Close

گمشدہ ورق

اسلامی تاریخ کا مطالعہ رکھنے والوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ واقعہ کربلاء کے بعد حضرت عبد الله بن زبیر جو حضرت عائشہ کے بھانجے اور عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت زبیر بن العوام اور اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے تھے، انہوں نے حجاز اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر اپنی خلافت کا اعلان کرکے بنو امیہ کی خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا تھا، اس زمانے میں خوارج، عراق کے شیعہ سردار مختار ثقفی، اور حبشہ کا  نجاشی حضرت عبداللہ بن زبیر کے سیاسی حلیف تھے اور ان سب   نے حضرت عبد اللہ بن زبیر سے اپنی یکجہتی کے اظہار کے طور پر بنو امیہ کے حملوں سے دفاعِ حجاز کیلئے اپنی فوجی مدد مہیا کر رکھی تھی۔ بلاد شام کے مسلمان ، جب حج و عمرے  کیلئے مکہ  آتے تھے تو انہیں عبداللہ بن زبیر کے سیاسی نظریات جاننے کا اتفاق ہوتا ۔ جب یہ عبداللہ بن زبیرسے ملتے تو عبداللہ بن زبیر کی عبادت، تواضع اور سنت پر مداومت ان کو نظر آتی، تو اہل شام کو عبداللہ بن زبیر کے زہد اور بنو امیہ کی عیاشیوں میں موازنہ کا موقع ملتا، ابن زبیر بھی اہل شام کی آمد کا پورا فائدہ اٹھاتے اور انہیں بنو امیہ کے خلاف اپنی مدد و نصرت کی بھرپور دعوت دیتے۔ جب یہ اہل شام حج و عمرہ کے بعد بنو امیہ کے خلاف اور عبداللہ بن زبیر کے حق میں ذہن لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹتے تو شام میں بھی عبداللہ بن زبیر کے حالات پر گفتگو ہوتی ، جس سے اہل شام میں عبداللہ بن زبیر کیلئے حمایت بڑھتی۔
اس ساری صورت حال کو عبدالملک بن مروان نے بھانپ لیا اور اسے حجاز میں عبداللہ بن زبیر کی خلافت سے خطرہ محسوس ہونے لگا، اس نے اس کے توڑ کی تدبیروں پر غورو فکر کرنا شروع کردیا۔ لیکن مسلمانوں کو بھلا حج کیلئے مکہ جانے سے کیسے روکا جا سکتا تھا ؟ اس بات کا حل اسے نہیں مل رہا تھا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد بالآخر اس نے ایک حل تلاش کر ہی لیا۔ عبدالملک بن مروان کے زرخیز ذہن نے اسے قبۃ الصخرۃ کی تعمیر کا حل سجھایا۔ اس نے ہنگامی بنیادوں پر قبۃ الصخرۃ  کی تعمیر کرکے مسلمانوں کو قبۃ الصخرۃ کے حج کی دعوت دی، اور انہیں کعبہ کے حج کیلئے مکہ جانے سے روکنے کے اقدامات کئے۔
مؤرخ یعقوبی نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:
”عبدالملک بن مروان نے اہل شام کو حج کیلئے مکہ جانے سے روکا، کیونکہ ان میں اکثر حاجی جب مکہ حج کیلئے جاتے تھے تو وہ عبداللہ بن زبیر کی دعوت سے متاثر ہو کر ان کی بیعت کر لیا کرتے تھے۔ جب اس صورت حال کا عبدالملک بن مروان کو ادراک ہوا تو اس نے اہل شام کو مکہ جانے سے روک دیا، لوگوں نے تو دہائی مچا دی کہ تم ہمیں حجِ بیت اللہ سے روکنا چاہتے  ہوجو من جانب اللہ فریضہ ہے ؟ تو عبدالملک نے ان سے کہا کہ اس  ابن شہاب زہری کو سنو جو تمہیں رسول اللہ کی حدیث بیان کرتا ہے کہ:
لا تشدّ الرحال الّا اليٰ ثلاثة مساجد المسجد الحرام و مسجد الرسول و مسجد الاقصيٰ

رسول اللہ نے فرمایا: سوائے تین مساجد کی زیارت کے کسی اور مسجد کیلئے کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے) مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ“ (بخاری و مسلم، متفق علیہ)
بس یہ بیت المقدس تمہارے لئے بیت اللہ کا قائم مقام اور نعم البدل ہے ۔ اور یہ چٹان (صخرۃ) وہی چٹان ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس چٹان پر قدم رکھے تھے جب آپ نے شب معراج کو آسمان کی طرف سفر کا آغاز کیا تھا۔  عبدالملک نے اس چٹان پر گنبد تعمیر کیا جسے قبۃ الصخرۃ یعنی چٹان والا گنبد اور Dome of  Rock کہا جاتا ہے، پھر اس پر ریشمی پردے لٹکائے اور خدمت گار مقرر کئے (سدانت) جیسا کہ بیت اللہ کے ساتھ معاملہ کیا جاتا تھا۔ لوگوں نے عبدالملک کے حکم پر قبۃ الصخرۃ کے گرد ایسے ہی طواف کیا جیسا کہ بیت اللہ کے گرد طواف کیا جاتا تھا۔ بنو امیہ کے دور تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔“ (یعقوبی)

وہ چٹان جس کے عین اوپر گنبد صخریٰ تعمیر کیا گیا

الروحی نے بھی اس واقعہ کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
”جب عبدالملک بن مروان نے خلافت سنبھالی تو لوگوں کو حج کیلئے مکہ جانے سے روک دیا، کیونکہ جب اہل شام حج کیلئے مکہ جاتے تھے تو عبداللہ بن زبیر ان سے بیعت لیا کرتے تھے۔ عبدالملک کے منع کرنے پر لوگوں نے شور مچایا  تو عبدالملک نے گنبد صخریٰ تعمیر کرکے لوگوں کو اس کے طواف کیلئے راضی کر لیا،  لوگ اس کا  طواف کرتے تھے، اور عرفہ  کے دن اس کے پاس وقوف کرتے تھے۔“
یعقوبی وہ پہلا مؤرخ ہے جس نے عبدالملک بن مروان کے ہاتھوں قبۃ الصخرۃ کی تعمیر کی تاریخ رقم کی ہے، اور الروحی نے بھی یہ روایت یعقوبی سے ہی نقل کی ہے۔   قبۃ الصخرۃ کی تعمیر کی بابت زیادہ تر مؤرخین کی یہی رائے ہے کہ عبدالملک بن مروان نے ہی قبۃ الصخرۃ کی تعمیر سرانجام دی، جبکہ کچھ مؤرخین کی رائے اس کے برعکس بھی ہے ان کا خیال ہے کہ قبۃ الصخرۃ کی تعمیر قسطنطین کی ماں ہیلن کے ہاتھوں سرانجام پائی تھی، ان کے اس خیال کی بنیاد محض اس بات پر ہے کہ قبۃ الصخرۃ کی تعمیر عربی فن تعمیرسے میل نہیں کھاتی، بلکہ یہ بازنطینی فن تعمیر سے مماثلت رکھتی ہے،  نیز یہ خیال بھی قرین قیاس ہے کہ بیت المقدس عیسائیوں اور رومیوں کے نزدیک کبھی کوئی مقدس مقام نہیں رہا۔ دوسری جانب مؤرخین اور محدثین کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ عبدالملک بن مروان ہی قبۃ الصخرۃ کا معمار حقیقی ہے، اور ان کا واضح جھکاؤ یعقوبی کی روایت کی جانب ہی ہے۔ نیز قبۃ الصخرۃ پر نقش تحریر بھی اس بات کی گواہ ہے کہ قبۃ الصخرۃ کا اصل معمار عبدالملک بن مروان ہی ہے کیونکہ اس تحریر میں قبۃ الصخرۃ کا سنِ تعمیر ۷۲ھ درج ہے جو عبدالملک بن مروان کا ہی دور حکومت ہے۔
تاریخ الکعبۃ از ڈاکٹر علی حسنی خربوطلی

 

1 Comment

جواب دیں

1 Comment
scroll to top