Close

نبئ کریم کی خانگی زندگی

 

وَلَن تَسْتَطِيعُوۤاْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ ٱلْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَٱلْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ  وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُوراً رَّحِيماً (سورۃ النساء:۱۲۹: )
اور نہیں قدرت رکھتے تم اس بات کی کہ عدل کر سکو بیویوں کے درمیان، خواہ کتنا ہی چاہو تم، لہذا نہ جُھک جاوؑ (کسی ایک طرف) کہ پوری طرح جھکنا کہ چھوڑ دو دوسری بیویوں کو ادھر لٹکتا اور اگر درست کر لو تم (اپنا طرز عمل)  اور ڈرتے رہو اللہ سے اور بیشک اللہ ہے بہت معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔

مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر آپ کسی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس کیلئے حکم ہے کہ تمام بیویوں کو برابر مقدار میں محبت، توجہ اور وسائل مہیا کرے۔
ہمارے عقیدہ کے مطابق نبیءکریم ﷺکا مقام نہ صرف پیغمبر کی حثییت سے سب سے اونچا ہے بلکہ آپ انسانیت کی اُس معراج پر ہیں، کہ آپ جیسا انسان اس زمین پر نہ پہلے آیا ہے، اور نہ مستقبل میں کبھی آئے گا۔ ، آپ کی حیات مبارکہ زندگی کے ہر شعبہ میں نسل انسانی کیلئے مشعل راہ ہے۔خانگی زندگی میں بھی ایک خاوند کے طور پر آپ کے کردار میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ اپنی ہر بیوی سے ایک سا سلوک رکھتے تھے اور اسی بات کی دوسروں کو بھی تلقین فرماتے تھے۔
حضرت سودة بنت زمعۃ آپ کی دوسری بیوی تھیں، آپ نے ان سے یثرب ہجرت سے ذرا پہلے شادی فرمائی تھی۔ حضرت عائشہ سے شادی کے  بعد آپ حضرت سودۃ کو  طلاق دینا چاہ رہے تھے، جس کی وجہ مسلمان تاریخ دانوں کے نزدیک آپ کا عمر رسیدہ ہونا ہے۔ حضرت سودةؓ آپ ﷺکی ہم عمر بتائی جاتی ہیں، لیکن 9 سالہ حضرت عائشہ کے مقابلہ میں آپ بیشک بہت”بوڑھی” تھیں۔  جونہی حضرت سودہؓ کے پاس یہ خبر پہنچی کہ آپ انہیں طلاق دینا چاہ رہے ہیں تو آپ دوڑی دوڑی نبئ کریم کے پاس آئیں اور درخواست فرمائی: ”یا رسول اللہ میں آپ سے کوئی دنیاوی چیز کی خوہشمند نہیں ہوں، لیکن خدا کیلئے آپ مجھ سے آپ کی بیوی ہونے کا مرتبہ مت چھینئے۔ میں آپ کی بیوی کی حثیت میں اس جہان سے جانا چاہتی ہوں۔ مجھے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہے۔“ آپؐ نے حضرت سودہؓ کی عرض قبول فرمائی اور انہیں طلاق نہیں دی۔ لیکن اس کے بدلے میں آپ کو نبئ کریمؐ سے مباشرت کےسلسہ میں حضرت عائشہ کے حق میں دستبردار ہو گئی تھیں۔ مشہور تاریخ دان اور مفسر ابن کثیر کا اس سلسلہ میں کہنا ہے،” انہیں ( حضرت سودہ کو)  اپنے پاس رکھ کر آپ نے ایک مثال قائم فرمائی ہے جس کی دوسرے بھی تقلید کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے تو بیوی اپنے کچھ یا تمام حقوق سے دستبردار ہو کر خاوند کے ساتھ باقی زندگی گزار سکتی ہے”۔
نبئ کریمؐ جب کبھی سفر پر جاتے تو آپ قرعہ اندازی فرماتے کہ کون سی بیوی آپ کے ساتھ جائے گی، جن کا نام نکلتا آپؐ اس زوجہ مطہرہ کو ساتھ لے جاتے۔ آپ ان کیلئے ایک دن اور رات مختص فرماتے، لیکن سودہ بنت زمعہ نے اپنی ( ساتھ جانے کی) باری عائشہؓ کو دے دی تھی، تا کہ آپؐ ( ان کے اس فعل سے) خوش ہو جائیں۔
حدیث بخاری، جلد سوم، حدیث نمبر ۷۶۶۔
حضرت عائشہؓ مندرجہ بالا آیت (النساء:۱۲۹) کے بارے میں فرماتی ہیں ” اگر کسی بیوی کو اپنے خاوند سے زیادتی یا چھوڑ جانے کا ڈر ہو، اگر اس کا خیال ہو کہ اس کا خاوند اسے مزید نہیں رکھنا چاہتا اور اسے طلاق دے کر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کہے مجھے بھی ساتھ رکھو، طلاق نہ دو اور دوسری شادی کر لو، بیشک تم مجھے نہ خرچہ دو اور نہ ہی میرے ساتھ ہمبستری کرو۔ اللہ کا فرمان ہے، کہ اس آدمی پر کوئی سرزنش نہیں ہے اگر ان دونوں کے درمیان دوستانہ تصفیہ ہو جائے اور(اس طرح) تصفیہ بہتر ہے۔
حدیث بخاری، جلد ۷، حدیث نمبر ۱۳۴
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وفات نبویؑ ہوئی، تو آپؑ کے نکاح مبارک میں نو بیویاں تھیں جن میں حضرت سودہؓ کے علاوہ آپ تمام کے پاس ( برائے مباشرت) تشریف لے جاتے تھے، اس لئے کہ انہوں نے اپنا نمبر حضرت عائشہؓ کو دے دیا تھا۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۲۰۲
"۔۔۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میں ان خواتین کے نزدیک نہیں جاوؑں گا ایک ماہ تک، کیونکہ آپؐ کو سخت ناراضگی تھی ان پر، لیکن جب اللہ نے آپ کو ان (ازواج مطہرات) کی حالت بتائی۔ جب ۲۹ راتیں گزر گئیں تو رسول اللہ سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔”۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب الصیام، حدیث نمبر:۲۱۳۶
عبداللہ بن انس سے روایت ہے کی مجھے بہت زیادہ تجسس تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ قران کریم میں کن دو ازواج مطہرات کا ذکر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حفصہ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ میں نے اسے کہا، کیا تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے ڈر نہیں لگتا؟، تم رسول اللہ سے زبان درازی سے پرہیز کیا کرو اور نہ ہی اُن سے بے جا فرمائشیں کیا کرو، اگر تمیہں کوئی چیز چاہئیے تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ اور اپنی پڑوسن (عائشہ) کے غلط روّیے کی نقل مت کیا کرو کیونکہ وہ تُم سے زیادہ خوبصورت بھی ہے اور رسول اللہ کی چہیتی بھی۔
حدیث بخاری نمبر۴۶۸ جلد:۳
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبئ کریمؐ نے ارشاد فرمایا اے اُم سلمہ ( حضور کی ایک زوجہ مطہرہ) تم مجھ کو عائشہ صدیقہؓ کے سلسلہ میں تکلیف نہ دو ( اس کی شکایتیں نہ کرو) خدا کی قسم مجھ پر کبھی وحی نازل نہیں ہوتی مگر جب تک کہ میں حضرت عائشہؓ کی چادر یا لحاف میں ہوتا ہوں۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۰۴
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے کہ لوگ حضرت عائشہؓ کا نمبر ( جب رسول کریم حضرت عائشہ کے حجرے میں رات گزارنے آتے تھے) دیکھ کر آپؐ کے حصّے بھیجا کرتے تھے اور اس سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ آپؐ خوش ہو جائیں، کیونکہ آپ عائشہؓ سے زیادہ محبت فرماتے تھے، اس وجہ سے لوگ نبیؐ کے پاس عائشہ کی باری والے دن، اُن کو حصّہ اور ہدیہ زیادہ بھیجا کرتے تھے۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۰۶
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ کی ازواج نے فاطمہؓ کو جو آپ کی صاحبزادی تھیں۔ عائشہؓ کی خدمات میں بھیجا، فاطمہؓ نے عائشہؓ سے اندر آنے کی اجازت مانگی، اس وقت آپؐ میرے ساتھ ایک چادر میں لیٹے ہوئے تھے، تو انہوں نے فاطمہؓ کو اندر آنے کی اجازت عطا فرما دی، تو فاطمہؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ آپؐ کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ کی خدمت اقدس میں بھیجا ہے کہ آپ ابن ابو قحافہ (ابوبکر) کی صاحبزادی عائشہ کے سلسلے میں انصاف فرمائیں۔ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا، میں خاموش تھی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کیا تم چاہتی ہو کہ جس کو میں چاہتا ہوں؟ انہوں (فاطمہؓ) نے فرمایا، کیوں نہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم نے ارشاد فرمایا، پھر تم اس ( عائشہؓ) سے محبت کیا کرو۔ یہ بات سن کر فاطمہؓ کھڑی ہو گئیں اور دوسری ازواج کے پاس جا کر بتایا کہ انہوں ( فاطمہؓ) نے کیا کہا اور رسول کریم نے کیا جواب ارشاد فرمایا۔ اس پر ازواج مطہرات فرمانے لگیں کہ تم سے یہ کام نہیں ہو سکا، پھر جاوؑ اور تم رسول کریم سے عرض کرو کہ آپ کی بیویاں ابن ابو قحافہ کی لڑکی کے سلسلے میں انصاف چاہتی ہیں۔ فاطمہؓ فرمانے لگیں، نہیں خدا کی قسم میں کبھی ان کے بارے میں رسول اللہ سے گفتگو نہیں کروں گی۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ پھر ازواج مطہرات نے زینب بنت جحشؓ کو بھیجا۔ جو کہ ازواج مطہرات میں رسول کریم کے نزدیک  میرے برابر کی خاتوں تھیں ( عزت و احترام، خاندان اور حسن و جمال )۔ میں نے زینبؓ سے زیادہ دین کے راستہ پر چلنے والی، خدا رسیدہ، صلہ رحمی کرنے والی، سچی بات کرنے والی، زیادہ صدقہ دینے والی اور اپنے نفس کو کام سے ذلیل کرنے والی خاتون کبھی نہیں دیکھی۔ اور اس کام کی بھی ضرورت ان کو صدقہ اور خیرات کے لیئے پڑتی تھی۔ صرف ان میں ایک ہی (بُری) چیز تھی اور وہ یہ کہ وہ زیادہ غصہ والی اور تیز مزاج خاتون تھیں، لیکن ان کا غصہ جلد ہی ختم ہو جاتا تھا۔ بہر حال وہ حاضر ہوئیں اور رسول کریمؐ سے انہوں نے اجازت مانگی۔ اس وقت بھی رسول کریمؐ عائشہ کے ساتھ اسی حالت میں تھے، کہ جس وقت حضرت فاطمہؓ حاضر ہوئیں تھیں۔ اور رسول کریمؐ نے اجازت عطا فرمائی تو انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ آپ کی ازواج نے مجھے آپؐ کے پاس بھیجا ہے، ان کی قلبی تمنا ہے کہ آپ ابن ابو قحافہ کی لڑکی کے سلسلے میں ان کے ساتھ انصاف فرمائیں۔ پھر انہوں نے مجھ کہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کافی برا بھلا کہا۔ میں رسول کریمؐ کی جانب دیکھ رہی تھی کہ آپؐ جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں کہ نہیں۔ اس وقت زینبؓ اس حال میں تھیں کہ میں سمجھ گئی کہ نبیؐ کو میرا جواب دینا ناگوار نہیں گزرے گا۔ چنانچہ میں نے بولنا شروع کیا تو ان (زینبؓ) کو گفتگو کرنے کا موقع ہی نہیں دیا، یہاں تک کہ (میں) ان (زینبؓ) پر غالب ہو گئی۔ اس پر نبیؐ نے فرمایا : آخر یہ بھی ابوبکر کی صاحبزادی ہیںَ
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۰۰، ۳۴۰۱
حضرت اُم سلمہ سے روایت ہے کہ وہ ایک روز ( کھانے کا )پیالہ لے کر خدمت نبوی میں پیش ہوئیں تو عائشہ صدیقہؓ ایک چادر لے کر حاضر ہوئیں، اور ایک پتھر لیئے ہوئے اور انہوں نے وہ پیالہ توڑ دالا، اور انہوں نے اسی پتھر سے توڑ ڈالا۔ رسول کریم نے دونوں ٹکڑے اٹھا کر ملا دیئے اور فرمانے لگے، تم کھانا کھا لو تمہاری والدہ صاحبہ کے دل میں جلن پیدا ہو گئی ہے ۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۱۱
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے کوئی خاتون صفیہؓ جیسی نہیں دیکھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریمؐ کو برتن میں کھانا بھر کر بھیجا۔ مجھ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور میں نے ( غصے میں آ کر ) وہ برتن توڑ دیا۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۱۲
کئی حدیثوں میں ذکر ہے کہ آپ حضرت خدیجہؓ سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے اور حضرت عائشہ بہت جلن محسوس فرماتی تھیں۔
"حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبیء کریم کی کسی بیوی سے حسد نہیں کیا، سوائے حضرت خدیجہؓ کے، حالانکہ میں نے کبھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ نے ایک بھیڑ ذبح فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ کے تعلق داروں میں بانٹ دو، میں نے ایک دن غصّے میں کہا کہ خدیجہؓ ہی ہر وقت آپ کے دماغ پر چھائی رہتی ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرماہا کہ اس ( خدیجہؓ) کی محبت اللہ نے میرے دل میں پروان چڑھائی ہے۔
حدیث صحیح مسلم، کتاب نمبر اکتیس، حدیث نمبر ۵۹۷۲
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  کہ اگر کسی کی دو بیویاں ہیں اور وہ ان کے درمیان عدل و انصاف نہ رکھتا ہو تو قیامت کے دن اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہو گا۔
ترمذی شریف، ابواب النکاح، حدیث نمبر ۱۰۱۴
ان احادیث کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ نبئ کریم اپنی بیویوں سے مساوی اور منصفانہ سلوک رکھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں،اور جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث ترمذی میں درج ہے، بیویوں سے غیر مساوی سلوک رکھنے کی پاداش میں آپ صلی اللہ وسلم کو روز قیامت ایک مفلوج حصّے کے ساتھ اٹھنا ہو گا، لیکن ہم سب مسمانوں کا عقیدہ ہے، کہ روز قیامت نبی کریم ہماری شفاعت فرمائیں گے، کیا اپنی اس مفلوج حالت میں نبئ کریمؐ واقعی اپنی امّت کو پل صراط پار کرا کے حوض کوثر تک لے جا سکیں گے۔ یا ہمیں اپنے اپاہج اور مفلوج نبی کو اپنے ہی گناہگار کندھوں پر اٹھا کر پل صراط پار کرانا ہو گا۔ بات ذرا سوچنے کی ہے۔

5 Comments

جواب دیں

5 Comments
scroll to top