Close

روح کیا ہے؟

تضادات میں پڑے بغیر روح کی کوئی مخصوص تعریف وضع کرنا از حد مشکل ہے، یہ تصور انسانی تاریخ کے عجیب وغریب تصورات میں سے ایک ہے، اس کی شدید پُر اسراریت اس کی تعریف اور بھی مشکل بنا دیتی ہے، تمام مذہبی ہستیوں (خدا، فرشتے، شیاطین، جن وغیرہ) کی طرح میٹافیزیکل خصوصیات کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مادی خصوصیات کی بھی حامل ہے!! ایک طرف تو یہ ❞جسم❝ میں موجود ہے یا کسی نہ کسی طرح اس سے ❞متحد❝ ہے چاہے یہ جسم کے کسی حصے میں جیسے دل، سر یا خون میں متمرکز ہو یا پورے جسم میں پھیلی ہوئی ہو (مختلف زمانوں کی مختلف تہذیبوں کے تصورات کے مطابق) یا کسی نہ کسی طرح انسان کے جسم کے ساتھ مربوط ہو، تاہم دونوں صورتوں میں یہ مکان کے فیکٹر کی پابند ہے حالانکہ یہ مادی نہیں ہے؟! اور صرف یہی وہ تنہا مادی خاصیت نہیں ہے جو روح کو عطا کی گئی ہے، مکانی حاضری کے علاوہ یہ مادی اجسام پر اثر انداز بھی ہوسکتی ہے!! کیونکہ اس کا وجود جسم کو زندگی بخشتا ہے اور اس کی جدائی جسم کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے؟!

ان مادی خصوصیات کے باوجود کہیں آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہونے پائے کہ روح کوئی مادی شئے ہے، بلکہ یہ ایک میٹافیزیکل ہستی ہے!! معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین نے اسے زمان کی قید سے آزاد کردیا ہے!! کیونکہ جسم کی موت اس کے لیے قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ موت کی وجہ اس کی جسم سے ❞رحلت❝ ہے، جسم کو زندہ رہنے کے لیے اس کی ضرورت ہے مگر اسے جسم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، روح کے لیے موت اس کی جسم سے علیحدگی ہے، اگرچہ مختلف تہذیبوں ومذاہب میں روح کے انجام پر اختلاف پایا جاتا ہے تاہم سب کا اس بات پر ضرور اتفاق ہے کہ یہ کبھی ❞ختم❝ نہیں ہوتی کیونکہ یہ زمان سے ماوراء ہے، جسم سے رحلت کے بعد شاید اس سے باز پرس کی جاتی ہے، یا پھر اسے کسی جگہ پر ❞سٹور❝ کردیا جاتا ہے تاکہ اجتماعی حساب کے وقت اسے واپس لایا جاسکے، یا دوبارہ کسی دوسرے جسم میں بھیج دیا جائے یا پھر خدا میں ضم ہوجائے جو غالباً اس کا منبع ہے!!! مگر یہ ہمیشہ دائمی بقاء کی حامل ہوتی ہے اور وقت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا!!

معلوم ہوتا ہے کہ روح بیک وقت ایک طرح سے میٹافیزیکل نما بھی ہے اور مادی نما ہے، مکان کی پابند ہے مگر زمان کی نہیں، جسم پر اثر انداز ہوتی ہے مگر اس سے اثر نہیں لیتی، یہ اس قدر تضادات سے لپٹی ہوئی ہے کہ نا تو اسے سمجھا جاسکتا ہے اور نا ہی اس کی کوئی مخصوص تعریف وضع کی جاسکتی ہے، شاید یہاں پر مجھے بات ختم کرتے ہوئے سوال کو اس پر یقین رکھنے والوں کی طرف پھیر دینا چاہیے کہ شاید ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہو کہ۔۔۔ روح کیا ہے؟!

اپنی نا پختگی کے دور میں انسانیت کی اس مفہوم کی اختراع پر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نوٹ کرنا انتہائی آسان ہے کہ مرنے کے بعد جسم تحلیل یا مٹی بن جاتا ہے، اس تبدیلی نے یقیناً قدیم انسان کو اس چیز کے بارے میں متفکر کردیا ہوگا جس کے فقدان کی وجہ سے جسم مٹی میں تبدیل ہوگیا۔۔ مٹی سے انسانی شباہت کے بت بنانا بھی آسان ہے مگر وہ ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ زندہ جسم ہوتا ہے، اس طرح یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ زندہ ہونے کے لیے اس بت میں کس ❞چیز❝ کی کمی ہے؟

اس نکتے پر آکر جانداروں اور مختلف جمادات کے درمیان فرق کو نوٹ کرتے ہوئے کسی ❞جوہر❝ کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا جو اس فرق کا ذمہ دار ہے، روح کا تصور تضادات سے کتنا ہی بھرپور کیوں نہ ہو کسی بھی قدیم انسانی تہذیب پر اس تصور کی اختراع پر کوئی الزام نہیں دھرا جاسکتا کہ ماضی میں علم وشعور کی سطح اس تصور سے زیادہ کی اجازت ہی نہیں دیتی تھی۔

لغوی جذر پر غور کرنے والوں پر ❞روح❝ اور ❞ریح❝ اور ❞نفْس❝ اور ❞ نَفَس❝ کا اشتقاق مخفی نہیں ہوگا، معلوم ہوتا ہے کہ معانی کا یہ تشابہ دیگر زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے، چونکہ سانس (تنفس) زندگی کا ایک اہم مظہر ہے لہذا لفظ کا اشتقاق اسی سے آیا ہے کہ روح کا نکلنا سانس کا خاتمہ ہے، روح کے مفہوم کو فکری سند دینے کے لیے میٹافیزیکل، لاہوتی اور مذہبی تصورات نے یکے بعد دیگرے جنم لیا تاکہ روح کے مسائل وانجام وغیرہ کو بیان کیا جاسکے، وقت کے ساتھ ساتھ اصل تصور پیچیدہ سے پیچیدہ تر اور تضادات سے بھرپور ہوتا گیا اور اس کے لیے پوری ایک میٹافیزیکل دنیا بنا دی گئی جو ہماری دنیا سے اگر برتر نہیں تو متوازی ضرور ہے!! روح کی منطق قدماء کے نزدیک ان کی علمی، عملی وتہذیبی سطح کے حساب سے ایک صاف ستھری منطق تھی جس پر کوئی غبار نہیں تھا۔

اس تصور پر جس قدر ہم قدیم انسان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں اتنا ہی ہمیں جدید انسان پر حیرت ہوتی ہے جو اب بھی وہی قدیم تصورات لیے پھر رہا ہے!! حیرت کی بات ہے کہ لوگوں کی اکثریت زندگی کو باقی طبعی مظاہر کی طرح ایک ایسے طبعی مظہر کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی توجیہ کے لیے ایسے میٹافیزیکل اور خرافاتی تصورات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، حیاتیات واضح طور پر بتاتی ہے کہ زندہ مادہ موجودات میں کوئی منفرد چیز نہیں ہے، قدرتی کیمیائی تعاملات ہی زندگی کے مظہر کے ذمہ دار ہیں، خوراک، نشونما، افزائش واحساس بلکہ موت بھی ما سوائے کیمیائی تعاملات کے اور کچھ نہیں ہے، ان سب کی روح کے خرافاتی تصور سے ہٹ کر سائنسی طریقوں سے تفہیم کی جاسکتی ہے۔

مؤمنین کے مختلف طبقات یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انسان اپنے تمام تر افکار، احساسات وجذبات سمیت نیچر کا بیٹا ہے اور ❞خسیس❝ مادے کی پیداوار ہے!! درحقیقت اس ❞خسیس❝ مادے کا، جو کچھ بھی کرنے سے عاجز اور طبعی صفات وخصوصیات سے عاری ہے کا اس حقیقی مادے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں اور جو کائنات میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے، یہ ❞خسیس❝ مادہ مؤمنین کی غلط تجرید کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ واقعی ایک بے ہودہ اور جامد شئے ہے جو کچھ بھی کرنے سے عاجز ہے، یہ ان کے خوبصورت تصور جسے وہ خدا کہتے ہیں اور جس سے وہ تمام طبعی مواد کی صفات کو منسوب کرتے ہیں کے مقابلے میں ایک بد صورت تصور ہے!! یعنی انہوں نے کرداروں کو الٹ کر اس تصوراتی ہستی کو جو ان کے تجریدی تصور کی تخلیق ہے کو وہ خدا بنا دیا ہے جو عدم ہے اور وہی مطلق حقیقت ہے اور (کائنات کے اصل) مادے سے اس کی تمام تر طبیعاتی وکیمیائی خصوصیات چھین کر اسے مطلق ساکن بنا دیا ہے!! پھر بڑے وقار سے آکر ہمیں بتاتے ہیں کہ مادہ ان کے خدا اور اس کی میٹافیزیکل فوج یعنی روحوں، فرشتوں اور شیاطین کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا لہذا ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور کائنات اور اس کی موجودات سے کفر کرنا چاہیے!! آج کے دور میں بھی جب کبھی ❞زندگی❝ کی بات ہوتی ہے تو بغیر کسی منطقی وجہ کے ❞روح❝ کو بیچ میں ٹھونس دیا جاتا ہے، اعتراض کرنے پر عجیب وغریب بیان سننے کو ملتا ہے کہ:

❞کیا اعصاب پر مشتمل دماغ ادراک وشعور پیدا کرسکتا ہے!! کیا اعصاب مادی چیزیں نہیں ہیں، پروٹین، پانی اورکاربوہائیڈریٹس پر مشتمل خلیے جو ایک اعصابی سیال منتقل کرتے ہیں، کیا یہ اجزاء جو کہ خالصتاً مادہ ہیں چیزوں کو ❞محسوس❝ کر سکتے ہیں؟! دماغ تو بس ایک ❞اوزار❝ ہے، ادراک تو آخر کار نفس یا روح کرتی ہے جسے دیکھا نہیں جاسکتا!!❝

ظاہر ہے یہاں ❞خسیس❝ مادے کی ہی بات کی جا رہی ہے، مادہ ادراک نہیں کر سکتا مگر روح یا نفس جس کا ادراک نہیں ہوسکتا وہی ادراک کرتی ہے؟!

اگر جدید حیاتیاتی علوم سے رجوع کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ قدیم اعتقاد کہ نامیاتی مادہ ایک منفرد خصوصیت کا مالک ہے اور پہلے سے موجود زندہ مادے سے ہی آسکتا ہے پہلی بار اس وقت ساقط ہوگیا تھا جب جانوروں کے غدود سے انسولین حاصل کرنے کی بجائے اسے لیبارٹری میں تیار کر لیا گیا، 1953ء تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایمائینو ایسڈ جو زندگی کا بنیادی عنصر ہے لیبارٹری میں نہیں بنایا جاسکتا تاہم ملر-یورے کے تجربے نے اسے غلط ثابت کردیا، 2010ء میں کریگ ونٹر لیبارٹری میں پہلا مصنوعی زندہ خلیہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جسے انسانیت کی بنائی ہوئی پہلی زندگی قرار دیا جاتا ہے، لیبارٹری میں اسے یہ ❞مصنوعی زندگی❝ بنانے کے لیے کسی طرح کی روح کی ضرورت نہیں پڑی، اس طرح روح کی قبر پر آخری کیل ٹھونک دی گئی۔۔

روح کے ماننے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز کو مانتے ہیں جس کے بارے میں لگتا ہے کہ انہیں خود بھی کچھ نہیں معلوم!! تو وہ روح کیا ہے جس پر آپ یقین رکھتے ہیں؟ روایتی جواب جو سننے میں آتا ہے وہ ہے: ❞یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً ۔ (الاسراء 85) اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہدو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم لوگوں کو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔❝(؟!) عجب گول مول جواب ہے۔۔ ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کا حکم آپ کے خدا سے ہے یا کسی اور خدا سے!! سوال یہ ہے کہ روح کیا ہے جس پر آپ یقین رکھتے ہیں؟! آپ کا جواب کیا ہے؟!

در حقیقت سارے مذاہب اپنے تمام تر خداؤوں، نیم خداؤوں، انبیاؤوں، مسیحاؤوں اور اولیاؤوں سمیت قدیم دور کے انسان کے سادہ لوح ذہن کی اختراع ہیں، لہذا مذاہب کا آسمان ما سوائے سراب کے اور کچھ نہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھ کر ان کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے مگر وہاں پہنچنے پر اسے نہ خدا ملتا ہے نہ وصالِ صنم! مذاہب حقیقی جوابات دینے کی بجائے پہلے سے تیار شدہ ❞گول مول❝ جوابات کے ذریعے جذبات کو گدگدانے کی کوشش کرتے ہیں اور منطق کو دیوار پر دے مارتے ہیں، روح کے مفہوم پر وہی کچھ لاگو ہوتا ہے جو مذاہب کی دیگر پراڈکٹس پر لاگو ہوتا ہے اسی لیے یہ مردود ہے، یہ کہنا کہ روح موجود ہے ایک پُر لطف جواب تو ہوسکتا ہے مگر منطقی ہرگز نہیں کیونکہ روح کا تصور ایسے بہت سارے مشاہدات کی وضاحت نہیں کرتا جو اصولاً اسے کرنا چاہیے خاص طور سے اگر اس تصور کے حامی چاہتے ہیں کہ یہ انسانی معرفت کی ترقی کے آگے ٹک پائے۔

ایک غیر مادی چیز کی کسی مادی جگہ میں موجودگی کس طرح تسلیم کر لی جائے!! روح کا کسی مخصوص جگہ میں موجود ہونا اور ایک مخصوص جسم سے مربوط ہونا اسے ناقابلِ انکار مادی صفات دیتا ہے، جسم کے اندر اس کی ممکنہ موجودگی اور اس پر اثر انداز ہونے کی اس کی خاصیت اسے خالصتاً ایک مادی وجود دیتی ہے جو اصولی طور پر قابلِ جانچ ہونی چاہیے!

کیا روح رحم کے باہر پیدا ہوتی ہے یا انڈے میں یا خودکار طور پر افزائشی خلیوں سے منتقل ہوتی ہے؟! اگر یہ ❞باہر❝ سے آتی ہے تو کہاں سے؟ کیا اس کے پہنچنے سے پہلے بچہ مردہ ہوتا ہے؟! اگر زندہ ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کا فائدہ کیا ہے؟ اگر یہ سپرم یا انڈے سے آتی ہے تو یہ مادی ہوئی، بلکہ اس کی مینڈل کے قوانین سے بھی جانچ ہوجانی چاہیے!!

ہم جانتے ہیں جسم کے مختلف حصے ایک ہی وقت میں نہیں مرتے بلکہ بتدریج مرتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسم کے ہر حصے کی الگ روح ہوتی ہے؟! اورکیا روح قابلِ تقسیم ہے؟ کسی شخص کا کوئی عضو کسی دوسرے شخص میں لگانے کی صورت میں کیا روح منتقل شدہ عضو کے ساتھ منتقل ہوتی ہے یا نہیں!! یہ منتقل شدہ عضو صاحبِ عضو کے مرجانے کے باوجود زندہ کیسے رہتا ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض روحوں کی عمر ان کے مالکان سے زیادہ طویل ہوتی ہے کیونکہ ان کا کچھ حصہ ان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہا!

روح کے تصور کا ایک تضاد بھرا پہلو زندہ جسموں میں مصنوعی اعضاء کی پیوند کاری ہے، روح کے تصور کی صورت میں کسی زندہ عضو کی کسی مشینی عضو سے تبدیلی کی صورت میں جو اس کا کام کر سکتا ہو کیسے سمجھا جائے؟ کیا روح پر مشتمل کسی عضو کی دستبرداری ممکن ہے؟ لیبارٹریوں میں انسانی اعضاء کو پیوندکاری سے قبل کولنگ میں رکھا جاتا ہے، کیا روح کولنگ سے اثر انداز ہوتی ہے؟!

سوالات بہت ہیں اور تضادات ان سے بھی کہیں زیادہ، جس سے روح کے مؤمنین کا موقف انتہائی کمزور پڑجاتا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موقف کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، یہ کہاں کی خرد مندی ہے کہ کسی غلط تصور سے محض اس لیے چمٹا رہا جائے کہ:

❞انا وجدنا آباءنا علی امۃ وانا علی آثارہم مہتدون❝۔
❞ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ (الزخرف 22)❝

24 Comments

  1. مجھے اس موضوع پہ ایک اچھی تحریر کی تلاش تھی۔ نہت خوب۔ صرف ایک سوال۔۔۔۔کیا دماغ کو حیات کا مرکز سمجھا جاےؑ؟ جب دماغ کی اعضا ؑ کو پیغام ارسال کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ کام کرنا بند کر دیتا ہے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے؟

        1. A thousand U.S. scientists in Manhattan last week saw dead animals brought back to life. It was the first public U.S. showing of a film picturing an experiment by Soviet biologists. They drained the blood from a dog. Fifteen minutes after its heart had stopped beating, they pumped the blood back into its lifeless body with a machine called an autojector, serving as artificial heart and lungs. Soon the dog stirred, began to breathe; its heart began to beat. In twelve hours it was on its feet, wagging its tail, barking, fully recovered.

          Read more: http://www.time.com/time/magazine/article/0,9171,851883,00.html#ixzz2OlM9V9eM

          1. If brain dies then human will die too without mechanical support such as ventilators. Brain is one of the 5 vital organs of the body which are necessary for the life. It’s the brain which controls the vital functions of body including heart. Patient’s life can be maintained with mechanical support unless body cells are dead. Survival time of different tissues after death varies. That’s why dead person’s viscera can be transplanted with in specified time.

          2. ہاں یہ قطعی ممکن ہے اللہ نے اپنی نبی سیدنا عیسی سے یہ بات مظاہر کروادی تھی – انسانوں پر-
            اس تجربہ میں کتا استعمال ہوا ہے اور حیوانات میں صرف جان ہوتی ہے ” روح” نہین – اگر یہ عمل سائنسداں انسان پر سکیں کہ جسم پر بالکل موت طاری ہوجائے اور پھر اسمیں زندگی آئے اور انہی سانئنسی اصول سے تب اس بارے سوچیں گے کہ سائینس کی رسائی کہاں تک ہے
            انسانی زندگی حیوانی زندگی سے مختلف ہوتی ہے

  2. میرا خیال ہے کہ جوش تحقیق میں ہم بہت سی باتوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں ..روح اور زندگی ک فرق کو بہت غور اور توجہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے….آجکل کے زمانے میں کمپیوٹر کی مثال سے بہت سے چیزیں واضح ھو سکتی ہیں . کمپیوٹر ہمارے جسم کی طرح کا ہارڈویر ہے …بجلی یا بیٹری کے ذریے اسے آن ھو جاتا ہے..یعنی لایف مل گئی….مگر جب تک کوئی سوفٹ وئیر نہ ھو کسی کام کا نہیں ……تو یہ سوفٹ ویر کیا ہے کمپیوٹر کے لئے ؟؟

    1. محترمہ یاسمین قریشی صاحبہ!
      آپ نے ہارڈ وئیر اور سوفٹ وئیر کی جو مثال بیان کی وہ مجھے بے حد پسند آئی، روح اور جسم کے تعلق کو سمجھنے کیلئے یہ ایک عمدہ مثال ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہارڈ وئیر کے dead ہوجانے کے بعد سوفٹ وئیر کہاں چلا جاتا ہے؟ ہارڈ وئیر کے ڈیڈ ہوجانے کے بعد سافٹ وئیر بھی آٹو میٹکلی ڈیڈ ہوجاتا ہے، نہ کہ دوبارہ کمپنی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
      ہم یہ کہتے ہیں کہ ہارڈ وئیر ڈیڈ ہوجانے کے بعد سافٹ وئیر بھی آٹو میٹکلی ڈیڈ ہوگیا، جبکہ مومنین کا اصرار ہے کہ سافٹ وئیر کمپنی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو بخوبی ہوگیا ہوگا۔

      1. ارے صاحب!کوئ مجھے عقل سے بتادے که دوسرے اربوں کھکشاؤں میں کیا ھو رھا ھے!کیا کوئ بھی دعوی کرسکتا ھے که وه دوسری کھکشاؤں کے بارے میں ١٠٠٪ درست معلومات رکھتا ھے؟یقینا نھیں.تو پھر کھکشاؤں سے بھی اعلی و بالا ذات’عالم امر ‘ عالم غیب کے بارے میں عقل سے کیسے درست معلومات دے سکتا ھے؟ الله کا واسطه. خود بھی ھدایت په آجاؤ اور دوسروں کوبھی گمراه مت کرو.

    2. Software aur Hardware ki misaal aik computer illiterate se parh kar hansi si aayi, computer hardware 1 aur 0 ki language samjhte hain, 1 ka matlab on 0 ka matlab off, yani k bagher software ke bhi computer chal jatay hain, software sirf in 1 and 0 ki zabaan ko asaan aur tez karne k lye banaye jatay hain, jis tarah aik car bagher software k chal sakti hai wese hi aik computer bhi bagher software k chal sakta hai, lekin taraqi yani enhancement k lye softwares ka istemal kia jata hai

  3. اینڈرسن شا صاحب، کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کائنات لا محدود نہیں ہے اوریہ بھی کہ کائنات سے ماورا کیا ہے سائنس کی پہنچ سے باہر ہے؟ یعنی یہاں پر آپ کو ایک disconnect ملتا ہے-
    اسی طرح فطرت کے جو قوانین اجسام فلکی پر لاگو ہوتے ہیں، وہ جوہری ذروں پر لاگو نہیں ہوتےبلکہ Quantum Physicsکے قوانین چلتے ہیں- اور آپ جانتے ہیں کہ اس سطح پر ہر حوادث Cause and Effect کے قانون کے بجائے صرف ممکنات (probability, chance)پر مبنی ہوتے ہیں-یہاں پر بھی آپ کو ایک disconnect ملتا ہے-
    اسی طرح روح کی حقیقت بھی سائنس کی پہنچ سے باہر ہےاور یہاں پر بھی ایک disconnect ہے-
    روح کوئی مادی وجود نہیں کہ سائنس اسے دریافت کر لےکیونکہ سائنس کا دائرہ ء کارطبیعاتی دنیا ہے، مابعدالطبیات نہیں-
    جس طرح آپ یہ نہیں جان سکتے کہ کائنات سے باہر کیا ہے، یا جوہری سطح پر صرف حادثے وقوع پذیر ہونے کہ باوجود ہم اپنی عام زندگی میں غیر یقینی کی کیفیت میں نہیں بلکہ علت اور معلول کے قانون کے تابع ہیں اسی طرح روح کی حقیقت بھی ایک راز رہے گی-

  4. I have one question. it is known that connective tissue could be kept in vitro (outside the body) for several months in a condition of active life, and that a fragment of heart could pulsate normally for more than one hundred days after its extirpation (uprooted) from the animal. In that case, who is responsible for that life…. ? is it still rooh/aatma/soul who can keep tissues alive after leaving the body….can any religious person answer to this question. Sorry for not writing in urdu font..

    1. یاسمین قریشی صاحبہ!
      اگر فرق ہی بیان کرنے ہیں تو جیسے آپ نے زندگی اور مابعد زندگی کی مثال کمپیوٹر ہارڈ وئیر اور سوفٹ وئیر سے دی تھی، میں وہاں فرق بیان کرکے اس مثال کو بھی رد کر سکتا تھا، چلیں پھر بھی فرق بیان کر دیتا ہوں۔
      سی ڈی میں جو سافٹ وئیر ہوتا ہے وہ ہم اسے ہارڈ وئیر پر انسٹال کرتے ہیں جب جا کر وہ قابل استعمال ہوتا ہے، سی ڈئ پر موجود سافٹ وئیر "انسٹالڈ پوزیشن” میں نہیں ہوتا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ سی ڈی پر موجود سافٹ وئیر قابل استفادہ نہیں ہوتا، اسے قابل استفادہ بننانے کیلئے اسے ہارڈ وئیر پر انسٹال کرنا ضروری ہوتا ہے

  5. واہ کیا بات ہے، روح اور ماہیت روح اور مقام روح کی سوچ ہو رہی، انسان کی تخلیق اور موت ، کیا سارے ہی جسم اتنے پرانے ہو جاتے ہین کہ وہ روح کو سمائے نہ رکھ سکتے تبہی موت آتی ہے۔
    اور جو چیز مادہ سے نہیں ہے اسکو مادی اصول اور نظام کے تجربات کے ذریعہ کیسے سمجھیں گے یا اعتراض کریں گے- سائنس جو کہ طریقہ علم ہے جاننے کا کیا غیر مادی کیلئے کوئی تجربہ کرنے کا طریقہ ترتیب دے سکتا، جو اللہ یا خالق کو مانتے ہی نہیں کیونکر روح کو جان سکتے ہین – اگر صاحب مضمون کے بارے میں مانے ہوئے اصول کی کوئی بات کہی جائے انکا جو رویہ ہوگا ظاہر ہے ، مختلف لوگوں کے تبصرہ مین انہوں نے ظاہر کردیا ہے

  6. بات ہو رہی ہے ھارڈویر اور سوفٹ ویر کی، چلو اسی زبان میں ہمار ی بھی عرض سن لیں۔
    اگرفرض کر لیں کہ جسم ھارڈویر ہے اور روح سوفٹ ویر۔ تو دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ھارڈویر کے بغیر سافٹ ویر کسی کا م کا نہیں اسی طرح ھارڈویر سافٹ ویر کے بغیر ڈبہ ہے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ جسم کے مرنے کے بعد سافٹ ویر کہاں جاتا ہے؟؟۔ اور سافٹ ویر کرپٹ ہونے کے بعد کیا مینوفیکچرر کے پاس چلا جاتا ہے۔؟؟؟ تو اسکا سیدھا جواب یہ ہے۔ کہ مینوفیکچرر کی بنائی ہوئی تمام سی ڈیز وقت کے ساتھ ساتھ سکریچز پڑنے سے ناکارہ ہوجاتی ہے۔ مگر ایک ماسٹر کاپی مینوفیکچرر کے پاس ہر وقت موجود ہوتی ہے جس سے وہ بہ وقت ضرورت لاکھوں کاپیاں بنا سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمار ے پاس الکتاب ہے جس میں ہر چیز کی تفصیل ہے۔اور ہر گلنے سڑنے والی ہڈی ضرور ری ایسامبلڈ ہوگی۔

  7. میرا یہ خیال ہے کہ ھارڈ ویر اور سافٹویر کی مشال دیتے ہوے آپ لوگ اصل بات سے ہٹ گیے ہیں۔ خاص طور پر جو ماسٹر کاپی کی بات کی گیی ہے، اگر اسے لاگو کیا جاے تواسکا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ جو روح ہمارے بدن میں ہے وہ بدن کے ساتھ ختم ہو جاے گی اور اللہ اپنے پاس سے اسکی ماسٹر کاپی نکال کے دوسری روح بنا لے گا۔ اس سے تو اصل معاملے کی روح ہی نکل گیی ہے صاحب۔

  8. دراصل کرتے رہو شک اورشک میں رہو لیکن جب مرنے لگو اور میں تمھارے پاس آؤں اور کہوں جی دنیا میں مزید رہنا ہے اگر تم تنگ اور. درد محسوس کر رہے ہو تو یقینا اپکا جواب ہوگا یا روح کہہ رہی ہے اب ملاقات کر ہی لو اب روح کا تذکرہ کیسے ساری عمر انکار اور اب وجود؟

    1. حلالی اور حرامی کی پہچان ان کے کرترتوں سے واضع ہوجاتی ہے.
      میں اس گستاخی کا ہر گز مرتکب نہیں ہوسکتا کہ الامہ ایاز حرامی ہے یا ایان شاہ یا اور دوسرے مصنفین جو ممکن ہے اپنے فادر کے نطفہ سے ہی پیدا ہوۓ ہوں مگر بھٹک چکے ہوں اور انھیں اسلام سے "چڑ ” آتی ہو.
      بہر کیف اللہ سبحانہ وتعالی کی قدرتیں ہیں کہ کہیں پھول اگتے ہیں تو کہیں خار , چور دوسرے لوگوں کے لیے اصلاح کا باعث بن جاتا ہے, زانی دوسروں کے لیے لمحہ فکریہ پیدا کردیتا ہے اور منافق مومنوں کی تقویت کا باعث .
      متشکک انسان , جرم کرنے والا قابل رحم ہے کہ اسے علاج کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ لعن طعن کی.

  9. مجھ پر منکشف ہوا ہے کہ اسلام دشمن سائیٹ جرات تحقیق پر جتنے بھی لکھاری ہیں وہ سب فرضی ہیں اور ان کے اسلامی نام دوسرے مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے ہیں.
    ویسے ہے بڑے کمال کی محنت کہ ہر رائیٹر کے زہر کا رنگ الگ الگ ہے.

جواب دیں

24 Comments
scroll to top