Close

شریعت یا قانون

شریعت

مفتیء زماں جناب حضرت شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں کہ شریعت کی شان الگ ہے اور وہ قوانین جو دستور ساز اسمبلیوں میں بنائے جاتے ہیں ان کی بات الگ ہے، وہ سختی سے دستور ساز اسمبلیوں کے بنائے ہوئے قوانین کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے وضع کردہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بہترین قانون ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی شریعت ہے، اس بات کی وضاحت وہ اپنی کتاب ❞الشریعۃ❝ کے صفحہ 28 اور 29 میں یوں کرتے ہیں:

❞شریعت اور قانون میں بنیادی فرق کئی پہلو لیے ہوئے ہے: پہلا پہلو یہ ہے کہ قانون انسان کا بنایا ہوا ہے جبکہ شریعت اللہ کی طرف سے ہے، شریعت اور قانون دونوں میں اسے بنانے والے کی صفات کی تجلی ہوتی ہے، قانون انسان کا بنایا ہوا ہے اور اس میں انسانوں کا نقص، عجز اور کمزور حیلت نمایاں ہے، پھر یہ قانون تغیر وتبدل کا شکار رہتا ہے جسے ہم ترقی کہتے ہیں۔۔ لہذا قانون ہمیشہ ناقص ہوتا ہے اور کبھی کمال کی حد تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اسے بنانے والے میں ہی کمال کی صفت نہیں ہے جبکہ شریعت کو بنانے والا اللہ ہے اور اللہ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں، اللہ نے اسلامی شریعت کو ایک ثابت اور مکمل قانون کی حیثیت سے وضع کیا ہے تاکہ افراد، گروہوں اور ممالک کو منظم کیا جاسکے❝

مجھے یقین ہے کہ ہمارے ہر دل عزیز شیخ قرضاوی کو معلوم ہوگا کہ اللہ کے کلام میں تبدیلی، منسوخی، رفع اور بھول چوک ہوئی ہے:

مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَا (البقرۃ 106)
(ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں)

وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَر (النحل 101)
(اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ اور اللہ جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو کافر کہتے ہیں کہ تم تو اپنی طرف سے بنا لاتے ہو)

یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (الرعد 39)
(اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسکو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔)

جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن جو شریعت اور دین کا منبع ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بدلتے زمینی حقائق کے پیشِ نظر تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وحی نے اگلے 23 سالوں کو پہلے سے دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی تاکہ آنے والے اگلے سالوں کے لیے دعوت کے آغاز میں یکمشت مناسب شریعت وضع کردی جائے، اس کے برعکس آیات بدلتی صورتِ حال کے تحت تواتر سے نازل ہوتی رہیں اور ایک دوسرے کو منسوخ کرتی اور بدلتی رہیں۔

اگرچہ ہمیں شیخ صاحب کے علم پر قطعی کوئی شک نہیں ہے تاہم وہ اپنی اسی کتاب کے صفحہ 28 میں فرماتے ہیں:

❞قانون عارضی قاعدے ہیں جنہیں جماعت آج وضع کرتی ہے لیکن جب جماعت بدلتی ہے تو انہیں بدلنا پڑتا ہے لیکن شریعت کے قاعدے ہمیشہ ثابت رہتے ہوئے کوئی تغیر اور تبدل قبول نہیں کرتے❝

تاہم حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے قوانین صحابہ اور تابعین پر قطعی طور پر واضح نہیں تھے، بلکہ یہ کبھی مکمل ہی نہیں ہوئے تھے، کیونکہ اگر شریعت کے قوانین مکمل ہوتے تو عباسی دور میں فقہاء کی فوج میں سے ہر کوئی اس کے احکام اپنے طریقے سے وضع نہ کر رہا ہوتا جس کی وجہ سے شریعت کے قوانین میں تضادات اور اختلافات پیدا ہوئے۔

شریعت کا بنیادی ابتدائی ڈھانچہ وحی کے 23 سالوں میں وضع ہوتا رہا مگر مکمل نہ ہوسکا، اس کا ثبوت خلفائے راشدین کے وہ فیصلے ہیں جو انہوں نے ذاتی طور پر اپنی سمجھ اور حالات کے مطابق کیے، انہوں نے حدود روکیں، حدود میں اضافہ کیا، فرائض منسوخ کیے اور حلال کو حرام کیا، رمادہ کے سال (عام الرمادۃ) میں حضرت عمر نے چوری کی حد ساقط کردی، المؤلفۃ قلوبہم کا فریضہ جو براہ راست قرآنی حکم تھا اسے منسوخ کیا اور (عورتوں سے) متعہ کو حرام کردیا جو حلال تھا۔

چوتھی صدی ہجری کے آتے ہی شریعت کے احکام جو پہلے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے ہزاروں احکامات میں بدل گئے، اور فقہی مسائل بارہ ہزار کی حد تجاوز کر گئے، یہ شریعت کی ایسی مشین تھی جو نہ رک رہی تھی اور نا ہی مکمل ہونے پا رہی تھی، اس کے با وجود اسلامی شریعت نا مکمل ہی رہی اور فتاوی کے کنکر مسلمانوں کے سروں پر بارش بن کر گرتے رہے یہاں تک کے مصری دار الافتاء کے اعداد وشمار کے مطابق شیخ علی جمعہ کے دور میں روزانہ ایک ہزار فتوے دیے جاتے تھے؟!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شریعت کی عدم تکمیل کے سبب صحابہ اور تابعین نے ایک دوسرے کی گردنیں اتاریں کیونکہ شریعت نے واضح طور پر ان غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی تھی جن سے گریز کرنا تھا اور ان سزاؤوں کا تعین نہیں کیا جنہیں لاگو کرنا تھا، چنانچہ فتنوں پر فتنے ہوتے رہے، پہلا اندوہ ناک واقعہ حضرت عثمان کے دور میں ہوا جنہوں نے بیت المال کی دولت اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کردی اور اپنے بیویوں اور کنیزوں کو مقبوضہ ممالک سے لوٹی ہوئی دولت کے ہیرے جواہرات سے لاد دیا، اور جس طرح اخوان کے چہیتے صدر مرسی کرتے رہے، حضرت عثمان نے کلیدی مناصب بنی امیہ کے اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیے کیونکہ حضرت عثمان کو شریعت میں ایسا کوئی متن نہیں ملا جو اس فعل کو حرام قرار دے سکے اور اس پر سزا تجویز کرے، لہذا انہوں نے یہ بندر بانٹ اس یقین کے ساتھ جاری رکھی کہ وہ کوئی گناہ نہیں کر رہے چنانچہ دیگر صحابہ نے انہیں قتل کردیا جبکہ وہ اپنے گھر میں جائے نماز پر بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے اور قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے، اس لیے کہ انہوں نے انہیں اتنا کچھ نہیں دیا تھا جتنا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو دیا وہ بھی کسی دینی وجہ سے نہیں، کیونکہ اگر ہم دین کو وجہ بنائیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اس قول کو مدِ نظر رکھیں جو انہوں نے حضرت عثمان کے لیے کہا تھا کہ: ❞اقتلوا نعثلاً فقد کفر❝ یعنی اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ کافر ہو گیا ہے (ابن العبری، تاریخ مختصر الدول، جلد 1، صفحہ 55) تو خلیفہ اور صحابہ دونوں پر حد لاگو ہوگی۔

باعثِ حیرت امر یہ ہے کہ جن لوگوں نے خلیفہ کو قتل کیا ان پر کوئی ❞شرعی حد❝ جاری نہیں کی گئی محض اس لیے کہ وہ صحابہ اور صحابہ کی اولادیں تھیں، اس کے بعد ہی یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا حاکم کے خلاف جانا حلال ہے یا حرام؟ اور نتیجہ یہ نکالا گیا کہ حاکم کے خلاف جانا حرام ہے جب تک اس سے واضح کفر سرزرد نہ ہوجائے، یوں قتلِ عثمان کے فتنہ نے شریعت کے نقائص کو اجاگر کیا، کیونکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ شریعت حدود کے اطلاق میں صحابہ میں معاشرتی رتبے کے اعتبار سے فرق کرتی ہے، یہ خلیفہ اور رعیت میں بھی فرق کرتی ہے، مالک اور غلام، مرد وزن میں بھی فرق کرتی ہے، یوں چاروں خلفائے راشدین کے فیصلے ایک دوسرے سے مختلف تھے، اگر شریعت مکمل ہوتی تو اسلامی تاریخ فرقوں کی خونین جنگوں سے بھری نہ ہوتی، نا ہی خلیفے ایک دوسرے پر کفر اور صحیح اسلام سے ہٹنے کا الزام لگا کر ایک دوسرے کا تختہ پلٹتے، یہ صورتِ حال آج تک جاری ہے مگر کوئی بھی فرقہ ہمیں ❞صحیح اسلام❝ بتانے سے قاصر ہے تاکہ اس خونین مسلکی لڑائی کے آگے بند باندھا جاسکے۔

قانون کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے موجود ہو تاکہ اس واقعہ پر بغیر کسی اختلاف اور تضاد کے اپنا حکم صادر کر سکے اور عوام الناس کو بھی یہ قانون پہلے سے معلوم ہونا چاہیے تاکہ اس قانون کو لاگو کرتے وقت انصاف ہوسکے، جبکہ اسلامی قوانین واقعہ کے رونما ہونے کے بعد آتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو شریعت کے قوانین کی قبل از وقوع واقعہ خبر نہیں ہوتی تھی، اور ہر اگلا قانون سابقہ کو منسوخ کردیتا تھا، اور جس طریقہ سے عثمانی مصحف جمع کیا گیا اس میں ناسخ اور منسوخ اس بری طرح سے خلط ملط ہوئے کہ شرعی احکام میں تضادات سے بچنا ممکن ہی نہیں رہا۔

مکی دور میں مستقبل کی تصویر واضح نہیں تھی، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردِ عمل زمینی واقعات کی تبدیلیوں کے مطابق ہوتا تھا، شرعی قانون واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد آتا تھا، مسلمان پہلے عمل کر چکا ہوتا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس کے حرام اور حلال کے بارے میں استفسار کرتا تھا جس پر نبی کریم حضرت جبریل سے اس پر نئے قانون کے بارے میں استفسار فرماتے، یہی صورتِ حال عہدِ نبوی سے لے کر آج تک جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان مستقبل کے پلان نہیں بناتا کہ مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے، نا ہی وہ ان نظریات سے واقف ہے جو صدیوں پہلے مصریوں یا رافدیوں کے پاس تھے، یا جیسے نظریات ارسطو، افلاطون اور سولون ودیگر کے ہاں تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج تک بے یقینی کی سی کیفیت میں رہتا ہے، پہلے وہ عمل کر گزرتا ہے پھر وہ مفتی صاحب کے پاس اس مسئلہ کے بارے دریافت کرنے جاتا ہے جبکہ کسی بھی مفتی کو حضرت جبریل کی سہولت دستیاب نہیں۔

صحابہ کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی تھی کہ کل ان سے کیا مطلوب ہے، کیا وہ گزشتہ دنوں کے شرعی قوانین کے مطابق ہوگا یہ اس میں کوئی تبدیلیاں واقع ہوگئیں ہیں؟ شراب کبھی حلال تو کبھی حرام ہوتی تھی، اسی طرح متعہ کبھی حلال تو کبھی حرام۔۔ آج بھی مسلمانوں کے ہاں شرعی قوانین کا ایک ایسا بہاؤ ہے جو رکنے میں نہیں آتا، پہلا قانون ساز قرآن تھا، پھر ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی، بلکہ فوجوں کے سپہ سالار بھی حسبِ ضرورت شریعت سازی کرتے تھے، الغرض ہر کوئی اپنے آپ میں ایک شریعت ساز تھا اور ہر کسی کی شریعت سازی دوسرے سے مختلف ہوتی تھی، یہ منظرنامہ ہمارے استاد شیخ قرضاوی کو جھوٹا بنا دیتا ہے جو کہتے ہیں کہ قانون ساز اداروں کے مقابلے میں شریعت میں کمال ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ قرضاوی صاحب اپنی فیصلہ کن بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

❞کسی مکلف کا ایسا کوئی فعل نہیں جو شریعت کے دائرہ کار سے باہر ہو، مکلف جو بھی عمل کرتا ہے شریعت اسے بتاتی ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ حلال ہے، یہ فرض ہے یا مستحب ہے یا مکروہ ہے، ہمارے پاس ایک فقہ ہے جس کا نام شرعی سیاست ہے، عبادات کی فقہ ہے، خاندان کی فقہ ہے، جرائم اور سزاؤوں کی فقہ ہے، وراثت کی فقہ ہے، دستوری فقہ ہے، بین الاقوامی تعلقات کی فقہ ہے اور جہاد، امن اور جنگ کی فقہ ہے❝ (الجزیرہ کے پروگرام الشریعۃ والحیاۃ کی دو قسطیں بعنوان ❞الدین والسیاسۃ❝)

جبکہ یہی شیخ قرضاوی اپنی کتاب ❞ملامح المجتمع المسلم الذی ننشدہ❝ کے صفحہ 167 میں فرماتے ہیں:

❞قرآن میں شرعی احکامات کی آیات دس آیتوں سے زیادہ نہیں❝

اب اگر ہم یہ پوچھیں کہ جناب محض دس آیات سے لاکھوں احکامات کیسے کشید کر لیے گئے؟ تو شیخ صاحب فرماتے ہیں:

❞شریعت اور اخلاق وآداب میں قطعیات ہیں، ان قطعی احکامات کے سوا باقی کچھ بھی لوگوں کی مرضی کے لیے نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ یہاں اصولِ فقہ وحدیث اور تفسیر میں ائمہ اسلام کے وضع کردہ اصول اور قاعدے ہیں❝ (سابقہ مصدر)

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت محض دس احکامات پر مشتمل ہے جس میں ائمہ اسلام نے لاکھوں احکامات گھسیڑ کر رائی کا پہاڑ بنا دیا جبکہ ان کا حضرت جبریل علیہ السلام سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں تھا، اس صورتِ حال کے پشِ نظر شریعت بھی دراصل انسانی ہاتھ کی وضع کردہ ہی بنتی ہے، اور آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کا بنایا ہوا قانون ہی کامل ہے اور صرف وہی لوگوں کے مسائل حل کرنے پر قادر ہے کیونکہ یہ قوانین لوگوں کے جدید مسائل کو پیشِ نظر رکھ کر ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون ساز اداروں میں بنائے جاتے ہیں یوں تمام لوگ اس قانون سازی میں حصہ دار ہوتے ہیں۔

اسلام پسندوں کا فرمان ہے کہ شریعت کے اطلاق کے لیے تگ ودو ایک ایسے آسمانی قانون کے لیے ہے جس کا موازنہ ان قوانین سے کیا ہی نہیں جاسکتا جو آئین ساز اسمبلیوں میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ آسمانی قانون کو وضع کرنے والا مخلوق کا خالق ہے لہذا وہ مخلوق سے بہتر ان کی مصلحت جانتا ہے، اس لیے شریعت کا اطلاق معاشرے کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ ہے چاہے یہ مسائل اقتصادی ہوں، علمی ہوں یا معاشرتی، اس سے لوگوں میں انصاف قائم کیا جاسکے گا جس سے امن قائم ہوگا اور معاشرہ ترقی کرے گا اور ہم خالق کی مدد سے تمام اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، اسے ثابت کرنے کے لیے وہ دورِ نبوت اور راشدین کی مثال دیتے ہیں جب ننگ دھڑنگ جاہل بدو لوگ قدیم دنیا کے سردار بن گئے اور اسلامی خلافت قائم ہوئی۔

بات اگر یہی ہے تو خلافت کی یہ سلطنت ساقط ہوکر ظلم وپسماندگی کی تاریخ بن کر کیوں رہ گئی؟ اور اگر ان کی بات درست ہے تو اس زمانے میں ہمیں شریعت کے اطلاق میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شریعت کی سزائیں ساری کی ساری جسمانی ہیں جیسے گردن مارنا، ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا وغیرہ اور قید کا تو تصور ہی نہیں ہے، جبکہ شکست خورداؤں کی عورتوں کی عزت اتارنا بھی پایا جاتا ہے، تو کیا اقوامِ متحدہ کی دنیا اور جینوا کے معاہدے یہ بربریت کرنے دیں گے؟ اور اگر کسی اسلامی ملک میں شریعت نافذ کر بھی دی جائے تو کیا دوسرے اسلامی ممالک میں اس کا اطلاق لازمی ہوگا یا نہیں یہ فرض کرتے ہوئے کہ اسلام یہی چاہتا ہے؟ اگر دوسرے اسلامی ممالک انکار کردیں تو کیا موقف اختیار کیا جانا چاہیے؟

سادہ لوح لوگوں میں یہ تصور رائج کرنا کہ شریعت کا اطلاق فوری اور جادوئی طریقہ سے کام کرے گا اور چشمِ زدن میں امن وآشتی چھا جائے گی ایک فریب ہے، کیونکہ خلافتِ راشدہ کے دور میں شریعت کا معاشرہ خود خلفائے راشدین کو امن فراہم نہ کر سکا، نا ہی شریعت وہ شرمناک قتل عام روک سکی جو اس دور میں مسلمانوں کے بیچ اٹھ کھڑے ہوئے تھے، حتی کہ شریعت کے بانی کے آل بیت کو بھی چن چن کر مارا گیا اور ان کے نواسوں کو قتل کیا گیا اور جلیل القدر صحابہ اور تابعین کا خون بہایا گیا۔

اور اگر ہم خلافتِ راشدہ کی تاریخ پر ایک سرسری سی ہی نظر ڈال لیں تو ہم آسانی سے کالے دھاگے میں سے سفید ڈھاگے کو پہچان لیں گے، ابن جریر الطبری اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت عبد الرحمن بن عوف کے پاس آئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اے امیر المؤمنین اس وقت کیسے آنا ہوا؟ تو حضرت عمر نے جواب دیا کہ بازار میں تاجروں کا ایک گروہ آیا ہے اور مجھے مدینہ کے چوروں سے ان کی فکر ہے چلو ان کی چوکیداری کرتے ہیں اور پھر وہ نکل پڑے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرماتے ہی رسول اللہ کے شہر میں چوری چکاری عام ہوگئی تھی اور شریعت چوروں کو روکنے میں ناکام ہوگئی تھی جو تاجروں کو لوٹ لیتے تھے، روایت میں حضرت عمر نے ترکیب ❞سراق المدینہ❝ کا استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں جب ام المؤمنین حضرت عائشہ کے ساتھ ان کا اختلاف ہوا جو مسلمانوں کو خلیفہ کو قتل کرنے پر یہ کہہ کر اکساتی رہتی تھیں کہ ❞اقتلوا نعثلاً فقد کفر❝ یعنی اس نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے، طبری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے کوفہ کے کچھ لوگ جنہوں نے حضرت ام المؤمنین عائشہ کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی کہا کہ: ❞عراق کے مرتدوں اور فاسقوں کو صرف عائشہ کا گھر ہی ملتا ہے❝ (دیکھیے طبری جلد 4 صفحہ 477 اور الامامہ والسیاسیہ جلد 8 صفحہ 66) جس کا مطلب ہے کہ شریعت کا اطلاق لوگوں کو نا تو اسلام سے مرتد ہونے سے روک سکا اور نا ہی فسق وفجور سے اور نا ہی دورِ خلافتِ راشدہ اور ام المؤمنین کی صحبت انہیں اس سے باز رکھ سکی۔

شیخ قرضاوی اپنی کتاب ملامح المجتمع المسلم کے صفحہ 184 میں فرماتے ہیں کہ: ❞عمر بن عبد العزیز یکمشت شریعت لاگو کرنے سے اس لیے ڈر گئے کہ کہیں لوگ اسلام نہ چھوڑ دیں❝ قرضاوی صاحب کے اس قولِ شریف سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عمر بن عبد العزیز کے دور تک شریعت معطل ہوچکی تھی اور مسلمان اسے بھول چکے تھے بلکہ انہیں اس کی خبر ہی نہیں رہی تھی کیونکہ اگر شریعت ان پر لاگو کی جاتی تو وہ اس سے بھاگتے ہوئے اسلام ہی چھوڑ دیتے؟! حالانکہ اسلام ابھی تازہ تھا اور ایک ❞طاقتور اسلامی خلافت❝ بھی موجود تھی!۔

تاہم قرضاوی صاحب حسبِ ضرورت اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے ایک کتاب میں کوئی بات کہتے ہیں تو دوسری میں اس کا بالکل متضاد بیان دے رہے ہوتے ہیں، اپنی کتاب الشریعہ الاسلامیہ صفحہ 151 میں فرماتے ہیں کہ ❞ملکِ اسلام میں شریعت تیرہ صدیوں تک قائم رہی حتی کہ استعمار نے آکر اسے سول قوانین سے بدل دیا!!❝۔

خلافتِ راشدہ کے دور کی شریعت کی کچھ جھلک کا اوپر ذکر ہو ہی چکا ہے مگر دورِ نبوت کا کیا؟ ❞ابو حاتم اور ابن مردویہ نے ابی الاسود سے روایت کیا کہا: دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے تو نبی کریم نے ثبوت فراہم کرنے والے کے حق میں، ثبوت فراہم نا کرنے والے کے برخلاف فیصلہ سنادیا، جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا: ہمیں عمر بن الخطاب کے پاس چلنا چاہیے، تو ہم ان کے پاس پہنچ گئے، اس شخص نے کہا: رسول اللہ نے اس پر میرے حق میں فیصلہ دیا ہے تو اس نے کہا ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، تو عمر نے کہا: کیا ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو عمر نے کہا: اپنی جگہ پر رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں، تو عمر اپنی تلوار لے کر ان کے پاس آئے اور اس شخص کو قتل کردیا جس نے کہا تھا کہ ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، اور دوسرا بھاگ گیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول عمر نے میرے ساتھی کو قتل کردیا، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا تھا کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرات کرے گا، تو اللہ نے نازل فرمایا: فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم) [تا آخر] آیت۔ (تفسیر ابن کثیر میں دیکھیے سورہ النساء کی آیت نمبر 65 کی تفسیر)❝

یہاں ہمارے پاس دو صحابی ہیں جو دوست بھی ہیں اور مؤمن مسلمان بھی، ان کا آپس میں کسی معاملہ پر اختلاف ہوگیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لیے پہنچ گئے، جس کے خلاف فیصلہ ہوا اسے لگا کہ اسے اس کا حق نہیں ملا لہذا اس نے حضرت عمر کے ہاں اپنا مقدمہ رکھا جسے یہ بات پسند نہیں آئی اور اس نے اس شخص کو قتل کردیا، وہ اس کے پاس شکایت لے کر آیا مگر اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے، ہمیں اپنے ملک کی پولیس پر سخت غصہ آئے گا اگر کوئی تھانہ میں اپنی رپورٹ درج کرانے جائے اور تھانیدار اسے ہی پکڑ کر جیل میں ڈال دے، کیا اس سب کے با وجود یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ شریعت کا اطلاق امن وانصاف کا ضامن ہے؟

3 Comments

  1. سمجھنے والوں کے لئے تو اس تحریر میں بے شمار اسباق موجود ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو دین آنکھوں پر پٹی باندھ کر پڑھایا جاتا ہے اور یہ پٹی کھولنے والا کافر قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ قرآن پر تو بحث رہنے ہی دیں، باقی تمام تر احادیث کی کتابیں انسانی ہاتھ کا کمال تھیں جو نبیؑﷺ کی وفات سے ڈھائی سو سال بعد لکھی گئیں اور فقہہ کی تشریحیں چار سو سال بعد تک ہوتی رہیں۔ جس کی جو سمجھ میں آیا اس نے اس دور کے علاقائی رواج اور سمجھ بوجھ کے مطابق اسے اسلامی قانون بنا دیا۔ آگے آنے والوں نے انہیں امام جانا اور ان کی اطباء شروع کر دی اور اس کے بعد صدیوں پر محیط اندھی تقلید کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

  2. بلکل ٹھیک کہا آپ نے. حقیقت بھی یہ ہی ہے. جب تک ہم حقیقت کی عینک نہیں پہنتے ہم اسی طرح اندھیرے میں ہی رہیں گے. خود تو جہالت میں ہیں ہی دوسروں کو بھی جہالت میں دھکیلنے کا صدقہ جاریہ کرتے رہیں گے…

جواب دیں

3 Comments
scroll to top