Close

عدم سے تخلیق – بغیر خدا کے

بیشتر کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی شئے لا شئے سے نہیں آسکتی، تاہم زیادہ تر طبیعات دان اس سے اتفاق نہیں کرتے، اس دعوے کے خلاف وہ بسا اوقات "کوانٹم ویکیوم فلکچویشن” یا "ورچوئل پارٹیکلز” کا حوالہ دیتے ہیں، یہ پارٹیکل اور ضد پارٹیکل کے جوڑے ہیں جو از حد مختصر وقت کے لیے ہائزنبرگ کے اصولِ غیر یقینی کے تعلق سے خالی خلاء میں وجود میں آتے ہیں (اقتباس 1 اور 2)، یہ قابلِ قیاس اثرات چھوڑتے ہیں جیسے لیمب شفٹ اور کیزیمر اثر (اقتباس 3 اور 4)، یہ پارٹیکل بے قاعدہ نہیں ہیں بلکہ اس قدر عمومی ہیں کہ کچھ طبیعات دان یہ استدلال پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہم خالی خلاء کو لا شئے سمجھیں تو کوئی بھی چیز لا شئے نہیں ہوسکتی کیونکہ خلاء کبھی بھی خالی نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ ورچوئل پارٹیکلوں سے بھرا رہتا ہے (اقتباس 5)، مختصراً، اگر ہم زیادہ تر لوگوں کی اس سوچ کا اتباع کریں کہ خالی خلاء لا شئے ہے تو ہمارے پاس کم سے کم ایک ایسی قوی مثال موجود ہے جس میں کوئی شئے لا شئے سے برآمد ہوسکتی ہے.

کیا کائنات لا شئے سے وجود میں آسکتی ہے؟

ورچوئل پارٹیکل مختصر زندگی جینے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ کائنات میں بڑھتی توانائی کی نمائندگی کرتے ہیں، ہائیزن برگ کے اصولِ غیر یقینی میں مختصر زندگی کے حامل ان ورچوئل پارٹیکلوں کے لیے گنجائش موجود ہے، مگر طویل زندگی کے حامل پارٹیکلوں کا ظہور جیسا کہ ہماری کائنات میں ہے حر حرکیات کے پہلے قانون کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر صورتِ حال یہی ہے تو پھر کوانٹم ویکیوم فلکچویشن کا ہماری کائنات کے ماخذ سے کوئی تعلق نہیں بنتا، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعض طبیعات دان کم سے کم بھی ٹرائن (1973) تک پہنچ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کائنات ایک بہت بڑی کوانٹم ویکیوم فلکچویشن ہو (اقتباس 6). اسے ممکن بنانے والی کائنات کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس کی مجموعی توانائی صفر ہو، یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کائنات کی مجموعی توانائی صفر ہو؟، جواب یہ ہے کہ تجاذبی توانائی منفی ہوتی ہے، جب اسے کائنات میں مادے کی مثبت توانائی کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے تو دونوں کمیتیں ایک دوسرے کو منسوخ کردیتی ہیں (اقتباس 7 اور 8)، نا ہی ہائیزن برگ کا اصولِ غیر یقینی اور نا ہی حر حرکیات کا پہلا قانون مجموعی صفر توانائی کے حامل کوانٹم ویکیوم فلکچویشن کے طولِ وقت کے جاری رہنے پر کوئی حد لگاتے نظر نہیں آتے، چنانچہ ہماری کائنات کی قدامت اس امکان کو رد نہیں کرتی کہ اس کی اصل کوانٹم ویکیوم فلکچویشن ہے (اقتباس 9)، تجویز یہ نہیں ہے کہ ساری کائنات ایک ہی جھٹکے میں برآمد ہوگئی، بلکہ یہ ہے کہ کوانٹم ویکیوم فلکچویشن نے زمان ومکان کے مقامی پھلاؤ کے لیے بیج کا کام سر انجام دیا جس کے ذیلی اثر کے طور پر مادہ خودکار طور پر وجود میں آگیا (اقتباس 10 اور 11).

اس طرح کی تجاویز میں کوانٹم ویکیوم فلکچویشن خالی زمان ومکان میں ہوتی ہے، دیگر تجاویز میں، خاص طور سے جو ایلکس ویلنکائن کی پیش کردہ ہے اس میں پہلے سے موجود زمان ومکان کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے اور ویکیوم فلکچویشن کی بجائے صرف کوانٹم ٹنلنگ پر انحصار کیا گیا ہے (اقتباس 12).

کیا طبیعات دانوں کی "لا شئے” واقعی لا شئے ہے؟

اب وقت ہے اوپر کی ساری باتوں پر اعتراضات اٹھانے کا، اعتراض یہ ہے کہ جب طبیعات دان "لا شئے” کی بات کرتے ہیں تو کیا وہ واقعی ایک ایسی حالت کی بات کر رہے ہوتے ہیں جس میں لفظی مفہوم میں کوئی بھی چیز موجود نہیں ہوتی؟ بات کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنے کے لیے میں کسی بھی چیز کی عدم موجودگی کو "لا شیئیت” قرار دے دیتا ہوں، چنانچہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ طبیعات دانوں کی "لا شئے” در حقیقت "لا شیئیت” نہیں ہے، پہلی نظر میں اقتباس 5 اس طرف اشارہ بھی کرتا نظر آتا ہے، تاہم میرے خیال سے یہ غلط فہمی یا Misreading ہے.. موریس صرف اتنا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خلاء کبھی بھی مکمل طور پر خالی نہیں ہوتا، مگر ہم یہاں کسی تاویلی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے، کیونکہ یہ سچ ہے کہ ٹرائن-ٹائپ ماڈلوں میں کائنات پیدا کرنے والی کوانٹم ویکیوم فلکچویشن پہلے سے موجود زمان ومکان میں ہو رہی ہوتی ہے.

اب کوئی اس چیلنچ کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال سے یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں:

(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ لا شئے سے کوئی شئے آسکتی ہے اس بات پر لوگ اس لیے یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے ارد گرد چیزوں کو خالی خلاء میں سے ظہور پذیر ہوتا نہیں دیکھتے، وہ خالی خلاء کو لا شیئیت قرار دیتے یا سمجھتے ہیں تاہم جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ علمی طور پر پارٹیکل ایسا کرتے ہیں اور کائناتیں خالی خلاء سے ظہور پذیر ہوسکتی ہیں تب زیادہ تر لوگوں کی ما بعد الطبیعاتی فکر کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے چنانچہ (اسے بچانے کے لیے) وہ یہ اعتراض اٹھا دیتے ہیں کہ خالی زمان ومکان کس چیز سے آیا؟.

(2) دوم یہ کہ چاہے ہم زمان ومکان کو بھی کسی "شئے” کے طور پر شمار کر لیں تب بھی اس سے ویلنکائن-ٹائپ کی تجاویز پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس نقطہ پر آکر (جب بھاگنے کا اور کوئی راستہ نہیں ملتا) یہ اعتراض اٹھا دیا جاتا ہے کہ ویلنکائن کی تجویز کو کوانٹم میکانکس درکار ہے اور یہ کہ کوانٹم میکانکس کے قوانین کوئی "شئے” ہیں..!؟ دو وجوہات کی بنا پر یہ ایک عجیب وغریب اعتراض ہے: (1) معلوم ہوتا ہے کہ معترض طبعی قوانین کو مجسم کرنے کے درپے ہے جوکہ کوئی شئے نہیں ہیں بلکہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں ان کی تفصیل ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی اس حقیقت کو کہ کائناتیں کوانٹم میکانکس کے بیان کردہ انداز میں وقتاً فوقتاً وجود میں آسکتی ہیں، کوئی چیز کیسے قرار دے سکتا ہے؟. (2) اگر کوئی حقائق کو "چیزیں” یا "شئے” قرار دے دے تو "لا شیئیت” منطقی طور پر نا ممکن ہے، اگر کچھ بھی وجود نہیں رکھتا تو پھر یہ حقیقت ہوگی کے کچھ بھی وجود نہیں رکھے گا، یعنی کم سے کم ایک چیز (یہ حقیقت کہ کوئی چیز وجود نہیں رکھتی) تو بالآخر وجود رکھتی ہے، جوکہ نتیجے کے طور پر اصل مفروضے سے متصادم ہوگی، نتیجتاً اگر کوئی حقائق کو شئے کے طور پر شمار کرتا ہے تو کچھ حقائق لازماً حاصل ہوتے ہیں، لیکن، اگر کم سے کم ایک حقیقت بھی حاصل ہوتی ہے تو پھر وہ یہ حقیقت کیوں نہیں ہوسکتی کہ کوانٹم میکانکس لاگو ہوسکتی ہے؟

آخری بات

یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے اور نا ہی یہ دعوی ہے کہ تمام تر کونیات اور فلسفے کا نچوڑ پیش کردیا گیا ہے، صرف یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مقبول علمی اور تکنیکی فہم میں "الحادی کائنات” کا عدم سے ظہور پذیر ہونا عین ممکن ہے، چاہے زیادہ تر مومنین کو یہ حقیقت ناگوار گزرے مگر سچ یہی ہے کہ جدید طبیعات نے اس پر فیصلہ کن انداز میں مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے.

* * * *

معاون اقتباسات:

اقتباس 1 – پال ڈیویئس:
روز مرہ کی دنیا میں، توانائی ہمیشہ ناقابلِ تغیر اور مستحکم ہے، توانائی کے تحفظ کا قانون کلاسیکی طبیعات کی اساس ہے، مگر کوانٹم کی چھوٹی دنیا میں توانائی لامکانی طور پر خودکار اور ناقابلِ پیشگوئی انداز میں ظاہر اور غائب ہوسکتی ہے. (پال ڈیویئس 1983: 162)

اقتباس 2 – رچرڈ موریس:
اصولِ غیر یقینی بتاتا ہے کہ پارٹیکل مختصر وقت کے لیے وجود میں آسکتے ہیں چاہے جب انہیں بنانے کے لیے کافی توانائی بھی دستیاب نہ ہو، در حقیقت یہ توانائی کے عدم تیقن سے پیدا ہوتے ہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے لیے درکار توانائی مختصر عرصے کے لیے "ادھار” لیتے ہیں اور پھر، مختصر وقت کے بعد، اپنا "قرض” اتار کر دوبارہ غائب ہوجاتے ہیں، چونکہ یہ پارٹیکل مستقل وجود نہیں رکھتے چنانچہ انہیں ورچوئل پارٹیکل کہا جاتا ہے. (موریس 1990: 24)

اقتباس 3 – پال ڈیویئس:
اگرچہ ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے، مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ ورچوئل پارٹیکل "حقیقتاً” خالی خلاء میں موجود ہیں کیونکہ وہ اپنی سرگرمیوں کے قابلِ دریافت نشان چھوڑ جاتے ہیں، مثال کے طور پر ورچوئل فوٹونوں کا ایک اثر ایٹموں کی توانائی کی سطحوں میں ہلکا سا تغیر پیدا کرنا ہے، مزید برآں یہ الیکٹرانوں کی مقناطیسی گشتاور میں برابر ہلکی تبدیلی کرتے ہیں، یہ دقیق مگر اہم تغیرات سپیکٹروسکوپک تکنیکوں سے حد درجہ درستگی کے ساتھ ناپے جاچکے ہیں. (ڈیویئس 1994: 32)

اقتباس 4 – جان بیرو اور جوزیف سلک:
توقع تھی کہ ورچوئل پارٹیکل کے جوڑوں کا ایٹموں کی توانائی کی سطحوں پر قابلِ پیمائش اثر ہوگا، متوقعہ اثر ایک اربویں حصے میں محض دقیق سی تبدیلی ہے مگر تجربہ کاروں نے اس کی تصدیق کردی ہے، 1953ء میں ولیم لیمب نے ہائیڈروجن کے ایٹم کی اس برانگیختہ حالت کو ناپا تھا، اب اسے لیمب شفٹ کہا جاتا ہے، ایٹموں پر ویکیوم کے اثرات کا متوقعہ فرقِ توانائی اتنا کم ہے کہ اسے صرف خرد موج فریکوینسیوں میں بطور تغیر کے دریافت کیا جاسکتا ہے، خرد موجوں کی یہ درست پیمائش اتنی عظیم تھی کہ لیمب یہ تغیر پانچ اہم اعداد میں ناپنے میں کامیاب رہا، اس کے اس کام کے لیے بعد میں اسے نوبل انعام سے نوازا گیا، اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ورچوئل پارٹیکل موجود ہیں. (بیرو اور سلک 1993: 65-66)

اقتباس 5 – رچرڈ موریس:
جدید طبیعات میں کوئی چیز "لا شئے” نہیں ہوتی چاہے بے عیب ویکیوم ہی کیوں نہ ہو، ورچوئل پارٹیکل کے جوڑے ہمیشہ بنتے اور تباہ ہوتے رہتے ہیں، ان پارٹیکلوں کا وجود ریاضیاتی تخیل نہیں ہے، اگرچہ ان کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا مگر جو اثر وہ چھوڑتے ہیں وہ واقعی حقیقت ہے، ان کے وجود کا مفروضہ ان پیشگوئیوں کی طرف دلالت کرتا ہے جن کی تصدیق اعلی درجے کے درست تجربات سے ہوچکی ہے. (موریس 1990: 25)

اقتباس 6 – ہائینز پیگلز:
جیسے ہی ہمارا دماغ مادے کی ناپائیداری اور ویکیوم کے نئے خیال کو قبول کرتا ہے، ہم اس سب سے بڑی چیز کے ماخذ کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جسے ہم جانتے ہیں – کائنات، ہوسکتا ہے کہ کائنات بذاتِ خود لا شئے سے وجود میں آئی ہو – ایک عظیم ویکیوم فلکچویشن جسے آج ہم بگ بینگ کے نام سے جانتے ہیں، نمایاں طور پر جدید طبیعات کے قوانین اس امکان کی اجازت دیتے ہیں. (پیگلز 1982: 247)

اقتباس 7 – سٹیفن ہاکنگ:
ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات کے خطوں میں کوئی دس ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین ملین (1 کے بعد 85 صفریں) پارٹیکل موجود ہیں، یہ سب کہاں سے آئے؟ جواب یہ ہے کہ کوانٹم نظریے میں پارٹیکل توانائی کے ذریعے پارٹیکل/ضدپارٹیکل کے جوڑوں کی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں، مگر اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ توانائی کہاں سے آئی؟ جواب یہ ہے کہ کائنات کی مجموعی توانائی بالکل صفر ہے. کائنات کا مادہ مثبت توانائی سے بنا ہے، تاہم یہ سارا مادہ اپنے آپ پر تجاذبی کشش لگاتا ہے، ایک دوسرے کے قریب مادے کے دو ٹکڑوں میں ایک دوسرے سے دور ایسے ہی مادے کے دو ٹکڑوں کے مقابلے میں کم توانائی ہوتی ہے، کیونکہ آپ کو انہیں الگ کرنے کے لیے اس تجاذبی قوت کے خلاف جو انہیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے توانائی صرف کرنی پڑے گی، اس طرح سے تجاذبی میدان منفی توانائی رکھتا ہے، کائنات کی صورت میں جو کہ مکان میں تقریباً ہموار ہے، یہ دکھایا جاسکتا ہے کہ یہ منفی تجاذبی توانائی مادے کی نمائندہ مثبت توانائی کی مکمل طور پر نفی کردیتی ہے، چنانچہ کائنات کی مجموعی توانائی صفر ہے. (ہاکنگ 1988: 129)

اقتباس 8 – پال ڈیویئس:
ابھی تک ایک حیرت انگیز امکان موجود ہے، جو کہ صفر توانائی کی حالت سے مادے کی تخلیق ہے، یہ امکان اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ توانائی دونوں طرح سے مثبت اور منفی ہوسکتی ہے. حرکت کی توانائی یا کمیت کی توانائی ہمیشہ مثبت ہوتی ہے، مگر کشش کی توانائی، جیسے کہ مخصوص قسم کے تجاذبی یا برقی مقناطیسی میدان کی توانائی منفی ہوتی ہے، ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جن میں مثبت توانائی جو کہ مادے کے نئے بنائے گئے پارٹیکلوں کی کمیت بناتی ہے، وہ برقناطیسیت کی تجاذبی منفی توانائی کے بالکل برابر ہو، مثال کے طور پر ایک ایٹمی نیوکلیئس کے قرب میں برقی میدان حد درجہ شدید ہوتا ہے، اگر 200 پروٹانوں پر مشتمل نیوکلیئس بنایا جائے (ممکن مگر مشکل) تو نظام الیکٹران-پازیٹران کے جوڑوں کی خودکار پیدا کاری کے خلاف غیر مستحکم ہوجائے گا وہ بھی مکمل طور پر کسی درآمدہ توانائی کے بغیر، اس کی وجہ یہ ہے کہ منفی برقی توانائی اپنی کمیتوں کی توانائی کے عین برابر ہوسکتی ہے.
تجاذبی حالت میں صورتِ حال ابھی تک مزید انفرادیت کی حامل ہے، تجاذبی میدان کے لیے یہ صرف ایک مکانی-خمیدگی ہے، مکانی-خمیدگی میں مقید یا مقفل توانائی کو مادے یا ضد مادے کے پارٹیکلوں میں بدلا جاسکتا ہے، ایسا مثال کے طور پر بلیک ہول کے قریب ہوتا ہے، اور غالباً بگ بینگ میں پارٹیکلوں کا ایک اہم مصدر تھا، یوں مادہ فطری طور پر خالی مکان سے پیدا ہوتا ہے، یہاں ایک سوال اٹھتا ہے، کیا وہ قدیم دھماکہ توانائی کا حامل تھا یا پوری کائنات مادے کی تمام توانائی سمیت بشمول تجاذبی کشش کی منفی توانائی کے صفر-توانائی کی حالت میں ہے؟
مسئلے کو سادہ حساب کتاب سے حل کیا جاسکتا ہے، فلکیات دان کہکشاؤں کی کمیتوں کی پیمائش کر سکتے ہیں، ان کی اوسط مفارقت اور پس روی کی رفتار، ان اعداد کو ایک مساوات میں ڈال کر ایک مقدار حاصل ہوتی ہے جسے کچھ طبیعات دان کائنات کی مجموعی توانائی کے طور پر تعریف کرتے ہیں، قابلِ مشاہدہ درستگی میں جواب صفر آتا ہے، یہ حیرت انگیز نتیجہ ایک طویل عرصہ تک کائنات دانوں کے لیے معمہ بنا رہا، کچھ نے تجویز کیا کہ کوئی گہرا کائنات اصول عمل پذیر ہے جس کے لیے کائنات کی مجموعی توانائی بالکل صفر ہونا ضروری ہے، اگر معاملات ایسے ہی ہیں تو کائنات کم مدافعت کا راستہ اپناتے ہوئے مادے یا توانائی کی کسی طرح کی ضرورت کے بغیر وجود میں آسکتی ہے. (پال ڈیویئس 1983: 31-32)

اقتباس 9 – ایڈورڈ ٹرائین:
طبیعات کے قوانین ویکیوم فلکچویشن کے پیمانہ پر کوئی حد نہیں لگاتے، تاہم دورانیے پر یقیناً حد لگائی جاسکتی ہے ΔEΔt ~ h، مگر اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ ہماری کائنات صفر توانائی رکھتی ہے، جو کہ واقعتاً قرینِ قیاس ہے. (ٹرائین 1973: 397)

اقتباس 10 – وکٹر سٹینجر:
عمومی اضافیت میں، زمان ومکان مادے اور شعاع ریزی سے خالی ہوسکتے ہیں مگر پھر بھی اس میں توانائی ہوسکتی ہے جو اس کی خمیدگی یا انحناء میں ذخیرہ ہوگی، بے علت، اتفاقی یا رینڈم کوانٹم فلکچویشن ایک ہموار، خالی، بے خواص زمان ومکان مثبت یا منفی خمیدگی کے حامل مقامی خطے وجود میں لاسکتا ہے، اسے "زمانی مکانی جھاگ” کہا جاتا ہے جبکہ خطوں کو "باطل ویکیوم کے بلبلے” کہا جاتا ہے، جہاں کہیں بھی خمیدگی مثبت ہوگی باطل ویکیوم کا بلبلہ – آئن سٹائن کی مساوات کے عین مطابق – پھولنا شروع ہوجائے گا، 10^-42 سیکنڈ میں بلبلہ ایک پروٹون کے حجم کے برابر ہوجائے گا اور اس کے اندر کی توانائی کائنات کے تمام مادے کو بنانے کے لیے کافی ہوگی.
بلبلوں کا آغاز بغیر مادے، شعاع ریزی، یا خطوطِ قوت کے میدان اور زیادہ سے زیادہ ناکارگی کے ہوگا، ان میں توانائی ان کی خمیدگی میں ہوگی، اس طرح یہ ایک "باطل ویکیوم” ہوگا، جیسے ہی یہ پھیلیں گے، ان کے اندر کی توانائی صعودی طور پر بڑھنا شروع ہوجائے گی، اس سے قانون بقائے توانائی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ باطل ویکیوم منفی دباؤ رکھتا ہے (میرا یقین کریں، یہ سب اس مساوات کی پیروی میں ہو رہا ہے جو آئن سٹائن نے 1916ء میں لکھی تھی) چنانچہ پھیلتے بلبلے اپنے آپ پر کام کریں گے.
جیسے ہی بلبلہ کائنات پھیلتی ہے، ایک طرح کی رگڑ وقع پذیر ہوتی ہے جس سے توانائی پارٹیکلوں میں بدل جاتی ہے، پھر درجہ حرارت کم ہوتا ہے اور ایک بے ساختہ تشاکل توڑنے کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے جیسے مقناطیس میں جسے درجہ کوری Curie point کے نیچے تک ٹھنڈا کردیا گیا ہو، اور پارٹیکلوں اور قوتوں کا بنیادی اتفاقی ڈھانچہ نمودار ہوتا ہے، پھلاؤ رک جاتا ہے اور ہم مزید شناسا بگ بینگ کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں.
نمودار ہونے والی قوتیں اور پارٹیکل زیادہ یا کم اتفاقی (رینڈم) ہوتے ہیں، اور صرف تشاکل کے اصولوں کے زیرِ انتظام ہوتے ہیں (جیسے توانائی یا مومینٹم کے تحفظ کے اصول) جو کہ کسی ڈیزائن کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ قطعی طور پر ڈیزائن کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہیں.
معلوم ہوتا ہے کہ پارٹیکل اور طبیعات کی قوتیں کاربن پر مبنی زندگی کی پیدا کاری کے لیے "ہموار” کی گئی ہیں جسے "انسانی اتفاقات” میں اس حقیقت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ زمان ومکان کی جھاگ لامتناہی ابھرتی کائناتیں رکھتی ہے جو کہ ہر ایک، ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ہوا صرف یہ ہے کہ ہم ان میں سے ایک ایسی کائنات میں موجود ہیں جہاں قوتوں اور پارٹیکلوں نے اپنے آپ کو کاربن اور دیگر ایٹموں سمیت اس ضروری پیچیدگی کی تولید کے قابل بنا لیا جو زندہ اور سوچنے کی صلاحیت رکھنے والے جانداروں کی نشو نما کے لیے ضروری ہے. (سٹینجر 1996)

اقتباس 11 – ولیم کاؤفمین:
کائنات میں سارا مادہ اور شعاع ریزی پہلی بار کہاں سے آئی؟ طبیعات دانوں کی حالیہ دلچسب نظریاتی تحقیق جیسے ہارورڈ کے سٹیون وائن برگ اور ماسکو کے یا بی زیلڈووچ تجویز کرتی ہے کہ کائنات ایک پرفیکٹ ویکیوم کے طور پر شروع ہوئی اور یہ کہ مادی دنیا کے تمام پارٹیکل خلاء کے پھیلاؤ سے بنے…
بگ بینگ کے فوراً بعد کی کائنات پر غور کریں، خلاء دھماکے دار قوت سے شدت سے پھیل رہی ہے، ابھی تک جیسا کہ ہم نے دیکھا، تمام خلاء ورچوئل اور اینٹی ورچوئل پارٹیکلوں سے ابل رہی ہے، عام طور پر پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل کو وقت کے وقفے میں ایک ساتھ پیچھے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا… اتنا مختصر وقفہ کہ قانون بقائے مادہ کی اصولِ غیر یقینی سے تشفی ہوجاتی ہے، بگ بینگ کے دوران خلاء اس طرح تیزی سے پھیل رہا تھا کہ پارٹیکل تیزی سے اپنے متعلقہ اینٹی پارٹیکل سے دور کھینچے جارہے تھے، اس طرح وہ دوبارہ یکجائی کے موقع سے محروم ہوگئے، یہ ورچوئل پارٹیکل حقیقی دنیا کے حقیقی پارٹیکل بن گئے، تاہم اس مادہ سازی کے لیے توانائی کہاں سے آئی؟
یاد کریں کہ بگ بینگ بلیک ہول کے مرکز کی طرح تھا، چونکہ تجاذبی توانائی کی وسیع فراہمی اس کائناتی اکائی کے شدید تجاذب سے مشروط تھی، اس مصدر نے اتنی کافی توانائی فراہم کی کہ کائنات کو مکمل طور پر ان تمام قابلِ فہم پارٹیکلوں اور اینٹی پارٹیکلوں سے بھر دیا، چنانچہ پلانک وقت کے فوراً بعد، کائنات میں پارٹیکلوں اور اینٹی پارٹیکلوں کا سیلاب آگیا تھا جو خلاء کے شدید پھیلاؤ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے. کاؤفمین (1985: 529-532)

اقتباس 12 – مارٹن بوجووالڈ:
ویلنکن کی سرنگ حالت کوانٹم میکانکس کے ایک اور اثر پر انحصار کرتی ہے، ایک بار پھر ویو فنکشن کی خصوصیات کا نتیجہ، ویو فنکشن بسا اوقات اپنی دموں کے ساتھ رکاوٹوں کو چھید سکتا ہے، حتی کہ اگر وہ مطابق کلاسیکی پارٹیکل سے کہیں بلند ہوں… ویلنکن نے 1983 میں تجویز کیا کہ ہوسکتا ہے کائنات بذاتِ خود ایسے ہی کسی سرنگ عمل کاری سے ظہور پذیر ہوئی ہو، ہماری کائنات ایک راہنما ویو فنکشن کی دم ہوسکتی ہے جو کہ بگ بینگ اور اس کی اکائی کی رکاوٹوں کو چھید گئی ہو، مگر کائنات کی سرنگ اور اتنی مقدار میں ویو فنکشن کہاں سے آیا، سرنگ عمل کاری سے پہلے ہماری کائنات کی سرنگ کہاں سے آئی، ویلنکن کا واضح جواب ہے، پہلی بار لا شئے سے…
کوئی لا شئے سے سرنگ کاری کو مادی فہم میں لفظی معنوں میں لے سکتا ہے، اس سے قطع نظر ویلنکن کا مفروضہ کائنات کے ویو فنکشن کے اعتبار سے معقول ہے، اور یقینی اولین قدروں اور معدوم حُجم سمیت سرنگ حالت کا عطا کردہ ہے. (بوجووالڈ 2010: 222)

4 Comments

جواب دیں

4 Comments
scroll to top