Close

قرآنی بازار

 

مصر میں مولویوں کی قیامت اٹھی۔۔ کیونکہ مصری مفکر ڈاکٹر حسن حنفی جن کا کچھ سالوں سے ایک پیر اسلام کے اندر اور دوسرا سیکولرازم کے اندر ہے۔۔ انہوں نے قرآن کو بازار کہہ ڈالا۔۔ چنانچہ مولوی اچھل پڑے اور تکفیر کی چھریاں اپنی اپنی جیبوں سے نکال لیں حالانکہ قرآں کو بازار کہنا مبالغہ آرائی کی حد تک مہذبانہ ہے اور قرآن کی حقیقت کا پوری طرح احاطہ ہی نہیں کرتا۔۔

کیونکہ بازار میں آپ کو شدید متضاد چیزیں مل سکتی ہیں، جیسے آپ کو بازار میں نمک اور چینی مل سکتی ہے۔۔ جسے شہد چاہیے اسے بازار میں آسانی سے دستیاب ہوجائے گا اور جسے پیاز چاہیے وہ بھی اسے آسانی سے بازار میں مل جائے گا۔۔ در حقیقت متضاد چیزوں کی ایک طویل فہرست ہے جو آپ کو بازار سے مل سکتی ہیں اور جو چاہے انہیں حاصل کر سکتا ہے۔۔ مگر بغیر کسی فتوے، تاویل، تفسیر، حدیث کے ہر کوئی جانتا ہے کہ بازار سے لی گئی ان متضاد چیزوں کا کس طرح استعمال کرنا ہے سوائے قرآن کے۔۔

کیونکہ اس میں ایسا کوئی حکم نہیں جس پر اتفاق کیا جاسکے اور نا ہی ایسا کوئی حکم ہے جس کا بالکل الٹ اور متضاد قرآن میں موجود نہ ہو! تشریحات، تفسیرات، تاویلات، اجتہادات اور مباحثے چلتے رہتے ہیں مگر فیصلہ نہیں ہوپاتا۔۔۔ کسی بھی معاملے کا۔۔ کوئی ایک ایسا مسئلہ نہیں جس پر نا ختم ہونے والے طویل مناظرے اور مباحثے نہ چلتے رہے ہوں اور چل رہے ہوں۔۔ نتیجتاً لوگ کبھی بھی پُر یقین نہیں ہوتے کہ وہ کس حکم پر عمل کریں اور کس پر نہ کریں۔۔ ایسا بھی اکثر ہوتا ہے کہ لوگ کنفیوژن میں کسی حکم پر عمل کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اسی دوران اس حکم کی شرعی حیثیت پر ابھی مناظرے اور مباحثے چل رہے ہوتے ہیں کہ یہ جائز بھی ہے یا نا جائز!!

مثال کے طور پر حجاب کا ڈرامہ جس پر ساتوی صدی عیسوی کے نصف سے بحث جاری ہے کہ یہ فرض ہے یا نہیں؟ آج اکیسوی صدی میں بھی اس کا فیصلہ نہ ہوسکا! یہ تو محض اس ڈرامے کا زمانی پہلو ہے، اگر اس فضول بحث کے مکانی وجفرافیائی پہلو کی بات کی جائے تو اس کا پھیلاؤ مکہ، مدینہ اور ریاض سے لے کر پیرس تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے جہاں فرانسیسیوں اور ان کے صدر کی اس ڈرامے کے ساتھ ایک المناک جنگ کی کہانی ملتی ہے جس کے نتیجے میں فرانس جیسی ترقی یافتہ اور مہذب قوم نے اس ڈرامے کو نمٹانے کے لیے اپنے سارے کام روک کر اس پر ریفرینڈم کروایا کہ اس کی اجازت دی جائے یا نہیں!!!! آج بھی اسلام کے تمام عماموں، جُبوں اور جدید ٹائیوں کا اس حجاب ونقاب ودردِ دماغ پر اختلاف جاری ہے، اب بھی تاویلوں تفسیروں اور تشریحات کا ایک کوہِ گراں اس ڈرامے کے گرد گھوم رہا ہے اور شاید قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا!!

آج بھی صلعم پر زور وشور سے یہ بحث جاری ہے کہ وہ انسان تھا یا نور؟! آج بھی اس امت کے ظلماء اس بحث میں اپنا اور امت کا وقت اور دماغ برباد کر رہے ہیں اور اس کے باوجود نتیجہ صفر ہے کیونکہ ہر کسی کو اس قرآنی بازار سے اپنے اپنے مطلب کی آیات مل جاتی ہیں۔۔ اگر آپ ایک سے زائد شادیوں کے قائل نہیں تو آپ کو قرآن سے اس کے لیے بڑے آرام سے دلیل مل جائے گی:

وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ (النساء 129)
اور تم خواہ کتنا ہی چاہو بیویوں میں ہرگز عدل نہیں کر سکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ۔ اور دوسری کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ گویا ادھر میں لٹک رہی ہے۔

یعنی ایک سے زائد بیویوں کے درمیان انصاف نا ممکن ہے چنانچہ ظلم سے بچنے کے لیے ایک سے زائد شادی جائز نہیں۔۔ اور اگر آپ چار شادیوں کے قائل ہیں بمع کنیزوں اور لونڈیوں کے تو بھی آپ کو اس قرآنی بازار سے اپنے مطلب کی آیات ایک سے زائد مقامات پر مل جائیں گی مثلاً:

فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النساء 3)
جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو

مگر کیا قرآن دونوں احکامات میں سے کسی پر فیصلہ کن حکم صادر کرتا ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ یہ ایک ایسے قرآنی مسئلے کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس پر دیگر قرآنی آیات کو لے کر ایک نا ختم ہونے والی بحث شروع ہوجاتی ہے جو شاید روزِ قیامت کو بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکے!! اس کے باوجود مطلوب یہ ہے کہ ایسی بازاری کتاب کو ڈیڑھ ارب انسانوں کی تشریع کے لیے استعمال کیا جائے!!!!

اگر آپ قرآن سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صلعم کی اللہ کے ہاں کوئی وقعت وعزت نہیں تو آپ کو ایک ایسی آیت مل جائے گی جہاں اس کی شفاعت واستغفار اللہ کے ہاں مردود ہے:

اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ!! (التوبہ 80)
تم انکے لئے بخشش مانگو یا نہ مانگو برابر ہے اگر انکے لئے ستر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی اللہ انکو نہیں بخشے گا۔

اور اگر آپ کو کسی ایسی آیت کی تلاش ہے جس سے آپ یہ ثابت کر سکیں کہ صلعم کی اللہ کے ہاں بڑی قدر ومنزلت ہے تو بھی آپ کو ایک ایسی آیت مل جائے گی:

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب 56)
اللہ اور اسکے فرشتے اس پیغمبر پر درورد بھیجتے ہیں۔

عجیب طرح کا بازار ہے!!

اور اگر کوئی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مسیح اور اللہ میں کوئی بڑا فرق نہیں اور وہ تمام خدائی کام سر انجام دے سکتا ہے جو اللہ کے سوا کوئی نبی نہیں کر سکتا اور وہ اللہ کی روح ہے جو تخلیق کر سکتا ہے، شفاء دے سکتا ہے اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے تو اسے قرآن سے یہ سب مل جائے گا:

اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾ وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾ قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۴۷﴾ وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ﴿ۚ۴۸﴾ وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾ وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾ (آل عمران 45 – 50)
وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسٰی ابن مریم ہو گا اور جو دنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔
مریم نے کہا کہ پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ اللہ اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
اور وہ اسے کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل کا علم عطا کرے گا۔
اور عیسٰی بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر ہو کر جائیں گے اور کہیں گے کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لئے نشانی ہے۔
اور مجھ سے پہلے جو تورات نازل ہوئی تھی اس کی تصدیق بھی کرتا ہوں اور میں اس لئے بھی آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو تمہارے لئے حلال کردوں اور میں تو تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔

اور اگر کوئی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مسیح محض اللہ کا ایک بندہ ہے اور تمام دیگر انبیاء کی طرح محض ایک نبی ہے تو اسے بھی اسی قرآن سے اس بات کی دلیل مل جائے گی:

قالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾ (مریم 30)
بچے نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔

عجیب طرح کا بازار ہے!!

اگر کوئی قرآن سے مسیح کا مرنا اور کوئی دوسرا اس کا نہ مرنا ثابت کرنا چاہے تو ان دونوں کو یہ سب قرآن میں مل جائے گا! ایک آیت کہتی ہے: وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ (انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھا پائے لیکن ان لوگوں کو انکی سی صورت معلوم ہوئی۔) (النساء 157) اور دوسری آیت کہتی ہے: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ (جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا) (المائدہ 117) إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَ‌افِعُكَ إِلَيَّ (‫جس وقت الله نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں وفات دینے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں) (آل عمران 55)۔۔

سب قرآن میں موجود ہے۔۔ مصلوب ہوا نہیں ہوا تمام چیزیں انشاء اللہ دستیاب ہیں۔۔!!

اس بازار میں تمام گاہکوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں!

اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ آنکھ، ناک، کان کسی بھی جگہ سے سیکس کیا جاسکتا ہے تو یہ بھی آپ کو قرآن میں سے مل جائے گا:

نِسَاؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْ‌ثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ (تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔) (البقرہ 223)

اور اگر آپ صرف فطری مقام سے ہی سیکس کے قائل ہیں ناکہ ہر جگہ سے جیسا کہ سابقہ آیت کہتی ہے تو بھی آپ کو یہ مل جائے گا:

‫فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَ‌كُمُ اللَّـهُ! (‫تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نےتمہیں حکم دیا ہے) (البقرہ 222) یعنی سابقہ آیت سے پہلے والی آیت، یعنی ایک چیز اور اس کا متضاد آگے پیچھے ایک ہی سطر میں!! گاہکوں کی خدمت میں تمام اشیاء دستیاب ہیں۔۔!

اگر کسی نے قرآن سے یہ ثابت کرنا ہے کہ صلعم کا لوگوں پر کوئی تسلط نہیں اور وہ لوگوں کو اسلام میں زبردستی داخل کرنے اور ان سے زبردستی زکات اور جزیہ وصول نہیں کر سکتا تو یہ بھی قرآن سے مل جائے گا:

‫فَذَكِّرْ‌ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ‌ ﴿٢١﴾ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ‌ ﴿٢٢﴾ (‫پس آپ نصیحت کیجئے بے شک آپ تو نصیحت کرنے والے ہیں۔ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں‬) (الغاشیہ 21-22)

بلکہ ایسا ایک سے زائد سورت میں مل جائے گا جیسے:

وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا (اور ہم نے تجھے صرف خوشی سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے) (الاسراء 105)

اور اگر کسی نے قرآن سے یہ ثابت کرنا ہے کہ کافروں کا قتل جہاد فی سبیل اللہ ہے اور صعلم اور تمام مسلمانوں پر فرض ہے تو یہ بھی ایک سے زائد آیات میں مل جائے گا جیسے:

‫فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَضَرْ‌بَ الرِّ‌قَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ (پس جب تم ان کے مقابل ہو جو کافر ہیں تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب مغلوب کر لو تو ان کی مشکیں کس لو) (محمد 4)
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُ‌ونَ (‫ان لوگوں سے لڑو جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں) (التوبہ 29)

یہاں بڑے بڑے عماموں، جُبوں اور ایڈوانس ٹائیوں والے اپنے پنجے نکال کر چیخ کر کہیں گے کہ: آخر ناسخ ومنسوخ بھی کوئی چیز ہوتی ہے!!

مگر آپ ناسخ ومنسوخ چھوڑتے ہی کیوں ہیں؟؟!! یا تو ناسخ کو رہنے دیں اور منسوخ کو حذف کردیں یا منسوخ کو چھوڑ کر ناسخ کو ختم کردیں تاکہ تمہارا قرآن اس طرح مضحکہ خیز نہ لگے۔۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ اسے بازار کی طرح چیز اور اس کے متضاد سمیت ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر انکل حسن حنفی جیسا کوئی شخص اسے بازار کہہ ڈالے تو یہ اس پر چیخ اٹھتے ہیں: مرتد کو پکڑو۔۔۔ توبہ یا قتل؟!۔۔۔

یہاں آکر ہم ایک بار پھر ایک اسلامی قرآنی گیم کا شکار ہوجاتے ہیں جن کی کسی بھی دور میں کبھی کمی نہیں رہی۔۔ یہ گیم ردت اور مرتد کی ہے۔۔ کیا قرآن میں ردت کی کوئی حد یا نہیں؟

چنانچہ اگر کسی کو قرآن سے مرتد کو قتل کرنے کا حکم درکار ہے تو یہ اسے بڑے آرام سے مل جائے گا:

أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ (کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں) (التوبہ 13)

اور اگر آپ نے اس کا الٹ ثابت کرنا ہے تو یہ بھی بہت آسان ہے:

لَا إِكْرَ‌اهَ فِي الدِّينِ (‫دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے) (البقرہ 256)

اب یقیناً یہاں آکر اختلاف کا واقع ہونا طے ہے کیونکہ اس کتاب میں احکامات نا تو فیصلہ کن ہیں اور نا ہی واضح بلکہ احکامات میں ٹکراؤ کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تاکہ گاہکوں کو ہر قسم کی چیزیں ایک ہی جگہ دستیاب ہوجائیں اور انہیں اس بازار کو چھوڑ کر کسی اور بازار سے رجوع نہ کرنا پڑے!!

ردت پر فیصلے کے لیے پرانی تفاسیر دیکھی جائیں گی پھر نئی تاویلی تفاسیر سے رجوع کیا جائے گا مگر پھر بھی حقیقت کا کوئی مختصر راستہ کسی کو نہیں ملے گا چنانچہ بالآخر صحیح وغیر صحیح احادیث کھولی جائیں گی، سیرت کی کتابوں کو کھنگالا جائے گا اور قرضاوی، طنطاوی، شعراوی، بن باز، بن جاز وغیرہ کے فتاوی کی پڑتال کی جائے گی۔۔۔ مگر۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ کسی چیز پر اتفاق ہونے پائے جنت کی بہتر حوروں کی جلدی میں کوئی جلد باز مجاہد انکل حسن حنفی کو قتل کر ڈالے گا اور انسانی خون کا پیاسا اللہ خوشی سے جھوم اٹھے گا!!

14 Comments

  1. اینڈرسن شا صاحب، قران کو اس کے متن کے مطابق سمجھئے نہ کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر۔ یہی غلطی ہمارے مفسرین کرام اور اَئمہ سے سرذد ہوئ جس کا خمیازہ اَج پوری مسلم امہ بھگت رہی ہے۔ مثال کے طور پر، سورۃ توبہ تلوار لے کر اس لئے نازل ہوئ کیونکہ یہ اتمام حجت تھی ان سب کے لئے جنہوں نے ایک پیغمبر کے ذریعے اسلام کی دعوت سنی مگر اس کو قبول نہیں کیا اور اللہ کی سنت کے مطابق ایسے لوگ عذاب کے حقدار ٹھرے جو ان پر تلوار کی صورت میں نازل ہوا۔ ناقی انبیا کے سلسلے میں یہ عذاب کبھی اسمان سے پتھروں کی صورت میں نازل ہوا اور کبھی اسمانی بجلی اور سیلاب کی صورت میں۔

    سکم ہماری تحقیق و تفسیر میں تو ہو سکتا ہے قران کے میسج میں نہیں۔

    1. عجب طرفہ تماشا ہے، جب قرآن کے متن پر اعتراض ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ جناب پہلے آپ سیاق و سباق دیکھیں، جب قرآن کے سیاق و سباق پر اعتراض ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے جناب آپ قرآن کا متن دیکھیں۔ کوئی ایک معیار اختیار کرلیں تو ہمیں بھی جواب دینے میں آسانی ہو۔

      1. ایاز نظامی صاحب، اب آپ جھنجھلاہٹ کا تاثر دیکر اس تحریر کے بنیادی سقم کو چھپانے کی ایک عبث کوشش کر رہے ہیں- متن اگر سیاق و سباق کے ساتھ زیر بحث ہوگا تو کیوں قابل اعتراض ہو گا؟ (سوائے اس کے کہ غلط استدلال کیا جارہا ہو)-
        سیاق و سباق سے الگ کر کے کسی کتاب سے تحریر کا کوئی ٹکڑا لے کر آپ اس پر جو کہانی چاہے بنا لیں-

  2. sir , aap agar koi bhe book study karoge to os ki instructions ko follow karna parega na ya fir aap ko bhe machine purchase karoge to os ki bhe instructions ko follow karna parega na dear aap ko logic ko parho ta k aap ka akul tekana p aae logic mein ek topic hai jis ko ambiguity kehten hein aap paroge to aap ko samajh mein aajaega k quran tek hai ya galat kiyn k ap ko parne se mein samajhta hoon k aap ko pata lagjaega k aap galat ho quran tek hai. for instance quran mein ek aayat hai k (ye wo quran hai jis ko kuch parkar gumran hoten hein or kuch hidayat paate hein is ki explanation ye hai k allah ko pata hai or hum ko bhe pata hai k koi agar kisi cheez ka apna sense nikalega jo darasal hai e nahein to wo khud gumrah hoa na na balky book. mein ye breifly likh raha hoon aap agar chahyen to aap c detail mein baat karo mein to ap mujh c contact karen ok dear wish u all the best.

    0 .

  3. بہت خوب لکھا ہے. میں اسطرح کے اسلام کو عمرو عیار کی زنبیل سے تشبیہ دیتا ہوں. جس کو جو چاہیے مل جائے گا. آجکل دیکھ لیں، ہر کوئی اسی زنبیل کی مدد سے دوسرے کو قتل کرنا عین حق بتاتا ہے. پاگلستان اس زنبیل کا منہ بن چکا ہے.

  4. اینڈرسن شا عرف کیکڑا المشہور جنونی مریض آپ کی ماں بھی تو بازاری ھے ذرا اپنے گھر کی خبر لیں ۔ اکیلے ہی اعتراضات کر کے خوش ھو جانا کہ ھم نے اللہ کے کلام کو مٹا دیا یا ناکام کر دیا اس چماگادڑ کی طرح ھے جو دن کے وقت انکہیں بند کر کے خوش ھو جاتا ھے کہ سورج نہیں ھے۔ دیوانے تیری تلاش میں نکل چکے تیرے دن تھوڑ ے ہیں ۔ کل آپ کے فورم پر عنوان دیکھا کہ ۔اینڈرسن شا کی ماں اور اسکی پھودی ایک جایزہ۔ واہ کیا عنوان ھے ویسے اگر ہر موضوع پر تحقیق ضروری ھے تو اس پر بھی ذرا تحقیق ھے جاے۔

    1. جب مذہبی انسان بے بس ہوجائے اور اپنے موقف کے ثبوت کیلئے اسے کوئی دلیل دستیاب نہ ہو توپھر لازماً وہ گالم گلوچ اور دھمکیوں پر ہی اتر آتا ہے۔ جرات تحقیق پر گالیاں دے کر اشتعال دلانے کی کوششیں بے کار ہیں، جرات تحقیق اپنی علمی روش تبدیل نہیں کرے گی متانت اور وقار کے ساتھ اپنا موقف قارئین کے سامنے رکھے گی، اور مومنین کی گالیوں کو ان کی دینی تربیت سمجھتے ہوئے ان کی اس بے بسی کی کیفیت سے محظوظ ہوگی۔

  5. صدق سے دل سے کہا جاسکتا ہیکہ بازار مان لیں -اتنا زور بیان صرف کیا ہے بازاری انداز میں تو بازار تو لگے گا ہی، اہل شرف اور مہذب انسان اس بے حیائی کا کیا جواب دیگا جو بازاری انداز ہے – مخلوق کا خالق سے رشتہ؟؟؟ ساری بات ہی ایسے انداز سے اور اتنے جھوٹ کے ساتھ کہی گئ ہیکہ طنز ، مذاق ، چھچھورا پن اوچھا پن بازاری پن کے مقابلہ تو کیا کہین واقعہ ولادت سیدنا عیسی علیہ السلام مین جن باتون کا ذکر ہے اسکے لئے تو کوئی اور صفت کا لفظ لغت میں لانا پڑیگا-
    قراں کے تضادات کو جمع کرنے جو عقل استعمال کی گئی ہے کوئی بھی عام سمجھ کا آدمی جو صرف قراں کی تلاوت کرتا ہے اور کوئی خاص علمی قابلیت بھی نہین رکھتا لیکن عام فہم استعداد کا ہے اس مضمون نگار کو فاتر العقل ہی قرار دیگا -صرف ادب اور زبان دانی کی ہی بات کی جائے یہ گفتگو تو کوئی اپنے ہمراز سے بھی نہین کرسکتا چہ جائے کہ کسی معاملہ پر کی جائے، اور اسکے کئی حاشیہ بردار ہفت اقلیم کی عقل کے برابر اس شخص کی فہیم کو ماننے کا اعتراف کر رہے جس سے انکی ادا کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس قماش کے لوگ ہونگے- خصوصا صلعم کے بارے مین دو حوالہ جات دئے گئے ہین مضمون نگار کے اجہل تریں ہونے کا ثبوت ہین یہ آیات مرتبئہ صلعم کیلئے ہین کیسے تعین کیا ؟؟ ذہنی کج روی اور تعصب فکری کی بد تریں کیفیت میں اور فسق کی انتہائ حالت میں ہے یہ مضمون نگار –

جواب دیں

14 Comments
scroll to top