Close

قرآن اور اسرائیلیات

یہودیات سے قرآن کا اقتباس نئی-پرانی بحث ہے جو انیسویں صدی سے آج تک زیرِ بحث قضیہ ہے (1) درحقیقت یہ ” شک ” اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود قرآن پرانا ہے جس کی تصدیق وہ خود کرتا نظر آتا ہے:

(حتّى إذا جاؤوك يجادلونك يقول الذين كفروا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين) (سورہ الانعام، آیت 25)
(یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں)

(وإذا تتلى عليهم آياتنا قالوا قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين) (سورہ الانفال، آیت 31)
(اور جب انکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ تو کہتے ہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا کلام ہم بھی کہدیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں)

وغیرہ کہ آیات بہت ہیں، ان مجادلین یعنی بحث کرنے والوں کی ” اساطیر الاولین ” سے مراد شاید ” پچھلے لوگوں کی خرافات ” یا پھر پچھلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں، ایسی کہانیاں جو ان کے لیے نئی نہیں ہیں، وہ ایسی کہانیاں پہلے بھی سنتے رہے ہیں اور اس حوالے سے قرآن ان کے لیے کوئی نیا نہیں ہے یا کوئی نئی ” چیز ” نہیں لایا ہے.

کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں سابقہ مقدس کتابوں کی باتوں کا وارد ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ مصدر اور خدائی پیغام ایک ہی ہے، چونکہ قرآن، تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ اس میں انہی قصوں کا بیان ہونا حتی کہ بعض قصوں کی تصحیح کرنا سمجھ میں آتا ہے، اب جو بات قرآن سے موافق ہو وہ حق اور جو موافق نہ ہو وہ تبدیل شدہ، تاہم یہ بظاہر منطقی سی بات درست معلوم نہیں ہوتی.

توراتی اسرائیلیات

قرآن نے بہت سارے توراتی قصے نقل کیے جیسے زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق، تخلیقِ آدم (علیہ السلام)، اور کچھ قوانین وغیرہ، تاہم یہ قصے تورات نے آس پاس کی تہذیبوں سے چوری کیے تھے، سہیل قاشا کہتے ہیں: (کئی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عہد نامہ قدیم کے اسفار میں جو قصے کہانیاں اور قوانین وارد ہوئے ہیں در حقیقت ان کا اصل سومری، بابلی اور آشوری تحریروں سے ہے، یہودیوں نے ان میں سے جو انہیں اچھا لگا اسے اپنے ہاں نقل کر لیا اور جو انہیں اچھا نہ لگا اسے حذف کردیا)(2) چونکہ تورات کی تدوین پانچویں اور آٹھویں صدی قبل از عیسوی میں ہوئی چنانچہ اس میں آشوری کہانیوں کا ہونا تعجب کی بات نہیں جیسے کہ نبی موسی (علیہ السلام) کا قصہ جسے اس کی ماں نے پانی میں بہا دیا اور وہ پانی میں بہتا ہوا ایسے لوگوں کے ہاتھ لگا جنہوں نے اسے پالا اور پھر وہ لیڈر بنا، تاہم یہ کہانی دراصل شاہ سرجون الاکادی کی ہے جس نے 2279 اور 2334 قبل از عیسوی حکومت کی.

اسی طرح تورات میں بابلی قوانین بھی ملتے ہیں جیسے حمورابی کے قوانین جو 1750 قبل از عیسوی میں لکھے گئے تھے اور جو آج پیرس کے لوور میوزیم میں موجود ہیں، مثال کے طور پر کوڈ 196 میں درج ہے: (اگر کوئی سید اشراف کے کسی بیٹے کی آنکھ پھوڑ دے تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اس کی آنکھ پھوڑ دیں) اسی طرح کوڈ 200 میں درج ہے: (اگر کوئی سید اپنے طبقے کے کسی سید کا دانت توڑ دے تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اس کا دانت توڑ دیں) (3) یہی بات سفر تثنیت 19 اور 20 میں ملتی ہے: (نفس کے بدلے نفس، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت)، اور یہی بات قرآن میں بھی منتقل ہوئی:

(وكتبنا عليهم فيها أنّ النفس بالنفس والعين بالعين والأنف بالأنف والأذن بالأذن والسنّ بالسنّ) (سورہ مائدہ، آیت 45)
(اور ہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت)

اسی آیت میں قرآن آگے چل کر کہتا ہے:

(ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون)
(اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بے انصاف ہیں)

اب کیا یہ احکام اللہ کے اتارے ہوئے ہیں یا حمورابی کے لکھے ہوئے ہیں؟ شاید قرآن کے مصنف کو یقین تھا کہ یہ قوانین اللہ کے اتارے ہوئے ہیں اسی لیے اس نے انہیں قرآن میں جوں کا توں نقل کیا لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ تورات نے دراصل یہ قوانین بابلی تہذیب سے چرائے تھے اور یہ کہ آگے چل کر حمورابی کے آثار کی دریافت ساری کہانی واضح کردے گی.

اسی طرح کوئی حیرت نہیں ہوتی جب حضرت موسی (علیہ السلام) کے وجود اور ان کے کرشموں پر ایک بھی آرکیالوجیکل (Archaeology) ثبوت نہیں ملتا، مصر کے کسی بھی مؤرخ نے فرعون اور اس کی فوج کے ڈوبنے کے اس اندوہناک واقعے کا تذکرہ نہیں کیا، اگرچہ کچھ لاہوتی یہ بہانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مصر کے مؤرخین کے قومی شعور نے انہیں یہ واقعہ درج کرنے سے روکے رکھا، لیکن معترضین کہتے ہیں کہ چلو آپ کی یہ بات بجا لیکن آس پاس کی تہذیبوں کے مؤرخین کا کیا؟ انہوں نے یہ واقعہ درج کیوں نہیں کیا؟ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے بارے میں نہ سنا ہو؟ حتی کہ ہیروڈوٹس Herodotus جنہیں مصر کی تاریخ پر عبور تھا، اور انہوں نے مصر کے بہت سارے واقعات نقل بھی کیے، اس واقعے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا (4) مزید برآں جدید آرکیالوجی کو اس توراتی-انجیلی-قرآنی قصے کا ایک بھی ثبوت نہ مل سکا (5)، اسی طرح فرعون کا بنی اسرائیل کو غلام بنانے کا تعلق افسانوی خیال سے تو ہوسکتا ہے تاریخی حقائق سے نہیں، کیونکہ مصر میں غلامی نہیں تھی (6)، ایسے ہی تورات کے مصنفین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ گھڑ کر اپنے حسب ونسب کو برتر واعلی ثابت کرنے کے لیے خیالی گھوڑے خوب دوڑائے اور ان کے لیے جن وانس کی فوجیں بنا ڈالیں حالانکہ آس پاس کی تہذیبوں کے مؤرخین کے ہاں اس شخصیت کا ایک بھی یتیم تذکرہ موجود نہیں ہے جو کہ حیرت انگیز بات ہے.

زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہودیوں نے ان شخصیات کو بابلی تہذیب سے چرا کر قومی ہیرو بنانے کی کوشش کی، خاص طور سے موسی (علیہ السلام) جنہوں نے ” یہوہ ” کی مدد سے مصری مملکت کو چیلنج کیا اور بنی اسرائیل کو مقدس زمین کی طرف نکال لینے میں کامیاب ہوگئے، حالانکہ کنعان کی زمین مصری سلطنت کے زیرِ سایہ ہی تھی یعنی صرف اتنا کافی نہیں کہ موسی (علیہ السلام) نے فرعون کو شکست دی جو احمقوں کی طرح ان کے پیچھے اپنی فوج کے ساتھ ہولیا بلکہ فرعون کی موت کے بعد یہودیوں نے فلسطین میں کنعان کی زمینوں پر قبضہ بھی کر لیا جو فرعونوں کے زیرِ تسلط تھی، اور اپنے آپ کو خدا کی چنیدہ قوم قرار دیا جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:

(يا بني إسرائيل أذكروا نعمتي التي أنعمت عليكم وأنّي فضّلتكم على العالمين) (سورہ بقرہ، آیت 122)
(اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی)

یعنی خدا ایک قوم کو دوسری قوم پر فضیلت دیتا ہے حالانکہ وہ ان سب کا خالق ہے، مگر کیوں؟ تو یہ اس کی حکمت ہے، یہ اور اس طرح کی کئی دیگر مثالیں ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں جیسے زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق جس پر معروف الرصافی تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: (حقیقت یہ ہے کہ زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق تورات کی خرافات میں سے ہے، اب چونکہ تورات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاں خدا کی کتابوں میں سے ایک مقدس کتاب ہے چنانچہ انہوں نے اسے لے کر قرآن میں اس کا تذکرہ کردیا) (7).

تلمودی اور مدراشی اسرائیلیات

قرآن نے افسانوں اور خرافات سے بھرے عہدنامہ قدیم وجدید کی ہی تصدیق نہیں کی، بلکہ تلمود اور مدراش کی بھی تصدیق کی جو خرافات کی سب سے بڑی فیکٹریاں ہیں، لفظ تلمود ” لمد ” سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں علم حاصل کرنا، جاننا، پڑھنا، یا عربی میں، تعلم، عرف، درس، چنانچہ تلمود کے معنی پڑھنے کے ہیں جو کہ عربی کے لفظ ” تلمیذ ” (طالب علم یا سٹوڈنٹ) کے قریب ہے، تلمود مشنات اور جمارا پر مشتمل ہے، مشنات کے بارے میں یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حضرت موسی (علیہ السلام) کی زبانی منقول شریعت ہے جو چھ حصوں یا مباحثوں پر مشتمل ہے، لفظ مشنات یا مشناہ ” شنہ ” سے مشتق ہے جس کا عربی میں مطلب ” ثنّى ” یعنی راجع اور اعاد بنتا ہے جس سے قرآن میں مذکور لفظ ” المثانی ” یاد آتا ہے، جو اگر تلمود میں چھ ہیں تو قرآن میں سات ہیں (آتیناک سبعاً من المثانی)، رہا جمارا تو وہ مشنات پر بحث پر مشتمل ہے، تلمود دو طرح کے ہیں، ایک بابلی اور ایک ارشمیلی (8) تلمود کی تدوین کی تکمیل چھٹی صدی عیسوی میں ہوئی (9) رہا مدراش تو اس کی حیثیت اسلام کی کتب تفاسیر کی سی ہے، یعنی اسے یہودی ” مولویوں ” نے تورات کی وضاحت اور تاویل کے لیے لکھا، لفظ ” مدراش ” کا مطلب بھی پڑھنا، تلاش اور تاویل ہے جس کی اصل ” درش ” ہے اور یہ عربی لفظ ” درس ” سے قریب ہے، مدراش کی تحریریں دوسری اور تیسری صدی عیسوی تک پھیلی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بعض تحریروں کی درست ترین تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے جو اسلام سے پہلے یا بعد میں لکھی گئیں تھیں، قرآن میں انبیاء کے بیشتر قصے تلمود اور مدراش سے لیے گئے ہیں ما سوائے عاد اور ثمود (علیہما السلام) کے قصے کیونکہ یہ خالصتاً عربی قصے ہیں جو یہودیوں کے ہاں مذکور نہیں.

اعتراضاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں جن قصوں کا تذکرہ ہوا ہے وہ درست ہیں اور اس سے پہلے والی کتابوں میں ان قصوں کا تذکرہ ان کی نفی نہیں کرتا کیونکہ یہ راز نہیں ہیں، یہاں میں ایک مثال دینا چاہوں گا، چلیے تفسیر الزمخشری کھولتے ہیں اور مثال کے طور پر سورہ النمل کی آیت نمبر 18 پر ان کی تفسیر دیکھتے ہیں جس میں نبی سلیمان (علیہ السلام) چیونٹیوں کی وادی سے گزرتے ہیں، آیت کہتی ہے:

(حتّى إذا أتوا على وادي النمل قالت نملة يا أيّها النمل ادخلوا مساكنكم لا يحطمنّكم سليمان وجنوده وهم لا يشعرون) (سورہ النمل، آیت 18)
(یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ چیونٹیو اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اسکے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انکو خبر بھی نہ ہو)

زمخشری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(قيل كانت تمشي [أي النملة] وهي عرجاء تتكاوس، فنادت: يا أيّها النمل، الآية، فسمع سليمان كلامها من ثلاثة أميال. وقيل كان اسمها طاخية) (10)
(کہا جاتا ہے کہ وہ [یعنی چیونٹی] لنگڑا کر چلتی تھی، تو اس نے آواز لگائی: اے چیونٹیوں، آیت، سلیمان نے اس کی بات تین میل کی دوری سے سن لی، اور کہا جاتا ہے کہ اس کا نام طاخیہ تھا)

اور اب تفسیر ابنِ کثیر کھولتے ہیں اور اسی آیت کی تفسیر اس میں دیکھتے ہیں:

(عن قتادة، عن الحسن، أنّ اسم هذه النملة حرس، وأنّها من قبيلة يقال لهم بنو الشيصان، وأنّها كانت عرجاء، وكانت بقدر الذئب) (11)
(قتادہ نے حسن سے روایت کیا، کہ اس چیونٹی کا نام حرس تھا اور اس کا تعلق بنو الشیصان نامی قبیلے سے تھا، اور یہ کہ وہ لنگڑی تھی اور بھیڑیے کے برابر تھی)

ایک ہی آیت پر دونوں تفسیروں کا تضاد تو واضح ہے ہی، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ چیونٹی کا نہ صرف نام ہے بلکہ قبیلہ بھی ہے اور وہ بھیڑیے کے برابر ہے، اوپر سے وہ بولتی بھی ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کی فصیح وبلیغ زبان دانی سن کر مسکراتے بھی ہیں، اب فرض کرتے ہیں کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارے اس زمانے میں کسی شخص نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ تورات، انجیل اور قرآن کی تصدیق کرتا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہوئے ہمیں ایک آیت سناتے ہوئے کہتا ہے کہ:

(واذ قالت طاخیہ لقومہا من بنی شیصان یا ایہا النمل ادخلوا… تا آخر)
(اور جب طاخیہ نے بنی شیصان میں سے اپنی قوم سے کہا کہ اے چیونٹیوں داخل…)

کیا ہم اسے جھٹلاتے ہوئے یہ نہیں کہیں گے کہ یہ انسانوں کی لکھی کہانیاں ہیں جو غلطیاں کرتے ہیں؟ کیا ہم اسے وہ مصدر نہیں دکھائیں گے جہاں سے یہ کلام نقل کیا گیا تاکہ اس پر واضح کر سکیں کہ یہ وحی نہیں ہے بلکہ دوسرے لوگوں سے نقل کردہ کلام ہے؟

یہی کچھ ہمیں قرآنی قصوں میں ملتا ہے جو تلمود اور مدراش سے منقول ہیں جنہیں لکھنے والوں نے اپنے خیالی گھوڑے خوب دوڑائے اور عجیب وغریب افسانے گھڑے جن میں یقیناً بھیڑیے کے برابر وہ بولنی والی چیونٹی بھی شامل ہے، یہاں زمخشری اور ابنِ کثیر پر کوئی الزام نہیں کہ افسانہ ہی افسانے کو گھڑتا ہے، اور قرآن خود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس نے سابقہ کتابوں سے اقتباس کیا ہے:

(وإنّه لتنزيل ربّ العالمين، نزل به الروح الأمين، على قلبك لتكون من المنذرين، بلسان عربيّ مبين، وإنّه لفي زبر الأوّلين) (سورہ الشعراء آیت 192، 196)
(اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ اس کو امانتدار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ یعنی اسنے تمہارے دل پر اسکا القا کیا ہے تاکہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو۔ اور القا بھی فصیح و بلیغ عربی زبان میں کیا ہے۔ اور اسکی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔)

چنانچہ قرآن سابقہ کتابوں میں موجود قصوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہے، اس سلیس ترجمے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ زیادہ تر مقامات پر ترجمہ کمال کا ہے، عربی زبان کی بلاغت کو لاہوتیات میں بڑی خوبی سے استعمال کیا گیا ہے، وہ جانتے تھے کہ قرآن سابقہ لوگوں کی کتابوں سے منقول ہے ما سوائے بعض آیات کے جیسا کہ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ آسمان سے ایک فرشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اترا اور ان سے کہا: آپ کو دو نوروں کی خبر دینے آیا ہوں جو آپ کو ملے ہیں اور جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے، کتاب کا فاتحہ اور سورہ بقرہ کا آخر (12) اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کا سارا کلام اس سے پہلے کسی نہ کسی نبی کو مل چکا ہے ما سوائے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتوں کے جیسا کہ ابنِ عباس (رضی اللہ عنہ) جو حدیث کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں.

عربی اسرائیلیات

قرآن نے کچھ موجود قوانین کو جاری رکھا جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، المنمق میں آیا ہے کہ جاہلیت میں قریش چور کا ہاتھ کاٹتے تھے (13) اس طرح حج کی رسم جو کہ دراصل جاہلیت کے زمانے کی ہی ایک پرانی رسم ہے جس میں حاجی کثیر رقم ادا کر کے پتھر کے چکر لگاتا ہے، پتھر کو چومتا ہے، اور پتھر کو پتھر سے مار کر خدا سے اپنے سارے گناہ بخشوا کر واپس آجاتا ہے، اب اس مذہبی سیاحت سے کسے فائدہ پہنچتا ہے؟

اسرائیلیات اور سائنس

حدیث، تفسیر اور سیرت کی اسرائیلیات پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں (14) کہ یہ ایسے افسانے اور خرافات ہیں جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی، مگر یہ کتابیں قرآن کی اسرائیلیات کو نظر انداز کردیتی ہیں، کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ نوح (علیہ السلام) 950 سال زندہ رہے؟ یا وہ ہدہد جو سلیمان (علیہ السلام) اور بلقیس کے درمیان وزیرِ خارجہ کا کام سر انجام دے رہا تھا معقول بات ہے؟ یا یونس (علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آنا معقولیات میں سے ہے؟ یا اہلِ کہف جو سو سال تک مردہ پڑے رہے پھر زندہ ہوگئے عین عقل ہے؟ یہ اور ایسی تمام خرافات ایمانیات کے زمرے میں تو آسکتی ہیں مگر عقلیات میں ہرگز نہیں، ہر شخص جس چیز پر چاہے یقین رکھنے اور ایمان لانے میں آزاد ہے مگر وہ خرافات کو عقل کے مطابق یا عقل کو خرافات کے مطابق کرنے میں آزاد نہیں ہے، جیسا کہ قرآن سے سائنس نکالنے والے جعلی سائنسدان جو عربی زبان اور اس کے معنوں کا گلا گھونٹ کر قرآن سے سائنس برآمد کر لیتے ہیں، مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ آیت (والشمس تجری لمستقر لہا) میں سائنس ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں (یا انہیں معلوم ہی نہیں) کہ اصل تلمود میں ہے (15) تو کیا تلمود میں بھی سائنس ہے؟

اسی طرح یہ جعلی سائنسدان آسمان سے لوہا اتارنے والی آیت ” وانزلنا الحدید ” (اور ہم نے لوہا اتارا) کو سائنس قرار دیتے ہیں تو کیا قرآن کا یہ کہنا کہ ” وانزلنا من الانعام ثمانیہ ازواج ” (اور ہم نے جانوروں میں سے آٹھ جوڑے اتارے) کا مطلب ہے کہ گائے بھینسیں بھی آسمان سے اتاری گئیں تھیں؟ جبکہ علمی طور پر لوہا آسمان سے نہیں اترا وہ بھی اس صورت میں کہ اگر ہم مان لیں کہ زمین کی تخلیق کی بات کرتے ہوئے لفظ ” نزول ” یا ” سماء ” کا استعمال درست ہے!؟

غور کریں کہ کس طرح خرافات کو علمی ثبوتوں میں بدل دیا جاتا ہے اور ان کی ترویج کے لیے پورے پورے ادارے کروڑوں کے بجٹ کے ساتھ کھڑے کردیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں میں جہالت تقسیم کی جاسکے جبکہ قوموں کو ایسی خرافات کی بجائے حقیقی علمی تحقیقی اداروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ترقی کی سیڑھی پر اپنا پہلا قدم رکھ سکیں، ایسے لوگوں کی ایک طرف شہرت اور پیسے کی ہوس اور دوسری طرف طبیعات اور ما بعد الطبیعات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش سمجھ میں آتی ہے…جہاں علم اپنا لوہا منوا چکا ہو وہاں ایمان کی تقویت کے لیے مقدس متون میں علمی دلائل کی تلاش از حد ضروری ہوجاتی ہے چاہے اس کے لیے جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے.

__________________________________

حوالہ جات:

1- المصادر الاصلیہ للقرآن The Original Sources of the Qur’an
2- اثر الکتابات البابلیہ فی المدونات التوراتیہ – سہیل قاشا، بیسان للنشر والتوزیع والاعلام، بیروت 1998، صفحہ 8
3- اثر الکتابات البابلیہ فی المدونات التوراتیہ – سہیل قاشا، بیسان للنشر والتوزیع والاعلام، بیروت 1998، صفحہ 28
4- التوراہ کتاب مقدس ام جمع من الاساطیر، لیو ٹاکسل، ترجمہ حسان میخائیل اسحاق، صفحہ 176، اصل کتاب فرانسیسی میں ہے: La Bible Amusante, éd Librairie pour tous, 1897
5- کشف الکتاب المقدس، صفحہ 84، اصل کتاب فرانسیسی میں ہے: Israel Finkelstein et Neil Asher Silberman, La Bible dévoilée
6- قدماء المصریین اول الموحدین، ندیم السیار، 1995، صفحہ 42
7- الشخصیہ المحمدیہ او حل اللغز المقدس، معروف الرصافی، دار الجمل، جرمنی، 2002، صفحہ 654
8- التلمود کتاب الیہود المقدس، تاریخہ وتعالیمہ ومقتطفات من نصوصہ، دار قتیبہ، دمشق، 2006
9- التلمود کتاب الیہود المقدس، تاریخہ وتعالیمہ ومقتطفات من نصوصہ، دار قتیبہ، دمشق، 2006 صفحہ 27
10- الزمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، تحقیق عادل احمد عبد الموجود وعلی محمد معوض، مکتبہ العبیکان، الریاض، 1988، جلد 4، صفحہ 440
11- تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، تحقیق نخبہ من الاساتذہ، مؤسسہ قرطبہ للطبع والنشر والتوزیع، مصر، 2000، جلد 10، صفحہ 397
12- الحمیدی، الجمع بین الصحیحین، تحقیق علی حسین البواب، دار ابن حزم، لبنان، 2002، جلد 2، صفحہ 97
13- کتاب المنمق، البغدادی، تحقیق خورشید احمد فاروق، دائرہ المعارف، 1964، صفحہ 194
14- مثلاً دیکھیے: الاسرائیلیات فی التفسیر والحدیث، محمد حسین الذھبی، مکتبہ وہبہ، 1990 – اور دیکھیے: الاسرائیلیات واثرھا فی کتب التفسیر، رمزی نعناعہ، دار القلم ودار الضیاء 1970 ودیگر…
15- التلمود البابلی، سنہدرین، صفحہ 91

73 Comments

  1. اوو او،
    یہ تو آپ بڑی خطرناک باتیں کررہے ہیں ،
    اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن میں جتنےقصے خصو صا جنکا آپنے حوالہ دیا ،
    ان کی کوئی حقیقت نہیں ،اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی اورنے انہیں پچھلی کتابوں سے قرآن میں منتقل کیا؟؟؟؟؟؟؟
    یا پھر اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ،یا مفہوم غلط سمجھا گیا؟؟؟؟؟؟؟؟

  2. ایک اور خدا کی آمد مبارک مگر کس کیٹگری میں ہونگے؟
    ابھرتے خدا
    جنونی خدا
    سیکسی خدا
    اردو خدا
    مذہبی خدا
    نامعلوم خدا
    اسرائیلی خدا
    چاپلوس خدا
    لالچی خدا
    پاگل خدا
    امریکی خدا
    تنہائی پسند خدا
    زیادہ سوچنے والا خدا
    مذہب سے بیزار خدا
    خوامخواہ خدا
    جذباتی خدا
    بلاگر خدا
    موڈی خدا
    بکواس خدا
    فسادی خدا
    سولی پر ٹنگے خدا
    مخالف خدا
    اور لمبی لسٹ ہے چاہو تو بذریعہ میل منگوالیں . اور سوچ سمجھ کر اپنے پسند کی کیٹگری میں خداگیری کریں

  3. محترم اینڈرسن شا صاحب۔۔۔ جناب قرآن کے قصص کے بارے میں تو آپ نے اپنی رائے ظاہر کر دی۔۔۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ جو احکامات قرآن میں دیئے گئے ہیں۔۔۔ ان کے بارے میں بھی اپنی آرا سے نواز دیں۔۔۔
    نیز، یہ بھی بتائیے کہ کیا قرآن آپ کو مخلوق محسوس ہوتا ہے۔۔۔؟ یہ بھی ضرور بتائیے۔۔۔
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تحریر پر بھی آپ سے کچھ سوالات کیے تھے لیکن شاید آپ نے ہمارے علم میں اضافہ کرنا بہتر نہیں سمجھا۔۔۔

    اس دفعہ مایوس مت کیجیے گا۔۔۔ عین نوازش ہو گی۔۔۔

  4. اتنا لمبا تبصرہ ڈیلیٹ ہو گیا. اب تو نیند آرہی ہے. بہر حال چونکہ آپ نے تمام پرانے حوالوں کو ایک جگہ کر دیا ہے. اور اس میں لکھی ہوئ باتیں کوئ نئ بات نہیں. اس لئےپرانی باتوں پہ آپکے خدا بننے کے امکانات تو نظر نہیں آتے. ویسے خدا بننے میں کوئ حرج نہیں. حسب استطاعت ہر کوئ خدا ہوتا ہے.

  5. اسرائیلیات کا بکھیڑا اسی وجہ سے شروع ہوا کہ ہمارے علماء کو قرآنی تفاسیر لکھنے کا خیال آیا. یہ خیال رسول اللہ کو اپنی زندگی میں کیوں نہیں آیا. اسکی وجوہات نہ معلوم ہے. اچھا چلیں، عوام الناس کے لئے قرآن کے متن کو آسان کرنے کے خیال سے کیا گیا ہو. لیکن شاید ہوا یہ کہ علماء نے اپنے علم کے دریا بہانے کے لئے قدیم کتابوں کے ذرائع استعمال کرنے میں کوئ حرج نہیں سمجھا.انہوں نے سوچا ہو گا کہ ان ذرائع تک عام انسان کا پہنچنا نا ممکنات میں سے ہوگا. زمانہ بدل گیا. اب ہر شخص حاصل کر سکتا ہے.
    کیا نوح علی السلام کی عمر کے بارے میں قرآن میں کوءئ تذکرہ ہے. مجھے یقین ہے کہ نہیں ہے. آج تک اس حوالے سے میں نے قرآن کی کوئ آیت نہیں پڑھی. البتہ احادیث ضرور لوگ کہیں سے نکال کر لے آئیں گے. انکی حیثیت پہ مجھے تو شبہ رہتا ہے.
    یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اب تک انسان کا جتنا علم ہے اور جو رکاذات ملے ہیں ان میں کسی انسان کی عمر نو سو سال تو دور دو سو سال بھی نہیں ہے. حیران کن طور پہ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ قدیم انسان کی اوسط عمر خاصی کم تھی. جنگل میں رہتے ہوئے اور شکار کرتے ہوئے تحفظ کم سے کم ہوتا تھا اور انسانی بچوں کی بڑی تعداد بچپن میں ہی ختم ہو جاتی تھی. جبکہ جنگیں بوبدو لڑی جاتی تھیں اس میں خاصے جوان انسان کام آجاتے تھے. اب طرز زندگی بدل گیا ہے. دوائووں کی ایجاد کے بعد انسانوں کی اوسط عمر بڑھی ہے.
    نوح علییہ السلام کی عمر کے علاہ اور بھی متھس ہیں جیسے ایک زمانے میں انسانوں کے قد نو گز ہوا کرتے تھے. داستان امیر حمزہ میں ایسے تذکرے ملیں گے.
    چیونٹیوں والی بات میں بھی افسانہ تفسیر کے اندر زیادہ ہے. قرآنی آیت میں نہیں. یہ بات تو جدید سائینس بھی کہتی ہے کہتی ہے کہ چاہے جانور یک خلوی ہو وہ آپس میں گفتگو کے ذرائع استعمال کرتے ہیں یہ گفتگو الفاظ میں نہیں سگنلز کے ذریعے ہوتی ہے. یہ سگنلز ہارمونز کے ذریعے کنٹرول کءے جاتے ہیں. یا آسان الفاظ میں اپنے محسوسات دوسرے جانوروں تک پہنچانے کے قابل ہوتے ہیں. اب اگر ہم اس آیت کو اس طرح لیں کہ یہ اس زمانے کے ذہنی میلان کو سامنے رکھتے ہوئے کہی گئ تو یہ اس زمانے کے انسانوں کے رجھانات اور میلانات کو سمجھنے میں مدد دے گی. لیکن اگر ہم اسے قرآن میں سائینس کے زمرے میں لے آئیں تو اس سے پیچیدگیاں پیدا ہونگیں.
    سو سب سے بڑا مسئلہ عہد حاضر کے جید علماء نے پیدا کیا ہے. اور وہ قرآن کو سائینس کے مقابل لا کھڑے کرنے کا. ہارون یحیی اور ڈاکٹر ذاکر نائک. یہ سب لوگ قرآن میں سے سائینس کو نکالتے ہیں. انہیں لگتا ہے کہ ایسا کر کے وہ قرآن کو برتر ثابت کر دیں گے. حقیقت یہ ہے کہ ہندو بھی اپنے افسانوں میں سے بگ بینگ اور ایٹمی تھیوریز نکال لیتے ہیں. اصل چیز جسکی وجہ سے مذہب اسلام آیا. وہ انسانوں کی اخلاقی حالت ہے اسکو عین اسلام کے مطابق کرنے میں کوئ دلچسپی نہیں لیتا. اگر کوئ شخص قرآن میں سے سائینس نکال کر سوچے کہ وہ دوسروں کو اسلام کی طرف راغب کر لے گا تو صرف وہی لوگ راغب ہونگے جو اس معاشرے کے کم علم اور مہم جو لوگ ہونگے. درحقیقت وہ بھی ان چیزوں پہ ایمان نہیں لاتے بلکہ اسلام کی پیش کردہ طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں.
    تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم رسول اللہ کے نبی ہونے سے انکار کریں تو پھر ہمیں انہیں معلوم انسانی تاریخ کا ایک انتہائ غیر معمولی شخص تسلیم کرنا پڑے گا. اسکی وجہ یہ دعوی ہے کہ وہ امی تھے یعنی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے. اس پہ بھی چند مئورخین کو اعتراض ہے. لیکن اسکی رد میں ٹھوس ثبوت نہیں پیش ہوئے. تو ایک امی شخص کے حساب سے انکی ساری زندگی بغیر کسی الہامی سہارے کے انتہائ متاءثر کن اور عظمت والی بن جاتی ہے. یوں نبی نہ ہونا انہیں زیادہ حیرت انگیز بنا دیتا ہے.
    اسی طرح اہل کہف اور مچھلی والا واقعہ سائینس کو نہیں بیان کر رہے ہیں بلکہ انسانی سوچ کی ایک اور جہت کو کھولتے ہیں. کیا انسان اتنی لمبی نیند لے سکتا ہے کیا ایسا ممکن ہے کہ ایسا کوئ سادہ سا طریقہ ہو جسکے نتیجے میں انسان مچھلی کے پیٹ میں رہ پائے. ہو سکتا ہے اس معمے کو آنے والا انسان کسی انسانی عقل میں آنے والے ضابطے کے ذریعے معلوم کر لے. لیکن اسے نہ ناممکن کہہ سکتے ہیں، نہ یہ ایمان کے تقاضوں میں شامل ہے کہ ہم اسے صحیح ثابت کرنے پہ جٹ جائیں. میرے نزدیک یہ فکر کو دائرے کو وسیع کرنے کے لئے ہے. نہ کہ اسے تنگ کرنے کے لئے جیسا کہ ہمارے علماء اور انکے معتقدین کرتے ہیں. اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایمان لانے کا مطلب عقل سے براءت ہے.
    جو چیز ایمان کے تقاضوں میں شامل ہے ہم اس سے کوسوں دور ہیں اور دن بہ دن دور ہو رہے ہیں. آپ کا شکریہ کہ اس تمام مواد کو ایک جگہ اکٹھا کیا.
    اپنے ہم مذہبوں میں رہتے ہوئے تو ہم ایک جیسی سوچ کے درمیان کچھ الگ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے. لیکن جیسے ہی ہم اس ملک کی سرحد سے باہر قدم رکھتے ہیں یا کسی اور مذہب کے علم رکھنے والے شخص سے ملتے ہیں. ہمیں خاصہ جھٹکا لگتا ہے جب وہ ہمیں یہ بات بتاتا ہے جو ہم نے کبھی نہیں سنی ہوتیں اور جسکے سننے کے لئے ہم کبھی تیار نہیں ہوتے. نوح علیہ السلام کی عمر پہ اعتراض میں نے سب سے پہلے جرمن سے سنا جب اس نے مجھ سے پوچھا کہ اچھا یہ بتائو انسانی تاریخ میں جو فوسلز ملے ہیں اور جتنی بھی اب تک کی تاریخ ملی ہے اس میں انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر کتنی معلوم ہوتی ہے. اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ باہر کی دنیا میں حقائق کو جانچنے کا طریقہ کتنا مختلف ہے. اور یہ بتانے میں مجھے کوئ شرمندگی نہیں کہ میں اس جرمن کے سامنے لاجواب تھی. آج میں جانتی ہوں کہ یہ سب تفاسیر کا کرشمہ ہے جو اسرائیلیات کا اثر رکھتی ہیں.

    1. محترمہ قرآن کی جو بات بظاہراآپ کو سائنس اور عقل کے خلاف لگ رہی ہے اور آپ کی ناقص علم و عقل سے میچ نہیں کررہی آپ اسکا انکار کرتی جارہی ہے اور ایک مکھی کی طرح ہلکے پھلکے انداز میں اڑاتی جارہی ہے، آپ اللہ سے ڈرتی نہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے ، قرآن کے متعلق بغیر کسی علم کے بات کرنے پر بہت سی وعیدیں آئیں ہیں۔ یہاں تک آیا ہے کہ اگر کسی نے بغیر علم کے قرآن کے متعلق اپنے اندازے سے صحیح بات بھی کی اس نے پھر بھی غلطی کی، حضرت ابوبکر رضی اللہ جیسا صحابی رسول بھی اس طرح بات کرنے سے ڈرتا تھا، ہمیں تو ذیادہ خیال رکھنا چاہیے .آپ لوگوں نے اپنی ناقص عقل کو قرآن وسنت کے جانچنے کا معیار بنا رکھا ہے کہ اگر قرآن و سنت کی کوئی بات عقل کے موافق ہو تو قبول کرتے ہوں وگرنہ رد کردیتے ہیں، عجیب . بھئی قرآن تو وحی ہے جس کو اللہ اپنے رسولوں کے ذریعے اپنی مخلوق تک پہنچاتاہے، اس میں تو عقل سے ذیادہ ریفرنس اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ عقل کامل نہیں ہے.اگر آپ نے خدانخواستہ عقل ہی کو معیار بنا لیا ، پھر تو کل آپ جنت دوزخ، فرشتوں، معجزات حتی کہ اللہ کا بھی انکار کردو گے، کیونکہ یہ سب تو ایمان بالغیب سے متلعق ہیں . خداراہ اس بات کو سمجھیں کہ یہ فتنے کا دور ہے، اس دور میں ایمان بچانا بہت مشکل ہے، ایسی باتیں نہ کریں جس کی وجہ سے آپ کا ایمان ہی سبط ہوجائے اور کفر پر موت آجائے.

    1. بھائی میں کچھ نہیں کہتا، میری صرف اتنی گزارش ہے کہ اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو اس کی دی ہوئی عقل کا بھی استعمال کریں، اگر کوئی خدا آپ کو اپنی عقل استعمال کرنے سے روکتا ہے تو آپ کو اس کی عقل پر شبہ کرنا چاہیے، بے عقل سے عقل کیسے برآمد ہوسکتی ہے؟

    1. سومریوں کے آثار قدیمہ سے جن کا تعلق تیسری صدی قبل از عیسوی سے ہے ایک ٹیبل دریافت ہوا ہے جس میں سومریوں کے صرف آٹھ بادشاہوں کی حکومت کی مدت 241200 سال درج ہے!! اس طرح ایک بادشاہ کی اوسط مدت حکومت 30150 سال بنتی ہے!! اور یہ صرف مدتِ حکومت ہے پوری عمر نہیں، پوری عمر اس سے کہیں زیادہ بنتی ہے، سومریات کے ایک عرب ماہر ڈاکٹر فاضل عبد الواحد کا خیال ہے کہ غالباً شاہی خاندان کی فہرست جمع کرنے والے کے پاس صرف آٹھ بادشاہوں کی ہی فہرست تھی چنانچہ ایک طویل دورانیے کو کور کرنے کے لیے اس کے پاس سوائے ان شاہوں کی عمر طویل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، یہ دورانیہ پہلے بادشاہ سے لے کر طوفانِ نوح تک کا ہے، اس طرح طوفان نوح انسانوں کی طویل عمر کے درمیان ایک حدِ فاصل بن گیا، طوفانِ نوح سے پہلے انسان کی عمر ہزاروں سال ہوتی تھی جیسا کہ سومریوں کی فہرست میں آتا ہے جبکہ طوفان کے بعد اس کی عمر گھٹ کر صرف سو سال رہ گئی، اس سومری فسانے نے بعد میں کتابی مذاہب کی راہ لی، تورات کا مصنف سومری فسانوں سے متاثر نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ طوفانِ نوح سے پہلے کے لوگوں کی عمر ہزار سال کے آس پاس لے جاتا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی عمر 930 سال، حضرت شیث علیہ السلام کی عمر 912 اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر 950 سال درج کرتا ہے، اب چونکہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 14 بھی حضرت نوح علیہ السلام کی عمر 950 سال بتاتی ہے تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن نے یہ عمر تورات سے نقل کی، باقی کی کہانی واضح ہے..

  6. محترم اینڈرسن شا صاحب۔۔۔ جناب قرآن کے قصص کے بارے میں تو آپ نے اپنی رائے ظاہر کر دی۔۔۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ جو احکامات قرآن میں دیئے گئے ہیں۔۔۔ ان کے بارے میں بھی اپنی آرا سے نواز دیں۔۔۔
    نیز، یہ بھی بتائیے کہ کیا قرآن آپ کو مخلوق محسوس ہوتا ہے۔۔۔؟ یہ بھی ضرور بتائیے۔۔۔
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تحریر پر بھی آپ سے کچھ سوالات کیے تھے لیکن شاید آپ نے ہمارے علم میں اضافہ کرنا بہتر نہیں سمجھا۔۔۔

    اس دفعہ مایوس مت کیجیے گا۔۔۔ عین نوازش ہو گی۔۔۔
    ————————————————————-
    اینڈرسن شا صاحب… میرے سوالات اب تک تشنہ ہیں… اور آپ کے جوابات کے منتظر ہیں…

    عنیقہ… کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ حلقہ مومناں کی کن چیزوں میں آپ غلطیاں‌نکالتی ہیں… اور وہ آپ کی کونسی باتیں نہیں مانتے… میں ان کی خبر لوں گا اگر وہ غلط ثابت ہوئے… 🙂

    1. یار عمران اقبال آپ بھی نا دھن کے پکے ہیں کہ جواب لے کر ہی چھوڑنا ہے.. آپ کے پہلے سوال کا جواب میں آپ کو تب دوں گا جب آپ مجھے یہ بتائیں گے کہ کیا احادیث قرآن کی تکمیل ہیں؟ رہا آپ کے دوسرے سوال کا جواب تو اگر آپ مانیں تو میں حنبلی ہوں…

  7. انسانی تہذیب کے متعلق ہمیں جتنی معلومات میسر ہیں وہ ہمیں ذیادہ سے ذیادہ سات آٹھ ہزار سال پہلے تک کی خبر دیتی ہیں۔ اس سےقبل اگر کوئی تہذیب تھی تو معلومات میسر نہیں۔ انسان یقنناً آخری آئس ایج سے بھی پہلے زمین پر بستا رہا ہے۔ جنوبی فرانس ہی کے غاروں میں انسانوں کی بنائی تصاویر سولہ ہزار سال پرانی ہے۔ ایتھوپیا سے ملنے والا قدیم ترین انسانی فوسل تقریباً دو لاکھ سال پرانا ہے۔ باالفاظ دیگر انسان زمین پر لگ بھگ دو لاکھ سال سے موجود ہے۔ جبکہ تاریخ المذاہب میں ہمیں ابراہیم علیہ السلام کے جس زمانے کا ذکر ملتا ہے وہ غالبا ساتھ آٹھ ہزار سال پرانا ہے۔ نوح علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کے ہیں۔ کتنے پہلے کے؟ وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا؟ اگر میں کہوں کہ نوح علیہ السلام کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے کہیں پرانا ہے۔ شائد لاکھ سال پہلے ، تو آپ کے پاس اس کے رد میں کیا دلیل ہوگی؟
    اس ساری مشق کا فائدہ کیا ہے؟
    فائدہ یہ ہے کہ انسان کی اوسط عمر سو سال والے اصرار سے چھوٹ مل جائے گی۔ کہا جاسکتا ہے کہ لاکھ سال پہلے انسان کی عمر آج کے انسان کی عمر کی نسبت کہیں ذیادہ طویل تھی جو ارتقائی تبدیلیوں سے گذرتے ہوئے مختصر ہوتی چلی گئی۔ غالباً اب تک کوئی ایسی تحقیق بھی نہیں جو اصرار کرے کہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے کے انسان کی عمر اسی نوے سال ہی تھی۔ اگر ہو بھی تو کلی طور پر اعتبار مشکل ہوگا کیونکہ اتنے پرانے فوسلز کی عمر کے تجزیہ میں چند سو برس کی غلطی عجب نہ ہو گی ۔ پھر نیچرل سائنس کے پپیرز ہمیشہ statistical error کی شرط رکھتے ہیں۔
    یہ بھی ممکن ہے کہ اس دور کے تمام انسانوں کی عمر اتنی طویل نہ ہو۔ صرف نوح علیہ السلام ہی کی عمر اتنی طویل ہو۔ آخر انبیاء کے علم الوحی کو عام علوم و اسباب سے استثنا حاصل ہے۔ اگر آپ کے اعتراضات پر یقین کیا جائے تو قرآنی آیات کی صداقت کا انکار کرنا ہوگا۔ بلکہ یہ ایک slippery slope ہے۔ اس راہ پر چلتے ہوئے ایمان اور عقائد کے تمام ہی جزویات کے انکار کا راستہ کھلتا ہے۔
    لہذا آپ کی اس تحریر کے مندراجات سے خاکسار متفق نہیں۔ میرے خیال سے آیات قرآنی کے دفاع اور آپ کے اعتراضات کے رد میں دلائل نکلتے ہیں، نمونے کے طور پر نوح علیہ السلام والے مسئلہ پر کچھ روشنی ڈال ہی دی ہے۔

    1. بات یہ نہیں کہ ہم اس وقت کتنی پرانی تہذیبوں کے بارے میں جانتے ہیں اور نا ہی ہماری جاننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہے، بات بذات خود مذاہب کی ہے، جب یہ سارے ابراہیمی مذاہب حضرت آدم علیہ السلام کی زمین پر آمد کو چھ سے سات ہزار سال میں قید کر دیتے ہیں تو خود ہی پھنس جاتے ہیں چنانچہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک لاکھ سال پہلے آئے، آپ کو مجبوراً چھ سے سات ہزار سال میں مقید رہنا ہوگا، اب اگر لاکھوں سال پہلے انسان کی عمر طویل ہو بھی جو کہ ایک حقیقت سے زیادہ محض مفروضہ ہے تو پھر بھی اس سے مذاہب کے حق میں کوئی دلیل برآمد نہیں ہوتی ناہی ایسا کوئی ثبوت موجود ہے کہ ساتھ ہزار پہلے انسان کی عمر ہزاروں سال ہوتی تھی.. ویسے بھی میری پوسٹ میں حضرت نوح علیہ السلام کا کوئی تذکرہ نہیں تھا آپ سورہ نمل کی آیت 18 پر اپنی رائے سے ہمیں کوئی نہیں نوازتے جس میں بھیڑیے کے برابر چیونٹی کا تذکرہ ہے جو بولتی بھی ہے، نام بھی رکھتی ہے اور قبیلہ بھی!؟ ویسے آپ کتنی آیتوں کو عقلیا سکتے ہیں؟

      1. بھیڑیئے جتنی چیونٹی اس کا نام اور قبیلہ یہ ساری بات تو تفسیر میں ہے قرآن میں نہیں،اسلیئے اس کو جھٹلایا جاسکتا ہے،
        مگر حضرت سلیمان نے اس کی بات سن لی ،یہ بات قرآن میں موجود ہے ،گوہمارے عقلی علم ابھی اس نالج کوحاصل نہیں کرسکے،
        مگر اس کے امکانات تو ہو سکتے ہیں کہ کبھی نا کبھی ہم سائنٹیفیکلی ،دماغ بینی جیسا کوئی علم حاصل کرکے جانداروں کے ذہنوں کو بھی پڑھ سکیں،اوریہ علم ایک پیغمبر کو اللہ نے پہلے ہی عطا کردیا ہو،اور یا پھر یہ الہام جیسی کوئی کیفیت ہو؟؟؟؟؟؟؟؟
        بطور حنبلی کیا آپ یہ ثابت کرسکتے ہین کہ امام احمد بن حنبل نے قرآن کی آیات میں شک کیا؟؟؟؟؟؟؟؟

        1. چلیے جیونٹی بھیڑیے جتنی تھی یہ بات قرآن میں نہیں تفسیر میں ہے تو کیا آپ جملہ تفاسیر کو مسترد کرنے کے لیے تیار ہیں؟

          رہی بات چیونٹی کی حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرنے کی تو میں مان لیتا ہوں کہ ایک نبی ہونے کی حیثیت سے ان کے پاس کچھ ” سپر پاورز ” تھیں تو کیا بلقیس بھی نبی تھی؟

          1. اس بنیاد پہ کہ اگر میں آپ سے کہتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہدہد سے کیسے باتیں کر سکتے ہیں تو آپ کہتے کہ وہ نبی ہیں مگر بلقیس تو نبی نہیں تھی پھر وہ ہدہد سے باتیں کیسے کر رہی تھی؟

          2. ہممم،
            میرا خیال یہی تھا کہ آپکا جواب یہ ہوگا !
            🙂
            قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ ملکہ نے ہد ہد سے باتیں کیں؟

  8. میں ایک دم غلطی سے منیر عباسی کے بلاگ پہ چلی گئ. یہ دیکھے بغیر کہ یہ جناب حلقہ ء مومناں کے بندے نے لکھا ہے. اور وہاں جاتے ہی جب طفل مکتب پہ نظر پڑی تو اندازہ ہو گیا کہ یہ انہوں نے بالخصوص میرے لئے ہی لکھی ہے. حیرت ہے جب میں اس گروہ کی یقین سے کہی گئ چیزوں میں غلطیان نکالتی ہوں جب تو ان کے اوپر ذرا سا اثر نہیں ہوتا لیکن جب میں ایک چیز اس تاءثر کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ ایسا قرآن میں نہیں لکھا ہوگا تو وہ اسے قابل توجہ تک نہیں سمجھتے کہ میں کس تاءثر میں یہ چیزیں لکھ رہی ہوں.
    پرانی بات دوہرائونگی کہ جب دین کا علم آپ میں بنیادی اخلاقیات پیدا کرنے سے قاصر ہے تو اسکی سربلندی کا دعوی نہ کیجئیے. تسلیم کریں کہ آپ نکمے ہیں یا تسلیم کریں کہ دین میں خرابی ہے یا تسلیم کریں کہ جنہوں نے آپکو دینی تعلیم دی ان میں خرابی ہے.
    ان تین چیزوں میں سے انتخاب ان پہ ہی چھوڑتی ہوں.
    عثمان کی بات میں وزن ہے. یہ نکتہ میں نے مس کیا کہ آئس ایج سے پہلے بھی انسان موجودتھا.

    1. محترمہ حلقہ جاہلاں کو اپنی جہالت پھیلانے سے پہلے کچھ علم شلم بھی تو حاصل کرنا چاہیے نہ یا یوں ہی بونگیاں ماردیں اور پھر بعد میں بھونکتے پھریں کے میں نے تو یہ کہا تھا…..
      آپ کی جہالت کو کئی بار طشت از بام ہوتے دیکھ چکا ہوں، موصوفہ ایک بار پہلے کسی بلاگ پر پنجایوں کو مورود الزام ٹھراتے ہوئے فرمارہی تھیں کہ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سب سے آخر میں بنگال پر قبضہ کرسکے، لوگ باگ ان کی اس بونگی پر بھی حیران رہ گئے تھے کہ جہاں سب سے پہلے قبضہ ہوا اسے سب سے آخر میں کن وجاہات کی بنا پر قرار دیا جارہا ہے. اور ہاں خرابی ان تینوں میں نہیں آپ کے اس میں ہے جس کی جگہ بھوسا بھر ہے….

  9. اینڈرسن شا صاحب ،
    قرآن کے خلاف آپ کے "دلائل” بری طرح لڑکھڑا رہے ہیں۔ عبداللہ نے آپ کی غلطی نکال ہی دی ہے۔ اگر کسی مفسر نے بائبل کی تفصیل سے متاثر ہوکر چیونٹی کو بھیڑیے کے برابر کر بھی دیا تو یہ مفسر کی کوتاہی ہے۔ قرآن کے خلاف دلیل کہاں سے ہوگئی میرے بھائی ؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی باتیں کیسے سنیں ؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وحی کے ذریعے۔ ممکن ہے خدا وحی کے ذریعے انھیں حیوانات کے روابط (بھلے وہ محض سگنلز ہی کی صورت میں ہوں) سے آگاہ کردیتا ہو۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ انبیاء اور عام انسانوں میں بنیادی فرق ہی علم وحی ہے۔
    حضرت نوح علیہ السلام کو نجانے آپ نے کس بنیاد پر سات ہزار سال پرانے زمانے میں مقید کرکے رکھ دیا۔ دراصل آپ کا مفروضہ میرے "مفروضے” سے کئی گنا کمزور ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کو قدیم ہونے کو آپ کیسے رد کرسکتے ہیں؟ قدیم انسانوں اور موجودہ انسانوں میں بذریعہ ارتقاء فرق آنا لازمی ہے۔ عمر بھی حیاتیاتی خواص سے بندھی ہے۔ عمر میں تبدیلی کیونکر نہیں ہوسکتی؟ سات ہزار سال سے پیشتر کسی تہذیب کے ڈاکومنٹڈ ثبوت بھلے میسر نہ ہو۔ لیکن لاکھوں سال پرانے فوسلز ، غاروں میں تصاویر اور قدیم انسانوں کے بنائے پتھروں کے اوزار وغیرہ روئے زمین پر انسان کی موجودگی کے قدیم ہونے کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ عین ممکن ہے کہ خدا نے ان قدیم انسانوں میں‌بھی پیغمبر بھیجئے ہوں. حیرت ہے آپ اپنی "تحقیق” میں یہ انتہائی اہم ترین نقطہ کیسے چھوڑ گئے؟
    آپ کی یہ پوری تحریر اور اعتراضات صرف اور صرف ایک ہی ٹانگ پر کھڑے ہیں کہ جناب کیونکہ قرآن میں موجود باتوں کا تذکرہ پہلے بھی الہامی کتب میں کسی نہ کسی صورت میں آچکا ہے تو بس معاذ اللہ قرآن کے مصنف نے اسے لامحالہ وہاں سے "نقل” کیا ہے۔ ہیں جی؟ یہ "دلیل” آپ کہاں سے گھڑ لائے؟ پرانی الہامی کتب بھی خدا ہی کی طرف سے وحی کردہ تھیں۔ زمانے کے ساتھ تحریف ہوگئی۔ قرآن اغلاط اور تحریف سے پاک ہے۔ پرانی کتب کی اغلاط قرآن کی حقانیت کے خلاف "دلیل” کہاں سے ہوگئی؟

    1. بات یہ ہے کہ آپ ابھی تک صرف مفروضات پر بات کر رہے ہیں، اگر یہ مفسرین کی غلطی ہے تو پھر کتنے مفسرین کو مسترد کرنا پڑے گا؟ اور قرآن کی تفسیر کے لیے آپ کون سے مفسر سے رجوع کریں گے کہ سب ہی اسرائیلیات سے متاثر نظر آتے ہیں اور افسانے گھڑتے ہیں؟ بلکہ اب تک تو ان مفسرین کو حق سمجھا جاتا تھا بلکہ اب بھی سمجھا جاتا ہے جیسے ابن کثیر وغیرہ، رہی بات ہدہد کی تو قرآن میں نہیں لکھا کہ اس نے بلقیس سے بات کی تو کیا قرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہدہد ایک پرندہ تھا؟ اب یہاں آپ کو تفسیر کی ضرورت پڑے گی جسے آپ پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں.. 🙂

      اب آپ کا یہ کہنا کہ ” ممکن ہے خدا وحی کے ذریعے انھیں حیوانات کے روابط (بھلے وہ محض سگنلز ہی کی صورت میں ہوں) سے آگاہ کردیتا ہو ” ایمانیات میں سے تو ہوسکتا ہے علمی حقائق سے نہیں، اور ایمانیات کا بہرحال کوئی علاج نہیں ہوتا، کیا ٹیلی پیتھی ثابت شدہ سائنس ہے؟ 🙂

      اب آتے حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کی طرف جہاں اب بھی آپ مفروضوں سے ہی کھیل رہے ہیں بغیر کوئی ٹھوس ثبوت پیش کئے، ظاہر ہے آپ بھی مجبور ہیں کیونکہ معاملہ ایمانیات کا جو ہے، جہاں تک مجھے آپ کی بات سمجھ آئی ہے آپ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کو کسی بھی صورت لاکھوں سال پہلے تک لے جانا چاہتے ہیں اس کے باوجود کہ آپ نظریہ ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں، کیا لاکھوں سال پہلے یہ زیرِ ارتقاء انسان اتنا عقل مند ہوچکا تھا کہ اسے ” مکلف ” کیا جاسکے؟

      مانا کہ ارتقائی عمل کی تبدیلی سے انسانی عمر میں فرق آسکتا ہے مگر کتنا؟ آج اگر انسانی عمر کی اوسط سو سال تسلیم کرلی جائے تو دو لاکھ سال پہلے کے انسان کی عمر میں آپ کتنا اضافہ کریں گے جبکہ وہ ارتقائی طور پر کمتر تھا برتر نہیں تھا؟ بیس، تیس، پچاس، سو، دوسو، کیا آپ کو ساڑھے نو سو سال کا عدد ایک زیر ارتقاء کمتر انسان کے لیے معقول لگتا ہے؟

      اب میں حضرت نوح علیہ السلام کو سات ہزار سال پرانے زمانے میں کیوں قید کرنا چاہتا ہوں تو اس کی وجہ امام سیوطی کی ” الکشف عن مجاوزہ ھذہ الامہ الالف ” نامی کتاب ہے جس میں وہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کا نزول سات ہزار سال پہلے ہوا تھا.. ایسے ہی دلائل شہاب الدین ندوی صاحب اپنی کتاب ” تخلیقِ آدم اور نظریہ ارتقاء ” میں بھی پیش کرتے ہیں جس میں ” تخلیقِ آدم ” پر پورا ایک باب موجود ہے جس میں انہوں نے ڈارون کے شیطانی نظریہ سے بچنے کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کو سات ہزار سال پہلے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ آدم سے پہلے ایک حدیث کے مطابق ” جن ” اور ” حن ” رہا کرتے تھے جو انسان سے مشابہ تھے اور سائنسدانوں کو انہی کی باقیات مل رہی ہیں جنہیں وہ انسانی ڈھانچے سمجھ بیٹھے ہیں چنانچہ اسلامی نقطہ نظر سے نظریہ ارتقاء سراسر جھوٹ اور غلط ہے..!!

      تعجب مجھے آپ پر ہے کہ آپ کے پاس حضرت نوح علیہ السلام کے وجود کو لاکھوں سال پہلے ثابت کرنے کے لیے نا تو علمی ثبوت ہے اور نا ہی شرعی اس کے باوجود آپ نہ جانے کیوں اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں..

      رہی بات میرے اعتراضات کی بنیاد تو وہ بقول آپ کے اس پر نہیں کھڑی کہ ” کیونکہ قرآن میں موجود باتوں کا تذکرہ پہلے بھی الہامی کتب میں کسی نہ کسی صورت میں آچکا ہے تو بس معاذ اللہ قرآن کے مصنف نے اسے لامحالہ وہاں سے “نقل” کیا ہے ” بلکہ اعتراضات کی بنیاد اس پات پر کھڑی ہے کہ محققین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پرانی الہامی کتابوں میں جو قصے وارد ہوئے ہیں وہ آس پاس کی تہذیبوں سے چرائے گئے ہیں، اس صورت میں ان ” چوری شدہ ” قصوں کا قرآن میں وارد ہونے کا کیا مطلب بنتا ہے؟ اس سلسلے میں لوئس گینزبرگ کی کتاب دی لیجنڈ آف جیو ضرور دیکھیں جو چار جلدوں پر مشتمل ہے، اس کا عربی ترجمہ حسن حمدی السماحی نے ” اساطیر الیہود ” کے نام سے 2007 میں شائع کیا جو اتفاق سے سعودی عرب میں بھی دستیاب تھا مگر اسلام پر اس کے خطرات منکشف ہونے پر اسے جلد ہی بین کردیا گیا 😀

      1. ہد ہد کے بارے میں قرآن کہتا ہے،
        سلیمان کے لیئےجن انسانوں اور پرندوں کےلشکر جمع کیئے گئے تھےاور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے(سورہ نمل آیت 17)
        آگے آیت 20،21،22 میں ہے،
        سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہاکیا بات ہے کہ میں فلاں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہاہوں۔
        کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے؟ میں اسے سخت سزا دون گا،یاذبح کردوں گا،ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنا ہوگی۔
        کچھ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے آکر کہا،میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپکے علم میں نہیں ہیں،میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔
        اس سے کیا معلوم ہوتا ہے کہ ہد ہد کون تھا؟
        آیت 27،28
        سلیمان نے کہا،ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا توجھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے،اور پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں،
        یہاں یہ وضاحت بھی ہوگئی کہ ہد ہد نے ملکہ بلقیس سے بات نہیں کی بلکہ حضرت سلیمان کا خط اس کے سامنے لے جا کر ڈالدیا،اور بس
        مجھے اس کا بھی اندازہ ہے کہ آپ کافی نالج ایبل شخصیت ہیں ،اور ان تمام باتوں کا یقینا ایک مقصد ہے،
        اساطیر الیہود کاا ردو ترجمہ اگر آپ اپنے بلاگ پر لکھ کر لگا سکیں اپنی سہولت کے مطابق تو ہم آپکے ممنون اور مشکور ہوں گے!

        1. قبلہ یہ ترجمہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہدہد ایک پرندہ ہے، اصل قرآنی متن میں کہاں لکھا ہے کہ ہدہد پرندہ ہے اور یہ کہ وہ اُڑ کر بلقیس کے پاس گیا تھا؟

          یہ گورکھ دھندا ہے میاں اس چکر میں نہیں پڑو :))

          اساطیر الیہود کا اصل انگریزی ہے اور میں نے اس کا ربط بھی دے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو انگریزی ضرور آتی ہوگی، چار جلدوں کا ترجمہ کرنا خالہ جی کا گھر نہیں اور ویسے بھی جب دوسری زبان سے ترجمہ تیسری زبان میں آئے گا تو اس کا ککھ نہیں بچے گا..

          1. مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیجیئے کہ طیر پرندے کو نہیں کہتے تو پھر کس کو کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟

  10. عمران اقبال صاھب پہلے اپنی خبر تو لیں بعد میں دوسروں کی لیجئیے گا.
    یہ ایک صاھب نے بنگال والے واقعے کی مثال دی لیکن خیانت کرتے ہوئے انہوں نے باقی کی تفصیلات دینے سے گریز کیا کہ میں نے اسکے جواب میں کیا لکھا تھا. کیا منافق کی پہچان یہ نہیں کہ امانت میں خیانت کرے. دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی میں نے افتخار صاھب کی اسکندر مرزا والی غلطی میں تصحٰح کی انہوں نے اسے صحیح کرنے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ میں نے انہیں جھٹلایا. یہی نہیں ابھی ہی میں نے انکی تصحیح کی کہ ممی بنانے میں نمک استعمال ہوتا ہے مگر انہوں نے اسے کسی قابل نہیں سمجھا. وہ آپکے گروہ کے سردار اعلی ہیں . ابو شامل کے بلاگ پہ میں نے ایک دفعہ شاہنواز فاروقی کی تصحیح کرنے کی کوشش کی لفظ بابو کے استعمال پہ. اسکے لئے تمام حوالے دئیے لیکن جناب ابو شامل سے لیکر اس گروہ کے دیگر افراد بھی اسے ماننے سے انکاری رہے.
    یہ تو چند ایک چیزیں ہیں جو مجھے یاد آگئ. اسکے علاوہ درجنوں چیزیں ہیں جنکی میں تصحیح کرتی رہی مگر صاحبان ایمان اور وہ لوگ جنہیں چوتھا کلمہ پکا یاد ہے وہ سب کبھی ان کو صحیح کرنے پہ تیار نہ ہوئے.کیا مجھے یہ حق حاصل ہو گیا کہ میں آپ سب کو بونگیاں مارنے والے چول کہوں، جو اپنے آپکو درست کرنے کے بجائے دوسروں کے اوپر بھیڑئیے بنے رہتے ہیں. اور ساتھ میں خدا کی کتاب کو استعمال کرتے ہیں. تف ہے آپ سب لوگوں پہ. خود بدلتے نہیں اور دنیا کو بدلنے کی بات کرتے ہیں. خود شرماتے نہیں اور دوسروں کو حیا دلاتے ہیں. بے شرموں کے لئے کوئ شرم نہیں یہ انگریزی کا مقولہ ہے مگر ان خود ساختہ مومنوں کے لئے ایک دم درست.
    قصص القرآن پہ یہ بات خاصی حیرتناک ہے کہ لوگوں کو یہ ماننے میں تامل ہے کہ انکا تذکرہ پہلے کی الہامی کتابوں میں ہو چکا ہے. آدم کی پیدائیش کیا بائبل میں نہیں، کیا حضرت ابراہیم کا قصہ بائیبل میں نہیں، کیا حضرت موسی کا قصہ موجود نہیں،کیا حضرت نوح کا قصہ موجود نہیں، کیا ھضرت عیسی کا قصہ نہیں ہے. قرآن کے اپنے قصے بھی ہیں جن میں حضرت یوسف علیالسلام کا قصہ ہے جس پہ قرآن کی ایک پوری سورت موجود ہے اور یہ وہ قصہ ہے جو بہت تفصیل کے ساتح تفصیل بیان کیا گیا ہے. حضرت عیسی کو اٹھا لیا گیا یہ قرآن کا کہنا ہے بائبل میں وہ شہید کر دئیے جاتے ہیں
    حضرت آدم کے جنت سے نکالے جانے کا واقعہ کے بارے میں قرآن میں بہت محدود سا بیان ہے اور اس میں اس قسم کی جتنی بھی باتیں ہیں کہ شیطان مور کے پیروں میں بندھ کر آگیا یا وہ گندم یا سیب کا درخت تھا یہ سب تفاسیر میں ملتا ہے. قرآن میں نہیں. حتی کہ حضرت حوا کی پیدائیش آدم کی پسلی سے ہوئ یہ بھی قرآن میں نہیں ہے.قرآن میں موجود یہ قصے تاریخ کے ضمن میں نہیں ہیں بلکہ سبق کے لئے ہیں.
    سبق جو ان مومنین میں سے کوئ نہیں لے گا. لے ہی نہیں سکتا کیونکہ انکی نیتوں میں فتور ہے.

    1. محترمہ آپ سے کس نے کہا ہے کہ جو کچھ تفاسیر کی کتب میں ہے وہ درست ہے، بہت سے لوگوں نے تفسیر لکھتےہوئے آپ کی طرح چسکے کے لیے اور اپنی علمیت جھاڑنے کے لیے اسرائیلیات کے قصّوں کو اپنی تفاسیر میں شامل کیا ہے. ان پر شک کرنا تو جائز ہے لیکن جتنا کچھ قرآن میں ہے اس پر شکوک و شبہات چہ معنی دارد؟

      حال یہ ہے قرآن کی سورۃ کے بارے میں علم نہیں اور چلیں ہیں قرآن کے قصوں پر تنقید کر نے، نوح علیہ السلام کی عمر کو غلط قرار دینا اور پھر درپردہ قوم عاد کے لوگوں کے قد کاٹھ جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں پر شکوک کا اظہار. دوسروں کی نیتوں میں فتور ڈھونڈھنے سے پہلے اپنے کردار کا جائزہ لے لیتیں. کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.

      1. عنیقہ کم سے کم ان اعتراض کرنے والوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار شخصیت ہین اس کا مجھے یقین ہے ،
        ان لوگوں کی بے شمار باتوں کو انہوں نے دلائل کے ذریعے غلط ثابت کیا ہے اور آج اگر ان سے ایک بھول ہوگئی بحیثیت انسان تو اس سے انکا رتبہ ہر گز ہر گز ان جاہلوں سے کم نہیں ہوسکتا،
        البتہ ان جلے بھنے احمقوں کو اپنے بدلے نکالنے کا موقع مل گیا،
        اس کے لیئے انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ اللہ نے انہیں ایک موقع عطا کیا اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا،ورنہ ان حضرات کے علم کی کیا حقیقت ہے وہ ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے!!!!!

      1. آپ خوش رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس خوشی میں یہ بھی بتادیں اب جبکہ آپ تفسیروں کا ہی حوالہ دے رہے ہیں تو ۔۔۔۔ اور میں نے سنا ہے کہ آپ ہیں بھی بڑے عربی دان ۔۔۔۔ سورة العنکبوت کی آیت ۱۴ کی آپ کے نزدیک ترجمہ و تشریح کیا ہے ؟

        1. بات یہ ہے کہ آپ امت کے بڑے بڑے مفسرین ومترجمین کو چھوڑ کر اس ناچیز سے ہی کیوں اس آیت کا ترجمہ وتشریح چاہتے ہیں؟ آپ مجھ پر یقین کیوں کریں گے؟ اگر میں ترجمہ میں ڈنڈی مار گیا تو؟ مجھ پر تو ویسے بھی یارانِ تیزگام کفر وجہالت کا الزام لگاتے ہیں، مگر میری باتوں کو دلیل سے رد کرنے کا کشٹ نہیں اٹھاتے، یہ تکلف عثمان جیسے لوگ کرتے ہیں جو ان پڑھے لکھے علماء کے عتاب کا شکار رہتے ہیں.. بہتر ہے آپ انہی سے رجوع کریں ہم تو ویسے بھی جھوٹے ٹھہرے ہیں…

          1. بھئی میں یہاں کسی کو پکڑ کر لاتا تو ہوں نہیں کہ آئیں میرا بلاگ پڑھیں، اگر کسی کے ایمان کو ایسی تحریروں سے خطرہ لاحق ہے تو وہ انہیں پڑھنے کی بجائے ” قرآنی آیات اور سائنسی حقائق ” جیسی جعلسازی پر مبنی کتابیں پڑھ کر اپنا ایمان تازہ کر لیا کرے، ان کی جنت اور میری جہنم یقینی ہوجائے گی.. 🙂

          2. اسکا مطلب آپ جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں وہ دانستہ لکھ رہے ہیں اور جس کا سراسر مقصد لوگوں کے زہنوں کو منتشر کرنا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ آپکو اور ہم سبکو آپ سے اور آپ جیسے لوگوں کی پر فتن باتوں سے بچائے

  11. نظریہ ارتقاء طبعی خواص کے لحاظ سے جانداروں کو کمتر اور بدتر میں تقسیم نہیں کرتا۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق جاندار پرنسپل آف نیچرل سلیکشن کے زیر اثر طبعی طور پر ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ تبدیلی اس طور ہوتی ہے کہ اسے آپ "پچیدہ” کہہ سکتے ہیں ، کچھ دوسری صورتوں میں "سادہ”۔ مثلا نینڈر تھال جو کہ موجودہ انسانوں کا "کزن” ہے اب سے تیس یا پچاس ہزار سال قبل مشرقی ایشیا اور یورپ میں آباد رہا ہے۔ نیڈر تھال کلی طور ہومو سپینز نہیں تھا۔ البتہ ہوموسپینز (انسان) اور نیڈرتھال کے آباؤ اجداد ایک ہی species میں سے تھے۔ نیڈر تھال جسمانی طور پر انتہائی مظبوط تھا۔ یعنی اس کے کچھ طبعی خواص موجود انسانوں سے بہتر تھے، کمتر نہ تھے۔ عقلی طور پر بھی وہ بالکل فارغ نہ تھا۔ بالکل پتھروں اور ہڈیوں سے خوبصورت اوزار بنانا جانتا تھا۔ غاروں پر تصاویر اس کی آرٹ سے دلچسپی کا ثبوت ہیں۔ محققین کے مطابق اس میں بات چیت کرنے کی بھی محدود صلاحیت تھی۔ نینڈر تھال کی مثال دو باتیں ثابت کرتی ہے:
    ۱) انسانوں کی قدیم اقسام جسمانی طور پر کم تر نہ تھی۔ بالکل ممکنہ طور پر بہتر طبعی خواص رکھتی تھیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی اوسط عمر بھی موجودہ انسانوں سے بہتر ہوسکتی ہے۔
    ۲) اگر نینڈر عقلی لحاظ سے اس قابل ہوسکتا ہے کہ آرٹ وغیرہ سمجھ سکتے اور بات چیت کرسکے تو وہ اس قابل بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کی واحدانیت کا پیغام سمجھ سکے اور اچھائی برائی کے چند ابتدائی اصول سیکھ سکے۔ اگر نیڈر تھال اس قابل تھا تو اس کا ہم عصر قدیم انسان تو کہیں بہتر حالت میں ہوسکتے ہیں۔
    پس ثابت ہوا کہ قدیم انسان جسمانی طور پر بہتر بھی ہوسکتے ہیں اور عقلی لحاظ سے بھی اس قابل ہوسکتے ہیں کہ خدا کی واحدانیت اور اچھائی برائی کا سادہ سبق سیکھ سکیں۔
    مزید برآں یہ کہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخ مختص نہیں کررہا۔ بلکہ یہ آپ ہیں جو نوح علیہ السلام کی زمانے کی تخصیص کررہے ہیں۔ میں آپ کے مفروضہ کو غلط ثابت کررہا ہوں۔ بھلے میں نے اپنا دعویٰ سو فیصد ثابت نہ کیا ہو لیکن کم از کم میرا مفروضہ آپ کے مفروضہ سے کہیں بہتر حالت میں ہے۔ آپ کے مفروضہ کی بنیاد کیا ہے؟ قدیم تفاسیر۔ میں مفسرین کا مقلد نہیں۔ اگر طوسی ، ابن کثیر یا مودودی نے کوئی تشریح پیش کی تو وہ میرے لئے حجت و دلیل نہیں۔ مذکورہ لوگ جدید سائنس سے لاعلم تھے۔
    ہدہد والے معاملے کی وضاحت تو ہوچکی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کوئی پرندہ ہو۔ قوم جنات یا کسی اور مخلوق سے بھی کوئی جاندار ہوسکتا ہے۔
    اب آئیے علم وحی کی طرف۔ وحی معلوم علوم و اسباب سے متصادم نہیں ، بلکہ فطری علوم اسباب کی ایک ایسی ایکسٹینشن ہوسکتی ہے جو عام انسانوں کی نظروں سے مخفی ہو۔ اب اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ علم وحی کو بذریعہ استدلال کیسے اپروچ کیا جائے تو اس کا جواب جو میری ناقص عقل کو سمجھ آتا ہے وہ یہی ہے کہ صرف اتنا دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ آیا علم وحی سے بیان کردہ باتیں اسباب فطرت سے متصادم تو نہیں۔ یعنی اگر unfalsifiable ہی ٹھہرتی ہیں تو بھی بہت ہے۔ سائنس ، ریاضی اور منطق میں ایسی کئی مثالیں ہیں جو unfalsifiable ہیں لیکن سائنس انھیں کلی طور پر رد نہیں کرتی۔
    تو پھر چیونٹی کی باتیں حضرت سلیمان نے کیسے سنیں؟ اگر ثابت نہیں کیا جاسکتا تو غلط بھی نہیں ثابت کیا جاسکتا۔ علم وحی علوم کی ایک ایکسٹینشن کے طور پر موجود ہے تو اسے اس کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس پر مزید تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔
    جہاں تک پرانی الہامی کتب کے قصوں کا تعلق ہے۔ تو بھلے وہ چوری شدہ ہوں یا نہ ہوں۔ اگر قصوں میں کچھ سچائی ہے۔ اور وہ واقعات رونما ہوئے ہیں اور قرآن نے انھیں درستگی کے ساتھ بیان کردیا تو قرآن کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ہی نے پرانی کتب میں وہ واقعے بیان کیے جو ارد گرد کی تہذیبوں میں رونما ہوئے۔ لیکن بائبل میں لوگوں نے اس کی جزویات کی تحریف کر کے خراب کر ڈالا۔ اور اللہ نے پھر سے ان میں سے کچھ کو درستگی کے ساتھ قرآن میں بیان کردیا۔ اس طرح قرآن کی حقانیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور آپ کا اعتراض پھر غلط ہوجاتا ہے۔
    جن کتب کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، پہلی ہی فرصت میں لائبریری سے ڈھونڈ کر ان کی ورق گردانی کی کوشش کرتا ہوں۔

    1. آپ کے دلائل میں شروع سے ہی ایک سقم آرہا ہے جس سے میں جان بوجھ کر صرفِ نظر کرتا آیا ہوں، بات یہ ہے کہ جب آپ نظریہ ارتقاء کو تسلیم کر لیتے ہیں تو سارے ابراہیمی مذاہب کا خود بخود انکار ہوجاتا ہے کیونکہ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے قصے کو فِٹ کرنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچتی جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ مذاہب خود انسان کی اپنی تخلیق ہیں، اب یہ نہ کہیے گا کہ آدم بندر تھے اور زمین پر آکر ارتقاء کرتے ہوئے اس شکل کو پہنچے یا وہ پہلا پُر اسرار خلیہ تھے جس سے سارے جانداوں نے ترقی کی 🙂

      اب آتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام کی طرف، اب چونکہ آپ ابراہیمی مذاہب کا یہ اعتراف کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر ساتھ ہزار سال پہلے اتارے گئے تھے سے انکار کرتے ہیں چنانچہ میں آپ کا یہ اعتراف کہ ” فی الوقت قدیم ترین انسانی فوسل ایک لاکھ پچانوے ہزار سال پرانا ہے ” اور یہ اعتراف کہ ” اگر نینڈر عقلی لحاظ سے اس قابل ہوسکتا ہے کہ آرٹ وغیرہ سمجھ سکتے اور بات چیت کرسکے تو وہ اس قابل بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کی واحدانیت کا پیغام سمجھ سکے اور اچھائی برائی کے چند ابتدائی اصول سیکھ سکے ” یہ مان لیتا ہوں کہ پہلا نبی ایک لاکھ پچانوے ہزار سال پہلے آیا تھا تاکہ ان زیرِ ارتقاء انسانوں کو اچھائی اور برائی کے چند ابتدائی اصول سکھا سکے، اب حدیث کہتی ہے کہ خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، چلیے تھوڑی سی سادہ ریاضی استعمال کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو آپ کے ایک لاکھ پچانوے ہزار پر تقسیم کردیتے ہیں تو نتیجہ ہوگا ” 1.57 ” !! یعنی اوسطاً ایک نبی سے زیادہ روزانہ!؟ کیا یہ معقول بات ہے؟ اب اگر حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تسلیم کر لی جائے تو اس طرح صرف ان کی زندگی میں کتنے نبی آئے ہوں گے؟ اور اس صورت میں انبیاء کی اس فوج کی کیا وقعت رہ جاتی ہے جبکہ دنیا کی زیادہ تر آبادی اب بھی گمراہی کا شکار ہے اور راہِ راست پر نہ آسکی؟ اور کیا یہ خدا کی ناکامی نہیں؟ اور ایک ناکام اور اپنی مخلوق کے سامنے عاجز خدا کی کیا اہمیت ہے؟

      میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ کس کس چیز کو عقلیائیں گے… 🙂

      اب یہاں آپ کے ایک اور دلچسب اقتباس پر تبصرہ کرنا چاہوں گا جس میں آپ فرماتے ہیں کہ: ” اگر طوسی ، ابن کثیر یا مودودی نے کوئی تشریح پیش کی تو وہ میرے لئے حجت و دلیل نہیں۔ مذکورہ لوگ جدید سائنس سے لاعلم تھے۔ ”

      آپ کی بات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ چونکہ وہ پرانے مفسرین جدید سائنس سے لا علم تھے چنانچہ قرآن کی تشریح جدید سائنس کےحساب سے ہونی چاہیے!! اس سے قطع نظر کہ قرآن میں سائنسی معجزے ہیں یا نہیں، اگر آپ کی بات مان لی جائے تو لازماً کسی مخصوص آیت کی پرانی تشریح ساقط کرنی پڑے گی اور اس کی جگہ نئی اور تازہ ترین سائنسی تشریح فِٹ کرنی پڑے گی، اس صورت میں قرآن میں اور سابقہ مقدس کتابوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ آپ کہتے ہیں کہ سابقہ کتابوں میں تبدیلیاں کردی گئیں، تو کیا قرآن تبدیلی سے بچ سکا؟ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہی ہوئی اور وہ جوں کا توں ہے، لیکن اگر ذرا گہرائی سے غور کیا جائے تو قرآن محض اپنے الفاظ کی حفاظت کر رہا ہے معانی کی نہیں تو پھر اس میں اور سابقہ تحریف شدہ کتابوں میں کیا فرق رہ گیا؟

      علم وحی کی جہاں تک بات ہے تو اول تو یہ کوئی علم نہیں ہے، دوم یہ کہ انبیاء کی حد تک وحی صرف خدا اور اس کے نبی کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہے، ایک آدمی اور چیونٹی کے درمیان بات چیت اگر بفرضِ محال ممکن ہو بھی تو اسے کسی صورت وحی بہرحال نہیں کہا جاسکتا، اس طرح کے رابطے یا بات چیت کو ٹیلی پیتھی کا نام دیا تو جاسکتا ہے مگر یہ کوئی ثابت شدہ سائنس بہرحال نہیں ہے، بہر صورت اس پر آپ کی تفصیل کا انتظار رہے گا.

      رہی بات اسرائیلیات کی تو میرا خیال ہے کہ آپ معاملے کو سمجھ نہیں پا رہے، آرکیالوجی کہتی ہے کہ واقعہ ” ج ” عراق میں ” زید ” نامی شخص سے تعلق رکھتا ہے جس کے ثبوت کے طور پر اس کے پاس مادی اور واقعاتی دلائل بھی موجود ہیں کیونکہ آرکیالوجی سائنس کا ایک شعبہ ہے جو مادی دلائل سے بات کرتا ہے، تلمود کہتا ہے کہ واقعہ ” ج ” مصر کے ” موسی ” نامی شخص سے تعلق رکھتا ہے مگر تلمود کے پاس اس واقعے کی کوئی مادی دلیل نہیں ہے سوائے اس دعوے کے کہ وہ خدا کی طرف سے نازل کردہ مقدس کتاب ہے، قرآن اس واقعہ کے حوالے سے تلمود کی تصدیق کرتا ہے مگر اس کے پاس بھی سوائے اس دلیل کے کہ وہ خدا کی مقدس کتاب ہے اور کوئی دلیل نہیں ہے، یہاں سوال یہ ہے کہ کس کی بات ماننی چاہیے؟ یہاں اگر آپ کہیں کہ مقدس کتابوں کی بات ماننی چاہیے کیونکہ ” ان میں واقعہ تو بہرحال آرہا ہے” تو میں آپ سے کہوں گا کہ مادی ثبوت تو یہ کہہ رہے کہ واقعہ مقدس کتاب میں بتائے گئے مقام اور شخص کا نہیں ہے پھر آپ کس بنیاد پر مقدس کتاب کی بات ماننے پر تیار ہیں؟ آپ کی کتاب تو اصل واقعے کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مقدس کتاب کے مصنف کو اصل واقعے کا علم تھا اور اس نے واقعات کے نام اور مقام بدل کر اسے کاپی کیا ہے اور اب آرکیالوجی نے اس کے جھوٹ کا پردہ فاش کردیا ہے؟

      1. بات دراصل یہ ہے کہ جب آپ قصہ تخلیق آدم پڑھتے ہیں تو لاشعوری طور پر مجبور ہیں کہ اس کی سادہ ترین تشریح پر ہی اکتفا کریں۔ کہ جناب اللہ تعالیٰ نے مٹی گارے پانی سے پتلا بنایا ہوگا ، جیسے آرٹس کے طلبہ تخلیق کرتے ہیں۔ ہوا دھوپ سے اسے خشک کیا ، کچھ پڑھ کر پھونکا ہوگا اور پتلے نے آنکھیں ٹپٹپانا شروع کردی۔ پھر کسی فلمی کہانی کی طرح ایک شخص باغی ہوگیا اور عاشق و معشوق کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کے لئے اپنا مشن شروع کردیا۔ ٹائیں ٹائیں فش۔
        کیوں بھئی ؟ اتنی سادگی کیوں ؟ جب ہم اپنی کائنات سے باہر دوسری دنیاؤں ، جنت ، دوزخ اور عرش الہیٰ کی بات کرتے ہیں تو مشاہداتی تفصیلات اپنی کائنات سے گھڑنے پر کیوں مجبور ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے مٹی سے تخلیق کیا۔ کیسی "مٹی” ؟ نہیں جانتے۔ "تخلیق” کے یہاں کیا معنی ہیں؟ نہیں جانتے۔ تخلیق کرنے میں کتنا وقت لگا؟ کن کن تفصیلات سے وہ تخلیق گذری ؟ "پتلا” کیسا تھا؟ ابتدائی حالتیں کیا تھیں ؟ "پھونک” مارنے سے کیا مراد ہے؟ "پھونک” کی ماہیت کیا تھی؟ پھونک مارنے سے قبل اور پتلے کی ابتدائی تخلیق کے درمیان جملہ تفصیلات کیا ہیں ؟ ان تمام مرحلوں میں کتنا کتنا وقت لگا ؟ پھر فرشتوں اور ابلیس کی ماہیت ، ان کے عمل کی حقیقت ؟ ان تمام باتوں کی تفصیلات ہمارے پاس موجود نہیں۔ کیا خدا کو اس حقیقت اور جزویات کی انتہائی تفصیلات بتانا ضروری ہے ؟ اگر پس پردہ پچیدہ سائنسی تفصیلات بتا دیتا ، تو کیا لوگ سمجھ پاتے ؟ کیا قصہ کو قرآن میں بیان کرنے کا مقصد اس کی تخلیقی تفصیلات سے آگاہی دینا تھی یا کوئی سبق دینا مقصود ہے؟
        پھر حیاتیاتی ارتقاء بڑی حد تک طبعی تبدیلیوں کی بات کرتا ہے۔ ذہن ، شعور ، ضمیر ، روح وغیرہ کو کلی طور پر موضوع بحث نہیں بناتا۔ تمام ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شعور انسانی محض دماغ اور اعصاب کی Manifestation ہے۔ فلسفیوں سے لے کر سائنسدانوں تک غیر مذہبی محققین کے کئی گروہ آج بھی شعور کا جزوی ماخذ غیرہ مادی تصور کرتے ہیں۔ Philosophy of Mind اور Artificial Intelligence نے اب تک شعور کو مادے کے تابع ثابت نہیں کیا۔ اگر ایسا ہے تو پتلے کی تشکیل کو انسانوں کے ارتقاء کے مماثل تصور کیا جاسکتا ہے۔ "پھونک مارنے” کا عمل غیر مادی شعور کو مادی جسم میں داخل کرنا ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں وقت کا دورانیہ محض ایک لمحے کے بجائے ایک طویل عرصہ ہوسکتا ہے۔ قرآنی آیات یہاں آپ کے اعتراض کی زد سے پھر بچ نکلتی ہیں۔
        میں حدیث کے مداحوں میں سے نہیں ہوں۔ اس کے دفاع کی مجھے حاجت نہیں۔ ہر حدیث کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچنا ثابت نہیں۔ اس لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے ہندسے سے مجھے کوئی غرض و غایت نہیں۔ باقی اگر آپ انبیاء کی تعداد پر حیرت زدہ ہیں تو اتنا بتا دوں کہ قدیم انسان ٹولیوں کی صورت میں رہتے اور شکار کرتے تھے۔ اگر ایک ہی وقت میں سینکڑوں ہزاروں بستیاں ہیں تو بیک وقت وہاں انبیاء کی تعداد بھی کثیر ہوسکتی ہے۔ انبیاء کی کامیابی اور ناکامیابی ایک الگ موضوع ہے۔ پہلے ایک موضوع تو سمیٹ لیں۔
        قرآن اور قدیم تحریف شدہ الہامی کتب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قدیم کتب کے تو مختلف نسخے ہی ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جبکہ قرآن کا صرف اور صرف ایک ہی نسخہ ہے۔ آج کے دستیاب نسخے اور حضرت عثمان کے پاس موجود نسخے میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت عثمان کے پاس موجود نسخے اور اور اس وقت رسول اللہﷺکے دیے گئے نسخے میں تاریخ سے کوئی فرق اور تحریف ثابت نہیں۔ پھر تحریف کا الزام کہاں سے آگیا۔ اب یہاں "صنعا قرآن” والے بودے مسترد شدہ پروپیگینڈے کا حوالہ نہ دیجئے گا۔
        لہذا قرآن کا ٹیکسٹ تو اپنی جگہ موجود ہے۔ اگر ہر دور میں انسان نے دستیاب علم و شعور کے مطابق اسے سمجھا ہے تو قرآن پر حرف کیسے آگیا ؟ سات آسمانوں کی اگر پہلے کمزور تاویلات پیش کئی گئیں اور آج اگر کوئی اسے ایکسڑا ڈائمنشن کے مماثل قرار دے تو قرآن پر حرف کیسے آیا؟
        وحی کی حقیقت میں آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ بے شک وحی خدا اور رسول کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خدا کسی بھی بات سے آگاہ کرسکتا ہے بھلے وہ چیونٹیوں کی گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کیسے اسے رد کرسکتے ہیں۔ علم و دریافت تو بڑھ رہی ہے۔ کیا معلوم اگلے زمانے میں لوگ وحی کی حقیت بھی کسی حد تک پا لیں۔ فیصلہ دینے میں جلدی نہ کریں۔
        اب پہلے تو یہ بتائیے کہ آرکیالوجی نے قرآن کے کس واقعے کو مسترد کیا ہے؟ اگر آرکیالوجی کسی معاملے میں خاموش ہے۔ اور قرآن مادی ثبوت فراہم نہیں کرتا (جو کہ اس کا مقصد بھی نہیں) تو تصادم کہاں سے پیدا ہوگیا؟

  12. طویل عمری اس سے کیسے ثابت ہے؟ 50000 ہزار سال میں یا ایک لاکھ سال میں عمر میں 800 برس کا فرق آجانا ممکن بات لگتی ہے؟ فی الحال میں کسی مفروضہ کے حق یا رد میں نہیں محض جاننے کے لیے سوال کررہا ہوں.

    1. جب لاکھوں سالوں میں‌ اتنی جسمانی تبدیلی آسکتی ہے کہ جاندار ایک نوع سے دوسرے نوع میں‌ تبدیل ہو جائیں ، تو ان کی عمر میں‌ تبدیلی کیونکر ناممکن ہے؟
      عمر کیا ہے؟ جسم کی موت.کیا ہر جاندار کی اوسط عمر ایک ہی ہوتی ہے ؟
      پھر دہرا رہا ہوں کہ مجھے سو فیصد ثبوت پیش کرنا کا دعویٰ‌نہیں. البتہ میں‌ وہ مفروضے رد کررہا ہوں جو عمر اور زمانے کو مختص کرنے پر مصر ہیں.

      1. 50ہزار یا ایک لاکھ سال میں ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیلی.. آپ نے بھی سکسر مارنے شروع کردیے 🙂
        میں تو کہتا ہوں سب سے آسان بات مان لی جائے کہ سال محض 40 دنوں تک محدود تھا.. پرابلم سولوڈ.. ڈپلومہ پلیز 🙂

        1. فی الوقت قدیم ترین انسانی فوسل ایک لاکھ پچانوے ہزار سال پرانا ہے. ممکن ہے کہ اس سے بھی قدیم انسانی فوسل دریافت ہوجائے. لہذا یہاں بات ہزاروں میں‌نہیں‌ لاکھوں سالوں میں ہورہی ہے.
          دوسری بات یہ کہ ارتقاء‌ کوئی جھٹکے سے یک دم نمودار ہونے والا فینومینا نہیں‌ہے. ارتقاء تو ہر دم جاری ہے. جب آئیندہ نسلوں میں‌ بہت سی ایسی تبدیلیاں‌ اکٹھی ہوجائیں‌ جو ان کے آبا کے خواص سے کافی مختلف ہو تو اسے ایک الگ نوع قرار دے دیا جاتا ہے.
          نیشنل جغرافک میگزین میں‌ ایک ایسا آرٹیکل بھی نظر سے گذر چکا ہے جہاں ایک جزیرے پر موجود کچھ چڑیوں کی چونچوں میں‌ طبعی حالات کے مطابق واضح‌ تبدیلی نوٹ کی گئی. وقت کا دورانیہ وہاں محض‌ چند دہائیوں پر مشتمل تھا!

          1. اگر انسانوں کی افریقہ سے پچھلے پچاس ہزار سال کی ہجرت پر نظر ڈالی جائے (اس بات سے تو اتفاق کریں گے کہ انسان افریقہ سے ہجرت کرکے ہی دنیا میں‌پھیلے ہیں؟) تو تبدیلی کا عمل انسانوں کی حد تک کافی سست ہے. اور اگر اس بات پر بھی اتفاق ہو کہ دولاکھ سال قبل ہی جدید انسان ارتقاء پذیر ہوا ( ڈیم یو وکی پیڈیا) تو آپ نہیں سمجھتے کہ محض سبزے کے پیچھے پیچھے بھاگتے عمر میں اتنا فرق ثابت کرنا خاصا مشکل ہوگا؟ آپ کے ہی بنیادی نکات پر توجہ مرکوز کی جائے اور ایک لمحے کے لیے عقیدے اور ایمان کے عقل پر اثرات صفر تصور کر لیے جائیں تو لاکھ سال پہلے انسان کی عمر کے بارے میں آپ دو آپشن میں سے کس کا چناؤ کریں گے؟
            1. کم و بیش موجودہ عمر یا اس سے دوگنی یا چوگنی
            2. دس گنا زیادہ اوسط عمر؟
            آخری تبصرہ.. یہ دلچسپ موضوع تھا.. کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا مقصود نہیں تھا 🙂

  13. جہاں تک میں آپ کا مخمصہ سمجھا ہوں وہ یہ کہ آپ کو اس بات پر حیرت ہے کہ "مختصر مدت” میں اوسط عمر میں اتنی تبدیلی کیسے آئی؟ یہاں میں ایک لمحہ رک کر آپ سے سوال کرتا ہوں: کتنی مدت مذکورہ معاملے میں آپ کے لئے تسلی بخش ہوگی؟ کیا دو لاکھ نہیں تو بیس لاکھ پر اتفاق کرنا چاہیں گے؟ آپ کا "مطلوبہ نمبر” کیا ہے ؟ کچھ دوسری انواع میں مختصر مدت میں جسامت میں کئی گنا تبدیلی آتی دیکھی گئی ہے۔ تو پھر عمر کے معاملے میں ہچکچاہٹ کیوں ؟
    اور اگر مسئلہ نمبر گیم نہیں ، صرف ایک عجیب تبدیلی کے رونما ہونے پر حیرت ہے۔ تو یقنناً حیرت تو اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ انسان ، مچھر ، مچھلی ، پھول پودے سب ایک دوسرے کے حیاتیاتی "کزن اور رشتہ دار” ہیں۔ اور یہ حیرت انگیز تبدیلی کھربوں نہیں بلکہ کروڑوں سال میں رونما آئی۔ کیا کروڑوں کا نمبر آپ کو مذکورہ عجیب و غریب تبدیلی کے لئے حیران کن نہیں لگتا؟ کیوں یا کیوں نہیں ؟
    یقیناً اس قضیہ کا ایک "آسان” سا منطقی حل ہے۔ کہ میں ایک ایسا انسانی فوسل برآمد کروں جس کی اوسط عمر سینکڑوں سالوں پر محیط ہو۔ یا پھر آپ ایسے ناقابل تردید ثبوت لے آئیں جو یہ ثابت کردیں کہ مذکورہ دعویٰ فطرتاً ناممکن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی کام خالہ جی کا گھر نہیں۔ لہذا نتیجہ دینے کی طرف بھاگیں نہیں ، ثابت کرنے کا بار بہرحال ثابت کرنے والوں ہی کے سر ہے۔
    میرے پرسکون تبصرے کم از کم اس بات کا ثبوت ہیں کہ میرے جذبات کو یہاں کوئی عمل دخل نہیں۔ ہوتا تو کچھ بے نقط سنا کر کب کا بھاگ چکا ہوتا۔

    1. تمام پڑھے لکھے سمجھدار لوگ ،اسی طرح جذباتیت سے دور رہ کر ہر نازک سے نازک معاملے پر بحث کر سکتے ہیں ،
      اس سے کم سے کم یہ توثابت ہوہی رہا ہے!
      🙂
      اور اسطرح کر کے وہ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج بھی نہیں کرتے ،
      ایک اور خوش آئند و قابل تقلید بات!
      🙂

    2. میری عرض تو اتنی ہے کہ زیر بحث انسان نے آگے چل کر "ایکسٹریم انجینیرنگ” کا بار اٹھانا ہے اس لییے یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ کتنا پیچھے جانا چاہتے ہیں :)۔

      یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہم ایسے انسانوں کی بات کررہے ہیں جہاں معاشرے موجود ہیں بلکہ "تفنن” اور "طبرہ” اڑانے کی ذہنی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اب آپ کی پچھلی کسی پوسٹ سے مستعار لوں کہ "کس مفروضہ میں زیادہ جان رہ جائے گی”۔ کیا اب تک کے دستیاب کسی انسانی ڈھانچے یا فاسل کو دیکھ کر کسی نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ ایک بچے کا فاسل ہے جسکی عمر لگ بھگ دو سو سال ہے اور جنگ میں مارا نا جاتا تو آٹھ سو سال مزید جیتا 🙂 اب ساڑھے تین فٹ کی "لوسی” کو آپ کیوں ہزار سولر سال تک زندہ رکھنے پر مصر ہیں؟ عقیدہ ؟ (چلتے چلتے عرض کروں کہ لوسی ایک بالغ عورت تصور کی جاتی ہے جس کی عقل داڑھ نکل چکی تھی بلکہ استعمال میں بھی تھی. کیا اس کو آپ میری طرف سے فاسل ریکارڈ مانیں گے؟)

      1. آپ "معاشرے” کی تعریف کو محدود کیوں کرتے ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ معاشرہ اسی آبادی میں ہو جہاں کاشت کاری اور تجارت ہوتی ہو؟ Hunting societies بھی تو معاشرے ہی کے ضمن میں آتی ہیں۔ نینڈر تھال کی مثال لیں تو یہ خواتین حضرات کھانا پکا کر کھاتے تھے۔ کچھ بات چیت کرسکتے تھے۔ ایک دوسرے سے اپنے جذبات بانٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے. آرٹ سے شغف فرماتے تھے۔ اپنا بدن ڈھانپنا اور کنگھی کرنا جانتے تھے۔ جنسی عمل کے لئے گوشہ نشینی کا بھی رحجان تھا۔ کیا ان کی آبادیوں میں آپ کو ایک پری میچور معاشرے کے آثار نظر نہیں آتے۔ تفن و طبرہ تقریر سے لے کر ہاہا کار .. کسی بھی صورت میں ہوسکتا ہے۔
        لوسی کے متعلق آپ نے جو کہا ہے وہ محض Phase of Life کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا بغیر کسی شماریاتی غلطی کے یہ بات ثابت ہے کہ عقل دھاڑ کے استعمال کے وقت لوسی کی عمر بیس برس تھی؟ مختلف انواع کے فیز آف لائف کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔ قدیم انسانوں کی مختلف انواع کے فیز آف لائف آج کے انسان سے مختلف ہوسکتے ہیں۔
        میری اس بحث میں شرکت کے پیچھے میری motivation میرا عقیدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نے اپنے عقیدے کو بطور استدالال آگے نہیں بڑھایا۔ اس لئے آپ کا آخری سوال بے معنی ہوگیا۔

        1. میں اس کو محدود اس لیے کرتا ہوں کہ آگے آپ نے ایک بڑی کشتی بنانی ہے اور اس میں زمین میں بسنے والی تمام یا کم از کم خشکی پر بسنے والی ایسپیسیز کا جوڑا جمع کرنا ہے. (ایکسٹریم انجینیرنگ اور ناقابل یقین صورت حال) اس لیے میں‌نے پہلے سوال اٹھایا کہ آپ وقت میں کتنا پیچھے جاکر اس بات کی توجیح پیش کرسکیں گے یا کس وقت کا انسان اس قابل ہوگا کہ اس طرح کی انجینیرنگ کرسکے. لوسی اور موجودہ انسان کے ڈھانچے پر نو سو برس تک کس طرح میٹا بولزم اور ایجنگ کے اثرات سہارتا انسانی جسم کھڑا رہے گا یہ آپ نے مجھے سمجھانا ہے کیونکہ اب تک کسی ریسرچر نے لوسی سے لے کراب تک انسانی عمر کے اتنے غیر معمولی طویل ہونے پر اصرار نہیں کیا اس لیے کہ اس کی بحث سوائے "مذہبی سائنسدانوں” کے کسی اور کا مسئلہ ہے ہی نہیں :).

          1. زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کو کشتی کی سیر کرانے کی ضرورت نہیں‌ ، محض کچھ مال مویشی کے جوڑوں‌سے بھی کام چل سکتا ہے. کس نے کہا کہ سیلاب کل روئے زمین پر آیا ؟ کسی بھی علاقے میں‌جب سیلاب یا کوئی آفت آئے تو اس علاقے کےبہت سے جاندار اور چرند پرند اپنا بچاؤ کرلیتے ہیں. اکثر و بیشتر انسان اور مال مویشی ہی قابو آتے ہیں. لہذا یہ انجینیرنگ اتنی "ایکسٹریم” بھی نہیں.
            میٹا بولزم کی تفصیلات میں‌ جانے کی ضرورت ہی نہیں‌ ، بالکل ایسے ہی جیسے فی الوقت دوسری انواع کی فزیالوجی اور میٹابولزم میں‌ اترنے کی ضرورت نہیں. میٹابولزم کے تجسس کے لئے آپ وہیل مچھلی اور کچھوے سے رجوع کرسکتے ہیں‌ جن کی عمر سینکڑوں سال تک ہوسکتی ہے. اگر کوئی قدیم انسانی نوع ایسی نکل آتی ہے جن کی عمر سینکڑوں سالوں‌پر ہو تو میٹابولزم کے معاملے میں‌ایسا اسرار بھی نہیں.
            میرے تمام مراسلے پڑھیے ، میں مذاہب کی حقانیت بذریعہ سائنس "ثابت” کرنے کے لئے کوشاں نہیں. صرف اس اصرار کو رد کررہا ہوں جس کو لے کر اینڈرسن شا صاحب اپنا آخری فیصلہ سنا چکے ہیں‌ یہ دیکھے بغیر کے راستے اور بھی ہوسکتے ہیں.
            یقینآ مذہب کسی نہ کسی حد تک اعتقاد ہی پر انحصار کرے گا. استدلال سے ہر چیز "ثابت” کردینا ممکن نہیں. اگر ایسا ہوتا تو یہ عظیم و قدیم جھگڑا ہی کیا تھا. دوسری طرف اندھے اعتقاد کی بھی گنجائش نہیں ورنہ pink elephants اور flying teapots پر بھی اعتقاد رکھنا پڑے گا. لہذا اس کے درمیان درمیان ہی چلنا پڑے گا. مذہب سے جان چھڑا کر بھی آپ کلی طور پر اعتقادات سے جان نہیں‌ چھڑا پائیں‌گے کہ یہ انسان کی گھٹی میں‌ پڑا ہے. جو حیات بعد از موت کے قائل نہیں‌ ، ان سے پوچھیے کہ کیا واقعی آپ کے جسم کی موت کے بعد آپ کی شخصیت فنا ہوجائی گی. اور یہ شخصیت بس یہ گوشت پوست اور مادہ تھا؟ .. اس کی تائید میں‌ تسلی بخش جواب کبھی نہیں‌آیا. آ ہی نہیں‌سکتا کہ آپ اپنے یقین اور اعتقاد کو اپنے مشاہدے تک کیسے محدود رکھ سکتے ہیںِ. شائد اعتقاد اور استدلال کے درمیان کہیں‌ نہ کہیں‌ لائن ڈرا کرنا ہے اور یہ لائن حسب توفیق ہر شخص کی اپنی ہے. شائد ایمان کی اہمیت وہیں پہنچ کر نمودار ہوتی ہے. ورنہ خدا تمام ثبوت یک لخت ڈھیر کر کے سب کو عاجز کردیتا. شائد جو حقیقت خدا نے ترتیب دی اس کا تقاضا ہی یہ ہو کو شعوری وجود ایمان کے حوالے سے کسی نہ کسی مخمصے میں‌رہے. اس پر مزید تفصیل پھر سہی.

        1. سولر سال کو تو محدود نہیں کرسکتا.. جب سولر کہہ دیا تو محدود کیسے کروں..
          لیکن کیا یہ سب سے آسان بات نہیں کہ "ایک اور سال” کی تعریف کچھ اور کرلی جائے چلیں اس معاملے میں کہتے ہیں کہ 20 زمینی کا ایک سال ہوگا.. اب عمر جتنی طویل کرنی ہے کرلیں کوئی اعتراض نہیں لیکن بائیولوجیکل 900 سال کا معاملہ عقیدہ ہی سلجھا سکے گا 🙂

          1. یہ تو الفاظ سے کھیلنے والی بات ہے. سال کو مہینہ اور مہینہ کو ہفتہ قرار دے دیں. بات ختم مسئلہ ہضم. 🙂

          2. کیا یہ سادہ حل نہیں کہ فرض کرلیں کہ سال کا حساب ایک ستارے کی حرکت کے مطابق تھا اور وہ ستارہ اپنی ایک مخصوص حرکت دو مہینے میں‌مکمل کرلیتا ہے.. کتنے مباحثوں سے نجات مل جائے عقیدہ بھی بچ گیا اور فالیسی کی بھی ایسی کی تیسی کرلی 🙂

  14. جناب اینڈرسن شا صاحب، آپ کی عقل کا بھی عجیب سا پیمانہ ہے۔
    کافی عرصہ پہلے نیشنل جیوگرافک چینل پر دیکھا۔..پروگرام شاید Built For The Kill تھا۔ اس میں کسی جنگل میں ایک بڑا سا مینڈک کسی چھوٹی چھپکلی کو کھاتا ہے…تھوڑی دیر گزرتی ہے..اچانک شکاری مر جاتا ہے…جبکہ شکار اس کے منہ کے راستے سے صحیح سلامت اس کے پیٹ میں سے نکل آتا ہے اور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے…
    اگر آپ کے معیار کے مطابق دیکھا جائے تو پھر تو شاید یہ بھی عقل کے مطابق نہیں ہوگا…

    1. خالد جج سے… جناب میرا یقین کریں میں نے یہ جرم نہیں کیا اور اشرف سے میری گواہی لے لیں
      جج .. لیکن میں اشرف کا اعتبار کیوں کروں
      خالد… اشرف کے کردار کی تو میں گواہی دینے کو تیار ہوں

      Circulus in probando

        1. غیب میں پسند 🙂 جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ لاجیکل توجیح سے بہتر ہے انسان دہریہ ہوجائے ورنہ وہ توجیح کے چکر میں کنٹراڈکشن کے ایسے پہاڑ کھڑے کردیتا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا "سرکلس ان پروباندو” کی مثال سے واضح ہے . سوال کہ یہ بحث کیوں کی گئی.. یہ ایک مشق ہے جو آپ کا زنگ اتارنے میں‌ معاون ثابت ہوتی ہے… جس سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ایک کتاب جو نا تاریخ کی کتاب ہے اور نا سائنس کی اس سے جب یہ دونوں‌چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کی جائے تو کس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

  15. (اب جو بات قرآن سے موافق ہو وہ حق اور جو موافق نہ ہو وہ تبدیل شدہ، تاہم یہ بظاہر منطقی سی بات درست معلوم نہیں ہوتی)
    ۔
    مکمل سمجھ نہ سکا کہ اس جملہ سے کیا مراد ہے ۔لیکن یہ کہ جن باتوں کا قران مجید نے تصحیح کی ہے تو ہو تو درست ہے ۔لیکن میرے خیال میں ضروری نہیں کہ قران نے ان تمام واقعات کی تصحیح کی ہو جو کہ تورات و زبور وانجیل میں بیان ہیں۔
    بلکہ جس واقعے کا قران مجید نے ذکر مناسب جانا تو اسکی تصحیح کرکے اسکو بیان کردیا۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (کئی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عہد نامہ قدیم کے اسفار میں جو قصے کہانیاں اور قوانین وارد ہوئے ہیں در حقیقت ان کا اصل سومری، بابلی اور آشوری تحریروں سے ہے)
    ۔
    میرے خیال میں تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اسلئے کہ تورات سے پہلے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ہیں۔ اور تورات سے پہلے مختلف صحیفے بھی نازل ہوئے ہیں ۔ لھذا ہوسکتا ہے کہ ان قوموں کے تاریخوں میں یا انکے قوانین میں اُن صحیفوں کا اثر باقی ہو۔ اور ان ما قبل انبیاء کے تعلیمات کے اثرات ان قوموں میں موجود ہو۔
    .
    ۔
    ۔
    ۔
    (یہودیوں نے ان میں سے جو انہیں اچھا لگا اسے اپنے ہاں نقل کر لیا اور جو انہیں اچھا نہ لگا اسے حذف کردیا)
    ۔
    میں تو یہ کہونگا کہ چلو ملحد نے تو اپنے الحاد کے سبب یہ اعتراض کیا کہ یہود کو جو پسند آیا تو وہ نقل کیا ، لیکن دراصل اس بات کا جواب یہ ہے کہ جو احکامات و واقعات بنی اسرائیل کو بیان کرنا مناسب سمجھا گیا تو انکا نزول تورات میں ہوا۔ اور اسی لئے معترض کو یہ اشتباہ پیدا ہوا کہ بنی اسرائیل نے اپنے ماقبل تھذیبوں سے پسند کی چیزیں نقل کی ہیں ،ھالانکہ معترض کو یہ بات معلوم نہیں کہ ان قدیم تہذیبوں کے تحاریر میں جو باتیں یا واقعات ہین تو یہ ان صحیفوں کے سبب ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے انکے طرف نازل کئے تھے ، اور ان صحیفوں کے اثرات ان قدیم تہذیبوں کے تحاریر میں پائے جاتے ہیں۔ اور جس خدا نے ان قدیم تہذیبوں کی طرف صحیفے اتارے تھے اسی خدا واحد نے تورات بھی نازل کیا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے احکامات و فرائض تمام امتوں کےلئے ایک جیسے ہیں ، صرف معمولی تبدل ہوتا رہتا ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (چونکہ تورات کی تدوین پانچویں اور آٹھویں صدی قبل از عیسوی میں ہوئی چنانچہ اس میں آشوری کہانیوں کا ہونا تعجب کی بات نہیں جیسے کہ نبی موسی (علیہ السلام) کا قصہ جسے اس کی ماں نے پانی میں بہا دیا اور وہ پانی میں بہتا ہوا ایسے لوگوں کے ہاتھ لگا جنہوں نے اسے پالا اور پھر وہ لیڈر بنا، تاہم یہ کہانی دراصل شاہ سرجون الاکادی کی ہے جس نے 2279 اور 2334 قبل از عیسوی حکومت کی).
    ۔
    قرآن مجید میں یہ بات کہیں بھی نہیں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام والا واقعہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ رونماء نہیں ہوگا، ہوسکتا ہے کہ حضرت موسی کی طرح کا واقعہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی ہوا ہو، کسی واقعے کا تکرار نا ممکن تو نہیں ہے۔

    لیکن تکرار کے سبب اس واقعے کی دوسری بار ہوجانا نہ تو پہلے واقعے کی حیثیت خراب کرتا ہے اور نہ دوسری بار ۔امید ہے میری بات سمجھ گئے ہونگے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (اسی طرح تورات میں بابلی قوانین بھی ملتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی بات قرآن میں بھی منتقل ہوئی)۔
    ۔
    وہی اوپر والا جواب کہ حمورابی قوانین یا بابلی قوانین خود ان تورات سے قبل خدائی نازل شدہ صحیفوں سے متاثر تھے ، اور اسی خدا نے تورات بھی نازل کی ۔لھذا معمولی تبدل کے ساتھ وہی بابلی قوانین نازل ہوئے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (مصر کے کسی بھی مؤرخ نے فرعون اور اس کی فوج کے ڈوبنے کے اس اندوہناک واقعے کا تذکرہ نہیں کیا)،
    ۔
    میرے خیال سے یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ اگر مؤرخ ایک واقعے کو نقل نہ کرے تو اس واقعے کے کا وجود ناممکن ہو۔مؤرخ کے نہ ذکر کرنے سے واقعے کا سچ اور جھوٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ( اسی طرح فرعون کا بنی اسرائیل کو غلام بنانے کا تعلق افسانوی خیال سے تو ہوسکتا ہے تاریخی حقائق سے نہیں، کیونکہ مصر میں غلامی نہیں تھی)
    ۔
    وہی جواب کہ تاریخ میں واقعے کا ذکر نہ ہونے سے کسی واقعے کے سچ یا جھوٹ کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خیال میں ایسا کوئی قاعدہ نہیں ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (ایسے ہی تورات کے مصنفین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ گھڑ کر اپنے حسب ونسب کو برتر واعلی ثابت کرنے کے لیے خیالی گھوڑے خوب دوڑائے اور ان کے لیے جن وانس کی فوجیں بنا ڈالیں حالانکہ آس پاس کی تہذیبوں کے مؤرخین کے ہاں اس شخصیت کا ایک بھی یتیم تذکرہ موجود نہیں ہے)
    ۔
    وہی اوپر والا جواب کافی ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہودیوں نے ان شخصیات کو بابلی تہذیب سے چرا کر قومی ہیرو بنانے کی کوشش کی)،
    ۔
    بابلی تہذیب کے بارے میں ، میں نے کہ دیا ہے کہ خود بابلی تہذیب آسمانی صحیفوں کے زیر اثر تھی اور تورات بھی ہمارے نزد آسمانی کتاب ہے لھذا لامحالہ دونوں کے ہیروز ایک ہوئے۔ کیا خیال ہے؟؟۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (موسی (علیہ السلام) نے فرعون کو شکست دی جو احمقوں کی طرح ان کے پیچھے اپنی فوج کے ساتھ ہولیا)
    ۔
    انسان کی کبھی کبھی مت ماری جاتی ہے جب اسکا اجل آجاتا ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (حقیقت یہ ہے کہ زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق تورات کی خرافات میں سے ہے)
    ۔
    اگر خرافات سے یہ مطلب ہو کہ یہی باتیں بابلی تہذیب میں بھی ذکر ہیں تو اسکا جواب ہوچکا ہے ، لیکن اگر یہ مطلب ہو کہ اسطرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تو اس بات سے انکار اور اسکا ثبوت ایک الگ موضوع ہے، جو کہ یہاں مناسب نہیں۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (قرآن میں انبیاء کے بیشتر قصے تلمود اور مدراش سے لیے گئے ہیں)
    ۔
    تلمود کی بات آپ نے کی تو جناب یہ درست ہے کہ قران مجید کے بعض واقعات تورات یعنی تلمود یا اسکے تفاسیر یعنی مدارش سے لئے گئے ہیں ۔مدارش میں جو قصے مذکور ہیں تو لامحالہ انہوں نے بھی ماقبل صحیفوں سے اسکو نقل کیا ہوگا یا موسی علیہ السلام کے بعد یہود کے درمیان آنے والے نبیوں کے رہن سہن کو دیکھ کر انہوں نے اپنی تفاسیر میں انکا تذکرہ کیا ہوگا۔

    اور درست اور سچے قصوں کا نقل کوئی غلط تو نہیں ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (ایک ہی آیت پر دونوں تفسیروں کا تضاد تو واضح ہے)
    ۔
    تفاسیر میں مین نے ایک بات دیکھی ہے کہ قصص و واقعات کے باب مین انہوں نے صحیح و ضعیف قول کا لحاظ نہیں کیا ۔ جس کے سبب دو تفاسیر کے دمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو اسرائیلی روایات کسی حکم یا امر کے ساتھ متعلق نہ ہوں بلکہ عمومی واقعات ہوں کہ احکامات سے اسکا کوئی تعلق نہ ہو تو اسکے ذکر میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔

    قران مجید نے اگر تلمود یا مدارش کے قصے نقل کئے ہیں ، تو اگر درست ہیں تو اسکو بغیر چھیڑے نقل کیا ہے لیکن اگر مدارش میں واقعے کے بیان میں غلطی ہوئی ہے تو قران نے اسکی تصحیح کرکے اسکو نقل کیا ہے۔ جیسے اصاعب کہف والا واقعہ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (یہی کچھ ہمیں قرآنی قصوں میں ملتا ہے جو تلمود اور مدراش سے منقول ہی)
    ۔
    اسکا جواب اوپر ہی ہوگیا۔ کہ اگر قران نے تلمود ومدارش سے واقعات کو نقل کیا ہے تو اگر واقعات میں مدارش میں غلطی ملی تو اسکو درست کیا گیا۔لھذا معترض کا یہ اعتراض باطل ہے کہ قران میں بھی انسانی ساختہ کہانیاں نقل ہیں۔کیونکہ ہم کہیں گے کہ قران نے نقل کرتے وقت ان غلط واقعات کی تصحیح کرکے نقل کی ہیں۔ نا کہ من وعن۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (قرآن سابقہ کتابوں میں موجود قصوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہے)
    ۔
    صرف ترجمہ نہیں بلکہ تصحیح شدہ ترجمہ ہے۔یعنی جہاں یہود و نساری نے کسی واقعے میں گڑبڑ کی تھی تو قران نے اس واقعے کی تصحیح کرکے نقل کیا۔ جیسے اصحاب کہف یا بابل شہر میں جادو والی بات ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (قرآن نے کچھ موجود قوانین کو جاری رکھا جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، المنمق میں آیا ہے کہ جاہلیت میں قریش چور کا ہاتھ کاٹتے تھے (13) اس طرح حج کی رسم جو کہ دراصل جاہلیت کے زمانے کی ہی ایک پرانی رسم ہے جس میں حاجی کثیر رقم ادا کر کے پتھر کے چکر لگاتا ہے، پتھر کو چومتا ہے، اور پتھر کو پتھر سے مار کر خدا سے اپنے سارے گناہ بخشوا کر واپس آجاتا ہے، اب اس مذہبی سیاحت سے کسے فائدہ پہنچتا ہے؟)
    ۔
    لگتا ہے یہاں مصنف یا معترض کچھ زیادہ جذباتی ہوا ہے۔ایک حکم اگر کسی جگہ قائم ہے اور اور قسمت سے یہ حکم امر الہیٰ کے موافق ہے تو اگر کل کو خدا کی طرف سے اس امر کو لازمی کہا جائے تو میرے خیال میں یہ صرف امر الٰہی اور اس رسم کی قدرتی موافقت ہوگی تاکہ نقل ، کہ گویا اللہ تعالیٰ نے قریش سے یہ رسم نقل کرکے اسکو امر لازمی بنا دیا۔

    اسی طرح حج کے بارے میں کہونگا کہ چلو مان لیا کہ یہ رسم جاہلیت ہے ، لیکن کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ ان جاہو ں کو کس نے یہ سکھایا کہ تم اسطرح کے افعال کیا کرو؟
    ظاہر ہے اگر یہ جاہل اسطرح کے اعمال و افعال کرتے ہیں تو لازمی طور پر یہ لوگ کسی تہذیب سے متاثر ہین کہ جس مین یہ افعال مذہبی درجہ رکھتا ہے ، اور وہ تہذہب وہی ابراہیمی صحیفوں والی تہذیب ہے کہ یہ قریش اس سے متاثر ہوکر حج کے افعال کیا کرتے تھے۔

    اب اگر اللہ تعالیٰ نے حج کو قران میں فرض کیا تو اسکا یہ معنی نہیں کہ اسنے قریش کے رسم کو امر کا درجہ دیا ، نہیں بلکہ یہ امر الٰہی پہلے سے قریش میں موجود تھا لیکن وقت کے گذرنے سے اسمیں بگاڑ پیدا ہوا تھا، لھذا اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اسی امر حج کی تصحیح کرکے فرض کردیا۔

    لھذا یہ اعتراض باطل ہے کہ یہ حج دراصل رسم جاہلیت تھا۔

    رہی مذہبی سیاست کی بات تو جناب انسان کو جس نے پیدا کیا ہے تو اسکو اسی ذات کا حکم ماننا ہوگا، چاہے اس پر اس کام کی حکمت کھلتی ہے کہ نہیں، مخلوق اپنے خالق کے سامنے عاجز ہے، لھذا اگر اس نے یہ مخصوص افعال کرنے کا حکم دیا تو چاہے ہنسے یا روئے اس نے عمل کرنا ہے۔ ہاں حکمت کیا ہے تو یہدنیا مین بھی معلوم ہوجائے ورنہ اخرت تو گئی نہیں ہے۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    (کیا عقل تسلیم کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایسی تمام خرافات ایمانیات کے زمرے میں تو آسکتی ہیں مگر عقلیات میں ہرگز نہیں کیا عقل تسلیم کرتی ہے)
    ۔
    دراصل عقل کی پرواز وہاں تک ہوتی ہے جہاں تک اسکی پہنچ ہوتی ہے ، لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ بس جہاں عقل رک گئی تو راستہ بھی ختم ،نہیں بلکہ کائنات بہت وسیع ہے اور ابھی بہت سا کام ہے عقل کےبلوغت کے واسطے۔

    بھائی جو ذات یہ دعوی کرتی ہے کہ میں نے نوح علیہ السلام کو پیدا کیا ہے جو کہ پہلے موجود ہی نہیں تھا، تو وہ ذات اسکو دیر تک زندہ نہیں رکھ سکتی؟

    جو ذات ہدہد کا خالق ہے تو اس سے بادشاہوں کی خدمت نہیں لے سکتا۔
    اسی طرھ یہ دوسرے واقعات بھی ہیں۔ یا تو بالکل اس ذات کا انکار کرنا پڑے گا جو کہ ہر چیز کا خلاق ہے اور یہ عقل نہین مانتی کہ یہ سب کام اپنے آپ ہوں، بلکہ ضرور کوئی اسکا نگرانی کرنے والا ہے، اور جب خالق مان ہی لیا تو یہ چھوٹے موٹےبواقعات اسکے سامنے کیا ہیں۔
    کیا خیال ہے عقل درست کام کر رہی ہے کہ نہیں؟ کچھ کہیں گے؟

  16. محترم اینڈرسن شا صاحب!
    اگر تو یہ سوچ اور خیالات آپکے ذاتی ہیں تو اللہ تعالی سے سچے دل سے راہ نمائ طلب کریں وہ ضرور راہ نمای فرمایں گے خلوص شرط ہے.( لیس للانسان الا ما سعی).
    لیکن اگر یہ سوچ اسلام کے ٹھیکے دا روں (پا کستان اور سعودیہ ) کے علما ء کو دیکھ کر آپ کے دل میں آئ ہے تو میں آپکے غم میں برابر کا شریق ہوں.اور صرف ایک بات کہوں گا :
    وَٱصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِ‌ۚ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ وَلَا تَكُ فِى ضَيۡقٍ۬ مِّمَّا يَمۡڪُرُونَ- النحل:127

  17. محترم فیضان صاحب، دوسری سائٹوں سے کاپی شدہ مواد یہاں پیسٹ کرنے سے اجتناب کیجئے۔ اپنے خیالات و معلومات خود اپنی تحریر میں لکھئے اور حوالے کے لئے بےشک لنک بھی دے دیجئے، آپکی طرف سے مزید کوئی بھی کاپی پیسٹ شدہ مواد حذف کر دیا جائے گا۔
    ذاکر نائک اپنے دلائل کی بنیاد ہی منطقی مغالطوں اور غلط تاویلات پہ رکھتا ہے، کبھی وقت ملا تو موصوف کے خیالات پہ بھی روشنی ڈالیں گے۔

جواب دیں

73 Comments
scroll to top