Close

خیر و شر، جبر و اختیار، اچھی اور بری تقدیر کا مخمصہ

خیر و شر، جبر و اختیار، اچھی اور بری تقدیر کا مخمصہ
سقراط(Socrates) نے ایک ایسا فلسفہ پیش کیا تھا جو ایک اٹل حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے، اس فلسفے کے مطابق ہر معلول(Effect) کی کوئی علت(Cause) ہوتی ہے، یعنی انسان اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کرتا ہے اس کے ہر ایک فعل کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، پیدائش کی وجہ انسانی اختلاط(Coitus) ہے جبکہ موت کی وجہ بیماری یا پھر حادثہ۔ پیدائش بغیر اس سے جڑی ہوئی وجوہات کے نہیں ہو سکتی اور نہ ہی بے وجہ موت ہو سکتی ہے۔ اب چاہے باغیچے میں اگنے والے پھولوں کی پیدائش کے پیچھے پریوں کا ہاتھ مانیں یا موت کو ملک الموت(عزرائیل فرشتے) کی ضرب کاری کا اثر، علت و معلول کے اس چکر سے نکلنا ناممکن ہے حتیٰ کہ مذہبی حلقوں میں اسی کو خدا کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کے پچھلے مضمون میں میں علت و معلول کے تسلسل پر جزوی طور پر روشنی ڈال چکا ہوں۔
ملّا اور پادری بارہا کہتے رہتے ہیں کہ تقدیر خدا کے ہاتھ میں ہے، پیدائش اور موت کا وقت متعین ہے آزمائشیں اور پریشانیاں خدا کی طرف سے آتی ہیں خدا قادر مطلق(Omnipotent) اور عالم کل(Omniscient) ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے مگر ہر گناہ انسان کا انفرادی فعل ہے اور اس کے گناہ میں خدائے نیک(Good God) کا کوئی ہاتھ نہیں، خدا کسی سے بدی نہیں کرواتا نہ ہی خود بدی کر سکتا ہے بلکہ ہر انسان اپنی خواہشات سے مجبور ہو کر گناہ کرتا ہے۔
ایک تمثیل پیش خدمت ہے جس سے ملتے جلتے واقعات ہم بارہا زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں:
“کنول کی شادی گلاب سے ہوئی، گلاب نشے کا عادی تھا، کمائی کرنے کے بجائے سارا دن نشے میں دھت رہتا، کام کاج اور محنت مزدوری سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، کنول کے ماں باپ اس کے گھر کا خرچہ چلاتے رہے، آخر کار اس کے ماں اور باپ مر گئے، اب کنول کی گود میں گلاب کے چار ننھے ننھے بچے تھے، وہ اپنے نکمے شوہر سے تنگ آ کر خود محنت مزدوری کر کے اپنے بچے پالنے لگی، اس کی بڑی بیٹی صنوبر ایک موذی مرض میں مبتلا ہو گئی، کنول کے پاس اس کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے، بیٹی کی بیماری اور لاچاری سے تنگ آ کر اس نے بچوں سمیت خودکشی کا سوچا مگر پھر خودکشی کو گناہ جان کر حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ جس کے ہاں کام کرتی تھی اس سے صنوبر کے علاج کے لئیے ادھار مانگا، پیسے مل گئے مگر کنول کو اپنا جسم بیچنا پڑا، اب اس کے پیٹ میں ایک ایسی زندگی پلنے لگی جس کا تعلق اس کے شوہر سے نہ تھا، کنول نے ایک بیٹی چنبیلی کو جنم دیا چند برس بعد اس کے شوہر کو اس بچی کے ناجائز ہونے کے بارے میں معلوم ہو گیا، اس نے کنول کی بدچلنی پر طیش میں آکر کنول اور اس کے بچوں کو قتل کر دیا۔ اور اس قتل کے جرم میں خود پھانسی چڑھ گیا”
تصورِ تقدیر کہتا ہے کہ تقدیر خدا کی لکھی ہوئی ہے، اس بارے میں مختلف مذاہب کے مختلف تصوراتِ تقدیر ہیں، مگر ایک چیز پر سب متفق ہیں کہ پیدائش اور موت کا وقت خدا کی طرف سے متعین ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کنول کی شادی ایک ایسے شخص سے کیوں ہوئی جو نشے کا عادی تھا، کیا یہ کنول کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا؟
قادر مطلق(Omnipotent) خدا کا مطلب ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہو یعنی کہ کائنات میں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا، یقیناً کنول اور گلاب کی شادی بھی اس کی مرضی کے مطابق ہی ہوئی، اور اگر اس کی مرضی کے برخلاف ہوئی تو خدا قادرمطلق کہلوانے کا حقدار نہیں ہے۔ اور اگر وہ قادر مطلق اور عالم کل ہے تو یہ شادی عین اس کی مرضی کے مطابق ہوئی ۔ یعنی خدا نے جان بوجھ کو کنول کو ایک نشے باز شوہر کے پلے ڈال دیا۔
مذہبی سوچ کے مطابق ہم اس شادی کو خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمائش کہہ سکتے ہیں۔ مگر اصل مسائل اس سے آگے شروع ہوتے ہیں، اب کنول کی بیٹی صنوبر کی بیماری؟ مذہب کے مطابق بیماری اور صحت بھی خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم سب نے سنا ہے کہ ”تندرستی ہزار تعمت ہے“۔ اب جب بیماری آئی تو یقیناً قادر مطلق خدا کی مرضی سے آئی۔
مگرکیا خدا اس بیماری کے محرکات سے بھی واقف تھا؟
یعنی اس بیماری سے جڑی ہوئی تمام مجبوریوں سے؟
کیا وہ جانتا تھا کہ کنول کی زندگی میں اس سے کیا طوفان برپا ہو گا؟
عالم کل خدا پر یقین رکھنے والے ایک مذہبی شخص کا جواب یہاں پر ‘ہاں’ ہی میں ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہاں پر جواب ‘نا’ ہے تو پھر اس کا خدا عالم کل اور قادرمطلق نہیں ہے۔
کسی عام صورتحال میں مذہبی شخص کہے گا عالمِ کل خدا ماضی حال و مستقبل تینوں سے واقف ہے۔ مگر منطق(Logic) سے معمولی واقفیت رکھنے والا کوئی بھی انسان اس کے جواب میں یہی پوچھے گا کہ سب جانتے بوجھتے بھی اگر وہ انسان کو اندھے کنویں میں گرنے دے تو انسان بے بسی کے اظہار کے علاوہ کیا کر سکتا ہے ؟ کیا مجبوری پیدا کر کے خدا نے جان بوجھ کر کنول کو گناہ میں نہیں ڈالا؟
خدا نے خود ہی تو جسم فروشی سے باز رہنے کا حکم دیا ہے، اور اس جرم کی کڑی سزا بھی اسی کی طرف سے رکھی گئی ہے، اور ہمیشہ مجبوری اور لاچاری کے باعث وجوہات بھی خدا ہی کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔
مزید دیکھتے ہیں کہ کنول کا زنا مجبوری سے یا پھر خوشی سے سرزد ہوا؟ اگر مجبوری سے سرزد ہوا تو اس مجبوری کی وجہ سنوبر کی بیماری بنی اور یہ بیماری خدا کی طرف سے آئی، یعنی کنول کے گناہ کی وجہ اول(First Cause) خدا بن گیا، اب اس گناہ کے نتیجے میں ایک زندگی کا جنم ہوا۔ جس کے باعث چنبیلی کی تقدیر کا مسئلہ منہ پھاڑ کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، اس بچی کی پیدائش کی وجہ دو لوگوں کا گناہ(ناجائز اختلاط) بنا اور پھر اس کی موت کی وجہ بھی قتل یعنی گلاب کا گناہ، اب ان دو گناہوں کے درمیان میں پھنسی ہوئی اس جان چنبیلی کی تقدیر بھی عالم کل اور قادر مطلق خدا ہی نے لکھی۔
مذہبی لوگ بڑے یقین سے کہہ دیتے ہیں کہ خدا بے حد نیک (Infinitely Good) ہے اور کسی سے گناہ نہیں کرواتا، چلیں چنبیلی کا قتل گلاب کا ہی گناہ تصور کر لیتے ہیں مگر چنبیلی کی تقدیر تو خدا نے ہی لکھی؟ فلسفہ تقدیر کے مطابق بالکل لکھی کیونکہ تقدیر لکھنے کے کسی دوسرے دعویدار کے بارے میں ہم نہیں جانتے تو ضرور خدا ہی نے لکھی، اور ہر انسان کی تقدیر ضرور ہوتی ہے جس کے مطابق چنبیلی کی پیدائیش اور موت کا وقت بھی خدا نے لکھا، مگر چنبیلی کی موت تو گلاب کے ہاتھوں ہوئی یعنی وہ موت کے اس متعین وقت پر ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا تھا؟ یہاں سے نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تمام نہیں تو کچھ گناہ خدا کی طرف سے تقدیر میں ہی لکھ دیئے جاتے ہیں جیسا کہ گلاب کی تقدیر میں چنبیلی کا قتل کیونکہ چنبیلی نے بحرحال اس وقت مرنا تو تھا ہی۔ یا پھر اس کے برعکس کہہ سکتے ہیں کہ موت کا وقت متعین نہیں ہے اور وہ خدا کی طرف سے نہیں آتی اور موت خدائی اختیار سے بالا تر ہے، مزید یہ کہ اگر موت خدا کے ہاتھ میں ہے تو خدا نے ہی چنبیلی کی تقدیر میں گلاب کے ہاتھوں قتل ہونا لکھا تھا، اگر صورتحال دوئم حقیقی ہے تو خدا کی  رقم کردہ تقدیر کے مطابق چنبیلی کی موت اسی طرح آنی تھی۔
اس قتل کی علت کی طرف آ جاتے ہیں اگر کنول زنا نہ کرتی تو چنبیلی پیدا بھی نہ ہوتی، یعنی اس کی پیدائش ہونی تھی اس لئے کنول نے زنا کیا اور چنبیلی خدا کی مرضی سے پیدا ہوئی یعنی چنبیلی کی قابل رحم زندگی کی وجہ اول بھی خدا ہی بن گیا، اب بہت سے سوالات ہیں:
کیا خدا نے صنوبر کو اس لئے بیمار کیا، کہ اس کی ماں سے ایک ناجائز اولاد پیدا ہو؟
یاگلاب نے اس لئے قتل کیا کہ اس ناجائز بچی کی موت آئی ہوئی تھی؟
کیا کنول نے زنا کر کے اپنی ہی موت کا سبب پیدا کیا؟
یا پھر گلاب نے قتل کر کے اپنی موت کا سامان پیدا کیا؟
کیا کنول کے والدین نے ایک نشے باز شخص سے اس کی شادی کر کے اس کی موت کا سبب پیدا کیا؟  کیونکہ نہ وہ یہ ناجائز بچی پیدا کرتی نہ اپنے خاوند کے ہاتھوں قتل ہوتی، نہ اس کا خاوند نشے باز ہوتا، نہ کنول مجبور ہوتی نہ گلاب قاتل بنتا۔ نہ گلاب کو کوئی نشے پر لگاتا نہ وہ ان مسائل کا شکار ہوتا۔ نہ خدا نشہ ور پودے پیدا کرتا، نہ لوگ ان سے نشہ آور اشیاء بناتے۔
اس صورتحال کو جس بھی سمت میں لے جائیں علت کا تسلسل چلتے چلتے خدا تک جا پہنچتا ہے اور خدا ہی برائی، ظلم اور مجبوری کی وجہ اول بن کر بار بار سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ خدا کا عالمِ کل ہونے کا دعویٰ اس کی پیدا کی ہوئی اجناس سے برائی کے تمام امکانات سے واقف ہونے کے باوجود ان کو پیدا کرنے کے باعث ان کی وجہ سے ہونے والی ہر برائی میں اس کو برابر کا شریک ٹھہراتی ہے۔ اب خدا عالم کل، قادر مطلق اور انتہائی نیک تینوں صفات بیک وقت نہیں رکھ سکتا۔ اسے کسی نہ کسی ایک چیز سے انکار کرنا ہو گا ورنہ خدائی کا احرام ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔
کہتے ہیں مجبوری ہی اصل گناہ ہے، کنول اگر مجبور نہ ہوتی تو شائد یہ سارے مسائل پیدا نہ ہوتے۔ طاقت اور اختیار بھی خدا کی طرف سے ہی دیا جاتا ہے، اب مجبوری اختیار کا متضاد ہے اور کمزوری طاقت کا مطلب مجبوری اور کمزوری بھی خدا کی طرف سے ہوئی، اور مجبوری گناہ کی وجہ بنی۔ مذہبی لوگ ان سب سوالات سے آنکھ چراتے ہیں۔ اصل میں دنیا میں برائی کا ہونا ہی خدا کی نفی کرتا ہے، کیونکہ اگر وہ ہر چیز پر قادر ہے تو برائی بھی اس کی مرضی کے برخلاف نہیں ہو سکتی، اور اگر ہو سکتی ہے تو وہ ہر چیز پر قادر نہیں ہے، اور اگر مجبوری اس کی طرف سے آتی ہے جو بعد میں گناہ کا باعث بنتی ہے تو خدا برگزیدہ کے بجائے شیطان کے لقب کا زیادہ حقدار ٹھہرا، اگر ایسا نہیں ہے تو وہ قادرہ مطلق نہیں ہے اور جو قادرِ مطلق نہ ہو اس سے دعا مانگنے کا کوئی فاعدہ نہیں۔
برائی، تقدیر اور نیک، قادر مطلق اور عالم کل خدا کا تعلق ایک ایسا اچنبھا ہے جس کو صرف ایک ہی صورت میں سلجھایا جا سکتا ہے خدا بیک وقت ان تمام خصوصیات کا حامل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سب خصوصیات ایک دوسری کی نفی کرتی ہیں، یا تو یہ مان لیا جائے کہ خدا نیک نہیں ہے بلکہ وہ برائی بھی کرتا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کو منصف بننے کا کوئی حق نہیں ، کیونکہ اس نے خود ہی انسان کی فطرت بنائی ہے کہ وہ گناہ کرے۔ بحرحال فرعون، ابوجہل، یہودہ اسکریوتی اور ہٹلر اسی نے پیدا کئے اور ان کی تقدیر بھی خود ہی لکھی کیونکہ کوئی انسان تقدیر کے بغیر پیدا نہیں ہوتا، مزید براں ان کو ظلم کا اختیار بھی دیا، یعنی ان دجالوں کا شکار انسان کی کسمپرسی اور بے بسی کا سامان خدا نے خود ہی پیدا کیا۔ اس صورت میں یہ مان لیا جائے جو ہو رہا ہے وہ سب خدا کے لئے صرف ایک کھیل ہے ؏
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
بصورت دیگر مذہب کے بتائے ہوئے خدا کا کوئی وجود نہیں ہے، کیونکہ جیسے ہی ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ایسا خدا وجود نہیں رکھتا تو ان سوالات کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اب انسان کے مسائل اور ان کے حل کے لئیے کسی مافوق الفطرت خدا کی طرف دیکھنے کے بجائے انسان اپنے مسائل خود حل کرنے لگتا ہے، قدرت اور اس کے قوانین ظالم ہیں، کال، طوفان، زلزلے، قدرتی قوت کا مظہر ہیں، اور وقت اور حالات کسی بھی وقت کسی بھی طرف کروٹ بدل سکتے ہیِں اور ان کے باعث انسان نامناسب حالات کا شکار ہو سکتا ہے اس کا فائدہ کیا ہے؟
اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کم از کم ایک مافوق الفطرت خدا کو غیر منصف ٹھہرا کر گناہ اور برگزیدگی کے بہت سے فیصلے بہتر طور پر کر سکے گا، دنیاوی زندگی کا ملبہ تصوراتی حیات بعد المرگ پر ڈالنے کے بجائے دنیا ہی میں انصاف اور انسانیت کے معیار کو بلند کر سکتا ہے۔ فرعون اور ہٹلر کو سزا ملنا معاشرے کی ضرورت ہے مگر بہت سے ذاتی نوعیت کے قابل نظرانداز افعال جو خدا کے مطابق گناہ کے زمرے میں آتے ہیں انسان ان کے بارے میں ضرور نرمی اور برداشت سے کام لے گا۔
میری اور آپ کی بیش قیمت زندگیاں ایک ظالم اور بے رحم قدرت کے نظام کا نتیجہ ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ہم کب تک زندہ رہیں گے، اس لئے ”جیو اور جینے دو “ کا فلسفہ ہی انسانی بقاء کے لئے اہم ہے، اگر ہم یہ سوچنے لگیں کہ کائنات میں سب سے اہم اور پاک اور معتبر ترین چیز زندگی ہے تو اس سے بڑھ کر ہماری کوئی کامیابی نہیں ہو گی۔

5 Comments

    1. معراج کے بارے میں تو جرات تحقیق پر پہلے سے غلام رسول صاحب کی تحریر موجود ہے، اسے ملاحظہ کر لیجئے۔ https://realisticapproach.org/%D9%85%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D9%86%D8%A8%D9%88%DB%8C-%D9%80%D9%80-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1/

      1. بہت خوب !
        جناب غلام فضول صاحب نے تو عقل کی بند آنکھیں کھولنے کی بھر پور کوشش کی ہے مگر؛
        لوٓ جی یہ کیا بات ہوئی ، تسلیم بھی اور ” مگر” بھی ؟
        یہ اگر مگر کا گورکھ دندہ ہوتا ہے عقل سے بالا جناب والہ۔
        لیکن "مگر بی” ہے کیا؟
        ہاں ہاں مگربی؛
        بئی کیا مغربی؟
        اوہو کیویں سمجھاواں ۔
        بئی مغربی ایماء پر ہی تو غلام فضول رسول اللہ ﷺ کا غلام بنا ۔ اور پھر اپنے آقا پر بہتان گھڑنے کی نیچ ، کمینی،ذلیل ، بھونڈی مذموم کوشش کی ہے جناب بدبخت غلام فضول صاحب نے۔
        ہے کہ نا پرلے درجے دا بیوقوف جاہل ، لعنتی۔
        بندہ پُچھے پئی رسول دا غلام وی ہووے تے رسول اللہ ﷺ دی اہانت وی کرے؟
        ہے کے نا کھلا تصاد ، دھوکہ تے فریب۔
        دُر فِٹےّ مُنہ ایہو جئے غلاماں تے الامہ دا۔
        جے کوئی گل کلیجے نو چُبے تے اپنی بکواس دا ردِ عمل سمجھ کے اپنے آپ نُوں پِٹن نہ لگ پینا ، ہلا ۔
        لوٓ فئیر آپاں چلی اے ہُن۔
        اللہ بیلی۔

          1. او ہو جناب الامہ صاحب کیا آپ کی خباثت کا نقاب الٹنے میں کوئ گساخی ہوگئ ہے ?
            ارے آپ اپنے اعلی اخلاق سے پیغمبر اسلام کی بے ادبیاں لکھیں تو اسے اخلاق کہتے ہیں اور تمھارے مﺫموم عزائم پر آپ کوئ کچھ کہے تو اخلاق یاد آجاتا ہے?

جواب دیں

5 Comments
scroll to top