Close

تصویرِ خدا

 

نیلا آسمان کس قدر شاندار اور خوبصورت لگتا ہے، نظر کی ایک حد سے دوسری حد تک پھیلا ہوا بے عیب، نیلگوں۔۔ ایسا لگتا ہے کہ اتنی خوبصورت اور بے عیب چیز دوسری کوئی نہیں ہوسکتی۔ مگر ایک سوال ہے جو شاید آپ نے بھی کبھی سوچا ہو، یہ آسمان نیلا کیوں دکھتا ہے؟ کسی کے لیے تو جواب ہوگا خدا نے اسے نیلا بنایا ہے، کوئی جو سائنس سے تھوڑی بہت جانکاری رکھتا ہوگا کہے گا فضاء میں معلق پانی کے بخارات نیلے رنگ کا آسمان ہیں۔

کیا یہی حقیقت ہے؟ کیا یہی پانی کے بخارات نیلے رنگ کا آسمان ہیں؟ بالکل کہہ سکتے ہیں، مگر یہ ہمیں نیلے رنگ کے کیوں دکھتے ہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے، کیا یہ ہماری آنکھوں کا کمال ہے کہ روشنی ان سے گزر کر ہماری آنکھوں کے ریٹینا پر گر رہی ہے۔ مگر پھر بھی یہ نیلا ہے کیا؟ میں آپ سے کہوں گا نیلا کچھ نہیں ہے، نیلا رنگ صرف اور صرف آپ کے دماغ میں ہے۔ آپ کہیں گے: کیا بات کرتے ہو۔

مگر یہی حقیقت ہے، روشنی آپ کی آنکھوں میں آتی ہے اور آنکھیں آپ کے دماغ کو معلومات دیتی ہیں اور اس معلومات کا مطلب دماغ کے لیے نیلا رنگ ہے۔ مطلب درحقیقت نیلے رنگ کے آسمان کو سمجھنے کے لیے دماغ نے ایک نظام بنایا ہوا ہے، جب آنکھوں پر روشنی پڑی تو اس روشنی کے مطابق دماغ کو معلومات دی اور اس سے دماغ نے ایک تصوراتی تصویر بنائی جو حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرح ہی تمام ہی احساسات ہمارے حواسِ خمسہ کے ذریعے دماغ کو باہری حقیقت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

اوپر کی گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں، جو سونگھتے ہیں وہ ہمارے دماغ کے اندر چل رہا ہوتا ہے اور ہمارے حواس کے ذریعے سے دماغ میں آنے والی تمام معلومات سے ایک عکس بنتا ہے جو صرف دماغ کے اندر ہوتا ہے، تمام چیزیں جو ہمارے ارد گرد وجود رکھتی ہیں ان کا وجود ایک حقیقت ہے جس کو ہمارا دماغ سمجھتا ہے اور اس کی اپنے انداز میں ایک تصویر بنا لیتا ہے اس طرح سے ہمارا دماغ ہمارے ارد گرد کے ماحول کی حقیقت سے رابطے میں رہتا ہے۔

دوسری طرف دماغ میں چلنے والی ہر چیز، ہر سوچ، صرف حواسِ خمسہ پر ہی انحصار نہیں رکھتی، دماغ کی ایک اپنی دنیا ہے، اس دنیا میں سوچ کی بے شمار تصویریں ہیں، یہ تصویریں حقیقت پر مبنی بھی ہوتی ہیں اور تخیل پر بھی، تخیلات اور حقیقت مل کر دماغ کی سمجھ بوجھ میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اب میں دو چیزیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ہم میں سے ہر ایک نے زندگی میں کبھی نہ کبھی گھوڑا ضرور دیکھا ہوگا، اب اگر میں آپ سے پوچھوں تو آپ با آسانی مجھے بتا دیں گے کہ گھوڑا ایک جانور ہے اس کی شکل ایسی ہوتی ہے، اس کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اگر میں آپ سے پوچھوں کہ پری کیا چیز ہے؟ تو ہر کسی کا جواب مختلف ہوگا، کوئی کہے گا اس کے دو پر ہوتے ہیں کوئی کہے گا چار پر ہوتے ہیں، کوئی کہے گا اس کے بال اتنے لمبے ہوتے ہیں کوئی کہے گا اس کی پوشاک ایسی ہوتی ہے، کوئی کہے گا ویسی۔ اصل میں گھوڑے اور پری کی مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گھوڑا ایک حقیقت ہے اور پری دماغ کی ایک تصوراتی تصویر، اگر آپ کسی سے گھوڑے کے بارے میں پوچھیں گے تو ہر کوئی گھوڑے کی تقریباً ایک جیسی خصوصیات ہی بتائے گا، مگر پری یا پھر جل پری، جن بھوت، بلائیں اور ہر قسم کے خیالی اور تصوراتی کرداروں کی ہیئت اور اشکال میں آپ کو ایک ایسا تضاد ملے گا کہ اگر آپ صرف ان کی خصوصیات کسی کو بتانے لگیں اور کہیں کہ بوجھو میں کس چیز کے بارے میں بتا رہا ہوں تو کوئی کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تخیلاتی چیزیں جو صرف دماغ میں ہوتی ہیں ان میں بے شمار تضاد ہوگا کیونکہ ان کا تعلق خالصتاً دماغ کی دنیا سے ہے جبکہ حقیقی وجود رکھنے والی چیزوں کے بارے میں تضاد نہیں ہوگا کیوںکہ ان کا تخیل یا تصویر دماغ نے حواسِ خمسہ کے ذریعے لے کر اپنے اند محفوظ کی ہوئی ہوتی ہے، اسی باعث ان تصورات میں تضاد نہیں ہوتا، مگر جو تصوراتی چیز صرف اور صرف دماغ کی پیداوار ہے اس کے بیان میں تضاد ضرور ہوگا، مطلب پری اور جل پری کی ہی بات لے لیں، پری کا تصور پہلے آیا ہوگا کہ جل پری کا؟ شاید پری کا، یعنی ایک خوبصورت عورت جس کے پر ہوتے ہیں اور وہ اڑ سکتی ہے، پھر کسی دن کسی نے سوچا کہ اگر خوبصورت پری ہوا میں پروں کے ذریعے اڑ سکتی ہے تو پانی میں تیرنے کے لیے اس کو مچھلی جیسی ایک دم کی ضرورت ہوگی، تو لیں جی جل پری بن گئی۔ کوئی کہے گا کہ جل پریاں انسانوں کی دوست ہیں تو دوسرا کہے گا نہیں وہ تو آدم خور ہوتی ہیں۔ یعنی تصوراتی کرداروں کے بارے میں تصورات میں تضاد انتہائی زیادہ ہوگا، ہاں گھوڑے کے قد یا جسامت میں فرق ہو سکتا ہے مگر کوئی بھی یہ نہیں مانے گا کہ گھوڑا اڑ سکتا ہے، مگر جل پری کے بارے میں یہ بات کوئی آسانی سے مان لے گا۔

دنیا میں ایسی بھی چیزیں ہیں جو دماغ کے تصور کی پیداوار ہیں مگر انسانی صنعت کے باعث حقیقت کا روپ دھار گئیں، ان چیزوں کی ہیئت اور بناوٹ کے بارے میں بھی کوئی خاص تضادات نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو تھوڑا بہت حواسِ خمسہ کے استعمال کے بعد دور ہو جاتے ہیں، مگر وہ چیزیں جو خالصتاً تصور میں رہتی ہیں ان کے بارے میں تضادات کو دور کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ دماغ ان کی حقیقت کو کبھی بھی دریافت نہیں کر سکتا، اس لیے ان تصورات میں اضافہ یا بڑھوتری صرف تصوراتی بنیادوں پر ہو کر ان معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے۔

آپ کو دنیا میں جل پریوں کے مصوروں کے بنائے ہوئے فن پارے تو مل جائیں گے مگر دنیا میں کوئی حقیقی جل پری کبھی بھی نہیں ملے گی، ان کے حسن کے قصے بھی کتابوں میں مل جائیں گے، ان کا ذکر شاعری میں، دیومالائی قصوں میں بھی مل جائے گا مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مصور تصویر بناتا ہے، جل پری اس کے دماغ میں ایک تصور ہے اس کو کینوس پر اتار دیتا ہے، ہر مصور کی جل پری مختلف ہوگی، کسی کے بال سرخ ہوں گے تو کسی کے سبز، کسی کی دم شارک سے ملتی ہوگی تو کسی کی ڈالفن سے، کسی کی کھال پر ہیرے جڑے ہوں گے تو کسی جلد مچھلی جیسی۔ اور کسی مصور کی جل پری مچھلی کی دم کی جگہ آکٹوپس کی ٹانگیں رکھتی ہوگی۔

اس سے آگے بات آ جاتی ہے انسانی ارتقاء کے دوران ہمیں 40000 سال پرانی غاروں میں انسانوں کی بنائی ہوئی تصویریں ملتی ہیں۔ اس وقت انسان اس قابل تھا کہ اپنے ذہن میں پائی جانے والی باتوں کو تصویروں کی زبان میں بیان کر سکے، مگر اس وقت کی تصاویر زیادہ تر شکار کی داستانیں بیان کر رہی ہوتیں تھیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب جب وقت گزرتا گیا تو نسبتاً جدید زمانے یعنی 10000 سے 20000 سال کے عرصے میں انسان تصورات کو بھی تصویروں میں ڈھالنے لگا، اسی دوران کہیں خدا کا تصور بھی پروان چڑھ چکا تھا، اور اب انسان نے دیویوں اور دیوتاؤں کی مورتیں اور تصاویر بنانی شروع کر دیں۔ یعنی تصور خدا جو انسان کے ذہن میں تھا، اس کا مختلف اشکال میں دنیا میں تصویری حقیقت میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ایک جل پری کی طرح خدا بھی کئی قسم کے ہیں، سورج بھی خدا ہے، بعل جو کہ ایک بچھڑا ہے وہ بھی خدا ہے، مگر مچھ اور کچھوے بھی خدا ہیں، یعنی تصورِ خدا میں ایک جل پری کے تصوراتی کردار سے کہیں زیادہ تضادات ہیں، کہیں خدا بادلوں میں گرجتا اور باز کی شکل لیتا ہے تو کہیں وہ ناموجود ہے، کہیں وہ پانیوں کا خدا ہے تو کہیں آسمان کا، اسی طرح اس کے بے شمار اوتار ہر قسم کے متضاد خداؤں کو دنیا میں متعارف کرتے رہتے ہیں، کہیں زیوس، را، سیتھ، بعل، اوڈن، یہواہ اور اللہ۔

خداؤں کی دو اشکال ہیں، یا تو وہ بالکل انسان کے دماغ میں رہتے ہیں، مسیحت کا خدا کہتا ہے وہ دل میں رہتا ہے، اسلام کا خدا بھی کھلے دل سے اس کو قبول کرنے کی بات کرتا ہے، دوسرے خدا جو انسانی دل و دماغ (حقیقت میں تو خدا صرف دماغ ہی میں ہوتا ہے) سے نکل کر کینوس اور تراشی ہوئی صورتیں بن جاتے ہیں۔ یعنی خدا کی حقیقت صرف تصور یا پھر تصویر کے اظہار ہی میں ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا صرف ایک تصور ہے۔ جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اس کے بارے میں تضادات نہیں ہوتے، مگر خدا تضادات سے بھرا پڑا ہے، ایک ہی مذھب کے ماننے والوں کے بھی اپنے خدا کی ہیئت کے بارے میں بے شمار تضادات ہوتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے تصورِ خدا تو بالکل ایک دوسرے سے مکمل متضاد ہیں۔

اگر خدا کی کوئی حقیقت ہوتی تو چین میں رہنے والے جین مت کے ماننے والے، عرب کے مسلمان، افریقہ کے مگر مچھ کے پجاری اور حقیقی امریکی باشندوں کے خداؤں میں کوئی تو یکسانیت ہوتی۔ گھوڑے تو ان سب ملکوں کے لوگوں کے ایک جیسے ہوتے ہیں، پانی کیا چیز ہے اس پر بھی کوئی اختلاف نہیں، زبان میں پانی کے نام پر اختلاف ضرور ہو سکتا ہے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا چیز پانی ہے اور اس کو پیا جاتا ہے، پانی زمین پر ہر جگہ جہاں انسان رہتا ہے مل جاتا ہے، تو پھر خدا جو ہر جگہ موجود ہے اس کے بارے میں اتنے اختلاف کیوں ہیں؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ جل پری کی طرح خدا بھی ایک دماغی تصویر ہی ہے جسے انسان کینوس، کتب اور عبادت گاہوں میں اتار رہا ہے؟

5 Comments

    1. آپ نے بات نیلے آسمان کی چھیڑی…اس کا شافی جواب دیئے بغیر خدا کی طرف جا نکلے..جسکے معنی یہ ہوئے کہ آپ ٹامک ٹوئیاں چھوڑ رہے ہیں۔
      چلئے نیلے آکاش کو چھوڑ کر خدا ہی کی بات کرتے ہیں
      میں جس طرح خدا کے ہونے کی کوئی سالڈ توجیع پیش نہیں کرسکتا بینعہ آپ کے پاس بھی خدا کے نہ ہونے کی کوئی سالڈ توجیع موجود نہیں. میرا اقرار اور آپکا انکار دونوں مفروضے ہیں دونوں مفروضوں میں فرق صرف یہ ہیکہ میرا مفروضہ امید ہے اور آپکا مفروضہ ناامیدی. میرا مفروضہ زندگی در زندگی کی خوشخبری ہے جب کہ آپکا مفروضہ چند گھڑیوں کی ناپائیدار زندگی کی محض اک کہانی ہے.
      آپکا مفروضہ جسم پر مبنی ہے جبکہ میرا مفروضہ جان کی نوید لئے ہوئے ہے, جسم مٹی ہے جو زمین کی چیز ہے اور زمین پر ہی رہ جاتا, جان آسمانی چیز ہے جو آسمانوں میں لوٹ جاتی ہے۔ جل پریاں,پریاں جنات,دیو سب حقیقت ہیں وہ حقیقت جسے ہماری آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے.کیونکہ اس میں دیکھنے کی وہ طاقت نہیں جو ان نوری یعنی روشنی سے بنے اجسام کو دیکھ سکے.بلکل ایسے ہی جیسے مختلف بکٹیریاز خوردبین کے بغیر دیکھے نہیں جاسکتے مگر وہ ہوتے تو ہیں. کل کوئی ذہن رسا ان اجسام کو دیکھنے کا آلہ ایجاد کرلے گا تو بیکٹریا کی طرح یہ انواع بھی دیکھی جاسکیں گی..
      ایٹم کی طرح دیگر دنیاؤں کو بھی دریافت کیا جا سکے گا۔ جب تک انسان اس قابل نہیں ہوجاتا کہ وہ تحقیق مکمل کے بعد حتمی بات کرے ہم کسی بھی نادیدہ وجود کو حتمی طور پر اگر قبول نہیں کرسکتے تو جھٹلانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں…

  1. برکت حسین صاحب آپ نے بجا فرمایا ہے مگر آپ ان لوگوں کو علمی دلائل سے قائل نہیں کرسکتے کہ ان کے دماغ ابلیس کے قبضے میں ہیں,ابلیس نہیں ماننے والہ ,یا پھر یہ خدا کو دیکھنے کے متمنی ہیں اور اشتعال دلاتے ہیں کہ شائد کوئ جزبات میں آکر انھیں خدا کادیدار کرادے لیکن یہ ممکن نہیں اگر انھیں بہت طلب ہے تو تائب ہوکر اپنی پیدائش پر غور کریں کہ ہم کیونکر ایک منی کے قطرے سے پیدا ہوگۓ.

  2. The intelligent life of Homo Sapiens started on this planet about 50,000 to 70,000 years ago.
    The earliest fossils of life on this planet goes back to 3 billion years ago. We’ve now detailed fossil record of almost entire time span of life on this planet.

    Organized religions with One God started about 5000 years ago. I’m not an atheist but my question is how come the planet and life kept going for 3 billion years without involvement of God?

جواب دیں

5 Comments
scroll to top