Close

قرآن اور اس کے تضادات

أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ﴿النساء: ٨٢ ﴾
﴿ترجمہ﴾کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
مندرجہ بالا آیت میں قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کلام ِالہٰی ہے، اور دلیل یہ ہے کہ اگر یہ کلام انسانی ہوتا تو یقیناً اس میں بہت سے تضادات پائے جاتے۔ کیونکہ وہ ذات جو کائنات جیسے منظّم نظام کو بغیر کسی سقم کے قائم کئے ہوئے ہے﴿بقول قرآن﴾یقینی طور پر اس کا کلام بھی ہر قسم کے سقم سے پاک ہونا چاہئے ۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا واقعتاً قرآن میں کسی بھی قسم کا کوئی تضاد پایا جاتا ہے یا نہیں؟ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اگر حقیقتاً قرآن میں کوئی تضاد نہ بھی پایا جاتا ہو تو بھی یہ کلام الہٰی ہونے کیلئے کافی ثبوت ہے یا نہیں؟ ہم قرآن کے عمومی دعویٰ کو لے کر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ قرآنی دعویٰ کے مطابق اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، لہٰذا اگر ہم قرآن میں تضادات تلاش کر لیتے ہیں تو قرآنی فارمولے کے تحت ہی قرآن کا انسانی تصنیف ہونا ثابت ہوجائےگا۔
اصول فقہ کی تشریح کے مطابق اس آیت میں لفظِ اختلافاً عام ہے جس میں کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی اور اس لفظ کا عموم داخلی و خارجی دونوں قسم کے تضادات کو شامل ہے، داخلی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے اپنے متن میں ایسے  بیانات موجود ہوں جو باہم متصادم ہوں اور بیک وقت ان کاتسلیم کیا جانا ممکن نہ ہو۔ اور خارجی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کا کوئی بیان کسی حقیقتِ مسلّمہ سے متصادم و معارض ہو۔ ہمارادعویٰ یہ ہےکہ قرآن ان دونوں اقسام کے تضادات سے خالی نہیں ہے اور قرآن میں داخلی و خارجی تضادات پائے جاتےہیں، فی الوقت ہم خارجی تضادات سے صرف ِنظر کرتے ہوئےقرآن کے داخلی تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿البقرة٢٩﴾
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
اس آیت میں یقینی طور پر زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر ہو رہا ہے، ﴿حوالے کے طور پر مومنین کے سلفِ صالحین کی کسی بھی  تفسیر کا مطالعہ کر لیجئے﴾ اس آیت کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے کہ :
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کوتخلیق کیا یا بالفاظِ دیگر زمین اور اس سے متعلقہ ضروری اسباب کو عدم سے وجود میں لایا۔
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کو تخلیق کرنے کے بعد تخلیق کے دوسرے منصوبے یعنی آسمان کی تخلیق کی جانب رخ کیا اور سات آسمان تخلیق فرمائے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت ترتیب تخلیق کی وضاحت کا فائدہ دے رہی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کسے پہلے پیدا کیا گیا اور کسے بعد میں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ خود قرآن یہاں لفظ ثمّ استعمال کر رہا ہے اور عربی داں حضرات کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ لفظِ ثمّ تعقیب کا فائدہ دیتا ہے، لفظِ تعقیب کا مادّہ عقب ہے جس کا مطلب پیچھے ہے، اس لئے ثمّ جس جملے میں استعمال ہوتا ہے وہاں وقت کی تدریج کا علم ہوتا ہے کہ پہلے کیا واقعہ وجود میں آیا ااور اس کے پیچھے یا بعد میں کیا واقعہ وجود میں آیا۔ مثلاً ہم عربی میں کہتے ہیں کہ جاء زید ثمّ بکر تو اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ زید آیا اوراس کے بعد بکر آیا۔ بکر کے بعد میں آنے پر لفظِ ثمّ دلالت کر رہا ہےاس جملہ سے کسی طور پر یہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ زید اور بکر کا آنا متوازی تھااور دونوں کی آمد بیک وقت صادر ہوئی۔
اس تشریح و توضیح کے بعداس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا قرآن یہی بات بیان کر رہا ہے کہ تخلیق زمین و آسمان میں اولاً زمین کو تخلیق کیا گیا اور پھر اس کے بعد  ﴿ثمّ﴾ آسمان کو تخلیق کیا گیا۔ مزید وضاحت و تصریح کیلئے ہم یہاں سورة فصّلت کی آیات نمبر ۹ تا ١۲ کو بھی ذکر کردیتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت سند رہے۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُ‌ونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَ‌كَ فِيهَا وَقَدَّرَ‌ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْ‌بَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْ‌ضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْ‌هًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَ‌هَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ‌ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ:کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس . نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور (شیطانوں سے) محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ۔
ان آیات میں تو باقاعدہ ایام کی تقسیم کے ذریعے بالکل وضاحت کے ساتھ تخلیق کے مراحل کی مکمل تفصیل بیان کردی کہ اللہ نے پہلے زمین کو تخلیق کیا اور پھر متعلقات ِ زمین کو پیدا کیا اور یہ مرحلہ پایہٴ تکمیل تک پہنچا کر اللہ نے  آسمانوں کو بنانے کا ارادہ کیا اور سات آسمانوں کو تخلیق کیا۔
اگر سورة البقرة کی آیات کے متعلق کوئی موٴمن یہ تصحیح کرنے کی کوشش بھی کرتا کہ سورة البقرة کی آیات میں مطلقاً تخلیق کا ذکر ہے، تخلیق کے مراحل کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ تو سورة الفصلت کی مذکورہ آیات نے اس غیر ضروری تصحیح کا باب بھی ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے کہ جب باقاعدہ تاریخ وار بیان کیا جا رہا ہے کہ کب کس چیز کی تخلیق کی گئی ہے تو تخلیق میں جو تقدیم و تاخیر ہے وہ اب بالکل واضح ہوگئی ہے
اب آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کی وہ آیات پیش کرتا ہوں جن کا مذکورہ بالا آیات کے ساتھ واضح طور پر تصادم اور تضاد ہے:
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَ‌فَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَ‌جَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْ‌ضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ أَخْرَ‌جَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْ‌عَاهَا ﴿٣١﴾ وَالْجِبَالَ أَرْ‌سَاهَا ﴿٣٢﴾
 ترجمہ بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا ٭اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا ٭اور اسی نے رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) دھوپ نکالی ٭اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا ٭اسی نے اس میں سے اس کا پانی نکالا اور چارا اگایا ٭اور اس پر پہاڑوں کابوجھ رکھ دیا ٭
اب آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ سورة النارعات کی ان آیات میں تخلیق کا عمل بالکل الٹ گیا ہے اور  اللہ واضح طورپر  بیان کر رہا ہے کہ اللہ نے پہلے آسمان کو بنایا اور اس کی چھت کو اونچا کیا دن اور رات بنائے اور اس مرحلہ کی تکمیل کے بعد زمین کو بچھایا۔
سورة البقرة اور سورة الفصلت کی مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے زمین کی تخلیق ہوئی اور بعد میں آسمان کی اور سورة النازعات کی ان آیات میں بیان کیا جا رہا ہے کہ پہلے آسمان کی تخلیق ہوئی اور بعد میں زمین کی ۔ان آیات میں اللہ یا مصنف ِقرآن نے  نے  لفظِ ثمّ ذکر کرنے کا بھی تکلف نہیں فرمایا بلکہ صراحتاً بعد ذالک ﴿یعنی اور اس کے بعد﴾ کے الفاظ ذکر کرکے اپنی فاش غلطی پر مزید مہر تصدیق ثبت کرکے مومنین کی تمام تر تاویلات کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔
زمین و آسمان کی تخلیق کی ترتیب میں یہ انتشار آخر کہاں سے وقوع پذیر ہوا؟ خطائے انسانی یا عطائے ربّانی؟
آیا یہ انسانی نسیان ہے یا اللہ بھی بڑھاپے کے اثرات کی وجہ سے الزائمر کا شکار ہو جاتا ہے؟
اب کوئی بتلائے تو سہی کہ ہم بتلائیں کیا؟
کیا قرآن کے اپنے ہی بیان کردہ فارمولے کے تحت قرآن کا غیر اللہ کی جانب سے ہونا ثابت نہیں ہو جاتا؟
اور یہ تو ابھی مشت از خروارے کے مصداق ایک نمونہ بیان کیا ہے۔ مزید تضادات داخلی و خارجی اور تضادات عقلی و نقلی کیلئے انتظار فرمائیے۔

77 Comments

      1. کمال ہے آپ کو لگتا ہے کہ آپ کنفیوز ہوئے جبکہ مؤمنین تو مسلسل کنفیوز رہنے والی مخلوق ہے اور اسی کنفیوزن میں آپ یہ بھول گئے کہ آپ کے سوال کا نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر آپ نے مصنف کا انٹرویو ہی لینا ہے تو آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں.. اور اس سکریپ تبصرے کا بھی شکریہ 😀

        1. aap mujhay momonin main shumar q kar rhy hain sir g main to momin nhe hn main to abhe musalman hn or confuse es liay hua k shayad main topic samjha he nhe abhe tak aakhir ye chal kia rha hay thanks for your advice main phir samjhnay ki koshish karta hn magar aik bat or k maine jis ko scarp kia tha usne jawab q nahe dia ???????? sawal kisi say or jawab koi or day yeto koi bat na hue 🙂

          1. ہاہاہاہا.. چلیں جی نظامی صاحب سے درخواست فرماتے ہیں کہ وہ بقلم خود آپ کو جواب عنایت فرمائیں 🙂

  1. قرآن کے "تضادات” کے حوالے سے جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان میں تضادات کی بات تو واضع نہیں ہو سکی۔ اگر ہم سائنسی اندازوں کے مطابق جو کہ انسانی قیاس پر مبنی ہیں جن میں شواہد کو جوڑ کر زمین اور آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے اس میں زمین اور آسمان کی تخلیق کوئی ایک دن کا عمل نہیں ہے اور زمین کا گرم حالت سے ٹھنڈا ہونا پھر اس میں سے گیسوں کا نکل کر کار بن ڈائی آکسائڈ اور پھر اکسیجن بننا ایک طویل عمل ہے اور درمیان میں کئی حادثات زمین پر اہم مراحل کے آغاز کا سبب بنے جس میں ایک مرحلے پر آسمان کی تشکیل کے بعد امین پر موجود پانی کا خشک ہونا اور پھر خشکی کے خطوں کا قیام اور پھر اس میں نباتات کی پیدائش ایک اور مرحلے میں ہوئی۔ قرآن کی آیات ان مختلف مراحل کا ذکر کرتی نظر آتی ہیں اور ایک طویل عمل میں کہیں پہلے مرحلے کا بیان ہے کہیں درمیان کے کسی مرحلے کا تو اس کو تضاد کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ یہ تضاد تو انسان کی عقلِ ناقص میں ہے، قرآن میں کہاں ہے؟ اس کے علاوہ اگر قرآن کسی انسان کی اختراع ہے تو بھی تاریخی شواہد درکار ہیں اور تاریخی عمل کے ذریعے اگر بغیر تحریف کے ہم تک پہنچا ہے تو یہ بھی اس کی حقانیت کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کے متشابہات جن میں اکثر سائنسی حقائق کا جامع بیان ملتا ہے اور کی تفہیم بدلتے حالات کے ساتھ وسیع ہوتی رہی ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ کئی نشانیاں اللہ آسمانوں اور انسانوں کے اندر ظاہر کرتا رہے گا۔ تفاسیر ہر دور کی ذہنی سطح پو مبنی قرآن فہمی کا ایک نمونہ ہیں نہ کہ کوئی حتمی کلام۔ قرآن میں احکامات یا محکمات تو ۱/۴ حصے پر مشتمل ہیں جن کے لئے سنت اور دورِ صحابہ سے رجوع لازمی ہے یعنی تاریخ سے رجوع باقی متشابحات میں تو مستقبل کی طرف رجوع ہوگا اور ان کو بتانے کا مقصد بھی اللہ کے احکامات کی پابندی کی طرف توجہ منذول کرانا اور ان تمام تخلیقات کے خالق کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ اس لئے انسان اگر اپنی نا سمجھی یا ناقص فہم کی وجہ سے قرآن میں تضاد محسوس کرنا شروع کردے تو اس میں اللہ کا تو کوئی قصور نہیں ہے نا بابا۔

  2. انضمام صاحب،
    مزہ آ گیا، کیا منہ توڑ جواب دیا ہے.
    اب ذرا جلدی سے بتا دیں، کیا آسمان کوئی مادی چیز ہے، جس کو چھوا جا سکتا ہے یا نظر کا دھوکہ؟
    پائی صاب، اس بلاگ پر کافی مواد ہے مغالطوں کے بارے میں، کبھی غور سے پڑھ لیجئے گا.

  3. انضام صاحب اگر قرآن انسانی کتاب نہیں ہے اسکو صرف اس سیدھی بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں واضح بیانات نہیں ہیں ، اگر یہ آسمانی کتاب ہوتی تو بیانات انتہائی واضح ہوتے یعنی کسی قسم کا کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے تھا۔ زمین آسمانوں میں سے خدا نے کسے پہلے بیان کیا ان میں واضح تضاد ہے لیکن آپنے کہا کہ ایک دوسری آیت میں کائنات کی مرحلے وار تخلیق کا پورا احوال موجود ہے تو بھائی یہ ابہام کیوں؟ کیا خدا میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ قرآن میں جو کہ قیامت تک کے لئے راہ ہدایت ہے میں کھل کر صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیتا ؟ اس میں وہی معلومات دی گئی ہیں جن کا علم مصنف کو تھا جوں جوں مصنف کو علم ہوتا رہا وہ کتاب میں آتا رہا۔ اسکے علاوہ مصنف چونکہ انسان تھا اور نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں کیا واقعات پیش آئیں گے شراب کو نعمتوں میں شمار کرنا بھی مصنف کے انسان ہونے کی اچھی مثال ہے۔شراب کو نعمتوں میں شمار کرتے ہوئے وہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں وہ اسکو حرام قرار دیدے گا اور یا اسکو حرام قرار دیتے ہوئے وہ بھول گیا کہ اسنے اسی شراب کو نعمتوں میں بھی شمار کیا تھا۔ غور کرنے کیلئے اس بلاگ پر ایک ایک بلاگ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو قرآن کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

    1. محترم بھائی سیاہ بھائی صاحب اور دیگر تمام منکرین خدا!
      قرآن کریم ایک ایسی آفاقی کتا ب ہے (اس سے قطع نظر کے وہ اللہ نے لکھی ہے یا کسی انسان نے) جس نے عرب جیسے بدوؤں کو آپ کے آقاؤں کا آقا بنا دیا تھا، ایک ایسی کتاب جسے نے کم و بیش 1200 سال تک دنیا میں اپنے پیروکاروں کو شاندار تہذیب و تمدن سے آراستہ حکومت (خلافت فی الارض ) عطا کی۔ کیا دنیا میں آپ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ کہیں کسی نے بغیر ظلم و تشدد و بربریت کے ایسی مثالی حکومت قائم کی ہو؟ کیا ایک دھوکہ اتنا عظیم انقلاب برپا کرسکتا ہے؟ آپ خود عقل و فکر کیجیے کیا کوئی کتاب اتنی بابرکت اور اتنے عظیم انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ اگر دنیا میں کسی اور کتاب نے اتنا بڑا انقلاب برپا کیا ہو، تو ضرور بتلائیے گا، مجھے شدت سے انتظار رہے گا۔

      والسّلام۔

      1. جناب عمران علی صاحب!
        رٹی رٹائی ،سطحی باتیں نہ کریں، پہلی بات تو یہ ہے کہ دین ایک نظریہ ہوتا ہے، اور نظریہ دلائل سے ثابت اور رد کیا جاتا ہے، جنگوں میں فتوحات و شکست کسی نظریہ کی حقانیت کی دلیل نہیں ہوا کرتے۔
        دوسری بات یہ کہ آپ ذرا خود "قرآن” اور "سیرت النبی” کا مطالعہ فرمالیں تو آپ پر”بغیر ظلم و تشدد و بربریت کے مثالی حکومت” کی ساری حقیقت واضح ہو جائے گی۔ مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو ہم اسی خدمت کیلئے "جرات تحقیق” پر موجود ہیں۔

        1. محترم نظامی صاحب،

          ہم سیرت النبی کی بات نہیں کرتے کہ یہ اللہ کا کلا م نہیں، بلکہ لوگوں کے فرمودات ہیں جو انہیں سمجھ آیا انہوں نے لکھ لیا، ہم تو صرف قرآن کریم کی بات کرتے ہیں، آپ اس سے کہیں سے بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ ظلم و ستم اور جبر و بربریت جائز ہے؟ الحمد للہ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہوا ہے، اور مجھے پتہ ہے قرآن کریم میں اس قسم کی کوئی کتھائیں نہیں ہیں جو اس وقت کا مسلمان اپنے ساتھ لیکر چل رہا ہے، میرا سوال ہنوز تشنہ ہے، کیا آپ کوئی ایسی تہذیب بتا سکتے ہیں جو محض ایک فلسفہ کیا بنیاد پر اتنی پھلی پھولی ہو؟یہ ایک چبتا ہوا سوال ہے، اس آپ رٹی رٹائی باتیں کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے ۔ یہ اسلام کی ہی فیوض و برکات تھیں کہ مسلمانوں نے حرص و لالچ اور اقرباء پروری در آنے کے باوجود 1200 سال تک اس دنیا پر حکومت کی، اور اب تک کر رہے ہوتے اگر یہودیوں کی عالمی سازش بیچ میں نہ آتی، یہ یہودیوں کی عالمی سازش ہی تھی کہ جس نےخلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کو رو بہ زوال کیا۔

  4. بھائی صاحب ٹائم اینڈ سپیس ریلیٹیو ہی ہوتے ہیں فریم آف ریفرنس تبدیل ہو تو ان میں بھی فرق آتا ہے۔ یہ کوئی تضاد نہیں ہے۔ آپ اپنا نظریہ زمان و مکاں کا ریویو کر لیں۔ Eternal Now اس سے بھی آگے کی شے ہے۔۔۔۔وقت لگے گا۔۔۔
    فی الحال علامہ قبال کے خطبات سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے شائید انکی بصیرت سے آپ کچھ فیض یاب ہو پائیں۔۔۔

    1. نمبر ایک: کیا آپکے کہنے کا مطلب ہے کہ خدا (اگر کوئی ایسا وجود ہے تو) بہرحال ٹائم اینڈ سپیس کا پابند ہی ہے؟

      نمبر دو: اور آپ اپنی حاصل کردہ بصیرتِ اقبال کچھ ہمارے ساتھ بھی شئیر کیجئے نا، تاکہ ہماری علم و آگہی میں اضافہ ہوپائے۔

      نمبر تین: کیا اوپر بیان کی گئی آیات آپ کے نزدیک متضاد نہیں ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو کیسے؟ وضاحت پلیز۔

      آدھا پچادا تبصرہ کر کے سمجھنا کہ مصنف و قارئین کنفیوژ ہو جائیں گے دراصل غلط فہمی ہے۔ اب "زمانہ” ہوشیار ہو گیا ہے۔

    2. علامہ اقبال کے خطبات سے استفادہ کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسے بخار کے علاج کیلئے کسی موٹر مکینک سے علاج کی سفارش کی جائے، کیا کوئی علمی حلقہ علامہ اقبال کو قرآنی علوم کے حوالے سے اتھارٹی مانتا ہے؟ اور معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ علامہ اقبال خود ایک انتہائی کنفیوژ شخصیت ہیں، اور اپنے پڑھنے والوں میں سوائے کنفیوژن پھیلانے کے انہوں نے اور کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ:
      اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
      کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی
      اور حضرت علامہ ساری زندگی سراب اور حقیقت میں سے کوئی ایک راستہ اختیار نہیں کرپائے۔

  5. شاہ جہان صاحب کا قصور نہیں ہے ، قصور انکے اندھے ایمان کا ہے ، دنیا میں تمام ایمان والے اسی طرح اپنے اپنے عقائد میں خامیاں تسلیم نہیں کرتے کیوں ان کا ایمان ہوتا ہے کہ انکا عقیدہ آسمانی ہے وہ غلط کیسے ہوسکتا ہے؟ یہی حال شاہ جہان جیسے سادہ دل مسلمانوں کا ہے جنہوں نے پہلے ایمان بنایا کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے پھر لازمی ہے آپ انکے سامنے قرآن میں جگہ جگہ موجود تضادات اور انسانی ذہن کی کارستانیاں بیان کرتے رہیں اس سے اہل ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑیگا کیوں اہل ایمان کے نزدیک دلیل کی کوئی اہمیت نہیں۔

    1. بھائی میرے بات اندھے ایمان کی نہیں ہے۔۔ عقل بھی زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی کر گئی ہے۔ میرے پاس وقت نہین تھا پچھلے عرصہ میں ورنہ میں ضرور اس بارے میں بات کرتا۔۔۔اور آپ کس علمی حلقہ کی ابت کر رھے ہیں۔۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔۔
      بعض اوقات کثرت کو وحدت اور وحدت کو کثرت میں انسانی شعور تبدیل کرتا رہتا ہے۔۔۔ زمان ایک اضافی )relative ) شے ہے۔ آپ اقبال پہ تکیہ نہ کریں Copenhagen interpretitions کو ہی اک نظر دیکھ لیں interpretition # 1 Our physical world is real enough, but its quantum foundations are not real (Segre, 1980) This interpretition was favored by Neils Bohr and werner Heisenberg
      Renowned physicist Julian Barbour defines time in this way:

      Time is nothing but a measure of the changing positions of objects. A pendulum swings, the hands on a clock advance.

      In short, time is composed of a few pieces of information hidden as a memory in the brain; rather, it arises from the comparison of images. If a person did not have a memory, that person would live only in the present moment; his brain would not be able to make these interpretations and, therefore, he would not have any perception.

      اور دوسری طرف رب کا Eternal Now ہے۔۔

      1. مسلم صوفیا نے کائنات کی جاودانی حرکت کا نظریہ پیش کیا جس میں ہر لمھے دنیا کی تخلیق نو ہو رہی ہے اس نظریہ کے مطابق کائنات ہر لمھہ تخلیق ہو ہی ہے اور ہر اگلے لمھے منہدم ہو رہی ہے یہ عمل مسلسل جاری و ساری ہےcontinumہے۔ کائنات میں یہ وجود و عدم کا یہ سلسلہ ہر لمھے چلتا رہتا ہے اس کائنات کو اللہ نے ایک ہی بار میں پیدا نہیں کیا وہ اس کا مستقل خالق ہے اور تعلق کی لمحہ بہ لمحہ تجدید ہورہی ہے۔۔اسی طرح بات اگر Quantum Fluctutationsکی کیجائے تو یہ وہ” امر کن” کی لطیف وقوعات ہیں جو ذات باری تعالی کی صفت بدیع السموات و الارض کو دوام بخشتے ہیں کائنات کی تخلیق کوئی ماضی کا واقعہ نہیں نہ ہی ہم مردہ dead کائنات مین رہتے ہیں اس کو ماضی سمجھنا تصور زمان کو نہ سمجھنے کے باعث ہوا ہے اب اگر بگ بینگ سے انسانی وجود کے ابتدا تک 15 ارب سال جو انسانی تصور زمانہ آن اور آنات (moments) لمحات سے مرکب ہیں یا شعور انسانی کے زمان متسلسل سے مرتب ہیں جو according to human consciousnessایک اضافیت Relativity رکھتی ہے۔
        طبیعات کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ ہماری سرخ رنگ کے ادراک کی علت wavelength کی frequency اتنی سرعت انگیز ہے کہ جسکا rate چار کھرب فی سیکنڈ ہے اور جسکا مشاہدہ اگر 2lلاکھ فی سیکنڈ اگر خارج سے کیا جائے جو ادراک نوری آخری حد ہے تو انکی گنتی کو چھ ہزار برس صرف ہوں لیکن senseکے اس انی فعل میں جسکا تعلق نفس انسانی سے ہے جسکا عملا تخمینہ ناممکن تھا ہم آنا فانا دیکھ لیتے ہیں اور یہی شعور من اس کثرت کو اک وحدت کل میں تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ اور یہ شعور ایک Matrix ہے شعور اسے خود گرفت میں نہیں لا سکتا۔۔۔۔۔ کل یوما ھو ا فی الشان۔۔۔۔
        ہمیں اپنا Concept of Time سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔Fred Alan Wolf سے بھی استفادہ حاصل کریں۔ مولویوں کو ویسے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے ایسی حجت بازی سے وہ پہلے ہی گھبراتے ہیں۔۔
        Quantum Fluctutation کا concept اس کاینات کو Blinking Universe dدکھاتا ہےکہ یہ Vibrating events سے مزین ہے لیکن ہمارا فہم ان کھربوں کثرتوں کو استدام میں بدل دیتا ہے اور ایک جامد Static کائنات جس میں Degree of Freedom صفر سے لیکر Infinity تک ہے یہ اس علیم و خبیر کی خلاقیت ہے کہ اس نے ناظر و منظور کے اس رشتے کو ہرآن تھاما ہوا ہے ورنہ ان دونوں نفس و آفاق میں کوئی ذاتی استعداد نہیں کہ اک پل بھی ٹھہر سکیں۔۔

        خیر غالب نے بھی یہی کہ دیا تھا
        اصل شہود و شاھد و مشھود ایک ہے
        حیراں ہوں پھر مشاھدہ ہے کس حساب میں۔۔۔

        آپ لوگوںمیں کافی جارحیت پائی جاتی ہے۔ ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ زندگی اچھی گزارنے کے لئے ایک نظریہ اور مقصد اور بنیاد کی ضرورت ہے۔ مزھب ایک سب سے سادہ بنیاد فراہم کر دیتا ہے کچھ لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں کچھ کسی اور طرف نکل جاتے ہیں یہ تو اپنے اپنے من کا سودا ہے بھائی کوئی زور تھوڑے ہے اس میں۔۔۔۔۔۔

        1. مسلم صوفیا نے کائنات کی جاودانی حرکت کا نظریہ پیش کیا جس میں ہر لمھے دنیا کی تخلیق نو ہو رہی ہے اس نظریہ کے مطابق کائنات ہر لمھہ تخلیق ہو ہی ہے اور ہر اگلے لمھے منہدم ہو رہی ہے یہ عمل مسلسل جاری و ساری ہےcontinumہے۔

          سب سے پہلی بات تو یہ گوش گزار کرتا چلوں کہ اہلِ تصوف کے عقائد و نظریات عمومی اسلامی نظریات کے خلاف ہیں اور مسلم امہ کی اکثریت ان کو دائرہ اسلام سے باہر تصور کر تی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تصوف کا تصور اسلام میں مغرب سے آیا ہے جبکہ اسکا ماخذ قدیم یونان ہے اور یہ اسلام میں ایک بدعت ہے۔
          صوفی کیا کہتا ہے ، کیا کرتا ہے، کیا سوچتا ہے، اور اسکے دنیا کے بارے میں کیا نظریات ہیں، اسکا اسلام سےقطعا” کوئی تعلق نہیں ہے۔ انکے نزدیک قرآن کے ظاہری مطالب کچھ اور ہیں اور باطنی مطالب کچھ اور ہیں اور یہی باطنی مطالب ہی قرآن کی اصل ہیں، جبکہ دیگر امت قرآن کے نزدیک قرآن کے ایک ہی معنیٰ ہیں کہ جن پہ وہ کم و بیش متفق ہیں۔ ان کی بات منطقی اعتبار سے بھی درست ہے کیونکہ اگر یہ کتاب اللہ نے انسان کی ہدایت کے لئے بھیجی ہے تو پھر اسے عیاری سے احتراز کرتے ہوئے ایک عام انسان کی سمجھ بوجھ کے مطابق بات کرنا چاہئے تھی۔ چنانچہ ایسا کہناکہ قرآن کے ظاہری مطالب کچھ اور اور باطنی مطالب کچھ اور ہیں (تاکہ من مانے مطالب اخذ کرنے کی آزادی حاصل ہو سکے) دراصل لوگوں کو بیوقوف بنانا ہے۔

          کائنات میں یہ وجود و عدم کا یہ سلسلہ ہر لمھے چلتا رہتا ہے اس کائنات کو اللہ نے ایک ہی بار میں پیدا نہیں کیا وہ اس کا مستقل خالق ہے اور تعلق کی لمحہ بہ لمحہ تجدید ہورہی ہے۔

          اس عدم و وجود کے سلسلے کے چلتے رہنے سے یہ کیسے ثابت ہو رہا ہے کہ اسکی علت اللہ ہے ؟ کہیں گاڈ آف دا گیپس میں تو نہیں پھنسانے جا رہے ہمیں؟ اور یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کو اللہ (جسکو ابھی تک ثابت ہی نہیں کیا جا سک رہا) ہر لمحے بنا رہا ہے، جبکہ قرآن میں واضح طور پر تخلیق کے لئے ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر ماضی کا وجود ہی نہیں ہے اور حال ہی حقیقت ہے تو پھر قرآن نے اسکو بیان کرنے کی کیوں زحمت گوارا نہیں کی؟
          ارے بھئی، غور کریں تو سمجھ میں بات آجائے گی کہ یہ چودہ صدیاں پہلے کے غیر سائنسی ذہن کی کارستانیاں ہیں۔ جس نظر سے انہوں نے دیکھا اور سمجھا اسی طرح قرآن میں لکھ دیا۔ چونکہ قرآن ایک دن میں نہیں لکھا گیا اور اس وقت کاغذ کتاب تو ہوتی نہیں تھی، چنانچہ پہلے ایک بات لکھوائی، پھر بعد میں نسیان کے سبب دوسری بات کہہ دی۔
          ان خرافات کی مابعد الطبیاتی شرحیں کر کے زبردستی شعوریانے کا فائدہ نہیں۔ بات بالکل واضح ہے۔

          اسی طرح بات کوانٹم فلکچویشن کی کیجائے تو یہ وہ” امر کن” کی لطیف وقوعات ہیں جو ذات باری تعالی کی صفت بدیع السموات و الارض کو دوام بخشتے ہیں

          یعنی آپ کی مراد ہے کہ یہ جو کوانٹم فلکچویشن ہو رہی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔مگر آپ یہ بتانا بھول گئے کہ اللہ کہاں سے آگیا بیچ میں؟ اس دعوے کا ثبوت پلیز۔ بار بار منطقی مغالطوں میں گھیرنے کی کوشش بے سود ہے ۔ اور اگر آپکی بات مان بھی لی جائے ، تو پھر شیطان بھی اللہ ہی کی صفات کا مظہر ہوا۔ واہ اچھا ڈرامہ ہے، خود ہی رب، خود ہی شیطان، خود ہی انسان۔ خودہی منصف خود ہی ملزم، خود ہی مدعی۔ ۔ ۔ یہ تشریح ذرا بقیہ امت مسلمہ کو بھی سمجھا دیجئے، نوازش ہوگی۔

          کائنات کی تخلیق کوئی ماضی کا واقعہ نہیں نہ ہی ہم مردہ کائنات مین رہتے ہیں اس کو ماضی سمجھنا تصور زمان کو نہ سمجھنے کے باعث ہوا ہے اب اگر بگ بینگ سے انسانی وجود کے ابتدا تک 15 ارب سال جو انسانی تصور زمانہ آن اور آنات لمحات سے مرکب ہیں یا شعور انسانی کے زمان متسلسل سے مرتب ہیں جو بمطابق شعورِانسانی ایک اضافیت رکھتی ہے۔

          جی جی،چلیں اس طرح کہہ لیں کہ ٹائم چوتھی ڈائمنشن ہے (اگرچہ اسلا م نے اس تحقیق تک کوئی راہنمائی نہیں کی)۔ سوال پھر وہی رہتا ہے کہ کیا خدا ڈائمنشن کا قیدی ہے؟

          طبیعات کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ ہماری سرخ رنگ کے ادراک کی علت wavelength کی frequency اتنی سرعت انگیز ہے کہ جسکا rate چار کھرب فی سیکنڈ ہے اور جسکا مشاہدہ اگر 2lلاکھ فی سیکنڈ اگر خارج سے کیا جائے جو ادراک نوری آخری حد ہے تو انکی گنتی کو چھ ہزار برس صرف ہوں لیکن senseکے اس انی فعل میں جسکا تعلق نفس انسانی سے ہے جسکا عملا تخمینہ ناممکن تھا ہم آنا فانا دیکھ لیتے ہیں اور یہی شعور من اس کثرت کو اک وحدت کل میں تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ اور یہ شعور ایک Matrix ہے شعور اسے خود گرفت میں نہیں لا سکتا۔۔۔۔۔ کل یوما ھو ا فی الشان

          صوفی کہتے ہیں کہ ظاہری آنکھ سے جو نظر آتا ہے وہ غلط ہے اور باطن کی آنکھ سے جو دکھتا ہے وہ صحیح ہے۔ پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ظاہری آنکھ سے دکھنے والی سرخ روشنی، اسکی ویو لینتھ اور شعور کا اسکا احاطہ کر لینے کو کس طرح ایک ماورائی ہستی کی دلیل بنا کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور پھر اس سائنسی حقیقت اور مظہر کا "کل یوما ھو فی شان” سے کیا تعلق بنتا ہے؟ طبیعات کے یہ کہنے سے کب اور کیسے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اسکے پیچھے کسی ماورائی ہستی کا ہاتھ ہے؟ بھئی آسان الفاظ میں کوئی ایسی بات کریں کہ جس کا موضوع سے تعلق بنتا ہو اور ہمارے اور قاری کے پلے بھی کچھ پڑے۔

          ہمیں اپنا Concept of Time سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔Fred Alan Wolf سے بھی استفادہ حاصل کریں۔ مولویوں کو ویسے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے ایسی حجت بازی سے وہ پہلے ہی گھبراتے ہیں۔

          ہمارا کونسیپٹ آف ٹائم واضح ہے،قرآن کے مصنف کا البتہ واضح نہیں۔ اور آپ کا اسمیں ایک ماورائی ہستی کی مداخلت اور اسکو بطور خدائی ثبوت کے پیش کرنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری بات یہ ہے جس اسلام کے دفاع کے لئے آپ بزعم خود میدا ن میں اتر رہے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ خود اس پر اسی شکل میں ایمان نہیں رکھتے کہ جس شکل میں یہ ایک ہزار چار سو سال سے نافذ ہے ۔ قرآن کے کوئی باطنی معنیٰ نہیں ہیں، اگر ہوتے تو وہ نبی ﷺ کی حیات ہی میں ضابطہ تحریر میں لائے جاتے اور اسکا واضح لائحہ عمل طے کر کے جاتے۔

          Quantum Fluctutation کا concept اس کاینات کو Blinking Universe dدکھاتا ہےکہ یہ Vibrating events سے مزین ہے لیکن ہمارا فہم ان کھربوں کثرتوں کو استدام میں بدل دیتا ہے اور ایک جامد Static کائنات جس میں Degree of Freedom صفر سے لیکر Infinity تک ہے یہ اس علیم و خبیر کی خلاقیت ہے کہ اس نے ناظر و منظور کے اس رشتے کو ہرآن تھاما ہوا ہے ورنہ ان دونوں نفس و آفاق میں کوئی ذاتی استعداد نہیں کہ اک پل بھی ٹھہر سکیں۔

          یہاں پھر وہی عجیب منطق۔ کہ کوائنٹم فلکچویشن کا نظریہ کائنات کو بلنگنگ کائنات دکھاتا ہے پر ہمارا فہم اسکو کچھ اور سمجھتا ہے، اور اس کائنات میں ڈگری آف فریڈم صفر سے لیکر لا محدود تک ہے۔چنانچہ ثابت ہوا کہ اللہ نے ناظر و منظور (اس ناظر و منظور کی وضاحت پسند فرمائیں گے؟) کے رشتے کو تھاما ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔
          میں نے صبح اٹھ کے واش روم اٹینڈ کیا، بائیں ہاتھ سے استنجا فرمایا، پھر منہ ہاتھ دھو کےناشتا کیا اور کام پہ چل دیا ، پس ثابت ہوا کہ اللہ موجود ہے۔ ۔ ۔ آپکی اس منطق نے تو لاجواب کر کے رکھ دیا ہمیں۔
          اسے کہتے ہیں سوال گندم جواب چنا۔بھئی سیدھا سادا اور صاف سا سوال ہے آپ نجانے کون کونسی مابعدالطبیات اٹھا کے لے آئے جسکا نہ سر نہ پیر۔ آپکے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ علت و معلول کا چکر دراصل نظری فریب ہے اور ازل سے ابد سب حال ہی ہے۔پندرہ ہزار سال پہلے کا لمحہ اور ہمارے آباء و اجداد کی پیدائش درحقیقت سب ایک ساتھ ہیں۔
          آپ فرماتے ہیں ڈگری آف فریڈم صفر سے لے کر لامحدودیت تک ہے، جبکہ آپکا دین کہتا ہے "تمھارا عمل اسکے مطابق ہے جس کو لکھ کے قلم خشک ہو چکے ہیں اور جو تقدیرِ الٰہی میں مقرر ہو چکا ہے” ڈگری آف فریڈم غالبا صفر ہے یہاں پہ ، ہے نا؟
          : خدا كو ياد ركهو خدا تمہیں یاد رکھے گا، خدا کو یاد کرو تو اسے اپنے پاس پاؤگے، اگر سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور اگر مدد طلب کرو تو اللہ سے طلب کرو اور یاد رکھو اگر امت تمہیں نفع پہنچانے کے لیے جمع ہوجائے تو سائے اس کے نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے، قلم اٹھا دیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے”
          آپکا دین کہتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے لکھ رکھا ہوا ہے اور اب اس پہ خالی روبوٹ کی مانند عمل کرنا ہے۔ اگر کوئی برا کرتا ہے تب بھی وہ اللہ کے لکھے کے مطابق کرتا ہےا ور بھلا کرتا ہے تو بھی اللہ کے لکھے کے مطابق کرتا ہے۔ شیطان نے بھی اللہ کے لکھے کے مطابق نافرمانی کی۔ ۔ ۔ قصہ ہی ختم، صوفی کے نزدیک اللہ ہی مجرم ہے۔
          ہم ان خرافات میں نہیں پڑتے، ہمارا سوال واضح ہے اور کثیر امت کے عقیدے کے حامل لوگوں سے ہے۔ آپکا عقیدہ اگر قرآن کے بارے میں عوام الناس سے مختلف ہے تو آپ یہی سمجھئے کہ یہ سوال آپ سے نہیں کیا گیا۔

          خیر غالب نے بھی یہی کہ دیا تھا
          اصل شہود و شاھد و مشھود ایک ہے
          حیراں ہوں پھر مشاھدہ ہے کس حساب میں۔۔۔

          یعنی چچا غالب بھی عذاب ثواب سے مبرا تھے

          آپ لوگوںمیں کافی جارحیت پائی جاتی ہے۔

          آپکا یہ الزام غلط ہے۔ہم جارحیت نہیں بلکہ حقیقت بیان کرتے ہیں۔ اسلا م جیسے زہریلے افکار کے خاتمے کے لئے کڑوے سچ کی شدید ضرورت ہے، ہم البتہ مسلمانوں کی طرح کسی کو اسکے عقیدے کے بنیاد پہ قتل کرنے اور سزا دینے کے حق میں نہیں، ہمارا مشن تلوار نہیں علم ہے۔ اندھیرے کے خاتمے کے لئے کسی کشت و خوں کی نہیں صرف ایک شمع جلانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، سو ہم یہی کر رہے ہیں۔چودہ سو سال تک عقل و آزادی پہ پہرے بٹھائے رکھنے کے باعث یہ اتنا پھل پھول گیا، یہ سوالات عوام الناس تک پہنچنے ہی نہیں دئیے گئے، اور پوچھنے والوں کی کھالیں کھینچ لی گئیں، لیکن اب وقت بدل گیا ہے، اب سچ کی آواز جلد یا بدیر سب تک پہنچ جائے گی۔ اور روشنی پھیلنے کی یہی رفتار رہی تو جاہلانہ افکار و عقائد کے اس مجموعے کو ختم ہونے میں شائد تیس چالیس سال ہی لگیں۔

          ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ زندگی اچھی گزارنے کے لئے ایک نظریہ اور مقصد اور بنیاد کی ضرورت ہے

          وہ نظریہ اسلام جیسا مشتدد اور چودہ سو سال پرانا رد شدہ نظریہ ہی کیوں؟ وہ مقصد پوری دنیا کہ تہہ نگین کرنا ہی کیوں؟ وہ نظریہ انسانیت کیوں نہ ہو، وہ نظریہ محبت کیوں نہ ہو؟ وہ نظریہ برابری اور آزادی کیوں نہ ہو؟

          مزھب ایک سب سے سادہ بنیاد فراہم کر دیتا ہے کچھ لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں کچھ کسی اور طرف نکل جاتے ہیں یہ تو اپنے اپنے من کا سودا ہے بھائی کوئی زور تھوڑے ہے اس میں۔

          یہ صوفیوں کا عقیدہ ہوگا، مسلمانوں کا نہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے میں زبردستی اور تشدد ہے۔ فساد فی سبیل اللہ ہے۔
          مذہب کی سادہ بنیاد یہی ہے نا کہ بارش کون برساتا ہے؟ اللہ
          ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے
          کل کیا ہوگا؟ اللہ ہی جانتا ہے۔
          جی ہاں، سادہ تو بہت ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں۔پر اچانک جب ذمین و آسمان کی ترتیب میں الٹ پھیر ہوا تو پھر یہ عقیدہ اچانک سادگی سے ہٹ کر پیچیدہ ترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔

          1. بھئ ذات ڈائمنشن کی قید میں نہیں ہے۔۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کے مزید دقیق گفتگو ہو سکے آپ کو نہ قران کا سر پیر نظر آنا ہے نہ جو میں نے اوپر باتیں کی ہیں اس کا سر پیر نظر آنا ہے۔ ملٹی ڈائمنشنل شے کو ہر رخ سے دیکھنا چاہئے۔ کچھ Paradoxes ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہی رہتے ہیں گول منطق کو جتنا مرضی گھمائی جائیں۔۔
            ابھی کائنات کا 1/10000000000000حصہ ہی صرف ہمارے مشاھدے میں آیا ہے۔ کوانٹم تھیوری کی بنیادیں پکی ہو رہی ہیں۔ چلتے جائے
            میں آپ کی بات سے یہاں تک متفق ہوں کہ انسانیت سے بڑا مذھب کوئی نہیں اسلام کی منزل انسانیت ہی ہے۔ اگر کوئی اس کو ہائی جیک کر لے مذھب کا ٹھیکے دار بنتا ہے تو بنا رہے۔ میں یہاں پہ کوئی خدا کو ثابت کرنے نہیں آیا۔۔ آپ مجھے ذرا Laplace transformation کا ہی Proof لا دیں، ایک bio reactor کی kinetics کا ہی پتہ کر دیں ۔ جب ایک وجود کو by definition ہی ایسا مان لیا گیا ہے کہ وہ عقل سے ماورا ہے تو سر کھپائی کیوں۔۔۔۔کائنات نے بننا تھا بن گئی انسان کی ابھی کی ضرورت یہ نہیں اب اس سے آگے اس کائنات سے فائدہ اور بھلائی ڈھونڈنے کی ہے اپنے لئے سب کے لئے۔
            سائینسدان ہر بات میں کیوں کیا کیسے کا سوال کرتے ہیں اورپھر بنیادی سوال کا جواب ہی یہ دیتے ہیں کہ ایسے ہی ہے بس یہ Phenomena ایسے ہی ہوتا ہے کیوں کا سوال مت کرو یہ phenomena ہوتا ہی ایسے ہے۔ تو بندہ بس سر ہی پکڑ سکتا ہے۔۔۔۔
            میں تو ایک عام سا انسان ہوں کھربوں انسانوں میں سے جسے اپنی معاشیات کی فکر ہے اور انصاف کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ مذھب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے ان مولویوں نے اسے جیسے انداز میں آپ تک پہنچایا ہے بس اللہ ہی حافظ ہے۔۔۔
            مذھب محبت کا ہی ہونا چاہئے۔۔

          2. محترم، گول منطق ہم نہیں بلکہ مذہبی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ آپ کی اپروچ ہے کہ قرآن کی ان آیات میں جو کہا گیا ہے وہ اسطرح نہیں ہے بلکہ اسکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ روشن کتاب ہے جسے سمجھنا انتہائی آسان ہے۔ چنانچہ اس کو عجیب و غریب تاویلات اور بیرونی چیزوں کی مدد سے سائنس میں زبردستی گھسیڑنا لاحاصل اور بے جا عقیدت ہے۔
            سیدھا سادا سوال ہے کہ قرآن ایک جگہ ترتیبِ تخلیق ایک بیان کرتا ہے اور دوسری جگہ ترتیبِ تخلیق بالکل الٹ ہو جاتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے۔ اسکا جواب آپ عجیب طرح سے دیتے ہیں کہ جو مجھے یقین ہے کہ شاید ہی کسی کی سمجھ میں آیا ہو۔ دوسرے وہ اسلام کے عمومی عقائد سے بھی متصادم ہے۔
            اسلام کو کسی نے ہائی جیک نہیں کیا بلکہ اسلام روزِ اول ہی سے فراڈ پہ مبنی ہے۔ اسکا ثبوت تاریخی حقائق اور سب سے بڑھ کر خود قرآن ہے۔
            بات یہاں کائنات کی کنہ اور خدا کے وجود کی نفی کی نہیں ہے، چلیں وقتی طور پہ مان بھی لیا کہ خدا موجود ہے جس نے سب کچھ بنایا۔ لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ قرآن اللہ ہی کی کتاب ہے اور ایک فراڈ نہیں؟ عقیدت کی عینک سے تو ہر چیز ہری ہری ہی نظر آئے گی، ہندو اپنی گیتا میں سے بھی ایٹمی تھیوریاں نکال لیں گے، ایس ایم ایس کی کتاب میں سے بھی ہدایت و راہنمائی کی روشن دلیلیں نکل آئیں گی۔ یہ انسانی ذہن جو ہے نا، یہ بہت ہی کلاس کی شے ہے۔
            ارے بھائی یہاں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں بلکہ انسانی تصنیف ہے جسمیں بےشمار منطقی، لسانی، ریاضیاتی اور سائنسی غلطیاں ہیں۔ اگر تحریر اور اسکے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
            آپ نے فرمایا کہ اسلام کی منزل بھی انسانیت ہی ہے، اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ اسلام کی منزل مذہبی منافرت، عدم برداشت، عورتوں کی تذلیل اور جنگ و جدال ہے، جبر و تشدد ہے۔ آپ جس چیز کا حوالہ دے رہے ہیں، پہلے بھی عرض کیا ہے کہ وہ اسلام ہے ہی نہیں اور نہ مجھے ذاتی طور پر اس سے کوئی شکایت ہے۔ عقائد ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ عقائد مسلط کئے جائیں دوسروں پہ جسطرح اسلام کرتا ہے تو پھر مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

            آپ نے فرمایا

            سائینسدان ہر بات میں کیوں کیا کیسے کا سوال کرتے ہیں اورپھر بنیادی سوال کا جواب ہی یہ دیتے ہیں کہ ایسے ہی ہے بس یہ Phenomena ایسے ہی ہوتا ہے کیوں کا سوال مت کرو

            یہ بات سراسر غلط ہے، سائنسی علوم کی بنیاد ہی شک، تحقیق، تجسس اور سوالات پہ ہے۔ سائنس سوالات سے منع نہیں کرتی بلکہ مذہب منع کرتا ہے سوالات سے۔ سائنس کی بنیاد سوالات پہ ہے جبکہ مذہب کی بنیاد اندھے یقین پہ ہے۔ یہ الزام براہِ کرم سائنس پہ نہ لگائیے۔

            مولویوں نے اسلام کو بالکل درست سمجھا اور پہنچایا ہے۔ تصوف اسلام میں ایک بیرونی عنصر ہے اور اسکا اس اسلام سے کوئی واسطہ نہیں جو محمدﷺ نے دنیا کو پیش کیا۔

    1. یہاں پر آپ کے تبصروں کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی بھی صارف کا پہلا تبصرہ ہمیشہ ماڈریشن میں جاتا ہے، آپ کے تبصرے غائب یا ضائع نہیں ہوئے بلکہ نام بدلنے کی وجہ سے ماڈریشن میں چلے گئے، پہلے آپ ❞شاہ جہان❝ کے نام سے تبصرے کرتے تھے مگر اس بار آپ نے نام بدل کر ❞سید شاہجہان گیلانی❝ کردیا جس کی وجہ سے اس نام سے کیے گئے تبصرے ماڈریشن میں چلے گئے جو میں نے شائع کردیے ہیں، امید ہے آپ اس امر کی تصدیق کریں گے کہ آپ کا کوئی بھی تبصرہ نہیں روکا گیا 🙂

  6. شاہ جہان صاحب کی ❞شاہ جہانیاں❝ بڑے کمال کی ہیں، آپ نے کمالِ ہنر مندی سے اس کتاب میں وہ وہ گھسیڑا ہے کہ خود اتارنے والا بھی ایک لمحے کے لیے پریشان ہوگیا ہوگا.. آیات کے تضادات کو بڑے آرام سے فریم آف ریفرینس کی تبدیلی پر محمول کردیا جو ان آیات میں تو کیا پورے قرآن میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں رکھتے، اب اگر کوئی پوچھے کہ پہلی آیات میں فریم آف ریفرینس کیا تھا اور دوسری آیات میں فریم آف ریفرینس کیا تھا جس کی وجہ سے یہ فرق آیا تو مجھے یقین ہے کہ صاحب کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ کیا خدا زمان ومکان کا قیدی ہے جو اسے فریم آف ریفرینس کی ضرورت ہے؟ یہ فریم آف ریفرینس کیا ہیں جو خدا کے ساتھ ساتھ موجود ہیں؟ کہیں آپ کے یہ فریم آف ریفرینس ہی خدا تو نہیں؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ابن رشد نے کیا غلط کہا تھا کہ کائنات اور خدا دونوں ہی قدیم ہیں؟ وہ چیختا رہا کہ قرآن سے خدا کو عدم میں ثابت کر کے دکھاؤ؟ یہ کائنات اس نے عدم سے بنائی ہے یہ ثابت کر کے دکھاؤ؟ مُلا سے تو ثابت نہ ہوا ہاں اتنا مجھے یقین ہے کہ شاہ جہان صاحب ضرور ثابت کردیں گے.. بھائی جی یہ کتاب اتنی ضخیم ریاضی کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی جتنی کہ آپ نے اس میں گھسیڑ دی ہے.. کہاں لا پلاس کا ٹرانسفورم اور کہاں یہ فرسودہ کتاب جو پرائمری کی سادہ ریاضی بیان کرنے میں بھی غلطی کر جاتی ہے.. قرآن کے انسانی تصنیف ہونے کے حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے کیونکہ اگر یہ کلامِ الہٰی ہوتا تو پھر اس میں اس قسم کی اغلاط کا پایا جانا محال ہوتا، قرآن میں جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے قوانین کا ذکر سورة النساء میں موجود ہے جہاں مختلف صورتوں میں جائیداد کی تقسیم کے متعلق احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ حوالہ کے لیے سورة النساء کی آیت نمبر 11 تا 12 ملاحظہ فرمائیں۔ ہم پہلے قرآن کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق کچھ ورثاء کے مقرر شدہ حصوں کو قرآن کی روشنی میں بیان کرتے ہیں مثلاً:

    فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ
    ترجمہ:اور اگر اولاد ِمیت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی

    وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ
    اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ

    فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ
    اور اگر اولاد ہو تو ان کا (یعنی بیوی کا) آٹھواں حصہ

    تو اس تقسیمی فارمولے کے تحت اگر ایک ایسا شخص مرتا ہے کہ جس کے ورثاء میں ماں باپ، دو یا تین بیٹیاں اور ایک بیوی شامل ہو تو فرض کریں کہ میّت نے تین لاکھ روپے ترکہ میں چھوڑے، تو اب قرآنی فارمولے کے تحت دو تہائی تو بیٹیوں کو ملے گا، جو کہ کل تین لاکھ میں سے دو لاکھ بنے گا۔
    ماں باپ میں سے ہر ایک کیلئے سدس یعنی چھٹا حصہ دیا جائے گا تو دو سدس مل کر ایک تہائی بن جائے گا، تین لاکھ کا ایک تہائی حصہ ایک لاکھ ہے۔
    بیوی کا حصہ اگر اولاد موجو ہو جیسا کہ مذکورہ مثال میں دو یا تین بیٹیوں کی شکل میں موجود ہے تو کل ترکہ کا ثمن یعنی آٹھواں حصہ بنے گا۔ تین لاکھ کا آٹھواں حصہ سینتیس ہزار پانج سو روپے بنتے ہیں۔

    اب حسابی شکل سے صورت یوں بنتی ہے:

    کُل ترکہ:
    300000

    بیٹیوں کا حصہ:
    2/3 = 200000

    ماں باپ کا حصہ:
    1/6 + 1/6 = 1/3 = 100000

    بیوی کا حصہ:
    1/8 = 37500

    کُل رقم بنی:
    337500

    آسان لفظوں میں اگر مرنے والا تین لاکھ روپے ترکے میں چھوڑ جائے تو قاضی کو قرآن کے مطابق ورثاء پر یہ رقم تقسیم کرنے کے لیے 337500 روپے درکار ہوں گے، یعنی 37500 روپے قاضی صاحب کو پلے سے دینے پڑیں گے 😀

    بس اتنی سی ریاضی ہے شاہ جہان صاحب اس کتاب میں.. جس خدا کو پرائمری کی ریاضی تک نہیں آتی اسے آپ لا پلاس کے ٹرانسفوم پڑھا رہے ہیں؟! ہم پر نہیں تو کچھ اپنے خدا کے حال پر ہی رحم کر لیں 🙂

    1. اینڈرسن شا صاحب کہیں آپ ڈنڈی تو نہیں مار رہے :(، پوتے کے حصے کا سنا ہے کہ خدا بھول گیا تھا یہ تو پہلی دفعہ سن رہا ہوں کہ جمع تفریق میں بھی فرق ہے۔
      اوراگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر تو وراثت پر لڑائی جھگڑے ہی ہوتے رہتے۔ 🙁 ، جب کہ ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آتی کہ وراثت میں اسلامی تقسیم کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہوا ہو۔
      میرے پاس ایک اسلامی وراثت والا سافٹ ویر بھی ہے اس پر چیک کیا تھا تو وہ تو مختلف رزلٹ دے رہا تھا ، وہ فارمولا کہاں سے لائے ہیں۔

      1. بھائی صاحب آپٌ ترکے کی تقسیم شاید غلط کر ہے ہیں ۔۔ آجکل 9th کا Curriculum تبدیل ہو کے آیا ہے وہاں سے دیکھ لیں کہ یہ تقسیم کیسے کی جاتی ہے۔
        میں کسی شے کو THEOREM سے ثابت نہیں کرتا کیوں کہ اسکا کوئی تھیورم ہی نہیں ہے۔ اسکو ایسے ہی مان لیا گیا ہے BY DEFINITION ایک AXIOM کے طور پہ۔۔ مثال دینے کا مقصد LAPLACE پڑھانا نہیں تھا۔ جب ایک شے کو BY DEFINITION ایسا کہہ دیا گیا ہے تو اسکا ثبوت آپ کو کہیں سے نہیں ملے گا ہاں آپ اس DEFINITION کا حوالہ دے سکتے ہیں کہ BY DEFINITION یہ شے ایسے ہے۔
        اب خدا کا تصور ہی جب BY DEFINITION ہے تو اسکے اثبات کے لئے میں کہاں سر پھوڑوں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آئڈیل MODEL سب سے سادہ ہوتا ہے۔ جو کہ اگلے ماڈل کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ کو کہیں سے لیپ لاس کا pROVE مل جائے تو مجھے بھی لا دیجئ گا۔ حالانکہ وہ ہیں کیا صرف چار لفظ۔

        خدا کو کسی فریم آف ریفرینس کا پابند نہیں ہے۔ DIMENSION سے مطعلق کارل ساگان کا یہ لیکچر دیکھ لیجئے گا۔ http://www.youtube.com/watch?v=UnURElCzGc0
        ملا سے کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور نہ میں کچھ ثابت کرنے آیا ہوں ادھر کچھ لوگ ہر چیز کو خوا مخواہ ثابت کرنے پر تلے ہیں

        کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
        ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست۔۔۔۔۔!

        1. شاہجہاں صاحب،ہم نے عرض کی تھی کہ:
          "بات یہاں کائنات کی کنہ اور خدا کے وجود کی نفی کی نہیں ہے، چلیں وقتی طور پہ مان بھی لیا کہ خدا موجود ہے جس نے سب کچھ بنایا۔ لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ قرآن اللہ ہی کی کتاب ہے اور ایک فراڈ نہیں؟”
          کسی ریاضیاتی تھیورم کو ثابت کرنے کے لئے بے شمار دلیلیں یا پہلے سے ثابت شدہ تھیورم پیش کئے جاتے ہیں، جبکہ کسی تھیورم کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لئے صرف اور صرف ایک ثابت شدہ دلیل کافی ہوتی ہے۔ آپ ایک مثال پیش کر کے لاپلاس کو رد کر دیجئے قصہ ختم، جسطرح مصنف نے ایک مثال پیش کر کے قرآن کا الہامی کلام ہونا رد کیا ہے۔ (اور یہ ہزاروں میں سے صرف ایک دلیل ہے)۔

          مسلمان کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ آپ نے قرآن کو چھوڑ کر اللہ کی ذات پہ بحث شروع کر دی۔
          ایسا نہیں ہے کہ اس موضوع پہ گفتگو نہیں کی گئی، اس پہ بات ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی، صرف اس خاص تحریر میں یہ موضوع نہیں ہے۔

          آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ آپ یہاں کچھ ثابت کرنے نہیں آئے۔ یہ احقر حیرت زدہ ہو کے سوچ میں گم ہے اگر "ثابت نہ کرنا” یہ ہے تو پھر "ثابت کرنا” کیا غضب کا ہوگا۔

      2. اسد بھائی، اینڈرسن شا صاحب شاید اس وقت موجود نہیں ہیں ورنہ وہ تفصیل سے روشنی ڈالتے اس پہ۔
        میری معلومات کی حد تک ڈنڈی اینڈرسن شا صاحب نے نہیں بلکہ اسلامی "علماء” نے ماری ہے اور قرآن کی عزت بچانے کے لئے انکو پوری ایک پیچیدہ سائنس ایجاد کرنا پڑی، جس سائنس کی رو سے انہوں نے یہ والا کام کیا ہے اسکو "العول” کہتے ہیں۔
        ایک طرف قرآن کا اللہ کہتا ہے کہ "ا لله تمہارے لئے صاف بیان فرماتا ہے کہ کہیں بہک نہ جاؤ” (4:176), جبکہ دوسری طرف مسلمان سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں کہ اس غیر مبہم، غیر منصفانہ تقسیم کو کسی طرح عقل کے مطابق کر دیں۔
        کیا اللہ اتنا ہی بے بس ہے کہ وہ ایک سادہ سی ریاضی قرآن میں بیان نہیں کر سکا اور مسلمانوں کو اسکے لئے اتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔

      3. اگر کوئی سوفٹ وئیر قرآنی غلطی سے اغماض کرتے ہوئے ڈیزائن کیا جائے جو مختلف رزلٹ فراہم کرے تو اینڈرسن شا صاحب کیا کر سکتے ہیں؟ آپ صرف اس پر دھیان دیں کہ اینڈرسن شا صاحب نے قرآنی فارمولے کے مطابق صحیح حساب پیش کیا ہے یا نہیں؟
        اگر اینڈرسن شا صاحب کی غلطی ثابت ہو جائے تو بندہ ہر سزا بھگتنے کیلئے تیار ہے۔ 🙂

    2. محترم اینڈرسن شا صاحب،

      قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کلام کی خصوصیت یہ کہ یہ آسان فہم،مختصر مگر جامع ہے۔آپ نے وراثت کے قانون پر جو لطیفہ چھوڑا ہے ، وہ یقیناُ بہت ہی مضحکہ خیز اور آپکا علم ریاضی سے نابلد ہونے کا پختہ ثبوت بھی ہے، آپ صرف نسبت کو لیکر چل رہے ہیں، جبکہ ریاضی میں نسبت Ratio کے ساتھ تناسب Proportionبھی ایک چیز ہے، جسے آپ نے ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا۔ان دو آیتوں میں اللہ نے وراثت کی تقسیم کی جتنی بھی ممکنہ صورتیں تھیں سب گنوا دی ہیں۔یہ ہر خاندان میں افراد کی تعداداور انکی الگ الگ صورتحال کے مطابق ہے۔ذرا پھر سے غور کیجیے گا ، امید کرتا ہوں بات پلے پڑ جائے گی۔ویسے آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے ان دو آیات میں اللہ نے کم ازکم پندرہ کیسز گنوائے ہیں جو ایک خاندان میں ممکن ہیں۔باقی آپ سب اچھے خاصے عالم فاضل ہیں، خود معلوم کر لیجیے، سطحی طور پر آپ دیکھیں گے تو آپ کا مقصود صرف قرآن کو جھٹلانا ہو گا، لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ بات پلے پڑ جائے۔

    3. يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ 4:11
      یہ پہلا کیس ہے، کہ جہاں پر وراثت کی تقسیم صرف اولاد ہی میں ہونی ہے، تو اسکا سادہ سا اصول ہے کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دگنا ہے(کیونکہ لڑکا خاندان کا کفیل ہوتا ہے، اور لڑکیوں کی جب تک شادی نہیں ہو جاتی اسی کی کفالت میں رہیں گیں)۔ اب نسبت اور تناسب کا قانون اس آیت پر منطبق کر لیجیے اور فرض کیجیے کہ لڑکے پانچ ہیں اور لڑکی ایک اور تقسیم کرنے والی رقم 100،000 ہے تو تقسیم تناسب کے اصول سے ہوگی یعنی کل چھ حصے ہوں گے، اور ہر لڑکے کا حصہ لڑی سے دگنا ہو گا، فلہذا دو تہائی (اصول) ضرب چار بٹہ پانچ لڑکوں کا حصہ اور دو تہائی (اصول) ضرب ایک بٹہ پانچ لڑکی کا حصہ ہو گا، اس طرح ہر لڑکے کو لڑکی سے دگنا یعنی 22،222 ملے گے۔اسی حساب سے آگے چلتے جائیے اور دیکھتے جائیے کہ کس کس کیس میں کس کس کو کیا حصہ ملتا ہے۔

      100,000 x 2/3 x 4/5 = 88,889
      100,000 x 1/3 x 1/5 = 11,111

      1. حساب کی کچھ ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی، 22،222 اگر ہر لڑکے کو ملا اور کل لڑکے پانچ ہیں تو کیا لڑکوں کو ملنے والا حصہ، یعنی 1 لاکھ گیارہ ہزار ایک دو دس (22،222 ضرب پانچ)، کُل رقم سے 11،110 زائد نہ ہو جائے گا؟ اب جبکہ لڑکی کا حصہ 11،111 بھی شامل کریں تو ہمارے خیال میں 22،221 روپے کی کمی ہو رہی ہے۔

        اور اگر 88،889 کو لڑکوں میں تقسیم کرنا ہے تو اس صورت میں بھی، فی لڑکا حصہ 17،777.8 ہو گا جو کہ لڑکی کو ملنے والے حصے کا دوگنا نہیں ہے۔ براہِ کرم ہمارے فورم پہ تشریف لائیے اور قرآنیات والے سیکشن میں ایک دھاگہ تشکیل دے کر گفتگو کا آغاز کیجئے۔ تاکہ ہمیں آپ کی بات سمجھنے میں آسانی رہے۔

        1. محترم ابو الحکم صاحب،

          بندہ ناچیز انسان خطا کا پتلا ہے، دراصل لڑکے چار اور لڑکی ایک تھی، چار لڑکے فی لڑکا 22،222 کل بن گئے 88،888 اور ایک لڑکی کا حصہ 11،112 روپے، اب درست ہے، حساب؟ دیکھیے کہ ہر لڑکے کو لڑکی سے دگنا حصہ ملا ہے۔

    4. محترم اینڈرسن شا صاحب،
      آپ نے نہایت ہی چالاکی اور ہوشیاری سے مخلتف کیسز کو ایک ہی جگہ یکجا کرکے قرآن کریم کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے، حالانکہ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ میں صرف لڑکیوں کا ذکر ہے، (لڑکوں کا نہیں) اس لیے انہیں کل ترکے کا دو تہائی ملے گا۔ باقی کا ایک تہائی والدین کو۔ اس لحاظ سے تین لاکھ میں سے دو لاکھ سیدھے سیدھے لڑکیوں کو باقی کا ایک لاکھ والدین میں تقسیم ہو جائے گا۔
      َإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ آپ نے کمال ہوشیاری کرتے ہوئے اگلی آیت یعنی آیت نمبر 12 سے اٹھایا ہے، اور بھی وہ والا کیس کہ جب متوفی کی اولاد بھی اور بیوی بھی، ایسی صورت میں دو باتیں ممکن ہیں کہ یا تو متوفی کے والدین بھی ہوں گے اور یا صرف بیوی اور بچے۔ تو یہاں پر ہم تناسب کے قانو ن کا اطلاق کرتے ہوئے حصوں کی تقسیم کریں گے، یعنی : ایک بٹہ آٹھ حصہ بیوی کا باقی کا سات بٹہ آٹھ حصہ بچوں میں دو تہائی اور ایک تہائی کی نسبت سے تقسیم ہو جائے گا، یعنی،
      بیوی کا حصہ : 300،000/8 = 37،500
      بیٹے کا حصہ : 300،000/8 ضرب 7 = بقیہ حصہ ضرب 2 بٹہ 3 = 175،000
      بیٹی کا حصہ : 300،000/8 ضرب 7 = بقیہ حصہ ضرب 1 بٹہ 3 = 87,500
      اور اگر والدین بھی ہوں گے تو حصوں کی تقسیم کچھ یوں ہوگي۔
      بیوی کا حصہ : 300،000/8 = 37،500
      والدین کا حصہ : 300،000/6 = 50،000 ضرب دو = 100،000
      بیٹے کا حصہ : 300،000/48 ضرب 22.67 = بقیہ حصہ ضرب 2 بٹہ 3 = 108،333
      بیٹے کا حصہ : 300،000/48 ضرب 11.33 = بقیہ حصہ ضرب 1 بٹہ 3 = 54،167

      امید ہے کہ آپ کو گھر سے کچھ بھی لاکر نہیں دینا پڑے گا بلکہ متوفی کے گھر سے سب کو وراثت میں سے حصہ مل جائے گا، ثم تتفکروا

      یادرکھیے کہ مذکورہ دو آیات میں ہر جگہ تقسیم وراثت سے پہلے متوفی کی وصیت کو اہمیت دی گی گئی ہے، یعنی متوفی اگر چاہے تو اپنی مرضی کے مطابق بھی وصیت کرسکتا ہے، اگر وہ خدا اور یوم الآخرت پر یقین رکھتا ہو تو۔

      1. محترم، آپ نے اصل سوال کہ جو پوچھا گیا ہے اسکا تو جواب دیا نہیں۔ متوفی کی ایک بیوی، تین بیٹیاں اور ماں باپ ہیں۔ ان میں 300،000 کی رقم کسطرح تقسیم ہوگی؟
        قرآن کہاں پہ کس آیت میں ہمیں گائیڈ کرتا ہے، براہِ کرم راہنمائی فرمائیے۔ بلکہ ہم درخواست کریں گے کہ ہمارے فورم پہ تشریف لائیے کہ اگر گفتگو لمبی بھی ہو جائے تو باآسانی جاری رہ سکے اور ہم آپکے علم کی روشنی میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کر سکیں۔ یہاں بلاگ پہ ہم زیادہ لمبی گفتگو نہ کر پائیں گے کہ بلاگ مباحثے کے لئے ڈیزائن نہیں کئے گئے۔ اس مقصد کے لئے فورم موجود ہے وہاں تشریف لائیے۔

        1. ابو الحکم، صاحب،

          محترم اینڈرسن شا صاحب نے دو کیسز کو یکجا کرکے قرآن کریم کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے، جہاں پر بیٹیوں کے دو تہائی حصہ کی بات ہے، وہاں پر مطلقاً میاں بیوی اور ماں باپ کے حصہ کی وضاحت نہیں ہے، جس قسم کی تقسیم محترم اینڈرسن شا صاحب چاہ رہے، وہ ہوگی لیکن قرآن کے اصولوں کے مطابق ، اور قرآن کریم میں متعدد کیسز گنوائے ہیں، آیت نمبر 11 میں اولاد کے حصے اور آیت نمبر 12 میں میاں بیوی کے حصے۔ اب آیت نمبر 12 کی رو سے ہم پہلے بیوی کا حصہ نکال لیں گے، جو 1/8 بنتا ہے، باقی کے 7/8 حصہ میں ہم 2/6 حصہ ماں باپ کا نکالیں گے، اور یہ نکالنے کے بعد بقیہ سب کا سب تینوں بیٹیوں میں برابر تقسیم ہو جائے گا، اور بیٹے اور بیٹیاں رہ جائیں گے تو جیسا کہ پہلے سمجھایا گیا، ہر بقیہ حصہ میں ہر لڑکے کو لڑکی سے دگنا ملے گا۔یعنی بقیہ رقم کی 2/3 کی شرح سے بیٹوں اور 1/3 کی شرح سے بیٹیوں میں تقسیم ہو گی۔

  7. یہ بلاگ پڑھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی۔۔۔ خاص طور پر ۔۔ محرر کے اس دعویٰ کی کہ وہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے ہیں۔۔۔ اگر یہ سچ ہے تو مصنف یقینا اچھے طالبعلم نہیں ہوں گے وگرنہ وہ ایسے اعتراضات نہ اٹھاتے۔۔۔ کچھ تو پختگی ہوتی۔۔۔۔ بہرحال میں اپنی سوچ شئیر کرنا چاہوں گا۔۔۔ اتفاق و اختلاف کرنا آپ کا حق ہے۔۔ جو دل چاہے کریں۔۔۔

    ۱- میں نے قران میں تضاد کے موضوع پہ گوگل کیا تو پتہ چلا کہ یہی اعتراضات مستشرقین کی طرف سے قران پر کیے گیے ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کے جوابات دیے ہوئے ہیں۔ میں وہ جوابات تو نقل نہیں کروں گا۔۔ آپ خود سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔

    ۲ – میں نے ترجمہ کو چھوڑ کر عربی الفاظ خلق اور دحاھا پر غور کیا تو مجھے لگا کہ معترض کو غلطی شاید ترجمے کی وجہ سے لگ رہی ہے۔ اگر وہ عربی الفاظ پر غور کر لیتا تو اس کو اعتراض ہی ختم ہو جاتا۔
    میں ذیل میں مولانا مودودی صاحب کی تفہیم القران سے اور مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کی احسن البیان سے سورۃ النازعات کی آیت 30 کی تفسیر لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی اپ کے ذہنوں کی شک کو رفع فرمائیں گے۔

    تفسیر مولانا مودودی:
    ” سُوْرَةُ النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :16
    16۔ ‘‘اس کے بعد زمین کو بچھانے’’ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالی نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں ‘‘پھر یہ بات غور طلب ہے’’ اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات کے بغد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اس طرز بیان کی متعدد نظریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثلاً سورہ قلم میں فرمایا عتل بعد ذلک زنیم ‘‘جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل’’اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنااور اس کے بعد بد اصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فک رقبۃ۔۔۔۔۔ ثم کان من الذین امنو۔ ‘‘غلام آزاد کرے ۔۔۔۔۔ پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو’’۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے، پھر ایمان لائے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے، جیسے سورہ بقرہ آیت 29 میں ہے۔ اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے۔ ان مقامات می سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں، بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذ کر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں، اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے۔جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے (مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حمٰ السجدہ، حواشی 13۔14)۔”

    تفسیر مولانا صلاح الدین یوسف صاحب:
    "یہ حم السجدہ ۹ میں گزر چکا ہے کہ خلق [پیدائش] اور چیز ہے اور دحیٰ [ہموار کرنا] اور چیز ہے۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی ہے لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہے اور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلا زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے، جیسا کہ یہاں بھی آگے بیان ہے۔”

    1. غیر ضروری وضاحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے برسر مقصد آمدم جب میں نے یہ تحریر لکھی تو اسی وقت سے مجھے اس جواب کی توقع تھی۔ کیونکہ میں کوئی تحریر لکھنے سے پہلے پورا ہوم ورک کرنے کا عادی ہوں، اور میں نے پوری تحقیق کی تھی کہ مفسرین حضرات نے اس مشکل صورت حال نے نبٹنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ مفسرین نے اس تضاد کی وضاحت کیلئے جو پینترا اختیار کیا ہے اس پینترے سے میں یہ تحریر لکھنے سے پہلے سے واقف تھا۔ مجھے ترجمہ کو چھوڑ کر لفظ خلق اور دحاھا پر غور کے مشورے سے پہلے اگرمیری تحریر کو کھلے دماغ کے ساتھ بغور پڑھ لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا اور ایک بے کار مشورہ دینے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔
      میرے محترم مبصر نے مولانا مودودی صاحب کے حوالے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ بادشاہ ہے چاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی اس کی مرضی چاہے زمین پہلے پیدا کرے یا آسمان، کسی کو اعتراض کرنے کو کوئی حق نہیں۔
      مولانا صلاح الدین یوسف صاحب نے تو لٹیا ہی ڈبو دی مولانا لکھتے ہیں کہ : زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی ہے لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہے اور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلا زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے۔
      لگتا ہے مولانا صلاح الدین یوسف کی نظر سے سورة فصلت کی آیات ۹ تا ١۲ نہیں گذریں ورنہ مولانا اتنی بڑی ٹھوکر کھا کر اپنی کم علمی کا ثبوت نہ دیتے
      قارئین سورة فصلت کی آیات نمبر ۹ تا ١۲ کو غور سے پڑھ لیں پوری وضاحت کےساتھ مذکور ہے کہ اللہ نے زمین کو دو دنوں میں تخلیق کیا خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ اور اسی کے ساتھ ذکر ہے کہ اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور سب سامان معیشت مقرر کیاچار دن میں۔ ترتیب ملحوظ رکھیں کہ زمین بھی بن گئی، پہاڑ بھی بن گئے، برکت بھی رکھ دی اور سب سامان معیشت بھی مقرر ہوگیا، آگے ذکر ہے کہ ثمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الیٰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْن اور پھر دو دنوں میں سات آسمان بنائے۔
      لیجئے جناب بات واضح ہوگئی کہ مولانا صلاح الدین یوسف کی بیان کردہ ترتیب قرآن کی بیان کردہ ترتیب کے بالکل برخلاف ہے۔
      مولانا کی ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین کی تخلیق پھر آسمان کی پیدائش پھر زمین کا پھیلانا، زمین سے پانی نکالنا، پھر خوراک کی پیدائش اور پہاڑوں کازمین پر گاڑنا
      سورة فصلت کی ترتیب زمین کی تخلیق، پھر زمین پر پہاڑوں کا بنایا جانا، زمین میں برکت کا رکھنا، پھر سامان معیشت پھر اس کے بعد سات آسمانوں کا بنانا
      اب قرآن یا مولانا دونوں میں سے کوئی ایک تو غلط ہے، چلیں مولاناکو غلط کہتے ہیں اور قرآن کی ترتیب کو صحیح قرار دیتے ہیں تو سورة النازعات سے ٹکراوٴ لازم آتا ہے۔ اور اگر قران کو غلط کہتے ہیں تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پھر تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے،
      ایک بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ مفسرین نے اس غلطی کو متعدد طریقوں سے درست کرنے کی کوشش کی ہے میرا دعویٰ ہے یہ مفسرین کے اپنے دماغ کی اختراعات ہیں ورنہ جس استدلال سے مفسرین قرآن کی غلطی کی تصحیح کی کوشش کر رہے ہیں اگر وہ استدلال کسی ایک بھی حدیث میں مذکورہو تو لا کر دکھائیں۔ مفسرین پر یہ وحی کہاں سے نازل ہوئی کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں ترتیب زمانی و مکانی کیا تھی ؟

      1. محترم ایاز صاحب،

        آپ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں اور عربی ادب سے بھی واقف ہیں، پھر آپ "یوم” کاترجمہ "دن” کیوں کرتے ہیں، جبکہ "یوم” عربی میں "دور” "Period” کو بھی کہتے ہیں۔ خدا یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور نہ ہی سات آسمانوں سے مراد کوئی ماوراء العقل آسمان ہیں، آسمان دراصل عربی لفظ "سماء” سے ہے، جسکا مطلب "بلندی” ہے، اور یہ بلندی دراصل زمین کے اردگرد پائی جانی والی حفاظتی تہیں ہیں جو زمین کو مخلتف حوادث سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ جتنی تحقیق آپ نے قرآن کو جھٹلانے کے لیے صرف کی ہے، اگر اسے سمجھنے پر صرف کرتے تو شاید فیض پا جاتے۔

  8. محترم علامہ صاحب، السلام علیکم۔۔۔

    میں آپ کی طرح قران و حدیث میں تعلیم یافتہ اور عربی کا عالم نہیں ہوں۔ بلکہ قران بھی پورا نہیں پڑھ پایا جو کہ لوگ بچپن میں ہی پورا پڑھ لیتے ہیں۔ لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آج کل قران کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اس توفیق کے لیے اللہ کا ہر دم شکر گذار ہوں۔

    میں نے آپ کے جواب کی روشنی میں دوبارہ سے ان آیات پر غور کیا ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے آپ نے بھی ان آیات کی غلط تعبیر کی ہے اور مولانا صلاح الدین صاحب بھی ان آیات کی تعبیر میں ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ میری سوچ کا مرکزی نقطہ عربی الفاظ اور ان کے صحیح تفہیم ہے۔
    مولانا مودودی صاحب کی تعبیر بہرحال قائل کرنے والی ہے۔ اس تعبیر کو اختیار کرنے سے یہ ترتیب والا شوشہ باقی ہی نہیں رہتا۔
    بہرحال۔۔۔ میں کچھ دن اور لوں گا تاکہ اپنی سوچ کو مزید جانچ لوں کہ قران کا معاملہ ہے۔ پھر ان شاءاللہ اسی فورم پر اپنا جواب تحریر کروں گا۔

    عمران زاہد

  9. اینڈرسن شا صاحب،شایٔد یہ بلیسنگ ان ڈیسگایٔز ہے کہ اَپ نے خود ہی قران کے ایک اعجاز کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ یہ یہی قران ہے جس کے قانون وراثت کی وجہ سے اَج ہم الجبرا، فی صد اور لینیر مساوات سے متعارف ہوے ہیں۔ قران تو غلط ہو نہیں سکتا البتہ ہماری تحقیق میں سکم ضرور ہو سکتا ہے۔ اَپ تو قران کے لفظی معنیِٰ پر جا رہے ہیں اور اس پر یہ استدلال کہ قران غلط ہے مگر ہمارے اسلاف نے ایسا نہیں کیا بلکہ تحقیق کی اور اَپ جیسے سطحی سوچ رکھنے والوں کو چپ کروا دیا کہ اسلامی قانون وراثت نہ صرف ریاضی سے ہم اَہنگ ہے بلکہ سوچنے سمجھنے اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔

    یہ قران اور اسکے وراثت کے اسلامی قانون کا اس انسانیت پر احسان ہے کہ یہ محمد بن موسی خوارزمی اور دیگر قرون وسطی کے اسلامی ریاضی دانوں کے ذریعے ریاضی کی ترقی کے لیٔے ایک محرک کے طور پر استعمال کیا گیا. الجبرا کے بنیادی متن میں، اسلامی وراثت کے قانون کا استعمال کیا گیا ہے۔

    http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_inheritance_jurisprudence#The_role_of_Islamic_inheritance_in_the_development_of_Islamic_Mathematics

    1. بلاشبہ، جدید سائنس مسلمان سائنسدانوں کی ہی ابتدائی تحقیق کی محتاج ہے، دراصل ایک مخصوص سود خور گروہ ہے جو عوام الناس میں مذہبی منافرت پھیلا کر اور اسے خدا سے دور کرکے اپنے مذموم مقاصد میں جتا ہوا ہے، تا کہ انکا سودی کاروبار خوب پھولے پھلے اور لوگوں کی توجہ انکے سودی کاروبار کی طرف نہ جائے۔ ایک تباہی و بربادی ہے، جس میں اس سودی گروہ (یہودیوں ) نے دنیا کو جکڑ رکھا ہے، اور اسے خطرہ صرف اسلام سے ہے، فلہذا یہ اسلام کو بالخصوص قرآن کو جھٹلانے پر لگا ہوا ہے، وہ قرآن جو سود کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے، وہ قرآن جو فساد فی الارض پر قتل کی سزا دیتا ہے، وہی فساد فی الارض جو ان سود خوروں نے دنیا میں برپا کیا ہوا ہے۔

    2. محترمی جناب “جناب عالی” صاحب!
      نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آپ کا تبصرہ صرف دعؤوں پر مبنی ہے اور ایک بھی دلیل ذکر نہیں کی۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ الجبراء، فیصد اور لینیر مساوات کے قوانین قرآن سے اخذ کئے گئے؟ کوئی دلیل تو بیان کرتے۔
      ہم نے ایک دعویٰ پیش کیا کہ “قرآن کی علم حساب سے واقفیت پرائمری پاس طالب علم جتنی بھی نہیں ہے” اور اس کی دلیل ہم نے قرآن کے ایک غلط حسابی قانون کے ذریعے پیش کردی۔ آپ کو چاہئے تھا کہ ہم نے جس قرآنی غلطی کی نشاندہی کی ہے ـــآپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآنی غلطی نہیں ہے بلکہ ہمارے فہم کی غلطی ہے تو ـــقرآن کی روشنی میں صورت مذکورہ کو حل کرکے دکھا دیتے۔ہم آپ کو پھر دعوت دیتے ہیں کہ مذکورہ مسئلہ کو قران کے بیان کردہ “قوانین وراثت کی روشنی میں حل کر کے دکھا دیں۔ ہم اپنا اعتراض معذرت کے ساتھ واپس لے لیں گے۔ اور اگر آپ مسئلہ مذکورہ کو قرآنی قوانین وراثت کی روشنی میں حل نہ کرپائے اور یہ ثابت نہ کرسکے کہ الجبرا و دیگر ریاضی قوانین قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے وضع کئے گئے ہیں تو آپ اپنے “دعؤوں” سے باز آجائیے گا۔
      محترمی یہ “جرات تحقیق” ہے یہاں دعوے سے زیادہ “دلیل” کی اہمیت ہے۔یہاں ہم جو دعوے پیش کرتے ہیں ان کے دلائل جمع کرنے میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیتے ہیں۔ ایک ایک پوسٹ جو “جرات تحقیق” پر قارئین کیلئے پیش کی جاتی ہے اس کے تمام پہلؤوں پر انتہائی بارک بینی سے کام لے کر شائع کی جاتی ہے۔

  10. جناب علامہ ایاز نظامی صاحب،

    اگر اَپ میرا دیا گیا لنک پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیتے تو اَپ یہ ہر گز نہ کہتے کہ میرا تبصرہ صرف دعوں پر مبنی ہے۔ اَپ کی اَسانی کیلیے میں وہ ٹیکسٹ یہاں پر پیسٹ کیے دیتا ہوں۔

    The role of Islamic inheritance in the development of Islamic Mathematics

    The Islamic law of inheritance served as an impetus behind the development of algebra (derived from the Arabic al-jabr) by Muhammad ibn Mūsā al-Khwārizmī and other medieval Islamic mathematicians. Al-Khwārizmī’s Hisab al-jabr w’al-muqabala, the foundational text of algebra, devoted its third and longest chapter to solving problems related to Islamic inheritance using algebra. He formulated the rules of inheritance as linear equations, hence his knowledge of quadratic equations was not required.[10]
    Al-Hassār, a mathematician from the Maghreb (North Africa) specializing in Islamic inheritance jurisprudence during the 12th century, developed the modern symbolic mathematical notation for fractions, where the numerator and denominator are separated by a horizontal bar. The "dust ciphers he used are also nearly identical to the digits used in the current Western Arabic numerals. These same digits and fractional notation appear soon after in the work of Fibonacci in the 13th century.[11][12][13]
    In the 15th century, Abū al-Hasan ibn Alī al-Qalasādī, a specialist in Islamic inheritance jurisprudence, used a mathematical notation for algebra which took "the first steps toward the introduction of algebraic symbolism.” He represented mathematical symbols using characters from the Arabic alphabet.[14]

    اوپر دیے گے کوٹڈ ٹیکسٹ کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ اسلامی قانون وراثت نے الجبرأ کی تشکیل میں ایک محرک کے طور پر کام کیا۔۔۔

    اسی سلسلے کی کتابوں کے لنک ذیل میں درج ہیں۔
    http://www.jstor.org/discover/10.2307/301569?uid=3737432&uid=2&uid=4&sid=21101780387653

    http://books.google.ae/books?id=cDEQ5fH15ucC&q=islamic+inheritence#v=snippet&q=islamic%20inheritence&f=false

    جہاں تک یہ بات ہے کہ میں اَپ کی دی گیٔ پرابلم سولو کرنے میں ناکام رہا ہوں تو سیدھی سی بات ہے کہ اینڈرسن شا صاحب نے نسبت تناسب، فی صد اور اکاي کا قاعدہ استعمال کیے بغیر اور بغیر منفی کو استعمال میں لاے اسکو حل کرنے کی کوشش کی جس کا جواب محترم عمران علی صاحب بہت تفصیل کے ساتھ دے چکے ہیں۔ یقینأ ان اَیات کے نزول کے بعد عرب بدؤں نے ایسے ہی سوالات اٹھاے ہوں گے جن کا جواب بعد میں
    Mūsā al-Khwārizmī نے دیا۔

    میرا خیال ہے اب اَپکو اپنا اعتراض معزرت کے ساتھ واپس لینے میں کوئ امر مانع نہیں ہو گا۔

  11. محترم ایاز نظامی صاحب !
    آپ بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں اایسی سائٹ کے اجرا کے لیے جہاں دلائل کے ساتھ موقف پیش کیا جاتا ہے …..فیس بک پر بے شمار احمقانہ پیج موجود ہیں جہاں ہر وقت گالم گلوچ لعنت ملامت اورایک دوسرے کی توہین و تضحیک کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ….آپکے اس بلاگ نے میری معلومات میں بہت اضافہ کیا ہے. میں خدا رسول اور قران کی منکر تو نہیں ہوں مگر بہت سی غلط باتیں نظر آتی ہیں دین میں جنھیں دل و دماغ یونہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے …میری گزارش ہے کہ اسے ایک دانشوارانہ اور وسیع انظر فورم بنایا جاے جہاں ہر کوئی اپنی بات بلا جھجک که سکے ..بات کہنے اور سننے کا طریقہ مہذب اور علمی ھو .. ایک دوسرے کو کم علمی کج فہمی کے طنز و تمسخر کی بجاے اپنی بات کی جاے .مدلل بات میں ہیرے کی سی چمک ہوتی ہے..یہاں گفتگو کا مقصد مذہب کی خامیوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا ہے .ضد بازی میں تو لوگ جھوٹ سچ پے غور ہی نہیں کرتے ….یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کے سب کا مقصد حقیقت کی تلاش ہے اور کسی کا علم بھی مکمل نہیں ہے ابھی .

  12. سید شاہجہاں گیلانی اور دیگر روشن خیال مسلمان جن کی سائنس سے اچھی شناسائی ہے، سے میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام وہ نہیں جو آپ سمجھنا چاہ رہے ہیں۔ ہمارے کئی روشن خیال اسلامی صاحبان کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ اسلام کو اس طرح پیش کر دیتے ہیں جیسے وہ دیکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک صاحب سے لا اکراہ فی الدین اور مرتد واجب القتل پر بات ہو رہی تھی تو وہ بھی جوش جذبات میں کہہ گئے کہ مرتد واجب القتل نہیں ہوتا۔ بھائی صاحب! اسلام آپ کے اردگرد اپنے تمام تر تضادات کے ساتھ موجود ہے( میں اس اسلام کی بات کر رہا ہوں جس کے بانی محمدصلعم ہیں۔) آپ اس اسلام سے تضادات، تشدد اور دیگر خرافات نکال کر ایک اور مذہب ایجاد کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کے اس دین کو قبول کرنے والا پہلا فرد ہونگا

  13. اور پائی صاحبان جن جن کو قرآن آسمانی کتاب لگتی ہے وہ اس پر ایمان لے آئیں۔ اور جن کو نہیں لگتی وہ نہ لائیں۔ اس قدر کھپ کھپیئے کا کیا فائدہ؟؟؟
    قرآن ہی میں تو لکھا ہے کہ
    وُہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازِل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں، وُہی (اَحکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دُوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی اِحتمال اور اِشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے اُس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِاثر (آل عمران)
    اب جو باتیں یہ فتنہ پرور نکال کر لاتے ہیں ان کو ثابت کرنے کیلئے بھی ساری ساری زندگی تاویلات پیش کرنی پڑتی ہیں ان کو
    مگر ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ ان کے بقول اگر ان میں اختلاف ہے بھی تو ان باتوں سے جن کا یہ حوالہ دیتے ہیں کسی بھی انسان کی دنیا یا آخرت کی زندگی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟؟ وہ ہیں کتنی اہم کہ اگر ان میں انہیں کوئی اختلاف نظر آتا ہے تو اس اختلاف کی حیثیت کتنی سنگین ہے؟؟؟؟؟

  14. ہستی خوامخواہ صاحب روشن خیال مسلمان کو اپنا اسلام پیش نہیں کر رہے
    وہی اسلام پیش کر رہے ہیں جو 1400 سال قبل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ قرآن کی شکل میں
    اب آپ ہی اس قرآن سے زانی کو سنگسار کرنے یا مرتد کو قتل کرنے کی سزا نکال کر دکھا دیں۔
    اگر نہ ملے تو اسلام قبول کر لیں ما شاء اللہ
    اب وہ روایات کی کتابوں سے لمبی لمبی داستانیں نکال کر پیش کرنا شروع نہیں کر دینی۔ وہ تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 250 سال بعد لکھی گئیں۔ اور ان ہی میں لکھا ہے کہ نبی صلعم نے اپنے وفات کے وقت قرآن کے علاوہ اور کچھ لکھا نہیں چھوڑا
    اس لئے آپ ان کو اسلام کا حصہ نہ بنائیں جو اللہ نے نازل کیا ہے وہی اسلام ہے اور اسی کے بارے میں اللہ نے سورۃ المائدہ میں تین بار فرمایا ہے
    جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ کافر ہیں،
    جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ فاسق ہیں۔
    جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ فاجر ہیں۔
    تو مسلمان صرف اللہ کے نازل کردہ احکام (قرآن ) کے مطابق ہی دین کے کسی معاملے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ باقی جو کچھ کرتے ہیں وہ آپ ہی کی لائن کے لوگ ہیں۔

  15. اللہ جس کو گمرہ کرنا چاہے اسکے زہن میں فطور ڈال دیتا ہے۔ گمراہی کیلئے انپڑھ ہونا ضروری نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سب سے زیادہ فساد پڑھے لکھے لوگوں نے پھلایا۔ تورات، انجیل اور ویدا تضادات سے پھرے ہوئے ہیں، مگر آپ نے اپنی توپوں کا رخ قران کی طرف رکھا ہوا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے بدی آپ میں نہیں بلکہ آپ کے ڈی این اے میں ہے۔

    1. اللہ جسے گمراہ کرنا چاہے اس کے ذہن میں فتور ڈال دیتا ہے اور پھر اسے آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں ڈال کر اس کا بار بی کیو بنائے گا۔ بھئی بہت ہی خوب۔ آپ نے خود ہی اپنے خدا کے عادل اور حکیم ہونے پر بہت بڑا سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے۔
      ہم دنیا کے تمام مذاہب کو انسانوں کے خود ساختہ سمجھتے ہیں۔ جس قدر قرآن میں خرافات مذکور ہیں اسی قدر بلکہ اس سے بھی زائد دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ لیکن قرآن کا خصوصی ذکر اس لئے ہوتا ہےکہ سابقہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے قرآن کے بارے میں ہمارا علم زیادہ بختہ ہے۔

    1. فضول اعتراض ہے، بارہا اس بات کا جواب دیا جا چکا ہے، اوپر والے کمنٹ میں بھی جواب دیا ہے کہ ہماری تنقید زیادہ تر اسلام پر کیوں ہوتی ہے۔ اور جب آپ نے تنقید کا نام ہی تعصب رکھ دیا ہے تو پھر آپ کو جواب دینے کا ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں۔

  16. علامہ نظامی صاحب اپ نے لکھا ہے میں فارغ الٹحصیل عالیم ہوں.وہ بھی درجہ اول کے گریڈ سے.لیکن مجھے اختلاف ہے اپکی علمیت پر.کیا اپ نے ناسخ منسوخ راجح مرجوع مقروع غیر مقروع نہیں پڑھا.اگر پڑھا ہوتا تو تطبیق بھی جان لیتے اور اس کو تضاد نہ گردانتے.یہ اپکے اپنے علم کی کمزوری ہے ہم پر لاگو مت کرو.کل سے پہلے یعنی آج آج ہی توضیع تلویح تنکیح کا مطالعہ کرو.عقل تسلیم کر لے تو ٹھیک ورنہ تم کو ایک اور ہتھیار ہے میرے پاس سمجھانے کا

    1. میرا خیال ہے کہ آپ اپنا دوسرا ہتھیار پہلے استعمال کر لیں تو زیادہ بہتر رہے گا، جو شخص عالم کو عالیم، مرجوح کو مرجوع لکھ رہا ہے، جو تنقیح کو تنکیح لکھ رہا ہے، جس نے خود ساختہ مقروع اور غیر مقروع کی اصطلاحات گھڑ لی ہیں، جسے اس کتاب کا درست نام تک معلوم نہیں جسے پڑھنے کا مجھے مشورہ دے رہا ہے۔ میری علمیت پر شک و شبہ کا اظہار کر رہا ہے، حیرت ہے کیا زمانہ آگیا ہے۔

      1. الامہ صاحب یہ سراسر زیادتی ہے آپ سے اور آپ کے لافانی و لاثانی علم سے.
        چلو چھوڑیں آپ کی قدر میں کونسی کمی واقع ہونے لگی.
        آپ اپنا مشن جاری رکھیں شاید چند ساتھی تیار کرنے میں کامیاب ہوں.
        میری کوئ بات شان کے خلاف ہو تو از راہ کرم مطلع ضرور فرمائیے گا ممنون ہوں گا اور اجتناب کی کوشش کروں گا.
        اپنا خیال رکھئیے گا دل چھوٹا نہ کیجیئو.
        تندہی باد مخالف سے نہ گھبرا اے باز
        اے چلدی تینو اچا اﮈان لئ
        پر زرا دھیان نل کتے ﮈگ ای نا پینا, خوش رہو .
        سائیو نارا.

  17. I don’t see any contradiction in it, Quran just telling about how earth and heaven create and also the process/steps it is very much clear in both suras that first create earth and than create atmosphere than in second sura telling that after the creation of atmosphere/sky he expand earth in different continents means before that all the earth is in single piece . This is what science also confirm that

  18. شکریہ نظامی صاحب
    قرآن کی تفسیر میں کھول کھول کے بتایا گیا ہے کے خلق کرنا اور بات ہے اور ہموار کرنا اور بات …زمیں کو خلق پہلے کیا گیا لیکن ہموار آسمان بنانے کے بعد کیا …یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے …..ادھر اپ کی بات بھی غلط نہی …ادھر تفسیر کو بھی عقل قبول کرتی ہے کے ….اپنے جن آیات کی نشاندہی کی ان میں زمیں کی تخلیق کا ذکر ہے …جب کے یہا ہموار کرنے کا کہا گیا ہے …..اپ خود دیکھیں ..تخلیق کا لفظ اور ہموار کا لفظ سب صاف ہے …مزید آپکی طرف سے رہنمائ کا طلبگار رہو گا ..

جواب دیں

77 Comments
scroll to top