Close

کیا واقعی قرآن محفوظ ہے؟

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن آج جس شکل میں ہم تک موجود ہے یہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ خود محمد صلعم پر نازل ہوا اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللّٰه نے اٹھا رکھا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کا ہی شیعہ فرقہ اپنی روایات کی روشنی میں اس عقیدے کا قائل نہیں لیکن اہل سنت کے تمام فرقے قرآن کی حفاظت و تدوین کو اللّٰه کی براہ راست ذمہ داری ہی سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند روایات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جس موجودہ شکل میں موجود ہے یہ بالکل اس شکل میں نہیں ہے جو خود پیغمبر اسلام کی زندگی تک پایا جاتا تھا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خدا کی اس آخری الہامی کتاب کے دعویٰ ہونے کے باوجود، اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اپنی پیشرو کتب کی طرح پوری نہیں کی جا سکی۔
1- حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“
(سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب ھل یحرم ما دون خمس رضعات، حدیث: ۲۰۶۲ ، صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، حدیث: ۳۵۹۷)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللّٰه کی زندگی میں وفات تک رضاعت والی آیات قرآن میں تلاوت ہو رہی تھیں لیکن آج ہمیں یہ آیات پورے قرآن میں کہیں نظر نہیں آتیں۔
مشہور خادمِ رسول حضرت انس بن مالک نے گواہی دے رکھی ہے کہ "اللّٰه نے رسول اللّٰه کی وفات سے پہلے مسلسل وحی اتاری اور آپ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی نازل ہوئی، پھر اس کے بعد رسول اللّٰه وفات پا گئے۔”  (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزول الوحی و اول ما نزل، حدیث :۴۹۸۲)
افسوس کہ وفات النبی کے انتہائی قریب نازل ہونے والی وحی اور آیات کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو سکا اور وہ مختلف حادثات کا شکار ہو کر ضائع ہوتی رہیں۔ چنانچہ ایک ایسے ہی حادثہ میں وہ آیات بھی ضائع ہوئیں جو کہ نبی کی وفات کے وقت لکھی ہوئی آپ کے بستر پر موجود تھیں۔
2- حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ” آیت رجم اور دس بار دودھ پلانے سے رضاعت کبیر ثابت ہونے پر (قرآن مجید میں) آیات نازل ہوئی تھیں۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے تو ایک بکری آئی اور اس کاغذ کو کھا گئی۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، حدیث:۱۹۴۴،  مسند احمد:۶/۲۲۹،  مسند ابی یعلیٰ:۴۵۸۷،۴۵۸۸)
اس روایت سے تو مزید واضح ہے کہ آیت رضاعت کے علاوہ آیت رجم بھی نبی صلعم کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ تلاوت ہو رہی تھی بلکہ یہ دونوں آیات، محمد صلعم کی وفات تک کاشانہ نبوی میں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی موجود تھیں۔ مگر اس بکری کو چونکہ اس بات کی سمجھ ہی نہ تھی کہ یہ قرآن کی آیات براہ راست حفاظت الٰہی میں ہیں، اس لئے وہ اس کاغذ کو ہی کھا گئی جس پر یہ آیات لکھی ہوئی موجود تھیں اور آج کا موجودہ قرآن ان آیات سے محروم رہ گیا۔

صرف یہی نہیں کہ نبی صلعم کی حیات کے فوراً بعد جو آیات حفاظت الٰہی کے زیر اثر نہ رہ سکیں وہی اس حادثے کا شکار ہوئیں بلکہ یہ سلسلہ اس کے کافی بعد بھی جاری رہا۔ اس سلسلے کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
3- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "جب یہ آیت نازل ہوئی و وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ ۔۔۔۔۔الخ
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ تبت یدا ابی لھب، حدیث:۴۹۷۱)
عبداللّٰه ابن عباس نبی کریم کے مشہور صحابی ہیں، جن کے لئے خود نبی کریم نے اپنے سینے سے لگا کردعا کی تھی کہ "اے اللّٰه! اسے اپنی کتاب (قرآن) کا علم عطا فرما "(صحیح بخاری: حدیث ۷۵)۔ اوپر پیش کی گئی روایت میں جس آیت کے نازل ہونے کو ابن عباس نے پیش کیا ہے وہ سورۃ شعراء کی آیت (نمبر ۲۱۴) ہے لیکن ہمارے موجودہ قرآن کے نسخوں میں یہ آیت صرف وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کے الفاظ تک ہی ہے اور اس کے آگے کے الفاظ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ موجود نہیں ہیں۔
ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے،  جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی اور یہ بھی قرآن کی انہیں آیات میں شامل ہو گئی کہ جن پر اللّٰه کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی۔
4- موجودہ قرآن میں سورۃ النساء کی ایک آیت کچھ یوں درج ہے: لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ  مگر کچھ راویوں کے نزدیک یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی: لاَّ يَسْتَوِي ٱلْقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کاتب النبی، حدیث:۴۹۹۰)
یعنی "غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ” کے الفاظ کچھ ثقہ رواۃ کے نزدیک آیت کے درمیان میں نہیں بلکہ آخر میں تھے۔
5- محمد صلعم اور صحابہ کرام کا عام دستور تھا کہ کسی سورت کا نام لینے کی بجائے اس کی کسی آیت کو بطور پہچان بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابو سعید خدری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سحری میں کھڑے ہو کر  قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ کو پڑھا۔” (صحیح بخاری: ۵۰۱۴) اس طرح کی اور روایات بھی بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہیں کہ سورت کی آیت کو بطور پہچان بیان کیا گیا۔ اس بات کو سمجھنے کے بعد دیکھئے کہ محمد صلعم نے خود بیان کیا کہ "اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قل ھو اللّٰه احد، حدیث:۵۰۱۵)
اب صرف اتنا غور فرمائیے کہ "اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” کون سی سورت کی آیت ہے؟ دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ فضیلت سورہ اخلاص کی ہے تو پھر سورۃ اخلاص میں یہ آیت کہاں گئی جس کی طرف محمد صلعم) نے بطور خاص اشارہ کیا؟ کیا یہ بھی تو انہیں آیات میں سے نہیں جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئیں؟
6- حضرت عبداللّٰه بن عباس نے ایک آیت کے متعلق گواہی دے رکھی ہے کہ یوں نازل ہوئی تھی: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ  فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ
(صحیح بخاری، کتاب الحج، باب التجارۃ ایام الموسم، حدیث:۱۷۷۰)
ابن عباس ہی کی گواہی سے یہ آیت صحیح بخاری میں تین اور مقامات پر بھی اسی طرح پیش ہوئی ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (حدیث: ۲۰۵۰، ۲۰۹۸، ۴۵۱۹)
موجودہ قرآن پاک میں یہ آیت سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۸) کا حصہ ہے مگر وہاں پر فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ کے الفاظ موجود نہیں جو کہ ابن عباس  کی گواہی کے مطابق نازل ہوئے تھے اور وہ اس آیت کو تابعین کے دور میں بھی اسی طرح بیان کرتے تھے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ بھی حفاظتِ قرآن کے دعویٰ پر پورا نہ اتر سکے۔
محمد صلعم کی وفات کےبعد اور بھی کئی آیات پر صحابہ کرام کا آپس میں شدید اختلاف  تھا کہ کچھ کے نزدیک کچھ آیات قرآن میں شامل تھیں اور کچھ کے نزدیک وہی آیات قرآن میں شامل نہ تھیں بلکہ منسوخ ہو چکی تھیں، ملاحظہ فرمائیں:
7- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر نے فرمایا: ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں لیکن جہاں حضرت ابی بن کعب غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو قرآن مجید کو رسول اللّٰه کے دہن مبارک سے سنا ہے، اس لئے میں تو کسی کے کہنے پر اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: "ہم جو بھی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن،باب القراء من اصحاب رسول اللّٰه ، حدیث:۵۰۰۵)
اس روایت سے کھل کر یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ صحابہ کرام محمد  صلعم کی وفات کے بعد قرآن مجید پر ہرگز متفق نہ تھے۔ بہت سی آیات ایسی تھیں جنہیں ابی بن کعب جیسے جید صحابی قرآن میں شامل سمجھتے تھے جبکہ حضرت عمر کا خیال یہ تھا کہ وہ آیات منسوخ ہو چکی ہیں، لہٰذا قرآن کا حصہ نہیں۔ گویا حضرت ابی بن کعب کے مؤقف کے مطابق حضرت عمر کچھ آیات قرآن کو تسلیم نہ کرتے تھے اور حضرت عمر کے مؤقف کے مطابق حضرت ابی بن کعب کچھ ایسی آیات کو قرآن تسلیم کروانے پر بضد تھے جو قرآن کا حصہ نہ رہی تھیں۔
8- معاملہ صرف حضرت عمر یا ابی بن کعب تک کا نہ تھا بلکہ دیگر صحابہ اور تابعین بھی موجودہ قرآن سے اختلاف کرتے تھے۔ چنانچہ  مشہور صحابی عبداللّٰه بن مسعود کے چند تابعین شاگردوں نے  ایک اور صحابی ابو درداء کے سامنے سورۃ الیل کی  آیات یوں تلاوت کی: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴿١﴾وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ﴿٢﴾ وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ اور گواہی دی کہ عبداللّٰه بن مسعود اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ ابو درداء نے اس پر فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی نبی کریم کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے لیکن یہ شام کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ پڑھوں۔ اللّٰه کی قسم ! میں کسی صورت میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔”
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب  والنہار اذا تجلیٰ، حدیث: ۴۹۴۴، ۴۹۴۳)
موجودہ قرآن میں سورۃ الیل کی یہ آیت وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ کے الفاظ کے ساتھ ہے جبکہ عبداللّٰه بن مسعود اور ابو درداء جیسے اصحاب رسول اور ان کے شاگرد تابعین اس آیت کو "مَا خَلَقَ” کے الفاظ کے بغیر پڑھتے تھے  اور اسی کو محمد صلعم کی تلاوت قرار دیتے تھے۔ صحابی رسول ابو درداء کے الفاظ کی شدت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ موجودہ قرآن کے مطابق اس آیت کو پڑھنے کا کھلم کھلا انکار کرتے بلکہ اسے شام کے لوگوں کا اضافہ قرار دیتے۔
9- حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے روایت ہے کہ "حضرت عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرمایا: جب تم اس آیت پر پہنچو حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں آگاہ کیا، انہوں نے مجھے لکھوایا: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَ صَلوٰۃِ  الْعَصْرِ حضرت عائشہ نے فرمایا: میں نے اسے رسول اللّٰه سے ایسے ہی سنا۔”
(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطیٰ ھی صلاۃ العصر، حدیث:۱۴۲۷)
ہمارے پاس موجود قرآن میں یہ سورۃ بقرۃ کی ۲۳۸ نمبر آیت ہے اور حضرت عائشہ کے تاکید کے ساتھ لکھوائے ہوئے اسی آیت کے الفاظ وَ صَلوٰۃِ  الْعَصْرِ کے بغیر ہے۔ حضرت عائشہ نے جو نسخہ قرآن اپنے لئے لکھوایا اس میں ان الفاظ کا اضافہ کروایا اور یہ بھی گواہی دی کہ انہوں نے اس آیت کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ ہی رسول اللّٰه سے سنا تھا، مگر افسوس کہ موجودہ قرآن میں آج یہ الفاظ بھی موجود نہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یا تو موجودہ قرآن حضرت عائشہ کے مطابق الفاظ کی کمی کا شکار ہے یا حضرت عائشہ کے قرآن میں کچھ الفاظ موجودہ قرآن سے زیادہ تھے۔ دونوں صورتوں میں حفاظت قرآن کا اسلامی عقیدہ و نظریہ طوفانوں کی زد میں ہے۔
10- مشہور تابعی سعید بن جبیر نے کہا حضرت ابن عباس اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے: وَكَانَ أَمَامَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍغَصْبًا اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا}، حدیث: ۴۷۲۵)
ہمارے پاس موجود قرآن کے مطابق یہ سورۃ الکہف کی آیات ۷۹، ۸۰ ہیں لیکن ابن عباس ان آیات کو ہمارے قرآن کے مطابق تلاوت نہیں کرتے تھے بلکہ آیت ۷۹ میں أَمَامَهُمْ پڑھتے جبکہ ہمارے قرآن میں اس کی جگہ لفظ وَرَاءَهُم ہے، اسی طرح اسی آیت میں ابن عباس سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ پڑھتے جبکہ ہمارے قرآن میں سَفِينَةٍ کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس سے اگلی آیت ۸۰ میں بھی ہمارے موجودہ قرآن میں كَافِرًا وَ كَانَ کے الفاظ غائب ہیں جو ابن عباس کے مطابق موجود تھے اور وہ تلاوت بھی کرتے تھے۔
11- مشہور محدث و مفسر علامہ جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں:
"امام عبد بن حمید اور محمد بن نصر المروزی نے کتاب الصلوٰۃ میں اور ابن الانباری نے المصاحف میں محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابی بن کعب فاتحۃ الکتاب اور معوذتین،أَلّٰلھُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ أَلّٰلھُمَّ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لکھتے تھے لیکن حضرت ابن مسعود ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہ لکھتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان نے مصحف میں فاتحۃ الکتاب اور معوذتین لکھوائے تھے۔”
(تفسیر درِ منثور مترجم، ج1 ص27، مکتبہ ضیاء القرآن لاہور)
ان روایات سے ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کی پہلی سورت ہے، سے لے کر معوذتین یعنی سورۃ الفلق و الناس تک کے بارے میں صحابہ کا اختلاف موجود تھا کہ قرآن میں شامل ہیں کہ نہیں۔ چنانچہ حضرت عثمان جن کا جمع کردہ قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے، وہ سورۃ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن میں لکھتے تھے، اسی طرح حضرت ابی بن کعب بھی لکھتے تھے لیکن سورۂ فاتحہ کی کچھ آیات کو موجودہ قرآن سے الگ طرح پڑھتے اور حضرت عبداللّٰه بن مسعود سرے سے ہی قرآن میں سورۃ فاتحہ کو لکھتے نہ معوذتین کو۔
مسلمان کبھی یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو محمد صلعم پر اترنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کا آپس میں مختلف آیات کا شدید اختلاف تھا کہ وہ قرآن ہے یا نہیں۔
اس ضمن میں پہلوں کا جو اختلاف تھا کبھی بھی مسلمان حل نہیں کر پائے لیکن ایک اور دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تیسرے خلیفہ عثمان نے اپنے دور میں جو قرآن جمع کروایا، پھر اس پر اجماع ہو گیا کیونکہ باقی تمام مختلف مصاحف انہوں نے جلوا دیئے تھے۔ اس بیان پر جو جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان سے قطع نظر یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ اس عثمانی مصحف پر اجماع ہو گیا تھا کیونکہ عبداللّٰه بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے سارے مصحف جمع کر کے جلوانے اور صرف ایک کو رائج کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کی اور اسی مصحف پر قائم رہے جو ان کے پاس موجود تھا۔ اب پتا نہیں یہ کون سا اجماع ہے جس میں عبداللّٰه بن مسعود جیسا جلیل القدر صحابی اور ان کے شاگرد شامل نہیں۔
12- چنانچہ خمیر بن مالک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکاری حکم جاری ہوا کہ مصاحف قرآنی کو بدل دیا جائے (حضرت عثمان غنی کے جمع کردہ مصاحف کے علاوہ کسی اور ترتیب کو باقی نہ رکھا جائے) حضرت ابن مسعود کو پتا چلا تو فرمایا:
"تم میں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپا لے، کیونکہ جو شخص جو چیز چھپائے گا قیامت کے دن اس کے ساتھ ہی آئے گا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں پڑھی ہیں، کیا میں ان چیزوں کو چھوڑ دوں جو میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے حاصل کی ہیں۔”
(مسند احمد، مترجم، جلد دوم ص۶۱۹-۶۲۰، حدیث ۳۹۲۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یاد رہے کہ عبداللّٰه بن مسعود ان چار صحابہ میں سے ایک ہیں، جن سے خود پیغمبر اسلام نے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھا (صحیح بخاری: رقم الحدیث ۴۹۹۹)۔
مگر افسوس کہ جن سے قرآن سیکھنے کا حکم خود پیغمبر اسلام نے دیا بعد والوں نے اس مصحف کو ضائع کر دیا اور ان لوگوں کا جمع کردہ مصحف رائج کر دیا گیا جن کی ان لوگوں نے مخالفت کی تھی۔
ان تمام روایات سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ قرآن کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ یہ بعینہ وہی قرآن ہے جو محمد صلعم چھوڑ کر گئے تھے، محض دوسروں کو اور خود کو دھوکہ دینا ہے۔ قرآن کی حفاظت الٰہی کا دعویٰ تو محمد کی وفات کے فوراً بعد ہی اپنا اثر چھوڑ گیا تھا اور بہت سی ایسی آیات جو وفاتِ نبی تک موجود تھیں، پڑھی جا رہی تھیں، قرآن کی تدوین کے وقت شامل نہ ہو سکیں کیونکہ وہ مختلف واقعات میں ضائع ہو چکی تھیں۔ پھر کئی آیات ایسی تھیں جو مختلف صحابہ کے درمیان مختلف فیہ تھیں کہ ایک کے نزدیک قرآن اور دوسرے کے نزدیک غیر قرآن، ایک کے نزدیک دوسرا قرآن کی کچھ آیات کا منکر بن رہا تھا اور دوسرے کے نزدیک پہلا کچھ زائد آیات قرآن میں شامل سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح اور بھی بہت سی آیات ایسی تھیں جو مختلف صحابہ دور تابعین میں بھی اس طرح پڑھتے تھے کہ موجودہ قرآن میں ان آیات کے کچھ الفاط موجود نہیں یا زائد ہیں۔  اسی طرح بعد میں جس قرآن کو تیسرے خلیفہ نے سرکاری سرپرستی میں رائج کروایا اس سے بھی کئی ایک صحابہ و تابعین کا اختلاف تھا اور ان مختلف قرآن کے نسخوں کو زبردستی ضبط کر کے ضائع کیا جاتا رہا تاکہ قرآن کے اس شدید اختلاف پر پردہ ڈالا جا سکے۔
یہ تو محض (راقم کے علم کی حد تک) وہ روایات پیش کی گئی ہیں جن میں موجودہ قرآن کی پوری پوری آیات یا الفاظ کا فرق ہے، اگر صحابہ و تابعین کے درمیان قرآن  کی مختلف آیات کے پڑھنے کا اختلاف سامنے لایا جائے تو اس کے لئے الگ کتاب چاہئےاور کوشش ہو گی کہ اس پر الگ سے کچھ لکھا جا سکے۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ۔

34 Comments

  1. Assalamu Alaikum,

    main zada kuch nahi kahon ga sirf itna hi kahon ga k Qur’an aj bhi mahfooz hai jis ki misaal UK main aj mili hai jo k takriban 1400 saal porana nuksa hai Qur’an ka, 1 misaal turky k museum main mujud jo k hazrat Usman (r.a) k dour ka hai jis par aaj bhi hazrat Usman (r.a) ka blood mujud hai sorry mujy naam yaad nahi, or 1 Qur’an jo k in dono ki hi tarha porana hai wo Russia k 1 museum main rakha howa hai or ye tamam Qur’an k nuksay aj k Qur’an se 100% match kerty hen.

    1. قرآن کے سب سے قدیم ترین مانے جانے والے نسخے دو ہیں. پہلا وہ نسخہ جو سمرقند میں موجود ہے اور دوسرا ترکی میں توپ کاپی میوزیم میں رکھا ہوا ہے. دونوں میں سے کسی بھی نسخے کا کوئی تعلق مصحف عثمانی سے نہیں بنتا ہے اور اس کی مندرجہ بالا دو وجوہات ہیں:
      1. مصحف عثمانی حجازی خط میں لکھا گیا تھا جب کے یہ دونوں نسخے کوفی خط میں لکھے ہوے ہیں. کیونکہ حضرت عثمان کے دور تک خط کوفی ابھی ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔
      2. جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کاربن ڈیٹنگ کی تکنیک استمعال کرکے ان نسخوں کی تاریخ کا اندازہ آٹھویں صدی عیسوی کا لگایا گیا ہے نہ کے ساتویں صدی کا. جس سے تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کے یہ نسخے عبدالمالک کے دور خلافت کے تو ہو سکتے ہیں پر دور عثمانی کے نہیں۔

      1. http://www.livescience.com/51638-quran-manuscript-oldest-known-copy.html
        یہ آپ کو کافی افاقہ دے گا … آپ نے اپنے آرٹیکل سے کافی گمراہی پھیلانے کی کوشش کی لیکن الله نے قرآن کی حفاظت کا وادہ کیا ہے اور آپ جیسے لوگ اسے نقصان نہی پوھنچا سکتے … آپ کا مذہبی علم تو کافی کلیل ہے ذرا سا سائنس بھی پڑھ لیں … الله مدد کرے گا…..

      1. سجاد صاحب یہ آپ کے دیے ہوئے لنک سے پہلا پیراگراف یہاں نقل کر رہا ہوں ذرا غور سے ملاحظہ فرما لیں:

        A 1,500-year-old parchment could be one of the oldest known copies of the Quran, possibly dating back to a time that overlapped with the life of the Prophet Muhammad, according to researchers who recently dated the manuscript fragments.

        کم سے کم لنک پیسٹتے وقت اسے پڑھ بھی لیا کریں، پھر بھی سمجھ نہ آئے تو پوچھ لیجیے گا۔

  2. The tests, carried out by the Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit, showed that the fragments, written on sheep or goat skin, were among the very oldest surviving texts of the Koran.
    These tests provide a range of dates, showing that, with a probability of more than 95%, the parchment was from between 568 and 645.
    "They could well take us back to within a few years of the actual founding of Islam,” said David Thomas, the university’s professor of Christianity and Islam.
    "According to Muslim tradition, the Prophet Muhammad received the revelations that form the Koran, the scripture of Islam, between the years 610 and 632, the year of his death.

          1. چلیں ایک بات تو آپ نے من لی کے قرآن کا موجودہ نسخہ ووہی ہے جو نبی پاک کے دور میں تھا….. اور جہاں تک آپ کے احادیث کے حوالوں کا تعلق ہے اس میں بھی کافی جھول ہے اور احادیث کا علم کافی محفوظ اور مراحل سے گزر کر پختہ ہو گیا ہے … آپ اس سے پرہیز ہی کیجیے آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے …. آپ کا کام شر پھیلانا ہے آپ وہ کیجیے ……. 🙂 🙂

        1. جب انسان پھنس جاتا ہے تو ایسی ہی خوش فہمیوں کا سہارا لیتا ہے جس طرح آپ، میری کس بات سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ہم نے یہ بات مان لی ہے کہ ”قرآن کا موجودہ نسخہ وہی ہے جو نبی پاک کے دور میں تھا“ جس بات پر آپ کے صحابہ اور علماء متفق نہیں وہ ہم کیسے مان لیں؟ حدیث کے حوالے میں کہاں جھول ہے؟ تاکہ اس بارے میں بھی آپ کی تسلی کرا دی جائے۔

          1. یں نے جو لنکس دیا تھے وہ پڑھ لیا ہوتے تو کم اس کم ایک بات آپ پر وازہ ہوجاتی ک برمنگھم یونیورسٹی میں جس قرآن پر ریسرچ کی گئی ہے اسے ریڈیو کاربن پراسیس ک through چیک کیا گیا ہے … Radio Carbon ١٤ ایک ایسا ٹیسٹ ہے جو یہ جانے میں مدد دیتا ہے ک جس چیز پر ٹیسٹ ہو رہا ہے وہ کتنی قدیم ہے … اور اس کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیا ممکنات کی تھیوری( Theory of Probability) سے finalize کیا جاتا ہے … اب ایک خاص تناسب سے تجاوز یہ تے کر دیتا ہے ک وہ چیز کتنی قدیم ہے .. اور اس قرآن پر ٹیسٹ کے نتیجے میں وہاں ک پروفسسریس نے یہ اعلان کیا ہے ک یہ نسخہ کم اس کم ١٣٥٠ سے ١٤٠٠ سال پرانا ہے … اب کیوں کی یہ scientifically پروف ہے اور ایک کرسچین پروفیسر یہ گواہی دے رہا ہے تو اسے حجت کی دنیا میں ایک حقیقت تسلیم کیا جائے گا .. آپ کا یہ داوا تو یہاں پر ہی ختم ہو جاتا ہے ک حجازی سکرپٹ والا نسخہ موجود ہی نہی ہے اس وقت دنیا میں .. جیسے ک آپ نے اپنے پہلے کومنٹ میں کہا تھا …. اب جب ک یہ ثابت ہوا اور "تھرڈ پارٹی ٹیسٹ” سے ثابت ہوا ک قرانی نسخہ نبی پاک کے دور کا ہے تو اب اس رد حدیث سے نہی کیا جا سکتا … جیسے کے پہلے ہی عرض کیا تھا کا حدیث ک علم میں کافی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور چند احادیث ، جن کے حقیقی ہونے پر شق ہو , کو بنیاد بنا کر پورے کے پورے قرآن اور بقیہ احادیث جو کے قرآن کے محفوظ ہونے پر دلیل دیتے ہیں , accept نہی کیا جا سکتا …. حدیث کا ایک اصول ہے ک اگر قرآن سے متصادم ہو تو اسے قبول نہی کیا جائے گا .. اب قرآن اس بات کی گواہی دے رہا ہے ک قیامت تک اس کی حفاظت کی ذمداری الله کے سپرد ہے ، اب اس کے برعکس کوئی حدیث قبول نہی ہوگی جو یہ ظہور کرنے کی کوشش کرے ک قرآن میں تحریف ہو گئی ہے ….. آخر میں….. آپ کے دعوے کے مطابق قرآن میں تحریف ہو گئی ہے تو پھر تو اس میں غلطیاں بھی ہونے چاہیے .. آپ اور آپ کے ہمنوا کو چیلنج کرتا ہوں ک ایک بھی غلطی قرآن میں دکھا دیں میں Mathematically اور scientifially پروف کر دوں گا کے قرآن Error-less ہے … یہ میرا challenge ہے آپ کو اور آپ کے ہمنوا کو ….. الله اور میرا قرآن میری مدد کرے گا .. آپ بھی اپنے مددگار بلا لائیا گا…. دوبارہ اس آرٹیکل کو پڑھ لیجیے گا

        2. 1- دیکھیں آپ نے جو لنک پیش کیا ہے اسی کے مطابق یہ برمنگھم لائبریری والا نسخہ 1500 سال پرانا ہے۔ جبکہ پیغمبر اسلام کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی ابھی 1383 سال (2015-632) ہی ہوئے ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ یہ نسخہ پیغمبر اسلام کی ولادت سے بھی قبل کا ہے۔ اس نسخہ کے ۱۳۵۰ سے ۱۴۰۰ سال پرانے ہونے کی بات تو آپ کر رہے ہیں، اس مضمون میں تو اسے ۱۵۰۰ سال پرانا قرار دیا گیا ہے۔
          2- اس مضمون میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ اس کھال کی کی گئی ہے جس پر یہ نسخہ لکھا ہوا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ابھی ذرا صبر کیجئے کہ اس سیاہی کی بھی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سامنے آ جائے جس سے یہ قرآن لکھا گیا ہے۔ پھر صحیح طرح صورت حال واضح ہوگی۔
          3-سب سے اہم بات کہ آپ کے کمنٹس سے یہ لگ رہا ہے کہ آپ اسے قرآن کا کوئی مکمل نسخۃ سمجھ رہے ہیں، ذین میں رکھئے گا کہ یہ نسخہ صرف قرآن کے کل چار اوراق پر مشتنمل ہے، یہ کوئی مکمل نسخہ نہیں ہے۔ محض چار صفحات کی موجودگی پر کسی طرح بھی یہ دعویٰ قائم نہیں کیا جا سکتا کہ آج جو قرآن ہمارے پاس موجود ہے وہ بعینہ وہی ہے جو پیغمبر اسلام چھوڑ کر گئے تھے۔
          4- ہم تو صرف مسلمانوں کے اس عقیدے کو چیلنج کر رہے ہیں کہ قرآن میں آج تک زبر زیر پیش تک کا فرق واقع نہیں ہوا ہے، اور قرآن کے اس دعوے کو چیلنج کر رہے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللّٰه نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ احادیث کو دیکھا جائے تو زیر زبر پیش تو ایک طرف پوری پوری سورتوں کا گھپلا نظر آتا ہے، جیسا کہ سعد رضا نے اس کی نشاندہی کی ہے۔
          5- احادیث کے بارے میں آپ نے جو اصول بیان کیا ہے وہ آپ نے خود کو فریب دینے کیلئے خود وضع کیا ہے، علماء اسلام آپ کے اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا عقیدہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں تضاد واقع ہو ہی نہیں سکتا۔
          6- جرات تحقیق پر ”قرآنیات“ کے زمرے کی تحریریں ملاحظہ کر لیجئے جن میں خود قرآن کے اندر پائے جانے والے کئی تضادات اور اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اپنے ذہن کو کھلا رکھ کر غیر جانبدارانہ نظر سے اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔

  3. سجاد صاحب نے پہلے جو لنک دیا تھا اس سے بات نہ بنی تو دوسرا لنک لے آئے جو بی بی سی کا ہے اور جو یہ ہے:

    http://www.bbc.com/news/business-33436021

    حالانکہ بات اب بھی بنتی نظر نہیں آتی اور سجاد صاحب کے پاس صرف جھوٹ ہی ایک واحد ذریعہ ہے اپنی اس بوگس کتاب کو بچانے کا جو کسی طور بچ نہیں سکتی، کیا سجاد صاحب سمجھتے ہیں کہ لوگ اتنے بے وقوف ہیں کہ انہیں ان کے فراہم کردہ روابط پر تاریخیں پڑھنے میں دقت ہوگی؟

    سجاد صاحب کے مندرجہ بالا بی بی سی والے لنک سے یہ اقتباس پیش ہے:

    These tests provide a range of dates, showing that, with a probability of more than 95%, the parchment was from between 568 and 645.

    یعنی یہ نسخہ پچانوے فیصد درستگی کے ساتھ 568 عیسوی سے لے کر 645 عیسوی کے درمیان کا ہے، جبکہ اسلامی تاریخ کے مطابق حضرت محمد کی پیدائش 571 عیسوی کو ہوئی یعنی اس نسخے کے لکھے جانے کے تین سال بعد؟!! اس اعتبار سے یہ نسخہ یا تو محمد کی پیدائش کے پہلے کا ہے یا کم سے کم اس کے بچپن کے دنوں کا ہے تو کیا بچپن میں بھی محمد پر وحی آتی تھی؟ اور کیا قرآن محمد کی پیدائش سے پہلے بھی تھا؟

    یہ تو تھی کم سے کم تاریخ کی بات، اب اگر ہم زیادہ سے زیادہ تاریخ کی بات کریں تو کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ 645 عیسوی کا ہے جبکہ حضرت عثمان نے قرآن 646 عیسوی کو جمع کیا تھا یعنی کاربن ڈیٹنگ کی تاریخ سے ایک سال بعد؟! گویا یہ نسخہ حضرت عثمان والا بھی نہیں ہے جبکہ اسلامی تاریخ کے مطابق حضرت عثمان نے اپنے نسخے کے علاوہ باقی تمام نسخے جلا دیے تھے تو پھر یہ نسخہ کہاں سے پیدا ہوگیا؟

    انہی تضادات کی وجہ سے جملہ علمائے اسلام نے اس نسخے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ نسخہ محمد کے جھوٹ کا پول کھولتا ہوا نظر آتا ہے، یہ نسخہ بتاتا ہے کہ محمد پر جیسا کہ یزید بن معاویہ نے کہا تھا کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ اسلام من جملہ بنو ہاشم کی ایک سازش تھی، اور محمد نے قرآن نامی یہ ڈھکوسلہ پرانے شعراء کے کلام سے چوری کیا ہے کیونکہ یہ نسخہ محمد کی پیدائش سے یا تو پہلے کا ہے یا اس کے بچپن کے زمانے کا ہے، بلکہ یہ اعتراف تو علامہ مناوی نے ❞فیض القدیر شرح الجامع الصغیر❝ صفحہ 187 میں بھی کیا ہے فرماتے ہیں کہ:

    187

    امرو القیس نے قرآن کے نازل ہونے سے پہلے قرآن سے کلام کیا اور کہا:

    يتمنى المرء في الصيف الشتاء * حتى إذا جاء الشتاء أنكره
    فهو لا يرضى بحال واحد * قتل الإنسان ما أكفره

    اور کہا:

    إقتربت الساعة وانشق القمر * من غزال صاد قلبي ونفر

    اور کہا:

    إذا زلزلت الأرض زلزالها * وأخرجت الأرض أثقالها
    تقوم الأنام على رسلها * ليوم الحساب ترى حالها
    يحاسبها ملك عادل * فإما عليها وإما لها

    یاد رہے کہ امرو القیس محمد کی پیدائش سے کوئی تیس سال پہلے مر چکا تھا!؟ تو کیا امرو القیس پر وحی نازل ہوتی تھی؟ کیا امرو القیس نبی تھا؟ اگر نہیں تو چور کون ہے؟ محمد یا امرو القیس؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نے پرانے شعراء کے کلام پر شب خون مار کر قرآن نامی لالی پاپ تیار کیا جسے اس کے چمچے آج تک چوسے چلے جا رہے ہیں۔۔

    رہی بات قرآن کے متن کے اختلافات کی تو سجاد صاحب ان جملہ احادیث صحیحہ سے کیا انکار کر دیں گے جو یہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ قرآن میں اختلاف ہے؟؟

    ویسے بھی یہ نسخہ اسلام کے منہ پر کوئی پہلا طمانچہ نہیں ہے، اس سے پہلے 1972 کو یمن کے دار الحکومت صنعاء کی ❞الجامع الکبیر❝ نامی مسجد سے دریافت ہونے والے نسخوں کی کاربنگ ڈیٹنگ سے معلوم ہوا تھا کہ یہ نسخے ننانوے فیصد درستگی کے ساتھ 671 عیسوی کے ہیں، تاہم ان نسخوں میں کہانی یہ کی گئی تھی کہ ان پر پہلے سے لکھے ہوئے قرآنی متن کو مٹا کر اوپر سے دوبارہ قرآنی متن تحریر کیا گیا تھا، اوپر کا قرآنی متن تو حالیہ قرآن سے میچ کرتا تھا مگر نیچے کا متن جسے مٹانے کی کوشش کی گئی تھی وہ حالیہ قرآن سے میچ نہیں کرتا تھا، اس متن کو ❞سفلی❝ متن کا نام دیا گیا تھا جو 2012 میں شائع کیا گیا، اس سفلی متن کے حالیہ قرآن سے اختلافات کا ایک چھوٹا سا نمونہ وکیپیڈیا پر ذیل کے ربط پر دیکھا جاسکتا ہے:

    https://en.wikipedia.org/wiki/Sana'a_manuscript

    اس طرح یہ بات سائنسی طور پر پایہء ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ قرآن نہ صرف خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ پرانے عرب شعراء کے کلام کا چوری شدہ ملغوبہ ہے اور اس میں حدیث اور صنعاء کے مخطوطوں کے مطابق اختلافات بھی موجود رہے ہیں۔ لہذا بار بار یہ راگ الاپنا کہ یہ بوگس کلام اللہ نامی کسی بھوت کا ہے اور اس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے ایک مجذوب کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

    1. سجاداکبربھائ۔۔۔ نظامی صاحب اور شا صاحب جیسے لوگوں سے دلائل میں کوئ جیت نہیں سکتا۔ یہ جو حوالہ دیتے ہیں، درست نکلتا ھے، مگر کب تک ؟۔۔۔ یہ اللہ سے مزاق کرتے ہیں ، اللہ بھی ان سے مزاق کرتا ھے۔۔۔۔سورۃ البقرہ، آیت نمبر 15۔۔۔۔۔ترجمہ۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی بھی ان سے مزاق کرتا ھے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واسلام۔

    2. بدتمیزی نہی چلے گی .. اب جواب سن لو اور تمیز سے دوسرا سوال کرنا … … آپ خود ماں رہے ہو کے یہ نسخہ ٥٦٨ سے ٦٤٥ کا ہے .. اور نبی پاک کی پیدائش ٥٧١ میں ہے .. تو عقلمندوں ٥٧١-٦٤٥ = ٧٤ سال کا time period ہے اور نبی پر پہلی وہی ٤٠ سال کی age میں نازل ہے .. مطلب ٧٤-٤٠ = ٣٤ … اب بھی ٣٤ سال کا ارسا باکی بچتا ہے … اگر partiality نے بینائی نہی سلب کی ہے تو اس مضمون اور انٹرویو کو آگے بھی پڑھ لیتے .. جس میں یہ کہا جا رہا ہے کے یہ نبی پاک کے دور کا نسخہ ہو سکتا ہے یا پھر ان کر فورن بعد کا ….. اب جہاں تک یہ ک قرآن الله کا کلام ہے یا نہی تو اس کا چیلنج تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں ک ایک بھی غلطی دکھا دیں …. اس کے جواب میں نظامی سحاب نے مجھے آپ کی ویب سائٹ visit کرنے کا مشورہ دیا .. یقین کیجیے ک دیکھ کر حیران رہ گیا ک آپ لوگ یقینن ایک ایسے گمراہی میں پڑے ہے ہیں جس میں سے الله ہی آپ کو .نکال سکتا ہے .. نہایت ہی بھونڈے انداز سے اعتراض raise گئے ہیں .. میں نے اعتراض نہی "غلطی” کہا ہے .. آپ غلط ثابت کر دیں .. میں آپ کا گروپ join کر لوں گا .. نہی تو آپ کو واپس دین کو قبول کرنا پڑے گا .. جی فرمایے چیلنج accept ہے…..
      . ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں …. تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں 🙂 🙂

      1. اکبر بھائ جان ! یہ لوگ نھیں سمجھنے والے۔۔۔انھیں کیا پتہ کہ ایمان کا عقل سے کوئ تعلق واسطہ نہیں ھوتا۔۔۔انہی جیسے میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ اگر اسلام اچھا اور سچا مذھب ھے تو اس کے ماننے والے دنیا بھر ميں کیوں ذلیل و خوار ھیں۔۔۔میں نے جواب دیا کہ ھمارے مذھب کے مطابق اگر کسی کو بخار ھو جاۓ تو اس سے بھی گناہ جھڑتے ھیں تو اس سے اندازہ لگاؤ کہ اس دنیاوی ذلت و خواری کے عوض اگلے جہان کیا کیا اجر اور نعمتیں نہیں ملیں گی۔۔۔بس ایسا لاجواب ھوا کہ مجھ سے بول چال ھی چھوڑ دی۔۔۔ اکبر بھائ جان ! میرا مشورہ ھے کہ آپ پہل فرمایں اور یہ بحث بند کر دیں کیونکہ۔۔۔ جواب جاھلاں خاموشی باشد۔۔۔ مگر کیا کریں کہ یہ لوگ میرے دوست کی طرح کبھی خاموشی اختیار کرنے والے نہیں۔۔۔اللہ انہیں ھدائت دے۔۔

  4. السلام على من اتبع الهدى
    اگر کوئی جماعت کسی کتاب اور شخصیت سے اچھا اعتقاد اور ایمان رکھے اس میں آپ لوگ اتنا کیوں اچھل کود کر رہے ہو یا پھر تنخواہ دار ملازم ہو
    اگر ایسا ہی ہے تو حق آپ سمجھ نہیں سکتے اور ایسا نہیں ہے تو اپنے دل اور ضمیر میں خلوص کے ساتھ جھانکو
    بحث و مباحثہ آپ کو کسی نتیجے پر نہیں پہونچا سکتا اور نہ کسی کی شفاء کا باعث بن سکتا ہے
    ہماری چھوڑو آپ اپنی فکر کرو بہت سے سوال ہے وہ وقتا فوقتا کئے جائینگے

    1. السلام علی من اتبع العقل و سلك طریق العاقلین
      ٭ دنیا میں بہت سے جماعتیں ہیں جو کسی کتاب یا شخصیت پر اچھا اعتقاد اور ایمان رکھتی ہیں جیسے ہندو بھگوت گیتا پر، یہودی تورات پر، عیسائی انجیل پر، اور اسی طرح بہت سی جماعتیں ہیں، ان جماعتوں کے بارے میں کبھی مسلمانوں کی اچھل کود پر نظر گئی آپ کی یا صرف نظر کر لیتے ہیں ؟
      ٭ کیا آپ کنواری حوروں کی ہوس اور لالچ میں ایک مجہول خدا کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ کو حوروں کا لالچ ہے اور ہمیں انسانوں کا جہالت میں مبتلا ہونے کا افسوس۔
      ٭ آپ نے جو حق سمجھ لیا ہے لایئے ذرا وہ ہمارے سامنے بھی لایئے، ممکن ہے آپ کی طرح ہم بھی اس حق کے قائل ہو جائیں۔
      ٭ بحث و مباحثہ ہی کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے عقلاء کا معروف طریقہ ہے، یہ مذاہب ہیں جو گردنوں پر حکومت کرنا اپنی فتح گردانتے ہیں۔
      ٭ ”ہماری چھوڑو، اپنی فکر کرو“ کا یہ فارمولا آپ اس وقت کیوں بھول جاتے ہیں جب آپ کا مذہب مرتد کیلئے قتل کی سزا کا حکم دیتا ہے؟
      ٭ سوال ہمیں بہت پسند ہیں، سوال ہی حقیقت تک پہنچنے کی کلید ہے، آپ کے سوالوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جائے گا۔

      1. واہ نظامی صاحب،واہ۔۔۔کیا بونگیاں ماریں ھیں۔۔۔اگر آپ اتنے ھی عالم فاضل ھیں تو یہ فرمایں کہ ماش کی دال کو انگریزی میں کیا کہتے ھیں؟ ۔۔۔ بس ھو گۓ لاجواب؟۔۔۔آپ نے ایک لفظ استعمال کیا ھے۔۔کلید۔۔مہربانی فرما کر اس لفظ کا مطلب بتا دیں تا کہ آپ کی تحریر کو سمجھ سکوں اور آپ کو جواب دے سکوں۔۔۔الللہ آپ کو ھدائت دے۔۔۔۔۔آمین۔۔۔۔۔۔واسلام۔۔۔۔

  5. نظامی صاحب! اسد رضا کی پوسٹ سے میرے بھی کان کھڑے ھو گۓ۔ بظاہر تمام مذاھب میں قصےکہانیوں، نعمتوں کے لالچ اور شدید عذاب سےڈرانے دھمکانے کےسوا کچھ بھی نھیں، پھر آپ صرف اسلام کے پیچھے کیوں پڑے ھیں۔ کیا واقعی آپ کا کوئ آقا ھے ؟ جس کےاشاروں پر یہ سب ھو رھا ھے۔۔۔۔اللہ آپ کو ھدایت دے ۔۔۔آمین۔

  6. بھائی دیکھیں ، دنیا میں لاکھوں قرآن کے حافظ موجود ہیں – آپ آسٹریلیا کے حافظ کو امریکہ کے حآفظ کے ساتھ بٹھا کر قرآن سنیں – رتی برابر بھی فرق نہ ہوگا- بس اسی تواتر سے قرآن ہمیں لفظ بہ لفظ محفوظ ملا ھے – باقی بات رہی احادیث و تاریخ کی تو ان سب کے سب ذخیرہ کو آگ لگا دو ۔۔ انکو میں نہیں مانتا- شکریہ

  7. good day ‘ main pehli baar is website par aya hon .muje aaj se pehly in nazriyat aur khyalat ka pata nahi tha . mein yeh janna chahta hon ky aa logo ka kia mazhab hain . aur agar aap log islam ka inkar karte hain tu kia aap kisi dosre Deen ki parchar kar rahin hain . oh Deen konsa hai aur agar aap ose saheh samjte hain tu kis daleel se…. aap ki mehrabani hogi plz muje pore detail se jawab dain. shukria

    1. خوش آمدید ! ہم دنیا کے تمام مذاہب کو انسانی ذہن کی اختراع سمجھتے ہیں، ہم کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے ہیں اور نا ہی مذاہب کو ترک کرکے کسی اور مذہب کی تلقین کرتے ہیں، ہم انسانی عقل کو انسان کا حقیقی رہنما مانتے ہیں، ہم کسی خدا کے وجود پر یقین ہیں رکھتے ہیں، کیونکہ خدا کے وجود کے دلائل غیر معقول اور ناکافی ہیں، ہم ما بعد الطبیعاتی (Metaphysics) امور کو تسلیم نہیں کرتے، مرنے کے بعد کسی زندگی کا وجود نہیں مانتے، عرف عام میں ہمیں ملحد اور لادین کہا جاتا ہے۔ ہم انسانیت اور بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں، فرد کی آزادی کیلئے کوشاں ہیں، آزادی اظہار رائے کے علم بردار ہیں، اور اپنے مخالف کیلئے بھی اس حق کا اقرار کرتے ہیں۔ ہم پر امن دنیا کے خواہاں ہیں جہاں پر ہر کسی کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی مکمل آزادی ہو لیکن اپنے نظریات کسی دوسرے پر زبردستی مسلط کرنے کے مخالف ہیں۔

جواب دیں

34 Comments
scroll to top