Close

عہد جدید اور فکر غزالی-ایک جائزہ

یہ بات چاہے ہمارے جذبات کو کتنی ہی ٹھیس پہنچانے والی کیوں نہ ہو مگر ہے سچ کہ عملی طور پر سبھی مذاہب بشمول اسلام (جس کے چودہ صدیوں میں ہزارہا گروہی ایڈیشن آچکے) ہمارے اپنے علماء کی مہربانی سے سیکولر نظریات کے مقابلے میں قریب قریب شکست کھاچکے ہیں۔ ’الہیاتی‘ دانش کو مُلاّ سے لے کر جدید علماء اور مذہبی سکالرز تک سبھی اپنے اپنے فہم کی سان پر چڑھا کر اس کو چمکانے پر لگے ہیں مگر افسوس کہ اس کی چمک کو ایسی روشنی میں بدلنے میں ناکام ہیں جس سے ہماری سوسائٹی سے جہالت اور ناانصافی کے اندھیرے دور نہیں تو کم ضرور ہوسکیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ فلسفے کوسائنس سمیت سبھی علوم کی ماں کہا جاتا ہے۔ گو مذہب بھی ان علوم کے حوالے سے اشاروں کنایوں میں بات کرتا ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ مذہب کو سب سے بڑا چیلنج فلسفیوں سے ہی درپیش رہا۔ یہ یونانی فلسفہ ہی تھا جس نے مسلمانوں کو جبریہ اور قدریہ میں تقسیم کیا۔ یہ فلسفہ ہی تھا جس نے امام غزالی جیسے عقل کی دولت سے مالا مال شخص کو خود عقل کے خلاف کھڑا ہونے پر مجبور کردیا۔ یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ابنِ رشد کے خیالات کے ذریعے یورپ کو زمینی حقائق کی طرف متوجہ کرکے چرچ کے جبری تسلط کو کمزور کرکے نشاۃ ثانیہ کا دروازہ کھول دیا۔
علم مذہب کی گرفت سے آزاد ہوا تو سائنس نے پہلی بار کھلی آنکھوں کےساتھ انسان اور کائنات کو دیکھنا شروع کیا۔ گلیلیو، نیوٹن، ڈارون، فرائڈ اور مارکس جیسے نابغوں نے علم کی غیر سائنسی بنیادوں کو الٹا کے رکھ دیا۔ مارکس کے بارے میں تو یہاں تک کہا گیا کہ اس نے سر کے بل کھڑے فلسفے کو پاؤں کے بل کھڑا کردیا۔
یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ دنیائے اسلام کے جدید ترین سوچ کا دعویٰ رکھنے والے سکالر اور علماء بھی ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے سائنسی تصورات سے بری طرح سے الرجک ہیں۔ جہاں تک ڈارون کی تھیوری کا تعلق ہے اس کے ردّ کیلئے انہیں قرآن اور حدیث سے عقلی دلائل میسر نہیں آتے سو وہ اس کے ردّ کیلئے جملہ دلائل مغربی دانشوروں سے ہی نقل کرنے پر مجبور ہیں۔
اگر ہم ان تینوں حضرات کے کام کے پھیلاؤ اور انسانی سوسائٹی پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں تو اس وقت ساری مسلم امہ میں ہمیں ایک بھی شخص ان کے برابر کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ، سرسید اور اقبال نے اپنی اپنی جگہ پر اسلام کو جدید حالات سے ہم آہنگ کرنے کیلئے بڑا کام کیا۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ان حضرات کے افکار محض گنتی کے کچھ پڑھے لکھے لوگوں میں محض دانشورانہ بحث مباحثے کا موضوع بن کر رہ گئے لیکن ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے تصورات کی طرح سماج کی سوچ، رویّوں اور عمل میں نتیجہ خیز انداز میں منعکس ہونے میں بری طرح ناکام رہے۔
آج بھی معدودے چند لوگ ہی ہونگے جنہوں نے اقبال کی اہم ترین تصنیف ”ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ“ پڑھ رکھی ہوگی۔ یہ عجیب کتاب ہے کہ جس کا مواد تو بعد کی بات، عنوان ہی مترجمین کے نزدیک متنازعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے عنوان کا ہر مترجم نے اپنے اپنے اختلافی فہم کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ جہاں تک اس کتاب میں پیش کردہ فکر کا تعلق ہے تو وہ الٰہیات کی تفہیم کو آسان بنانے کی بجائے مزید گنجلک بنانے کا باعث بنی ہے۔
اس کتاب میں ہمیں اقبال مذہب کا فلسفے اور سائنس کے ساتھ معانقہ کروانے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب ہمیں ٹھوس مسائل کے تناظر میں زندگی کا مفہوم سمجھانے میں زیادہ کارآمد دکھائی نہیں دیتی ۔
الہامی علم بہرحال انسانی اکتسابی علم کی طرح انسان کو سمجھنے کی بات ہی کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ علم اپنی مابعدالطبیعاتی بنیاد کی وجہ سے اپنی ذات میں مبہم ہے جس کی وجہ سے اس کے ماہرین ایسی ایسی تشریحات و تاویلات پیش کرتے ہیں جو قطبین پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ کٹھ ملاّ، صوفی اور تجدد پسند، سبھی الہامی دانش کے درست ترین فہم کے دعوے دار ہیں۔ ہر گروہ کا اپنا خدا ہے اور اپنا تصورِ دین۔ ایسے میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ خدا اور دین کی اصل نوعیت کہاں سے اور کس سے دریافت کی جائے۔ ان لوگوں کی علمی موشگافیوں کی مدد سے انسان کو سمجھنا تو دور کی بات ، ابھی تو خود اس کے خالق کے تصور کے بارے میں ہم متفق نہیں ہوپائے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے کیونکہ الہیات کے مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ محدود کبھی لامحدود کی ماہیت نہیں جان سکتا۔
مذہب کو مابعدالطبیعات کی بے انت اور ناقابل پیمائش تصوراتی کائنات سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ مذہبی علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ مابعدالطبیعاتی عناصر اور مظاہر کا عقلی ادراک اس دنیاوی زندگی میں ممکن نہیں ہو سکتا۔ سو جب یہ ادراک ہی ممکن نہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہمارے پاس ان مظاہر کی تفہیم کی کوئی متفق علیہ کسوٹی بھی ممکن نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ بنیادی قضیہ ہے جو ہمیں مذہب کی بنیاد پر الٰہیات تو ایک طرف رہی، ان مسائل کی تفہیم پر بھی متفق نہیں ہونے دیتا جن کا سیدھا سیدھا تعلق ہمارے زمینی معاملات سے ہے۔
الہامی علم کے برعکس انسان کا اکتسابی علم(بشرطیکہ وہ سائنسی سوچ کی منہاج پر استوار ہو)پہلے سے طے شدہ یقین کی بجائے تشکیک کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے سو وہ کسی بھی طرح کی حتمیت کے تصور کی نفی کے اصول پر قائم ہے۔ نشاۃ ثانیہ کی ابتداء سے اب تک جو بھی علم یورپ میں پنپا اور پھر رفتہ رفتہ دنیا بھر میں نصابی کتابوں کا حصہ بنا، وہ حتمیت کے تصور کی نفی کے اصول کی بنیاد پر ہی خود کو منوانے میں کامیاب ہوا ہے۔
ڈارون اور فرائڈ کے نظریات آج مسلمہ طور پر نچلے درجے سے اعلیٰ ترین درجے تک ہمارے تعلیمی نصاب کا لازمی جزو ہیں۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ نصاب میں ان نظریات کی شمولیت کے پیچھے مغربی طاقتوں کی دھونس کھڑی ہے۔بلکہ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوکرحقیقی مسائل اور علم کے ادراک سے تقریباً تقریباًمحروم ہوچکے ہیں۔ احساسِ کمتری کا ایک وسیع و عریض بلکہ مزید پھیلتا خلاء ہے جسے وہ غیر حقیقی دعووں سے بھرنے میں مصروف ہیں۔ ان علماء کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محض ہوائی باتوں کو علم سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہمارے علماء اجتماعی طور پر ان نظریات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کا حقِ انکار سر آنکھوں پر لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اعلیٰ ترین الہامی دانش کی ساری سمجھ کے دعووں کے باوصف ان نظریات کو غلط اور اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکے، جبکہ پوری مسلم دنیا میں ان کے تصرف میں لاتعداد مدرسے تھے اور آج بھی ہیں جہاں انہیں صدیوں سے الہامی دانش کی بنیاد پر تعلیمی نصاب مرتب کرنے کی پوری آزادی حاصل رہی ہے؟
ڈارون، فرائڈ اور مارکس جیسے لوگوں کے نظریات کے ابطال کیلئے ان کے پیش کردہ علم کو پوری دیانت اور ذمہ داری کیساتھ جاننا ضروری ہے، مگر عالم اسلام میں کون ہے جو ان کے نظریات کے ابطال کی ذمہ داری علم کی بنیاد پر نبھانے کا اہل ہے؟
لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم ان کے نظریات کو جاننے سے پہلے ہی یہ کیسے طے کرسکتے ہیں کہ وہ واقعی غلط ہونگے۔ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے مذہبی علمائے کرام میں کتنے ایسے ہونگے جو ان نظریات کو جاننے، سمجھنے اور ان کے تجزیئے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عین ممکن ہے کہ ہماری اپنی نفسیات ایسے خیالات کی اسیر ہو جو ہمیں مخالف نظریات کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لینے سے روکتی ہے۔
بدقسمتی سے یہ کوئی اور نہیں بلکہ خود مذہبی علماء تھے اور ہیں جو الہامی دانش کے اعلیٰ ترین اور حتمی ہونے کے زبانی اور بلند بانگ دعووں کا کوئی عملی ثبوت فراہم کرنے میں مسلسل ناکام چلے آتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر الہامی دانش پر چودہ صدیوں سے ہونے والا کام ہمیں زندگی کی مدلل، بامعنی اور قابلِ ابلاغ تفہیم دینے کی بجائے کنفیوز کررہا ہے تو بہتر ہوگاکہ ہم اکتسابی علم کو ہی اپنا رہنما مان لیں اور اسی علم کی روشنی میں مذہب کے نام پر پیش کی جانے والی دانش کے رطب و یابس کا جائزہ لینے کا اہتمام کریں۔ اس طرح سے عین ممکن ہے کہ ہم مذہب کی جانب سے بیان کردہ بہت سی باتوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے استعمال کرسکیں۔
روایت پرست اور عوامی دائرۂ ابلاغ سے باہر علماء کا خیر ذکر ہی کیا، ہمارے جدید فہم کے دعویدار سکالر نما علماء بھی کسی گہری بصیرت کے حامل نہیں ہیں۔ سو وہ موجودہ دور کے مسائل پر قرآنی آیات کی تاویلاتی تطبیق کو ہی اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لوگ ذہنی اور عملی طور پر عام آدمی سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ اپنے اندر اُس سے ابلاغ کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کرپاتے بلکہ ان کی مرصّع گفتگو سے تو یہ مترشح ہوتا ہے کہ جیسے اس ملک میں عام آدمی وجود ہی نہیں رکھتا۔
ان علماء کو یہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ ان سے بہتر ابلاغ کا فن اور کوئی نہیں جانتا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں عربی اور فارسی کی غیر معروف اصطلاحوں سے لبریز ہوتی ہیں۔ اپنے تئیں وہ اپنے لبادے اور لفاظی کے ذریعے خود کو ایک اعلیٰ تہذیبی نمونے کے طور پر پیش کررہے ہوتے ہیں اور یہ عمل لاشعوری طور پر ان کے حد سے بڑھے ہوئے غرور کی غمازی کررہا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو میں انکساری کے جملے دراصل اس غرور کوڈھانپنے کی ایک ناکام سعی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔
’’اعلیٰ تہذیب‘‘ کے یہ ماڈل دراصل حال سے ماوراء  ماضی کی مردہ تہذیب کے پروردہ ہوتے ہیں جو حقیقی مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے ان کو مصنوعی اخلاقیات کے رنگین پردوں سے ڈھانپنے کا آسان راستہ فراہم کرتی ہے۔سوسائٹی کی روش اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے بیباک مناظر ان کی اپنی اولاد کے اذہان میں جو ’خطرناک‘ سوالات اٹھاتے ہیں، یہ ان کو دبانے اور ان سے آنکھ چرانے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ سوسائٹی میں مروج ہر کج روی کیلئے ان کے پاس ایک ہی سادہ ترین اور تیر بہدف نسخہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی کو اٹھتے بیٹھتےفرسودہ  اخلاقیات کی ’ڈوز‘ دی جائے اور ان قوموں کے قصے سناکر ڈرایا جائے جو اخلاقی کج روی کی بنا پرخدا کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ لیکن انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ان کا یہ تیر بہدف نسخہ کارگر کیوں نہیں ہورہا۔
انسان کوئی آسان مظہر نہیں ہے کہ اسے محض اشارہ نما الہامی آیات اور احادیث کی مدد سے سمجھا جاسکے۔ وہ محض جسم نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی گنجلک ذہنی اور نفسیاتی وجود بھی رکھتا ہے جو ہمہ وقت مادی ماحول کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ سلسلوں کی زد میں رہتا ہے۔ جنسی معاملات تہذیب کا سب سے حساس ترین مسئلہ ہیں جن کا اظہار جہاں ایک طرف ہم جنسی ، عصمت دری اور ’ناجائز تعلقات‘ کی صورت میں ہوتا ہے تو دوسری طرف یہی جبلت محبت کی اعلیٰ ترین شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔
ہمارے قدیم اور جدید مذہبی علماء کی ان مسائل پر کتنی دسترس ہے، یہ سبھی جانتے ہیں۔ فرائڈ کے دریافت کردہ علم کو نخوت بھری ’ہونہہ‘ سے رد کردینے والے جدید مذہبی سکالر علم کے میدان میں اپنے احساسِ کمتری کو چھپانے کیلئے امام غزالی جیسے لوگوں کو اپنے طور پر کتنا ہی بڑا ماہرِ نفسیات ثابت کرنے کی کوشش کیوں نہ کرلیں لیکن ان کے ممدوح امام کے علم کی گہرائی جاننے کیلئے خواتین کے بارے میں ان کے چند تجزیاتی فرمودات بیان کردینا کافی ہوگا۔
امام غزالی لکھتے ہیں کہ” ایک دانشمند کی خواہش تھی کہ اس کی بیوی کا قد لمبا ہوجائے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم نے پورے قد کی عورت سے شادی کیوں نہیں کی؟ اس نے جواب دیا کہ عورت ایک بری شے ہے اور بُری شے جتنی کم ہو اتنا ہی اچھا ہے۔“
ایک دانشمند نے کہا کہ جو مرد شادی کرتا ہے اسے چار طرح کی بیوی نصیب ہوسکتی ہے۔ ایک وہ جو پوری کی پوری اس کی ہو، دوسری وہ جو آدھی اس کی ہو، تیسری وہ جو ایک تہائی اس کی ہو اور چوتھی وہ جو اس کی دشمن ہو۔ پھر ان عورتوں کی تشریح یوں کی:
پہلی وہ جو کنواری ہو، دوسری وہ جوبیوہ اور بے اولاد ہو، تیسری وہ جو بیوہ ہو اور بچوں والی بھی ہو اور چوتھی وہ جو مطلقہ ہو اور اس کا پہلا شوہر حیات ہو۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جس عورت سے نکاح کیا جائے وہ عقیمہ یعنی بانجھ نہ ہو۔ پھر اس بات کی تائید میں ایک حدیث بیان کی کہ حضورؐ نے فرمایا کہ کھجور کی پرانی چٹائی کا گھر میں ہونا بہتر ہے بہ نسبت بانجھ عورت کے۔
اب ان اٹھارہ سزاؤں کا تذکرہ پڑھئے اور سر دھنیے جو موصوف کے بقول امّاں حّوا کی پہلی غلطی کے نتیجے میں خدا نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عورت کا مقدر کردی ہیں:
1حیض۔2بچے۔3والدین سے دوری اور ایک اجنبی سے شادی۔4اس اجنبی کے ذریعےحمل۔5اپنی ذات پر اختیار سے محرومی۔6وراثت میں کم حصہ۔7طلاق دینے کے حق سے محرومی۔8مرد کی چار شادیوں کے مقابلے میں یک زوجگی کی مجبوری۔9چاردیواری میں رہنے کی پابندی۔ 10گھر کی چاردیواری میں بھی سر ڈھانپنے کی پابندی۔11مرد کے مقابلے میں آدھی گواہی۔12محرم کے بغیر باہر نکلنے پر پابندی۔13عیدین، جمعہ اور نماز جنازہ میں شرکت کی ممانعت۔14حکمران اور منصف بننے کی ممانعت۔15مرد کے مقابلے میں عورت کی اہلیت کا ہزارگنا کم ہونا۔16اگر قیامت کے روز عورتوں کو بہت کم عذاب بھی دیا گیا تو وہ تمام امت کے عذاب سے کم از کم آدھا ہوگا۔17بیوگی کی صورت میں چار ماہ دس دن کی عدت کی پابندی۔18طلاق کی صورت میں تین ماہ یا تین طہر کی پابندی۔ (نصیحة الملوک از امام غزالی)
عورتوں کی نسل کے بارے میں موصوف کی ریسرچ اتنی گہری تھی ان کی دس اقسام ڈھونڈ نکالیں جو سب کی سب جانوروں سے مشابہ ہیں اور جانور بھی وہ جو عمومی طور پر کسی ضرر یا کمزوری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان جانوروں میں سور، بندر، کتے، سانپ اور بچھوسے لے کر خچر، چوہے، کبوتر، لومڑی اور بھیڑ تک سبھی شامل ہیں۔ امام صاحب اس حوالے سے مردوں کے باب میں بالکل خاموش ہیں۔ غالباً مردوں کے بارے میں ان کا خیال ہوگا کہ وہ اشرف المخلوقات کے دائرے میں آنے کے مستحق ہیں۔ نہیں معلوم کہ دنیا میں کوئی اور ماہرِ نفسیات ایسا گزرا ہے یا نہیں، جس نے اتنی عرق ریزی کیساتھ عورتوں کے اندر مختلف جانوروں کی نفرت انگیز خصوصیتوں کا سراغ لگایا ہو۔سور سے مشابہ عورت کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں:
ٹھونس ٹھونس کر کھانے اور برتن توڑنے والی۔آوارہ گرد۔ روزہ نماز ، موت اور یوم آخرت کے خوف سے لاپرواہ۔ اپنے شوہر کی نافرمان۔ اپنے بچوں کی قرآنی تعلیم اور تربیت سے بے نیاز۔ گندے لباس کی عادی۔ بدبودار۔
بندر سے مشابہت رکھنے والی عورت: رنگ برنگے کپڑوں اور ہیرے جواہرات سے جڑے سونے چاندی کے زیورات کی شوقین ہوگی۔
کتے سے مشابہت رکھنے والی عورت کے متعلق کہا:
جب بھی اس کا شوہر کلام کرے وہ اس کے چہرے پر جھپٹتی اور اس پر چیختی اور چلّاتی ہے۔جب اس کے شوہر کا بٹوا بھراہوا اور گھر خوشحال ہوتا ہے وہ اس سے کہتی ہے میرے لئے ساری دنیا تم ہی ہو اور جب وہ قرضے تلے دب جائے تو وہ اس کی بے عزتی کرتی ہے اور طعنے دیتی ہے کہ تم ایک گھٹیا ، کمینے اور ذلیل آدمی ہو ۔
خچر کی خصوصیات رکھنے والی عورت کے متعلق فرمایا:
ایسی عورت بے آرام خچر کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں۔ وہ اڑیل، خود سر اور مغرور ہوتی ہے۔
بچھو سے مماثل عورت کے بارے میں لکھا:
ایسی عورت گھروں میں تانک جھانک کرنے والی اور افواہ باز ہوگی۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو لڑوانے کیلئے کوشاں ہوگی۔ وہ جسے ملے گی بچھو کی طرح ڈنک مارنے سے باز نہیں آئے گی۔
چوہے کا کردار رکھنے والی عورت کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے شوہر کی جیب سے مال چرا کر پڑوسیوں کے گھروں میں چھپا دیتی ہے۔
کبوتر نما عورت کے بارے میں کہا:
ایسی عورت کبھی ٹک کر نہیں بیٹھتی بس تمام دن ادھر سے ادھر گھومتی رہتی ہے۔ وہ شوہر سے کبھی محبت سے بات نہیں کرتی بلکہ پوچھتی تو صرف اتنا کہ تم کہاں جارہے ہو اور واپس کب آؤگے؟
لومڑی نما عورت کے بارے میں کہا کہ ایسی عورت جو اپنے شوہر کے گھر سے باہر جاتے ہی گھر میں موجود سب کچھ چٹ کرکے بیماری کا بہانہ بنا کر لیٹ جاتی ہے اور جب شوہر گھر لوٹتا ہے تو اس سے جھگڑنا شروع کردیتی ہے کہ اس نے بیماری کی حالت میں اسے گھر میں اکیلا چھوڑ دیا۔
امام غزالی کی نزدیک بھیڑ کی خصوصیات رکھنے والی عورت ہی بہترین عورت ہے۔ یہ عورت اپنے شوہر ، خاندان اور پڑوس سبھی کیلئے فائدہ مند ہوتی ہے۔ یہ اپنے رشتہ داروں کی غمگسار اور مدد گار ہوتی ہے اور اللہ کی فرمانبردار ہوتی ہے۔ ایک نیک اور پردہ دار خاتون اللہ کی نعمت ہوتی ہے اور ایسی بیوی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
معذرت کیساتھ عورت کو ذلیل درجے کی مخلوق اور شیطان کی پیرو کار ثابت کرنے میں امام غزالی جیسی ہستیوں کے اقوال کا بڑا حصہ ہے۔ ان اقوال کی بنیاد پر ہی مولانا اشرف الحق تھانوی نے’ بہشتی زیور‘ رقم فرمائی تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر بیوی اپنے شوہر کی جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار کردے تو فرشتے ساری رات اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا ان لوگوں کا فہم اس قابل ہے کہ ان کے افکار کی روشنی میں انسان اور اس کے تہذیبی مسائل کا ادراک کیا جاسکے؟
ہمارے جدیدیت کے دعوے دار مذہبی سکالر بھی عجیب لوگ ہیں کہ ایک طرف تو قدیم فقہاء کی مذہبی تفہیم کوفرسودہ ثابت کرتے ہیں اور دوسری طرف اگر کوئی اور ان فقہاء کے فہم پر سوال اٹھائے تو یہ اپنے ہی موقف کو بھول کران کی تمام غلطیوں کے الرغم ان کے دفاع پر کمر کس لیتے ہیں۔ یہ لوگ علم اور سچ کو درپیش جہالت کے حبس کا گلہ بھی کرتے ہیں اور کہیں کہیں زُودحسّی کا شکار ہوکر خود بھی اس کے مددگار بن جاتے ہیں۔
عورت کے بارے میں امام غزالی کے تمام بیانات ایک فیوڈل اور غلام داری سماج میں پنپنے والی غیر انسانی اور طبقاتی سوچ کا لازمی نتیجہ تھے جس کے مطابق عورت مجموعی طور پر ایک گھٹیا، بدخصلت اور فسادی قسم کی مخلوق ہے جو مرد کی غلامی میں ہی ٹھیک رہ سکتی ہے۔ ایسی سوچ کی کسی ایسے شخص کی جانب سے حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی جو اسلام کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کا دعوے دار ہو۔
اگر ہمیں علم کی تلاش کا دعویٰ ہے تو پھرتاریخ میں گزر چکی ان شخصیات سے بے جا تقدس کے لبادے کو الگ کرکے ان کے رطب و یابس کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا۔ وگرنہ یہ صریح بددیانتی ہوگی کہ ہم ماضی میں گزرچکی شخصیات کی جانب سے بیان کردہ غیر عقلی خیالات کو چھپا کر ان کا معجزانہ اور الوہی پیکر تراشتے رہیں۔ معذرت کے ساتھ میرے نزدیک تو غامدی صاحب کا ’جدید فہمِ اسلام ‘بھی مشکوک ٹھہرتا ہے جب وہ بڑے جوش کیساتھ امام غزالی کو ایک عظیم ماہرِ نفسیات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

7 Comments

  1. we did study these a few muslims philosophers in Previous for Political science and knowing them would make you wonder if they were sick with their logic as compared to Platonic and Aristotle’s approaches which they are usually said to have given evolution…For Muslim Um ah..nothing mater save opportunity "run to kill” so would be happier in life with booty of jihad and reservation in Janna t after and death….indoctrination/doctrination is this region is no not permitted

  2. Views on the role of women attributed in this essay to al-Ghazali seem absolutely atrocious and condemnable. They appear in the last chapter (on women) in Ghazali’s Nasihat-al-Muluk. However, I since find in another source that the Nasihat al-Muluk itself is not authentic, or at least part of it. The eminent Ghazali scholar, late Montgomery Watt talks about this in his article "The Authenticity of the works attributed to al-Ghazali,” Journal of the Royral Asiatic Society, 1952. Also there is another article by Patricia Crone specifically on the authenticity of Nasihat al-Muluk. Thus, the point is we must not place 100% credibilityin the views discussed in this essay as authentic from al-Ghazali.

    1. دنیا میں بہت سی کتابیں ہیں جن کے بارے میں ان کے مصنففین کی نسبت کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے، نہج البلاغة بھی انہی کتابوں میں سے ایک ہے۔ امام غزالی کی بہت سی کتابوں پر مسلمان اسکالرز نے تحقیق کی ہے، اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی شائع کئے ہیں، ”نصیحة الملوک“ بذات خود فارسی زبان میں لکھی گئی تھی، بعد ازاں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ میں نے امام غزالی پر کام کرنے والے مسلم اسکالرز کی چھان بین کی ہے، لیکن مجھے کسی کا ایسا کوئی بیان نہیں ملا جس میں نصیحة الملوک کی امام غزالی سے نسبت کو مشکوک قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ بہت سی مستند اسلامی ویب سائٹس پر نصیحة الملوک کو امام غزالی کی کتابوں میں شامل دکھایا گیا ہے، اور اس کتاب کے عربی مترجم اور محقق احمد شمس الدین نے بھی اپنے کسی شبہے کا اظہار کیا ہے۔
      نیز خواتین سے متعلق اگر ہم مذکورہ اٹھارہ سزاؤں کو نظر انداز بھی کر دیں تو تب بھی خواتین کے بارے میں امام غزالی کے افکار کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، انہوں نے اپنی دیگر کتابوں میں بھی خواتین سے متعلق کچھ اسی طرح کی آراء کا ہی اظہار کیا ہے۔

  3. Al-Ghazali’s views on women–Jurrat-e-Tahqeeb article, 9/25/15: A Correction

    Not long ago, an Urdu-language article appeared on the internet that extensively covered Abu Hamid Al-Ghazali’s (1055-1111AD) views on the role of women. As discussed below, that article was seriously in error. The article originally appeared in Pakistan’s electronic-journal, Jurrat-e-Tahqeeq, 9/26/15. It was entitled, “Ahd-e-Jadeed and Fikr-e-Ghazali: Eik Jaiza” (“Modernity and Ghazali’s Thought: An Analysis”), authored by Saeed Ibraheem. Here is the link: عہد جدید اور فکر غزالی-ایک جائزہ

    While Ghazali may be criticized for other aspects of his scholarship, but not for his views on women, although what is attributed on this subject to Ghazali in that article seemed quite despicable, quite contrary to what he says on this subject elsewhere. The primary source for the article was of Al-Ghazali’s book (allegedly), Nasihat al-Muluk (also known as Mirror for Princes and Book of Counsel for Kings), translated by F.R.C. Bagley from the Persian; Oxford Univ. Press, N.Y., 1964. It is the last chapter upon which the author of the said article appears to have relied upon–chapter 7, entitled, “Describing women and their good and bad points.”

    Among other things, the chapter says, “When Eve (disobeyed Almighty God and) ate the fruit which he had forbidden to her from the tree in Paradise, the Lord, be He praised, punished women with eighteen things……” Then those eighteen punishments are listed–precisely those that Mr. Ibraheem listed in his article. Anyone familiar with the Bible would know that the Original Sin, committed by Eve, is part of the Christian belief system, and for that Sin, those punishments are also prescribed throughout–from cradle to grave, women must suffer as their destiny, as though they have “earned” those punishments. They simply cannot be Qur’anic or Islamic punishments for women, for, among other things, there is no such thing as Original Sin in Islam. However, quite unwittingly, that source provided authenticity and credibility to Mr. Ibraheem’s article; but he is not to be blamed. Unfortunately, that list of “punishments to women,” also attributed to Ghazali, is also circulating on some other websites unsympathetic to Islam.

    Here is the crux of the matter, however. The source employed by Mr. Ibraheem (and others) is itself not at all authentic, as I have discovered from some exploration. There are several works somehow attributed to Ghazali, but they are not authentic–and Nasihat al-Muluk is one of them, especially the second half of the book. My curiosity led me to the following.

    There is a well-written paper by Patricia Crone, “Did Al-Ghazali Write a Mirror for Princes? On the authorship of Nasihat al-Muluk,” in S. Pines (Editor), Jerusalem Studies in Arabic and Islam, the Magnese Press, the Hebrew University, Jerusalem (1987). This author concurs with some other scholars who had expressed doubts and then she adds, “the second part of the Nasihat al-Muluk is unquestionably the work of somebody other than the putative author” (i.e., Ghazali). Further, she says, “On turning to NM2 (i.e., part 2) one is struck by the fact that author and addressee alike are suddenly referred to in a manner different from that of NM1 (i.e., part 1).” She also notes that while NM1 specifically “warns the ruler not to drink wine, NM2 takes it for granted that rulers drink and merely exhorts them not to get drunk.” Further, she adds, “it is clear that the author of NM2 was not an ‘alim at all, still less a thinker. ….. Of Islamic learning, he had little, and of systematic thought there is no trace at all.”

    And, specifically about women, Crone says, “The same point can be made by a comparison of what al-Ghazali and the other of NM2 have to say about women. Al-Ghazali wrote extensively on the subject in the Ihya and, in abbreviated form, the Kimya, setting out his views in his typically systematic and lucid fashion in both works. The author of NM2, by contrast offers a jumble of anecdotes, poetry and bon mots. The author of NM2 does not refer to the fact that he (al-Ghazali) has dealt with the subject at greater length elsewhere, as he would have done if he had seen al-Ghazali, and he does not draw his material from al-Ghazali either. … The classifications of women adopted in the Ihya and NM2 are different.” She continues, “The author of NM2 counsels against marrying for nobility, a possibility that did not preoccupy al-Ghazali and he blames all evils of this world on women (saying nicer things about them too), while al-Ghazali does not. In short, al-Ghazali and the author of NM2 have little in common; and here as elsewhere it is clear that the latter was not a religious scholar.” Incidentally, another eminent Ghazali scholar had written a similar article in 1952: W. Montgomery Watt, “The Authenticity of the Works Attributed to al-Ghazali,” Journal of Royal Asiatic Society (1952);

    Clearly, the Jurrat-e-Tahqeeq group, as well as the author of the said article, have an obligation to issue a correction and, indeed, it must be shared with all recipients of that article. Obviously, such a serious mishap also jeopardizes the credibility of Jurrat-e-
    Tahqeeq about their coverage of similar topics.

    l


    S.(Ghazi) Ghazanfar, Ph.D., Economics Prof. [(1968-02), Emeritus, 2002;
    Dept.Chair-79-81/93-02; Director, In’l Studies-89-93; Adj.Prof.03-08;
    Univ. of Idaho, Moscow, Idaho 83843-USA]
    Acworth, GA 30101 (Ph.770-575-2994)
    Homepage: http://www.webpages.uidaho.edu/~ghazi
    Albert Einstein: "Science without religion is lame; religion without science is blind”
    Aldous Huxley: "By selective information, or lack of information, we create a new paradigm.”
    Voltaire: "Identify the real rulers of a country? Ask: who it is that one can’t criticize?”

    1. ڈاکٹر غضنفر صاحب آپ نے بجا فرمایا، ادارہ جراتِ تحقیق پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر اس کی طرف سے کوئی تحقیقی کوتاہی سر زرد ہوتی ہے تو یہ کہ نہ صرف بطور ادارہ جراتِ تحقیق کو اس کوتاہی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے بلکہ ایسی کسی غلطی کی بھرپور ذمہ داری لیتے ہوئے اس کی تصحیح بھی شائع کرنی چاہیے، اور یقین جانیے ہم اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کبھی بھی جھوٹ بول کر غلط فہمیاں پیدا کرنا نہیں رہا، یہاں نہ حبِ علی ہے نہ بغضِ معاویہ، یہاں جگہ ہے تو بس سچ کی۔

      پیٹریشا کرون کے جس پیپر کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے وہ 1987 میں لکھا گیا تھا، مکمل پیپر درجِ ذیل ربط پر دستیاب ہے:
      https://www.hs.ias.edu/files/Crone_Articles/Crone_Did_al-Ghazali_Write_Mirror_for_Princes.pdf

      تاہم سنہ 2002 میں ڈاکٹر مشہد العلاف نے پیٹریشا کرون ہی کی طرز کا ایک پیپر لکھا تھا جس کا عنوان ہے: [کتب الامام الغزالی الثابت منہا والمنحول] (ترجمہ: امام غزالی کی کتابیں ثابت اور منسوب) جس میں ڈاکٹر مشہد العلاف نے امام غزالی کی زیرِ بحث کتاب [التبر المسبوک فی نصیحہ الملوک] کو امام صاحب کی ثابت شدہ کتابوں میں درج کیا ہے، ڈاکٹر مشہد العلاف نہ صرف کثیر التصنیف ہیں بلکہ جہاں تک میری معلومات ہیں غزالیات پر کم از کم دو عدد کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں، ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ ان کی نظر سے پیٹریشا کرون کا مذکورہ پیپر نہ گزرا ہو خاص کر جبکہ پیٹریشا کرون کا پیپر ڈاکٹر مشہد العلاف کے پیپر کی اشاعت سے 16 سال قبل لکھا گیا تھا؟!

      ڈاکٹر مشہد العلاف کا مذکورہ پیپر مندرجہ ذیل ربط پر دستیاب ہے:
      http://www.ghazali.org/biblio/AuthenticityofGhazaliWorks-AR.htm

      ڈاکٹر مشہد العلاف ابو ظبی ٹی وی پر ابن رشد کی تاریخ بیان کرتے ہوئے۔
      https://www.youtube.com/watch?v=7e31XZFrZrQ

      اب آپ ہی بتائیے کہ ہمیں کس پر یقین کرنا چاہیے، غیر پر یا گھر کے گواہ پر؟

      فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

  4. 10/1/16….I happened to notice this response just recently. An e-mail reply would have caught my attention much sooner . Herewith is my reaction.
    First, I still feel that Patricia Crone’s conclusion as to the lack of authenticity of Nasihat al-Muluk, especially the second part, is valid. As a non-Muslim scholar, if she was prejudiced, she should have endorsed the deplorable views about women that are attributed to Ghazali in this article, with Nasihat al-Muluk’s Chapter 7 as the source. Yet, she rejects them. Further, as I suggested, those 18 punishments are directly from Biblical sources, based on the premise that Eve committed the Original Sin–thus all are born in sin and Jesus is the ultimate savior, per Christian belief. On the other hand, there is no such notion in Islam; Adam-Even were forgiven; and all humans are born sin-free, innocent, according to Islam. Are we to assume Ghazali the Islamic scholar accepted Original Sin and then mentioned this notion as a prelude to his listing of those punishments? Does not make sense.
    Sercond, as to authenticity, while one can respect Dr. Al-Alaaf’s conclusion, just because he is "our own” must not blind one to the need for objectivity. He may be correct, but I am not convinced. Incidentally, there does not seem to be any indication of his familiarity with Crone’s work in his Arabic-written paper–at least I could not find any evidence. However, I do find further evidence which supports Crone’s conclusion–an Iranian scholar, one of "our own.”
    Dr. Nasrollah Pourjavady is an eminent Iranian scholar, widely published, has taught at several universities in the U.S., but apparently has his permanent base in Iran. In his book Du Mujaddad (published by Markaz-e-Nashi Danishgahi, Teheran; 1995), he reaches the same conclusion–i.e., the lack of authenticity of Nasihat al-Muluk. My source informs me that he discusses this topic on pp.413-24 of this Persian-language book. [And my source is another book by an acquaintance at Duke University–Omid Saifi, The Politics of Knowledge in Pre-Modern Islam: Negotiating Ideology and Religious Inquiry; Univ. of North Carolina Press, Chapel Hill, N.C., 2006; pp.112-17)].
    Besides, perhaps most importantly, it simply doesn’t seem logical at all that an eminent Muslim scholar such as al-Ghazali would write that Chapter 7 about women when so much of its content is absolutely contrary to the Qur’anic injunctions about women, both in words and in spirit. Are we to assume that Ghazali was unfamiliar with the Qur’anic position on women?
    As I had suggested earlier, another eminent Ghazali scholar had written a similar article in 1952: W. Montgomery Watt, “The Authenticity of the Works Attributed to al-Ghazali,” Journal of Royal Asiatic Society (1952)
    I will leave it to your discretion whether or not a correction to the original article is announced to your readership. Incidentally, I am a bit bewildered with the whole intent and tone of the original article–seems to be hypercriical and too self-righteous.
    Further, let me add. Your caution as to "non-Muslims or our own” is understandable, but a bit amusing. I have encountered those situations numerous times in my professional life; yet I must insist, objectivity must be the ultimate test. Best regards

جواب دیں

7 Comments
scroll to top