لباس ہے۔ جبکہ آچے کے صوبے میں جہاں شرعی قانون نافذ ہے، خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ موٹرسائیکل پر دونوں پیر ایک طرف کرکے بیٹھیں، دوسری صورت میں بیٹھنے سے خواتین کا جسم موٹر سائیکل چلانے والے کے جسم کے ساتھ لگتا ہے اور ان کے جسم کے خدوخال نمایاں ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ ماہ جولائی میں انڈونیشیا کے شمالی جزیرے سولاویسی کے صوبے گرونٹالو گورنر رسلی حبیبی نے دفاتر میں خواتین سیکریٹریز پر پابندی عائد کردی تھی، انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سے سرکاری دفاتر کے سربراہ اپنی خاتون سیکریٹریوں کے ساتھ جسمانی تعلقات میں ملوث ہیں۔“

گزشتہ سال اسی صوبے کی انتظامیہ نے تین ہزار دوسو سرکاری ملازموں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی ماہانہ تنخواہ اپنے بیویوں کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائیں۔انتظامیہ کا خیال تھا کہ اس طرح وہ مردوں اور خواتین کے ناجائز تعلقات کو روک سکیں گے۔

2 Comments

جواب دیں

2 Comments
scroll to top