Close

للکارِ خداوندی

جراتِ تحقیق کے ایک محترم قاری ابن خیام صاحب نے ایک تحریر کے جواب میں تبصرہ فرمایا کہ جو کافی مدلل نظر آتا ہے اور اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال اور موضوع ہے، چنانچہ انکی اجازت سے ہم اسکو ایک الگ عنوان سے یہاں شائع کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ سکے اور اگر تاریخ، تفاسیر و احادیث اور عقل و منطق کی روشنی میں انکا جائزہ لیا جائے تو کیا کچھ سامنے آتا ہے۔
ابن خیام صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم انکی تحریر آپکی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
———————————————————————-
عرب کے فصیح و بلیغ شاعروں کو اللہ اور پیغمبرِ اسلام کا چیلنج:

پیغمبرِ اسلام کے فرسودہ صحرائی پیغام کو جہاں عام لوگوں نے رد کیا تھا وہاں وادیء مکہ کے شاعر بھی پیچھے نہیں تھے، صد افسوس کہ ان شاعروں کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریک نے ان کی شاعری بھی ضائع کردی. آج ہم قرآن سے اس شاعرانہ مقابلے کا یک طرفہ احوال دیکھیں گے کہ جب پیغمبرِ اسلام کی من گھڑت آیات کو شاعروں نے ٹھکرا دیا تو پیغمبر کے اللہ نے انہیں قرآن کے جیسی ایک سورت بنا کے پیش کرنے کو کہا.

قرآن 2:23 “اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتارا،تو اس جیسی ایک سورہ تو لے آؤ. ‏اور اللہ کے سوا اپنے سب جماعتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو”‏

شاعروں نے چیلنج قبول کیا اور ایک سورت بنا لائے.. رسول کا اللہ کچھ پریشان سا ہوا اور پھر ایک اور چیلنج دے دیا:

قرآن 10:38‎ ‎‏ “کیا یہ کہتے ہیں کے انہوں نے خود اسے بنا لیا ہے، تم فرماؤ تو اس جیسی ایک سورہ لے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر جو مل سکیں سب کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو

عرب کے بلیغ شعراء نے یہ چیلنج بھی مان لیا اور سورت بنا کر لے آئے، اب تو اللہ اور اس کے رسول کے پسینے نکل آئے کیونکہ شاعر انہیں مات دے چکے تھے، اب اللہ نے ڈیمانڈ کو کچھ طول دیا اور شاعروں پر دس (10) سورتیں بنانے کا بڑا چیلنج رکھا:

قرآن 11:13 ” کیا یہ کہتے ہیں کے انہوں نے اس جیسا بنا لیا، تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس (10) سورہ لے آؤ،اور اللہ کے سوا جو مل سکیں سب کو بلا لو اگر تم سچے ہو

شاعر تو شاعر تھے فوراً دس سورتیں بنا لائے اور دعویٰ کیا کہ آپ کے سب چیلنج پورے ہوئے چنانچہ آپ ہار گئے ہیں، اللہ کو ہوٹنگ اور اس کھلی شکست پر ہمیشہ کی طرح شدید غصہ آیا اور بات گالیاں دینے کی سطح تک پہنچ گئی:

قرآن 22:51 “اور وہ جو کوشش کرتے ہیں ہماری آیتوں میں ہار جیت کے ارادہ سے وہ جہنمی ہیں”.

شاعروں نے کہا کہ چیلنج آپ نے دیا تھا اب ہار گئے ہو تو گالیاں دیتے ہو؟ چنانچہ (خیالی) اللہ اور اسکے پیغمبر نے آخری چیلنج دیا:

قرآن 28:49 ″تم فرماؤ تو اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت کی ہو میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم سچے ہو.”

یعنی شاعروں کی ہر بار کی کامیابی سے تنگ آکر اللہ نے شاعروں سے پوری کتاب ہی مانگ لی، شاعروں نے یہ چیلنج قبول کیا تو اللہ کے ناک تک پانی آگیا، اسے پتہ تھا کے عرب کے یہ بلیغ شعراء کچھ بھی کر سکتے ہیں، اللہ اور اسکا پیغمبر یہ چیلنج دے کر فلم نائک کے امریش پوری کی طرح پھنس گئے.. شاعروں نے پیغمبرِ اسلام کو سارے چیلنج یاد دلائے اور خوب مذاق اڑایا، اپنے رسول کو بے بس و لاچار دیکھ کر اللہ کی قھر آلود آنکھیں سرخ ہوگئیں اور ارشاد ہوا:

قرآن 5;34 ” اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ان کے لیئے سخت عذاب دردناک میں سے عذاب ہے”.

قارئین! اس آیت سے ان شاعروں کا کوئی سماجی جرم بھی ثابت نہیں ہوتا، محض رسول اور نام نہاد اللہ کی آیات کو منطقی اور استدالی طریقی سے غلط ثابت کرنے پر ان کے لئے اتنا دردناک عذاب!؟ اللہ و رسول کی لاچاری و بے بسی کا عالم تو دیکھیے:

قرآن 10:41″ اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو فرمادو کہ میری کرنی میرے لیئے اور تمہارے لیئے تمہاری کرنی تمہیں میرے کام سے علاقہ نہیں اور مجھے تمہارے کام سے تعلق نہیں”.

تو پھر اس تیغ کا استعمال کس لیے؟ ان شاعروں میں کعب بن اشرف بھی تھا جسے اسلام کے غلبے کے بعد رسول کے کہنے پر محمد بن اسلمہ نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اس کے گھر میں دھوکے اور دولاب سے قتل کردیا اور اس قتل پہ اللہ کا رسول اس قدر خوش ہوا جتنا حضرت عائشہ کے ساتھ شادی پر ہوا تھا. (بخاری: کتاب غزوات).

نوٹ! جس جس نے رسول کا مزاق اڑایا تھا اسے بعد از غلبے یا تو قتل کیا گیا یا پھر اسے پاؤں چاٹنے پر مجبور کیا گیا.
کیا یہ وہی رسول اللہ ہے جس کی حمد وثناء کرتے مسلمان تھکتے نہیں.؟

تمت بالخیر. ابن خیام

جواب دیں

0 Comments
scroll to top