Close

حسین کے قاتل کون تھے؟

حسین کے قاتل یقینا وہ کوفی تھے، جنہوں نے مکہ سے حسین کو خط لکھ لکھ کر بلوایا، اور ان میں سے ساٹھ بندے حسین کے ساتھ مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے تھے اور قافلے میں شامل تھے۔ جب یزید کے گورنر کوفہ، ابن زیاد نے وہ خط پکڑے جو حسین کے نام کوفہ سے جارہے تھے، تو اس نے خط لکھنے والے کوفی اور اسکو بھیجنے والے قاصد دونوں کو بغآوت کے جرم میں قتل کروادیا تھا۔ اسی طرح کئی خط کوفہ میں پکڑے گئے اور ان خط لکھنے والوں کو سخت تریں اور عبرت ناک سزا دی گئی۔ ابن زیاد اس معاملے میں بہت سخت گیر تھا۔ کیونکہ کوفے پر یزید کے نام پر بیعت اکٹریت نے کرلی تھی، جن میں یہ کوفی بھی شامل تھے۔ پھر انہوں نے خط لکھ لکھ کر حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور حکومت کا تختہ الٹنے کا بھی پروپوزل دیا۔ جسکی حسین نے حامی بھرتے ہوئے کوفہ جانے کا ٹھان لیا۔ ویسے بھی کوفہ حسین کے اباجان علی کی حکومت کا دارلحکومت رہا تھا، جہاں حسین کے خیال سے انکے سپورٹر کافی تعداد میں موجود تھے۔ لیکن یہی کوفی وقت اور طاقت کے پجاری تھے، انہوں نے حسین کو خط پر خط لکھ کر کوفہ بلوانے کا تو ارادہ کرلیا، لیکن وقت پڑنے پر ان کی ہی خلاف بھی ہوگئے، جب ابن زیاد نے حسین کے خلاف زبردستی کوفیوں پر ہی مشتمل ایک دستہ تشکیل دیا جس نے کربلا کے مقام پر حسین کے قافلے کو جالیا۔ وہاں جاکر جب سالار قافلہ عمر بن سعد نے حسین کے کوفے آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کوفیوں کی طرف جو دونوں طرف موجود تھے، انکی طرف اشارہ کیا کہ ان لوگوں نے مجھے بلایا ہے خط لکھ کر۔ پھر عمر بن سعد سے حسین کے مذاکرات ہوئے، رات کے وقت بھی اور دن کے وقت بھی۔ حسین اس بات پر آمادہ ہوگئے تھے کہ وہ دمشق جاکر یزید کے پاس جاکر اس سے اپنے معامالات طے کرلیں گے، جیسے انکے بڑے بھائی حسن نے معاویہ سے طے کرلیے تھے، لیکن یہ بھی طے پایا کہ وہ اس بغاوت سے بری الزمہ ہیں، اور انکو اکسانے والے کوفی ہی ہیں۔ اب کوفیوں نے جو یہ دیکھا تو انکی جان کے لالے پڑگئے، کیونکہ اسطرح انکو اپنی موت کھلے عام نظر آرہی تھی۔ اگر حسین کے پاس جو خط کے تھیلے رکھے ہوئے تھے، وہ ابن زیاد یا یزید کی سرکاری تحویل میں اگر آجاتے تو انکی یقینی موت ہوتی۔ ابن زیاد یا پھر دمشق میں یزید انکی گردنیں اڑادیتا۔
تو انہوں نے مناسب یہی سمجھا کہ حسین کے پاس سے وہ تھیلے چھین لیے جائے۔ کچھ خطوط حسین نے عمر بن سعد سے ملاقات کے بعد اسکے حوالے بھی کردیے تھے، یعنی سرکاری فوج کے پاس وہ خط موجود تھے۔ تو پھر ان کوفیوں نے ان خطوط کو ہتھیانے کے لیے ایک طرف تو حسین کے خیموں پر حملہ کردیا اور انکو آگ لگا دی، اور دوسری طرف سرکاری فوج، جس میں زیادہ تر وہی خط لکھنے والے کوفی ہی تھے، اس پر بھی حملہ کردیا۔ اسی افراتفری میں جنگ جیسے کیفیت ہوگئی اور ہلڑبازی اور لڑائی جھگڑے کے نتیجے میں دونوں طرف کے لوگ حسین اور انکے گھروالوں سمیت مارے گئے۔ ابن زیاد کی فوج میں جو کوفی موجود تھے، انہوں نے بھی ثبوت مٹانے کی غرض سے خوب حسین کے خیموں کی لوٹ مار کی اور حسین کے قافلے کی طرف بھی جو کوفی موجود تھے، انہوں نے بھی سرکاری فوجوں پر حملے کیے تاکہ ان خطوط کو ہتھیا سکیں۔ لیکن سرکاری فوجیں ایک تو تعداد میں زیادہ تھیں اور دوسری طرف زیادہ منظم، تربیت یافتہ اور جنگجو سپاھیوں پر مشتمل تھیں، اس لیے انہوں نے ان کوفیوں کا مار گرایا۔ یہ سب واقفہ تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی کاروائی میں پورا ہوگیا تھا۔ حسین کے قافلے میں ستر سے بہتر افراد مارے گئے اور ابن زیاد و عمر بن سعد کی سرکاری فوج کے قریبا اسی لوگ قتل ہوئے۔ چونکہ اس واقعے میں ابن زیاد کی طرف کوئی زیادتی نہیں نکلتی تھی بلکہ اس نے تو بغاوت فرو کرنے میں یزید کی مدد بھی کی تھی، اس لیے یزید نے اسکو حسین کے مارے جانے کے بعد بھی کوئی سزا وغیرہ نہیں دی۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top