Close

اِسلام کا ناسُور

جرمن اور جاپانیوں کا وہم تھا کہ وہ ناقابلِ شکست ہیں، پوری دنیا جنگ کے نتائج سے آگاہ تھی اور جانتی  تھی کہ  نازی ہار رہے ہیں، لیکن اسکے باوجود وہ حملوں سے باز نہیں آرہے تھے۔ مسلمانوں کی طرح انکو بھی وہم تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔ انکو اس احمقانہ خواب سے بیدار کرنے اور اس نہ رکنے والی جنگ کا خاتمہ ضروری تھا۔  چنانچہ ایٹم بم استعمال کیا گیا۔ درست ہے کہ ہزاروں بے گناہ لوگ مرے لیکن جنگ تو اختتام پذیر ہوئی،لاکھوں لوگوں کی جانیں بچ گئیں اور آج جاپانی خود بھی اس واقعے کو بھیانک خواب سمجھ کر بھول گئے ہیں اور امریکہ سے انکے بہت اچھے مراسم ہیں۔
کچھ لوگ نائن الیون کا موازنہ ہیروشیما اور ناگاساکی سے کرتے ہیں مگر ایسا کرنا غلط ہے۔ ایٹم بم کا استعمال ایک طویل، تکلیف دہ اور لایعنی  جنگ کا خاتمہ تھا۔ جبکہ دوسری طرف نائن الیون تو ایک شیطانی جنگ کا آغاز ہے جو مسلمانوں نے ڈیڑھ ہزار سال پرانے بدوُوانہ معاشرے کو دنیا پر مسلط کرنے کے لئے شروع کی ہے۔  ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اچھا ہوا، کم از کم دنیا کی آنکھیں تو کھلیں انکو احساس تو ہوا کہ اسلامی عفریت جاگ رہا ہے اور انکو نگلنے کے لئے پر تول رہا ہے۔  جاپان پہ اتحادیوں کے فیصلہ کن حملے نے چند ہزار  کے عوض لاکھوں جانوں کو تو بچا لیا۔ نائن الیون نے کیا کیا؟ پوری دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی کی لہر دوڑا دی۔ نائن الیون سے پہلے کے حالات یاد کریں اور آج کے حالات دیکھیں۔ کیا کسی طور نائن الیون کے نتائج کا موازنہ ہیروشیما اور ناگاساکی سے کیا بھی جاسکتا ہے؟ کیا ہماری عقل کی آنکھوں میں اسقدر موتیا اترآیا ہے؟
بعض مسلمان ان مذہبی دہشت گردوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے بھی نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چند لوگ سارے عالمِ اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان  دہشت گردوں نے کونسا عمل اسلام کے خلاف کیا ہے۔ دہشت گرد مسلمان (باعمل مسلمان) اپنے ہر عمل کو قرآن و سنت سے جسٹیفائی کرتے ہیں۔
بعض افراد کافی حد تک روشن خیال ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی دہشت گردی غلط ہے اور ہمیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق جینا چاہئے اور صرف امن و بھائی چارے والی تعلیمات پر عمل کرتے رہنا چاہئے۔ لیکن میرا ان سے سوال ہے کہ اگر آپ اسلام کو بطور مذہب قبول کرتے ہیں تو آپ کس طرح کسی کو اس پہ عمل کرنے سے روک سکتے ہیں یا برا جان سکتے ہیں؟ ہوسکتا ہے آپ برائی نہ کریں، اسلام کی شیطانی تعلیمات کو نہ اپنائیں اور صرف و باتیں جو اچھی معلوم ہوں ان پر عمل کریں۔ لیکن پھر بھی درحقیقت آپ انکے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو اسلام کی شیطانی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں، جو فساد (جہاد) کے لئے اسلحہ اکھٹا کرتے ہیں، جو امن کے نام پر دنیا میں انارکی پھیلا رہے ہیں۔
آپ بھلے کفار کی گردن اتارنے میدان میں نہ اتریں، لیکن جو لوگ آپکے قرآن کی آیات پڑھ کر ایسا کرتے ہیں کیا آپ انکو برا کہہ سکتے ہیں؟ کس بنیاد پر؟ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، دہشت گردوں کو آپکی مورل سپورٹ حاصل ہے۔ جس کتاب سے آپ نے اپنا طرزِ حیات منتخب کیا ہے وہ بھی تو اسی کتاب پہ عمل کر رہے ہیں آپ کس بنیاد پر انکے عمل کر غلط اور اپنے عمل کو صحیح قرار دے سکتے ہیں؟
اور ویسے بھی اگر عقل کی بنیاد پر آپ قرآن میں سے اچھی اچھی باتیں چن سکتے ہیں اور بری بری باتیں نظرانداز کر سکتے ہیں تو پھر قرآن کی ضرورت ہی کیوں؟ کیا عقل کافی نہیں؟
اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور اسکی پیروی کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نیم مسلم یا نیم غیر مسلم کوئی چیز نہیں۔ یا آپ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر مسلمان ہیں تو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور اسمیں موجود کسی چیز کو برا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر آپ کی عقل و شعور ایک چیز کو برا بھی جانتی ہے۔ آپ اس پر عمل بھی نہیں کرتے لیکن ساتھ میں اسکی نفی کرنے کو بھی تیار نہیں تو پھر مجھے افسوس سے آپکو اطلاع دینا پڑے گی کہ آپ منافق ہیں۔ برائی کو برائی جانتےہوئے بھی پشت پناہی کر کے آپ زیادہ بڑے مجرم بن رہے ہیں۔
عمل نہ کرنے کے باوجود اگر آپ ان شیطانی اعمال کو اپروو کرتے ہیں تو کس بنیاد پر آپکا یہ خیال ہے کہ آپ اچھے انسان ہیں؟
گفتگو اور دلائل کے مسلمان قائل نہیں۔ انکے نزدیک انکی ذمہ داری "حق اور سچ بات” پہنچا دینا ہے۔ یہی اتمامِ حجت ہے۔ اب فریقِ مخالف کے پاس یہی راستہ ہے کہ یا تو مسلمانوں کے دعووں پر بالغیب ایمان لے آئے اور بغیر بحث و دلائل کے تسلیم کر لے کہ یہ حق کا راستہ ہے یا انکی حکمرانی تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دے یا مرجانے کے لئے تیار ہو جائے۔ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔
جو مذہب ہمیں برداشت کرنے کو تیار نہیں، ہم اسکو برداشت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کیا ہمارا یہ مطالبہ غلط اور برا ہے کہ ہم آپکو یہ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو مت سکھاؤ کہ ہم (غیر مسلم) کافر اور دنیا کی بد ترین مخلوق ہیں اور ہمیں قتل کر کے وہ ان دیکھے خدا کے حضور بہت بڑے انعام کا حقدار قرار پائے گا؟ کیا ہم اس صورت میں آپکے دوست بن سکتے ہیں کہ جبکہ آپکے نزدیک جنت میں جانے کا تیز ترین اور مستند ترین طریقہ یہ ہے کہ ہمیں قتل کر دو اور ہماری عورتوں کو اغوا کر کے ریپ کر لو؟ بچوں کو غلام بنا لو؟

21 Comments

  1. ابو الحکم ۔۔۔جناب مذہب اُن سوالوں کا جواب دے دیتا ہے کہ جن کا جواب مذہب کے بغیر نا ممکن ہے۔ مذہب انسانی فطرت میں ہے۔یا اُسکی نفسیات کاحصہ ہے۔ اسی لئے تو انسان ہر دور میں ّ معبودّ بدلتے رہے ہیں ۔ لیکن مذہب کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔

    1. انسان اپنے ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ مذہب نامی اس وہم سے آہستہ آہستہ چھٹکارا پا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں جب عقل آج کی نسبت کم ارتقاء پذیر تھی تو اس وقت کے مذہب بھی اسی نسبت سے زیادہ جاہلانہ اور سفاکانہ تھے۔ کبھی انسانی خون کی بلی چڑھائی جاتی تھی اور کبھی انسانی اعضاء کی تاکہ اپنے خیالی معبود کو راضی کیا جا سکے۔ پھر بتدریج عقل آنے کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی بڑھتی چلی گئی اور انسانی جان کے بجائے جانوروں کے خون سے مذہب کے نام پہ ہولی کھیلی جانے لگی۔ جبکہ آج عقل بلوغت کی دہلیز پہ قدم رکھ رہی ہے اور انسان آہستہ آہستہ یہ جان رہا ہے کہ مذہب اسکا خیالی دوست ہے جبکہ حقیقت کی دنیا میں رہنے والے خیالی دوست نہیں بنایا کرتے۔

      کیا معبود کا بدلتے رہنا ہی اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ سب وہم اور نابالغ ذہن کی پیداوار تھا؟
      اور جناب مذہب کونسے سوالات کے جواب دیتا ہے کہ جنکا جواب مذہب کے بغیر ناممکن ہے۔ اس موضوع پہ روشنی ڈال کے شکریہ کا موقع دیجئے۔

  2. ابوُ الحکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر کے سکون کا کیا طریقہ ہے۔ زندگی کا مدعاء کیا ہے؟مرنے کے بعدکیا ہو گا؟ انصاف ہوگا۔ظالم سزا پائیں گے۔مظلوم کو عدل ملے گا۔ مشکلات و مصائب کیوں آتے ہیں۔؟ محروم اور پِسے ہوئے لوگوں کی کیا یہی ّڈسٹنیّ ہے کہ وہ استحصال کا شکار رہیں۔ ایک حقیقی اور لا متناہی خوشی کا تصور سوائے دِین کے اور کسی فکر کے پاس نہیں۔اِسکے علاوہ بھی کافی سوالات کے جوابات دِین ہی دیتا ہے ۔ سائنس یا فلسفہ نہیں۔

    1. بجائے ٹھوس اور منطقی جواب عنایت کرنے کے، آپ نے مزید سوال داغ دئیے۔ خیر۔ ۔ ۔

      اندر کا سکون یعنی احساسِ جرم سے آزادی کا طریقہ یہ ہے کہ ظلم اور جبر و زیادتی نہ کی جائے اور دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ جس سلوک کے حقدار ہم خود کو سمجھتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت سے اندر کا سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ بات جاننے کے لئے فقط عقل و ضمیر کی ضرورت ہے نہ کہ مذہب کی۔

      زندگی کا "ماورائی” مدعا کچھ بھی نہیں ہے، زندگی ایک اتفاق ہے۔ زندگی کو مقصد ہم خود عطا کرتے ہیں۔ مذہب کے نزدیک زندگی کا مقصد موت ہی ہے اور مذہبی لوگوں کے خیالات و اعمال موت کے گرد گھومتے ہیں۔ اور اسی کی مدد سے انہوں نے مظلوم طبقے کو اپنے حال پہ راضی رکھا ہوا ہے کہ تمھارے لئے دوسری دنیا میں اجر ہے اور اس دنیا کی حقیقت مری ہوئی بکری سے بھی گئی گزری ہے۔ اس دنیا اور زندگی سے بیزار کر کے مذہبی لیڈروں نے اپنی دنیا کھری کی اور اپنے ریوڑ پہ حکمرانی کی۔ اب اتنی سادہ سی بات سمجھنے کے لئے کونسی افلاطونی عقل درکار ہے؟

      مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کی "ڈسٹنی” یہ ہے کہ وہ اس استحصال سے باہر آئیں اور کسی ان دیکھی انجانی دوسری دنیا میں انصاف کی آس لگانا چھوڑ کر اسی دنیا میں خود کے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے انصاف کی جدوجہد کریں۔ اپنی "ڈسٹنی” خود بنائیں، خود اپنے ہاتھوں سے، نہ کہ خدا نامی کسی "آسمانی ہوے” کے تکئے پہ بیٹھے رہیں۔ مشکلات و مصائب ہی اس بات کا واضح اور کھلا ثبوت ہیں کہ یہ زندگی اتفاق ہے۔ ورنہ ہر کسی کو انصاف کے مطابق برابر کے مواقع ملتے۔ انصاف مرنے کے بعد ہی کیوں ہوتا؟ اس دنیا ہی میں کیوں انصاف نہ کر دیا کہ سب دیکھ لیتے؟ محترم، یہ سب لارے لپے تھے اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے ہاتھ پاؤں چوموانے کے لئے۔

      حقیقی اور لامتناہی خوشی؟ اچھا یعنی کبھی نہ ختم ہونے والا جنسی عمل اور کھانے پینے، شرابوں سے بھری مردوں کی جنت لامتناہی خوشی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بہت ہی سطحی خوشی ہے اور فقط مرد حضرات کے لئے ہے۔ اور یہ خوشی مذہبِ اسلام کے بانی کے سطحی خیالات کی روشن عکاسی کرتی ہے۔ مسلمانوں کی خیالی جنت میں عورت اور کھانے کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ اور کیا یہی مسلمانوں کے پیغمبر کی بھی دو پسندیدہ ترین چیزیں نہیں تھیں؟ کھانا اور عورت؟

      مذہب تو سائنس اور فلسفے کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا جناب۔

    1. جرات تحقیق پہ خوش آمدید مُلا کرشر صاحب۔
      نقشبندی کا مطلب یا مفہوم تو خود حضرتِ نقشبندی یا کوئی صاحبِ علم ہی واضح کر سکیں گے، احقر اس بارے جانکاری نہیں رکھتا۔صرف اتنا علم ہے کہ یہ اسلامی تصوف کے سلاسل میں سے ایک سلسلہ ہے۔
      تحریر پسند کرنے کا شکریہ، آتے جاتے رہئے گا۔

  3. جناب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر بقول ملحدین کے ّمذہب پُر تشدد رویوں کو فروغ دیتا ہے لہٰذا مذہب نہں ہونا چاہیے ّ تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے۔ کہ ِبل فرض مذاہب نہں رہتے۔۔تو تشدد بھی نہیں رہے گا ؟ کیا انسان لسانی، جغرافیائ ، نسلی اور اسی طرح کی دوسری تقسیموں پہ نہیں لڑیں گے؟

  4. اسلام واقعی ایک ناسور ہے، زرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں سے مزید بلیک میل نہ ہوا جائے۔ یہ وہ جانور ہے جو عقل کی زبان نہیں سمجھتا اور کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔
    عقل حیران ہے کہ کیسے 1400 سالوں سے ایک وحشی اور بیمار ذہنیت کو ایک بڑی تعداد مانتی آئی ہے ۔

  5. very good and deep analysis hukam sir,keep it up.i am at facebook too and some ignorant people specialy low class muslims are asking some stupid questions,i am always suggesting them to visit this site but as usual and as rotine they dn,t like to come and visit.dheet log.anyway our moral support is with you and your team always.be happy,we are looking forward for more information about this dirty religion "islam”.cheers and regards

    1. جراتِ تحقیق پہ خوش آمدید عاشر علیم صاحب،
      حوصلہ افزائی کا شکریہ، ہماری کوشش رہے گی کہ وہ حقائق جن پہ صدیوں سے جبر و استبداد کے پردے ڈالے رکھے گئے اور جن پہ سوال کرنے والوں کو ذلیل و رسوا اور قتل تک کیا گیا، انکی نقاب کشائی کر سکیں۔

  6. انسانیت کی تمیز تو آپ خود ختم کرنا چاھتے ہیں، جب مذہب نہیں کوئی جزا نہیں سزا نہیں تو ہم اچھے ہوں یا برے کیا فرق پڑتا ہے؟ ، پھر تو آپ کی نظر میں اپنی بہن یا ماں کے ساتھ بھی وہ سب کچھ جائز ہے جو جانور کرتے ہیں ؟

    1. اس بات کا مفصل جواب اس تحریر میں دیا گیا ہے۔
      مباحثہ کے لئے ڈسکشن فورمز کا اجراء ہو چکا ہے، براہِ کرم یہاں تشریف لائیے تاکہ کسی بھی تحریر کا متعلقہ موضوع پر کھل کے گفتگو ہو سکے۔ بلاگ پہ صرف محدود تبصروں کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ فورمز ڈیزائن ہی اس قسم کی مفصل گفتگو کے لئے کئے گئے ہیں۔

  7. ایک لمحے کو اگر یہ سوچ لیا جاۓ کہ دنیا میں کوئی مذہب نہیں ہے تو جنگل اور اس دنیا میں کیا فرق باقی رہ جاۓ گا ؟ اس بات کی تمیز کون کرے گا کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے؟ اچھائی اور برائی کا تصور تو مذہب نے ہی دیا ہے نہ؟

  8. محترم ابو الحکم صاحب ، آپ کچھ ٹام ہالینڈ کی کتاب "In the shadow of sword” میں ان کے اس نظریہ پر اپنے خیالات بتائیں گے کہ محمّد کا نام پہلی مرتبہ خلیفہ عبدل مالک کے دور میں اسلام سے باہر کے سورس میں ریکارڈ ہوا – اس سے پہلے اس نام کے بارے میں اسلام سے باہر کوئی حوالہ نہیں ملتا. معاویہ کے دور میں کوئی سکّہ حضور کے نام پر جاری نہیں ہوا – نہ اس نے یا اس کے پیشرو نے کوئی دیوار پر قرانی آیات کی تحریر چھوڑی -ٹام ہالینڈ کے مطابق موجودہ اسلام کی شکل بہت حد تک عبدل مالک کی مرہون منّت لگتی ہے جو کے ایک عرب اسٹیٹ کو پاورفل بنانے کی کوشش تھی –

    1. محترم پرویز اقبال صاحب، جراتِ تحقیق پہ خوش آمدید۔
      مذکورہ کتاب کے مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا چنانچہ اس پہ کوئی تبصرہ کرنے سے معذوری کا اظہار کروں گا۔ کبھی مطالعہ کر پایا تو اپنی سمجھ کے مطابق اظہارِ خیال ضرور کروں گا۔
      آتے جاتے رہیئے گا۔

  9. پرویز اقبال صاحب، کتاب تو میں نے بھی نہیں پڑھی لیکن اَپ کی تحریر سے جو کچھ میں سمجھا ہوں اس سے اختلاف کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

    ۱۔ محمد (ص) کا نام قران میں موجود ہے۔
    ۲۔ جو خطوط اَنحضرت (ص) نے دوسری ریاستوں کے بادشاہوں کو لکھے ان پر مہر نبوت موجود ہے۔

  10. اس ویب سائیٹ سے مجھے علامہ ایاز نظامی صاحب نے متعارف کروایا جن سے میری فیس بک پر بات ہوئی تھی۔ مجھے یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ انتہائی کٹر مذہبی عقائد رکھنے کے باوجود اس ویب سائیٹ کی تحریروں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دو ہی حل ہیں کہ یا تو میں ان اعتراضات کے صحیح قابل فہم جوابات دے سکوں یا ان اعتراضات کو تسلیم کر لوں۔
    میرا بین المذاہب مطالعہ بہت وسیع نہیں لیکن بین المسالک مطالعہ کافی ہے اور اس میں ایک چیز تو سیکھ چکا ہوں کہ تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ آپ جو معیار و اصول دوسروں کے لئے بناتے ہیں وہی آپ کے اپنے لئے ہونا بھی ضروری ہیں۔ اس کے بغیر کوئی بھی بات محض دھونس ہے جسے آپ زبردستی ہی صرف منوا سکتے ہیں، زہن تبدیل نہین کر سکتے۔ اس لئے اس بنیادی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرور بین المذاہب اور عدم مذاہب رجحانات کو جائزہ لوں گا۔
    مزید عرض یہ ہے کہ جو اوپر تحریر پیش کی گئی ہے ایسی تحریروں کو دیکھ کر لگتا ہے شاید یہاں بھی کسی ایک بات کے رد میں ہر غلط بات کی تائید بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ ورنہ کیا ضروری ہے کہ مسلمان جہاں پر غلط کام کر رہے ہیں ان کو تو اس پر لٹاڑا جائے اور امریکہ و دیگر کفار ملک پوری دنیا میں کئی جگہوں پر جہاں جنگجو نہیں معصوم اور نہتے مسلمانوں کو مارتے ہیں، ان کی بستیوں کو تباہ کرتے ہیں اس کی تائید کی جائے یا کم از کم مجرمانہ خاموشی اختیار کی جائے۔

جواب دیں

21 Comments
scroll to top