Close

مذہبی رہنما اور ہماری ذمہ داری

تمام مذاہب چاہے انسانی ہوں یا آسمانی – جیسا کہ بعض لوگ دعوی کرتے ہیں – اپنی تعلیمات اپنے ماننے والوں کے بغیر نہیں پھیلا سکتے، اگر کسی خاص مذہب کو آسمانی تسلیم کر لیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ پیار، محبت اور بھائے چارے کی تعلیم دے اور اسے عام کرنے اور اخلاقی انسان پیدا کرنے کی سعی کرے جو دسروں کی ثقافتی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی اور حتی کہ جنسی حیثیت تک کو تسلیم کرے، ❞کائنات کے خدا❝ کی طرف سے نازل کردہ مذہب کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کو تشدد اور نفرت پر اکسائے اور اجتماعی انسانی اقدار کا جنازہ نکال دے۔

مذہب کی نمائندگی اور اس کے افکار کو پھیلانے والے مذہبی رہنماؤوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف خود اچھے اخلاق کے مالک ہوں بلکہ لوگوں کو بھی محبت، امن اور بھائی چارے کی تلقین کریں، اگرچہ ایسے مذاہب کی کمی نہیں ہے جو تباہ کن منفی اقدار کے حامل و مروج ہیں اور ان سے انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہیں، یہ مذاہب کب کے ناپید ہوچکے ہوتے اگر ان کے مذہبی رہنما ان کی ترویج کا کام نہ کرتے۔

انسانیت جس تباہ کن دوراہے پر کھڑی ہے اس کی بنیادی وجہ مروجہ مذاہب ہیں لہذا انسانیت کو درپیش مسائل کی بڑی ذمہ داری مذہبی رہنماؤوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کے بغیر یہ تباہ کن مذہبی افکار پایہء تکمیل کو ہرگز نہ پہنچتے۔

میں یہ نہیں جانتا کہ شیطان ہے یا نہیں، لیکن اگر کوئی مجھ سے اس کی موجودگی کے بارے میں استفسار کرے تو میں یقینی طور پر اقرار میں جواب دوں گا، اگر شیطان شر کی علامت ہے تو مذہبی رہنما یقیناً شیطان ہیں، کیونکہ یہی وہ واحد گروہ ہے جو ہمیشہ سے وہ کام کرتا چلا آرہا ہے جو اصولاً شیطان کو کرنا چاہیے، اگر آپ کسی عبادت گاہ میں چلے جائیں تو آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی، اس سے قطع نظر کہ یہ لوگ تقدس وعفت کی چادر اوڑھے ہوتے ہیں لیکن در حقیقت یہ انسانی شکل میں شیطان ہی ہیں۔

بُدھا کہتے ہیں: ❞ہر طرح کی عبادت گاہوں میں ہی جھوٹ اور ریاء کاری کے بیج بوئے جاتے ہیں اور انہی میں غلامی کے درخت کی آبیاری کی جاتی ہے❝ اور یہ کام یقیناً مذہبی رہنما ہی کرتے ہیں اور عبادت گاہوں کو اپنی فرسودہ سیاسی اور مذہبی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے منبر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ سادہ لوح لوگ ان کی باتوں پر لبیک کہہ اٹھتے ہیں، آمرانہ نظاموں کے لیے تو یہ لوگ اور ان کی تعلیمات کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں، وہ انہیں لوگوں کی بھیڑ کو کنٹرول کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔

لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ زیادہ تر آمرانہ حکومتوں کا تعلق ان ممالک سے ہے جن کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے، لیکن میرے خیال سے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ جب تک ان ممالک میں مذہبی رہنما آمروں کو تحفظ دینے کے لیے لوگوں کو یہ تعلیم دیتے رہیں گے کہ حاکم کے خلاف جانا شرعاً حرام ہے، ایسا ہی ہوتا رہے گا اور آمرانہ ثقافت پروان چڑھتی رہے گی، ڈاکٹر وفاء سلطان کہتی ہیں کہ مذہبی رہنما شہری اور اس کی حکومت کے درمیان مِڈل مین کا کردار ادا کرتا ہے اور دونوں کی مصلحت پر مشتمل ایک ڈیل کی باگ دوڑ سنبھالے رہتا ہے جس کی رو سے حاکم شہری کے دین پر حملہ نہیں کرتا اور بدلے میں شہری اس کی تمام غیر اخلاقی حرکتوں سے صرفِ نظر کرتا رہتا ہے، یوں آمریت مسلم قوموں کی رگوں میں سرایت کر گئی اور ایک لازمی صفت بن گئی۔

مذہبی رہنما کے بغیر کوئی آمر پنپ نہیں سکتا، مثلاً سوڈان میں علماء کی کونسل اس امر کا خاص خیال رکھتی ہے کہ کرپٹ نظام اپنی تمام تر صورتوں میں قائم ودائم رہے چاہے اس کی قیمت بے قصور لوگوں اور مخالفین پر کفر کے فتووں اور ان کے خون سے ہی کیوں نہ چکانی پڑے، سعودی عرب میں ہیئۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی جاسوسی اور ان کی نجی زندگی میں مداخلت کرنے میں صرف کرتی ہے جبکہ شاہوں اور شہزادوں کے کرتوتوں سے صرفِ نظر کرتی رہتی ہے اور انہیں زمین پر اللہ کا سایہ قرار دیتی ہے، تقریباً تمام اسلامی ممالک میں رسمی یا غیر رسمی طور پر ایسے ادارے موجود ہیں جن کا کام آمروں کو مذہبی تحفظ اور جواز فراہم کرنا ہے۔

مصر میں ایک مذہبی رہنما نے ہر اس شخص کا خون بہانے کا مطالبہ کیا جو حاکم – یعنی مرسی – کی مخالفت کرے، سوڈان میں علماء کی کونسل نے میثاق الفجر جو البشیر کے آمرانہ نظام کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے پر دستخط کرنے والے ہر شخص کو کافر قرار دیتے ہوئے اس کا خون بہانے کا مطالبہ کیا، اسلام کے ہر دور میں مذہبی رہنما حاکم طبقے کے سب سے زیادہ حامی رہے، یہ لوگ عوام کو اس وہم میں مبتلا کردیتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو بھی مظالم ہو رہے ہیں وہ سب ان کی ❞تقدیر❝ اور ❞اللہ کی مرضی❝ ہے، اور اپنے اور حاکم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دیتے ہیں۔

بُدھا کا ایک اور قول ہے: ❞مذہبی رہنما حقیقت کے دشمن ہیں ان کا اکلوتا ہتھیار حقیقت کے متلاشیوں پر کفر کا الزام ہے❝ اگر آپ مسلمان ممالک کی حالتِ زار پر غور کریں تو آپ کو بُدھا کے قول کی حقیقت کا ادراک ہوجائے گا، ظلم کا دفاع اور ناقدین کو کچلنے کے سوا انہیں کچھ نہیں آتا، انسانیت پر ڈھایا جانے والا ایسا کوئی ظلم نہیں جس میں ان مذہبی رہنماؤوں کا ہاتھ نہ ہو، نفرت اور تشدد کی ہر دعوت انہی کی طرف سے آتی ہے، نوجوانوں کے جذبات ابھار کر انہیں اللہ کے نام پر دوسروں کا خون بہانے پر یہی لوگ اکساتے ہیں اور جہاد کے نام پر ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ایسی جنگوں میں دھکیل دیتے ہیں جن سے ان لوگوں کا دور کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس سب کے بدلے میں انہیں شاید جنت کی حوروں کی لالچ ہوتی ہے، لیکن شاید یہ جنت بھی انہیں ملنے والی نہیں کہ خدا اتنا کم عقل تو نہیں ہوسکتا جو دھرتی کے ایسے بوجھ کو جنت میں بھیج دے۔

جب سوڈان کی اسلامی موومنٹ کے سربراہ عبد اللہ ترابی سے جنوبی سوڈان میں ان مرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا جنہیں اس نے جان قرنق کی سربراہی میں سوڈان کو آزاد کرنے کے اور اللہ کے دفاع کے نام پر بھرتی کیا تھا تو اس نے کہا کہ: ❞انہم فطایس❝ (فطیس یعنی مردہ) یعنی دوسرے لفظوں میں وہ شہید نہیں، اس شیخ کی خباثت پر غور کریں جس نے سوڈان کے نوجوانوں کو اللہ کے دفاع کے نام پر موت کے گھاٹ اتروا دیا اور اب انہیں محض ❞فطایس❝ قرار دیتا ہے، کیا اس شیخ سے بڑا کوئی شیطان ہوسکتا ہے؟

بہت سے مؤمنین مذہبی رہنماؤوں کو اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ایسا بہت سے معاشروں میں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مذہبی رہنما مرتا ہے تو ہزاروں لوگ اس کی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور اس سے توسل کرتے ہیں، یورپ میں تو کسی شخص کے گناہ تب تک معاف نہیں ہوتے تھے جب تک کہ وہ مذہبی رہنما سے مغفرت طلب نہ کرتا، کچھ لوگ تو یہ تک سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی میں مذہبی رہنما کی موجودگی از بس ضروری ہے تاہم یہ تصور غلط ہے، اگر سارے مذہبی رہنما مستعفی ہوجائیں تو کیا سائنسی دریافتیں رک جائیں گی؟ کیا دنیا کی ترقی رک جائے گی؟ یقیناً نہیں، بلکہ الٹا ان لوگوں کے مستعفی ہوجانے سے مذہبی انتہاء پسندی ختم ہوگی اور انسان انسان سے محبت کرنے لگے گا اور دنیا پہلے سے کہیں زیادہ بہتر جگہ بن جائے گی۔

ہر مذہبی رہنما کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اس کے شعائر پر عمل درآمد کا حق حاصل ہے جس کی ضمانت قدرت اور قانون دونوں دیتے ہیں، مگر اسے زمین پر خدا کی وکالت کرنے کا کوئی حق نہیں، اسے کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے مذہب کو لوگوں کو ڈرانے اور ان کے حقوق کی پامالی کے لیے استعمال کرے، اور جب وہ ایسا کرے گا تو ہر انسان کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اسے اس کی حدود یاد دلائے، اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں اپنے مذہبی رہنماؤوں کے اختیارات کم کرنے ہوں گے، جب یورپیوں نے کلیسا کے اختیارات کم کیے بلکہ دین کو سیاست سے ہی الگ کردیا تب یورپ انسانیت کے تخت پر بلا مقابلہ براجمان ہوگیا۔

1 Comment

جواب دیں

1 Comment
scroll to top