Close

قرآن اور اسرائیلیات

یہودیات سے قرآن کا اقتباس نئی-پرانی بحث ہے جو انیسویں صدی سے آج تک زیرِ بحث قضیہ ہے (1) درحقیقت یہ ” شک ” اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود قرآن پرانا ہے جس کی تصدیق وہ خود کرتا نظر آتا ہے:

(حتّى إذا جاؤوك يجادلونك يقول الذين كفروا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين) (سورہ الانعام، آیت 25)
(یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں)

(وإذا تتلى عليهم آياتنا قالوا قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين) (سورہ الانفال، آیت 31)
(اور جب انکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ تو کہتے ہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا کلام ہم بھی کہدیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں)

وغیرہ کہ آیات بہت ہیں، ان مجادلین یعنی بحث کرنے والوں کی ” اساطیر الاولین ” سے مراد شاید ” پچھلے لوگوں کی خرافات ” یا پھر پچھلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں، ایسی کہانیاں جو ان کے لیے نئی نہیں ہیں، وہ ایسی کہانیاں پہلے بھی سنتے رہے ہیں اور اس حوالے سے قرآن ان کے لیے کوئی نیا نہیں ہے یا کوئی نئی ” چیز ” نہیں لایا ہے.

کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں سابقہ مقدس کتابوں کی باتوں کا وارد ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ مصدر اور خدائی پیغام ایک ہی ہے، چونکہ قرآن، تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ اس میں انہی قصوں کا بیان ہونا حتی کہ بعض قصوں کی تصحیح کرنا سمجھ میں آتا ہے، اب جو بات قرآن سے موافق ہو وہ حق اور جو موافق نہ ہو وہ تبدیل شدہ، تاہم یہ بظاہر منطقی سی بات درست معلوم نہیں ہوتی.

توراتی اسرائیلیات

قرآن نے بہت سارے توراتی قصے نقل کیے جیسے زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق، تخلیقِ آدم (علیہ السلام)، اور کچھ قوانین وغیرہ، تاہم یہ قصے تورات نے آس پاس کی تہذیبوں سے چوری کیے تھے، سہیل قاشا کہتے ہیں: (کئی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عہد نامہ قدیم کے اسفار میں جو قصے کہانیاں اور قوانین وارد ہوئے ہیں در حقیقت ان کا اصل سومری، بابلی اور آشوری تحریروں سے ہے، یہودیوں نے ان میں سے جو انہیں اچھا لگا اسے اپنے ہاں نقل کر لیا اور جو انہیں اچھا نہ لگا اسے حذف کردیا)(2) چونکہ تورات کی تدوین پانچویں اور آٹھویں صدی قبل از عیسوی میں ہوئی چنانچہ اس میں آشوری کہانیوں کا ہونا تعجب کی بات نہیں جیسے کہ نبی موسی (علیہ السلام) کا قصہ جسے اس کی ماں نے پانی میں بہا دیا اور وہ پانی میں بہتا ہوا ایسے لوگوں کے ہاتھ لگا جنہوں نے اسے پالا اور پھر وہ لیڈر بنا، تاہم یہ کہانی دراصل شاہ سرجون الاکادی کی ہے جس نے 2279 اور 2334 قبل از عیسوی حکومت کی.

اسی طرح تورات میں بابلی قوانین بھی ملتے ہیں جیسے حمورابی کے قوانین جو 1750 قبل از عیسوی میں لکھے گئے تھے اور جو آج پیرس کے لوور میوزیم میں موجود ہیں، مثال کے طور پر کوڈ 196 میں درج ہے: (اگر کوئی سید اشراف کے کسی بیٹے کی آنکھ پھوڑ دے تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اس کی آنکھ پھوڑ دیں) اسی طرح کوڈ 200 میں درج ہے: (اگر کوئی سید اپنے طبقے کے کسی سید کا دانت توڑ دے تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اس کا دانت توڑ دیں) (3) یہی بات سفر تثنیت 19 اور 20 میں ملتی ہے: (نفس کے بدلے نفس، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت)، اور یہی بات قرآن میں بھی منتقل ہوئی:

(وكتبنا عليهم فيها أنّ النفس بالنفس والعين بالعين والأنف بالأنف والأذن بالأذن والسنّ بالسنّ) (سورہ مائدہ، آیت 45)
(اور ہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت)

اسی آیت میں قرآن آگے چل کر کہتا ہے:

(ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون)
(اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بے انصاف ہیں)

اب کیا یہ احکام اللہ کے اتارے ہوئے ہیں یا حمورابی کے لکھے ہوئے ہیں؟ شاید قرآن کے مصنف کو یقین تھا کہ یہ قوانین اللہ کے اتارے ہوئے ہیں اسی لیے اس نے انہیں قرآن میں جوں کا توں نقل کیا لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ تورات نے دراصل یہ قوانین بابلی تہذیب سے چرائے تھے اور یہ کہ آگے چل کر حمورابی کے آثار کی دریافت ساری کہانی واضح کردے گی.

اسی طرح کوئی حیرت نہیں ہوتی جب حضرت موسی (علیہ السلام) کے وجود اور ان کے کرشموں پر ایک بھی آرکیالوجیکل (Archaeology) ثبوت نہیں ملتا، مصر کے کسی بھی مؤرخ نے فرعون اور اس کی فوج کے ڈوبنے کے اس اندوہناک واقعے کا تذکرہ نہیں کیا، اگرچہ کچھ لاہوتی یہ بہانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مصر کے مؤرخین کے قومی شعور نے انہیں یہ واقعہ درج کرنے سے روکے رکھا، لیکن معترضین کہتے ہیں کہ چلو آپ کی یہ بات بجا لیکن آس پاس کی تہذیبوں کے مؤرخین کا کیا؟ انہوں نے یہ واقعہ درج کیوں نہیں کیا؟ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے بارے میں نہ سنا ہو؟ حتی کہ ہیروڈوٹس Herodotus جنہیں مصر کی تاریخ پر عبور تھا، اور انہوں نے مصر کے بہت سارے واقعات نقل بھی کیے، اس واقعے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا (4) مزید برآں جدید آرکیالوجی کو اس توراتی-انجیلی-قرآنی قصے کا ایک بھی ثبوت نہ مل سکا (5)، اسی طرح فرعون کا بنی اسرائیل کو غلام بنانے کا تعلق افسانوی خیال سے تو ہوسکتا ہے تاریخی حقائق سے نہیں، کیونکہ مصر میں غلامی نہیں تھی (6)، ایسے ہی تورات کے مصنفین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ گھڑ کر اپنے حسب ونسب کو برتر واعلی ثابت کرنے کے لیے خیالی گھوڑے خوب دوڑائے اور ان کے لیے جن وانس کی فوجیں بنا ڈالیں حالانکہ آس پاس کی تہذیبوں کے مؤرخین کے ہاں اس شخصیت کا ایک بھی یتیم تذکرہ موجود نہیں ہے جو کہ حیرت انگیز بات ہے.

زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہودیوں نے ان شخصیات کو بابلی تہذیب سے چرا کر قومی ہیرو بنانے کی کوشش کی، خاص طور سے موسی (علیہ السلام) جنہوں نے ” یہوہ ” کی مدد سے مصری مملکت کو چیلنج کیا اور بنی اسرائیل کو مقدس زمین کی طرف نکال لینے میں کامیاب ہوگئے، حالانکہ کنعان کی زمین مصری سلطنت کے زیرِ سایہ ہی تھی یعنی صرف اتنا کافی نہیں کہ موسی (علیہ السلام) نے فرعون کو شکست دی جو احمقوں کی طرح ان کے پیچھے اپنی فوج کے ساتھ ہولیا بلکہ فرعون کی موت کے بعد یہودیوں نے فلسطین میں کنعان کی زمینوں پر قبضہ بھی کر لیا جو فرعونوں کے زیرِ تسلط تھی، اور اپنے آپ کو خدا کی چنیدہ قوم قرار دیا جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:

(يا بني إسرائيل أذكروا نعمتي التي أنعمت عليكم وأنّي فضّلتكم على العالمين) (سورہ بقرہ، آیت 122)
(اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی)

یعنی خدا ایک قوم کو دوسری قوم پر فضیلت دیتا ہے حالانکہ وہ ان سب کا خالق ہے، مگر کیوں؟ تو یہ اس کی حکمت ہے، یہ اور اس طرح کی کئی دیگر مثالیں ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں جیسے زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق جس پر معروف الرصافی تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: (حقیقت یہ ہے کہ زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق تورات کی خرافات میں سے ہے، اب چونکہ تورات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاں خدا کی کتابوں میں سے ایک مقدس کتاب ہے چنانچہ انہوں نے اسے لے کر قرآن میں اس کا تذکرہ کردیا) (7).

تلمودی اور مدراشی اسرائیلیات

قرآن نے افسانوں اور خرافات سے بھرے عہدنامہ قدیم وجدید کی ہی تصدیق نہیں کی، بلکہ تلمود اور مدراش کی بھی تصدیق کی جو خرافات کی سب سے بڑی فیکٹریاں ہیں، لفظ تلمود ” لمد ” سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں علم حاصل کرنا، جاننا، پڑھنا، یا عربی میں، تعلم، عرف، درس، چنانچہ تلمود کے معنی پڑھنے کے ہیں جو کہ عربی کے لفظ ” تلمیذ ” (طالب علم یا سٹوڈنٹ) کے قریب ہے، تلمود مشنات اور جمارا پر مشتمل ہے، مشنات کے بارے میں یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حضرت موسی (علیہ السلام) کی زبانی منقول شریعت ہے جو چھ حصوں یا مباحثوں پر مشتمل ہے، لفظ مشنات یا مشناہ ” شنہ ” سے مشتق ہے جس کا عربی میں مطلب ” ثنّى ” یعنی راجع اور اعاد بنتا ہے جس سے قرآن میں مذکور لفظ ” المثانی ” یاد آتا ہے، جو اگر تلمود میں چھ ہیں تو قرآن میں سات ہیں (آتیناک سبعاً من المثانی)، رہا جمارا تو وہ مشنات پر بحث پر مشتمل ہے، تلمود دو طرح کے ہیں، ایک بابلی اور ایک ارشمیلی (8) تلمود کی تدوین کی تکمیل چھٹی صدی عیسوی میں ہوئی (9) رہا مدراش تو اس کی حیثیت اسلام کی کتب تفاسیر کی سی ہے، یعنی اسے یہودی ” مولویوں ” نے تورات کی وضاحت اور تاویل کے لیے لکھا، لفظ ” مدراش ” کا مطلب بھی پڑھنا، تلاش اور تاویل ہے جس کی اصل ” درش ” ہے اور یہ عربی لفظ ” درس ” سے قریب ہے، مدراش کی تحریریں دوسری اور تیسری صدی عیسوی تک پھیلی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بعض تحریروں کی درست ترین تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے جو اسلام سے پہلے یا بعد میں لکھی گئیں تھیں، قرآن میں انبیاء کے بیشتر قصے تلمود اور مدراش سے لیے گئے ہیں ما سوائے عاد اور ثمود (علیہما السلام) کے قصے کیونکہ یہ خالصتاً عربی قصے ہیں جو یہودیوں کے ہاں مذکور نہیں.

اعتراضاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں جن قصوں کا تذکرہ ہوا ہے وہ درست ہیں اور اس سے پہلے والی کتابوں میں ان قصوں کا تذکرہ ان کی نفی نہیں کرتا کیونکہ یہ راز نہیں ہیں، یہاں میں ایک مثال دینا چاہوں گا، چلیے تفسیر الزمخشری کھولتے ہیں اور مثال کے طور پر سورہ النمل کی آیت نمبر 18 پر ان کی تفسیر دیکھتے ہیں جس میں نبی سلیمان (علیہ السلام) چیونٹیوں کی وادی سے گزرتے ہیں، آیت کہتی ہے:

(حتّى إذا أتوا على وادي النمل قالت نملة يا أيّها النمل ادخلوا مساكنكم لا يحطمنّكم سليمان وجنوده وهم لا يشعرون) (سورہ النمل، آیت 18)
(یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ چیونٹیو اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اسکے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انکو خبر بھی نہ ہو)

زمخشری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(قيل كانت تمشي [أي النملة] وهي عرجاء تتكاوس، فنادت: يا أيّها النمل، الآية، فسمع سليمان كلامها من ثلاثة أميال. وقيل كان اسمها طاخية) (10)
(کہا جاتا ہے کہ وہ [یعنی چیونٹی] لنگڑا کر چلتی تھی، تو اس نے آواز لگائی: اے چیونٹیوں، آیت، سلیمان نے اس کی بات تین میل کی دوری سے سن لی، اور کہا جاتا ہے کہ اس کا نام طاخیہ تھا)

اور اب تفسیر ابنِ کثیر کھولتے ہیں اور اسی آیت کی تفسیر اس میں دیکھتے ہیں:

(عن قتادة، عن الحسن، أنّ اسم هذه النملة حرس، وأنّها من قبيلة يقال لهم بنو الشيصان، وأنّها كانت عرجاء، وكانت بقدر الذئب) (11)
(قتادہ نے حسن سے روایت کیا، کہ اس چیونٹی کا نام حرس تھا اور اس کا تعلق بنو الشیصان نامی قبیلے سے تھا، اور یہ کہ وہ لنگڑی تھی اور بھیڑیے کے برابر تھی)

ایک ہی آیت پر دونوں تفسیروں کا تضاد تو واضح ہے ہی، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ چیونٹی کا نہ صرف نام ہے بلکہ قبیلہ بھی ہے اور وہ بھیڑیے کے برابر ہے، اوپر سے وہ بولتی بھی ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کی فصیح وبلیغ زبان دانی سن کر مسکراتے بھی ہیں، اب فرض کرتے ہیں کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارے اس زمانے میں کسی شخص نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ تورات، انجیل اور قرآن کی تصدیق کرتا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہوئے ہمیں ایک آیت سناتے ہوئے کہتا ہے کہ:

(واذ قالت طاخیہ لقومہا من بنی شیصان یا ایہا النمل ادخلوا… تا آخر)
(اور جب طاخیہ نے بنی شیصان میں سے اپنی قوم سے کہا کہ اے چیونٹیوں داخل…)

کیا ہم اسے جھٹلاتے ہوئے یہ نہیں کہیں گے کہ یہ انسانوں کی لکھی کہانیاں ہیں جو غلطیاں کرتے ہیں؟ کیا ہم اسے وہ مصدر نہیں دکھائیں گے جہاں سے یہ کلام نقل کیا گیا تاکہ اس پر واضح کر سکیں کہ یہ وحی نہیں ہے بلکہ دوسرے لوگوں سے نقل کردہ کلام ہے؟

یہی کچھ ہمیں قرآنی قصوں میں ملتا ہے جو تلمود اور مدراش سے منقول ہیں جنہیں لکھنے والوں نے اپنے خیالی گھوڑے خوب دوڑائے اور عجیب وغریب افسانے گھڑے جن میں یقیناً بھیڑیے کے برابر وہ بولنی والی چیونٹی بھی شامل ہے، یہاں زمخشری اور ابنِ کثیر پر کوئی الزام نہیں کہ افسانہ ہی افسانے کو گھڑتا ہے، اور قرآن خود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس نے سابقہ کتابوں سے اقتباس کیا ہے:

(وإنّه لتنزيل ربّ العالمين، نزل به الروح الأمين، على قلبك لتكون من المنذرين، بلسان عربيّ مبين، وإنّه لفي زبر الأوّلين) (سورہ الشعراء آیت 192، 196)
(اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ اس کو امانتدار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ یعنی اسنے تمہارے دل پر اسکا القا کیا ہے تاکہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو۔ اور القا بھی فصیح و بلیغ عربی زبان میں کیا ہے۔ اور اسکی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔)

چنانچہ قرآن سابقہ کتابوں میں موجود قصوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہے، اس سلیس ترجمے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ زیادہ تر مقامات پر ترجمہ کمال کا ہے، عربی زبان کی بلاغت کو لاہوتیات میں بڑی خوبی سے استعمال کیا گیا ہے، وہ جانتے تھے کہ قرآن سابقہ لوگوں کی کتابوں سے منقول ہے ما سوائے بعض آیات کے جیسا کہ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ آسمان سے ایک فرشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اترا اور ان سے کہا: آپ کو دو نوروں کی خبر دینے آیا ہوں جو آپ کو ملے ہیں اور جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے، کتاب کا فاتحہ اور سورہ بقرہ کا آخر (12) اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کا سارا کلام اس سے پہلے کسی نہ کسی نبی کو مل چکا ہے ما سوائے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتوں کے جیسا کہ ابنِ عباس (رضی اللہ عنہ) جو حدیث کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں.

عربی اسرائیلیات

قرآن نے کچھ موجود قوانین کو جاری رکھا جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، المنمق میں آیا ہے کہ جاہلیت میں قریش چور کا ہاتھ کاٹتے تھے (13) اس طرح حج کی رسم جو کہ دراصل جاہلیت کے زمانے کی ہی ایک پرانی رسم ہے جس میں حاجی کثیر رقم ادا کر کے پتھر کے چکر لگاتا ہے، پتھر کو چومتا ہے، اور پتھر کو پتھر سے مار کر خدا سے اپنے سارے گناہ بخشوا کر واپس آجاتا ہے، اب اس مذہبی سیاحت سے کسے فائدہ پہنچتا ہے؟

اسرائیلیات اور سائنس

حدیث، تفسیر اور سیرت کی اسرائیلیات پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں (14) کہ یہ ایسے افسانے اور خرافات ہیں جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی، مگر یہ کتابیں قرآن کی اسرائیلیات کو نظر انداز کردیتی ہیں، کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ نوح (علیہ السلام) 950 سال زندہ رہے؟ یا وہ ہدہد جو سلیمان (علیہ السلام) اور بلقیس کے درمیان وزیرِ خارجہ کا کام سر انجام دے رہا تھا معقول بات ہے؟ یا یونس (علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آنا معقولیات میں سے ہے؟ یا اہلِ کہف جو سو سال تک مردہ پڑے رہے پھر زندہ ہوگئے عین عقل ہے؟ یہ اور ایسی تمام خرافات ایمانیات کے زمرے میں تو آسکتی ہیں مگر عقلیات میں ہرگز نہیں، ہر شخص جس چیز پر چاہے یقین رکھنے اور ایمان لانے میں آزاد ہے مگر وہ خرافات کو عقل کے مطابق یا عقل کو خرافات کے مطابق کرنے میں آزاد نہیں ہے، جیسا کہ قرآن سے سائنس نکالنے والے جعلی سائنسدان جو عربی زبان اور اس کے معنوں کا گلا گھونٹ کر قرآن سے سائنس برآمد کر لیتے ہیں، مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ آیت (والشمس تجری لمستقر لہا) میں سائنس ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں (یا انہیں معلوم ہی نہیں) کہ اصل تلمود میں ہے (15) تو کیا تلمود میں بھی سائنس ہے؟

اسی طرح یہ جعلی سائنسدان آسمان سے لوہا اتارنے والی آیت ” وانزلنا الحدید ” (اور ہم نے لوہا اتارا) کو سائنس قرار دیتے ہیں تو کیا قرآن کا یہ کہنا کہ ” وانزلنا من الانعام ثمانیہ ازواج ” (اور ہم نے جانوروں میں سے آٹھ جوڑے اتارے) کا مطلب ہے کہ گائے بھینسیں بھی آسمان سے اتاری گئیں تھیں؟ جبکہ علمی طور پر لوہا آسمان سے نہیں اترا وہ بھی اس صورت میں کہ اگر ہم مان لیں کہ زمین کی تخلیق کی بات کرتے ہوئے لفظ ” نزول ” یا ” سماء ” کا استعمال درست ہے!؟

غور کریں کہ کس طرح خرافات کو علمی ثبوتوں میں بدل دیا جاتا ہے اور ان کی ترویج کے لیے پورے پورے ادارے کروڑوں کے بجٹ کے ساتھ کھڑے کردیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں میں جہالت تقسیم کی جاسکے جبکہ قوموں کو ایسی خرافات کی بجائے حقیقی علمی تحقیقی اداروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ترقی کی سیڑھی پر اپنا پہلا قدم رکھ سکیں، ایسے لوگوں کی ایک طرف شہرت اور پیسے کی ہوس اور دوسری طرف طبیعات اور ما بعد الطبیعات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش سمجھ میں آتی ہے…جہاں علم اپنا لوہا منوا چکا ہو وہاں ایمان کی تقویت کے لیے مقدس متون میں علمی دلائل کی تلاش از حد ضروری ہوجاتی ہے چاہے اس کے لیے جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے.

__________________________________

حوالہ جات:

1- المصادر الاصلیہ للقرآن The Original Sources of the Qur’an
2- اثر الکتابات البابلیہ فی المدونات التوراتیہ – سہیل قاشا، بیسان للنشر والتوزیع والاعلام، بیروت 1998، صفحہ 8
3- اثر الکتابات البابلیہ فی المدونات التوراتیہ – سہیل قاشا، بیسان للنشر والتوزیع والاعلام، بیروت 1998، صفحہ 28
4- التوراہ کتاب مقدس ام جمع من الاساطیر، لیو ٹاکسل، ترجمہ حسان میخائیل اسحاق، صفحہ 176، اصل کتاب فرانسیسی میں ہے: La Bible Amusante, éd Librairie pour tous, 1897
5- کشف الکتاب المقدس، صفحہ 84، اصل کتاب فرانسیسی میں ہے: Israel Finkelstein et Neil Asher Silberman, La Bible dévoilée
6- قدماء المصریین اول الموحدین، ندیم السیار، 1995، صفحہ 42
7- الشخصیہ المحمدیہ او حل اللغز المقدس، معروف الرصافی، دار الجمل، جرمنی، 2002، صفحہ 654
8- التلمود کتاب الیہود المقدس، تاریخہ وتعالیمہ ومقتطفات من نصوصہ، دار قتیبہ، دمشق، 2006
9- التلمود کتاب الیہود المقدس، تاریخہ وتعالیمہ ومقتطفات من نصوصہ، دار قتیبہ، دمشق، 2006 صفحہ 27
10- الزمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، تحقیق عادل احمد عبد الموجود وعلی محمد معوض، مکتبہ العبیکان، الریاض، 1988، جلد 4، صفحہ 440
11- تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، تحقیق نخبہ من الاساتذہ، مؤسسہ قرطبہ للطبع والنشر والتوزیع، مصر، 2000، جلد 10، صفحہ 397
12- الحمیدی، الجمع بین الصحیحین، تحقیق علی حسین البواب، دار ابن حزم، لبنان، 2002، جلد 2، صفحہ 97
13- کتاب المنمق، البغدادی، تحقیق خورشید احمد فاروق، دائرہ المعارف، 1964، صفحہ 194
14- مثلاً دیکھیے: الاسرائیلیات فی التفسیر والحدیث، محمد حسین الذھبی، مکتبہ وہبہ، 1990 – اور دیکھیے: الاسرائیلیات واثرھا فی کتب التفسیر، رمزی نعناعہ، دار القلم ودار الضیاء 1970 ودیگر…
15- التلمود البابلی، سنہدرین، صفحہ 91

جواب دیں

0 Comments
scroll to top