Close

خدا کی زبردست ہٹ دھرمی

سورہ مائدہ آیت 32 میں ارشاد خداوندی ہے کہ من قتل نفس بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا، ترجمہ: جس انسان نے کسی دوسرے انسان کو قصاص اور فساد کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔۔۔ اب ذرا سورہ الانفال کی آیت 65 میں خدائی بیان سنئے، یا ایھا النبی حرض المومنین علی القتال، ترجمہ: اے نبی مومنین کو قتال پر ابھارئیے، خدا نے اپنے پیغمبر کو محض دو صورتوں میں ایک انسان کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے لہذا اب ہم تحقیق کریں گے کہ غزوہ بدر، احد، خندق اور خیبر میں مرنے والے کفار ان دو صورتوں میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں،  سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان جنگوں میں مرنے والے لوگ قصاص کے زمرے میں تو بالکل نہیں آتے، کیونکہ قصاص دراصل ایک  معروف اسلامی قانون ہے جس کے مطابق قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے باقی بچی دوسری صورت یعنی فساد، اب ہم تحقیق کریں گے کہ ان لوگوں کا فساد کیا تھا جو بدر، احد اور خندق وغیرہ میں مارے گئے، ہم خدا کے کلام  قرآن ہی سے پوچھیں گے کہ فساد کی بنیاد کیا ہے چنانچہ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیت 8 میں ارشاد خداوندی ہے کہ، ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین ، ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے خدا اور اسکے رسول پر مگر وہ ایمان لانے والے نہیں،  گویا فساد کی بنیاد خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا ہے سو اب ہم ایمان کی تعریف بیان کریں گے، ایمان کا بنیادی مادہ امن سے ہے جبکہ اس کے اصطلاحی معنی جو یہاں پر مراد ہیں اعتماد یا یقین کے ہیں چنانچہ جمہور علماء اسلام کے مطابق ایمان کے معنی بن دیکھے خدا پر یقین کرنا جبکہ جدید روشن خیال اہل اسلام علماء کے مطابق بن دیکھے مگر عقل کے مطابق یقین کرنے کے ہیں،  ایمان کے جو بھی معانی لئے جائیں بہرحال اس کی تعریف یہاں پر آکر رک جاتی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر یقین کرنا،  اصول معقولات یہ ہے کہ جو شخص بھی خدا کے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اول تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کا وجود ثابت کرے، اگر بالفرض وہ خدا کا وجود ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے پھر اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی خدا کا نبی ہے، تب کہیں جا کر کسی کو اس بات کا قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ یقین کرلے، مگر اس کے برعکس اسلام اور اس کے لانے والے کی یہ ضد ہے کہ بغیر کسی ٹھوس منطقی ثبوت کے لوگ نہ صرف اس کے خدائے واحد یعنی اللہ کو تسلیم کرلیں بلکہ یہ بھی تسلیم کرلیں کہ وہ اس اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا یعنی اس کا پیغمبر ہے، پیغمبر نے اپنی قوم والوں کو تو ایمان نہ لانے کے عوض فسادی قرار دے کر ابدی نیند سلا دیاتو کیا اس پیغمبر کے اپنے بھی اس کے ایمان کو تسلیم کرتے تھے اس پر ہم ابھی بحث کرلیتے ہیں کیونکہ یہ نقطہ بنیادی ہونے کے علاوہ بہت اہم ہے، دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ  ایک انسان کی شخصیت کو اس کے والدین سے بڑھ کوئی نہیں جان سکتا چنانچہ ابھی ہم اسی کسوٹی پر پیغمبر اسلام کو پرکھتے ہیں پیغمبر اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ ان کے والد عبد اللہ فوت ہوگئے تھے، جبکہ غالباً 6 سال کی عمر میں اس کی والدہ آمنہ فوت ہوگئی تھی، اس کے بعد پیغمبر کی دیکھ بھال اس کی کزن ام ہانی کرنے لگی جبکہ اسی دوران پیغمبر کے دادا عبد المطلب نے بھی حتی الوسع آپ کی پرورش کی جب دادا فوت ہوگئے تو پیغمبر کی مستقل پرورش کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے اپنے سر لے لیا، ابو طالب قریش کے معتبرین میں سب سے زیادہ ذہین اور بذلہ سنج تھے ابو طالب نے پیغمبر کو بچپن ہی سےکاروباری سرگرمیوں میں اپنے ساتھ کرلیا تھا، گویا ابو طالب پیغمبر کیلئے ایک باپ کی حیثیت رکھتے تھے چنانچہ جب پیغمبر نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ نے بارہا ابو طالب کو اپنے اس نئے دین کی دعوت دی مگر ابو طالب آخری دم تک پیغمبر کی دعوت کو ٹھکراتے رہے حتی کہ ایک مشہور روایت کے مطابق پیغمبر ابو طالب کو مرتے وقت یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چچا آج تو میرے کان میں کلمہ پڑھ دے کل قیامت کے دن میں خدا کے سامنے گواہی دوں گا کہ تم نے کلمہ پڑھا تھا، قارئین ابو طالب کا جواب سنئے، نہیں بالکل نہیں، لوگ کیا کہیں گے کہ موت کے ڈر سے بھتیجے کا دین قبول کرلیا (مسلم رقم 24) قارئین پیغمبر کی اس قدر حوصلہ شکنی پر پیغمبر کا خدا ہٹ دھرم بن کر فوراً پینترا بدل لیتا ہے چنانچہ اب وہ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتا ہے کہ: انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء، ترجمہ: بے شک تو ہدایت نہیں دے سکتا اسے جس سے تو محبت کرتا ہے بلکہ ہدایت تو خدا دیتا ہے جسے چاہتا ہے، (سورہ قصص 56) قارئین اب آئیے اس اہم نقطہ کی جانب جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا کہ وہ لوگ جو یمان نہیں لاتے وہ فسادی ہیں پس ان کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے عوض تو مومنین کو جنت ملے گی ملاحظہ کیجئے سورہ توبہ، ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ، ترجمہ: بے شک خرید لیا ہے مومنین سے ان کے خدا نے ان کی جان اور مال جنت کے بدلے (سورہ توبہ 111) قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ پیغمبر کے باپ یعنی اس کے چچا کے انکار پر پیغمبر کا خدا کتنی ہٹ دھرمی سے اس کے لئے سہولت پیدا کر رہا ہے جبکہ عوام کیلئے کچھ اور ہی ضابطہ ہے، یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم، ترجمہ: اے نبی جہاد کرو کفار اور منافقین کے ساتھ اور ان پر سختی کرو (سورہ توبہ 73) یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر کے چچا ابو طالب کفار میں سے نہیں تھے؟ کیا پیغمبر نے خود ان پر اتمام حجت نہیں کیا تھا؟ قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ پیغمبر اپنے چچا کو اپنے دین میں داخل کرنے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرچکے تھے مگر اس سب کے باوجود بھی پیغمبر کے چچا اپنے بھتیجے کے خدا اور اس پر ایمان نہ لاسکے، اب دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر پیغمبر نے کیوں اپنے چچا کو زندہ چھوڑ دیا کیوں ان کے خلاف جہاد نہیں کیا کیوں ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی، کہیں ایسا تو نہیں کہ پیغمبر کے خود ساختہ ہٹ دھرم خدا کو شرم آرہی تھی کہ وہ اب اپنے پیغمبر کو اپنے محسن چچا کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم کیسے دے گا گویا پیغمبر کے خدا کا ضمیر گوارا نہیں کررہا تھا قارئین اچنبھے میں پڑنے کی ضرورت نہیں بالکل یہی وجہ تھی کہ ایک باپ نما چچا جس نے کل کلاں مجھے پال پوس کر بڑا کیا ہے اب اس کے خلاف کیسے تلوار اٹھاؤں ہماری الجھن بھی یہی ہے کہ جب پیغمبر اپنے باپ نما چچا کو مسلمان نہ کر سکے تو پھر دیگر عوام کے خلاف تلوار اٹھانے کا کس بنیاد پر جواز نکال رہے ہیں اگر کفار کے خلاف تلوار اٹھانا ضروری ہے تو پھر ابو طالب کیسے بچ نکلا، کیا ان کا شمار کفار میں نہیں تھا اگر ان کا شمار کفار میں نہیں تھا تو پھر اس وقت کے تمام کفار کا شمار بھی کفار میں نہیں کیا جا سکتا، قارئین گھر کی بات تھی نا اس لئے تو خدا نے خود مداخلت کردی اس کے بر عکس عوام کا انکار سامنے آیا تو فوراً خدا اپنی منشاء کو پس پشت ڈال کر اپنے پیغمبر کو حکم دے رہا ہے کہ ان کفار کے خلاف تلوار اٹھاؤ، قارئین یقین کریں ایسا اقرباء پرور اور ہٹ دھرم خدا میں نے تو آج تک کسی مذہب میں بھی نہیں دیکھا۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top