سورة الأنفال
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾
الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٦٦﴾
ترجمہ:
"اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے
اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئيں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو الله کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئيں گے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”
مذکورہ آیت میں ہمارے اعتراض کی بنیاد لفظ عَلِمَ ہے، جس کامطلب معلوم ہونا ادراک کرنا اور جاننا ہے،یہ فعل انسانی خاصہ ہے ، مومنین کا بیان کردہ خالق کائنات تو عالم الغیب ہے اور اسے تخلیق کائنات کے روز اول ہی سے آئندہ آنے والے تمام حالات بمعہ تمام ترتفصیلات کے معلوم ہیں، اسکے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، وہ پہلے سے سب کچھ جانتا ہے۔
آیت نمبر 66 کا ابتدائی حصہ قابل غور ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ : اب اللہ نے تمہارے اوپر سے بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور اللہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں کس قدر کمزوری آگئی ہے۔ یہ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے جب اللہ نے اپنے سے دس (10) گنا زیادہ دشمن پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی تو اس وقت اللہ کے علم میں نہیں تھا کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے بھاری پڑ جائے گا، لہٰذا کچھ عرصہ کے بعد اللہ نے اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اپنے پہلے حکم سے رجوع کر کے اپنی غلطی کی اصلاح کر لی، اور مسلمانوں کی استعداد کے مطابق نیا حکم جاری کیا کہ اب مسلمان اپنے سے دگنے دشمن پر حملہ کرتے وقت ثابت قدم رہیں اور پیٹھ نہ پھیریں۔
خالق کائنات کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان کی جاتی ہیں کہ وہ حکیم ہے، خبیر ہے، اول ہے آخر ہے، عالم الغیب ہے تو یہ آیت ان تمام صفات کا انکار کرتی ہے کیونکہ جس ذات میں مذکورہ صفات موجود ہوں وہ اس قدر فاش غلطی نہیں کر سکتی اس آیت سے واضح ہوتا ہے قرآن کا بیان کردہ کائنات کا خالق ایک اچھے منتظم ہونے کی بنیادی صلاحیت سے محروم ہے اور اسے اپنی غلطی کے ادراک کے بعد اپنے فیصلے تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ ایک عظیم منتظم اور مدبرحکیم جسے علم الغیب بھی حاصل ہو کبھی بھی ایسا حکم جاری نہیں کرے گا جو ماتحت افراد کی استطاعت پر گراں ہونے کے باعث ناقابل عمل ہو۔
تمام مسلمان اور مسلمان علماء یہ ایمان رکھتے ہیں اور خود قرآن کا دعویٰ ہے کہ قرآن فصاحت اور بلاغت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اور قرآن کا طرز بیان ہی دراصل قرآن کا اصل معجزہ ہے، اور قرآنی فصاحت و بلاغت پر کوئی حرف نہیں اٹھایا جا سکتا۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے ایسے فصیح و بلیغ متکلم کو اپنے اس اقدام کو بہتر پیرائے میں بیان کرنا نہیں آیا اور وہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے سے عاجز رہا کیونکہ اگر اللہ کو پہلےسے ہی علم تھا کہ آیت نمبر 65 میں بیان کردہ حکم بعد میں تبدیل کر دیا جائے گا، تو آیت نمبر 66 میں موقع محل کی مناسبت سے آیت کو یوں بیان کیا جانا چاہئے تھا کہ: الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَكَانَ يَعْلَمُ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ صیغہءماضی مطلق کی جگہ صیغہء ماضئ استمراری استعمال کیا جاتا جس کا ترجمہ پھر یوں ہوتا کہ: اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور اسے معلوم تھا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے۔ لیکن یہاں قباحت یہ ہے کہ اس ترمیم سے اللہ کے عالم الغیب ہونے پر جو اعتراض واقع ہو رہا تھا وہ تو ختم ہو جائے گا، مگر اللہ کی حکمت پر اعتراض کھڑا ہوجا تا ہے کہ اگر اللہ کو پہلے سے ہی اس بات کا علم تھا کہ یہ حکم مخاطبین کی استطاعت سے باہر ہے تو اولاً ایسا حکم جاری ہی کیوں کیا گیا۔ یہ تو سانپ کے گلے میں چھچوندر والا معاملہ ہوگیا کہ نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔
ہمارا نقطہ یہ نہیں ہے کہ نسخ و منسوخ خلاف عقل ہے، بلکہ عقل سلیم اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ ریاست کے قوانین میں بتدریج بہتری آتی ہے، ایک ریاست کے بہترین اذہان باہم مل کر ایک قانون کی منظوری دیتے ہیں اور پھر کچھ مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس میں ترامیم بھی کرتے ہیں، یہ ترامیم ہر گز یہ دلالت نہیں کرتیں کہ قانون بنانے والے بہترین اذہان پہلے غلطی پر تھے، کیونکہ اگر قانون بنانے والے انسان ہوں گے تو ترامیم لازماً ہوں گی، یہی انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ ہمارا نقطہ یہ ہے کہ یہاں قانون سازی کوئی انسان انجام نہیں دے رہا بلکہ کائنات کی عظیم ترین ذات ، رب العالمین، خالق دو جہاں، قادر مطلق جسے ہم اللہ تعالی کے نام سے جانتے ہیں اپنی عظیم ترین کتاب ﴿جو پیدائش کائنات کے وقت لوح محفوظ میں رقم کر دی گئی تھی اور جو رہتی انسانیت تک کے لئے ہدایت کا سامان ہے، اور جس کے بعد مزید کسی کتاب کی گنجائش تک موجود نہیں﴾ میں ایک حکم نافذ کرتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلا قانون انسانی قدرت سے باہر ہے لہٰذا نئے قانون کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اول ایسا قانون ہی کیوں نافذ کیا گیا جو انسانی استطاعت سے باہر تھا؟ اور اگر ایسا کرنا ہی پڑا تو اس کی تعبیر ایسے الفاظ میں کیوں کی گئی جس میں انسانی نفسیات بالکل واضح طور پر جھلک رہی ہے اور الوہی صفات سے گریز پایا جا رہا ہے؟؟
خلاصہٴ کلام
نتیجہ ان آیات کے مطالعے سے یہ نکلتا ہے کہ قرآن کوئی الہامی کتاب نہیں ہے، بلکہ کسی انسان ہی کا کلام ہے، جس کی بشریت آیت نمبر 66 میں واضح طور پر جھلک رہی ہے۔ کیونکہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اللہ تو عالم الغیب ہے وہ کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ اسے اب اس بات کا علم ہوا ہے کہ حکم اول ناقابل عمل ہے، لہٰذا حکم اول منسوخ کرکے حکم ثانی جاری کیا جاتا ہے۔
مومنین کیلئے دعوت فکر ہے.
بے شک قرآن کي آيات مبارکہ انساني ذہن کي ترجماني ہي کرتي ہيں۔ جوں جوں مشاہدات کے ذريعے ممصنف قرآن کو حالات کا علم حاصل ہوتا رہا اسي طرح وہ قرآن ميں شامل کيا جاتا رہا۔ علامہ صاحب آپنے اچھي شروعات کي ہيں ليکن اس موضوع پر مزيد قرآني آيات شامل کرتے رہئے۔
آپ کیا چاہتے ہیں ، کہ قرآن ایک کورس کی شکل میں نازل کر دیا چاہتا ،
آسانی اور سمجھ کےلیے جس طرح کا مشاہدہ یہ واقعہ پیش آتا گیاویسے ویسے نزول ہوتا گیا ہو گا .
بغیر کسی وجہ کے کوئی حکم نازل ہوتا تو قرآن کا ساتھ ساتھ اس کی تفسیر کو بھی سپاروں میں بیان کرنا پڑتا
ایک چھوٹی سی تصحیح کرنا چاہوں گا، "اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب آئیں گے” اسمیں سو نہیں بلکہ دو سو (مِائَتَيْنِ) ہے۔ تصحیح کے بعد بیشک تبصرہ ڈیلیٹ کر دیں، مقصد یہ ہے کہ اس چھوٹی سی سہو کو لیکر کوئی محمد بن قاسم اصل موضوع گول کرنے کی کوشش نہ کرے۔
بہت بہت شکریہ۔ کمال کی نظر رکھتے ہیں آپ۔ آپنے بالکل درست نشاندہی فرمائی، اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ ترجمہ میں نے http://tanzil.net/#8:65 سے کاپی پیسٹ کیا، جو حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب کا ہے، ﴿خود ترجمہ کرنے کی جسارت اس لئے نہیں کی کہ مومنین کو قابل قبول نہ ہوتا﴾ وہاں یہ غلطی بعینہ موجود ہے۔ جو یقیناً پروف ریڈر کی نظر سے چُوک گئی ہے۔ اور میری بھی غلطی ہے کہ ترجمہ کی عبارت پر نظر ثانی نہیں کی۔ بہر حال غلطی کی اصلاح کر دی جائے گی۔
تو گویا غلطی دراصل مؤمنین کی ہی ہے، میں سمجھا شاید آپ نے جلدی میں چھری پھیر دی ہے 😀
🙂
آپ کی نشاندہی درست ہے، معلوم ہوتا ہے مصنف نے از خود ترجمہ کرنے کی کوشش میں سہواً یہ غلطی کردی.. اگرچہ نفسِ مضمون پراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم قرآنی آیات کے درست ترین ترجمے کا ضرور خیال رکھا جانا چاہیے 🙂
قران ایک کتاب بطور ہدایت اور رہنمائی ہے ، براہے کرم اگر آپ کے پاسس کوئی راہنمائی ہے تو اسے آسان اور عام کریں نہ کا عام لوگوں کو شک ، تضاد اور گمراہی میں ڈالیں.
فرض کریں کیں میں آپ کی دلیل کو ماں لوں ، اس کے بعد کیا
آپ نیا قرآن لا رہیں ہے،
خدا کی قسم اگر قرآن میں صرف حکم ہی لکھے ہوۓ ہوتے تو اس میں سے بھی گمراہی نکالنے والے گمراہی نکال لیتے
گویا آپ کا بغیر قرآن کے گزارہ نہیں 😀
عمران صاحب! آپ فی الحال صرف یہ بیان فرمائیں کہ استدلال درست ہے یا غلط؟، اگر آپ کے نزدیک اعتراض اور استدلال میں وزن ہے تو آپ کے سامنے مستقبل کا لائحہ عمل بھی بیان کر دیا جائے گا۔
جب ہمیں کوئی سوال درپیش ہو اور باوجود کوشش کے ہم اس کا جواب نہ پا سکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہماری صلاحیتیں ابھی اتنی نہیں ہیں کہ ہم اس طرح کے کسی سوال کا جواب دے سکیں یا پھر سوال کو ہی دراصل کچھ ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کا جواب پاکر ہم اپنے علم ومعرفت کی پیاس بجھا سکیں
اس کا مطلب کیا یہ سمجھوں کہ آپکی پہلے پھیلائی ہی تمام چیزوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے 🙂
کاپی کربے کا مقصد صرف اتنا ہے کا یہ باور کرایا جا سکے کے ضرروری نہی آپ کے نظریات یا تجزیہ درست ہے
اس کتاب پر نظر ثانی کی بجایے اگر جو تضاد آپ پھیلا رہے ہے اس پر نظر ثانی کر لیں نہ صرف نظر ثانی بلکےکسی اور نظریے سے دیکھ لیں تو مہربانی ہو گی
اور یاد رکھیے گا کہ سٹیون ہاکنگ سے کہیں اگر کہیں غلط ثابت ہوتے تھے تو اس کو تسلیم کر لیتے تھے نہ کو اپنی ضد پر قائم رہتے تھے 🙂
کاپی پیسٹ جاری رکھیں.. ویسے لگتا ہے سٹیون ہاکنگ کی طرح مجھے بھی اس کتاب پر اب دوبارہ نظرِ ثانی کرنی پڑے گی 😀
ظاہر ہے اسٹیفن ہاکنگ سائنسدان ہیں کوئی نبی تھوڑی ہیں، اسٹیفن ہاکنگ پر جب حقیقت آشکارا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں کیا۔ اسٹیفن ہاکنگ پہلے intellectual design کے قائل تھے، لیکن اب انہوں نے اس سے رجوع کرتے ہوئے کسی خالق کے بنا کائنات کے وجودکے نظریہ کی تائید کی ہے۔ عمران صاحب اسٹیفن ہاکنگ کے اس رویّے کوسراہ تو رہے ہیں لیکن اپنا نہیں رہے۔
ستون ہاکنگ کا حوالہ مکّی صاحب کے لیے نظر ثانی کے حوالے سے تھا . محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
یا کسی نبی کے حوالے سے نہی تھا
آپ سٹیون ہاکنگ کا اتباه کرتے ہوۓ اس کے راستے پے چل نکلے ، ٢٠-٢٥ سال بعد نی کوئی نی تحقیق سامنے آ گئی ، پھر اس پر اعتبار کر لیجیے گا.
کل کوئی اور مسلک بہترین دلائل دے میں وہ مسلک اختیار کر لوں گا
پھر کوئی اور مکتبہ فکر انسپائر کر لے میں اس کا ہو جاؤں گا.
جنے لایا گلئی اودے نال ٹر چلی
آپ کے استدلال میں مرے نزدیک کوئی وزن نہیں ہے
چلیے جواب در جواب کی ایک بحث کا آغاز کرتے ہیں ، جس کا انجام لا حاصل ہے
انسانی جسم الله کا بنایا ہوا ایک شاہکار ہے . الله نے تمام افعال کے لئے نظام بنانے. وہیں بیماریوں سے لڑنے کا مدفعاتی نظام بھی بنایا . جو بیماریوں کو ختم کر دے گا . لیکن یہ نظام ناکام ہو جاتا ہے اور ہمیں غیر الله 🙂 (ڈاکٹر) سے رجوع کرنا پڑتا ہے . اف ، اپ کی دلیل کے مطابق یہاں تو الله کا اندازہ پھر غلط ثابت ہو گیا اب ہم کیا کریں (چچ چچ چچ یہاں مومنین کے لئے پھر دعوت فکر ہے، ہے نا 🙂 )
اس طرح کی اور بھی مثالیں دستیاب ہیں . اپ کے مزید دلائل کے جواب میں وہ بھی پش کی جائیں گے ، لکن یاد رکھیے گا انجام لا حاصل ہے . آپ نے مری بات نہی ماننی اینڈ vice versa
لکن مرے نزدیک یہ عقل مندوں کے لئے بھی دعوت فکر ہے ، کہ اپنی صلاحیتیں مزید نکھار نے کی ضرورت ہے .
بات میں loose hole اس
جلد ہی تاج بریطانیہ تم جیسے لوگوں کو پناہ دے گی اور تمھارے فریڈم آف سپیچ کی حفاظت کرے گی علاوہ ازیں تمھیں فنڈز بھی مہیا کرے گی جس سے تم اپنے اسے گھٹیا کھیل کو جاری رکھو گے, تمھارے جیسے پہلے بھی بہت آئے لیکن ذلت اور رسوائی ہی ان کا مقدر ٹھہری
اگر کوئی اچھی آفر سعودی عرب سے آئی تو بھی غور کیا جا سکتاہے۔
ویسے بائی دا وے فریڈم آف اسپیچ کا ٹھیکیدار صرف مغرب ہی کیوں؟ مومنین کو آزادئ اظہارِ رائے سے کیا مسئلہ ہے؟ اگر اس کی وضاحت فرما دیں یا اس پر باقاعدہ کوئی پوسٹ لکھ ماریں تو ایک مفید بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔
سعودیہ؟ ذری دھیان نال جی، سناہے اوتھے سر لا دیندے نیں۔
ویسے اینڈرسن شا بھائ اور نظامی صاحب، آپ حضرات فیس بک آئ ڈی دینا پسند کریں گے؟ میسنجر آئ ڈی بھی چلے گی. میرا ای میل تو آپکے پاس آ ہی جاتا ہو گا ہر ریپلائے کے ساتھ۔
بھئی خاکسار فیس بک استعمال ہی نہیں کرتا 🙂
ٹویٹ تو کرتا ہے نہ 🙂
یہ آپ کے فن پارے عریاں ہی کیوں ہوتے ہیں،؟
عمران صاحب پہلے عریانیت کی تعریف نہ کر لی جائے؟ 😀
یاسر عمران مرزا صاحب اگر قوموں کے پیمانے پر بات کی جائے تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جتنی ذلت ورسوائی مسلمان قوم کو اٹھانی پڑی شاید ہی انسانی تاریخ میں کسی قوم کے حصے میں آئی ہو؟
عمران مرزا صاحب کامیابی انہی کو ملتی ہے جو سچ کو بیان کرتے ہیں اور حقیائق کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ,مسلمان آج تک ناکام کیوں رہے ہیں کبھی آپ نے اس پر سوچا اگر نہیں تو میں آپکو بتاتا ہوں وہ دراصل جھوٹی باتوں اور کہانیوں یقین کرکے زندگی گزار تے ہیان کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا کہ ایک شخص خعد کع نبی کہتا یے لیکن لوگ بغیر ثبوت کے اسکی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں تو ان کے پاس اسکی ہر بات کو سچ ماننے کے سوا کوئی چارا ہی باقی نہیں رہتا چایے اسکی کہی ہوئی باتیں کھلا جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں
صاف ابن صیاد مدنی
طلیحہ اسدی
مسیلمہ کذاب
حرص کذاب دمشقی
ابو علی منصور
بہاوللہ نوری
مرزا غلام قادیانی
ان کے بارے میں کیا خیال ہے
ان کا نبی ہونے کا دعوا کیوں وو پذیرائی حاصل کر سکا
کوئی وجہ تو ہو گی
عمران صاحب آپ نے جن حضرات کے نام لکھ کر سوال کيا ہے کہ انکے نبوت کے دعووں کو وہ پذيرائي کيوں حاصل نہ ہوسکي جو محمد کو حاصل ہوئي تو ذرا آپ اسلامي تاريخ کے اوراق پلٹ ديکھئے ليکن غير جانبداري سے تو آپ کو ان سب ميں اور محمد ميں تلوار کا فرق نظر آئيگا۔ محمد کو بھي اس وقت تک پذيرائي حاصل نہيں ہوسکي تھي جب تک کہ انہوں نے تلوار کا سہارہ نہيں ليا تھا ، مکے ميں پذيرائي تو کجا انکو جان بچاکر بھاگنا پڑگيا تھا جب مدينے ميں انہوں نے اپني مافيا تشکيل ديدي تو اسکي تلوار کي طاقت تھي جسکي نتيجہ آج تک انسانيت بھگت رہي ہے۔ باقي نبوت کے دعوي دار ايسا بھي نہيں کہ انکو سادہ لوح لوگ نہ مل سکے ہوں ، انکو بھي مل گئے اور شايد مزيد مل جاتے ليکن مسلمانوں کے درميان رہ کر کوئي نبوت کا دعوي کرنے کے بعد قتل ہونے کي بجائے اپني طبعي زندگي ہي پوري کرلے تو اسکا مطلب يہي ہے کہ اسکو کم از کم محمد کے مکي زندگي سے زيادہ ہي پذيرائي ملي ہے۔
"مکے ميں پذيرائي تو کجا انکو جان بچاکر بھاگنا پڑگيا تھا”
تو مکّہ والے تلوار اٹھاتے ہیں تو بجا، ،محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جواب دیں تو مافیا . زبردست ، آفریں
واپس مکّہ تشریف لاتے ہیں تو بخیر تلوار مکّہ کے فاتح . ( نامعقول دلیل کا انتظار رہے گا )
“مکے ميں پذيرائي تو کجا انکو جان بچاکر بھاگنا پڑگيا تھا”
چیف ان بلیک صاحب یہ بات مومنین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر کر گئے، اس موضوع پر تفصیلی مضمون کا انتظار فرمائیں۔
شدت سے انتظار رہے گا۔
چیف ان بلیک، آپ کی سائیٹ پہ مواد پڑھا،وہاں کومنٹ کاآپشن نہ پا کر یہاں شکوہ کر رہا ہوں بہتر ہوتا ایسے گھناونے الزامات یا نہ لگاتے یا پھر تاریخ سے حوالہ بھی دیتے۔ خیر،
بھئي مکي ميں اسلام جس طرح اور جتنا پھيلا اسکے لئے کيا کسي حوالے کي ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو وہ فراہم کرديا جائيگا۔ ويسے جان بچاکر بھاگنے والا جملہ بے شک مومنين کے نقطہ نظر ہي کے مطابق ہے۔ ۔ راحت حسين صاحب شکوہ تو بجا آپکا بجا ہے ۔ اگر خود ہي غيرجانبداري سے اسلام اور اسلامي تاريخ کا مطالعہ کرليں تو آپ بھي ان حقائق تک پہنچ جائيں گے جن تک پہنچنا اس وقت تک ممکن ہي نہيں جب تک کہ آپ غير جانبداري سے اپنے مذہب کا مطالعہ کرليں۔
ہاں ،قران مجید اللہ جل شانہ کا مبارک کلام ہے
http://darveshkhurasani.wordpress.com/2012/10/20/quran-allah-words/
جواب بھی حاضر ہے قبلہ 😀
http://realisticapproach.org/?p=3842
جواب کا آپ نے تکلف ہی کیا، یہ جواب بجائے خود اپنی لاجوابیت کا منہ بولتا ثبوت تھا، خیر۔ ۔ ۔
خراسانی صاحب سلام عرض ہے جواب کے ساتھ، اور اس اقرار کے ساتھ کہ نہیں قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔
http://realisticapproach.org/?p=3826
actually i was bored by the repetitiveness of your views in articles and also the comments
also i was worried about answering the matters of philosophy which came up during comments
i have found a great book whose writer answers all of the matters which are raised by you and your articles…if you get time to read it then it will be a thing of benefit to u iam sure
the name is ‘tablees-e-iblees’ and its writer is Abdul rahman Al jozi…
it answers all sorts of issues which created deviation from the true islamic concepts… it also covers the aspects of philosophy and ilm-ul-kalam issues which u often copy paste in ur articles.
if u can read it ,inshallah it will spare your ignorant readers from scholarary questions asked in your article….honestly they are very confusing for a simple ignorant muslim (which is most of today’s muslim population’s problem) . iam no one to pass any judgement on your faith and actions. i only want to share a good informative work with you which answers most of issues which people may have with islamic faith, it also explains how and why a certain wrong thought arises and how it’s answered and corrected by proper creed of islam.
may Allah help everyone who is trying to reach to the right path ameen.
Allah hafiz
link for urdu translation of book:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/430-talbees-e-iblees.html
شبہ پنجم، شریعت میں چند چیزیں ایسی آئی ہیں جن سے ہماری عقل نفرت کرتی ہے جیسے جاندار کو قتل کرنا تو یہ شریعت کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ بیشک عقل اس سے منکر ہے کہ ایک حیوان دوسرے حیوان کو دکھ دے اور جب خالق نے ایسا حکم دیا ہے تو عقل کو اعتراض کی جگہ نہیں رہی۔ اس جواب کا مشرح بیان یہ ہے کہ عقل کے نزدیک ثابت ہوگیا کہ خالق عزوجل حکیم ہے اور اسمیں کچھ خلل و نقص نہیں ہے اور جب یہ معرفت عقل کو مل گئی تو اس پر لازم ہے کہ خالق کے سب احکام کو تسلیم کرے، اگرچہ بعض کی حکمت اس پر مخفی رہے اور اگر کسی شاخ کی حکمت ہم پر مشتبہ ہو تو یہ بھی جائز نہیں کہ ہم جڑ کے باطل ہونے کا حکم لگا دیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ اس حکم کی حکمت بھی ظاہر ہو گئی۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ جمادات پر حیوانات کو فضیلت ہے اور پھر حیوانات میں غیر ناطق پر ناطق کو فضیلت ہے کیونکہ ناطق کو فہم و نطنت دی گئی اور نظری و عملی قوتیں عطا کی گئی ہیں اور ناطق کا باقی رہنا بہ نسبت غیر ناطق کے زیادہ احتمام کے قابل ہے۔
ناطق کی یہ قوتیں باقی رہنے میں گوشت کے قائم مقام کوئی چیز نہیں ہے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ جس قسم کا فائدہ عظیم ہے وہ کم فائدہ والے کو کھا لے اور کم زور کو قوی تناول کرے۔۔۔
(مختصرا یہ کہ، ورنہ وہ کم فائدہ حیوانات کثرت سے بڑھ جائیں گے اور کھیتی کی گنجائش بھی نہ رہے گی اور مردار بدبو وغیرہ پھیلے گی ۔ ۔ ۔ پھر ان کو تیز چھری سے شاہ رگ کاٹ کر ذبح کرنے کا حکم ہے تاکہ تکلیف کم سے کم تر ہو)۔
واہ، مزا نہیں آگیا؟ پتہ نہیں جوزی جی نے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کہ کر اپنا اور ہمارا قیمتی وقت کیوں نہیں بچا لیا۔ ویسے اس ریاضی سے اگر مزید کیلکولیشن کی جائے تو پھر طاقتور اور زیادہ "پراڈکٹیو” قومیں اور ہم کم فائدہ مند اور غیر "پراڈکٹیو” قوم یعنی مسلمان کو کھا جائیں یا ختم کر کے دنیا میں پھیلنے والی جہالت کے تعفن کو کر کر دیں تو جوزی جی کی شرح شریعت کی رو سے اسمیں کوئی مضائقہ نہیں۔
ندرت صاحب،چونکہ کتاب کا حوالہ آپ نے دیا تھا تو فورا ڈاون کی اور جلد از جلد مطالعہ شروع کیا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں مایوسی چھا گئی، میں سمجھ رہا تھا کہ ٹو دی پوائنٹ اور نپی تلی باتوں میں اینڈرسن شا صاحب اور انکے ہمنواوں کی منطق اور فلسفوں کا جواب ہوگا پر اسمیں تو وہی باتیں ہیں کہ جن میں سے اکثر کے جواب اسی بلاگ میں لکھ کر ایسوں کے منہ پر مارے جا چکے ہیں۔ بعر اور بعیرہ؟ اس پر تو پورا ایک مضمون لکھا ہوا ہے۔
پس عقل نے جان لیا، بس یہ بات ثابت ہوئی، بس یہ نتیجہ نکلا۔ ۔ ۔ ایسا کہنے سے بھلا حقیقت بدل جاتی ہے؟ مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر اس موضوع پر کوئی حقیقی ریسرچ، حقیقی علم پر مبنی کتاب ہو اور آپ شئیر کریں، یہ بونگیاں تو جگہ جگہ دستیاب ہیں۔
باقی درویش صاحب کے جواب پر تو تبصرہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہوں گا، کسی نے انجوائے کرنا ہو تو خود مطالعہ کر لیں۔
راحت صاحب آپ نے جو کچھ لکھا ہے اگر آپ اسکو جوابات سمجھتے ہیں؟
چیف ان بلیک صاحب آپ راحت صاحب کی تحریر دوبارہ، سہ بارہ پڑھیں، جواب آپ کو مل جائے گا۔
Adaab g allama sahib kufr toota khuda khuda kar ke akher aap ka link open ho gya hai aap ki tahreer ko study karon ga ab.see you in the evening
have a nice time
خوش آمدید و شکریہ مختار صاحب! بندہ چشم براہ ہے۔
جواب یہاں دیکھیں http://a1ali.tk/index-news.php?post=1367222884
علامہ ایاز نظامی صاحب …مجہے اپ نۓ بہت confuse کر دیا ہے ….ان آیات کو لے کر میں 2 رات سے سو سکا ….
آپ ”قرآنیات“ کے زمرے میں شامل تمام تحریریں ملاحظہ کیجئے، چند راتوں کی نیند ضرور خراب ہوگی، لیکن اس کے بعد آپ مستقل اس قدر سکون اور اطمینان محسوس کریں گے کہ بیان سے باہر ہے۔
علامہ ایاز نظامی …یہ تو کوئی تضاد نہی ہے ….اللّه نے جو جنگ کا تناسب بتایا ….اصحاب نے اعتراض کیا کے یہ تو جہاد کی فرضیت کا تناسب طے ہوجاے گا …تب اللّه نے آسانی کرتے ہے مناسب تناسب کا کہا کے تم پے بوجھ نا پڑے ….یہی تو یکساں انسان کو سکھانا تھا کے اللّه نے کہی ظلم نھے کیا بلکے انسان کی فطرت کو دیکھتے ہوے مرتب کیا
عزیزم میں نے کب کہا ہے کہ ان آیات میں کوئی تضاد ہے؟ پوری تحریر پڑھ لیجئے میں نے تو اس میں کہیں بھی نہیں کہا کہ یہاں کوئی تضاد ہے۔ میں نے تو اس تحریر میں یہ بیان کیا ہے کہ ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اللّه کا کلام نہیں ہے بلکہ انسانی کلام ہے کیونکہ اس میں بشری کمزوری صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ نے تحریر کو مصنف کے نقطۂ نظر سے سمجھا ہی نہیں۔
محترم جناب ایاز صاحب !
جرات تحقیق کے پیج پر پہلی بار آیا ھوں -ایک خوشگوار سی حیرت ھوی -میرے ذھن میں باربار یہ سوال آتے رھتے ھیں کہ قرآن کے کچھ آیات جو منسوخ ھوچکے ھیں ‘ کیا اللہ کو پتہ نھیں تھا کہ یہ آیات نھیں چل سکتے ؟ اگر پتہ تھا تو پھر یہ آیات اتریں کیوں جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑے ؟
لیکن ساتھ میں ایک اور بات جو مجھے اللہ کے وجود کا قایٰل کردیتا ھے وہ یہ کہ یہ جو کاینات ھے اور اس کے اندر یہ طرح طرح کی مخلوقات ھیں کیا یہ خود بہ خود پیدا ھوگیی اور یہ جو کاینات نظام اتنے بہترین طریقے سےچل رھا ھے کیا یہ یونھی چل رھا ھے اسے کوی کنٹرول کرنے والا نھیں ھے ؟ اور اگر کوی کنٹرول کرنے والا نھیں ھے تو کیا یہ خدا ماننے سے بھی بڑی بات ماننا نھیں ھے ؟ ھو سکتا ھے میں اپنا مافی ضمیر واضح نھیں کر سکتا لیکن آپ سمجھ گیے ھونگے کہ میں کیا کہنا چاھ رھا ھوں- جواب کا شدت سے انتظار رھے گا