Close

کائنات اور ابن رشد

شاید میری یہ پوسٹ پڑھ کر کافی لوگوں کو جھٹکا لگا ہوگا کہ اس کا دماغ "” سٹک "” گیا ہے، دل ہی دل میں ملحد تو قرار دیا ہی ہوگا، کفر کا فتوی لگانے کے لیے بھی کچھ لوگوں نے کمر کس لی ہوگی، کچھ کرم فرماؤں نے تو ای میل بھیج کر اپنے ایسے خیالات کا باقاعدہ اظہار بھی کیا، لیکن یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے بلکہ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان پرانا ہے، ہماری اسلامی تاریخ بھی ان مباحث سے خالی نہیں ہے، غزالی، ابن سیناء، ابن رشد، الفارابی ودیگر نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی لگائے ہیں، میں نے اپنی مذکورہ پوسٹ میں کہا تھا کہ:

اقتباس:

"” یاد رہے کہ قدیم فلاسفروں بشمول مسلمانوں کے ہمیشہ یہی رائے رہی ہے اور انہوں نے دنیا کے قدیم ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن مذہبی تعصب کی وجہ سے وہ بات کو گھماتے رہے "”

لیکن شاید میرے اس نکتے پر کسی نے غور نہیں کیا، اور کریں بھی تو کیسے کریں، کچھ پتہ ہو تو کریں، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ پورے بلاگستان میں کسی نے امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ اور ابن رشد کی تہافت التہافت پڑھی ہو؟ ان کتابوں میں خدا پر ایسے ایسے مباحث ہیں کہ سن کر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے بال سفید ہوجائیں، میری وہ تحریر تو کچھ بھی نہیں، بلکہ میں نے تو ان کے مطالعے سے اخذ کردہ نتائج پر ہی اپنی بات کی تھی، مجھے اندازہ تھا کہ ایسی بات یہاں کسی کو ہضم نہیں ہوگی کیونکہ ہمارے ہاں مذہب کو روایتی انداز میں پڑھنے اور سمجھنے کا چلن ہے جو صدیوں سے ایسے ہی چلا آرہا ہے، ایسے میں اگر کوئی اس ڈگر سے ہٹ کر کوئی بات کہہ دے تو وہ اور اس کی بات دونوں چبھنے لگتے ہیں، ہمارے ہاں صرف ندویوں، تھانویوں، کروڑویوں، ہزارویوں، نانوتویوں، عطاریوں، قادریوں، بریلویوں، چشتیوں، ملنگیوں اور نقویوں کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں، ہمارے بچوں تک کو ان غداروں کے نام ازبر ہیں، کسی بچے سے ابن بطہ کے بارے میں پوچھ لیں، العز ابن عبد السلام کے بارے پوچھ لیں انہیں ککھ نہیں پتہ ہوگا، چنانچہ ایسے وراثتی مسلمانوں سے مجھے بھی کسی طرح کی کوئی امید نہیں ہے، اب چاہے کفر کے فتوے لگائیں یا آکر گولی ماردیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں وہی لکھوں گا جو میرا دل چاہے گا کیونکہ میں آزاد پیدا ہوا تھا اور آزاد ہی مروں گا، میں بلاگنگ صرف اس لیے کرتا ہوں کہ میں بلاگنگ کرنا چاہتا ہوں، میں لوگوں کے لیے نہیں لکھتا، اگر کسی کو میرے خیالات پسند نہیں ہیں تو وہ یہاں تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کی زحمت نہ کیا کریں.

تو دنیا کے قدیم ہونے کا خیال کوئی نیا نہیں ہے، ابن رشد کا بھی یہی خیال ہے کہ دنیا قدیم ہے یعنی اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور یہ ازل سے خدا کے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے جیسے سورج اور روشنی کا ساتھ، اور وقت میں اس سے (یعنی خدا) پرانی نہیں ہے، خدا کا کائنات سے برتر ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ علت کا معلول سے برتر ہونا جو کہ ذات اور رتبے کی برتری ہے ناکہ زمان کی اور اس کے لیے ان کی دلیل ہے:

1- اگر خدا وقت کے لحاظ سے کائنات سے پرانا ہوتا تو وقت سے پہلے بھی وقت ہوتا جو ناممکن ہے.
2- مطلق قدیم سے کوئی واقعہ رونما ہونا ناممکن ہے.
3- دنیا کا امکان موجود تھا چنانچہ دنیا ابھی تک ممکن الوقوع ہے.
4- ہر واقعے سے پہلے مادہ ہوتا ہے کیونکہ کوئی واقعہ مادے کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا چنانچہ مادہ قدیم ہے سو دنیا بھی قدیم ہے.

امام غزالی ابن رشد کے دلائل کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ابن رشد اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے بڑی مہارت سے ان کے دلائل کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ (امام غزالی) دراصل معاملے کو شکوک وشبہات سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہے اور خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر فلکیاتی اجسام (سیارے وستارے وغیرہ) کسی ازلی موجود (خدا) کا کام ہے جس کا وجود ماضی کے وقت میں داخل نہیں ہے تو اس کے افعال بھی ماضی کے وقت میں داخل نہیں ہونے چاہئیں!!.

اسی نہج پر چلتے ہوئے ابن رشد کہتے ہیں کہ جس طرح کائنات یا دنیا ازلی ہے جس کا کوئی آغاز نہیں ہے اسی طرح یہ ابدی بھی ہے جس کا کوئی آخر یا خاتمہ نہیں ہے، وہ اس کے خراب اور فناء ہونے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ قائم رہے گی، وہ کائنات کی ازلیت پر مندرجہ بالا دلائل اس کی ابدیت پر بھی لاگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کی علت معلول ہے اور یہ ازلی ابدی ہے یعنی علت معلول کے ساتھ رہے گی اور یہ کہ اگر علت تغیر پذیر نہ ہو تو معلول بھی نہیں بدلے گا.

اب ایک روایتی مولوی کو ابن رشد کی ایسی باتیں مجذوب کی بڑ لگیں گی کیونکہ وہ یہ ثقیل باتیں ہضم نہیں کر پائے گا، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا اور کائنات ہمیشہ سے ایک ساتھ چلے آرہے ہوں؟ دنیا قدیم کیسے ہوسکتی ہے؟ وقت کیا بلا ہے؟ چنانچہ مولوی پہلا کام یہی کرے گا کہ ابن رشد پر کفر کا فتوی لگا دے گا اور یہی ہوا بھی، ابن رشد پر کفر کے فتوی لگائے گئے، انہیں ملحد اور واجب القتل قرار دیا گیا.

لیکن ابن رشد ایک سچا مسلمان تھا، اس کے فلسفے کی بنیاد صرف منطق پر ہی نہیں کھڑی تھی بلکہ اسے مذہب کا بھی سہارا تھا، اس نے اپنے فلسفے کو قرآن سے بھی ثابت کیا:

(وهو الذي خلق السماوات والأرض في ستة أيام، وكان عرشه على الماء) (سورہ ہود آیت 7)
(اور وہی ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں اور تھا اس کا تخت پانی پر)
صاف ظاہر ہے کہ اس وجود سے پہلے بھی کوئی وجود تھا جو کہ عرش اور پانی ہے چنانچہ وقت بھی موجود ہے.

(يوم تبدّل الأرض غير الأرض والسماوات) (سورہ ابراہیم آیت 48)
(جس دن بدلی جائے اس زمین سے اور زمین اور بدلے جائیں آسمان)
یہاں بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وجود کے بعد بھی کوئی وجود ہوگا.

(ثم استوى إلى السماء وهي دخان) (سورہ فصلت آیت 11)
(پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا)
یہاں پتہ چلتا ہے کہ آسمان کو کسی چیز سے بنایا گیا جس کے لیے مادے کا پہلے سے موجود ہونا لازم ہے

یہ اور ایسی کئی قرآنی دلیلوں سے ابن رشد دنیا کے قدیم ہونے کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ شریعت میں ایسا کوئی متن موجود نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ خدا مطلق عدم میں موجود تھا!! چنانچہ ابن رشد کے خیال میں دنیا کا قدیم ہونا شریعت کے عین مطابق ہے مخالف نہیں.

مزید برآں وہ یہ تک کہتے ہیں کہ خدا کلیات جانتا ہے جزئیات نہیں جانتا جو بہرحال اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے.

اس ضمن میں میرا موقف صرف اتنا عرض کرنا تھا کہ جب دنیا قدیم ہے اور مادہ ازل سے موجود ہے تو پھر یہاں خدا کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

41 Comments

  1. ابن رشد پر سال پہلے محترمہ عنیقہ ناز نے بھی لکھنا شروع کیا تھا. غالبآ دو اقساط میں ہی درجن بھر اہل ایمان کا ترا نکل گیا کہ "اے کی شروع ہوگیا.” جہاں لوگوں‌ کا اسلام ہی جماعت اسلامی سے شروع ہو کر اُدھر ہی ختم ہوجائے وہاں‌ فکر مودودی و دیوبند کی بجائے ابن رشد اور غزالی پڑھانے سے ایسی ہی ہلچل مچے گی. اسلاف میں‌ غالبآ فکر تیمیہ چھوڑ کر اکثر و بیشتر کے افکار ایسے ہیں‌ کہ پاکستان موجود ہوتے تو "توہین مذہب” کے الزام میں‌ اوپر پہنچ چکے ہوتے 🙂
    بہرحال آپ نے کسی کا ادھار دینا ہے نہ حساب. لکھتے رہیے. فتوؤں اور "ٹاکنگ پوائنٹس تنقید” کو جوتے کی نوک پر رکھیے.
    اللہ کرے زور قلم اور ذیادہ!

  2. راشد کامران صاحب، یہ کائیناتی چھ دن نہیں ہو سکتے. کیونکہ قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس طرح ہے کہ اللہ کا ایکدن کئ ہزار سالوں پہ مشتمل ہے. غالبآ اسی سے عیسائیوں نے دنیا کی ایک اندازآ عمر نکالی تھی جو لگ بھگ ساڑھے سات ہزار تھی. بعد میں جب سائینس نے زمین کی عمر اربوں سال کر دی تو انہیں سخت اعتراض ہوا.
    تخلیق کائینات سے متعلق قرآن میں متعدد بیانات ہیں. مثلآ کن فیکن والا بیان.
    اینڈرسن شا صاحب، مجھے بڑا رشک ہوا آپ پہ کہ عربی لکھنا پڑھنا آتی ہے. عربی میں تو ایک خزانہ موجود ہے. اردو میں تو مذہب پہ مولوی صاحب کا راج ہے. یہاں بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جن کا عربی سے انگریزی میں ترجمہ ہوتا ہے پھر کوئ ہمت والا شخص اردو میں ترجمہ کر دیتا ہے.
    یہ اسرائیلیات پہ ضرور لکھیں.

    1. کن فیکون والی آیت کے حوالے سے عرض ہے کہ اسے کائنات کی تخلیق کے حوالے سے غلط پیش کیا جاتا ہے نہ صرف خود آیت کے الفاظ بلکہ اس حوالے سے دیگر بیانات سے تضاد واضح ہوجاتا ہے، اس آیت کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ خدا نے کہا کہ ہوجا اور وہ ہوگئی، لیکن دوسرے مقام پر کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ کائنات چھ دن میں بنائی اور تاویل کے لیے یہ فلسفہ پیش کیا جاتا ہے کہ چھ دن میں بنانے کا مقصد انسان کو یہ سکھانا تھا کہ جلد بازی نہیں کرنی چاہیے جبکہ اس بات کا بھی ایک اور مقام پر رد ہوجاتا ہے کہ "” وخلق الانسان عجولا "” یعنی انسان جلد باز تخلیق کیا گیا تھا… اگر کن فیکون والی آیت پر لغوی طور پر غور کیا جائے تو مطب یوں بنتا ہے کہ اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کچھ چاہتا ہے تو "” اُسے "” کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ "” چیز "” ہوجاتی ہے، یعنی جس چیز کو کچھ ہونے کے لیے کہا جاتا ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہے جو کہ یقینا مادہ ہے اور اس کے "” ہوجا "” کے حکم سے وہ محض اپنی شکل بدلتی ہے عدم سے آموجود نہیں ہوتی، یہاں بھی ابن رشد حق پر نظر آتے ہیں..

      اسرائیلیات پر لکھنے پر مجھے کوئی قلق نہیں ہے، فکر ہے تو اہلِ ایمان کی کہ ان کا کیا بنے گا.. اسرائیلیات پر لکھ دیتا ہوں پر پھڈے آپ کے سر 😀

    2. تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [المعارج:٤]
      جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا

      اس آیت کی بات کر رہی ہیں؟

  3. آپ کی تحریر زور قلم سے کس کتاب سے اقتباس کی گئی ہے۔
    وہ بھی بتا دیں تاکہ اعتراض کر نے والے چپ ہوجائیں۔
    امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ اور ابن رشد کی تہافت التہافت اگر اردو میں مل گئی تو
    ضرور پڑھوں گا اور کاپی پیسٹ بھی کردوں گا۔کچھ اقتباسات نظروں سے ضرور گذرے ہیں۔
    خدا کی وجود کے ہونے نہ ہونے کی بحث صدیوں سے چلی آرہی ہے۔
    خدا کےوجود کی کیا شکل ہو سکتی ہے؟اس پر بھی اگر کچھ لکھ دیں نوازش ہوگی۔
    میرے لئے تو ایک دلچسپ تحریر ہے کہ کوئی بندہ دوسروں سے مختلف بھی سوچتا ہے۔
    نا کہ پچھے پچھے تالیاں بجاتاپھرتا ہے۔
    بحر حال پیچھے پیچھے تالیاں بجاتے چلنے والوں کی شاید دل کی مراد بھر آئی ہے۔

    1. اگر آپ اس تحریر کی بات کر رہے ہیں تو یہ زیادہ تر ابن رشد کی تہافت التہافت سے مختصر خلاصہ ہے اگرچہ بات اس سے زیادہ لمبی بھی کھینچی جاسکتی ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ پڑھی جائے کیونکہ تہافت التہافت اس کا رد ہے اور سوال کو پڑھے بغیر جواب کو نہیں سمجھا جاسکتا، خدا کی ماہیت پر بھی ابن رشد نے لکھا ہے مگر مختصر، اس بارے لکھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی، میں کوشش کروں گا کہ اس بارے لکھ سکوں..

  4. کیا آپکو عربی لکھنا پڑھنا آتی ہے. کیونکہ میں نے اب تک ابن رشد کی کتاب اردو میں نہیں دیکھی. اقتباسات یا دوسروں کی دی ہوئ تفصیلات ہی پڑھی ہیں. در حقیقت مجھے نہیں معلوم کہ انکی کتب کا اردو ترجمہ میسر ہے. میں نے جب لکھا تھا اس وقت بھی مختلف جگہوں سے حاصل معلومات سے ہی لکھا تھا، اصل تک رسائ نہیں تھی.
    خیر، آپ نے بلاگستان کو ایک نیا ٹاپک دیا ہے. دیکھیں اسکے بعد کتنے ایمان والے بچتے ہیں اور کتنے کافر.

    1. شکر ہے کہ مجھے عربی آتی ہے ورنہ میں بھی واہ واہ کرنے والوں کی صف میں کھڑا واہ واہ کر رہا ہوتا، ابن رشد کی تہافت التہافت میں نے بھی اردو میں تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی ہوئی تھی، تاہم میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اردو ترجمہ موجود ہے یا نہیں، اگر نہیں ہے تو پھر یقیناً وہ مولوی کے تعصب کا شکار ہوئے ہیں، خیر مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، کیونکہ عربی نسخہ بہرحال دستیاب ہے، آپ کو عربی تو نہیں آتی لیکن پھر بھی حوالے کے طور پر دونوں کتابوں کا ربط دے دیتا ہوں:

      امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ:
      http://www.4shared.com/document/G4Vqfo5F/__-_.html

      ابن رشد کی تہافت التہافت:
      http://www.4shared.com/document/bE4Z6j-D/___online.html

  5. ابنِ رشد تو ایڈون ہبل کے دور سے بہت پہلے ہوا کرتا تھا چنانچہ اس کے کائنات کو "بغیر ابتداء کے” قرار دینے کی وجہ سمجھ آتی ہے۔ لیکن آج جب تجربات سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کائنات کی ایک ابتداء ہے تو کسی کا ایسا کہنا عجیب لگتا ہے۔
    یہ بھی ہم اب کافی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت، کائنات کی ایک جہت ہے جس کا اطلاق بھی (کائنات کے دیگر اصولوں کی طرح) انہی چیزوں پر ہوگا جو کائنات کا حصہ ہیں۔ چنانچہ "خدا سے پہلے” کا سوال ہی بے معنی رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے کل پوچھا تھا کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ خدا، کائنات کا حصہ نہیں ہے۔ تو جناب، عام فہم کی بات ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود میں لانے والا خود اس کائنات کا حصہ نہیں ہو سکتا جسے وہ عدم سے وجود میں لایا۔

    باقی جہاں تک ان آیات کی بات ہے تو ان پر میں تب تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو جائے کہ یہاں "سماء” سے مراد کیا ہے۔ کیا یہ زمین کے کرہ فضائی کو کہا گیا ہے؟ یا زمین کی حد سے باہر کی ہر چیز کو؟ یا کائنات کی باہری حدود کو؟ یا پھر اس چیز کو جسے سائنس دان "مکان” (سپیس) کا نام دیتے ہیں؟ یا پھر پوری کائنات کو؟۔۔۔ چنانچہ ان کو فی الحال نہیں چھیڑتا۔

    1. اچھا سوال ہے، آپ یہاں یہ تو بتا رہے ہیں کہ کائنات کی ایک ابتداء ہے لیکن کیا کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اس آغاز کی ماہیت کیا تھی؟ کیا آپ نے قانون بقائے مادہ و قانون بقائے توانائی پڑھا ہے؟ اور کیا کبھی اسے بگ بینگ پر لاگو کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر یہ اضافیت کے عین مطابق نکل آئے تو پھر آپ کا خدا کہاں جائے گا؟ ویسے اس پر ایک پوسٹ ہوسکتی ہے 🙂

      رہی بات خدا سے پہلے کی تو اگر اس بات کا علمی جواب درکار ہے تو اس کا جواب اوپر کی بات میں پنہاں ہے، اور اگر مذہبی جواب درکار ہے تو پھر آپ نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ آپ ان آیات پر کچھ نہیں کہہ سکتے آپ کا یہ سوال بے معنی ہوجاتا ہے، اوپر پہلے ہی بیان ہوچکا ہے کہ شریعت میں ایسا کوئی متن موجود نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ خدا مطلق عدم میں موجود تھا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا عدم میں موجود نہیں رہ سکتا اور اس بات کا ثبوت قرآن میں جا بجا دیکھا جاسکتا ہے..

      اور موج کریں.. 🙂

      1. جہاں تک قوانین کی بات ہے تو یہ میں نہیں، بلکہ سائنس دان کہتے ہیں کہ بگ بینگ کے ابتدائی سیکنڈ کے کچھ حصے کے دوران طبیعیات کے قوانین اس صورت میں نہیں پائے جاتے تھے جیسا کہ ہم آج ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثلاً اس دوران کائنات کا پھیلاؤ روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا جسے "inflation” کہا جاتا ہے۔

        اور جن آیات کی آپ نے اوپر مثال دی ہے، میں نے کہا تھا کہ ان کی تشریح کا کافی حد تک "آسمان” کی تعریف پر انحصار ہے۔ عام طور پر تو لوگ "آسمان” کو زمین کے کافی اوپر ایک چھت کے طور پر لیتے ہیں۔ لیکن طبیعی طور پر اس کا کیا مطلب لیا جانا چاہیے؟ یہ سوال میں نے پوچھا تھا۔ آپ نے شاید پڑھنے میں جلد بازی کی کیونکہ میں نے "کچھ نہ کہہ پانے” کی صورتِ حال کو ایک خاص حالت سے مشروط کیا ہے۔
        اب ابنِ رشد نے اس کا ایک مطلب اخذ کر کے اپنی طرف سے ایک تشریح تو کر دی۔ لیکن میری تسلی کیسے ہو کہ اس نے آسمان کو جن معنوں میں لیا ہے، وہ درست ہے یا نہیں؟

        اس کے علاوہ یہ بھی بتا دیجیے گا کہ اگر خدا عدم میں موجود نہیں رہ سکتا، تو مادہ کیسے موجود رہ سکتا ہے؟ کیونکہ "زمان” اور "مکان” دونوں بگ بینگ کے موقع پر صفر تھے، یعنی موجود ہی نہیں تھے۔ یعنی کہ یہ سارا مادہ اور توانائی "کہیں بھی نہیں” تھا؟

        قرآن میں خدا کو کائنات کا خالق بتایا گیا ہونے کے باوجود یہ کہنا کہ خدا کائنات کا حصہ ہے، اتنا ہی عجیب ہے جیسے کوئی کہے کہ چرس کو خاص طور پر شریعت میں حرام نہیں کہا گیا چنانچہ یہ حرام نہیں ہے۔

          1. مجھے اس نصیحت کی ضرورت نہیں پڑتی کہ مجھے اپنی معلومات تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے بھی اپنی معلومات تازہ کرنے میں ہی مصروف تھا۔ :p
            ہاں مجھے وقت دوسروں کی نسبت ذرا زیادہ لگتا ہے کیونکہ اس دوران میرے ذہن میں نئے سوالات کے اٹھنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے جن کا آگے بڑھنے کے لیے جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

  6. یہ چھ دن میں کائنات کی تشکیل کا کیا قصہ ہے؟ اس سے تو بڑے سوالات جن لیے لیں گے.. مثلا
    1. کیا ہم ایک عاجز خدا پر یقین رکھتے ہیں جس کو اپنی منشا پوری کرنے کے لیے وقت میں مقام الف سے مقام ب تک جانا پڑتا ہے.
    2. اس کا کھلا کھلا مطلب ہوا کہ وقت کائنات کی تشکیل سے پہلے ہی موجود تھا تو وقت کس نے بنایا؟ اگر خدا نے تو پھر وہ اس کے تحت کیسے آگیا؟
    3. اگر فرض کرلیا جائے کہ کائنات کی ابتدا کے لیے جو مادہ درکار تھا دراصل اس کی تشکیل یا عدم سے وجود میں لانے کے لیے درکار وقت چھ دن تھا تو پھر اس مادہ کی کثافت تو وقت کی ایسی کی تیسی کردے گی اور کائناتی "چھ دن” تو خدا کو اور عاجز بنا دیں گے.

    1. آپ نے خوب نکتہ اٹھایا ہے، چھ دن میں کائنات کی تخلیق کا معاملہ اسرائیلیات سے تعلق رکھتا ہے، اس پر بحث کرنے سے قرآن پر حرف آئے گا، مین کافی عرصے سے مخمصے کا شکار ہوں کہ اس پر لکھا جائے یا نہ لکھا جائے..

      1. اصل میں یہ معاملہ بے رب لوگوں میں بڑا مشہور ہے خاص کر عیسائیت کے حوالے سے. جہاں اہل ایمان سائنس اور مذہب کی مطابقت کی تقریریں کرتے ہیں تو وہیں بے رب لوگ اس طرح کی کنٹراڈکشن جیسے اس آیت اور سورۃ یس کی آیت 82 کو ایک دوسرے کا متضاد قرار دیتے ہیں. اس کی اچھی اور لاجیکل تشریح ہونی چاہیے ونہ ایمانیات کے حوالے سے تو کوئی مسئلہ نہیں کہ اصل انعام ہی غیب پر ایمان لانے پر ہے.

  7. جہاں تک چھے دن والی بات کا تعلق ہے تو یہاں ہر سیارے کے دن کا دورانیہ دوسرے سیارے سے مختلف ہوتا ہے۔ اوپر سے جدید طبیعیات کہتی ہے کہ وقت ہر ریفرینس فریم میں ایک جیسی رفتار سے نہیں گزرتا۔ تو چھے دن والے نکتے پر بحث کرنا تو اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہے۔

    1. جب کائنات کی تشکیل کی جارہی ہے تو ایسے میں "ریفرینس” کی موجودگی ہی محال ہے اور نکتہ صفر پر وقت ایک کائناتی مستقل ہونا چاہیے بلکہ ہونا ہی نہیں چاہیے اگر ہم اسے ایک جہت تصور کرتے ہیں جس پر گریویٹی اثر انداز ہوتی ہے.

        1. زمین کی تشکیل تو کائنات کے ابتداء کے بہت بعد کا قصہ ہے اس صورت میں بنیادی طور پر ہم خدا کو زمان میں قید کردیں گے جو نقطہ آغاز سے زمین کی تشکیل کی طرف سفر کرتا ہے اور اس میں چھ دن (کسی ریفرنس کے مطابق) کا وقت صرف کرتا ہے.

  8. آپ کی تحریر پڑھ کر دماغ گھوم گیا کیونکہ ایسی گاڑھی باتوں سے میری ویسے بھی جان جاتی ہے۔ اور چونکہ آپ کی طرف سے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی مجھے روک ٹوک نہ کرے اس لیے ہم تو چپ ہی بھلی سمجھتے ہیں البتہ ایک بات یاد آئی لکھ دیتا ہوں شاید اچھی لگے۔ حدیث قدسی ہے “انا عند ظن عبدی بی“ اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں اپنے بندے کا گمان ہوں۔ جیسا انسان کا دل ویسا اس کا خدا۔ جتنا خوبصورت دل، اتنا خوبصورت خدا۔ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا ہے‌۔ ہاں‌ اپنے دوستوں‌ کے وجود میں‌ وہ اپنی جھلک دکھلاتا ہے۔ میں تو ایک سیدھا سادا دیہاتی آدمی ہوں۔ زیادہ علم نہیں ‌رکھتا مگر یہ سمجھتا ہوں‌ کہ ایمان اور عقیدے کی مضبوطی ایسے علم سے بہتر ہے جو خدا اور اس کے رسول سے دور لے جائے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو درگزر فرمائیں۔

  9. دو سوال پوچھنے ہیں.
    کیا قرآن کی کوئی ایسی آیت موجود ہے جس میں‌ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ارشاد فرمایا ہو کہ وہ زمانے یا وقت کا‌ خالق ہے. زمانے کو بدلنے (گذارنے) کے متعلق تو فرمایا ہے. کیا زمانے کی تخلیق کے بارے میں‌ بھی کہیں‌ فرمایا ہے؟
    اگر نہیں‌ تو کیا ہم زمانے یا وقت کو اللہ تعالیٰ‌ کی "خاصیت” تصور کرسکتے ہیں؟
    ..کیونکہ اگر وقت خالق کی "خاصیت” ہو تو پھر زمان والا جھگڑا تو نمٹ جائے گا.

  10. عثمان، لیکن وقت زمان کے ساتھ جڑا ہوا ہے. جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا وقت اور زمان سے آزاد ہے. اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وقت مخلوق ہے
    اینڈرسن شا صاحب، اسرائیلیات کوئ ایسا نیا موضوع نہیں جو آپ متعارف کرا رہے ہوں. یہ پہلے سے موجود ہے اس پہ کافی بحث و مباحثہ ہو چکا ہے. کافی مواد موجود ہے یہ الگ بات کہ ہماری پہنچ میں نہیں ہے.
    مھسن عثمانی صاحب، میری اس حدیث سے آگہی نہیں تھی. لیکن جب میں انجانے میں کہتی ہوں کہ خدا بندے کا گمان ہے اور یہ کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئ تیسرا نہین آ سکتا تو لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کس لئے آئے. اب اس حدیث کے بعد آپ ہی بتائیے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کس لئے آئے.

  11. اگر خدا وقت کا قیدی ہے تو اس سے بڑے مسائل کھڑے ہوجائیں گے مثلا یہی کہ خدا مستقبل سے لاعلم ہے۔ اس طرح خدا منصب خدائی سے نیچے گرجاتا ہے۔ لہذا خدا وقت کا قیدی والی بات دل کو نہیں لگتی۔
    ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ خدا زمان و مکان سے ماورا ہے۔ مکان اور مادہ تو اس نے تخلیق کیا۔ تاہم زمان کے بارے میں معاملات کچھ پیچدہ ہیں۔ قرآن میں تخلیق زمان کی بجائے زمانے پر گرفت رکھنے ہی کے اشارے خدا کی ذات میں ملتے ہیں۔
    نظریہ اضافیت نے زمان کو مکان سے جوڑا ضرور ہے۔ لیکن مادے کی ہیت کے برعکس وقت کی ہیت کے بارے میں خاموش ہے۔ محض وقت کی رفتار وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے ناکافی ہے۔
    اگر زمانہ بطور خدا کی صفت کا پرپوزل مدنظر رکھا جائے تو کچھ پیرا ڈاکش تو حل ہوجاتی ہیں ماسوائے ایک کے کہ مخلوق کی Free Will کیا ہے؟ جو کہ غالباً قدیم ترین پیرا ڈاکس ہے۔

  12. گزشتہ برس ہسٹری چینل پر ایک پروگرام دیکھا تھا کائنات کی ابتداء کے بارے میں۔ کم از کم اس پروگرام میں تمام سائنسدان اس بات پر متفق تھے کہ ساڑھے تیرہ ارب برس پہلے یہ کائنات موجود نہ تھی۔ پھر in a billionth of a billionth of a second کچھ ہوا جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ پھر اس بگ بینگ کے کروڑہا برس کے بعد پہلا ایٹم بنا، پھر باقی مادہ۔ سو سائنسی لحاظ سے تو مادہ قدیم نہیں ہے۔ کم از کم موجودہ سائنسی نظریہ کے لحاظ سے۔ کیا ایسے میں بھی ہم ابن رشد کے "کائنات قدیم ہے” فلسفہ سے چمٹے رہیں گے؟

  13. عنیقہ ناز نے لکھا: جب میں انجانے میں کہتی ہوں کہ خدا بندے کا گمان ہے اور یہ کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئ تیسرا نہین آ سکتا تو لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کس لئے آئے. اب اس حدیث کے بعد آپ ہی بتائیے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کس لئے آئے.

    معذرت سے شروع کرتا ہوں کہ علم میرا تھوڑا ہے۔ میں تو عقیدے پر یقین رکھتا ہوں۔ علم کم ہو، زیادہ ہو، خدا کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس حدیث قدسی کی relevance یہی ہے کہ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا اس لیے ہر کسی کا تصور خدا اپنا اپنا ہے۔

    رب اک گُنجھلدار بُجھارت رب اک گورکھ دھندا
    کھولن لگیاں پیچ ایس دے کافر ہو جائےبندہ

    اب میں پوچھتا ہوں مسلمان کے لیے خدا کے ہونے کی سب سے بڑی نشانی، سب سے بڑی گواہی کیا ہے؟ ہر کسی کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہو سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں ہمارے لیے ‌‌سب سے بڑی نشانی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ ہے۔ ہم آپ کے کہنے پر مانتے ہیں کہ خدا ہے۔ وہ خدا جو کہتا ہے “قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم“ اچھے عقیدے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جب کوئی مومن نبی کریم صلعم کے لیے دعائے رحمت کرتا ہے (یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما) تو خدا اس دعا کو قبول کرتا ہے، اپنے حبیب صلعم پر رحمت نازل کرتا ہے اور سائل کو بھی نوازتا ہے۔ خدا ہے تو سب کا، اور سب کے لیے، مگر مسلمان کے لیے وہ محمد صلعم کا خدا ہے۔ اگر ہم صرف خدا کے چکر میں پڑ گئے تو نقصان کا اندیشہ بہت ہے۔ ادب سے گئے تو سمجھو ایمان سے گئے۔ اگر نبی کریم صلعم کا دامن تھام کے رکھیں گے تو عقیدہ درست رہے گا اور خدا کی رضا خود بخود مل جائے گی۔ اور جو ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ جان لے کہ حشر سے پہلے ایسا نہیں ہونے والا۔ پھر بھی مجھ سے اگر کوئی پوچھے خدا کے ساتھ رہو گے یا محمد رسول اللہ صلعم کے ساتھ تو میں کہوں گا محمد رسول اللہ صلعم کے ساتھ۔

  14. وقت کیا ہے؟ وقت کب خلق ہوا؟ وقت موجود بھی ہے یا نہیں؟ وقت کہیں ہماری اپنی اختراع تو نہیں؟ اگر میں یہ کہوں کہ وقت نامی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے تو آپ وقت کو کیسے ثابت کریں گے؟ گھڑی کی ٹک ٹک سے جو انسان نے بنائی ہے یا موسموں کے بدلنے سے…دراصل حادثات و واقعات کا ہونا تبدیلی کا پتہ دیتا ہے اور ہم اس کو وقت گزرنا کہتے ہیں…اصل شے مادہ ہے اور مادہ ہی واقعات و حادثات کا سبب ہے…جس کو ایک قوت نے پیدا کیا ہے…دن اور رات کے ادل بدل سے وقت نہیں گزرتا بلکہ ہم اپنی سہولت کے لیے وقت کو ایجاد کرتے ہیں…وقت کو گھڑیوں اور کیلنڈروں میں بند کرتے ہیں…وقت کا کوئی وجود نہیں…وقت فی نفسہ کچھ بھی نہیں ہے ہم اس کو معنی و مفہوم دیتے ہیں…یہ بے کار بحث ہے…جب آپ وقت کے وجود کو ہی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر بحث کیسی؟ وقت کو اگر ایک حقیقت مان بھی لیا جائے تو یہ ایک ریلاٹو ٹرم ہے…کوئی مخلوق ایک سیکنڈ کے اندر لائف سائیکل پورا کر کے مر بھی جاتی ہے اور کوئی مخلوق پانچ سو سال میں زندگی کا سفر مکمل کرتی ہے…..دن بھی وقت نہیں ہے پانچ سو سال بھی وقت نہیں ہے…وقت تو محض اک بہانہ ہے…اک فریب ہے…وقت کی کوئی حقیقت نہیں ہے….دنیا میں صرف حادثات و واقعات ہوتے ہیں…اور یہ جو باتیں ہیں کہ کن بھی کہے تو سب کچھ ہو جاتا ہے اور پھر کبھی رب تعالی کو زمین آسمان بنانے کے لیے چھ دن لگ جاتے ہیں تو یہاں میں چھ دن سے مراد واقعات کے ہونے سے لیتا ہوں وقت کو تو اس لیے بتایا گیا ہے کہ چھ دن میں بنی تاکہ معلوم ہو کہ زمین آسمان کا بننا کتنا بڑا واقع ہے….اور ہمیں اندازہ ہو سکے کہ کائنات کا بننا کوئی مذاق کی بات نہیں ہے…..!!!

جواب دیں

41 Comments
scroll to top