اسلام میں حجر اسود کی اہمیت اور فضیلت سے کون واقف نہیں ؟ اسلامی روایات کے مطابق یہ پتھر جبرائیلِ امین جنت سے لائے تھے اور تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم نے اسے بیت اللہ کے جنوب مشرقی کونے میں نصب کیا تھا۔ جب جنت سے حجر اسود کو لایا گیا تھا اس وقت اس کا رنگ برف سے بھی زیادہ سفید تھا، لیکن حاجیوں کے گناہوں کی بدولت یہ یکدم سیاہ رنگ کا ہوگیا۔ ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ” حجر اسود کو بوسہ دینے سے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا ہے“ ۔ طواف کے وقت طواف کے نقطہ آغاز کی علامت بھی حجر اسود کو ہی قرار دیا گیا ہے۔
چشم فلک نے حجر اسود کو زمانے کے بہت سے نشیب و فراز سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کبھی یہ جنت میں ہوا کرتا تھا، کبھی یہ خدا کے حکم سے جبرائیل امین کے ہاتھوں حضرت ابراہیم کے ہاتھ منتقل ہوتا ہے، پھر اس پتھر کا نصیب دیکھئے کہ اسے اللہ کے گھر میں نصب ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے، اکناف عالم سے آئے ہوئے حجاج کرام کو حکم ربانی ہوتا ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے، جس کی بدولت حجاج کرام ڈھیروں ثواب سمیٹتے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ کعبہ کی تعمیرِ نو کے وقت قریش کے قبائل اسے دوبارہ بیت اللہ میں نصب کرنے کی فضیلت حاصل کرنے کیلئے باہم جھگڑ پڑتے ہیں اور حجر اسود کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد خود اپنے دست مبارک سے اس خوش نصیب پتھر کو اس کے مقام پر نصب فرما کر ایک بہت بڑی جنگ کے امکان کا خاتمہ فرما دیتے ہیں۔
رسول اللہ کو اس دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ اس مقدس پتھر کے ستارے گردش میں آ گئے، اور اسے بہت برے دنوں اور سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 73 ھ میں عبدالملک بن مروان کے حکم پر حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کی بغاوت فرو کرنے کیلئے مکہ کا محاصرہ کیا، مکّیوں نے بیت اللہ میں پناہ لی، بیت اللہ پر منچنیقوں سے پتھراؤ کیا گیا، بیت اللہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور اسی دوران بیت اللہ میں آگ بھی لگ گئی اور بیت اللہ کے ساتھ ساتھ جنت سے آئے ہوئے پتھر کو بھی لمسِ آتش کے تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔ ہم حجاج بن یوسف کی یورش کے وقت آسمان سے غول در غول ابابیلیں کیونکر نازل نہ ہوئیں؟ جیسے اہم سوال سے صرف نطر کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
خلافت عباسیہ کا دور ہے، قرامطیوں نے بڑا سر اٹھایا ہوا تھا، قرامطی (مذہباً اسماعیلی شیعہ) اپنے زمانے کے خود کش حملہ آور (فدائین) تھے اور گوریلا جنگ لڑنے کی مہارت رکھتے تھے۔ یک دم حملہ آور ہوتے اور شہر کے شہر اجاڑ کر رکھ دیتے تھے۔ اس دور کے قرامطہ کی سرکردہ شخصیات میں ابو سعید جنابی، ابو سعید مغربی، محمد علوی، برقعی اور ابنِ مقنع شامل ہیں۔ یہ سب ہم عصر تھے اور ان کے مابین دوستی اور خط و کتابت کا رشتہ قائم تھا۔ انہیں باطنیہ بھی کہا جاتا ہے، باطنی مختلف زمانوں میں خروج کرتے رہے ہیں۔ انہیں مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔ حلب و مصر میں انہیں اسماعیلی کہتے تھے، قم، کاشان اور طبرستان میں سبعی، بغداد و ما وراء النہر اور غزنی میں قرمطی کہا جاتا تھا، کوفہ میں مبارکی مشہور تھے، بصرہ میں روندی و برقعی کہلائے، رے میں خلقی اور باطنی، گرگان میں محمّرہ، شام میں مبیضہ، مغرب میں سعیدی، احساء و بحرین میں جنابی، اصفہان میں باطنی۔ یہ خود اپنے آپ کو تعلیمی کہتے تھے۔
اسی حکیم عطا ابن مقنع مروزی نے ترکستان میں ماہ نخشب کے مقام پر مصنوعی چاند بنایا تھا جو ہر روز پہاڑ سے طلوع مہتاب کے وقت ظاہر ہوتا تھا۔ اور لوگ بہت دور دور سے اس کا مشاہدہ کرتے تھے۔
خلیفہ معتصم کے کے دور میں ابو سعید بن بہرام الجنابی نے بحرین اور احساء کے مقام پر تسلط حاصل کرکے اسے اپنا مرکز بنایا، باطنی تعلیمات کی دعوت، عام کی اور بہت جلد خطے کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کیا۔ جب ابو سعید کو کافی طاقت حاصل ہوگئی تو اس نے آس پاس کے علاقوں پر چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ابو سعید اپنے ایک غلام کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا ابو طاہر اپنے باپ کا جانشین ہوا۔
ابو طاہر اپنے باپ کے برخلاف زیادہ مذہبی رجحان نہ رکھتا تھا۔ اس لئے وہ مذہبی سرگرمیوں اور لوٹ مار سے دور رہا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ابو طاہر کو فاطمی داعیین کے ہاں سے کتاب ”کنز البلاغة السابع“ منگوا کر پڑھنے کا موقع ملا، اس کتاب کو پڑھتے ہی ابو طاہر کے خیالات میں یک دم تبدیلی رونما ہوئی، اس نے بحرین و احساء کے تمام لوگوں کو ہتھیار بند ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ مجھے عنقریب تمہارے ذریعے ایک اہم کام سرانجام دینا ہے۔ اس اعلان پر ابو طاہر کے گرد بے شمار لوگ اکھٹے ہوگئے۔
مقتدر باللہ کے زمانہ خلافت میں بمطابق 317 ھ جب حج کے دن آئے تو ابو طاہر ان سب کو لے کر مکہ کی طرف عازم سفر ہوا۔ مکہ پہنچ کر ابو طاہر نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ حاجیوں پر ٹوٹ پڑو، جس قدر خون ریزی کر سکتے ہو ہرگز گریز نہ کرنا۔ عازمین حج حواس باختہ ہو کر بیت اللٰ٘ه میں پناہ گزین ہوئے، بیت اللہ کے داخلی دروازے اندر سے بند کرکے عبادات میں مشغول ہوگئے گویا انہوں نے موت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اہل مکہ نے ابو طاہر کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا اور ہتھیار بند ہو کر ابو طاہر کے سامنے صف آراء ہوگئے۔
ابو طاہر نے اس موقع پر چال چلی اور مک٘یوں کو پیغام بھیجا کہ ہم حج کرنے آئے ہیں، کوئی دنگا فساد مچانے نہیں آئے، ہم پر حملہ ہوا تھا اس لئے ہم ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تھے، ہمیں حج کرنے دو، حرم کے دروازے کھول دو، ورنہ بدنامی تمہارا ہی مقدر ہوگی کہ تم حاجیوں کو حج کرنے سے روکتے ہو۔ اہل مکّہ ابو طاہر کے اس جھانسے میں آگئے اور خیال کیا کہ کوئی توتکار ہوگئی ہوگی جس کی وجہ سے نوبت لڑائی تک جا پہنچی، غرض قصہ مختصر کہ عہد و پیمان ہوئے، فریقین سے قسمیں اٹھوائی گئیں۔ ہتھیار رکھوا دیئے گئے، پھر سے طواف شروع ہوگیا، ابو طاہر موقع کی تاڑ میں تھا، جب دیکھا کہ مک٘ی مطمئن ہوگئے ہیں تو ابو طاہر نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے ساتھیوں کو ہلّہ بولنے کا حکم دیا۔
قرامطیوں نے لوگوں کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا جو بھی سامنے آیا قتل ہوا۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارے کنووں میں اتر گئے، یا پہاڑ پر بھاگ گئے۔ قرامطیوں نے بیت اللہ میں توڑ پھوڑ شروع کر دی، بیت اللہ کو نقصان پہنچایا، بیت اللہ کا غلاف اتار کر تار تار کرکے غارت کر دیا گیا، بیت اللہ کا دروازہ اکھاڑ ڈالا، حجر اسود کو بھی بیت اللہ کی دیوار سے اکھاڑ پھینکا۔ چاہ زمزم کو لاشوں سے پاٹ دیا گیا۔ قرامطیوں کا کہنا تھا کہ اگر اللہ خود آسمان پر ہے تو اسے زمین پر کسی گھر کی ضرورت نہیں اس لئے کعبہ کو لوٹنا ضروری ہے۔ وہ بیت اللہ کے صحن میں بآواز بلند پکارتے کہ کہاں ہے وہ خدا جس کا کہنا ہے کہ “من دخله کان آمنا“ (جو حرم میں داخل ہوا اسے امان حاصل ہوئی) اور جو کہتا ہے کہ ”آمنھم من خوف“ (اللہ نے انہیں (اہل مکہ) کو خوف سے امن میں رکھا) حاجیوں کو مخاطب کرکے کہا ”تم جو خانہ خدا میں داخل ہو ہماری تلواروں سے کیوں حفاظت نہیں پاتے؟ اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تو تمہیں ہماری تلواروں سے ضرور بچاتا۔ غرض اس طرح قرآنی آیات اور حاجیوں کو اپنے طنز، طعن اور مذاق کا نشانہ بنایا، مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنایا، لگ بھگ بیس ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ یہ تعداد ان کے علاوہ ہے جو از خود اپنی جان بچانے کیلئے کنووں میں کود گئے تھے، اور بعد میں قرامطیوں نے ان کنووں کو لاشوں سے پاٹ کر انہیں بھی ہلاک کر ڈالا تھا۔ غرض مکہ و اہل مکہ خوب اچھی طرح تاخت و تاراج کرتے ہوئے خوب لوٹ و کھسوٹ کا بازار گرم کیا۔ اور واپسی پر حجر اسود اور بیت اللہ کا دروازہ پنے ساتھ بحرین لے گیا۔
ابو طاہر نے احساء واپس پہنچ کر کتب سماوی یعنی تورات، انجیل اور قرآن کے نسخوں کو صحراء میں پھنکوا دیا اور قرامطی ان پر بول و براز کرتے رہے۔ ابو طاہر کہا کرتا تھاکہ ”تین افراد نے انسانوں کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ایک گڈریا تھا (ابراہیم)، ایک اتائی (عیسیٰ) اور ایک شتربان (محمد)۔ مجھے سب سے زیادہ غصہ اس شتر بان پر ہے کہ یہ شتربان باقیوں کی نسبت زیادہ بڑا شعبدہ باز تھا۔ ابو طاہر نے اپنے زیر اثر علاقے میں سب لوگوں پر لازم کر رکھا تھا کہ انبیاء و رسل پر لعنت بھیجی جائے۔
قارئین کرام!
اب ذرا جگر تھام کر بیٹھئے کہ وہ مقدس حجر اسود جو جنت سے اتارا گیا، جو انبیاء کے ہاتھوں بیت اللہ کی زینت بنا، جسے آج تک حاجی بڑی عقیدت کے ساتھ چومتے چاٹتے اور مَس کرتے ہیں اس حجر اسود کے ساتھ ابو طاہر نے بحرین میں کیا سلوک کیا؟ تاریخ کا یہ گمشدہ ورق آپ میں سے اکثر کی نگاہوں سے قصدا پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیونکہ اس گمشدہ ورق کے افشاء میں رسوائی ہی رسوائی مضمر ہے، گمراہ اذہان فورا سورہ فیل کے شان نزول کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اور طرح طرح کے سوال داغنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے تاریخ کے اس گمشدہ ورق کی پوشیدگی میں حکمت ہی حکمت ہے، اور اظہار میں نری خجالت۔ تو سنئے! ابو طاہر نے حجر اسود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے بیت الخلاء کے گڑھے پر قدمچے کے طور پر نصب کرا دیا۔ ایک ٹکڑا ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف، جب قضاء حاجت کیلئے بیٹھتا تو ایک پاؤں ایک ٹکڑے پر رکھتا اور دوسرا پاؤں دوسرے ٹکڑے پر۔ تقریباً 22 برس تک حجر اسود اسی حالت میں ابو طاہر کے قبضے میں رہا۔
زیادہ تر مؤرخین کے مطابق عباسی خلیفہ کی درخواست پر مصر کے فاطمی خلیفہ کی مداخلت کی بدولت 22 برس کے بعد یعنی 339 ھ میں ابو طاہر نے بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد عباسیوں کے حوالے کیا۔ جبکہ نظام الملک طوسی کے مطابق قرامطیوں کی شرارتوں سے عاجز آکر عراق و خراسان سے بہت بڑے لشکر نے بحرین پر یلغار کا قصد کیا تو اس یلغار کے خوف سے گھبرا کر قرامطیوں نے حجر اسود کے ٹکڑوں کو کوفہ کی جامع مسجد لا پھینکا۔ کوفہ کے لوگوں نے لوہے کی سلاخ کے ذریعے دونوں ٹکڑوں کو آپس میں کس دیا اور لے جا کر بیت اللہ میں دوبارہ سے نصب کر دیا۔
(تمام تر تفصیل کیلئے سیر الملوک یا سیاست نامہ از ابو علی حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی، صفحہ نمبر 306 تا 311 ملاحظہ کیجئے)