Close

سیاسی اسلام کے ظہور کے اسباب

 

اخوان المسلمین کے مرحوم فقیہ شیخ محمد الغزالی کہتے ہیں: ❞اسلام کا المیہ اس کی حکومتوں کی کثرت سے اس قدر نہیں آیا جس قدر بر سرِ اقتدار طبقے کی حماقتوں، ان کی نا اہلی اور خلافت کے منصب کے ایسے ہاتھوں میں پڑ جانے کی وجہ سے آیا جو ایک چھوٹا سا گاؤں یا ادارہ تک چلانے کے اہل نہیں تھے❝ (مائۃ سؤال عن الاسلام، صفحہ 282)۔

اگر صورتِ حال واقعتاً ایسی ہی ہے تو پھر بیسویں اور اکیسویں صدی کے آغاز پر دین کو سیاست سے منسلک کرنے کی مذہبی جماعتوں کی آواز کے اتنا بلند ہونے کی کیا وجہ ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں جن کے سبب یہ آوازیں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اتنا بلند ہوگئیں کہ جس کی مثال علویوں کی امویوں کے ساتھ کشمکش کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی؟

رجعت پذیر معاشیات:
اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں اسلامی جماعتوں کے ظہور کا عرب دنیا کی ابتر اقتصادی صورتِ حال کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ عرب دنیا میں پہلی اسلامی جماعت کا ظہور 1928ء میں ہوا جو کہ ❞الاخوان المسلمین❝ ہے، یہ سال عرب دنیا میں اقتصادی زبوں حالی کا سال تھا، اگلے ہی سال یعنی 1929ء کو ساری دنیا کو بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا، ایسی ابتر اقتصادی صورتِ حال میں اس نو مولود اسلامی جماعت نے آکر عرب اور اسلامی دنیا کو ❞اسلام ہی حل ہے❝ کا پیغام دیا اور انہیں یہ خوش کن خواب دکھایا کہ اسلام ہی بھوکوں کو کھانا اور خوف زدگان کو امن فراہم کر سکتا ہے۔

اسلامی جماعتوں پر جبر:
سیاسی اسلام کے ظہور کی ایک وجہ عرب دنیا میں بالخصوص اور اسلامی دنیا میں بالعموم جمہوریت پسندوں کی طرف سے بیسوی صدی کے دوسرے نصف میں اسلامی جماعتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں جس کی وجہ سے رائے عامہ میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا، مثلاً 1955ء میں اخوان المسلمین کی جملہ قیادت کو پھانسی دے دی گئی، 1966ء میں سید قطب کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا گیا، صالح سریہ کو 1974ء، شکری مصطفی کو 1977ء جبکہ اسی سال ❞الجہاد❝ نامی تنظیم کے محمد عبد السلام کو بھی پھانسی دے دی گئی اور 1982ء میں شام کے شہر حلب اور حماۃ میں اخوان المسلمین کے ہزاروں کارکنوں کو قتل کردیا گیا۔

1967ء کی شکست:
سیاسی اسلام کی طاقتور نموداری کی ایک اہم وجہ 1967ء کی شکست ہے، اس شکست نے بہت سے برے سیاسی، معاشرتی اور معاشی اثرات مرتب کیے اور جمال عبد الناصر کے اشتراکی منصوبے کا خاتمہ کردیا، بعض محققین کا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اسلامی تحریکوں کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ معاشرتی ہے کیونکہ زیادہ تر اسلامی جماعتوں کا تعلق غریب طبقات سے ہے جو جھوپڑ پٹیوں میں رہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم کچھ ایسے اچھے نمبروں سے پاس نہیں کی چنانچہ انہیں مذہبی سیاسی کام کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ملا جو کسی حد تک انہیں ان کی کھوئی ہوئی معاشرتی قدر ومنزلت واپس دلوا سکتا تھا، آج بھی طبقاتی جنگ نے مذہبی لبادہ اوڑھا ہوا ہے، دوسری طرف مذہب کا بطور ترغیبی ہتھیار کے استعمال کو متوسط طبقے کے مفادات سے الگ نہیں کیا جاسکتا جن میں یہ تحریکیں پروان چڑھتی ہیں، یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنی زیادہ تر قوت چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں سے حاصل کرتی ہیں، ان میں غریب طبقے کے ہنر مند، بے روزگاری کا سامنا کرنے والے طالب علم وغیرہ شامل ہیں جنہیں سیاسی اور مالی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ (دیکھیے: جذور العنف لدی الجماعات الاسلامیۃ، صفحہ 111، اور: الدین والسلطۃ فی المجتمع العربی المعاصر، صفحہ 84)۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اسلامی جماعتوں کے ابھرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تک طالب علموں، کسانوں اور مزدوروں کی فکر فکری انحراف کا شکار نہیں ہوئی تھی اور نا ہی وہ کسی فلسفیانہ دھارے کا شکار ہوئے تھے، وہ اپنی فطرت پر تھے، مذہب، اس کی اقدار اور تقدس پر فخر کرتے اور اس کی قدر کرتے تھے، مزید برآں اس جمہور کے مفادات مذہبی تعلیمات سے ٹکراؤ کا شکار نہیں ہوئے تھے، مذہب ان کے لیے سیاسی اور معاشرتی مظالم سے چھٹکارے کی نوید تھا، یہ گروہ ابھی تک مغربی روایات کی اثر اندازی سے دور تھے اور ان کی زندگی میں مغربی تہذیب کی جدیدیت درآمد نہیں ہوئی تھی۔

معاشی شورشیں:
عرب دنیا کی ابتر معاشی صورتِ حال اور غربت کے نتیجے میں اٹھنے والی شورشوں نے سیاسی اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا، اس سلسلے کی پہلی شورش 1977ء کو مصر میں اٹھی، پھر 1982ء کو سوڈان میں، پھر 1984ء کو تیونس اور مراکش میں، اور 1989ء کو اردن میں اٹھی، 1993ء کی شماریات کے مطابق غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے عرب خاندان %34 تھے، بعض عرب ممالک میں یہ شرح ساٹھ فیصد تک چلی جاتی ہے، الغرض کہ عرب دنیا کی زیادہ تر آبادی – تیل پیدا کرنے والے ممالک کے علاوہ – ایک یا دو ڈالر سے زیادہ نہیں کماتے تھے، ان ساری شورشوں اور مسائل کا جواب اسلام، اسلامی تکافل اور اسلامی معاشیات کی صورت میں دیا گیا، جس کے نتیجے میں بعض اسلامی جماعتوں نے خاص کر مصر میں اسلامی بینکاری اور مختلف عرب ملکوں میں اس کی سپورٹ شروع کردی، یہ اشتراکی معاشیات کا اسلامی متبادل تھا جس نے عرب خاندانوں کو برباد کردیا تھا جیسا کہ اسلامی جماعتوں کی ادبیات نے اس وقت دعوی کیا، بڑے بڑے مذہبی رہنماؤوں کی سپورٹ سے ان اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں نے اسلام کے نام پر خوب بزنس کیا، یہ چیز ان بینکوں کے ناموں سے عیاں تھی جن کے نام مذہب سے متاثر ہوکر رکھے گئے تھے جیسے، البدر، الہدی، الہلال، النور، الرضا وغیرہ، اسلامی ٹچ دینے کے لیے ان بینکوں نے اپنے دفاتر کو سبز رنگ کے طلاء کیے اور دعوی کیا کہ ان کا بزنس صرف اسلامی مضاربہ اور مشارکہ پر مبنی ہے اور خالصتاً اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر استوار ہے تاہم غریب اور محدود آمدنی والے افراد کا پیسہ لوٹ کر یہ سارے بینک اور مالیاتی ادارے قلاش ہوگئے، ان کے بعض مالکان کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اور بعض غریبوں سے لوٹی ہوئی کروڑوں کی دولت لے کر فرار ہوگئے، جیسے ❞شرکۃ الہلال❝ کا مالک جو سو ملین مصری جنیہ لے کر امریکہ فرار ہوگیا، اسی طرح ❞شرکۃ الصفا❝ اور اسکندریہ کے چار دیگر اسلامی بینکوں کے مالکان بھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، مصری محقق محمد دیدار کے مطابق یہ لوگ حکومتی سطح پر کرپشن کی وجہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے (دیکھیے: شرکات توظیف الاموال، صفحہ 141)۔

عوامی ترکِ وطن:
سیاسی اسلام کی مقبولیت کی ایک وجہ عبد الناصر، سادات اور حافظ الاسد کے دور میں جمہوریت پسندوں كا ترکِ وطن کی طرف رجحان ہے، ستر کی دہائی میں ترکِ وطن کا عمل زوروں پر تھا اور لوگ جوق در جوق مغرب جاکر آباد ہو رہے تھے، عبد الناصر اندر ہی اندر مغرب سے کافی متاثر تھے مگر اپنے سیاسی معرکوں کی وجہ سے وہ اس کا اظہار نہ کر سکے، ان معرکوں میں سرِ فہرست مسئلہ فلسطین تھا، یہ تصور کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اگر اسرائیل فلسطین کی زمین پر نہ بنتا اور ❞مسئلہ فلسطین❝ نامی کوئی مسئلہ نہ ہوتا تو عرب دنیا کی اس وقت کیا حالت ہوتی؟ اس چیز کی بہتر سمجھ کے لیے Counterfactual thinking سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ اس کے کئی معاشی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں، مختلف عوامل کے سبب جس وقت مذہبی شعور تقویت پکڑ رہا تھا، اس شعور کا ٹکراؤ ترکِ وطن کے رجحان سے ہوگیا جو مذہبی شعور کے لیے تکلیف دہ امر تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے حوالے سے عرب لبرل سیاسی موقف بیک وقت پسندیدگی اور نفرت پر مشتمل ہوگیا، پسندیدگی تہذیبی ترقی سے اور نفرت استعمار سے۔

خلیجی تیل:
بیسوی صدی کے دوسرے نصف میں خلیجی ممالک میں تیل کا نکلنا اور 1974ء کے بعد اس کے معاشی اثرات کی نموداری جس سے عوام میں یہ تاثر ابھرا کہ بعض خلیجی ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی وجہ سے آسمان سے دولت نازل ہونا شروع ہوگئی بھی سیاسی اسلام کے پھیلاؤ کی ایک وجہ ہے، اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ اسلامی سزاؤوں کے نظام کے نفاذ کی وجہ سے ہی ان خلیجی ممالک کو یہ دولت نصیب ہوئی اور زمین زرخیز ہوگئی، تیل کی وجہ سے خلیجی ممالک پر دولت کی گویا بوچھاڑ ہوگئی جس کی وجہ سے 1974ء کے بعد اسلامی تنظیموں نے ان ممالک کو ❞دار الاسلام❝ سمجھ کر ان کی طرف رخ کرنا شروع کردیا جہاں مال بھی ہے اور اسلام بھی، بعض خلیجی ممالک کو اسلام کا بالکل صحیح نمونہ سمجھا گیا جو دولت لے کر آیا۔

خمینی انقلاب:
1979ء کو ایران میں خمینی کے کامیاب انقلاب نے سیاسی اسلام کے ظہور پر مثبت اثرات مرتب کیے، اسلامی تنظیموں کو لگا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو دیگر اسلامی وعرب ممالک میں دہرایا جاسکتا ہے، کچھ ہی سال بعد یعنی 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر چڑھائی کردی اور ❞حزب اللہ❝ کو جنوبی لبنان کی حدود پر اسرائیلی فوجوں سے نبرد آزما ہونے کا موقع مل گیا جس کی وجہ سے سنہ 2000ء میں اسرائیل کو لبنان سے نکلنا پڑا، فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی تنظیموں خاص کر ❞حماس❝ کی قیادت میں ❞انتفاضۃ❝ کی تحریک شروع ہوئی۔ سب کا ❞لاشعوری❝ مقصد ایران کے تجربے کو دہرانا تھا۔


طاقتور فوج کی تیاری میں ناکامی:
عرب ممالک کا اجتماعی یا انفرادی سطح پر ایسی طاقتور فوج تیار نہ کر پانا جو اسرائیل کو شکست دے سکے اگرچہ عربوں کا تعداد میں بھی زیادہ ہونا اور ان کا اجتماعی دفاعی بجٹ اسرائیل کے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہونا بھی ایک ایسا اہم عامل ہے جس نے سیاسی اسلام کے ابھرنے میں مدد دی، نصف صدی سے زائد عرصہ سے فلسطین کے مسئلہ کا معلق رہنا اور عربوں کا ایسی فوج تیار نہ کر سکنا جو معرکے کو حتمی انجام تک پہنچا سکے بھی سیاسی اسلام کو تقویت بخشنے والی ایک اہم وجہ ہے، سال 2000ء کے آتے ہی اسرائیلی فوج مشرقِ وسطی کی سب سے طاقتور فوج بن گئی جس کے سامنے عرب ممالک بے بس نظر آتے اور سوائے کانفرنسیں کرنے اور فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم پر احتجاجی بیانات دینے کے سوا کچھ نہ کر پاتے، اس کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی تنظیموں کو تقویت ملی، اور حماس اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کو عرب اسرائیل تنازعے میں اہم سیاسی کردار مل گیا۔

کمزور سیاسی نظام:
اس میں شک نہیں کہ مختلف عرب ممالک جیسے اردن اور الجزائر میں اسلامی جماعتوں کا قانون ساز، بلدیاتی، مزدور اور ٹریڈ یونینوں کے انتخابات میں غیر متوقع کامیابیوں نے سیاسی اسلام کے شیئر میں مزید اضافہ کیا، یہ کامیابیاں کمزور سیکولر قوتوں کے مقابلے میں حاصل کی گئیں، یہ قوتیں اپنی بقاء کے لیے ضروری معاشرتی اور فکری قوت مجتمع کرنے میں ناکام رہیں، صاف ستھری قومی سیاسی قوتوں کو کچلا گیا اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا یا سیاسی میدان سے باہر نکال دیا گیا یا پھر جلا وطن کردیا گیا، بلکہ بعض عرب ممالک نے تو (جیسے سادات کے دور میں) اسلامی جماعتوں کو سپورٹ کیا اور ان کے ساتھ ساز باز کی تاکہ بائیں بازو کی قوتوں کو کچلا جاسکے، نتیجے کے طور پر بعض عرب اور خلیجی ممالک میں اسلامی جماعتیں تعلیم اور میڈیا پر قابض ہوگئیں چنانچہ تعلیمی نصاب اور میڈیا کو اسلامی پروگراموں سے بھر دیا گیا اور انہیں باہر سے درآمد کردہ فلسفیانہ افکار سے پاک کردیا گیا، مذہبی پروگراموں اور کتابوں پر سے پابندیاں ہٹا لی گئیں خاص طور سے سید قطب اور مودودی کی کتابیں، مساجد کے خطیبوں سے صرفِ نظر کر لیا گیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اس سیاست نے اسلامی جماعتوں کو دوسری سیاسی قوتوں کی غیر موجودگی کے سیاسی خلاء کو پر کرنے کا بھرپور موقع دیا۔

غیر واضح متبادل:
سیاسی اسلام کے نعرے بڑے دل آویز اور خوبصورت تھے، وہ ❞جاہلیت❝ کی حکومت ختم کر کے زمین پر اللہ کی حکومت کھڑی کرنے کی دعوت دے رہے تھے مگر بغیر کسی واضح اور قابلِ قبول سیاسی، معاشی اور معاشرتی پروگرام کے جسے وہ قائم نظام سے بدل سکتے، یہ نعرے – جیسا کہ فرج فودہ اپنی کتاب ❞الفریضۃ الغائبۃ❝ میں کہتے ہیں – صرف یہ دعوت دینے پر اکتفاء کر رہے تھے کہ ایک حقیقی معاشرتی اور سیاسی نظام قائم کرنا ایک مقدس فریضہ ہے جس کے لیے ہر مسلمان مرد وعورت کو جد وجہد کرنی چاہیے مگر ان اسلامی جماعتوں کی قیادت میں سے کوئی بھی ہمیں یہ بتانے سے قاصر تھا کہ ایسا نظام کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کیسے ہوگا۔ (دیکھیے: التحولات الاجتماعیۃ والایدیولوجیا الاسلامیۃ، صفحہ 160)۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top